• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمد طاہر القادری مردوں کو کلمہ پڑھانے لگا

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
تلقینِ میت سے مراد ہے کہ :
مسلمان کو مرنے سے قبل حالتِ نزع میں کلمہ طیبہ / کلمہ شہادت کی تلقین کرنا
مسلمان کی تدفین کے بعد اس کی قبر پر کھڑے ہوکر کلمہ طیبہ / کلمہ شہادت اور قبر میں پوچھے جانے والے سوالات کی تلقین کرنا

دونوں طرح کی تلقین کے بارے میں اَحادیثِ مبارکہ اور آثارِ صحابہ و تابعین میں واضح نظائر ملتی ہیں اور یہ اُمور شرعاً ثابت شدہ اور باعثِ فضیلت ہیں۔ ذیل میں اِس بابت وارِد ہونے والی چند روایات بطور نمونہ پیش کریں گے:
حالتِ نزع میں تلقین کے بارے میں فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
(1) صحیح مسلم:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ.

(صحيح مسلم، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا اﷲ، 2 : 631، الرقم : 916)

’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ کہنے کی تلقین کرو۔‘‘
(2) جامع ترمذی:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ.

(جامع الترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی تلقين المريض عن الموت والدعاء له عنده، 3 : 306، الرقم : 976)

’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘

امام ترمذی یہ حدیث روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس باب میں حضرت ابوہریرہ، اُم سلمہ، عائشہ صدیقہ، جابر اور سعدی مریہ زوجۂ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہم سے بھی روایات منقول ہیں
(3) سنن نسائی :

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰه إِلَّا اﷲُ.

(سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 : 5، الرقم : 1826)

’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘
(4) سنن نسائی بشرح السیوطی و حاشیۃ السندی :

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.

(سنن النسائی بشرح السيوطی وحاشية السندی، 4 : 302)

’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲ کی تلقین کرو۔‘‘
(5) سنن ابن ماجہ :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.

(سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين الميت لا إله إلا اﷲ، 1 : 464، الرقم : 1444)

’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کیا کرو۔‘‘
(6) سنن ابی داؤد :

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.

(سنن أبی داود، کتاب الجنائز، باب فی التلقين، 3 : 190، الرقم : 3117)

’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کیا کرو۔‘‘
(7) السنن الکبری للنسائی :

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.

(السنن الکبری للنسائی، کتاب الجنائز وتمني الموت، باب تلقين الميت، 1 : 601، الرقم : 1953)

’’اپنے مرنے والوں کو اس بات کی تلقین کیا کرو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔‘‘
(8) السنن الکبری للبیہقی :

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِیِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اﷲُ

أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِيحِ مِنْ حَدِيثِ خَالِدِ بْنِ مَخْلَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ، وَأَخْرَجَهُ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ.

(السنن الکبری للبيهقی، کتاب الجنائز، باب ما يستحب من تلقين الميت إذا حضر، 3 : 383، الرقم : 6390)

’’یحییٰ بن عمارہ نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کیا کرو

’’اسے امام مسلم نے الصحیح میں خالد بن مخلد کے طریق سے سلیمان سے روایت کیا ہے اور ابو حازم کے طریق سے ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے۔‘‘

امام بیہقی یہ نے حدیث اگلے نمبر 6391 پر بھی روایت کی ہے اور اس کے بعد لکھا ہے : ’’امام مسلم نے یہ حدیث الصحیح میں ابو بکر اور عثمان بن ابی شیبہ سے بھی روایت کی ہے۔‘‘
(9) مصنف ابن ابی شیبہ :

عَنْ أَبِی حَازِمٍ، عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اﷲُ.

(مصنف ابن أبی شيبة، کتاب الجنائز، باب فی تلقين الميت، 2 : 446، الرقم : 10857)

’’ابو حازم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کیا کرو۔‘‘
(10) ریاض الصالحین للنووی :

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.

(رياض الصالحين، کتاب عيادة المريض، باب تلقين المختصر لا إله إلا اﷲ، 1 : 184، الرقم : 918)

’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘
(11) سنن ابن ماجہ :

امام ابن ماجہ نے السنن کی کتاب الجنائز کے باب ما جاء فيما يقال عند المريض إذا حضر میں درج ذیل روایت بیان کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت نزع میں میت کو درود شریف پڑھنے کی تلقین کی جائے تاکہ اس کے لیے جاں کنی کا مرحلہ سہل ہوجائے :

قال : مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ : دَخَلْتُ عَلَی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ وَهُوَ يَمُوتُ، فَقُلْتُ : اقْرَأ عَلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم السَّلَامَ.

’’محمد بن المنکدر کہتے ہیں : میں جابر بن عبد اللہ کی وفات کے وقت ان کے پاس گیا تو میں نے عرض کیا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجو۔‘‘
بعد اَز تدفین تلقین کے بارے میں فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اوپر ہم نے میں حالتِ نزع میں کلمہ طیبہ تلقین کرنے کے حوالے سے چند روایات پیش کی ہیں اگر ان روایات کے الفاظ کو حقیقی معنی پر محمول کیا جائے تو ان سے بعد اَز تدفین تلقین کرنا ثابت ہوتا ہے لیکن چونکہ ائمہ کرام نے ان روایات کو قبل اَز مرگ تلقین پر محمول کیا ہے اس لیے ہم نے ان روایات کو حالت نزع مین تلقین کرنے کے ذیل میں ہی درج کیا ہے۔

امام ابن عابدین شامی نے اس پر نہایت جامع تبصرہ کیا ہے:

أما عند أهل السنة فالحديث أی : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ محمول علی حقيقته، لأن اﷲ تعالی يحييه علی ما جاء ت به الآثار.

(رد المختار، 2 : 191)

’’اہل سنت و جماعت کے نزدیک حدیث مبارکہ ’’اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو‘‘ کو اس کے حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائے گا کیوں کہ اﷲ تعالیٰ تدفین کے بعد مردے میں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اس پر واضح آثار موجود ہیں۔‘‘

یعنی لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تعمیل میں حالت نزع میں تلقین کی گئی تو یہ مجازی معنیٰ میں ہوگی اور مرنے کے بعد تلقین کی گئی تو یہ اِس حدیث کے حقیقی معنی پر عمل ہوگا۔ لہٰذا مجازی اور حقیقی دونوں معانی پر عمل کیا جائے گا کیوں کہ اِسی میں میت کا فائدہ ہے۔

ذیل میں ہم تلقین بعد اَز تدفین پر چند واضح روایات پیش کریں گے جس سے نفس مسئلہ کے بارے میں پیدا شدہ اِشکال دور ہوجائے گا اور امام ابن عابدین شامی کے بیان کی تائید و مزید وضاحت بھی ہوجائے گی:
(1) سنن ابن ماجہ:

عبداﷲ بن جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ.

’’اپنے مردوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ کی تلقین کیا کرو۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ (اِسے زندہ لوگوں کے واسطے پڑھنا کیسا ہے)؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

أَجْوَدُ وَأَجْوَدُ.

(سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی تلقين الميت لا إله إلا اﷲ، 1 : 465، الرقم : 1446)

’’بہت ہی اچھا ہے، بہت ہی اچھا ہے۔‘‘

اِس روایت کے الفاظ کَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ سے ثابت ہورہا ہے کہ لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ سے مراد فوت شدگان ہیں یعنی حدیث مبارکہ میں بعد اَز وصال / تدفین تلقین کرنے کی ترغیب ہے۔ اگر روایت کو اِس معنی پر محمول نہیں کیا جائے گا تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے اِس وضاحتی سوال کی کیا توجیہ ہوگی؟ چوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد اَز وصال تلقین کرنے کا حکم فرما رہے تھے، اِسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا تھا کہ کَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ یعنی اِسے زندہ لوگوں کے لیے پڑھنا کیسا ہوگا!
(2) سنن نسائی :

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لَقِّنُوا هَلْکَاکُمْ قَوْلَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.

(سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 : 5، الرقم : 1827)

’’اپنے ہلاک ہوجانے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘
(3) المعجم الکبیر للطبرانی :

امام طبرانی المعجم الکبیر میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

إذا مات أحد من إخوانکم، فنثرتم عليه التراب، فليقم رجل منکم عند رأسه، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يسمع، ولکن لا يجيبثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يستوی جالسا، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يقول : أرشدنا رحمک اﷲ، ولکن لا تشعرونثم ليقل : أذکر ما خرجت عليه من الدنيا، شهادة أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا عبده ورسوله، وأنک رضيت باﷲ ربا، وبمحمد نبيا، وبالإسلام دينا، وبالقرآن إمامافإنه إذا فعل ذلک، أخذ منکر ونکير أحدهما بيد صاحبه، ثم يقول له : أخرج بنا من عند هذا ما نصنع به، فقد لقن حجته، ولکن اﷲ لقنه حجته دونهمقال رجل : يا رسول اﷲ! فإن لم أعرف أمه، قال: انسبه إلی حواء.

المعجم الکبير للطبرانی، 8 : 249، الرقم : 7979.
مجمع الزوائد للهيثمی، 2 : 324؛ 3 : 45.
کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، 15 : 256257، الرقم : 42406

’’جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کرکے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا۔ پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : اﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو۔ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔ پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے اُس کو اُس کی حجت تلقین کی نہ کہ ان لوگوں نے۔ پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول اﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو۔‘‘

حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کو ’تلخیص الحبیر (2 : 3536)‘ میں بیان کیا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ اس کی اسناد صالح ہیں، جب کہ ضیاء مقدسی نے اسے احکام میں قوی قرار دیا ہے اور اس روایت کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں

ابن ملقن انصاری نے ’خلاصۃ البدر المنیر (1 : 274275)‘ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس کے صرف ایک راوی سعید بن عبد اﷲ کو میں نہیں جانتا، لیکن اس روایت کے کثیر شواہد ہیں جو اسے تقویت بہم پہنچاتے ہیں
(4) امام سیوطی :

امام جلال الدین سیوطی الدر المنثور فی التفسیر بالماثور میں سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 27: يُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَيٰوة الدُّنْيَا وَفِی الْاٰخِرَة ﴿اللہ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)﴾ کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:

وأخرج سعيد بن منصور عن راشد بن سعد وضمرة بن حبيب وحکيم بن عمير قالوا : إذا سوی علی الميت قبره وانصرف الناس عنه، کان يستحب أن يقال للميت عند قبره : يا فلان! قل لا إله إلا اﷲ، ثلاث مرات، يا فلان! قل : ربی اﷲ ودينی الإسلام ونبيی محمد، ثم ينصرف.

’’سعید بن منصور نے راشد بن سعد، ضمرہ بن حبیب اور حکیم بن عمیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : جب میت کو قبر میں دفن کر دیا جائے اور لوگ واپس جانے لگیں تو مستحب ہے کہ ان میں سے ایک شخص میت کی قبر پر کھڑا ہوکر کہے : اے فلاں! کہہ دو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ تین بار کہے۔ پھر کہے : اے فلاں! کہہ دو کہ میرا رب اﷲ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس کے بعد وہ شخص بھی واپس چلا جائے۔‘‘

امام جلال الدین سیوطی کا سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 27 کے تفسیر میں اس روایت کو بیان کرنا ہی اس اَمر کی دلیل ہے کہ قبر پر کھڑے ہوکر تلقین کرنے سے مومنین کو منکر نکیر کے سوالات کے جواب دینے میں ثابت قدمی نصیب ہوتی ہے اور یہ مستحب عمل ہے اور یہی اِس آیت مبارکہ میں بیان کیے گئے الفاظ کا مفہوم ہے

اس کے ساتھ امام سیوطی نے درج ذیل ایک اور روایت بھی بیان کی ہے:

وأخرج ابن منده عن أبی أمامة رضی الله عنه قال : إذا مت فدفنتمونی، فليقم إنسان عند رأسی، فليقل : ياصدی بن عجلان! اذکر ما کنت عليه فی الدنيا شهادة أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا رسول اﷲ.

’’ابن مندہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میرے مرنے کے بعد جب مجھے دفنا چکو تو ایک انسان میری قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے : اے صدی بن عجلان! یاد کرو اُس عقیدے کو جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اس بات کی گواہی پر کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘

یہی روایت امام علاؤ الدین ہندی کنز العمال میں ذرا تفصیل کے ساتھ لائے ہیں۔
(5) کنز العمال للہندی :

عن سعيد الأموی، قال : شهدت أبا أمامةوهو فی النزاع، فقال لی : يا سعيد! إذا أنا مت فافعلوا بی کما أمرنا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. قال لنا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : إذا مات أحد من إخوانکم فسويتم عليه التراب فليقم رجل منکم عند رأسه، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يسمع ولکنه لا يجيب، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يستوی جالسا، ثم ليقل يا فلان ابن فلانة! فإنه يقول : أرشدنارحمک اﷲ. ثم ليقل : اذکر ما خرجت عليه من الدنيا شهادة أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا عبده ورسوله وأنک رضيت باﷲ ربا وبمحمد نبيا وبالإسلام دينا وبالقرآن إماما، فإنه إذا فعل ذلک أخذ منکر ونکير أحدهما بيد صاحبه ثم يقول له : أخرج بنا من عند هذا ما نصنع به قد لقن حجته فيکون اﷲ حجيجه دونهما. فقال له رجل : يا رسول اﷲ! فإن لم أعرف أمه، قال : انسبه إلی حواء.

(کنز العمال، 15 : 311312، الرقم : 42934)

’’سعید اُموی روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ کے پاس حاضر ہوا درآں حالیکہ وہ حالتِ نزع میں تھےانہوں نے مجھے فرمایا : اے سعید! جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ وہی کچھ کرنا جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے۔ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کرکے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! (فلانہ مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد ہے کہ اسے اُس کی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا۔) بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا۔ پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : اﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو۔ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔ پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ سو اﷲ تعالیٰ اس کی حجت بیان کرنے والا ہوگا منکر نکیر کے علاوہ۔ پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول اﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو۔‘‘

اِمام ہندی کہتے ہیں کہ اِس روایت کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
(6) ابن رجب الحنبلی :

حافظ ابن رجب الحنبلی أهوال القبور وأحوال أهلها إلی النشور میں لکھتے ہیں :

حدثنی بعض إخوانی أن غانما جاء المعافی بن عمران بعد ما دفن، فسمعه وهو يلقن فی قبره، وهو يقول : لا إله إلا اﷲ. فيقول المعافی : لا إله إلا اﷲ.

