• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرمات : حرام امور جن سے بچنا ضروری ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حواشی
١) صحیح مسلم' کتاب البر والصلة والآداب' باب تحریم الغیبة۔
٢) سنن الترمذی' کتاب البر والصلة عن رسول اللہۖ' باب ما جاء فی الذب عن عرض المسلم۔
٣) السلسلة الصحیحة للالبانی : ١٨٧١۔
٤) صحیح البخاری' کتاب الادب' باب ما یکرہ من النمیمة۔
٥) صحیح البخاری' کتاب الوضوء' باب من الکبائر ان لا یستتر من بولہ۔
٦) صحیح مسلم' کتاب الآداب' باب تحریم النظر فی بیت غیرہ۔
٧) صحیح البخاری' کتاب الاستئذان' باب اذا کانوا اکثر من ثلاثة فلا بأس بالمسارة والمناجاة۔
٨) صحیح مسلم' کتاب الایمان' باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار والمن بالعطیة۔
٩) سنن النسائی' کتاب الزینة' باب ما تحت الکعبین من الازار۔
١٠) صحیح البخاری' کتاب المناقب' باب قول النبیۖ لو کنت متخذا خلیلا۔
١١) سنن النسائی' کتاب الزینة' باب تحریم الذھب علی الرجال۔
١٢) صحیح مسلم' کتاب اللباس والزینة ' باب تحریم خاتم الذھب علی الرجال۔
١٣) صحیح البخاری' کتاب اللباس' باب المتشبھون بالنساء والمتشبھات بالرجال۔
١٤) مسند احمد۔
١٥) صحیح البخاری' کتاب الوضوء' باب من الکبائر ان لا یستتر من بولہ۔
١٦) سنن ابن ماجہ' کتاب الطھارة و سننھا' باب التشدید فی البول۔
١٧) صحیح البخاری' کتاب التعبیر' باب من کذب فی حلمہ۔
١٨) صحیح البخاری' کتاب الادب' باب اثم من لا یأمن جارہ بوایقہ۔
١٩) سنن الدارمی' کتاب الدیات' باب التشدید علی من قتل نفسہ۔
٢٠) صحیح مسلم' کتاب اللباس والزینة' باب النھی عن ضرب الحیوان فی وجھہ ووسمہ فیہ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٦١) موسیقی اور آلاتِ موسیقی کا سننا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ )(لقمٰن:٦)
''اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو کھیل تماشے کی باتیں خریدتے ہیں تاکہ (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے بغیر علم کے گمراہ کر دیں''۔
حضرت عبداللہ بن مسعود اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
الغناء واللّٰہ الذی لا الہ الّا ھو' یرددھا ثلاث مرات (١)
''اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں! اس سے مراد '' گانا'' ہے۔ آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا''۔
حضرت عبداللہ بن عباس' حضرت جابر' حضرت عکرمہ' حضرت سعید بن جبیر' حضرت مجاہد وغیرہم جیسے کبار تابعین نے بھی اس آیت مبارکہ کی یہی تفسیر کی ہے۔ جس طرح ''غنا'' یعنی گانے کو حرام کیا گیا ہے۔ اسی طرح آلاتِ موسیقی کی حرمت کے دلائل بھی احادیث میں کثرت سے ملتے ہیں۔ حضرت ابوعامر یا ابومالک الاشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا:
((لَیَکُوْنَنَّ مِنْ اُمَّتِیْ اَقْوَام یَسْتَحِلُّوْنَ الْحِرَ وَالْحَرِیْرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ)) (٢)
