لگتا ھے الیاسی بھائ آپ لوگ بے بس ھو گئے ھو آپ لوگ نبی صلی اللہ علئہ وسلم سے محبت نہی کرتے اسی لئے نبی صلی اللہ علئہ وسلم کی احادیث کا انکار کر رھے ھو اور یہی وجہ ھے کہ آپ لوگوں کو میمن صاحب کا جواب نہیں سمجھ آیا ابھی تک اور آپ لوگوں کو اپنے اعتراض کا منہ توڑ جواب ملنے سے آپ لوگ بے بس ھو گئے ھو آپ لوگوں کے اسرار پے میمن صاحب نے آپ کے اعتراض کا کتابی شکل میں جواب دیا اسکا آپ لوگ جواب دینے سے قاصر رھے پھر آپ ھی لوگوں کہ اسرار پے مباھلہ ھوا اس میں بھی آپ لوگ ناکام رھے اور ھم نے آپ سے اپنے دلائل کا رد مانگا تھا وہ بھی الیاس صاحب سے نہ ھو سکا اور اب آپ لوگوں سے اپنے دعوے اور اپنی غلطیوں کی مار برداشت سے باھر نظر آ رھی ھے اسی لئے اب آپ لوگوں نے اپنا کووا سفید کرلیا ھے اور کسی کے جواب کو جواب نا ماننے کی قسم کھائی ھوئی ھے اللہ آپ کو ھدایت دے (آمین)
خیر میں آپ لوگوں کو دعوت دیتا ھوں ١٣ اکتوبر ٢٠١٢ کو الخیر گارڈن جامعہ ملیہ روڈ ملیر میں سیرت النبی صلی اللہ علئہ وسلم کانفرنس ھے ویسے تو آ پ لوگ نبی صلی اللہ علئہ وسلم کی سیرت کو نہیں مانتے لیکن پھر بھی پروگرام اٹینڈ کیجیے گا شاید اللہ کے کرم سے فائدہ ھو جائے اگر اصلاح کی نیت سے آیا جائے تو اور اس پروگرام میں سوالات و جوابات کی نشست بھی ھوگی
اسلام علیکم
جناب ڈیفنڈر صاحب مجھے حیرت ہے کہ آپ لوگ باربار کھ رہے ہو کہ جناب الیاس ستار صاحب میمن صاحب کے جواب سے بے بس ہیں
حق تو یہ ہے کہ استاد محترم جناب الیاس ستار صاحب نے میمن صاحب کو یاان کی کسی بھی ہم خیال دوست کو ایک کروڑ کا چیلنج دیا ہے کہ کسی بھی سپریم کورٹ میں کسی بھی جج کی سامنے
چاہے وہ جج اہل حدیث کیوں نا ہو یہ ثابت کردے کہ مندرجہ ذیل نقظہ علمی ہے اور بی وقوفانہ نھی ہے تو آکر ہم سے ایک کروڑ روپے لے لیں تواس آسان ترین چیلنج سے تم لوگ کیوں
بھاگتے ہیں ؟؟؟؟
محمد حسین میمن کے اس نقطہ کو کوئی بھی اہل حدیث علمی نقطہ ثابت کردے اس کو ایک کروڑ (10,000,000) روپے کا نقد انعام
ہم جب بھی محمد حسین میمن کے حامیوں سے کوئی بھی سوال کرتے ہیں تو وہ جواب دینے کے بجائے ہمیں مونٹیسری اسکول کے بچے قرار دیتے ہیں یا کبھی نفسیاتی ہسپتال جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
ان کی ایک حیرت انگیز تحریر ہے۔ جس کا اب وہ لوگ خود بھی جواب نہیں دے رہے ہیں اور نہ ہی اپنی غلطی تسلیم کر رہے ہیں۔
اب ہم لوگ اس غلطی کو پورے دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ تاکہ ہر اہل حدیث کو پتا چل جائے کہ محمد حسین میمن کی دلائل کتنی غلط ہوتے ہیں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے دو صاع گھٹیا کجھور دے کر ایک صاع عمدہ کجھور لے لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتایا کہ "یہ تو عین سود ہے۔"
اس حدیث پر محمد حسین میمن نے اپنی تطبیق والی کتابچہ میں ایک حیرت انگیز تبصرہ لکھا ہے۔
اور وہ یہ کہ انہوں نے صفحہ ۲۷ پر لکھا ہے۔ ’’یہ حدیث بھی الحمداللہ قرآن مجید کے بعین مطابق ہے۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے یہ آیات ذکر کی ہیں۔
أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (١٨١-١٨٣) سورۃ الشعراء
ترجمہ: "ناپ پورا بھرا کرو کم دینے والوں میں شمولیت نہ کرو۔"
اس کے آگے صفحہ ۲۸ پر لکھتا ہے:
"یاد رکھا جائے حضرت بلال رضی اللہ عنہ والی حدیث واضح ناپ تول کا فقدان تھا۔"