’’ہمارے بھائیوں میں سے ایک نے روایت کیا ہے کہ غانم، معافی بن عمران کے پاس اُس وقت آئے جب انہیں دفن کیا جا چکا تھا۔ پس اُسے سنا گیا جب کہ اُسے قبر میں تلقین کی جارہی تھی۔ تلقین کرنے والا کہ رہا تھا : لا إله إلا اﷲاور معافی بن عمران بھی جواباً کہ رہے تھے : لا إله إلا اﷲ۔‘‘

علاوہ ازیں ابن رجب الحنبلی نے کئی اور روایات بھی بیان کی ہیں جن سے مردے کو دفن کرنے کے بعد تلقین کیا جانا ثابت ہوتا ہے۔ نیز امام ابن ابی الدنیا اور امام سیوطی نے اِس موضوع پر متعدد روایات اپنی کتب میں ذکر کی ہیں۔
(7) ابن عابدین شامی :

امام شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

قد روی عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم أنه أمر بالتلقين بعد الدفن، فيقول : يا فلان بن فلان! اذکر دينک الذی کنت عليه من شهادة أن لا إله اللہ وأن محمد رسول اللہ، وأن الجنة حق والنار حق، وأن البعث حق وأن الساعة آتية لا ريب فيها، وأن اللہ يبعث من فی القبور وأنک رضيت باللہ ربا وبالاسلام دينا، وبحمد صلی الله عليه وآله وسلم نبيا وبالقرآن إماما وبالکعبة قبلة، وبالمؤمنين إخوانا.

(ابن عابدين شامی، رد المحتار، 2 : 191)

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تدفین کے بعد مردے کو تلقین کرو، تلقین کرنے والا میت کو یہ کہے : اے فلاں کے بیٹے! یاد کرو وہ دین جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اِس اَمر کی گواہی کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، جنت اور دوزخ کے ہونے اور قیامت کے قائم ہونے پر جس میں کوئی شک نہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اہل قبور کو اٹھائے گا اور تم اللہ کو رب مانتے تھے، اسلام کو دین مانتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی اور رسول مانتے تھے، کعبہ کو قبلہ اور تمام مسلمانوں کو بھائی مانتے تھے۔‘‘

پھر فرماتے ہیں:

لا نهی عن التلقين بعد الدفن لأنه لا ضرر فيه، بل فيه نفع، فإن الميت يستأنس بالذکر علی ما ورد فيه الآثار.

’’تدفین کے بعد تلقین سے منع نہیں کیا جائے گا اِس لیے کہ اِس میں (یعنی مردے کو تلقین کرنے میں) کوئی حرج نہیں بلکہ سراسر فائدہ ہے کیوں کہ میت ذِکر اِلٰہی سے مانوس ہوتی ہے جیسا کہ آثارِ صحابہ سے واضح ہے۔‘‘
(8) امام ابو داؤد :

امام ابو داؤد السنن کی کتاب الجنائز کے باب الاستغفار عند القبر للميت فی وقت الانصراف (قبر کے پاس [دفن کے بعد] واپس مڑنے سے قبل میت کے لئے استغفار) میں ایک اور حدیث روایت کرتے ہیں :

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيتِ، وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ : اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيکُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ.

’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میت کو دفن کر کے فارغ ہوجاتے تو وہاں کھڑے ہوکر فرماتے : اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا مانگو، کیونکہ اب اِس سے سوالات ہوں گے۔‘‘

علامہ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
(9) ملا علی قاری :

ملا علی قاری اپنی کتاب مرقاۃ المفاتیح (1 : 327) میں اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

وقال ابن حجر: وفيه إيماء إلی تلقين الميت بعد تمام دفنه وکيفيته مشهورة، وهو سنة علی المعتمد من مذهبنا خلافاً لمن زعم انه بدعة کيف. وفيه حديث صريح يعمل به فی الفضائل اتفاقاً بل اعتضد بشواهد يرتقی بها إلی درجة الحسن.

’’حافظ ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ اِس روایت میں میت کو دفن کر چکنے کے بعد تلقین کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ہمارے مذہبِ (اَہل سنت و جماعت) کے مطابق یہ معتمد سنت ہے۔ بخلاف اِس قول کے کہ یہ بدعت (سیئہ) ہے۔ اور اس ضمن میں واضح حدیث بھی موجود ہے، جس پر فضائل کے باب میں بالاتفاق نہ صرف عمل کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے اتنے شواہد و توابع ہیں جو اسے درجہ حسن تک پہنچا دیتے ہیں۔‘‘
خلاصہ کلام

دنیاوی زندگی ختم ہونے پر اِنسان کے لیے دو وقت بڑے خطرناک ہیں : ایک حالتِ نزع کا؛ دوسرا تدفین کے بعد قبر میں ہونے والے سوالات کا۔ اگر مرتے وقت خاتمہ بالخیر نصیب نہ ہوا تو عمر بھر کا کیا دھرا سب برباد گیا اور اگر قبر کے امتحان میں ناکامی ہوئی تو اُخروی زندگی برباد ہوگئی۔ اِس لیے زندہ لوگوں کو چاہیے کہ ان کٹھن مراحل میں اپنے پیاروں کی بھرپور مدد کریں کہ مرتے وقت اس کے پاس کلمہ پڑھتے رہیں اور بعد اَز دفن بھی کلمہ پڑھتے رہیں تاکہ وہ اِس امتحان میں بھی کام یاب ہوجائے۔

آخر میں ہم صحیح بخاری میں مذکور روایت بیان کریں گے جس سے تلقین میت کے باب میں تمام اِشکالات اَز خود رفع ہو جائیں گے۔

صحیح بخاری (کتاب المغازی، باب قتل ابی جھل) میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

اَنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم اَمَرَ يوْمَ بَدْرٍ بِاَرْبَعَة وَعِشْرِينَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيشٍ، فَقُذِفُوا فِي طَوِیٍّ مِنْ اَطْوَائِ بَدْرٍ خَبِيثٍ مُخْبِثٍ، وَکَانَ اِذَا ظَهرَ عَلَی قَوْمٍ اَقَامَ بِالْعَرْصَة ثَلَاثَ لَيالٍ. فَلَمَّا کَانَ بِبَدْرٍ الْيوْمَ الثَّالِثَ، اَمَرَ بِرَاحِلَتِه فَشُدَّ عَلَيها رَحْلُها، ثُمَّ مَشٰی وَاتَّبَعَه اَصْحَابُه، وَقَالُوا: مَا نُرٰی ينْطَلِقُ اِلَّا لِبَعْضِ حَاجَتِه حَتّٰی قَامَ عَلٰی شَفَة الرَّکِيِّ، فَجَعَلَ ينَادِيهمْ بِاَسْمَائِهمْ وَاَسْمَائِ آبَائِهمْ: يا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ! وَيا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ! اَيسُرُّکُمْ اَنَّکُمْ اَطَعْتُمْ اﷲَ وَرَسُولَه. فَاِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا، فَهلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا؟ قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: يا رَسُولَ اﷲِ! مَا تُکَلِّمُ مِنْ اَجْسَادٍ لَا اَرْوَاحَ لَها؟ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيدِه! مَا اَنْتُمْ باَسْمَعَ لِمَا اَقُولُ مِنْهمْ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے روز کفارِ قریش کے چوبیس سرداروں کی لاشوں کو ایک اندھے کنوئیں میں پھینکنے کا حکم فرمایا تھا۔ چنانچہ ان گندے لوگوں کو ایک گندے کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ جب کسی قوم پر غلبہ حاصل ہوتا تو تین راتیں وہاں قیام فرماتے تھے۔ جب میدان بدر میں تیسرا روز آیا تو اپنی سواری تیار کرنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی پر کجاوہ کس دیا گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چل پڑے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ کے پیچھے چل دیے اور ان حضرات کا بیان ہے کہ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی ضرورت کے تحت جا رہے ہیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کنوئیں کی منڈیر پر جا پہنچے (جہاں کفارِ قریش کو پھینکا گیا تھا) اور ان لوگوں کے نام مع ولدیت لے کر انہیں مخاطب فرمانے لگے : اے فلاں بن فلاں! اے فلاں بن فلاں! کیا یہ بات تمہیں اچھی لگتی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے۔ بے شک ہمارے رب نے ہم سے جس چیز کا وعدہ فرمایا تھا وہ ہمیں حاصل ہوگئی ہے۔ بتاؤ جس کا اس نے تمہارے لیے وعدہ کیا تھا وہ تمہیں ملی ہے یا نہیں؟ راوی کا بیان ہے کہ اس صورت حال پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے! جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم اِن سے زیادہ نہیں سنتے۔‘‘

