• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر درود ( صَلَّى اللهُ عَلَيْہ وَسَلَم) کا ثبوت؟

Abdul Mussavir

مبتدی
شمولیت
ستمبر 22، 2017
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
25
السلام علیکم ۔
ہمارے یہاں ایک جماعت ہے جو اعتراض کرتی ہے کے مختصر سا درود ﷺ کیا حدیث میں موجود ہے ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
صلى الله عليه وسلم
میں وہی الفاظ مختصر ہیں، جو دیگر احادیث میں تفصیل سے ہیں۔
یہی الفاظ حدیث میں اس طرح ہیں کہ نہیں، یہ دیکھنا پڑے گا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ۔
ہمارے یہاں ایک جماعت ہے جو اعتراض کرتی ہے کے مختصر سا درود ﷺ کیا حدیث میں موجود ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
قصہ معراج میں منقول ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ تیسرے آسمان پر گئے تو ان سے پوچھا گیا:
ومن معك؟ ”آپ کے ساتھ کون ہیں؟“
اس پر جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا:
محمد صلى الله عليه وسلّم.
”میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔“ (صحیح مسلم :162)
*
صلى الله عليه وسلم کے الفاظ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا امت کا تواتر کے ساتھ اتفاقی عمل سے بھی ثابت ہے، جو کہ ایک مستقل دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔
*
دیگر انبیاے کرام کے اسماے گرامی کے ساتھ بھی صلى الله عليه وسلم کہنا درست ہے جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فينزل عيسى ابن مريم صلى الله عليه وسلم.
”چنانچہ عیسیٰ بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم (آسمان سے) اتریں گے۔“ (صحیح مسلم : 392/2، ح : 2897)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ایک اور مختصر درود
دعاءِ قنوت کےضمن میں مروی ہے :
صَلَّى اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ

سنن النسائی (1746 ) میں ہے :
عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فِي الْوِتْرِ قَالَ قُلْ اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ
ترجمہ :
سیدناحسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات وتر میں پڑھنے کے لیے سکھائے۔ فرمایا: کہہ ، اے اللہ! مجھے راہ راست پر چلا ان لوگوں میں شامل فرما کر جن کو تونے راہ راست پر چلایا اور رکھا۔ اور مجھے عافیت عطا فرما ان لوگوں میں شامل فرما جن کو تونے عافیت دی۔ اور میرا ولی ہو ان لوگوں میں شامل فرما کر جن کا تو ولی ہوا۔ اور میرے لیے ان چیزوں میں برکت فرما جو تونے عطا فرمائیں۔ اور مجھے اس فیصلے کے شراور نقصان سے بچا جو تونے فرمایاکیونکہ تو (جوچاہے) فیصلے فرماتا ہے لیکن میرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور بلاشبہ وہ شخص ذلیل نہیں ہوسکتا جس کا تو ولی ہو۔ اے ہمارے رب! تو بابرکت اور بلندوبالا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں فرمائے۔‘‘
ــــــــــــــــــــــــ
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
السلام علیکم
اس موقف کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
درودِ پاک کے وہ الفاظ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول وماثورہیں،ان کا التزام افضل ہے۔البتہ شرک وبدعت اور مبالغہ سے پاک ایسے الفاظ،جو منقول نہ بھی ہوں،کے ساتھ درود پڑھنا جائز ہے،جیسا کہ سلف وخلف اہل علم کا معمول رہا ہے۔

ماخوذ:

http://mazameen.ahlesunnatpk.com/durood-kai-masnoon-ahkaam-o-masail/
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم
اس موقف کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
درودِ پاک کے وہ الفاظ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول وماثورہیں،ان کا التزام افضل ہے۔البتہ شرک وبدعت اور مبالغہ سے پاک ایسے الفاظ،جو منقول نہ بھی ہوں،کے ساتھ درود پڑھنا جائز ہے،جیسا کہ سلف وخلف اہل علم کا معمول رہا ہے۔

ماخوذ:

http://mazameen.ahlesunnatpk.com/durood-kai-masnoon-ahkaam-o-masail/
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین
درود شریف کے چند مسائل

