Asim Mehmood
مبتدی
- شمولیت
- مئی 26، 2012
- پیغامات
- 56
- ری ایکشن اسکور
- 39
- پوائنٹ
- 0
حدیث کی تیں قسمیں ہیں۔ 1-صحیح 2- حسن 3- ضعیف
اگر کوئ شخص کہے کہ وہ صرف صحیح کو مانتا ہے تو وہ جھوٹا ہےجو اس کو ضعیف کہہ کر خارج کرے وہ خارجی ہے۔
1400 سال گزر گۓ کسی نے نہیں کہا کہ ہم ضعیف کو نہیں مانتے
غیر صحیح احادیث اصول حدیث کی اصطلاع ہے۔غیر صحیح کا مطلب اردو والا نہیں ہے بلکہ غیر صحیح اور صحیح میں 5 شرائط کا فرق ہے
اگر آپ غیر صحیح احادیث کو نہ مانیں تو کئ احکام پر عمل ہی ترک ہوجاتا ہے۔تمام آئمہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ضعیف احادیث کو بھی مانا جاۓ۔ ہر اک امام نے ہی مانا اور فرمایا کہ جس کو ضعیف کہا جارہا ہے اس کی سند کمزور ہے اس کا متن نہیں۔امام بخاری سے تمام مکتب فکر کا اس بات پر اجماح ہے کہ ان احادیث کو مانا جاۓ۔۔ضعیف احادیث سے کئ اھکام شریعت ثابت ہوۓ ہیں اگر آپ ضعیف کو نہیں مانتے ان کو ترک کرتے ہیں تو اس سے آپکو ان شریعت کے احکامکو بھی ترک کرنا ہوگا جو آپ کر رہے ہیں۔
امام بخاری نے 16 لاکھ احادیث کو جمع کیا۔ان میں سے ان کو 3 لاکھ زبانی یاد تھیں اور ان 3 لاکھ سےانہوں نے 1 لاکھ کو صیع کہا اور باقی کو ضعیف اور احسن کہا مگر ان ضعیف کو بھی کسی نے انکا ر نہیں کیا۔آج تک۔اور اس پر ابن تیمیہ اور ابن کثیر کا بھی انکار نہیں ہے کہ آپ صرف صحیع کو ہی مانیں۔
ضعیف احادیث سے کئ احکام شریعت ثابت ہیں اور یہ احدیث جمع کرنا اور ان پر عمل امام بحاری سے ثابت ہے، عورت کی ماہواری سے متعلق،
عیدین کے احکام، صدقہ کے جائز ہونے کے احکام اور ان کے علاوہ کئ احکام شریعت میں ان سے متعلق ہیں۔
صرف صحیع کو مان لینا اور باقی کو آپ سا وجہ سے چھوڑ دیں کہ وہ صحیع نہیں تو یہ حدیث کے اصول اور اس کے فن کے خلاف ہے
جن کی آپکو سند نہیں ملی ان کو تلاش کریں .امام نسائ نے باب قائم کیا ہے ان پر اور آپ نے ان کو ضعیف تک تو اپنے عقیدے کی بنا پر رد کی یا کچھ آپکو ملی نہیں. تو جو آپکو نہیں ملی ان کو کہیں اور سے پتا کر لیں..
اگر کوئ شخص کہے کہ وہ صرف صحیح کو مانتا ہے تو وہ جھوٹا ہےجو اس کو ضعیف کہہ کر خارج کرے وہ خارجی ہے۔
1400 سال گزر گۓ کسی نے نہیں کہا کہ ہم ضعیف کو نہیں مانتے
غیر صحیح احادیث اصول حدیث کی اصطلاع ہے۔غیر صحیح کا مطلب اردو والا نہیں ہے بلکہ غیر صحیح اور صحیح میں 5 شرائط کا فرق ہے
اگر آپ غیر صحیح احادیث کو نہ مانیں تو کئ احکام پر عمل ہی ترک ہوجاتا ہے۔تمام آئمہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ضعیف احادیث کو بھی مانا جاۓ۔ ہر اک امام نے ہی مانا اور فرمایا کہ جس کو ضعیف کہا جارہا ہے اس کی سند کمزور ہے اس کا متن نہیں۔امام بخاری سے تمام مکتب فکر کا اس بات پر اجماح ہے کہ ان احادیث کو مانا جاۓ۔۔ضعیف احادیث سے کئ اھکام شریعت ثابت ہوۓ ہیں اگر آپ ضعیف کو نہیں مانتے ان کو ترک کرتے ہیں تو اس سے آپکو ان شریعت کے احکامکو بھی ترک کرنا ہوگا جو آپ کر رہے ہیں۔
امام بخاری نے 16 لاکھ احادیث کو جمع کیا۔ان میں سے ان کو 3 لاکھ زبانی یاد تھیں اور ان 3 لاکھ سےانہوں نے 1 لاکھ کو صیع کہا اور باقی کو ضعیف اور احسن کہا مگر ان ضعیف کو بھی کسی نے انکا ر نہیں کیا۔آج تک۔اور اس پر ابن تیمیہ اور ابن کثیر کا بھی انکار نہیں ہے کہ آپ صرف صحیع کو ہی مانیں۔
ضعیف احادیث سے کئ احکام شریعت ثابت ہیں اور یہ احدیث جمع کرنا اور ان پر عمل امام بحاری سے ثابت ہے، عورت کی ماہواری سے متعلق،
عیدین کے احکام، صدقہ کے جائز ہونے کے احکام اور ان کے علاوہ کئ احکام شریعت میں ان سے متعلق ہیں۔
صرف صحیع کو مان لینا اور باقی کو آپ سا وجہ سے چھوڑ دیں کہ وہ صحیع نہیں تو یہ حدیث کے اصول اور اس کے فن کے خلاف ہے
جن کی آپکو سند نہیں ملی ان کو تلاش کریں .امام نسائ نے باب قائم کیا ہے ان پر اور آپ نے ان کو ضعیف تک تو اپنے عقیدے کی بنا پر رد کی یا کچھ آپکو ملی نہیں. تو جو آپکو نہیں ملی ان کو کہیں اور سے پتا کر لیں..