• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر سیرت - شیخ عبد القادر جیلانی

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مختصر سیرت - شیخ عبد القادر جیلانی

مقصود الحسن فیضی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نام و نسب


آپ کا نام عبد القادر بن ابی صالح جنگی دوست بن عبد اللہ ہے ۔
[سیر اعلام النبلاء ۴۳۹/۲۰]
کہا جاتا ہے کہ آپ کا نسب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ۔ [ذیل طبقات الحنابلہ ۲۹۰/۱]
آپ کا مشہور لقب محی الدین اور کنیت ابو عبد اللہ ہے ۔ امام ذہبی رحمہ اللہ اور دوسرے مورخین نے آپ کو مزید متعدد القاب سے یاد کیا ہے ۔ مثلاً امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الشیخ الامام العالم الزاھد العارف القدوہ شیخ الاسلام علم الاولیاء محی الدین ابو محمد عبد القادر۔ [سیر : ۴۳۹/۲۰]۔
حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
شیخ العصر و قدوۃ العارفین و سلطان المشائخ، صاحب المقامات والکرامات والعلوم والمعارف والاحوال المشہورۃ۔ [ذیل الطبقات ۲۹۰/۱]۔
البتہ آج کل آپ کو پیران پیر، غوث أعظم، غوث پاک، قطب الاقطاب جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ یہ القاب غیر شرعی بلکہ بعض تو قطعا جائز نہیں ہیں۔ جیسے غوث یاغوث اعظم وغیرہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
پیدائش

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ ۴۷۰ھ یا ۴۷۱ ھ میں صوبہ گیلان کے بشتیر نامی شہر میں پیدا ہوئے ۔ [دائرۃ المعارف للبستانی ۶۲۱/۱۱]۔
آپ کا خاندان ایک علمی گھرانہ تھا، آپ کے نانا ابو عبد اللہ الصومعی مشہور صوفی بزرگ تھے حتی کہ آپ سبط ابی عبد اللہ الصومعی الزاھد کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ [السیر ۴۴۴/۲۰]۔یعنی ابو عبد اللہ الصومعی زاہد کے نواسے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
آپ کا حلیہ

کتابوں میں آپ کا حلیہ کچھ اس طرح بیان ہوا ہے کہ میانہ قد، گندمی رنگ، چوڑا سینہ دبلا پتلا بدن، بھری داڑھی، بھنویں ایک دوسرے سے ملی ہوئی اور بارعب چہرہ۔ [دائرۃ المعارف للبستانی ۶۲۱/۱۱]۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
تعلیم و تربیت

آپ کی ابتدائی تعلیم سے متعلق مستند کتب تاریخ خاموش ہیں، بعض کتب سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ آپ کا خاندان ایک علمی خاندان تھا، آپ کے شہر کے لوگ مذہب حنبلی پر قائم تھے اور آپ نے بغداد کے سفر سے پہلے قرآن مجید وغیرہ کی تعلیم حاصل کر لی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بغداد کا سفر

اس وقت بغداد جہاں مسلمانوں کا سیاسی مرکز تھا وہیں ایک علمی و ثقافتی مرکز بھی تھا، اس لئے شیخ نے ابتدائے عمر ہی میں بغداد کا قصد کیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ۴۸۸ھ ایام جوانی میں آپ بغداد وارد ہوئے اس وقت آپ کی عمر ۱۷ یا ۱۸ سال تھی۔ [تاریخ دعوت و عزیمت ۱۹۷/۱]۔
بغداد میں آپ نے وہاں کے نامور اہل علم سے اپنی علمی پیاسی بجھائی، اساتذہ میں سے بعض کے نام یہ ہیں:

اساتذئے حدیث

آپ نے علم حدیث ابو غالب محمد بن الحسن الباقلانی متوفی ۵۰۰ھ، جعفر بن احمد السراج متوفی ۵۰۰ھ، ابو سعد محمد بن عبد الکریم بن حشیش بغدادی متوفی ۵۰۲ھ اور احمد بن المظفربن حسن بن سوسن التمار متوفی ۵۰۳ھ جیسے ائمہ فن سے لیا۔ [السیر ۴۲۰/۲۰]۔

اساتذئے فقہ و اصول

علم فقہ و اصول میں آپ کے بعض مشہور اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں:
ابوسعد المخرمی حنبلی متوفی ۵۱۳ھ، ابوالخطاب الکلوباذی حنبلی متوفی ۵۱۰ھ، اور ابو الوفا ابن عقیل حنبلی ۵۱۳ھ۔ اس وقت بغداد میں یہ تینوں حضرات فقہِ حنبلی کے اساطین فن سمجھے جاتے تھے ۔ حتی کہ مذہب حنبلی کے اصول و فروع اور علم خلافیات میں پوری دست رس حاصل کی بلکہ اپنے تمام ہم عصروں پر سبقت لے گئے ۔ اور اپنے اساتذہ کے بعد آپ ہی بغداد میں فقہ حنبلی کے مرجع ٹھہرے ۔ [ذیل الطبقات ۲۹۰/۱]۔