''میری اُمت میں ایسے لوگ بھی لازماً آئیں گے جو زنا' ریشم'شراب اور آلاتِ موسیقی کو حلال قرار دیں گے۔''
شادی بیاہ اور عید کے موقع پر اللہ کے رسولۖ نے بچیوں کو دف بجانے کی اجازت دی۔ اس لیے علماء نے دف کو جائز قرار دیا ہے ۔ شادی بیاہ کے موقع پر گھر کی بچیاں اگر دلہا یادلہن کی تعریف میں کوئی گیت گا لیں تو اس کی اجازت ہے' بشرطیکہ اس کے مواد میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو شرعی تعلیمات کے منافی ہو۔ دف کی بجائے دیگر آلاتِ موسیقی مثلاً بانسری' گٹار' پیانو' ڈھول اور بینڈ باجے وغیرہ ممنوع اور حرام ہیں۔ ان آلاتِ موسیقی اور گانے بجانے کا کسی معاشرے میں عام ہو جانا اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((فِیْ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ خَسْف وَمَسْخ وَقَذْف)) فَقَالَ رَجُل مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَتٰی ذَاکَ؟ قَالَ : ((اِذَا ظَھَرَتِ الْقَیْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ )) (٣)
''اس اُمت میں زمین میں دھنسائے جانے' چہروں کو مسخ کرنے اور آسمانوں سے پتھروں کی بارش کا عذاب ہو گا۔'' مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسولۖ !یہ کب ہو گا؟ آپۖ نے فرمایا :''جب گانے بجانے والیاں اور آلاتِ موسیقی عام ہو جائیں گے اور شرابیں پی جائیں گی''۔
بعض مسلم سکالرز نے ان صریح روایات کی تأویل کرتے ہوئے موسیقی کو جائز قرار دیاہے۔ ان میں ایک تو عالمِ عرب کے معروف عالم دین ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور دوسرے پاکستان میں روشن خیال اسلام کے علمبردار جناب جاوید احمد غامدی ہیں۔ مقدم الذکر کے موقف کامدلل اور پُرزور جواب عالمِ عرب ہی کے مایۂ ناز محدث علامہ ناصر الدین البانی مرحوم نے اپنی کتاب ''آلات الطرب'' میں دیا ہے' جبکہ مؤخر الذکر کا جواب مولانا مبشر احمد لاہوری صاحب نے اپنی کتاب ''موسیقی حرام نہیں؟'' میں دیا ہے۔ علاوہ ازیں شیخ الحدیث ارشادالحق اثری صاحب نے بھی غامدی صاحب کے موسیقی کے بارے میں موقف کا ہفت روزہ ''الاعتصام'' میں بھرپور علمی اور تحقیقی انداز میں تعاقب کیا جو کہ اب کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٦٢) عورتوں کا تنگ اور باریک لباس پہننا
عصر حاضر کے فتنوں میں ایک بڑا فتنہ حیا باختہ عورتوں کا بھی ہے کہ جن کا لباس مغربی عورت کی تقلید میں دن بدن گھٹتا ہی جا رہا ہے۔ شروع میں برقع اترا' پھر دوپٹا بھی گیا اور چہرے کے ساتھ ساتھ سر اور گردن بھی ننگی ہوئی۔ بڑے گلوں کا رواج آیا تو سینے کا ایک حصہ بھی نمایاں ہو کر سامنے آگیا۔ آئے دن عورتوں کی قمیصیں چھوٹی سے چھوٹی اور تنگ سے تنگ ہوتی جا رہی ہیں' جس کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے کہ عورت نے اپنے جسم کے جن اعضاء کو معاشرتی قدغنوں کی وجہ سے چھپایا ہوا ہے وہ بھی کسی طرح تنگ اور باریک کپڑے پہننے سے نمایاں ہو کر سامنے آ جائیں۔ اللہ کے رسولۖ نے ایسی عورتوں کو جہنم کی بشارت دی ہے جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں' یعنی یا تو اتنا باریک لباس پہنتی ہیں کہ سارا جسم اس میں سے نظر آ رہا ہوتا ہے' جیسے کہ ایسی عورتوں کے گرمیوں میں لان وغیرہ کے کپڑے ہوتے ہیں 'یا پھر اتنا تنگ لباس پہنتی ہیں کہ جسم کے نشیب و فراز واضح ہو رہے ہوتے ہیں۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((صِنْفَانِ مِنْ اَھْلِ النَّارِ لَمْ اَرَھُمَا : قَوْم مَعَھُمْ سِیَاط کَاَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِھَا النَّاسَ وَنِسَاء کَاسِیَات عَارِیَات مُمِیْلَات مَائِلَات رُووْسُھُنَّ کَاَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لَا یَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا یَجِدْنَ رِیْحَھَا وَاِنَّ رِیْحَھَا لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَةِ کَذَا وَکَذَا)) (٤)
''دو گروہ ایسے ہیں جو اہل جہنم میں سے ہیں' لیکن میں نے ان کو نہیں دیکھا (یعنی میری وفات کے بعد آئیں گے) : ایک تووہ لوگ ہوں گے جن کے پاس گائے کی دُموں جیسے کوڑے ہوں گے جن کے ساتھ یہ لوگوں کو ماریں گے اور دوسری وہ عورتیں ہوں گی جو کپڑے پہن کر بھی ننگی ہوں گی (یعنی یا تو باریک لباس پہنا ہو گا جس کی وجہ سے جسم نظر آ رہا ہو گا یا پھر ایسا لباس پہنا ہو گا کہ جس نے اُن کے جسم کا کچھ حصہ ڈھانپا ہو گا اور کچھ حصہ ننگا ہو گا) 'مَردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود مَردوں کی طرف مائل ہونے والی ہوں گی۔ اُن کے سر ایسے ہوں گے جیسے کہ خراسانی نسل کے اونٹ کے کوہان ہوں ( سر کے بالوں کے نت نئے فیشن اور سٹائلز کی طرف اشارہ ہے)۔یہ عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبوپا سکیں گی' حالانکہ جنت کی خوشبو اتنے اتنے فاصلے سے محسوس ہو گی''۔
''مَائِلَات مُمِیْلَات'' کی شرح میں بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو کہ خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلتی ہیں اور اپنے کندھوں یا جسم کو مٹکا مٹکا کر چلتی ہیں تاکہ مَردوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٦٣) کسی دوسرے کے بال لے کر اپنے بالوں میں ملانا
جس طرح عورتوں کے لیے اپنے بالوں کو جڑ سے مونڈنا حرام ہے اسی طرح ان کے لیے اپنے بالوں میں اضافہ کرنا بھی حرام ہے۔ اب عورتوں کے علاوہ مرد بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ اللہ کے رسولۖ نے ایسے افراد پر لعنت فرمائی ہے جو کہ کسی دوسرے کے بال مستعار لے کر اپنے سرپر لگائیں' چاہے یہ کسی ضرورت کے تحت ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ انصار میں سے ایک لڑکی کی شادی ہوئی۔ بیماری کی وجہ سے اس کے سر کے بال جھڑ گئے تھے' تو اس کے گھر والوں نے چاہا کہ کسی طرح اس کے سر پر کسی اور کے بال لگا دیں۔ انہوں نے اس بارے میں رسول اللہۖ سے مسئلہ دریافت کیا تو آپۖ نے فرمایا:
((لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ)) (٥)
''اللہ تعالیٰ بال لگانے والی اور لگوانے والی پر لعنت فرمائے''۔
اگر کسی کے سر پر بال نہیں ہیں تو بال اُگانے کے لیے تو کسی علاج کی گنجائش نکلتی ہے' لیکن مصنوعی بالوں کے ذریعے اس عیب کو دُور کرنا اس حدیث کی رو سے کسی بھی طرح جائز نظر نہیں آتا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٦٤) جاندار اشیاء کی تصویر بنانا
شریعت نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے ان میں سے ایک جاندار اشیاء کی تصویربھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے نبیۖ کو فرماتے ہوئے سنا:
((اِنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ الْمُصَوِّرُوْنَ)) (٦)
''بے شک قیامت کے دن لوگوں میں سے سخت ترین عذاب تصویریں بنانے والوں کو دیا جائے گا۔''
اللہ کے رسولۖ کے اس فرمان کو دیکھیں اور اپنے تعلیمی نظام پر ذرا غور کریں جہاں بچوں کو نرسری اور پریپ سے ہی ڈرائنگ کے نام پر تصاویر بنانا سکھایا جاتا ہے۔ یہ ایک بالکل غیر اسلامی اور غیر شرعی فعل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں یہ تصویریں بناتا ہوں' آپ مجھے اس کے بارے میں فتویٰ دیں' تو حضرت عبداللہ بن عباس نے اسے کہا میرے قریب ہو جاو۔ وہ آپ کے قریب ہو گیا' آپ نے فرمایا اور قریب ہو جاو تو وہ اور زیادہ قریب ہو گیا' تو حضرت عبداللہ بن عباس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ میں نے رسول اللہۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
((کُلُّ مُصَوِّرٍ فِی النَّارِ)) (٧)
''ہر تصویر بنانے والے کو جہنم میں ڈالا جائے گا۔''
ایک اور روایت میں الفاظ ہیں کہ رسول اللہۖ نے فرمایا:
((کُلُّ مُصَوِّرٍ فِی النَّارِ یُجْعَلُ لَہ بِکُلِّ صُوْرَةٍ صَوَّرَھَا نَفْس تُعَذِّبُہُ فِیْ جَھَنَّمَ)) فَاِنْ کُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَاجْعَلِ الشَّجَرَ وَمَا لَا نَفْسَ لَہ (٨)
''ہر تصویر بنانے والا جہنم میں جائے گا' اس کی ہر تصویر کے بدلے میں جو اس نے بنائی ہو گی' ایک جان پیدا کی جائے گی جو اس کو جہنم میں عذاب دے گی''۔ (پھر حضرت عبداللہ بن عباس نے اس شخص سے فرمایا) اگر تم نے لازماً تصویریں بنانی ہی ہیں تو درخت اور ایسی چیزوں کی تصویر بناو جن میں روح نہ ہو''۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بے جان چیزوں مثلاً درخت' پتھر وغیرہ کی تصویریں بناناجائز ہے۔ بعض روایات میں تصویر سازی کو شرک کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے' وہ رسول اللہۖسے نقل کرتے ہیں کہ آپۖ نے فرمایا:
((وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذَھَبَ یَخْلُقُ کَخَلْقِیْ فَلْیَخْلُقُوْا حَبَّةً وَلْیَخْلُقُوْا ذَرَّةً))(٩)
''اور اس سے بڑا ظالم کون ہو گا جو کہ میری مخلوق جیسی مخلوق بنانے کی کوشش کرتا ہے؟ پس انہیں چاہیے کہ وہ ایک دانہ یا ایک ذرہ تو پیدا کر کے دکھائیں!''