صحیح بخاری اور دیگر متعدد کتب میں مذکور اِس روایت سے ثابت ہو جاتا ہے کہ دفن کرنے کے بعد اگر میت کو مخاطب کرنا بے سود ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی کفار سے کلام نہ فرماتے۔ ان کفار کو وہی اَمر یاد دلایا گیا جس پر وہ اِس دنیا میں تھے، جب کہ بندۂ مومن کو اُس اَمر کی تذکیر کی جاتی ہے جس پر وہ دنیا میں ہوتا ہے، یعنی امر توحید و رسالت۔ پس ثابت ہو جاتا ہے کہ مرنے کے بعد میت کو اُس کے عقائد کی تذکیر کرنا نہ صرف مستحب بلکہ ایک مسنون عمل ہے جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں حافظ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے بھی بیان کیا تھا۔

حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا :

مرنے والے مرتے ہیں، لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اُس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
محترم Asim Mehmood صاحب
کسی بھی اختلافی بحث میں شرکت کےلیے مضامین کے مضامین کاپی پیسٹ کرنے سے کلی طور پر گریز کریں۔جو بات لکھی گئی ہو اسی کے جواب پر ہی لب کشائی کیا کریں۔آپ نے یہ پورا آرٹیکل اس سائٹ سے کاپی پیسٹ کیا ہے۔ آپ سے آئندہ یقینی توقع ہے کہ اس طرح کےطریقہ کار سے بالکل گریز کریں گے۔ ورنہ اطلاع دیئے بغیر اس قبیل سے آپ کی تمام پوسٹس حذف کی جاتی رہیں گی۔شکریہ
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
جناب بات کاپی یا پیسٹ کی نہیں ہے. میں نے یہ احادیث پڑھی ہیں آپ بھی ان کو پڑھ لیں ذرا کتابیں کھولیں اور مطالعہ کی زحمت کریں. کوئ راے قائم کرنے سے پہلے ہزاروں کتابوں کے سمندروں کو عبور کرو. میں پھر بھی کہتا ہوں کہ کم از کم کو فتوی قائم کرنے سے پہلے اس کے بارے میں دلائل رکھ لیا کریں . اور بھر کہہ رہا ہوں ان کو کتا بوں میں بھی دیکھو.
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
جناب بات کاپی یا پیسٹ کی نہیں ہے. میں نے یہ احادیث پڑھی ہیں آپ بھی ان کو پڑھ لیں ذرا کتابیں کھولیں اور مطالعہ کی زحمت کریں. کوئ راے قائم کرنے سے پہلے ہزاروں کتابوں کے سمندروں کو عبور کرو. میں پھر بھی کہتا ہوں کہ کم از کم کو فتوی قائم کرنے سے پہلے اس کے بارے میں دلائل رکھ لیا کریں . اور بھر کہہ رہا ہوں ان کو کتا بوں میں بھی دیکھو.
جی بھائی وہ تو معلوم ہی ہے کہ آپ نے جب کاپی پیسٹ لگایا ہوگا تو تیرتی نظر تو اس سارے نقل شدہ اقتباس پر پڑی ہی ہوگی۔لیکن جس بات کی طرف توجہ میں نےدلائی ہے۔آپ اسی پر ہی عمل کرنے کی کوشش کریں۔جزاکم اللہ خیرا
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
آپ میری فکر چھوڑدیں جناب! آپ نے جو فتوی لگایا ہے ڈاکٹر صاحب پر آب اس کو کتاب و سنت سے غلط ثابت کریں.آپ کو اگر ان سے بغض ہے تو یہ آپ کا اپنا مسلئہ ہے مگر اس پر آپ دلیلیں دیں حدیث سے کہ جو کام انہوں نے کیا وہ غلط ہے.کوئ بڑے سے بڑا مولانا صاحب لے آؤ. اس کو جو غلط ثابت کرے.
اب میں پھر آپ سے کہوں گا کہ مطالعے کی زحمت کرلیں.آپ ان احادیث کو غلط ثابت کریں.پھر دیکھتے ہیں.
اور بات رہی کاپی پیسٹ کی تو میرے پاس کیاب میں یہ احادیث لکھی ہوئ ہیں اگر آپ کے پاس نہیں تو یہ اسناد ہیں پڑھ لیں.
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم بھائی آپ نے ’’تلقین میت کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟‘‘ فتویٰ مفتی محمد فارق رانا کانقل کیا ہے۔ اس فتویٰ کی کیا حقیقت ہے پہلے ہی شیخ کفایت اللہ السنابلی﷾ اور شیخ محمد رفیق طاہر ﷾ آگاہ کرچکے ہیں۔کم از کم جو بات نقل کی جائے اس بارے پانچ منٹ خرچ کرکے استاد گوگل سے ہی آدمی پوچھ لیتا ہے کہ آیا جو بات نقل کررہا ہوں اس پر کسی مسلک کی طرف سے جواب دیا تونہیں گیا ؟ یا بس مکھی پہ مکھی مارتے اور لکیر کے فقیر بنتے رہنا ہے۔؟ شیوخ کے جوابات یہاں نقل کر رہا ہوں۔جو کہ اردو مجلس پر موجود ہیں۔ اب آپ سے گزارش ہے کہ اس فتویٰ پر کی گئی تحقیق کے علاوہ اگر آپ کی کوئی تحقیق ہے تو پیش کریں۔اور ایک گزارش بھی کہ ادھر ادھر دیکھ کر کسی چیز کو نقل کرنا چاہیے۔شکریہ
تلقینِ میت سے مراد ہے کہ :
مسلمان کو مرنے سے قبل حالتِ نزع میں کلمہ طیبہ / کلمہ شہادت کی تلقین کرنا
محترم جناب فارق رانا نے پہلے دس دلائل ایسے موضوع سے متعلق پیش کیے ہیں جن پر امت میں سے کسی کو اختلاف نہیں کہ مسلمان کو مرنے سے قبل حالتِ نزع میں کلمہ طیبہ / کلمہ شہادت کی تلقین کی جائے ۔
امام ابن ماجہ نے السنن کی کتاب الجنائز کے باب ما جاء فيما يقال عند المريض إذا حضر میں درج ذیل روایت بیان کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت نزع میں میت کو درود شریف پڑھنے کی تلقین کی جائے تاکہ اس کے لیے جاں کنی کا مرحلہ سہل ہوجائے :
قال : مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ : دَخَلْتُ عَلَی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ وَهُوَ يَمُوتُ، فَقُلْتُ : اقْرَأ عَلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم السَّلَامَ.
’’محمد بن المنکدر کہتے ہیں : میں جابر بن عبد اللہ کی وفات کے وقت ان کے پاس گیا تو میں نے عرض کیا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجو۔‘‘
اس کی سند سے صرف نظر کر تے ہوئے پھر بھی یہ دلیل بننے کے قابل نہیں کیونکہ یہ محمد بن المنکدر رحمہ اللہ کا عمل ہے اور باتفاق امت اقوال تابعین حجت و دلیل نہیں !
بعد اَز تدفین تلقین کے بارے میں فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مفتی صاحب نے یہ لکھنے کےبعد یہ روایت پیش کی
(1) سنن ابن ماجہ:
عبداﷲ بن جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ.
’’اپنے مردوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ کی تلقین کیا کرو۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ (اِسے زندہ لوگوں کے واسطے پڑھنا کیسا ہے)؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أَجْوَدُ وَأَجْوَدُ.
(سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی تلقين الميت لا إله إلا اﷲ، 1 : 465، الرقم : 1446)
’’بہت ہی اچھا ہے، بہت ہی اچھا ہے۔‘‘
اِس روایت کے الفاظ کَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ سے ثابت ہورہا ہے کہ لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ سے مراد فوت شدگان ہیں یعنی حدیث مبارکہ میں بعد اَز وصال / تدفین تلقین کرنے کی ترغیب ہے۔ اگر روایت کو اِس معنی پر محمول نہیں کیا جائے گا تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے اِس وضاحتی سوال کی کیا توجیہ ہوگی؟ چوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد اَز وصال تلقین کرنے کا حکم فرما رہے تھے، اِسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا تھا کہ کَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ یعنی اِسے زندہ لوگوں کے لیے پڑھنا کیسا ہوگا!
یہ روایت ضعیف ہے اس میں دو علتیں ہیں۔
اول:
’’إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ‘‘ مجہول ہے کسی ایک بھی امام نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔
دوم:
’’كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ‘‘ بھی ضعیف ہے۔
امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى:234)نے کہا:
صَالح وَلَيْسَ بِالْقَوِيّ[سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني: ص: 95]۔
امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى:264)نے کہا:
هو صدوق فيه لين [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 7/ 150وسندہ صحیح]۔
أبو حاتم محمد بن إدريس الرازي، (المتوفى277):
صالح ليس بالقوى [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 7/ 151]۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
كثير بن زيد ضَعِيف[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 89]۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
ليس بذاك القوى[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 7/ 151 وسندہ صحیح]۔
نیز کہا:
ليس بشيء[تاريخ ابن أبي خيثمة 4/ 336 وسندہ صحیح]۔
امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے ضعفاء میں نقل کیا:
كثير بن زيد أبو محمد المدني [الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي: 3/ 22]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
كُثَيْرُ بْنُ زَيْدٍ صُوَيْلِحُ فِيهِ لِينٌ[معجم الشيوخ الكبير للذهبي 1/ 300]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وَكثير بن زيد مُخْتَلف فِيهِ[تغليق التعليق لابن حجر: 3/ 249]۔
(2) سنن نسائی :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَقِّنُوا هَلْکَاکُمْ قَوْلَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
(سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 : 5، الرقم : 1827)
’’اپنے ہلاک ہوجانے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو۔‘‘
یہ روایت بھی پہلی قسم کی تلقین کے متعلق ہے صرف لفظ " مرنے والوں" کی جگہ " ہلاک ہو جانے والوں" استعمال ہوا ہے ۔ معنى ایک ہی ہے ۔
(3) المعجم الکبیر للطبرانی :
امام طبرانی المعجم الکبیر میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
إذا مات أحد من إخوانکم، فنثرتم عليه التراب، فليقم رجل منکم عند رأسه، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يسمع، ولکن لا يجيبثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يستوی جالسا، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يقول : أرشدنا رحمک اﷲ، ولکن لا تشعرونثم ليقل : أذکر ما خرجت عليه من الدنيا، شهادة أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا عبده ورسوله، وأنک رضيت باﷲ ربا، وبمحمد نبيا، وبالإسلام دينا، وبالقرآن إمامافإنه إذا فعل ذلک، أخذ منکر ونکير أحدهما بيد صاحبه، ثم يقول له : أخرج بنا من عند هذا ما نصنع به، فقد لقن حجته، ولکن اﷲ لقنه حجته دونهمقال رجل : يا رسول اﷲ! فإن لم أعرف أمه، قال: انسبه إلی حواء.