ادب و قواعد کے اساتذہ

علم ادب و لغت میں آپ کے خاص اساتذہ میں خطیب تبریزی حامد اللہ متوفی ۵۰۲ھ، جیسے اساتذہ فن کا نام ملتا ہے ۔

علم سلوک و تصوف

علوم ظاہریہ کے ساتھ ساتھ آپ کی توجہ علم باطن کی طرف بھی تھی جس کی ابتدائی تعلیم اپنے فقہ کے استاذ ابو سعد المخرمی سے لی، نیز اس وقت بغداد میں مشہور صوفی حماد بن مسلم الدباس متوفی ۵۲۵ھ، کا خوب چرچا تھا اس لئے شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے علم و سلوک و تصوف کے لئے ان کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا اور سالوں سال ان کی مجلس میں شریک ہوتے رہے خاص کر جمعہ کے دن ان کی مجلس میں ضرور حاضر ہوا کرتے تھے ۔ [السیر ۵۹۶/۱۹، ذیل الطبقات ۵۹۱/۱]۔

عہد طالبِ علمی کی مشکلات اور اللہ کی خصوصی مدد

اللہ تبارک و تعالی جب اپنے کسی بندے سے کوئی خاص اور اہم کام لینا چاہتا ہے تو جہاں ایک طرف اس کام کے لحاظ سے اس کی تربیت و تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے وہیں دوسری طرف اس راہ میں پیش آنے والی دشواریوں کو بھی آسان کرتا اور اس بندے کو ہر آزمائش میں کامیاب بھی بناتا ہے ، یہی کچھ حضرت شیخ الامام عبد القادر رحمہ اللہ کے ساتھ بھی ہوا کہ طلب علم کی راہ میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جیسے وطن سے دوری، بھوک و پیاس اور تنگ دستی ۔ لیکن اللہ تبارک و تعالی نے متعدد مقامات پر ان کی ایسی دستگیری فرمائی کہ ان کے پائے ثبات متزلزل نہ ہونے پائے ، شیخ عبد القادر رحمہ اللہ خود بیان کرتے ہیں کہ طالب علمی کے زمانہ میں بسا اوقات خرنوب نامی کانٹے دار درخت ،سبزیوں کے گرے پڑے ٹکڑے اور خس کے پتے کھا کر گزارہ کرتا تھا۔ [السیر ۴۴۴/۲۰، ذیل الطبقات ۲۹۸/۱]۔
ایام طالب علمی کا اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں بیابان میں فقہ کے درس کا مراجعہ کر رہا تھا اس وقت مجھے سخت بھوک پیاس کا احساس ہوا جب میں بہت تنگ آگیا تو غیب سے ایک آواز آتی ہے لیکن کوئی آواز دینے والا دکھائی نہیں دے رہا تھا، آواز دینے والا کہہ رہا تھا کہ قرض لے کر علم فقہ حاصل کرنے پر مدد حاصل کرو، میں نے جواب دیا کہ قرض کی ادائیگی کا میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے ، میں فقیر ہوں اگر قرض لیتا ہوں تو اس کی ادائیگی کیسے کر پاؤں گا۔ آواز دینے والے نے کہا: قرض لے لو ادائیگی میں کر دوں گا۔ چنانچہ میں ایک کرانہ کی دوکان پر آیا اور دکاندارسے کہا کہ تم مجھے روزانہ ایک روٹی اور کچھ حب رشاد اس شرط پر دے دیا کرو کہ جب میرے پاس ادائیگی کی طاقت ہو گی تو میں ادا کر دوں گا اور اگر میں مرگیا تو مجھے معاف کر دینا، میری یہ بات سن کر وہ رونے لگا اور کہا کہ آپ جس طرح چاہیں میں تیار ہوں، خلاصہ یہ کہ میں ایک مدت تک اس سے روٹی اور حب رشاد لیتا رہا اس طرح کافی دن گزر گئے تو مجھے بڑی الجھن محسوس ہوئی کہ میں کب تک اس سے اس طرح لے کر کھاتا رہوں گا، اس پر ابھی تھوڑی ہی مدت گزری ہو گی کہ مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص مجھ سے کہہ رہا ہے فلاں جگہ چلے جاؤ اور اس جگہ جو چیز بھی ملے تم اسے اٹھا لو اور دکاندار کا قرض ادا کر دو، چنانچہ میں وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں سونے کا ایک ٹکڑا پڑا ہے اسے میں نے لے لیا اور دکاندار کا قرض ادا کر دیا۔ [السیر ۴۴۵/۲۰، ذیل الطبقات ۲۹۹/۱]۔
اسی طرح شیخ رحمہ اللہ اپنا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار سخت مہنگائی کے ایام میں مجھے بہت ہی تنگی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ کئی دن تک مجھے کچھ کھانے کو نہ ملا صورت حال یہ تھی کہ میں گری پڑی چیزیں اٹھا کر کھاتا رہا یہاں تک کہ ایک دن سخت بھوک کی وجہ سے میں گھر سے نکلا اور دریا کی طرف چلا کہ شاید وہاں کوئی سبزی کا پتہ یا اور کوئی چیز مل جائے جس سے میں اپنے بھوک کی آگ بجھاؤں، اس تلاش میں جس جگہ بھی پہنچتا دیکھتا کہ فقیر و مسکین لوگ ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے ہیں چنانچہ میں شرما کر واپس ہو جاتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہاں سے واپس ہوا کہ شاید شہر میں کوئی گری پڑی چیز بھوک مٹانے کے لئے مل جائے لیکن کوئی چیز کھانے کے لئے نہ مل سکی اب میں بہت تھک چکا تھا اور مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہ گئی تھی اس لئے ایک مسجد میں جا کر بیٹھ گیا اور موت کا انتظار کرنے لگا ، اتنے میں دیکھتا ہوں کہ ایک اجنبی نوجوان مسجد میں داخل ہوتا ہے اس کے پاس روٹی اور بھونا ہوا گوشت تھا وہ بیٹھ کر کھانے لگا، میں اس کی طرف للچلائی نظروں سے دیکھ رہا تھا، وہ جب بھی کوئی لقمہ اٹھا تھا تو لالچ سے میرا منہ کھل جاتا کچھ دیر میں وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ بسم اللہ کرو، میں نے انکار کیا لیکن اس نے قسم دلائی کہ تمہیں ضرور کھانا ہے چنانچہ میں بھی اس کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کھانے لگا اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو، کیا کرتے ہو اور تمہارا گھر کہاں ہے ؟ میں نے اسے بتلایا کہ میں گیلان کا رہنے والا ایک متفقہ [طالب فقہ] ہوں، اس نے کہا کہ میں بھی گیلان کا رہنے والا ہوں، کیا تم مجھے ایک گیلانی نوجوان کے بارے میں کچھ بتلا سکتے ہو جس کا نام عبد القادر ہے اسے لوگ سبط ابو عبد اللہ الصومعی الزاہد کے نام سے جانتے ہیں، میں نے جواب دیا کہ وہ تو میں ہی ہوں، یہ سن کر وہ پریشان ہو گیا ، اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم اے بھائی میں جب بغداد پہنچا تو میرے پاس کچھ زاد سفر باقی تھا، میں تمہارے بارے میں پوچھتا رہا لیکن تمہارے بارے میں کسی نے کوئی خبر نہ دی، یہاں تک کہ میرا زاد راہ ختم ہو گیا، حتی کہ تین دن ایسے گزر گئے کہ میرے پاس تمہاری امانت کے علاوہ کوئی اور چیز باقی نہ رہ گئی، اس لئے جب آج چوتھا دن ہوا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ بھوک پر تین دن گزر گئے اب تو میرے لئے مردار بھی حلال ہے اس لئے تمہاری امانت میں ایک روٹی اور بھونے ہوئے گوشت کے اس ٹکڑے کی قیمت لے لی، یہ لو کھاؤ یہ تمہارا مال ہے اور میں اب تمہارا مہمان ہوں ہم نے اس سے پوچھا کہ اصل قصہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ تمہاری ماں نے مجھے آٹھ دینار دے کر بھیجا تھا واللہ اس میں سے ہم نے کوئی خیانت نہیں کی ہے ، شیخ کہتے ہیں کہ میں نے اسے تسلی دی، اس کے دل کو اطمینان دلایا اور جو امانت لے کر آیا تھا اس میں سے کچھ اسے بھی دے دیا۔ [السیر ۴۴۴، ۴۴۵/ ۲۰، ذیل الطبقات ۲۹۸/۱]۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
راہ سلوک میں مشقت