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
ترجمہ
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی مکرم پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجتے رہا کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احادیث میں آیا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہ ! سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں (یعنی التحیات میں السلام علیک ایھا النبی! پڑھتے ہیں) ہم درود کس طرح پڑھیں؟ اس پر آپ نے وہ درود ابراہیمی بیان فرمایا جو نماز میں پڑھا جاتا ہے ؛
عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا السَّلَامُ عَلَيْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ فَكَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكَ قَالَ قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
سیدناکعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ عرض کیا گیایا رسول اللہ ! آپ پر سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہوگیا ہے ، لیکن آپ پر ” صلوٰۃ “ کا کیا طریقہ ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ یوں پڑھا کرو ۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ))
(صحیح بخاری4797)
علاوہ ازیں احادیث میں درود کے اور بھی صیغے آتے ہیں جو پڑھے جاسکتے ہیں۔
أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (صحیح البخاری 3369)
جناب ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجا کریں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں پڑھا کرو ” اے اللہ ! رحمت نازل فرما محمدپر اور ان کی بیویوں پر اور ان کی اولاد پر جیساکہ تو نے رحمت نازل کیا ابراہیم پر اور اپنی برکت نازل کیامحمد پر اور ان کی بیویوں اور اولاد پر جیسا کہ تونے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر ۔ بے شک تو انتہائی خوبیوں والا اور عظمت والا ہے ۔

نیز مختصراً ( صلی اللہ علی رسول اللہ وسلم ) بھی پڑھا جاسکتا ہے ،
تاہم (الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ وسلم!) پڑھنا اس لیے صحیح نہیں کہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب ہے اور یہ صیغہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عام درود کے وقت منقول نہیں ہے اور تحیات میں السلام علیک ایھا النبی! چونکہ آپ سے منقول ہے اس وجہ سے اس وقت میں پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ،
مزید برآں اس کا پڑھنے والا اس فاسد عقیدے سے پڑھتا ہے کہ آپ اسے براہ راست سنتے ہیں یہ عقیدہ فاسدہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور اس عقیدے سے مذکورہ خانہ ساز درود پڑھنا بھی بدعت ہے جو ثواب نہیں گناہ ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور درود شریف پڑھنے کے مقامات تین قسم کے ہیں :
(1) شرعی عبادات کے اندر جیسے نماز میں متعین الفاظ سے درود شریف کی تعلیم دی گئی ہے ،ان مقامات میں صرف صحیح احادیث میں منقول صیغے ہی پڑھے جائیں گے ،
(2) علیحدہ درود شریف کا ورد شرعی حکم سمجھ کر کرنا ۔۔مثلاًٍ مسجد یا گھر میں بیٹھے بیٹھے درود شریف پڑھنا ۔۔اس جگہ بھی صرف منقول و ماثور الفاظ کا التزام کیا جائے ،
3 ۔: خطبات و دروس اور جہاں جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی لیا یا سنا یا لکھاجائے تودرود شریف پڑھنا ضروری ہے ، ایسے مواقع میں مختصراً (صلی اللہ علیہ وسلم ) پڑھا ،لکھا جائے جو سلف سے منقول ہے ،یہی بہتر و اسلم ہے ،
اور شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر حفظہ اللہ نے جو لکھا ہے کہ :
شرک وبدعت اور مبالغہ سے پاک ایسے الفاظ،جو منقول نہ بھی ہوں،کے ساتھ درود پڑھنا جائز ہے،جیسا کہ سلف وخلف اہل علم کا معمول رہا ہے۔
اس کے نظائر اور مثالیں علمائے سلف کی کتابوں میں اکثر مل جاتے ہیں ،جہاں کتاب یا مضمون یافتاویٰ کے ابتداء ۔۔ انتہا میں درود شریف لکھا جاتا ہے ،
مثلاً " صلی اللہ علی نبینا محمد "
واللہ تعالیٰ اعلم​
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
سنن النسائی (1746 ) میں ہے :
عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فِي الْوِتْرِ قَالَ قُلْ اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ

اس کی سند جامع کتب تسعہ میں ضعیف ہے .....
مہربانی کر کے اس کی تحقیق بھی بتا دیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس کی سند جامع کتب تسعہ میں ضعیف ہے ،(سنن النسائی (1746 ) میں ہے :
عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فِي الْوِتْرِ قَالَ قُلْ اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ ))

مہربانی کر کے اس کی تحقیق بھی بتا دیں

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
قنوت وتر کی دعاء میں سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی حدیث بالکل صحیح ہے ؛
علم حدیث کے عظیم علماء نے اسے صحیح کہا ہے ،تفصیل درج ذیل ہے :
ـــــــــــــــــــــــــ
(1)أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ)
امام نوویؒ الاذکار میں میں اسے : الحديث الصحيح "کہتے ہیں ،اپنی کتاب "الاذکار " میں فرماتے ہیں :