بعض علمائے عرب نے اس جیسی روایات کی وجہ سے کیمرے کی تصویر کو جائز قرار دیا ہے۔ اُن کے نزدیک ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر تو انسان کی ذہنی تخلیق ہے' لیکن کیمرے کی بنائی ہوئی تصویر تو اللہ ہی کی تخلیق کا ایک عکس ہے جو ایک مشین کے ذریعے کاغذ پر اتار لیا گیا ہو۔ لیکن برصغیر پاک و ہند کے علماء ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر کے ساتھ ساتھ کیمرے کی تصویر کو بھی ناجائز قرار دیتے ہیں' سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری ہو' مثلاً شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنوانے کے لیے تصویر بنوانا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کیمرے کی تصویر کو انسانی تخلیق نہیں کہا جا سکتا' لیکن فی زمانہ یہ تصویر عریانی اور فحاشی کا ایک بہت بڑا ذریعہ اور سبب ہے' اس لیے اگر اسے شرعاً حرام نہ بھی قرار دیا جائے تو پھر بھی یہ سدًّا لِلذّریعة ضرور حرام ہو گی۔ رسول اللہۖکا ارشاد ہے:
((لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَةُ بَیْتًا فِیْہِ کَلْب وَلَا صُوْرَة)) (١٠)
''فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی کتا یا تصویر ہو''۔
مغرب سے درآمد شدہ فتنوں میں سے ایک فتنہ یہ بھی ہے کہ گھریلو استعمال کی اشیاء' عورتوں کے میک اپ کا سامان' بچوں کے گارمنٹس' اخبارات' رسائل اور کتب وغیرہ کو تصاویر سے مزین کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں کوشش یہی کرنی چاہیے کہ ایسی تصاویر کو مقامِ عزت پر نہ رکھا جائے' اور نہ ہی یہ دورانِ نماز نمازی کے سامنے ہوں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٦٥) قبر پر بیٹھنا
اللہ کے رسولۖ نے اپنے فرامین مبارکہ میں قبر پر بیٹھنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ آپۖ کا ارشاد ہے:
((لَاَنْ یَّجْلِسَ اَحَدُکُمْ عَلٰی جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِیَابَہ فَتَخْلُصَ اِلٰی جِلْدِہ خَیْر لَّہ مِنْ اَنْ یَّجْلِسَ عَلٰی قَبْرٍ)) (١١)
''تم میں سے کوئی کسی آگ کے انگارے پر بیٹھے تووہ اس کے کپڑوں کو جلا دے اور اس کی جلد تک پہنچ جائے' یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے''۔
امام نووی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
وفی ھذا الحدیث کراھة تجصیص القبر والبناء علیہ وتحریم القعود والمراد بالقعود الجلوس علیہ۔ ھذا مذھب الشافعی وجمھور العلماء(١٢)
''یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قبروں کو پختہ کرنا اور ان پر عمارت تعمیر کرنا مکروہ ہے اور قبروں پر بیٹھنا حرام ہے۔ یہ امام شافعی' کا موقف ہے اور جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٦٦) نوحہ کرنا
اسلامی معاشروں میں مروّج منکرات میں سے ایک منکر کسی رشتہ دار کی وفات پر چیخ و پکار کرنا' میت کو دہائیاں دینا' چہرے اور سینے کو پیٹنا اور گریبان پھاڑنا بھی ہے۔ عام طور پر عورتیں زیادہ بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان افعالِ قبیحہ کی مرتکب ہوتی ہیں۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُوْدَ وَشَقَّ الْجُیُوْبَ وَدَعَا بِدَعْوَی الْجَاھِلِیَّةِ))(١٣)
''اس شخص کا ہم (یعنی ہمارے دین) سے کوئی تعلق نہیں جس نے اپنے رخساروں کو پیٹا' گریبان کو پھاڑا اور دورِ جاہلیت جیسا واویلا کیا''۔
بعض روایات میں ہے کہ اللہ کے رسولۖ نے ایسی عورتو ں پر لعنت فرمائی ہے جو کسی قریبی عزیز کی وفات پر اپنا چہرہ نوچیں یا گریبان پھاڑیں۔ آپۖ کا ارشاد ہے:
((لَعَنَ الْخَامِشَةَ وَجْھَھَا وَالشَّاقَّةَ جَیْبَھَا)) (١٤)
''اللہ تعالیٰ اس عورت پر لعنت کرے جو اپنا چہرہ نوچتی ہے اور اپنا گریبان پھاڑتی ہے!''