اس طرح اللہ تبارک و تعالی طلب علم کی راہ میں ہر جگہ حضرت شیخ رحمہ کی اللہ مدد کرتا رہا حتی کہ انہوں نے صوفیوں کی بد خلقی اور بد تمیزی کو بھی علم سلوک و طریقت حاصل کرنے کی راہ میں برداشت کیا۔ چنانچہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں طلب علم میں مشغول رہ کر شیخ حماد الدباس کے پاس حاضر نہ ہو پاتا تھا اور جب بعد میں آتا تو وہ مجھ سے کہتے ، تو یہاں کیا کرنے آیا ہے تو تو فقیہ اور فقہ کا طالب ہے انہیں فقیہوں کے پاس جا، میں ان کی یہ تمام باتیں سنتا اور خاموش رہتا ۔ ایک بار سخت سردی کے موسم میں جمعہ کے دن میں کچھ لوگوں کے ساتھ ان کے پاس آیا انہوں نے مجھے دھکا دیا جس سے میں پانی کے ایک حوض میں گر پڑا ہم نے صبر سے کام لیا اور کہا کہ بسم اللہ چلو یہ جمعہ کا غسل ہو گیا۔ اس وقت میرے اوپر ایک اونی جبہ تھا، میری آستین میں کچھ اوراق تھے اس لئے ہم نے آستین کو بلند کر لیا تاکہ وہ اوراق بھیگنے نہ پائیں۔ وہ لوگ مجھے چھوڑ کر چلے گئے ۔ میں نے جبے کو نچوڑ کر پہنا اور ان کے پیچھے ہو لیا اس وقت مجھے سخت سردی محسوس ہوئی۔ اس طرح شیخ دباس مجھے مارتے اور اذیتیں پہنچاتے رہے ، کبھی جب میں ان کے پاس آتا تو کہتے آج بہت زیادہ روٹی اور فالودہ آیا تھا ہم لوگوں نے کھا لیا اور تمہارے لئے کچھ نہ چھوڑا اس سے ان کا مقصد مجھے زچ کرنا ہوتا حتی کہ ان کے شاگرد میرے بارے میں دلیر ہو گئے ، مجھ سے کہتے کہ تم میرے ساتھ کیا کرنے آتے ہو، تم فقیہ ہو جاؤ فقیہوں کے پاس، جب شیخ نے دیکھا کہ ان کے شاگرد مجھے اذیتیں دے رہے اور تنگ کر رہے ہیں تو میرے بارے میں انہیں غیرت آئی اور کہنے لگے : اے کتو!اسے کیوں تنگ کرتے ہو، اللہ کی قسم تم میں کوئی بھی اس جیسا نہیں ہے ، میں اسے اس لئے تنگ کرتا ہوں تاکہ آزماؤں ، یہ تو عزم و ہمت کا ایسا پہاڑ نکلا جو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا۔ [السیر ۴۴۶/۲۰]۔
واضح رہے کہ صوفیوں کا یہ طریقہ تعامل اور بد کلامی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے یکسر خلاف ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلب علم کے لئے آنے والوں سے بہت ہی نرمی سے پیش آتے اور صحابہ کرام کو وصیت فرماتے کہ طالب علموں کے ساتھ حسن خلقی سے پیش آنا چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ جب کسی طالب علم کو دیکھتے تو فرماتے : "مرحبا بوصیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یوصینا بکم" الحدیث۔ اے اللہ کے رسول کی وصیت تمہیں خوش آمدید ہو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کے بارے میں ہمیں خصوصی وصیت کی ہے ۔
بعض روایتوں میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"سیاتیکم اناس یفقھون فقھوھم و احسنوا الیھم"
کچھ لوگ تمہارے پاس دین سیکھنے کے لئے آئیں گے تو تم لوگ انہیں دین سکھانا اور انکو اچھی تعلیم دینا۔ [سنن ابن ماجہ: 250،247 المقدمہ ، مستدرک حاکم: 1/88، مسند عبد اللہ بن وھب وغیرہ۔ دیکھئیے الصحیحہ ۲۸۰]۔
خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ

لَمْ یَكُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا صَخَّابًا فِی الْأَسْوَاقِ وَلَا یَجْزِی بِالسَّیِّئَةِ السَّیِّئَةَ وَلَكِنْ یَعْفُو وَیَصْفَحُ۔ [سنن الترمذی 2017، مسند احمد 6/176، دیکھئیے مختصر الشمائل ۱۸۲]
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ فحش گو تھے نہ فحش گوئی آپ کا شیوہ تھا اور نہ ہی بازاروں میں شور و شرابا کرنے والے تھے اور برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے تھے بلکہ معاف اور درگزر کر دیتے تھے ۔
خلاصہ یہ کہ صوفی حضرات میں اپنے شاگردوں اور ماننے والوں کے ساتھ اس طرح کا برا سلوک جو عام ہے وہ سنت رسول کے خلاف اور اسلامی آداب کے منافی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان حضرات کی علم دین سے دوری اور شاید کبر ہے چنانچہ انہیں حماد الدباس کے بارے میں تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ کم علم اور ان پڑھ تھے ۔[السیر ۵۹۳/۱۹]۔
خلاصہ یہ کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کو طلب علم کے لئے بہت سے مصائب اور دشواریوں سے دوچار ہونا پڑا لیکن اللہ تعالی کی خصوصی مدد شامل حال رہی اس لئے ان تمام مصائب کو برداشت کیا اور طلب علم کے مراحل کو بحسن و خوبی طے کر لیا۔ تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ آپ تقریبا تیس سے پینتیس سال تک طلب علم میں لگے رہے ۔ واللہ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
تدریس اور تزکیہ نفس کے لئے مسند نشینی