المعجم الکبير للطبرانی، 8 : 249، الرقم : 7979.
مجمع الزوائد للهيثمی، 2 : 324؛ 3 : 45.
کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، 15 : 256257، الرقم : 42406
’’جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کرکے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا۔ پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : اﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو۔ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔ پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے اُس کو اُس کی حجت تلقین کی نہ کہ ان لوگوں نے۔ پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول اﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو۔‘‘
یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ مسلسل بالعلل ہے اورسند کے ہر طبقہ میں کوئی نہ کوئی علت موجودہے:
پہلی علت:
’’سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْأَوْدِيِّ‘‘ مجہول ہے۔
دوسری علت:
’’يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ‘‘ نے عن روایت کیا ہے اور یہ مدلس ہیں۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385):
ويحيى بن أبي كثير معروف بالتدليس[علل الدارقطني: 11/ 124]۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے نکت میں انہیں طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے،[النكت على ابن الصلاح 2/ 643]۔
اورایک حدیث پران کے عنعنہ کی وجہ سے نقد کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وَقَالَ ابْنُ الْقَطَّانِ: حَدِيثُ جَابِرٍ صَحيِحٌ؛ لأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ثِقَةٌ، وَقَدْ صَحَّ سَمَاعُهُ مِنْ جَابِرٍ.قُلْتُ: إِلا أَنَّ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ مُدَلِّسٌ،[إتحاف المهرة لابن حجر: 3/ 325]۔
تیسری علت :
’’عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ‘‘ مجہول ہے اس کی توثیق کہیں دستیاب نہیں۔
چوتھی علت:
’’إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ‘‘ جب اپنے علاقہ کے علاوہ دیگر علاقے والوں سے روایت کرتے ہیں تو ضعیف ہوتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق في روايته عن أهل بلده مخلط في غيرهم[تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 33]۔
اورزیرنظر روایت میں ان کا استاذ مجہول ہے لہذا معلوم نہیں وہ کہاں کا ہے۔
پانچویں علت:
’’مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَلَاءِ الْحِمْصِيُّ‘‘ ضعیف ہے۔
محمد بن عوف نے کہا:
كَانَ يسرق الأحاديث [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 7/ 547]
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365) نے اسے ضعفاء میں ذکر کیا ہے:
مُحَمد بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَلاءِ بْن زريق الحمصي[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 7/ 547]۔
چھٹی علت:
’’أَبُو عَقِيلٍ أَنَسُ بْنُ سَلْمٍ الْخَوْلَانِيُّ‘‘ مجہول ہے۔
(4) امام سیوطی :
امام جلال الدین سیوطی الدر المنثور فی التفسیر بالماثور میں سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 27: يُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَيٰوة الدُّنْيَا وَفِی الْاٰخِرَة ﴿اللہ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)﴾ کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:
وأخرج سعيد بن منصور عن راشد بن سعد وضمرة بن حبيب وحکيم بن عمير قالوا : إذا سوی علی الميت قبره وانصرف الناس عنه، کان يستحب أن يقال للميت عند قبره : يا فلان! قل لا إله إلا اﷲ، ثلاث مرات، يا فلان! قل : ربی اﷲ ودينی الإسلام ونبيی محمد، ثم ينصرف.
’’سعید بن منصور نے راشد بن سعد، ضمرہ بن حبیب اور حکیم بن عمیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : جب میت کو قبر میں دفن کر دیا جائے اور لوگ واپس جانے لگیں تو مستحب ہے کہ ان میں سے ایک شخص میت کی قبر پر کھڑا ہوکر کہے : اے فلاں! کہہ دو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ تین بار کہے۔ پھر کہے : اے فلاں! کہہ دو کہ میرا رب اﷲ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس کے بعد وہ شخص بھی واپس چلا جائے۔‘‘
امام جلال الدین سیوطی کا سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 27 کے تفسیر میں اس روایت کو بیان کرنا ہی اس اَمر کی دلیل ہے کہ قبر پر کھڑے ہوکر تلقین کرنے سے مومنین کو منکر نکیر کے سوالات کے جواب دینے میں ثابت قدمی نصیب ہوتی ہے اور یہ مستحب عمل ہے اور یہی اِس آیت مبارکہ میں بیان کیے گئے الفاظ کا مفہوم ہے
اول:
تو اس روایت کی صحت کا ثبوت ہی نہیں کیونکہ اس کی سند نا معلوم ہے۔
دوم :
یہ روایت مقطوع ہے یعنی بعض تابعین کی طرف منسوب ہے اورتابعین کے اقوال بالاتفاق دین میں حجت نہیں۔
اس کے ساتھ امام سیوطی نے درج ذیل ایک اور روایت بھی بیان کی ہے:
وأخرج ابن منده عن أبی أمامة رضی الله عنه قال : إذا مت فدفنتمونی، فليقم إنسان عند رأسی، فليقل : ياصدی بن عجلان! اذکر ما کنت عليه فی الدنيا شهادة أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا رسول اﷲ.
’’ابن مندہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میرے مرنے کے بعد جب مجھے دفنا چکو تو ایک انسان میری قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے : اے صدی بن عجلان! یاد کرو اُس عقیدے کو جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اس بات کی گواہی پر کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘
یہی روایت امام علاؤ الدین ہندی کنز العمال میں ذرا تفصیل کے ساتھ لائے ہیں۔
یہ روایت بھی مجہول السند ہے امام سیوطی نے اس کی سند ذکر نہیں کی لہذا اس کی صحت ثابت نہیں اور امام طبرانی نے ابوامامہ کی جس روایت کو سند سے ذکر کیا ہے اس حقیقت بیان کی جاچکی ہے۔
(5) کنز العمال للہندی :
عن سعيد الأموی، قال : شهدت أبا أمامةوهو فی النزاع، فقال لی : يا سعيد! إذا أنا مت فافعلوا بی کما أمرنا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. قال لنا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : إذا مات أحد من إخوانکم فسويتم عليه التراب فليقم رجل منکم عند رأسه، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يسمع ولکنه لا يجيب، ثم ليقل : يا فلان ابن فلانة! فإنه يستوی جالسا، ثم ليقل يا فلان ابن فلانة! فإنه يقول : أرشدنارحمک اﷲ. ثم ليقل : اذکر ما خرجت عليه من الدنيا شهادة أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدا عبده ورسوله وأنک رضيت باﷲ ربا وبمحمد نبيا وبالإسلام دينا وبالقرآن إماما، فإنه إذا فعل ذلک أخذ منکر ونکير أحدهما بيد صاحبه ثم يقول له : أخرج بنا من عند هذا ما نصنع به قد لقن حجته فيکون اﷲ حجيجه دونهما. فقال له رجل : يا رسول اﷲ! فإن لم أعرف أمه، قال : انسبه إلی حواء. (کنز العمال، 15 : 311312، الرقم : 42934)
’’سعید اُموی روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ کے پاس حاضر ہوا درآں حالیکہ وہ حالتِ نزع میں تھےانہوں نے مجھے فرمایا : اے سعید! جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ وہی کچھ کرنا جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے۔ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کرکے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! (فلانہ مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد ہے کہ اسے اُس کی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا۔) بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا۔ پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : اﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو۔ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔ پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ سو اﷲ تعالیٰ اس کی حجت بیان کرنے والا ہوگا منکر نکیر کے علاوہ۔ پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول اﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو۔‘‘
اِمام ہندی کہتے ہیں کہ اِس روایت کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
کنز العمال کے مصنف نے اس روایت کے لئے ( کر ) یعنی ابن عساکرکا حوالہ دیا ہے ، ابن عساکر سے یہ روایت مع سند ومتن ملاحظہ ہو:
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرنا أبو الحسن علي بن المسلم أنا علي بن محمد بن أبي العلاء أنا أبو علي أحمد بن عبد الرحمن بن أبي نصر أنبأ أبو سليمان محمد بن عبد الله بن زبر أنبأ أبي أبو محمد نا أحمد بن عبد الوهاب بن نجدة نا أبي نا إسماعيل بن عياش نا عبد الله بن محمد عن يحيى بن أبي كثير عن سعيد الأزدي قال
شهدت أبا أمامة وهو في النزع فقال لي يا سعيد إذا أنا مت فافعلوا بي كما أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا مات أحد من إخوانكم فنثرتم عليه التراب فليقم رجل منكم عند رأسه ثم ليقل يا فلان بن فلان فإنه يستوي جالسا ثم ليقل يا فلان بن فلانة فإنه يقول أرشدنا رحمك الله ثم ليقل اذكر ما خرجت عليه من دار الدنيا شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وإنك رضيت بالله عز وجل ربا وبمحمد صلى الله عليه وسلم نبيا وبالإسلام دينا وبمحمد صلى الله عليه وسلم نبيا فإنه إذا فعل ذلك أخذ منكر ونكير أحدهما بيد صاحبه ثم يقول له أخرج بنا من عند هذا ما نصنع به وقد لقن حجته ولكن الله عز وجل حجته دونهم فقال له رجل يا رسول الله فإن لم أعرف أمه قال انسبه إلى حواء