پھر انہوں نے دوسری آیت ذکر کی ہے۔
وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (سورة ہود آیت نمبر ۸۵)
ترجمہ : "اے میری قوم!ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کرو۔ لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد اورخرابی نہ مچاؤ۔"
آگے لکھتے ہیں: "اس سودے میں ناپ تول کی کمی واضح ہے۔ "
اسی علت سے بچنے کے لیے رسول اللہ نے فرمایا تھا اپنے کجھوریں آپ بیچ ڈالتے پھر اسکے پیسوں سے اچھی کجھور خریدتے تاکہ ناپ اور تول میں کمی واقع نہ ہو ۔
پھر انہوں نے ایک آیت ذکر کی ہے۔
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ
ترجمہ : "بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں نا پ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔" (سورۃ المطففین آیت ١-٣)
پھر آگے لکھتے ہیں کہ ’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بیع میں ناپ تول میں واضح طور پر کمی کر دی گئی دو صاع کی جگہ ایک صاع‘‘
محمد حسین میمن کی اوپر والی تحریر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے
محمد حسین میمن صاحب نےقرآن سے جن آیات کا حوالہ دیا ہے۔ اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث ان آیات کے مطابق ہے۔
افسوس۔ قرآن کی ان آیتوں میں جو ذکر ہے کہ وہ یہ ہے کہ دو کلو بیچا لیکن پونے دو کلو تولا۔ یا دو کلو کے پیسے لیئے اور پونے دو کلو تول کر دیا۔
یعنی ایک پاؤ کی چوری کی۔
لیکن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث میں دونوں فریقین نے وزن میں کوئی چوری نہيں کی۔
یعنی بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع بول کر دو صاع دیا اور دوسرے فریق نے ایک صاع بول کر ایک صاع دیا۔ یعنی ددنوں فریقین میں سے کسی نے بھی چوری نہیں کی۔
لٰہذا قرآن کی ان آیات کی روشنی میں جس میں وزن کا گھپلا ہے۔ ان حدیثوں کو صحیح ثابت کرنا جس میں وزن کا کوئی دھوکا نہیں ہے۔ ان کی یہ مثال عقل کی روشنی میں بے وقوفانہ مثال ہے۔
محمد حسین میمن کو اپنی بے وقوفانہ سوچ کو ان کو اپنی ذات تک محدود رکھنا تھا۔لیکن انہوں نے جوش میں آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہم خیال بنا لیا۔ محمد حسین میمن نے اپنی اوپر کی تحریر میں یہ لکھا ہے:
اسی علت سے بچنے کے لیے رسول اللہ نے فرمایا تھا اپنے کجھوریں آپ بیچ ڈالتے پھر اسکے پیسوں سے اچھی کجھور خریدتے تاکہ ناپ اور تول میں کمی واقع نہ ہو ۔
یہ بات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سراسر بہتان ہے۔ ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علم اور حکمت سے محبت کرنے والے ہیں۔ محمد حسین میمن نے اپنی بے وقوفانہ سوچ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا ہے۔ ضروری ہے کہ وہ اس بہتان سے فوری رجوع کریں۔
اگر پوری دنیا میں کوئی بھی اہل حدیث بھائی یا بہن دنیا کی کسی بھی سپریم کورٹ میں یہ ثابت کردے کہ محمد حسین میمننے مندرجہ بالا قرآن شریف کی آیات کا استعمال جو کیا ہے وہ بالکل صحیح ہے اور یہ ایک بے وقوفانہ حرکت نہیں ہے۔ تو اس شخص کو پاکستانی ایک کروڑ روپے نقد انعام دیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کہیں کا بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب وغیرہ
بینک گارنٹی بھی فراہم ہوسکتا ہے۔
از عابد قائم خانی