علم ظاہر و باطن کی تکمیل کے بعد آپ کا خیال ہوا کہ آبادی کو چھوڑ کر کہیں جنگل و صحراء میں چلے جائیں اور وہاں رہ کر عبادت و ریاضت میں مشغول رہیں ،کیونکہ اس وقت بغداد سخت سیاسی کشمکش کا شکار تھا ،سلجوقی سلاطین عباسی سلطنت کو ختم کرنا چاہتے تھے ، عام لوگوں کی توجہ مادیت کی طرف بڑھتی جا رہی تھی اہل علم کا ایک بڑا طبقہ حاکموں اور امراؤں کے یہاں کا سہ لیسی میں مشغول نظر آ رہا تھا۔ عام لوگ علم دین اور اخلاص سے دور امرا و حکام کا تقرب حاصل کرنے میں لگے ہوئے تھے ، علم دین کے حصول کا مقصد دنیا حاصل کرنا ہو گیا تھا شیخ عبد القادر جیلانی ان تمام حالات سے بہت ہی کبیدہ خاطر تھے اس لئے تعلیم سے فراغت کے بعد ارادہ کیا کہ صحرا نوردی اور رہبانیت کی زندگی بسر کریں یقیناً یہ خیال ان کے اندر صوفیوں کے ساتھ میل جول اور شیخ حماد الدباس کی صحبت کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ چنانچہ ان کے شاگرد عبد اللہ بن ابو الحسن الجبائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے شیخ عبد القادر جیلانی نے بیان فرمایا کہ میری خواہش تھی کہ میں صحراؤں اور جنگلوں میں نکل جاؤں اور وہیں رہ کر عبادت و ریاضت میں مشغول رہوں نہ مخلوق مجھے دیکھے اور نہ میں لوگوں کو دیکھوں، لیکن اللہ تعالی کو میرے ذریعہ اپنے بندوں کا نفع منظور تھا چنانچہ میرے ہاتھ پر پچاس ہزار سے زائد یہودی اور عیسائی مسلمان ہو چکے ہیں اور عیاروں اور جرائم پیشہ لوگوں میں سے ایک لاکھ سے زائد توبہ کر چکے ہیں یہ اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے ۔ [السیر ۴۴۷/۲۰، تاریخ دعوت و عزیمت ۲۰۱/۱]۔
شاید انہیں دنوں کا واقعہ ہے جسے حضرت شیخ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ایساہوا کہ مجھے جنوں جیسی کیفیت لاحق ہوئی لوگ مجھے ہسپتال پہنچا دئیے وہاں میری ایسی حالت ہو گئی کہ لوگوں نے یہ سمجھا کہ میں مر چکا ہوں چنانچہ میرے لئے کفن لایا گیا مجھے نہلانے کے لئے ابھی تختہ پر رکھا ہی تھا کہ میری وہ کیفیت زائل ہو گئی پھر میرے دل میں خیال آیا کہ بغداد اس قدر پر فتن ہو چکا ہے لہذا یہاں سے مجھے نکل جانا چاہئے چنانچہ باب حلبہ کی طرف سے میں بغداد کو خیر باد کہہ رہا تھا کہ ایک غیبی آواز آئی تم کہاں جا رہے ہو؟ اور مجھے ایسا دھکا لگا کہ میں گر پڑا ، مجھ سے کہا گیا کہ واپس جاؤ کیونکہ لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے میں نے کہا: میں اپنے دین و ایمان کی سلامتی چاہتا ہوں، جواب ملتا ہے کہ یہ تمہیں حاصل ہو گا۔ [السیر ۴۴۵،۴۴۶/۲۰، ذیل الطبقات ۲۹۹/۱]
درج ذیل مشہور واقعہ بھی انہیں دنوں کا محسوس ہوتا ہے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بعض وہ ایام جن میں میدانوں میں سیاحت کے لئے نکلنا تھا ایک بار ایسا ہوا کہ کئی دن گزر گئے اور مجھے کھانے پینے کو کوئی چیز نہ مل سکی جب پیاس سخت محسوس ہوئی تو اچانک ایک بدلی نے مجھ پر سایہ کر لیا اور اس میں سے شبنم جیسی کوئی چیز نازل ہوئی جس سے میری پیاس جاتی رہی پھر ایک بڑی عظیم الشان روشنی ظاہر ہوئی جس سے آسمان کے دونوں کنارے روشن ہو گئے پھر اس سے ایک صورت ظاہر ہوئی ، اس نے مجھ سے خطاب کر کے کہا: اے عبد القادر میں تمہارا رب ہوں، میں نے تمہارے لئے وہ تمام محرمات حلال کر دئیے ہیں جو لوگوں پر حرام ہیں، میں نے کہا: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ، اے ملعون دور ہو یہ کہتے ہی وہ روشنی ظلمت میں بدل گئی اور وہ صورت دھواں میں تبدیل ہو گئ پھر وہی شخص مجھ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے : اے عبد القادر اللہ تعالی نے تمہیں تمہارے علم و سمجھ کی وجہ سے بچا لیا ورنہ اس طرح تو میں اب تک ستر صوفیوں کو گمراہ کر چکا ہوں، تو میں نے کہا کہ یہ اللہ تبارک و تعالی کا فضل اور اسکا احسان ہے ، کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیسے سمجھے کہ یہ شیطان ہے ؟، فرمایا: اس کے کہنے سے کہ"میں نے حرام چیزوں کو تمہارے لئے حلال کر دیا'۔ [ذیل الطبقات ۲۹۴/۱، تاریخ دعوت و عزیمت ۲۰۳/۱]۔
خلاصہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالی کی تایید غیبی رہی کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ نے رہبانیت و صحرا نوردی کا خیال ترک کر کے علم کے پیاسوں کو سیراب کرنے اور مردہ دلوں کی مسیحائی کے لَئے تیار ہوئے اور اپنے استاد خاص ابو سعد المخرمی رحمہ اللہ بنائے ہوئے مدرسے میں درس و تدریس کے لئے ۵۲۱ھ میں مسند نشین ہوئے ۔
آپ کا مسند درس و ارشاد پر بیٹھنا تھا کہ لوگوں کا آپ کی طرف ہجوم ہونا شروع ہو گیا علم ظاہر و باطن کے پیاسے آپ کے پاس جوق در جوق حاضر ہونے لگے اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں میں آپ کی ایسی مقبولیت ڈالی کہ سارا بغداد آپ کے مواعظ پر ٹوٹ پڑا اور ایسا ہجوم بڑھا کہ بہت جلد مدرسہ میں جگہ تنگ پڑگئی اور لوگوں نے مدرسہ کی توسیع کی ضرورت محسوس کی، مشہور امام فقہ حافظ موفق الدین ابن قدامہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو دین کی وجہ سے آپ سے بڑھ کر وجہ تعظیم نہیں دیکھا۔ [السیر ۴۴۲/۲، ذیل الطبقات ۲۹۲/۱]۔
خلاصہ یہ کہ عوام و خواص دونوں نے بڑھ چڑھ کر مدرسہ کی توسیع میں حصہ لیا، جس سے جو کچھ بھی ہوسکتا کم زیادہ لا کر شیخ کی خدمت میں پیش کر دیتا، حتی کہ ایک بار ایک مسکین و فقیر عورت اپنے شوہر کو لے کر آتی ہے اس کا شوہر بھی ایک غریب اور مزدور آدمی تھا وہ عورت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ سے کہنے لگی کہ یہ میرا شوہر ہے اس پر مہر کا میر ا بیس دینار باقی ہے جس میں سے آدھی رقم میں اسے ہبہ کرتی ہوں بشرطیکہ باقی آدھی رقم کے عوض یہ آپ کے مدرسہ میں کام کرے ہم نے اس پر اتفاق کر لیا ہے شوہر نے بھی عورت کے بات کی تصدیق کی ، یہ کہہ کر عورت نے دستاویز شیخ عبد القادر کے حوالہ کر دی ، چنانچہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے اسے اپنے مدرسہ میں کام پر لگا دیا اسے محتاج سمجھتے ہوئے ایک دن کی مزدوری اسے دے دیتے اور ایک دن کی مزدوری نہ دیتے یہاں تک کہ جب شوہر نے پانچ دینار کا کام کر لیا تو شیخ نے باقی پانچ دینار معاف کر دئے اور دستاویز اس کے حوالہ کر دی۔ [ذیل الطبقات ۲۹۱/۱]۔
اس مدرسہ میں شیخ حدیث و فقہ، اصول و عقیدہ اور علم سلوک کا درس دیا کرتے تھے ، کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوتے حتی کہ بعض لوگوں نے مبالغہ کے طور پر یہاں تک کہہ دیا ہے کہ آپ کے درس میں ۷۵ ہزار کی تعداد ہوتی تھی البتہ یہ حقیقت ہے کہ آپ کے پاس عالم و جاہل، محدث و فقیہ اور اصولی و نحوی سبھی قسم کے لوگ حاضر ہوتے تھے ۔ رحمہ اللہ ۔
حضرت شیخ عبد القادر کی زندگی ہی میں آپ کے فتووں اور علم فقہ میں باریک بینی کی شہرت بغداد اور اس کے اطراف اکناف میں پھیل گئی اہل علم آپ کے فتووں کو سنتے اور آپ کی علمی باریک بینی پر تعجب کرتے اور کہتے کہ سبحان اللہ کہ ان کے اوپر اللہ کا یہ فضل ہوا ہے ۔ آپ کی فقہی باریک بینی کا ایک واقعہ اس طرح نقل کیا جاتا ہے کہ ایک بار ایک شخص نے یہ قسم کھا لی کہ اگر میں کوئی ایسی عبادت نہ کرسکوں جس میں میرے ساتھ کوئی شریک نہ ہو تو میری بیوی کو طلاق ہے اس وقت کے اہل علم حیرت میں پڑ گئے لیکن جب یہ مسألہ جب شیخ عبد القادر رحمہ اللہ کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا: اس شخص سے کہا جائے کہ وہ مکہ مکرمہ جائے اس کے لئے مطاف کو خالی کرایا جائے اور سات چکر طواف کر کے اپنی قسم کو پوری کر لے ۔ [ذیل الطبقات ۲۹۴/۱، دائرۃُ المعارف الاسلامیہ ۶۲۲/۱۱]۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
وفات