[تاريخ مدينة دمشق 24/ 73]۔
ابن عساکر نے طبرانی ہی کے طریق سے روایت کیا ہے جس کی حالت بیان کی جاچکی ہے۔
(6) ابن رجب الحنبلی :
حافظ ابن رجب الحنبلی أهوال القبور وأحوال أهلها إلی النشور میں لکھتے ہیں :
حدثنی بعض إخوانی أن غانما جاء المعافی بن عمران بعد ما دفن، فسمعه وهو يلقن فی قبره، وهو يقول : لا إله إلا اﷲ. فيقول المعافی : لا إله إلا اﷲ.
’’ہمارے بھائیوں میں سے ایک نے روایت کیا ہے کہ غانم، معافی بن عمران کے پاس اُس وقت آئے جب انہیں دفن کیا جا چکا تھا۔ پس اُسے سنا گیا جب کہ اُسے قبر میں تلقین کی جارہی تھی۔ تلقین کرنے والا کہ رہا تھا : لا إله إلا اﷲاور معافی بن عمران بھی جواباً کہ رہے تھے : لا إله إلا اﷲ۔‘‘
علاوہ ازیں ابن رجب الحنبلی نے کئی اور روایات بھی بیان کی ہیں جن سے مردے کو دفن کرنے کے بعد تلقین کیا جانا ثابت ہوتا ہے۔ نیز امام ابن ابی الدنیا اور امام سیوطی نے اِس موضوع پر متعدد روایات اپنی کتب میں ذکر کی ہیں۔
ابن رجب رحمہ اللہ کی اس کتاب میں صرف یہ بات مل سکی :
وروينا من طريق مزداد بن جميل قال قال أبو المغيرة ما رأيت مثل المعافري بن عمران بعدما دفن فسمعته وهو يلقن في قبره وهو يقول لا إله إلا الله فيقول المعافى: لا إله إلا الله.[أهوال القبور وأحوال أهلها إلى النشور ص: 17]۔
امام سیوطی نے کہا:
وقال إبن رجب روينا من طريق مراد بن جميل قال قال أبو المغيرة ما رأيت مثل المعافى بن عمران وذكر من فضله قال حدثني بعض إخواني أن غانما جاء المعافى بن عمران بعد ما دفن فسمعه وهو يلقن في قبره وهو يقول لا إله إلا الله فيقول المعافى لا إله إلا الله [شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور ص: 204]۔
مگر ابن رجب کی کتاب میں یہ پوری بات نہیں‌ ملی البتہ مؤمل بن أحمد بن محمد الشيباني(المتوفی 391 ) نے کہا:
قال محمد بن عوف: ما رأيت مثل المعافى بن عمران، وما أدركت مثله في عقله وورعه وفضله، ولقد حدثني جنادة بن مروان، أنه كان يخرج في يوم الجمعة بالغداة فيحتطب على ظهره،فيجيء بالكارة الحطب على ظهره حتى يبيعها عند باب المسجد، ثم يحل (زناره؟) ثم - يعني يدخل المسجد فيصلي الجمعة. قال: وحدثني بعض إخواني أن (غانما؟) جاء المعافى / بعدما دفن فسمعه وهو يلقن في قبره وهو يَقُولُ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، فيقول المعافى: لا إله إلا الله. [مجموع فيه عشرة أجزاء حديثية (ص: 345)]۔
اولا :
یہ روایت بھی غیرثابت شدہ ہے ۔
1: حدثني بعض إخواني میں ’’بعض ‘‘ مجہول ہے۔
2: مؤمل بن أحمد بن محمد الشيباني(المتوفی 391 ) کی تاریخ پیدائش 297 ہجری ہے :
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى:463) نے کہا:
وكان مولده في سنة سبع وتسعين ومائتين[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 15/ 238]۔
اور ’’ محمد بن عوف بن سفيان الطائى 272 ہی میں‌ وفات پاگئے۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى:748) نے کہا:
قَالَ ابْنُ المُنَادِي: مَاتَ ابْنُ عَوْف فِي وَسط، سَنَة اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ وَمائَتَيْنِ -رَحِمَهُ اللهُ- [سير أعلام النبلاء للذهبي: 12/ 615]۔
لہذا یہاں بھی انقظاع ہے۔
ثانیا:
یہ غانم معلوم نہیں کون ہے یعنی ایک مجہول شخص کا عمل ہے۔
ثالثا:
’’ المعافى بن عمران الأزدى الفهمى (المتوفی 185) ‘‘ صغار تابعین میں‌ سے ہیں‌ اور تابعین کے ساتھ کیاگیا عمل یا تابعین کا اپنا عمل بالاتفاق حجت نہیں ۔
(7) ابن عابدین شامی :
امام شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قد روی عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم أنه أمر بالتلقين بعد الدفن، فيقول : يا فلان بن فلان! اذکر دينک الذی کنت عليه من شهادة أن لا إله اللہ وأن محمد رسول اللہ، وأن الجنة حق والنار حق، وأن البعث حق وأن الساعة آتية لا ريب فيها، وأن اللہ يبعث من فی القبور وأنک رضيت باللہ ربا وبالاسلام دينا، وبحمد صلی الله عليه وآله وسلم نبيا وبالقرآن إماما وبالکعبة قبلة، وبالمؤمنين إخوانا.
(ابن عابدين شامی، رد المحتار، 2 : 191)
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تدفین کے بعد مردے کو تلقین کرو، تلقین کرنے والا میت کو یہ کہے : اے فلاں کے بیٹے! یاد کرو وہ دین جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اِس اَمر کی گواہی کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، جنت اور دوزخ کے ہونے اور قیامت کے قائم ہونے پر جس میں کوئی شک نہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اہل قبور کو اٹھائے گا اور تم اللہ کو رب مانتے تھے، اسلام کو دین مانتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی اور رسول مانتے تھے، کعبہ کو قبلہ اور تمام مسلمانوں کو بھائی مانتے تھے۔‘‘
پھر فرماتے ہیں:
لا نهی عن التلقين بعد الدفن لأنه لا ضرر فيه، بل فيه نفع، فإن الميت يستأنس بالذکر علی ما ورد فيه الآثار.
’’تدفین کے بعد تلقین سے منع نہیں کیا جائے گا اِس لیے کہ اِس میں (یعنی مردے کو تلقین کرنے میں) کوئی حرج نہیں بلکہ سراسر فائدہ ہے کیوں کہ میت ذِکر اِلٰہی سے مانوس ہوتی ہے جیسا کہ آثارِ صحابہ سے واضح ہے۔‘‘
ابن عابدین کا یہ کہنا :
وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «أَنَّهُ أَمَرَ بِالتَّلْقِينِ بَعْدَ الدَّفْنِ فَيَقُولُ: يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ اُذْكُرْ دِينَك الَّذِي كُنْت عَلَيْهِ مِنْ شَهَادَةِ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ وَأَنَّ الْبَعْثَ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ وَأَنَّك رَضِيت بِاَللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نَبِيًّا وَبِالْقُرْآنِ إمَامًا وَبِالْكَعْبَةِ قِبْلَةً وَبِالْمُؤْمِنِينَ إخْوَانًا» [الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 191)]
بے بنیاد ہے کیونکہ ان الفاظ کے ساتھ کوئی روایت ہمین نہیں مل سکی ، البتہ طبرانی کی مذکورہ روایت میں اس سے ملتی جلتی بات ہے جس کا ضعف واضح کیا جاچکاہے۔
اور باقی الفاظ تو ابن عابدین کے فتوى کے ہیں جنکی کوئی شرعی حیثیت نہیں !
(8) امام ابو داؤد :
امام ابو داؤد السنن کی کتاب الجنائز کے باب الاستغفار عند القبر للميت فی وقت الانصراف (قبر کے پاس [دفن کے بعد] واپس مڑنے سے قبل میت کے لئے استغفار) میں ایک اور حدیث روایت کرتے ہیں :
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيتِ، وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ : اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيکُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ.
’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میت کو دفن کر کے فارغ ہوجاتے تو وہاں کھڑے ہوکر فرماتے : اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا مانگو، کیونکہ اب اِس سے سوالات ہوں گے۔‘‘
علامہ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
اس دلیل کے بارہ میں یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ " کلمۃ حق أرید بہا الباطل " یعنی بات تو صحیح ہے لیکن مقصد باطل ہے ۔میت کے لیے استغفار کرنا اور اسکے لیے ثابت قدمی کی دعاء کرنا اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے اور باتفاق امت یہ کام جائز ہے ۔ لیکن جس مقصد کے لیے یہ روایت پیش کی گئی ہے کہ میت کو دفنانے کے بعد اسکی قبر پر اسے تلقین کرنا اسکا شائبہ تک اس روایت میں موجود نہیں ہے
(9) ملا علی قاری :
ملا علی قاری اپنی کتاب مرقاۃ المفاتیح (1 : 327) میں اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
وقال ابن حجر: وفيه إيماء إلی تلقين الميت بعد تمام دفنه وکيفيته مشهورة، وهو سنة علی المعتمد من مذهبنا خلافاً لمن زعم انه بدعة کيف. وفيه حديث صريح يعمل به فی الفضائل اتفاقاً بل اعتضد بشواهد يرتقی بها إلی درجة الحسن.
’’حافظ ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ اِس روایت میں میت کو دفن کر چکنے کے بعد تلقین کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ہمارے مذہبِ (اَہل سنت و جماعت) کے مطابق یہ معتمد سنت ہے۔ بخلاف اِس قول کے کہ یہ بدعت (سیئہ) ہے۔ اور اس ضمن میں واضح حدیث بھی موجود ہے، جس پر فضائل کے باب میں بالاتفاق نہ صرف عمل کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے اتنے شواہد و توابع ہیں جو اسے درجہ حسن تک پہنچا دیتے ہیں۔‘‘
موصوف نے ملا علی قاری کا قول پیش کیا ہے کہ یہ کام یعنی میت کے لیے استغفار اور ثابت قدمی کی دعاء کرنی چاہیے تو ہمیں اس سے کوئی انکار نہیں
خلاصہ کلام
دنیاوی زندگی ختم ہونے پر اِنسان کے لیے دو وقت بڑے خطرناک ہیں : ایک حالتِ نزع کا؛ دوسرا تدفین کے بعد قبر میں ہونے والے سوالات کا۔ اگر مرتے وقت خاتمہ بالخیر نصیب نہ ہوا تو عمر بھر کا کیا دھرا سب برباد گیا اور اگر قبر کے امتحان میں ناکامی ہوئی تو اُخروی زندگی برباد ہوگئی۔ اِس لیے زندہ لوگوں کو چاہیے کہ ان کٹھن مراحل میں اپنے پیاروں کی بھرپور مدد کریں کہ مرتے وقت اس کے پاس کلمہ پڑھتے رہیں اور بعد اَز دفن بھی کلمہ پڑھتے رہیں تاکہ وہ اِس امتحان میں بھی کام یاب ہوجائے۔
ساری بحث کا نتیجہ اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ
قریب المرگ مسلمان کو کلمہ طیبہ یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (صلى اللہ علیہ وسلم ) کی تلقین کرنی چاہیے ۔مرنے کے بعد میت کو (طاہر القادری کی طرح) تلقین کرنا یعنی ایکی قبر پر کھڑے ہوکر منکر نکیر کے سوالوں کے جواب دھرانا وغیرہ کسی بھی دلیل سے ثابت نہیں ۔