اسی طر ح آپۖ کا ارشاد ہے:
((اَلنَّائِحَةُ اِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِھَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَعَلَیْھَا سِرْبَال مِّنْ قَطِرَانٍ وَدِرْع مِنْ جَرَبٍ)) (١٥)
''نوحہ کرنے والی اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرے گی تو قیامت کے دن اس کو کھڑاکیا جائے گا اور اس کو گندھک کے تیزاب کا کُرتہ اور خارش کی چادر پہنائی جائے گی۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٦٧) مسلمان بھائی کو تین دن سے زیادہ بلاکسی شرعی سبب کے چھوڑ دینا
اپنے کسی مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراضگی اختیار کرنا اور قطع کلامی کرنا حرام ہے۔ رسول اللہۖ کا فرمان ہے:
((لَا یَحِلُّ لِرَجُلٍ اَنْ یَّھْجُرَ اَخَاہُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَیَالٍ یَلْتَقِیَانِ فَیُعْرِضُ ھٰذَا وَ یُعْرِضُ ھٰذَا وَخَیْرُھُمَا الَّذِیْ یَبْدَأُ بِالسَّلَامِ)) (١٦)
''کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو تین راتوں (یعنی تین ایام) سے زیادہ چھوڑے رکھے' اس حال میں کہ جب وہ دونوں آپس میں ملیں تو ہر ایک دوسرے سے اعراض کرے' اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے''۔
کسی مسلمان بھائی سے وقتی ناراضگی تو کیا آج ہم میں سے اکثر و بیشتر کی حالت یہ ہے کہ اپنے حقیقی بھائیوں سے سالہا سال تک ناراضگیاں چلتی رہتی ہیں۔ یہ باہمی رنجشیں اور کدورتیں انسان کی دنیا تو خراب کرتی ہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ انسان کی آخرت بھی تباہ کر دیتی ہیں۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((تُعْرَضُ اَعْمَالُ النَّاسِ کُلُّ جُمُعَةٍ مَرَّتَیْنِ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَیَوْمَ الْخَمِیْسِ فَیُغْفَرُ لِکُلِّ عَبْدٍ مُّؤْمِنٍ اِلاَّ عَبْدًا کَانَتْ بَیْنَہ وَبَیْنَ اَخِیْہِ شَحْنَاء فَیُقَالُ اتْرُکُوْا ھٰذَیْنِ حَتّٰی یَفِیْئَا)) (١٧)
''ہر ہفتے لوگوں کے اعمال دوبار' سوموار اور جمعرات 'اللہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں 'پس ہر بندہ مؤمن کی مغفرت کی جاتی ہے سوائے اس بندہ مؤمن کے کہ جس کے اور اس کے بھائی کے درمیان کوئی کینہ اور عداوت ہو۔ پس (فرشتوں سے) کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو (ان کے حال پر ) چھوڑے رکھو یہاں تک کہ وہ لوٹ آئیں ( یعنی آپس میں راضی ہو جائیں)''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٦٨) نرد کھیلنا
نرد' چوسر سے ملتا جلتا ایک کھیل ہے جو کہ رسول اللہۖ کے زمانے میں ایرانیوں میں بہت معروف تھا۔ رسول اللہۖ کی احادیث میں اس کے کھیلنے کی بھی ممانعت آئی ہے۔ آپۖ کا فرمان ہے:
((مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَ شِیْرِ فَکَاَنَّمَا صَبَغَ یَدَہ فِیْ لَحْمِ خِنْزِیْرٍ وَدَمِہ)) (١٨)
''جس نے نردشیر کھیلا اس نے گویا اپنے ہاتھ کو خنزیر کے گوشت اور خون میں رنگ لیا۔''
اسی حدیث کی بنیاد پر جمہور علماء نے ''نرد'' کو حرام قرار دیا ہے۔ شطرنج بھی اسی قسم کا ایک کھیل ہے' لیکن اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
واما الشطرنج فمذھبنا انہ مکروہ لیس بحرام وھو مروی عن جماعة من التابعین وقال مالک و احمد : حرام' قال مالک : ھوشر من النرد و الھی عن الخیر وقاسوہ علی النرد(١٩)
