- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (البقرہ:۱۹۵)
"بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔"
إِنَّ اللّٰہَ مُحْسِنٌ یُحِبُّ الْاِحْسَانَ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوْا لِقَتْلَہٗ، وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الذِّبْحَ، وَلْیُحِدَّ اَحَدُکُمْ شَفْرَتَہٗ، ثُمَّ لِیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ۔ صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۸۲۰۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ احسان کرنے والا ہے اور احسان کو پسند کرتا ہے۔ پس جب تم قتل کرو تو اچھے انداز میں کرو، اور جب تم ذبح کرنے لگو تو اچھے انداز میں ذبح کرو، چھری کی دھار تیز کر لیا کرو، پھر اپنے ذبیحہ (جانور) کو راحت پہنچاؤ۔"
احسان:
یہ ایمان کا مغز، روح اور کمال ہے اور دین کے اعلیٰ مراتب اور اللہ کے نیک بندوں کے عظیم اخلاق میں سے ہے۔ نیز تمام اخلاق عالیہ اور صفات حسنہ کا جامع ہے۔
اصل بندگی فقط اللہ کے لیے ہے اور اس کا دار و مدار دو معاملات پر ہے۔
(۱) اللہ تعالیٰ کی قدرت کی تعظیم کرنا
(۲) اللہ تبارک و تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ قولی اور فعلی طور پر احسان کرنا۔
جبریل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے متعلق پوچھا، پھر ایمان کے متعلق پوچھا اور پھر احسان کے بارے میں سوال کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ
تو اللہ کی عبادت ایسے کر گویا کہ اللہ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہو سکے تو اتنا خیال رکھ کہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب سوال جبریل النبی عن الایمان والاسلام والاحسان، حدیث: ۵۰۔)
احسان اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور وہ مکمل طور پر احسان کرنے والا ہے۔ بندہ اس وقت محسن کہلائے گا جب وہ اللہ کی عبادت ایسے طریقہ پر کرے کہ گویا وہ اللہ کا مشاہدہ کر رہا ہے چنانچہ ثابت ہوا کہ احسان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ کمال حضوری کا نام اور اس مراقبہ کا نام ہے جو خشیت الٰہی اور اللہ کی محبت اور اس کی معرفت کا جامع ہو، نیز اس کی طرف جھکنے اور اس کے لیے خالص ہونے کو احسان کہتے ہیں۔
مراقبہ...: انسان کو ہمیشہ اور ہر وقت یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ میرا ظاہر اور باطن دیکھتا ہے اور ہر عمل اس کی نظر میں ہے اور وہ میری ہر بات سنتا ہے، میری ہر ہر سانس کا نگہبان ہے، میں اس کی نظروں سے ایک لمحہ بھی اوجھل نہیں ہو سکتا، تو یہ مراقبہ کہلاتا ہے۔
فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ: یعنی عبادت کرتے وقت اگر تیرے ذہن میں اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ نہیں آتا (یعنی تو محسن نہیں) تو کم از کم یہ خیال رکھ کہ وہ تیرا مشاہدہ کر رہا ہے (یعنی وہ محسن ہے)
محسنین...: ان کی صفات درج ذیل ہیں:
+...اللہ تعالیٰ کی عبادت اکمل طریقہ پر اخلاص کے ساتھ (اسی کی رضا کی خاطر) کرتے ہیں اور اس میں ریا کاری شامل نہیں ہوتی۔
+...اپنے رب کے ساتھ مراقبہ کرتے ہیں۔ مکمل خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔
+...اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بزرگی پر ہر دم نظر رکھتے ہیں۔
+...چنانچہ ان کے دل پر حق کا مشاہدہ غالب آ جاتا ہے اور وہ ایسے ہو جاتے ہیں گویا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کر رہے ہیں یا کم سے کم اتنا تو ضرور خیال رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔
احسان کے تحت اسلام اور ایمان بھی داخل ہیں۔ اس لیے جتنی صفات ان دونوں کی ہیں، محسنین کے اندر ان کا پایا جانا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ہر محسن، مسلم بھی ہے جو اسلام کے تمام ارکان کی گواہی دیتا ہے۔