ما روينا في الحديث الصحيح في سنن أبي داود، والترمذي، والنسائي، وابن ماجه، والبيهقي، وغيرها، بالإِسناد الصحيح عن الحسن بن عليّ رضي الله عنهما قال: علّمني رسولُ الله صلى الله عليه وسلم كلماتٍ أقولُهُنَّ في الوتر: " اللَّهُمَّ اهْدِني فِيمَنْ هَدَيْتَ، وعَافِني
فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلّني فِيمَن تَوَلَّيْتَ، وبَارِكْ لِي فِيما أَعْطَيْتَ، وَقِني شَرَّ ما قَضَيْتَ، فإنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنا وَتَعالَيْتَ ".

قال الترمذي: هذا حديث حسن، قال: ولا نعرف عن النبي صلى الله عليه وسلم في القنوت شيئاً أحسن من هذا.
ترجمہ :
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ : حدیث صحیح میں روایت کیا گیا ہے اور یہ حدیث سنن ابی داود ،سنن الترمذی ؒ ،سنن ابن ماجہ ؒ ،سنن النسائیؒ ، اور السنن الکبری للبیہقیؒ میں ہے کہ :
جناب حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ کلمات تعلیم فرمائے جنہیں میں وتر میں پڑھا کروں “ اور وہ یہ ہیں « اے اللہ ! جن لوگوں کو تو نے ہدایت دی ہے مجھے بھی ان کے ساتھ ہدایت دے ۔ اور جن کو تو نے عافیت دی ہے مجھے بھی ان کے ساتھ عافیت دے ( یعنی ہر قسم کی برائیوں اور پریشانیوں وغیرہ سے ) اور جن کا تو والی ( دوست اور محافظ ) بنا ہے ان کے ساتھ میرا بھی والی بن ۔ اور جو نعمتیں تو نے عنایت فرمائی ہیں ان میں مجھے برکت دے ۔ اور جو فیصلے تو نے فرمائے ہیں ان کے شر سے مجھے محفوظ رکھ ۔ بلاشبہ فیصلے تو ہی کرتا ہے ، تیرے مقابلے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا ۔ اور جس کا تو والی اور محافظ ہو وہ کہیں ذلیل نہیں ہو سکتا ۔ اور جس کا تو مخالف ہو وہ کبھی عزت نہیں پا سکتا ، بڑی برکتوں ( اور عظمتوں ) والا ہے تو اے ہمارے رب ! اور بہت بلند و بالا ہے » “
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، میرے علم میں وتر کے قنوت کے سلسلے میں اس سے بہتر کوئی اور چیز نبی اکرمﷺسے مروی ہو معلوم نہیں ۔
دیکھئے :الاذکار ،تحقیق شعیب ارناؤط ص48
https://archive.org/details/WAQazkarn/page/n48
ــــــــــــــــــــــــــ
(2) امام حافظ ا حمد بن علی ابن حجر عسقلانی (المتوفی 852 ھ)
وقال الحافظ في "نتائج الأفكار": هذا حديث حسن صحيح" (انیس الساری 2/870 )
الاذکار کی تخریج "نتائج الافکار " میں اس حدیث کو "حسن صحیح " کہتے ہیں ۔

(3) عرب کے علم حدیث کے مشہور محقق علامہ حسیں سلیم اسد بھی اس حدیث کو "اسنادہ صحیح " لکتے ہیں :
قال الشیخ حسین سلیم اسد في تخريج سنن الدارمي : إسناده صحيح 1633

(4) اور معروف محقق علامہ شعیب ارناؤط رحمہ اللہ بھی اس کی سند کو صحیح اور رواۃ کو ثقہ لکھتے ہیں :
وقال الشيخ شعيب الارناؤط (في تعليق المسند 3/246: إسناده صحيح، رجالُه كلهم ثقات. أبو الحوراء: هو ربيعة بن شيبان السعدي.
وأخرجه ابن الجارود (272) ،. وابن خزيمة (1095) ، والطبراني (2712) من طريق
وكيع، بهذا الإسناد.
وأخرجه البيهقي 2/209 من طريق العلاء بن صالح، عن بريد، به.
وأخرجه الطبراني (2713) من- طريق الربيع بن ركين، عن أبي يزيد الزراد، عن أبي الحوراء، به.
وأخرجه ابن أبي عاصم في "السنة" (375) ، وفي "الآحاد والمثاني" (415) ، والطبراني (2700) ، والحاكم 3/172 وصححه على شرط الشيخين من طريق موسى بن عقبة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، عن الحسن.
وأخرجه النسائي 3/248 من طريق موسى بن عقبة، عن عبد الله بن علي، عن الحسن. وسيأتي برقم (1721) و (1723) و (1727)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ ناصرالدین البانیؒ کی نماز کے مسائل و احکام پر تفصیلی کتاب "اصل صفۃ الصلاۃ " ہے
اس میں قنوت وتر کی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :
" اس کی اسناد بالکل صحیح ہے ،اور تمام راوی ثقہ ہیں "