تحریر وتخریج احادیث ::کفایت اللہ السنابلی-
ترتیب واضافہ :: رفیق طاھر -​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
آپ میری فکر چھوڑدیں جناب! آپ نے جو فتوی لگایا ہے ڈاکٹر صاحب پر آب اس کو کتاب و سنت سے غلط ثابت کریں.
عزیز بھائی میں نے فکر کی کوئی بات نہیں کی بلکہ ایک گزارش کی ہے۔اور پھر میں نے ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے کوئی فتویٰ بھی نہیں لگایا۔ہاں پہلی پوسٹ میں رانا اویس سلفی بھائی نے یہ الفاظ لکھے ہیں ’’دورے حاظر کا سب سے بڑا فتنہ‘‘ معلوم نہیں آپ کس فتویٰ کو میری جانب منسوب کررہے ہیں ؟
آپ کو اگر ان سے بغض ہے تو یہ آپ کا اپنا مسلئہ ہے مگر اس پر آپ دلیلیں دیں حدیث سے کہ جو کام انہوں نے کیا وہ غلط ہے.
محترم بغض انسانوں سے نہیں بلکہ ان کے عقائد وافکار ونظریات واعمال سے کیاجاتا ہے۔ہمیں انسانیت کےناطے ڈاکٹر صاحب سے کوئی بغض نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کے شرکیہ اور بدعیہ اعمال سے بغض ونفرت ہے۔
کوئ بڑے سے بڑا مولانا صاحب لے آؤ. اس کو جو غلط ثابت کرے.
حضرت مولانا گڈمسلم صاحب بھائی نے نقل کردہ فتاویٰ کا جواب پیش کردیا ہے۔اب آپ سے گزارش ہے کہ اس کو صحیح ثابت کریں۔
اب میں پھر آپ سے کہوں گا کہ مطالعے کی زحمت کرلیں.آپ ان احادیث کو غلط ثابت کریں.پھر دیکھتے ہیں.
چلیں بھائی زحمت کرتےہوئے گڈمسلم بھائی نے نقل کردہ فتاویٰ کس حیثیت کا مالک ہے؟ پر شیوخ کی تحقیق پیش کردی ہے۔چلیں پھر دیکھیں
اور بات رہی کاپی پیسٹ کی تو میرے پاس کیاب میں یہ احادیث لکھی ہوئ ہیں اگر آپ کے پاس نہیں تو یہ اسناد ہیں پڑھ لیں.
عزیز محترم ہمیشہ ایک بات یاد رکھیں کہ کوئی بھی ویب مخالف مسلک والوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ دوسری سائٹس سے ڈیٹا اٹھا کر کاپی پیسٹ کرتے چلے جائیں۔اور پھر آپ نے بغیر سوچے سمجھے فتویٰ کاپی پیسٹ کردیا۔حالانکہ آپ رانا اویس یا باقی بھائیوں سے صرف اتنا پوچھتے کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ عمل خلاف شریعت کیسے ہے ؟ کیونکہ ان بھائیوں نے ڈاکٹر صاحب کے اس عمل کو خلاف شریعت ہونے کادعویٰ کیا تھا آپ اس طرف حق بجانب تھے کہ اس دعویٰ پر دلیل طلب کرتے۔لیکن آپ نے یہ سوچ اپنے سے کوسوں دور رکھتے ہوئے بس کاپی پیسٹ سےہی کام چلایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
جزاک الله خیر گڈ مسلم بھائی جان، اور کفایت الله بھائی جان، اور رفیق طاہر بھائی کو بھی الله خوش رکھے آمین
 