''جہاں تک شطرنج کا معاملہ ہے تو ہمارا (یعنی شوافع) کا مذہب یہ ہے کہ شطرنج کھیلنا حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے' اور تابعین کی ایک جماعت کا بھی یہی موقف ہے' جبکہ امام مالک اور امام احمدرحمہما اللہ کا کہنا ہے کہ شطرنج کھیلنا حرام ہے ۔ امام مالک نے یہ بھی کہا ہے کہ شطرنج تو نرد سے بھی زیادہ برا کھیل ہے اور نیکی کے کاموں سے غافل کرنے والا ہے۔ ان ائمہ نے شطرنج کو نرد پر قیاس کیا ہے''۔
اس حدیث کی رو سے ہر ایسا کھیل کہ جس میں نہ دین کا فائدہ ہو نہ دنیا کا' مکروہ اور حرام قرار پائے گا۔ بعض روایات میں اپنے بچوں کو تین قسم کے کھیل سکھلانے کی تاکید کی گئی ہے' ایک تیراکی ' دوسرا گھڑ سواری اور تیسرا تیر اندازی۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت میں ان چیزوں کا خاص خیال رکھیں۔ بعض کھیل تو ایسے ہیں کہ جن میں انسان کو آخرت کا نہ سہی دنیا کا کچھ نہ کچھ فائدہ ہو جاتا ہے' مثلاً اس کے جسم کی ورزش ہو جاتی ہے یا وہ اس کی صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ لیکن بعض کھیل جو کہ ہمارے ہاں بہت عام ہیں' مثلاً تاش' ویڈیو گیمز اور لُڈّو وغیرہ' ان کا کچھ فائدہ نہیں ہے سوائے وقت کے ضیاع کے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٦٩)کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا
اسلام ایک اسلامی معاشرے میں ہر کسی کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے اس لیے کسی بھی مسلمان کے لیے کسی دوسرے شخص کی ناحق جان لینا حرام ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ‌ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْ‌ضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ (المائدة :٣٢)
جس نے بھی کسی جان کو بغیر کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو اس نے گویا کہ پوری نوع انسانی کو قتل کیا۔
اس آیت مبارکہ میں ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری نوع انسانی کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ کسی جان کو قتل کرنے کی بعض صورتیں ایسی ہیں جو کہ حق ہیں یہ درج ذیل ہیں :
١) ۔ کسی جان کے بدلے کسی کو قتل کرنا یعنی قاتل کو مقتول کے بدلے قتل کیا جائے گا۔
٢)۔ شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کرے تو اس کو رجم کیا جائے گایعنی پتھر مار مار کر ہلاک کیا جائے گا۔
٣)۔ مرتد (اگر کوئی مسلمان اپنا دین چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کر لے تو اس) کو قتل کیا جائے گا۔
٤)۔ حربی ( جنگی ) کافر کو قتل کرنا جائز ہے ۔
ان چار صورتوں کے علاوہ کسی جان کو بھی قتل کرنا حرام ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم' اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کوجان بوجھ کر قتل کر دے تو قاتل کو دنیا میں قصاص کے قانون کے تحت قتل کیا جائے گا جس کی معروف صورت ہمارے ہاں پھانسی کی سزا ہے۔ جہاں تک کسی مسلمان کے قتل کی أخروی سزا کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہے :
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء :٩٣)
اور جو بھی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس کی سزا جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہو اور اس کی لعنت ہو اور اس کے اللہ تعالی نے ایک بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اللہ کے رسول ۖ نے کسی مسلمان کے ناحق قتل کو کفر قرار دیا ہے۔ اللہ کے رسول ۖکا ارشاد ہے :
سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر(٢٠)
