الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں اور میں نے اپنے رب عزوجل سے یہ وعدہ لے رکھا ہے کہ میرے منہ سے کسی مسلمان کے لئے اگر سخت کلمات نکل جائیں تو وہ (سخت کلمات) اُس (مسلمان) کے لئے باعث تزکیہ اور اجر و ثواب بن جائیں)
------------------------------------------------------------
(صحیح مسلم ، كتاب البر والصلة والآداب : 2602(6296))
علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گزوہ بدر کے لئے کوچ کیا تو ہم نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک دو آدمیوں کو دیکھا (جو دشمن کیمپ کے جاسوس تھے) ایک قریش سے تھا اور ایک غلام تھا عقبہ بن ابی معیط ، ان کا پیچھا کرنے پر قریشی تو چھپ گیا مگر غلام کو ہم نے گرفتار کر لیا ، ہم نے اس سے قوم کی تعداد پوچھنا شروع کی تو جواب میں وہ صرف یہی کہتا تھا کہ واللہ ان کا شمار بہت ذیادہ ہے ، لیکن تعداد نہیں بتائی ،اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سوال کیا کہ قوم کی تعداد کیا ہے ؟ اس نے وہی جواب دیا کہ واللہ ان کا شمار بہت ذیادہ ہے اور ان کی طاقت بہت بڑی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کو شش کی لیکن اس نے تعداد بتانے سے انکار کر دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ وہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ روزانہ دس اونٹ ، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (معلوم ہو گیا) قوم کی تعداد ایک ہزار ہے ، کیونکہ ایک اونٹ سو آدمیوں کے لئے کافی ہو سکتا ہے
(کتاب الاذکیاء (امام ابن الجوزی کی تصنیف)کا اردو ترجمہ لطائف علمیہ، کتاب کا صفحہ نمبر 35)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بیوہ یا مسکین کے ساتھ جا کراُن کا ہاتھ بٹانے ، مدد کرنے میں کوئی عارمحسوس نہ کرتے تھے
(صحيح ابن حبان : 6423 ، ، الجامع الصغير : 7142 ، ، الصحيح المسند : 545 ، ، نسائي ، كتاب الجمعة : 1415 (1425))
مگر ہم دوسروں کے کام آنے سے تو رہے، اپنے کام اپنے ہاتھوں سر انجام دینا بھی ہم کسر شان سمجھتے ہیں بلکہ تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ اگر کوئی نیک نفس انسان اونچے مرتبہ پر فائز ہونے کے بعد اپنے گھر کے کام کاج میں خود مصروف ہو تو لوگ اسے یوں گھورتے ہیں گویا وہ سرِ عام کوئی گناہ کر رہا ہے، ان کی نگاہیں زبانِ حال سے پکار پکار کر کہتی ہیں کہ تم کیسے انسان ہو ، تم کیسے افسر ہو کہ اپنے گھر کا کام خود کر رہے ہو؟