Asim Mehmood

مبتدی
شمولیت
مئی 26، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
0
جناب آپکے عقیدے خلاف جو بھی بات ہوتی ہے اس پہ جو حدیث آجاتی ہے یا تو وہ ضعیف ہوتی ہے یا آپکی کتب میں نہیں ہوتی جس سے آپ آسانی سے کنارہ کشی کر جاتے ہیں. میں امام مسلم نے پورا باب قائم کیا ہے.جس میں مردے کو کلمہ پڑھانے پر آپ نے بحث کی ہے.امام ابن عابدین شامی نے اس پر کتنی تفصیل سے بحث کی ہے . اپنی کتابوں سے احادیث خارج کر کہ آپ صحیح عقیدہ نہیں ہو سکتے. یا جس بات کی آپکو سمجھ نہیں آتی وہ غلط ہو تی ہے.
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
جناب آپکے عقیدے خلاف جو بھی بات ہوتی ہے اس پہ جو حدیث آجاتی ہے یا تو وہ ضعیف ہوتی ہے یا آپکی کتب میں نہیں ہوتی جس سے آپ آسانی سے کنارہ کشی کر جاتے ہیں. میں امام مسلم نے پورا باب قائم کیا ہے.جس میں مردے کو کلمہ پڑھانے پر آپ نے بحث کی ہے.امام ابن عابدین شامی نے اس پر کتنی تفصیل سے بحث کی ہے . اپنی کتابوں سے احادیث خارج کر کہ آپ صحیح عقیدہ نہیں ہو سکتے. یا جس بات کی آپکو سمجھ نہیں آتی وہ غلط ہو تی ہے.
اللہ کا شکر ہے کہ ہم پہلے صحیح احادیث تلاش کرتے ہیں پھر انکے مطابق اپنا عقیدہ بناتے ہیں ۔
جبکہ آپکے اس بازار میں پہلے زلف گرہ گیر کے پیچ وخم سنوارے جاتے ہیں پھر اسکا جواز ڈھونڈا جاتا ہے اور اگر نہ ملے تو گھڑا جاتا ہے ۔ اور اگر مخالفت نظر آئے تو بودی تأویل کی جاتی ہے ۔
ہم نے اپنی کتابوں سے کوئی حدیث خارج نہیں کی ہے ۔ ابن عابدین نے فتاوى شامی میں کوئی بھی صحیح مرفوع روایت نقل نہیں کی ہے ۔ اگر ہے تو اسے بیان کرکے اسکی صحت ثابت کردیں ہم سر تسلیم خم کرنے کے لیے تیار ہیں ۔
 
Top