اس طرح شیخ عبدا لقادر رحمہ اللہ تقریبا چالیس سال تک علم کے پیاسوں کو سیراب کر کے ، اپنے ظاہری و باطنی کمالات سے ایک عالم کو مستفید کر کے ، بہت سے مردہ دلوں کو زندگی بخش کر کے عالم آخرت کی طرف کوچ کر گئے ۔ چنانچہ ربیع الاول ۵۶۱ھ بروز ہفتہ دنیا کو روشن کرنے والا یہ چراغ خود بجھ گیا۔ اس وقت ان کی عمر ۹۰ سال کے قریب تھی، وفات کے وقت اپنے بیٹے عبد الوہاب کو آپ کی آخری وصیت یہ تھی کہ تم ہمیشہ اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا اس کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈرنا اور نہ اس کے سوا کسی سے امید رکھنا اپنی تمام ضروریات صرف اسی کے حوالے کرنا اسی سے طلب کرنا اس کے علاوہ کسی اور پر اعتماد و بھروسہ نہ رکھنا توحید کو لازم پکڑنا کیونکہ توحید ہر کام کی جامع ہے ۔ [الفتح الربانی ۳۷۳، تاریخ دعوت و عزیمت ۲۲۲/۱]۔
زندگی کے آخری لمحات کا منظر ان کے صاحبزادے عبد الجبار بیان کرتے ہیں کہ جب والد کا مرض بڑھ گیا اور تکلیف زیادہ محسوس ہونے لگی تو میں نے پوچھا کہ آپ کے جسم میں کہاں تکلیف ہے ؟ کہنے لگے میرے تمام اعضا مجھے تکلیف دے رہے ہیں مگر میرے دل کو کوئی تکلیف نہیں ہے وہ اللہ تعالی کے ساتھ اس کا تعلق صحیح ہے ، پھر جب آخری وقت آگیا تو آپ فرمانے لگے میں اس اللہ سے مدد چاہتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک و برتر ہے ، زندہ ہے اور اس پر موت کے طاری ہونے کا اندیشہ نہیں ہے وہ پاک ہے وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنی قدرت سے قوت ظاہر کی اور ہمیں موت دے کر بندوں پر اپنا غلبہ دکھایا ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، پھر تین بار اللہ، اللہ ، اللہ فرمایا اس کے ساتھ آواز غائب ہو گئی آپ کی زبان تالو سے چپک گئ اور روح جسم سے رخصت ہو گئ ۔ رحمہ اللہ و رضی عنہ۔ [تکملہ الفتح الربانی ۲۷۳، تاریخ دعوت و عزیمت ۲۲۳/۱]۔
آپ کی وفات ہفتہ کے دن شام کو ہوئی اور اسی رات تغسیل و تکفین کے بعد اسی مدرسہ کے ایک گوشے میں نماز جنازہ کے بعد دفن کر دیا گیا۔
آپ کی چار بیویاں تھیں جن سے آپ کی انچاس اولاد ہوئیں، ستائیس لڑکے اور باقی لڑکیاں ، ان میں سے بعض لڑکے زیادہ مشہور ہیں جیسے شیخ عبد الوہاب اور شیخ عبد الرزاق رحمہم اللہ اجمعین۔ [شذرات الذھب ۲۰۲/۴]۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شیخ عبد القادر جیلانی کی شخصیت

