شیخ عبد القادر جیلانی کی شخصیت
دنیا کی کسی بھی بڑی و نادر شخصیت کی طرح شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی شخصیت بھی متنازع رہی ہے کچھ لوگوں نے آپ کے بارے میں اسقدر غلو سے کام لیا کہ انہیں الوہیت اور ربوبیت کے مقام پر پہنچا دیا۔ ان سے مرادیں مانگنے لگے ، ان سے اپنی بگڑی بنوانے لگے اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر انہیں کو نفع و نقصان کے لئے پکارنے لگے حتی کہ اس جماعت کے لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ :
بادشاہ ہر دو عالم شیخ عبد القادر ہست
{دونوں عالم کے بادشاہ شیخ عبد القادر ہیں}
سرور اولاد آدم شیخ عبد القادر ہست
{اولاد آدم کے سردار شیخ عبد القادر ہیں}
آفتاب و ماہ تاب و عرش کرسی و قلم
{سورج اور چاند ، عرش کرسی اور قلم}
زیر پائے شیخ عبد القادر ہست
{شیخ عبد القادر کے پیر کے نیچے ہے }۔
بدقسمتی سے آج یہ اشعار شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے مزار پر لکھے ہوئے ہیں۔ [الشیخ عبد القادر جیلانی ص ۴، سعید مسفر]۔
کسی اردو شاعر نے یہاں تک کہہ دیا:
بلاد اللہ ملکی تحت حکمی سے ہے یہ ظاہر
کہ عالم میں ہر ایک شئ پر ہے قبضہ غوث اعظم کا
گئے اک وقت میں ستر مریدوں کے یہاں آقا
سمجھ میں آ نہیں سکتا کرشمہ غوث اعظم کا
یہ پورا قصیدہ جو تفسیر احسن البیان کے ضمیمہ پر موجود ہے اسے پڑھیں اور عبرت حاصل کریں، نیز دیکھیں کہ اس شاعر نے اللہ کے لئے کیا چیز باقی چھوڑی ہے ، اس قصیدہ کو پڑھ کر آپ محسوس کریں گے کہ یہ ایسا شرک ہے جس کا ارتکاب عرب کے جاہلی مشرکین نے بھی نہیں کیا تھا۔
ایک اور مشرک شاعر کہتا ہے :
ہے باب الشیخ کا دیوان خانہ خلد سے بڑھ کر
رواں بغداد پر اک قطب ربانی کی چادر ہے
اس جماعت نے غلو میں حضرت شیخ کی طرف ایسے اقوال و کرامتیں اور تصرفات منسوب کئے ہیں جو حد بیان سے باہر ہیں ،کہیں ملک الموت سے اپنے مرید کی روح چھین لے رہے ہیں تو کہیں اللہ تعالی سے زبردستی ایک ایسے شخص کو سات بیٹے دلوا دے رہے ہیں جس کی تقدیر میں اللہ تعالی نے ایک بیٹا بھی نہیں رکھا تھا حتی کہ کہیں انکے غوث پاک صاحب میدان محشر میں اپنے مریدوں کو اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف جہنم سے نکال کر جنت میں ڈال رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
شیخ عبد القادر جیلانی سے متعلق ایک اور جماعت ہے جو شیخ کی بزرگی، ولایت اور ان کے فضائل کا اقرار ہی نہیں کرتی بلکہ ان کی وہ باتیں جس میں تاویل کی بھی گنجائش ہے اس میں شیخ کو متہم کرتی ہے ، کہا جاتا ہے کہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس جماعت کی تردید میں ایک مستقل کتاب بھی لکھی ہے ۔ [ذیل الطبقات ۲۹۵/۱]۔
آج کتنے لوگ ہیں جو اپنے کو مسلک سلف کا حامل سجمھتے ہیں حالانکہ وہ حضرات اہل بدعت کی مخالفت میں شیخ کا نام لینا، ان کی کتابیں پڑھنا اور ان کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔
تیسری جماعت اہل سنت و جماعت یا اہل حدیثوں کی ہے جو شیخ عبد القادر جیلانی کو اپنے اماموں میں سے ایک امام تسلیم کرتی ہے ، انہیں امت محمدیہ کا ایک بڑا عالم مانتی ہے ، اعمال قلوب اور اصلاح باطن میں انہیں اپنے وقت کا مجدد تسلیم کرتی ہے ، ان کی سچی کرامات کا اعتراف کرتی ہے ، ان کے بارے میں غلو سے کام نہیں لیتی اور نہ ہی ان کی حق تلفی کرتی ہے بلکہ افراط و تفریط کی درمیانی راہ پر رہ کر شیخ عبد القادر جیلانی کو احترام و تقدیر کی نظر سے دیکھتی ہے البتہ انہیں عام اماموں، عالموں، فقیہوں اور بزرگوں کی طرح ایک انسان لیکن عام انسانوں سے بہت اونچا تسلیم کرنے کے باوجود خطا ونسیان سے بری نہیں سمجھتی۔
مثال کے طور پر امام ذہبی رحمہ اللہ ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:
"الشیخ الامام العالم الزاھد العارف القدوۃ شیخ الاسلام علم الاولیاء محی الدین ۔۔۔شیخ بغداد" [السیر ۴۲۹/۲۰]۔
ان تعریفی القاب کے ساتھ ساتھ ان کے تذکرہ کے آخر میں لکھتے ہیں:
خلاصہ یہ کہ شیخ عبدا لقادر بڑی شان والے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ ان کے بعض اقوال و دعوے قابل گرفت ہیں۔ حاضری اللہ کے پاس ہے ۔ ان کی طرف منسوب بعض اقوال ان پر الزام تراشی ہے ۔ [السیر ۴۵۱/۲۰]۔
امام ذہبی کے ہم عصر ایک اور امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ان میں کافی زہد تھا۔۔۔ وہ صالح اور متقی تھے ، انہوں غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب جیسی کتابیں لکھیں ان میں بہت سی باتیں بڑی عمدہ ہیں البتہ ان میں بہت سی ضعیف اور موضوع حدیثوں کو بھر دیا ہے ، خلاصہ یہ کہ وہ مشایخ کے سردار تھے ۔ [البدایہ ۱/۲۷۰]۔
قریب قریب اسی زمانہ کے ایک حنبلی امام حافظ ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
الزاھد شیخ العصر وقدوۃ العارفین سلطان المشائخ وسید اھل الطریقۃ فی وقتہ محی الدین ابو محمد صاحب المقامات والکرامات والعلوم والمعارف والاصول المشہورۃ ۔ [ذیل طبقات الحنابلہ ۱/۲۹۰]۔
ان تعریفی القاب کے بعد ان کے تذکرہ میں ان کی طرف منسوب ایک قول کی تردید و تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس قسم کے اقوال کے بارے میں سب سے اچھی بات وہ ہے جو ابو حفص السہروردی نے اپنی کتاب عوارف المعارف میں کہی ہے کہ شیوخ کی یہ وہ لفاظیاں ہیں جن میں ان کی اقتداء نہ کی جائے گی اور نہ ہی ان سے ان کے مقامات و درجات میں فرق پڑتا ہے کیونکہ کوئی بھی ہو ہر ایک کی بات مانی بھی جائے گی اور رد بھی کر دی جائے گی سوائے معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کے {ہر بات مانی جائے گی کوئی بات رد نہ کی جائے گی}۔ [ذیل طبقات ۱/۲۹۵]۔
حاصل یہ کہ اگر اس قسم کے اقوال نقل کئے جائیں تو ان کے لئے مکمل دفتر کی ضرورت ہے مقصد صرف یہ ہے کہ اہل سنت و جماعت نے نہ شیخ کو ان کے حق سے اوپر اٹھا کر ان کے بارے میں غلو سے کام لیا نہ انہیں معصوم عن الخطا سمجھا، نہ انہیں قادر مطلق اور مختار کل تسلیم کر کے شرک کے مرتکب ہوئے اور نہ ہی ان کی حق تلفی کی کہ انہیں امام وقت، ولی اللہ اور صاحب کرامت بزرگ وغیرہ ماننے سے انکار کر دیا۔