هو من حديث الحسن بن علي نَفْسِه قال:
علمني رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كلمات أقولهن في قنوت الوتر: ... فذكرها.
أخرجه أبو داود (1/225) ، والنسائي (1/252) ، والترمذي (2/328) ، والدارمي
(1/373 - 374) ، وابن ماجه (1/358) ، وابن نصر (134) ، والحاكم (3/172) ،
والبيهقي (2/209 و 497) ، وأحمد (1/199) ، والطبراني في " الكبير "، {وكذا ابن
أبي شيبة [2/95/6888] } من طرق عن بريد ابن أبي مريم عن أبي الحوراء عنه.
ورواه ابن خزيمة { (1/119/2) = [2/151 و 152/1095 و 1096] } ، وابن حبان
في " صحيحيهما " (*) - كما في " نصب الراية " (2/125) ، و " التلخيص " (4/425) -.
والزيادة عند البيهقي، والطبراني.
والحديث صحيح - كما قال النووي (3/496) -، ورجاله كلهم ثقات. وسكت عليه الحاكم. واقتصر الترمذي على قوله:" حديث حسن ". وهو قصور.
وأما تضعيف ابن حزم له في " المحلى " (4/147 - 148) ؛ فمما لا يلتفت إليه؛ لأنه لا سلف له في ذلك ولا حجة.
(أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم3/975)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
فضائل درود قرآن کی روشنی میں ؛

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾ (الشرح 94 : 4)

(اے نبی ! ) ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔“
اہل علم اس کے تین معانی بیان کرتے ہیں؛
(1) نبوت و رسالت کے لازوال اعزاز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو بلندی نصیب فرمائی۔
(2) آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کیا، جیسا کہ دنیا میں بلندی عطا فرمائی۔
(3) اللہ تعالی کے ذکر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر ہو گا۔
٭ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أتاني جبريل، فقال : إن ربى وربّك يقول : كيف رفعت لك ذكرك ؟ قال : الله أعلم، قال : إذا ذكرت ذكرت معي .

”جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور بتایا : آپ کا اور میرا رب فرماتا ہے : میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ آپ کا ذکر بھی کیا جائے گا۔“ (تفسیر الطبری : 235/30)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (3382) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر درود و سلام پڑھنا ایک مومن کا حق ہے، جو ماں باپ کے حق سے بڑھ کر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قدر پر درود و سلام پڑھنا دراصل حکم الہیٰ کی تعمیل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت و عقیدت کی علامت و نشانی ہے، کیوں کہ محب اپنے محبوب کے ذکر خیر میں مشغول رہتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر سے کوئی غافل ہی محروم ہو سکتا ہے۔ یہ مبارک عمل اللہ اور اس کے فرشتوں کی سنت ہے۔
فضائل درود قرآن کریم کی روشنی میں :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ (33-الأحزاب:56)

”بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں، مومنو! تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجا کرو۔“
٭ امام مفسرین، علامہ طبری رحمہ اللہ (224۔310ھ) فرماتے ہیں :
وقد يحتمل أن يقال : إن معني ذلك أن الله يرحم النبي، وتدعو له ملائكته ويستغفرون .

”اس آیت کا یہ معنی کرنا بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرماتا ہے اور اللہ کے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا و استغفار کرتے ہیں۔“ (جامع البيان فى تأويل آي القرآن، المعرف بـ تفسير الطبري: 174/19)
* شارح صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773۔852ھ) علامہ حلیمی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
معنى الصّلاة على النبى صلى الله عليه وسلّم تعظيمه، فمعنى قولنا : اللهم صل على محمّد، عظم محمدًا، والمُراد تعظيمُه فى الدّنيا بإغلاء ذكره وإظهار دينه وإبقاء شريعته، وفي الآخرة بإجزال مثوبته وتشفيعه فى أمته وإبداء فضيلته بالمقام المحمود، وعلى هذا، فالمُراد بقوله تعالى ﴿صلوا عليه﴾ : أدّعوا ربكم بالصلاة عليه.

”نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کا معنی آپ صلى الله عليه وسلم کی تعظیم ہے۔ ہم جب اللَّهُمَّ صل عَلٰی محمّد کہتے ہیں تو مراد یہ ہوتی ہے کہ اے اللہ ! محمد صلى الله عليه وسلم کو عظمت عطا فرما۔ دنیا میں آپ صلى الله عليه وسلم کو عظمت دینے سے مراد آپ کے ذکر کو بلند کرنا، آپ کے دین کو غالب کرنا اور آپ کی شریعت کو باقی رکھنا ہے، جب کہ آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عظمت دینے سے مراد آپ کے ثواب میں اضافہ، آپ کی اپنی امت کے لئے شفاعت کو قبول کرنا اور مقام محمود کے ذریعے آپ کی فضیلت کو ظاہر کرنا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اللہ تعالی کے فرمان: ﴿صَلَّوْا عَلَيه﴾ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عظمت عطا فرمائے۔“ (فتح الباري شرح صحيح البخاري : 156/11)
* حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (691-751 ھ) لکھتے ہیں:
بل الصّلاة المأمُور بها فيها هي الطلب من الله ما أخبر به عن صلاته وصلاة ملائكته، وهي ثناء عليه وإظهار لفضله وشرفه، وإرادة تكريمه وتقريبه، فهى تتضمّن الخبر والطلب، وسمّى هذا السؤال والدّعاء منا نحن صلاة عليه لوجهين؛ أحدهما أنه يتضمّن ثناء المُصلى عليه والإرادة بذكر شرفه وفضله والإرادة والمحبة لذلك من الله تعالى، فقد تضمّنت الخبر والطلب، والْوجْهُ الثاني أنّ ذلك سمى مِنا صلاة لسؤالنا من الله أن يصلي عليه، فصلاة الله عليه؛ ثناؤه وإرادتُهُ لرفع ذكره وتقريبه، وصلاتنا نحن عليه؛ سُؤالنا الله تعالى أن يفعل ذلك به.

”اس آیت کریمہ میں جس درود کا حکم دیا گیا ہے، وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے اس کے اور اس کے فرشتوں کے درود کی طلب ہے۔ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا، آپ کے فصل و شرف کا اظہار اور آپ کی تکریم و قربت کا ارادہ ہے۔ اس درود میں خبر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کا اظہار) اور طلب ( اللہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سوال) دونوں چیزیں موجود ہیں۔ ہماری طرف سے اس سوال و دعا کو درود دو وجہ سے کہا گیا ہے: ایک تو اس لیے کہ جب نمازی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہے تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح اور آپ کی شرف و فضیلت کا ذکر ہوتا ہے نیز اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا ارادہ ہوتا ہے۔ یوں اس میں خبر و طلب دونوں موجود ہیں، ہمارے سوال اور ہماری دعا کو درود کہے جانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا درود درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا قرب عطا فرمانا ہوتا ہے۔ جب کہ ہمارے درود پڑھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اللہ تعالی سے ایسا کرنے کی دعا کرتے ہیں۔“ (جلاء الأفهام، صں :162)
* امام اہل سنت، مورخ اسلام، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (700-774ھ) فرماتے ہیں:
والمقصود من هذه الآية أنّ اللہ سبحانه و تعالى أخبر عباده بمنزلة عبده ونبيه عنده فى الملا الأعلی؛ بأنه يثنى عليه عند الملائكة المقربين، وأنّ الملائكة تصلّي عليه، ثم أمر تعالى أهل العالم السفلي بالصلة والتسليم عليه، ليجتمع الثناء عليه من أهل العالمين؛ العلوى والسفلي جميعا.

”اس آیت سے مقصود اللہ تعالی کا اپنے بندوں کو یہ خبر دینا ہے کہ اس کے ہاں آسمانوں میں اس کے بندے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقام ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مقرب فرشتوں کے پاس تعریف کرتا ہے، نیز فرشتےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ خاکی جہان والوں کو بھی حکم دیتا ہے کہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھیں، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف عالم بالا اور عالم خاکی دونوں جہانوں سے جمع ہو جائے۔“ (تفسير ابن كثير:457/6، ت سلامة)

مختصراً (صلی اللہ علیہ وسلم )
 
Last edited:
Top