دنیا کی کسی بھی بڑی و نادر شخصیت کی طرح شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی شخصیت بھی متنازع رہی ہے کچھ لوگوں نے آپ کے بارے میں اسقدر غلو سے کام لیا کہ انہیں الوہیت اور ربوبیت کے مقام پر پہنچا دیا۔ ان سے مرادیں مانگنے لگے ، ان سے اپنی بگڑی بنوانے لگے اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر انہیں کو نفع و نقصان کے لئے پکارنے لگے حتی کہ اس جماعت کے لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ :

بادشاہ ہر دو عالم شیخ عبد القادر ہست

{دونوں عالم کے بادشاہ شیخ عبد القادر ہیں}

سرور اولاد آدم شیخ عبد القادر ہست

{اولاد آدم کے سردار شیخ عبد القادر ہیں}

آفتاب و ماہ تاب و عرش کرسی و قلم

{سورج اور چاند ، عرش کرسی اور قلم}

زیر پائے شیخ عبد القادر ہست

{شیخ عبد القادر کے پیر کے نیچے ہے }۔
بدقسمتی سے آج یہ اشعار شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے مزار پر لکھے ہوئے ہیں۔ [الشیخ عبد القادر جیلانی ص ۴، سعید مسفر]۔
کسی اردو شاعر نے یہاں تک کہہ دیا:

بلاد اللہ ملکی تحت حکمی سے ہے یہ ظاہر

کہ عالم میں ہر ایک شئ پر ہے قبضہ غوث اعظم کا

گئے اک وقت میں ستر مریدوں کے یہاں آقا

سمجھ میں آ نہیں سکتا کرشمہ غوث اعظم کا
یہ پورا قصیدہ جو تفسیر احسن البیان کے ضمیمہ پر موجود ہے اسے پڑھیں اور عبرت حاصل کریں، نیز دیکھیں کہ اس شاعر نے اللہ کے لئے کیا چیز باقی چھوڑی ہے ، اس قصیدہ کو پڑھ کر آپ محسوس کریں گے کہ یہ ایسا شرک ہے جس کا ارتکاب عرب کے جاہلی مشرکین نے بھی نہیں کیا تھا۔
ایک اور مشرک شاعر کہتا ہے :

ہے باب الشیخ کا دیوان خانہ خلد سے بڑھ کر

رواں بغداد پر اک قطب ربانی کی چادر ہے
اس جماعت نے غلو میں حضرت شیخ کی طرف ایسے اقوال و کرامتیں اور تصرفات منسوب کئے ہیں جو حد بیان سے باہر ہیں ،کہیں ملک الموت سے اپنے مرید کی روح چھین لے رہے ہیں تو کہیں اللہ تعالی سے زبردستی ایک ایسے شخص کو سات بیٹے دلوا دے رہے ہیں جس کی تقدیر میں اللہ تعالی نے ایک بیٹا بھی نہیں رکھا تھا حتی کہ کہیں انکے غوث پاک صاحب میدان محشر میں اپنے مریدوں کو اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف جہنم سے نکال کر جنت میں ڈال رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
شیخ عبد القادر جیلانی سے متعلق ایک اور جماعت ہے جو شیخ کی بزرگی، ولایت اور ان کے فضائل کا اقرار ہی نہیں کرتی بلکہ ان کی وہ باتیں جس میں تاویل کی بھی گنجائش ہے اس میں شیخ کو متہم کرتی ہے ، کہا جاتا ہے کہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس جماعت کی تردید میں ایک مستقل کتاب بھی لکھی ہے ۔ [ذیل الطبقات ۲۹۵/۱]۔
آج کتنے لوگ ہیں جو اپنے کو مسلک سلف کا حامل سجمھتے ہیں حالانکہ وہ حضرات اہل بدعت کی مخالفت میں شیخ کا نام لینا، ان کی کتابیں پڑھنا اور ان کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔
تیسری جماعت اہل سنت و جماعت یا اہل حدیثوں کی ہے جو شیخ عبد القادر جیلانی کو اپنے اماموں میں سے ایک امام تسلیم کرتی ہے ، انہیں امت محمدیہ کا ایک بڑا عالم مانتی ہے ، اعمال قلوب اور اصلاح باطن میں انہیں اپنے وقت کا مجدد تسلیم کرتی ہے ، ان کی سچی کرامات کا اعتراف کرتی ہے ، ان کے بارے میں غلو سے کام نہیں لیتی اور نہ ہی ان کی حق تلفی کرتی ہے بلکہ افراط و تفریط کی درمیانی راہ پر رہ کر شیخ عبد القادر جیلانی کو احترام و تقدیر کی نظر سے دیکھتی ہے البتہ انہیں عام اماموں، عالموں، فقیہوں اور بزرگوں کی طرح ایک انسان لیکن عام انسانوں سے بہت اونچا تسلیم کرنے کے باوجود خطا ونسیان سے بری نہیں سمجھتی۔
مثال کے طور پر امام ذہبی رحمہ اللہ ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:
"الشیخ الامام العالم الزاھد العارف القدوۃ شیخ الاسلام علم الاولیاء محی الدین ۔۔۔شیخ بغداد" [السیر ۴۲۹/۲۰]۔
ان تعریفی القاب کے ساتھ ساتھ ان کے تذکرہ کے آخر میں لکھتے ہیں:
خلاصہ یہ کہ شیخ عبدا لقادر بڑی شان والے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ ان کے بعض اقوال و دعوے قابل گرفت ہیں۔ حاضری اللہ کے پاس ہے ۔ ان کی طرف منسوب بعض اقوال ان پر الزام تراشی ہے ۔ [السیر ۴۵۱/۲۰]۔
امام ذہبی کے ہم عصر ایک اور امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ان میں کافی زہد تھا۔۔۔ وہ صالح اور متقی تھے ، انہوں غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب جیسی کتابیں لکھیں ان میں بہت سی باتیں بڑی عمدہ ہیں البتہ ان میں بہت سی ضعیف اور موضوع حدیثوں کو بھر دیا ہے ، خلاصہ یہ کہ وہ مشایخ کے سردار تھے ۔ [البدایہ ۱/۲۷۰]۔
قریب قریب اسی زمانہ کے ایک حنبلی امام حافظ ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

الزاھد شیخ العصر وقدوۃ العارفین سلطان المشائخ وسید اھل الطریقۃ فی وقتہ محی الدین ابو محمد صاحب المقامات والکرامات والعلوم والمعارف والاصول المشہورۃ ۔ [ذیل طبقات الحنابلہ ۱/۲۹۰]۔
ان تعریفی القاب کے بعد ان کے تذکرہ میں ان کی طرف منسوب ایک قول کی تردید و تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس قسم کے اقوال کے بارے میں سب سے اچھی بات وہ ہے جو ابو حفص السہروردی نے اپنی کتاب عوارف المعارف میں کہی ہے کہ شیوخ کی یہ وہ لفاظیاں ہیں جن میں ان کی اقتداء نہ کی جائے گی اور نہ ہی ان سے ان کے مقامات و درجات میں فرق پڑتا ہے کیونکہ کوئی بھی ہو ہر ایک کی بات مانی بھی جائے گی اور رد بھی کر دی جائے گی سوائے معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کے {ہر بات مانی جائے گی کوئی بات رد نہ کی جائے گی}۔ [ذیل طبقات ۱/۲۹۵]۔
حاصل یہ کہ اگر اس قسم کے اقوال نقل کئے جائیں تو ان کے لئے مکمل دفتر کی ضرورت ہے مقصد صرف یہ ہے کہ اہل سنت و جماعت نے نہ شیخ کو ان کے حق سے اوپر اٹھا کر ان کے بارے میں غلو سے کام لیا نہ انہیں معصوم عن الخطا سمجھا، نہ انہیں قادر مطلق اور مختار کل تسلیم کر کے شرک کے مرتکب ہوئے اور نہ ہی ان کی حق تلفی کی کہ انہیں امام وقت، ولی اللہ اور صاحب کرامت بزرگ وغیرہ ماننے سے انکار کر دیا۔
 
Top