اسلام کے ارکان...: کلمہ شہادت کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، استطاعت ہو تو حجِ بیت اللہ کرنا۔ ہر محسن، مومن بھی ہوتا ہے جو ایمان کے تمام لوازمات پر ایمان لاتا ہے۔
ایمان کے لوازمات...: اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن، جنت، جہنم، میزان، مر کر دوبارہ جی اٹھنے اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان لانا۔
مزید صفات...: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے اوامر کو بجا لاتے ہیں اور نواہی سے رک جاتے ہیں۔
+...جب فیصل (ثالث، مسئول) بنائے جاتے ہیں تو انصاف کرتے ہیں۔
+...بات کرتے وقت سچائی سے کام لیتے ہیں۔
مالی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے جتنے بھی ذرائع ہیں ان کو اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کو قوت پہنچانے والے تمام امور میں حصہ ڈالتے ہیں۔ اللہ کے متعلق یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہماری خرچ شدہ چیز کا ہمیں نعم البدل عطا کرے گا۔
+...اللہ کی اطاعت اور انفاق فی سبیل اللہ سے کوئی معاملہ ان کو مشغول نہیں کرتا۔ حالات کی سختی، نرمی و سہولت، صحت و مرض ان کو اطاعت الٰہی اور تقربات سے روک نہیں سکتی۔
+...غصہ پی جاتے ہیں یعنی جب کسی وجہ سے ان کو غصہ آتا ہے تو اس کو چھپا جاتے ہیں اور لوگوں کو اس شر سے محفوظ رکھ لیتے ہیں اور اس کے اجر کا مطالبہ اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں، نیز اس کے ساتھ ساتھ جن لوگوں نے ان پر ظلم کیا، ان کو معاف کر دیتے ہیں، حتیٰ کہ ان کی کسی سے بھی ناراضی نہیں رہتی۔
اللہ ربّ العالمین نے فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ (التوبۃ:۱۲۰)
"بے شک اللہ تعالیٰ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔"
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (البقرہ:۱۹۵)
"بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔"
إِنَّ اللّٰہَ مُحْسِنٌ یُحِبُّ الْاِحْسَانَ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوْا لِقَتْلَہٗ، وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الذِّبْحَ، وَلْیُحِدَّ اَحَدُکُمْ شَفْرَتَہٗ، ثُمَّ لِیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ۔ صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۸۲۰۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ احسان کرنے والا ہے اور احسان کو پسند کرتا ہے۔ پس جب تم قتل کرو تو اچھے انداز میں کرو، اور جب تم ذبح کرنے لگو تو اچھے انداز میں ذبح کرو، چھری کی دھار تیز کر لیا کرو، پھر اپنے ذبیحہ (جانور) کو راحت پہنچاؤ۔"
احسان:
یہ ایمان کا مغز، روح اور کمال ہے اور دین کے اعلیٰ مراتب اور اللہ کے نیک بندوں کے عظیم اخلاق میں سے ہے۔ نیز تمام اخلاق عالیہ اور صفات حسنہ کا جامع ہے۔
اصل بندگی فقط اللہ کے لیے ہے اور اس کا دار و مدار دو معاملات پر ہے۔
(۱) اللہ تعالیٰ کی قدرت کی تعظیم کرنا
(۲) اللہ تبارک و تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ قولی اور فعلی طور پر احسان کرنا۔
جبریل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے متعلق پوچھا، پھر ایمان کے متعلق پوچھا اور پھر احسان کے بارے میں سوال کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ
تو اللہ کی عبادت ایسے کر گویا کہ اللہ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہو سکے تو اتنا خیال رکھ کہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب سوال جبریل النبی عن الایمان والاسلام والاحسان، حدیث: ۵۰۔)