کسی مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔
اگر کوئی شخص کسی مسلمان کوجان بوجھ کر قتل کرتا ہے تو اس پر تین حق ہیں :
١) ۔اللہ کا حق' کیونکہ اس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ہے اور اس کی سزا جہنم ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت سے واضح ہوتا ہے لیکن اگر یہ شخص صدق دل سے توبہ کر لے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالی اس کو معاف کر دے گا ۔
٢) ۔مقتول کے ورثاء کا حق' اگر قاتل سے قصاص لے لیا جائے تو مقتول کے ورثاء کا حق بھی ادا ہو جاتا ہے یا اگر مقتول کے ورثاء قاتل سے قصاص کے بدلے دیت لے لیں یا اسے معاف کر دیں تو بھی ان کا حق ادا ہو جاتا ہے ۔
٣) ۔مقتول کا حق' چونکہ مقتول سے معافی مانگنے یا اس کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت قاتل کے پاس نہیں ہے اس لیے قیامت کے دن قاتل کو لازما اس کا حق ادا کرنا پڑے گا۔ توبہ تائب ہونے سے اللہ اپنا حق تو معاف کر دے گا اسی طرح قصاص یا دیت یا ورثاء کے معاف کرنے سے ان کا حق اد اہو جائے گا لیکن مقتول کا حق اس وقت ادا ہو گا جب وہ خود معاف کرے۔ اللہ کے رسول ۖ کا ارشاد ہے :
یجیء المقتول بالقاتل یوم القیامة ناصیتہ و رأسہ فی یدہ و أوداجہ تشخب دما یارب قتلنی حتی یدنیہ من العرش(٢١)
مقتول 'قاتل کو قیامت کے دن اس طرح پکڑ کر لائے گا کہ اس کا سر اور اس کی پیشانی اس کے ہاتھ میں ہو گی اور اس (مقتول ) کی رگوں سے خون ابل رہا ہو گا اور وہ کہے گا اے میرے رب !اس نے مجھے قتل کیا' یہاں تک کہ وہ اس کو عرش کے قریب لے جائے گا۔
کسی مسلمان کو قتل کرنا تو دور کی بات اس کے قتل کے ارادے سے نکلنا یا اس کی طرف کسی ہتھیار سے اشارہ کرنا بھی حرام ہے۔ آپ ۖ کا ارشاد ہے :
اذا تواجہ المسلمان بسیفھما فالقاتل و المقتول فی النار فقلت أو قیل یا رسول اللہ ھذا القاتل فما بال المقتول قال انہ أراد قتل صاحبہ (٢٢)
جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں تو آپۖ سے سوال کیا گیا کہ قاتل کے جہنمی ہونے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مقتول کیوں جہنمی ہے؟ تو آپ ۖ نے ارشاد فرمایا ( وہ اس لیے جہنمی ہے کہ) اس نے بھی اپنے بھائی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں :
من أشار الی أخیہ بحدیدة فان الملائکة تلعنہ حتی یدعہ(٢٣)
جس نے اپنے بھائی کی طرف کسی ہتھیار سے اشارہ کیا تو فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اسکو چھوڑ نہ دے۔
ہاں اگر کسی مسلمان کا قتل خطأ ہو جائے جیسے ایکسیڈنٹ وغیرہ' تو اس صورت میں قصاص نہیں ہے بلکہ قتل خطا کی صورت میں قاتل کے ذمے دو حق ہیں:
ایک تو اللہ کا حق ہے اور وہ یہ کہ ایک مسلمان غلام کو آزاد کروانا یا اس کے برابر قیمت اللہ کے راہ میں خرچ کرنا۔
اور دوسرا مقتول کے ورثاء کا حق ہے اور وہ دیت (خون بہا)ہے۔
قتل خطا کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۚ (النساء:٩٢)
اور جو کوئی بھی کسی مؤمن کو خطا سے قتل کرے تو اس کے ذمے ایک مسلمان غلام کو آزاد کروانا ہے اور دیت ہے جو کہ مقتول کے ورثاء کو ادا کی جائے گی سوائے اس کے وہ اس کو معاف کر دیں ۔
قتل خطا کی صورت میں اگر مقتول کے ورثاء دین (یعنی خون بہا) معاف کر دیں تو وہ معاف ہو جاتا ہے لیکن اللہ کا حق ( یعنی ایک مسلمان غلام آزاد کرنایا اس کے برابر قیمت اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا) ہر صورت میں ادا کرنا پڑے گا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top