احسان اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور وہ مکمل طور پر احسان کرنے والا ہے۔ بندہ اس وقت محسن کہلائے گا جب وہ اللہ کی عبادت ایسے طریقہ پر کرے کہ گویا وہ اللہ کا مشاہدہ کر رہا ہے چنانچہ ثابت ہوا کہ احسان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ کمال حضوری کا نام اور اس مراقبہ کا نام ہے جو خشیت الٰہی اور اللہ کی محبت اور اس کی معرفت کا جامع ہو، نیز اس کی طرف جھکنے اور اس کے لیے خالص ہونے کو احسان کہتے ہیں۔
مراقبہ...: انسان کو ہمیشہ اور ہر وقت یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ میرا ظاہر اور باطن دیکھتا ہے اور ہر عمل اس کی نظر میں ہے اور وہ میری ہر بات سنتا ہے، میری ہر ہر سانس کا نگہبان ہے، میں اس کی نظروں سے ایک لمحہ بھی اوجھل نہیں ہو سکتا، تو یہ مراقبہ کہلاتا ہے۔
فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ: یعنی عبادت کرتے وقت اگر تیرے ذہن میں اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ نہیں آتا (یعنی تو محسن نہیں) تو کم از کم یہ خیال رکھ کہ وہ تیرا مشاہدہ کر رہا ہے (یعنی وہ محسن ہے)
محسنین...: ان کی صفات درج ذیل ہیں:
+...اللہ تعالیٰ کی عبادت اکمل طریقہ پر اخلاص کے ساتھ (اسی کی رضا کی خاطر) کرتے ہیں اور اس میں ریا کاری شامل نہیں ہوتی۔
+...اپنے رب کے ساتھ مراقبہ کرتے ہیں۔ مکمل خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔
+...اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بزرگی پر ہر دم نظر رکھتے ہیں۔
+...چنانچہ ان کے دل پر حق کا مشاہدہ غالب آ جاتا ہے اور وہ ایسے ہو جاتے ہیں گویا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کر رہے ہیں یا کم سے کم اتنا تو ضرور خیال رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔
احسان کے تحت اسلام اور ایمان بھی داخل ہیں۔ اس لیے جتنی صفات ان دونوں کی ہیں، محسنین کے اندر ان کا پایا جانا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ہر محسن، مسلم بھی ہے جو اسلام کے تمام ارکان کی گواہی دیتا ہے۔
اسلام کے ارکان...: کلمہ شہادت کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، استطاعت ہو تو حجِ بیت اللہ کرنا۔ ہر محسن، مومن بھی ہوتا ہے جو ایمان کے تمام لوازمات پر ایمان لاتا ہے۔
ایمان کے لوازمات...: اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن، جنت، جہنم، میزان، مر کر دوبارہ جی اٹھنے اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان لانا۔
مزید صفات...: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے اوامر کو بجا لاتے ہیں اور نواہی سے رک جاتے ہیں۔
+...جب فیصل (ثالث، مسئول) بنائے جاتے ہیں تو انصاف کرتے ہیں۔
+...بات کرتے وقت سچائی سے کام لیتے ہیں۔
مالی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے جتنے بھی ذرائع ہیں ان کو اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کو قوت پہنچانے والے تمام امور میں حصہ ڈالتے ہیں۔ اللہ کے متعلق یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہماری خرچ شدہ چیز کا ہمیں نعم البدل عطا کرے گا۔
+...اللہ کی اطاعت اور انفاق فی سبیل اللہ سے کوئی معاملہ ان کو مشغول نہیں کرتا۔ حالات کی سختی، نرمی و سہولت، صحت و مرض ان کو اطاعت الٰہی اور تقربات سے روک نہیں سکتی۔
+...غصہ پی جاتے ہیں یعنی جب کسی وجہ سے ان کو غصہ آتا ہے تو اس کو چھپا جاتے ہیں اور لوگوں کو اس شر سے محفوظ رکھ لیتے ہیں اور اس کے اجر کا مطالبہ اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں، نیز اس کے ساتھ ساتھ جن لوگوں نے ان پر ظلم کیا، ان کو معاف کر دیتے ہیں، حتیٰ کہ ان کی کسی سے بھی ناراضی نہیں رہتی۔
اللہ ربّ العالمین نے فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ (التوبۃ:۱۲۰)
"بے شک اللہ تعالیٰ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔"