• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر سیرت - شیخ عبد القادر جیلانی

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شیخ عبد القادر کی تعلیمات

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ مسلکی طور پر اصولا و فروعا حنبلی تھے اور حنبلی بھی ایسے جو دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالی ان کا خاتمہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب پر کرے ۔
چنانچہ انہیں کے مذہب پر فقہ کی تعلیم دیتے تھے ،جیسا کہ مشہور حنبلی امام موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ہم شیخ عبد القادر کی خدمت میں ان کی زندگی کے آخری ایام میں پہنچے شیخ نے ہمیں اپنے مدرسے میں ٹھہرایا وہ ہمارا خاص خیال رکھتے تھے کبھی تو وہ اپنے بیٹے یحی کو بھیجتے کہ ہمارے لئے چراغ جلائے ، کبھی وہ خود اپنے گھر سے ہمارے لئے کھانا بھیجتے ، فرض نمازوں میں وہی ہماری امامت کرتے ، صبح کے وقت میں انکے سامنے زبانی مختصر خرقی {فقہ حنبلی کی مشہور کتاب} پڑھتا {جسکی وہ شرح کرتے } اور شام کو حافظ عبد الغنی ہدایہ نامی کتاب {فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ہدایہ مولفہ ابو الخطاب} پڑھتے ۔ [السیر ۲۰/۴۴۲، شذرات الذہب ۴/۱۹۹]۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شیخ اصولاً و فروعاً کٹر حنبلی تھے حتی کہ عقائد کے بارے میں مذہب حنبلی کے اس قدر پابند اور اس کے لئے اتنے زیادہ متعصب تھے کہ ایک بار یہاں تک کہہ گئے جو شخص امام احمد کے عقیدے کا حامل نہ ہو اور اس کی اتباع نہ کرے وہ اللہ کا ولی ہو ہی نہیں سکتا۔ [ذیل الطبقات ۱/۲۹۸، شذرات الذہب ۴/۱۰۰]۔
اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ آج جو لوگ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کو غوث و قطب مانتے ہیں ان کو قادر مطلق اور مختار کل تسلیم کرتے ہیں وہ حضرات سعودی عرب کے علماء کو جو اصولاً و فروعاً حنبلی ہیں انہیں بے دین، وہابی اور برے برے القاب سے کیوں نوازتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ انکا طریقہ ان کے اپنے غوث کے طریقہ سے کس قدر مختلف ہے ۔ ہم یہاں شیخ کی تعلیمات پر بڑے اختصار کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
توحید

بندے کے ہر عمل کی روح توحید ہے ۔ یعنی اللہ تعالی کو اس کی ذات و صفات اور اس کے اعمال و حقوق میں تنہا مانا جائے ، شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ توحید کے بڑے داعی اور لوگوں کو توحید پر جمے رہنے اور اسے اختیار کرنے کی دعوت دیتے تھے ، چنانچہ غنیۃ الطالبین میں اللہ تعالی کی معرفت کے بیان میں لکھتے ہیں:
اللہ تعالی کو پہچاننے کے بارے میں خلاصہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا یقین رکھے ، نیز یہ بھی یقین رکھے کہ وہ تنہا اور بے نیاز ہے ، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ خود کسی سے جنا گیا، نہ کوئی اس کا شریک ہے اور نہ اس کی مثل، وہ سنتا ہے ، دیکھتا ہے اپنی صفات و ذات میں یکتا ہے ، کوئی اس کا مددگار نہیں، شریک اور وزیر نہیں، کوئی اسے طاقت نہیں پہنچا سکتا، کوئی اس کا ہمتا اور مشیر نہیں، الخ ۔ [غنیۃ الطالبین ص ۱۵۰ اردو]۔
اپنے ایک اور درس میں لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :
اے لوگو! کسی بھی مخلوق کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں، سب کے سب عاجز ہیں، مالک ہوں یا مملوک، سلطان ہوں، یا مالدار و فقیر سب کے سب تقدیر الہی کے اسیر ہیں ان کے دل اللہ کے ہاتھ میں ہیں انہیں جس طرح چاہتا ہے الٹ پھیر کرتا ہے اس کی طرح کوئی بھی نہیں ہے وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔ [الفتح الربانی ص ۸۸]۔
کہاں شیخ کا یہ فرمان اور کہاں ان کی دہائی دینے والوں کا یہ دعوی کہ تمام لوگوں کے دل شیخ عبد القادر جیلانی کے ہاتھ میں ہیں۔
اسی کتاب کی مجلس نمبر ۴۷ ص ۱۹۱، ۱۹۲ پر ہے کہ:
اے لوگو! شریعت کی اتباع کرو، بدعتیں ایجاد نہ کرو، شریعت کے پابند رہو اس کی مخالفت نہ کرو،{اللہ اور اس کے رسول کی} پیروی کرو اور نافرمان نہ بنو، اپنے اندر اخلاص پیدا کرو {ریا و نمود کر کے } شرک نہ کرو، حق تعالی کی توحید بیان کرو اس کے دروازے سے دور نہ ہو، اسی سے مانگو اس کے علاوہ کسی اور کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ، اسی سے مدد طلب کرو، اس کے علاوہ کسی اور سے مدد نہ مانگو، اسی پر توکل و بھروسہ کرو اور اس کے علاوہ کسی اور پر توکل نہ کرو۔
اس قسم کے درزنوں توحیدی کلمات حضرت شیخ کی کتابوں میں موجود ہیں بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام دروس میں قلبی عبادات میں توحید و توحید خالص پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے ۔ چنانچہ اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے کو توحید پر جمے رہنے کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا: تقوی اور طاعت الہی کو لازم پکڑو کسی سے نہ ڈرو اور کسی سے امید نہ رکھو، تمام ضروریات کو اللہ کے حوالے کرو اسی سے ضروریات طلب کرو، اس کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہ کرو، صرف اللہ تعالی پر اعتماد رکھو، توحید کو لازم پکڑو، توحید کو لازم پکڑو، توحید کو لازم پکڑو، اس لئے کہ ہر چیز کی جامع توحید ہے ۔ [الفتح الربانی ص ۳۷۳]۔
اسی کتاب میں اپنے ایک شاگرد کو کامیابی کا ایک نسخہ بتلاتے ہوئے کہتے ہیں:
اگر تو فلاح و کامیابی چاہتا ہے تو اپنے دل سے مخلوق کو نکال باہر کر ، نہ ان سے ڈر، نہ ان سے کوئی امید رکھ، نہ ان سے انسیت رکھ اور نہ ہی ان سے مطئن ہو، بلکہ ہر ایک سے بھاگ، ان سے اس طرح نفرت کر کہ گویا وہ مردار ہیں، اگر یہ کیفیت تیری درست ہو جائے گی تو اللہ کے ذکر سے تجھے اطمینان حاصل ہو گا اور غیر اللہ کا ذکر تجھے مکروہ و ناپسند محسوس ہو گا۔ [مجلس ۱۴۱/۳۱]۔
ناظرین غور کریں اس توحید خالص پر، یہ کلمات مکمل طور پر اس بات کا پتہ دے رہے ہیں کہ یہ کسی موحد ولی کامل کے دل کی آواز ہے ۔
دوسری طرف ان حضرات کے طریقے پر ماتم کیجئے جنہوں نے شیخ کی ان تمام تعلیمات کو لے جا کر انہیں کے ساتھ ان کی قبر میں پر دے مارا اور خود انہیں کو معبود بنا لیا۔ الامان والحفیظ۔
اس سے بڑھ کر شیخ مرحوم کی تعلیمات کی مخالفت اور کیا ہو گی، ان حضرات کی ان بیہودہ حرکات کو دیکھ کر یقیناً شیخ کی روح کہہ رہی ہو گی کہ ؎

یا رب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات

دے اور بھی دل انکو جو نہ دے مجھ کو زباں اور غالب
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اتباع سنت

شیخ عبد القادر نے اپنی کتابوں میں اور اپنی مجالس میں اپنے شاگردوں کو کتاب و سنت پر عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے ۔ شیخ کے نزدیک کوئی بھی شخص جب تک کتاب و سنت کے ظاہر کا پیروکار نہ بن جائے وہ کامیاب نہیں ہوسکتا، اس سلسلے میں چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
ہر وہ شخص جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کرتا [اس طرح کہ] آپ کی شریعت کو ایک ہاتھ سے پکڑے اور آپ پر نازل شدہ کتاب کو دوسرے ہاتھ میں لے تو وہ اللہ تعالی تک نہیں پہنچ سکتا بلکہ وہ ہلاک ہو گا ہلاک ہو گا، گمراہ ہو گا گمرہ ہو گا۔ یہ دونوں [کتاب و سنت] اللہ تک پہنچنے کے لئے راہنما ہیں، قرآن اللہ تک پہنچنے کے لئے تمہارا رہنما ہے اور سنت رسول اللہ تک پہنچنے میں تیرا رہنما۔ [الفتح الربانی ص ۱۱۷، ۲۵ویں مجلس]۔
الفتح الربانی کی انتیسویں مجلس ص ۱۲۸ پر اپنے ایک شاگرد کو وصیت کرتے ہیں : علیک بموافقۃ الشرع فی جمیع احوالک۔ ہر حال میں شریعت کی موافقت کو لازم پکڑو۔
اسی کتاب کی انتالیسویں مجلس ص ۱۶۰ پر جہل اور جہل کے ساتھ عبادت کرتے اور گوشہ نشینی اختیار کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
جب تک تو کتاب و سنت کی اتباع نہ کرے گا کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔
پھر اس کے فورا بعد یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ کتاب و سنت کا علم کس طرح حاصل ہو فرماتے ہیں:
بعض اہل علم نے کہا کہ جس کا کوئی استاد نہ ہو اس کا استاد ابلیس بن جاتا ہے اس لئے کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اور عمل کرنے والے علماء و مشائخ کی پیروی کرو، ان کے بارے میں حسن ظن رکھو، ان سے سیکھو، ان سے اچھے ادب کے ساتھ پیش آؤ ، اس طرح تم کامیاب ہو جاؤ گے اگر تم نے کتاب و سنت کی اتباع نہ کی اور نہ کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اہل علم کا ساتھ کیا تو تم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ۔
اس قسم کے اقوال اگر نقل کئے جائیں تو بات طویل ہو جائے گی یہاں صرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ شیخ رحمہ اللہ ہر حال میں اتباع کتاب وسنت کی دعوت دیتے تھے اور ان صوفی حضرات پر سخت نکیر کرتے تھے جو اپنے اقوال و افعال میں سنت کی پیروی سے دور تھے ۔ چنانچہ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ:
اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی نسبت کو درست کرو، جو اللہ کے رسول کی اتباع میں درست رو ہو گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کی نسبت بھی درست ہو گی البتہ بغیر اتباع کے تمہارا یہ کہنا کہ میں رسول اللہ کا امتی ہوں تمہارے لئے یہ کسی بھی طرح مفید نہیں ہوسکتا، جب تم اللہ کے رسول کی اتباع ان کے اقوال و افعال میں کرو گے تو آخرت میں ان کا ساتھ نصیب ہو گا، کیا تم لوگوں نے یہ فرمان الہی نہیں سنا :

[وَمَا آَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِیدُ العِقَابِ] {الحشر:7}
سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے ) باز رہو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے
"اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جا ؤ اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالی سخت عذاب والا ہے "۔
اس لئے وہ جس چیز کا حکم دیں اسے بجا لاؤ جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ اس طرح تم دنیا میں تو اللہ کے قریب اپنے دل سے رہو گے اور آخرت میں اپنے وجود و جسم سے اللہ کے نزدیک ہو گے ۔ اے زاہدو تم لوگ زہد اختیار کرنا نہیں جانتے تم ذات و خواہش کے بارے میں تو زہد اختیار کرتے ہو البتہ اپنی رائے میں آزاد ہو گئے ہو، [اللہ کے رسول کی ] اتباع کرو اور ایسے علماء و مشایخ کی صحبت اختیار کرو جنہیں معرفت الہی حاصل ہو اور وہ اپنے علم کے مطابق عامل بھی ہوں۔ [الفتح الربانی ص ۱۱۶ مجلس ۲۵]۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شرک سے متنفر کرنا

حضرت شیخ نے جہاں توحید خالص خصوصاً عبادات قلبیہ پر توحید کو لازم پکڑنے پر زور دیا ہے وہیں شرک سے لوگوں کو سختی سے متنبہ کیا ہے بلکہ اپنے عام درسوں میں شرک اصغر سے اس سختی اور خوف ناک انداز میں متنبہ فرماتے تھے گویا کہ وہ شرک اکبر ہے ۔ ذرا آپ حضرات حضرت شیخ کی عبارات پر غور کریں۔
اے لڑکے تو کچھ بھی نہیں ، تیرا اسلام ابھی تک صحیح نہیں ہے ، یاد رہے کہ اسلام ہی وہ اصل ہے جس پر کلہ لاالہ الا اللہ کی بنیاد ہے ، تو لا الہ الا اللہ کا اقرار تو کرتا ہے لیکن اس اقرار میں جھوٹا ہے کیونکہ تیرے دل میں باطل معبودوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی ہے اپنے بادشاہ سے تیرا ڈرنا اور اپنے محلہ کے چودھری سے تیرا ڈرنا انہیں معبود بنا لینا ہے ۔ اپنی کمائی پر، اپنی ذات پر اپنی طاقت و قوت پر، اپنی قوت سمع و بصر پر اور اپنی پکڑ پر تیرا اعتماد انہیں معبود بنا لینا ہے ۔ مخلوق کے نفع و ضرر اور عطاء و منع پر تیرا نظر رکھنا انہیں معبود بنا لینا ہے الخ [الفتح الربانی ص ۷۴ مجلس ۱۵]۔
اس چیز کو ۲۰ویں مجلس میں اس طرح بیان کرتے ہیں:
آج تو اعتماد کر رہا ہے اپنے نفس پر، مخلوق پر، اپنے دیناروں پر، درہموں پر، اپنی خرید و فروخت پر، اپنے شہر کے حاکم پر، ہر چیز کہ جس پر تو اعتماد کرے وہ تیرا معبود ہے اور ہر وہ شخص جس سے تو خوف کرے ، یا توقع رکھے وہ تیرا معبود ہے اور ہر وہ شخص جس پر نفع و نقصان سے متعلق تیری نظر پڑے اور تو یوں سمجھے کہ اللہ تعالی اس کے ہاتھوں اس کا جاری کرنے والا ہے تو وہ تیرا معبود ہے ۔ ص ۹۱۔
خود آگے چل کر ۲۶ ویں مجلس میں فرماتے ہیں:
اے وہ شخص جو اپنے مصائب کا شکوی مخلوق سے کرتا ہے ، مخلوق سے تیرا شکوی تیرے کس کام آئے گا یہ لوگ نہ تجھے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، جب تو ان پر اعتماد کریگا تو گویا تو نے اللہ تعالی کے ساتھ شرک کیا۔ وہ اللہ تعالی کے دروازے سے دور لے جا کر اس کے غضب و ناراضگی کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گے اے جاہل تو علم کا دعوی کرتا ہے حالانکہ دنیا کو اللہ کے علاوہ کسی اور سے طلب کرنا تیرے جاہل ہونے کی دلیل ہے ۔ [صفحہ ۱۱۷]۔
شیخ کی کتاب الفتح الربانی اس قسم کے بیان سے پر ہے کاش کہ شیخ کی دہائی دینے والے انہیں غوث و قطب کہنے والے اور انہیں قادر مطلق ماننے والے اس کتاب کو سمجھ کر پڑھتے تو انہیں احساس ہو جاتا کہ وہ کسقدر گمراہی میں مبتلا ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا عقیدہ

یہ بات اس سے قبل گزر چکی ہے کہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ عقیدہ و فقہ دونوں لحاظ سے حنبلی تھے ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا عقیدہ اشعری و ماتریدی عقیدے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے آج جو لوگ حضرت شیخ کو غوث و قطب جیسے القاب سے یاد کرتے ہیں[1] وہ حضرت شیخ رحمہ اللہ کے عقیدے کے مخالف ہیں۔ یہاں یہ بحث تفصیل سے نہیں رکھی جاسکتی ہم صرف چند اشارات سے کام لیتے ہیں۔ حضرت شیخ کے عقیدے کے بارے میں جسے تفصیل درکار ہو وہ شیخ کی کتاب غنیۃ الطالبین اور الفتح الربانی وغیرہ کا مطالعہ کرے ۔ شیخ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے عقیدے سے متعلق شاگردوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: 'علیکم بالاتباع من غیر الابتداع ، علیکم بمذھب السلف الصالح ، امشوا فی الجادۃ المستقیمۃ ، لا تشبیہ ولا تعطیل بل اتباعا لسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من غیر تکلف ولا تطبع ولا تشدد ولا تمشدق ولا تمعقل یکلم ما وسع من کان قبلکم'۔ الفتح الربانی صفحہ ۴۷، ۴۸، دسویں مجلس۔
ایک طالب علم کے لئے شیخ سعید بن مسفر القحطانی کی کتاب الشیخ عبد القادر جیلانی و آراءہ الاعتقادیۃ و الصوفیۃ بڑی مفید کتاب ہے ۔
خلاصہ یہ کہ شیخ رحمہ اللہ امام اہل السنہ امام احمد بن حنبل کے عقیدے پر تھے اور امام احمد رحمہ اللہ کا عقیدہ سلف کے عقیدہ کے عین مطابق تھا۔ ہمارے ہند و پاک کے لوگ کئی جگہوں میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے اس عقیدہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

۱- استوی علی العرش

سلف کی اقتداء میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی اور قرار پکڑے ہوئے ہے ۔ اس کی ذات عرش پر ہے البتہ وہ اپنے علم کے ذریعہ پوری دنیا میں موجود ہے ، جبکہ ہمارے یہاں کے اہل علم عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہے ۔
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب الغنیۃ میں لکھتے ہیں:
چاہئے کہ اللہ کے لئے استواء یعنی عرش پر قرار پکڑنے ، جلوہ افروز ہونے کی صفت کو بغیر تاویل کے مانا جائے اس طرح کہ وہ اپنی ذات کے لحاظ سے عرش پر مستوی ہے اس کا معنی ہماری طرح بیٹھنا اور اس سے چمٹے رہنا نہیں ہے جیسا کہ مجسمہ اور کرامیہ لیتے ہیں اور نہ ہی اس کا معنی علو و رفعت ہے جیسا کہ اشعریہ کہتے ہیں اور نہ ہی اس کا معنی تسلط و غلبہ کے ہے جیساکہ معتزلہ کہتے ہیں کیونکہ نہ تو شریعت میں ایسی کوئی بات موجود ہے اور نہ ہی صحابہ اور اہل حدیث اور سلف تابعین سے کچھ مروی ہے بلکہ ان سے یہی منقول ہے کہ اس اپنے اطلاق ہی پر باقی رکھا جائے ۔ [الغنیہ ۵۶/۱]۔
شیخ رحمہ اللہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں یہ تو آیا ہے کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی ہے لیکن وہ کس طرح مستوی ہے نہ تو یہ قرآن و حدیث میں ہے اور نہ ہی صحابہ و تابعین کے یہاں کچھ ملتا ہے ۔ اس لئے ہم یہی کہیں گے کہ وہ عرش پرمستوی ہے وہ اپنی ذات کے لحاظ سے عرش پر ہے البتہ اس کی کیفیت کیا ہے اس بارے میں ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
الفتح الربانی میں کہتے ہیں کہ :
ہمارا رب عرش پر مستوی ہے اور تمام ملک کو اپنے قبضہ میں کئے ہوئے ہے اس کا علم تمام اشیاء کو گھیرے میں لئے ہے اس معنی میں قرآن مجید کی سات آیتیں دلالت کرتی ہیں تیری جہالت اور گھمنڈ سے میرا اسے مٹا دینا ممکن نہیں ہے ۔ [الفتح الربانی صفحہ ۱۴۵، مجلس ۳۵]۔
ان اقتباسات اور اس قسم کے درزنوں اقتباسات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت شیخ کے نزدیک اللہ تبارک و تعالی اپنی ذات کے لحاظ سے تو عرش پر قرار پذیر ہے لیکن اپنے علم کے ذریعہ ہر چیز کو محیط ہے وہ ہے تو عرش پر لیکن سمندر کی تہہ میں جو مچھلی ہے اس کا علم اسے اچھی طرح ہے ۔ ایک طرف شیخ کے اس عقیدہ کو دیکھیں اور دوسری طرف ان کو'غوث پاک' کہنے والوں کا عقیدہ دیکھیں کہ اللہ تعالی کو ہر جگہ موجود ہے ، کیا دونوں میں کوئی مناسبت ہے ؟

۲- اللہ تعالی کی صفات

اہل سنت و جماعت کا عقیدہ رہا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کی عظیم صفتیں ہیں اور اس کی تمام صفتیں اعلی و عمدہ ہیں جیسے ہاتھ، چہرہ، قدم، ہنسنا، غصہ ہونا، سننا، دیکھنا، اترنا وغیرہ۔ یعنی اللہ تبارک و تعالی کا ہاتھ ہے جیسا کہ وہ قرآن مجید میں فرماتا ہے : ید اللہ فوق ایدیھم ۔ اس کا چہرہ بھی ہے ، جیسے فرمایا : فاینما تولوا فثم وجہ اللہ، لیکن اس ہاتھ اور چہرے کی کیفیت کیا ہے اسے اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ ہم یہ تو مانتے ہیں کہ اللہ تعالی کے ہاتھ ہیں اور حقیقی ہاتھ ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ ہاتھ سے مراد قدرت ہے اور نہ یہ کہتے ہیں کہ اس کا ہاتھ کسی مخلوق کے ہاتھ کے مشابہ ہے کیونکہ اس نے ہمیں یہ تو بتلایا ہے کہ اس کے ہاتھ ہیں، چہرہ ہے ۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کا ہاتھ کیسا ہے لہذا اس کے ہاتھ کی کیفیت و مثال کے بارے میں ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں، اسی پر دوسری تمام صفات کو قیاس کرنا چاہئے ۔ اس کا ارشاد ہے :
لیس کمثلہ شیء وھو السمیع العلیم۔ اسکے مثل کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
شیخ عبد القادر رحمہ اللہ کا یہی عقیدہ رہا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
نفی کرو، پھر ثابت کرو اس طرح کہ ہر وہ صفت جو اللہ کے لائق نہ ہو اس کا انکار کرو اور جو صفات اللہ کے لائق ہوں انہیں ثابت مانو اور یہ وہی صفات ہیں جنہیں اللہ نے اپنے لئے پسند کیا ہے اور اس کے رسول نے اس کے لئے پسند کیا ہے ۔ الخ ۔ [الفتح الربانی صفحہ ۸۰]۔
غنیۃ الطالبین میں لکھتے ہیں کہ [اللہ تعالی کی اسمائ و صفات میں} ہم کتاب اللہ اور سنت رسول سے تجاوز نہیں کرتے ہم آیت و حدیث پڑھتے ہیں اور جو کچھ {صفات} اسمیں بیان ہوئی ہیں ان پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی کیفیت کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ [الغنیۃ ۵۷/۱]
الفتح الربانی میں ایک جگہ بڑے جذبات میں آ کر کہتے ہیں: تمہیں شرم نہیں آتی کہ اللہ تعالی نے اپنے آپ کو جن صفات سے موصوف کرتا ہے اور اپنے لئے پسند بھی فرماتا ہے اور تم تاویل کر کے اس کا رد کر دیتے ہو، کیا تمہارے لئے وہی طریقہ کافی نہیں ہے جو طریقہ صحابہ و تابعین کا تھا، ہمارا رب عرش پر ہے جیسا کہ اس نے کہا ہے ، ہم بغیر کسی تاویل و تحریف اور تشبیہ کے {اسے قبول کرتے ہیں}۔ [الفتح الربانی صفحہ ۹۹، مجلس ۲۱]۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ شیخ نے الفتح الربانی میں بار بار درج ذیل آیت ذکر کی ہے خاص کر جہاں کہیں اللہ کی صفات کا ذکر آیا ہے : [لَیْسَ كَمِثْلِهِ شَیْءٌ وَهُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ] {الشُّورى:11} دیکھئے علی سبیل المثال صفحہ ۳۰، ۶۴، ۸۰، ۸۸
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ایمان

اہل سنت و جماعت کے نزدیک ایمان دل کے اعتقاد زبان سے اقرار اور اعضاء سے عمل کا نام ہے طاعت کے کام سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے اور گناہوں کے ارتکاب سے ایمان میں نقص واقع ہوتا ہے ، شیخ جیلانی رحمہ اللہ کا یہی عقیدہ تھا۔ چنانچہ وہ اپنی مشہور کتاب غنیۃ الطالبین میں لکھتے ہیں:
ونعتقد ان الایمان قول باللسان و معرفۃ بالجنان و عمل بالارکان۔ ۶۳/۱
ہمارا عقیدہ ہے کہ ایمان زبان کے اقرار دل کی معرفت اور اعضاء سے عمل کا نام ہے ۔
اور اس کے فورا بعد لکھتے ہیں کہ :

یزید بالطاعۃ و ینقص بالعصیان
ایمان طاعت کے عمل سے بڑھتا ہے اور نا فرمانی کے عمل سے گھٹتا ہے ۔
شیخ کا اہل سنت و جماعت کی موافقت میں حضرت شیخ رحمہ اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ
"کسی کے لئے ایسا کہنا جائز نہیں ہے کہ میں یقینی مومن ہوں بلکہ واجب ہے کہ یہ کہے میں ان شاء اللہ مومن ہوں۔ [الغنیہ ۶۳/۱]
ان اقوال سے حضرت شیخ نے اشعریہ و حنفیہ اور مرجئہ وغیرہ کی تردید کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ایمان میں کمی و زیادتی نہیں ہوتی بلکہ ہمارا ایمان حضرت جبریل و میکائیل کے ایمان کی طرح ہے [نعوذ باللہ من ذلک]۔
بلکہ حضرت شیخ اور علمائے اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ مومن اپنے ایمان میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں بطور استدلال شیخ نے غنیۃ الطالبین میں کئی آیتیں نقل کی ہیں۔ جیسے
[فَأَمَّا الَّذِینَ آَمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِیمَانًا وَهُمْ یَسْتَبْشِرُونَ] {التوبة:124}
"سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو اور زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں"
یہ آیت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ بھی ظاہر ہے کہ جس چیز میں اضافے کا امکان ہوتا ہے اس میں کمی کی بھی گنجائش ہوتی ہے ۔۔۔
پھر مزید چند آیات نقل کرنے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس، ابو ہریرہ اور ابو درداء رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ایمان میں کمی و زیادتی ہوا کرتی ہے ، مگر ابو الحسن اشعری کے پیروکاروں نے ایمان کے گھٹنے سے انکار کیا ہے ۔ [غنیۃ الطالبین اردو ص۱۵۳]۔
اور شیخ اس مسئلہ میں اس قدر سخت تھے کہ حنفیہ کو باطل و گمراہ فرقوں میں شمار کیا ہے ۔ دیکھئے غنیۃ الطالبین اردو ص ۲۰۴۔
اسی طرح معتزلہ اور ماتریدیہ وغیرہ کا کہنا ہے کہ کسی کو یہ کہنا جائز ہے کہ میں ان شاء اللہ مومن ہوں، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ میں حقیقت میں اور یقیناً مومن ہوں۔ حالانکہ شیخ عبد القادر کی رائے یہ ہے کہ کسی مسلمان کے لئے یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ میں یقیناً مومن ہوں بلکہ واجب ہے کہ یوں کہے میں ان شاء اللہ مومن ہوں۔ دیکھئے الغنیہ اردو ص ۱۵۵۔ عربی ۶۳/۱
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شیخ عبد القادر جیلانی اور کرامتیں

کسی نیک و صالح اور متبع سنت شخص سے اگر کوئی خارق عادت امر ظاہر ہو تو اسے کرامت کہتے ہیں۔ اگر یہی چیز کسی نبی سے ظاہر ہو تو معجزہ کہتے ہیں اور اگر کسی فاسق و فاجر اور کافر و مشرک سے ظاہر ہو تو اسے استدراج کہا جاتا ہے ۔
کرامت کے سلسلے میں یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ اولا تو کرامت کا ظاہر کرنا کسی ولی کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی سچا ولی اس کا دعویدار ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات کرامت کا ظہور ہو جاتا ہے اور ولی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی، یہ وقت اس موضوع کو چھیڑنے کا نہیں ہے ۔
ثانیا: کرامت کا ظہور ولایت کے لئے شرط نہیں ہے اور نہ ہی یہ شرط ہے کہ جس ولی سے جس قدر زیادہ کرامات کا ظہور ہو وہ اتنا ہی بڑا لی ہو بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بندہ اللہ کا بہت بڑا ولی ہو اور اس سے کسی بھی کرامت کا ظہور نہ ہو، جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جو اللہ کے اولیاء اور دنیا کے تمام اگلے پچھلے ولیوں سے بہت اونچے مقام پر فائز تھے اس کثرت سے کرامات کا ظہور نہیں ہوا ہے جس قدر بعد کے ولیوں سے ہوا ہے ۔
لیکن چونکہ بعد کے لوگوں نے ولی و کرامت سے متعلق ان اصول و ضوابط کو سامنے نہیں رکھا، یا یہ کہا جائے کہ وہ انہیں جانتے ہی نہیں ہیں لہذا بہت سے ایسے کام جو کرامت نہیں ہیں بلکہ استدراج و امتحان اور اتفاق ہیں انہیں اپنے خود ساختہ ولیوں کی کرامت شمار کر لیا۔
ثالثا : یہ امر بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کو کرامتوں سے نوازا تھا بلکہ اس میں اللہ تعالی کی کوئی بہت بڑی حکمت ہی ہے کہ دوسرے ولیوں و بزرگوں کے مقابلے میں انہیں زیادہ کرامتوں سے نوازا تھا چنانچہ انکے تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ شیخ سے بار ہا کرامات کا ظہور ہوا ہے ۔ چنانچہ سلطان العلماء حضرت العز بن عبد السلام رحمہ اللہ نے فرمایا: بنقل تواتر جسقدر ہم تک شیخ عبد القادر کی کرامات پہنچیں ہیں کسی اور کی نہیں پہنچی ۔ [السیر ۴۴۳/۲۰، شذرات الذہب ۲۰۰/۴، ذیل الطبقات ۲۹۲/۱]۔
مشہور حنبلی امام موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں جس قدر کرامات حضرت شیخ عبد القادر رحمہ اللہ کی بیان کی جاتی ہیں اسقدر کرامات کسی اور کی ہمیں سننے میں نہیں آئیں۔ [ذیل الطبقات ۲۹۲/۱، شذرات الذہب ۱۹۹/۴]۔
اسی طرح امام ذہبی اور ابن رجب رحمہہما اللہ نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے ۔ [السیر ۴۴۹/۲۰، ذیل الطبقات ۲۹۷/۱]۔
حتی کہ بعض لوگوں نے یہاں تک مبالغہ کیا ہے کہ شیخ کی کرامات اس قدر زیادہ ہیں کہ انہیں اعداد و شمار میں نہیں لایا جاسکتا۔ [شذرات الذہب ۱۹۹/۴]۔حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔
شیخ کی کرامات کے سلسلے میں جہاں بہت سے لوگ حد اعتدال کو پار کر گئے ہیں وہیں کچھ لوگوں نے حضرت شیخ رحمہ اللہ کی کھلی حق تلفی کی ہے ۔
چنانچہ بعض متشددین اور کم علم و کم فہم لوگوں نے تو شیخ پر دجل و فریب وغیرہ کا الزام لگایا ہے حالانکہ شیخ کی ذات دجل و فریب اور کذب بیانی وغیرہ سے ویسے ہی بری ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے خون سے بھیڑیا بری تھا۔
اس جماعت کے برخلاف ایک دوسری جماعت نے شیخ کے بارے میں غلو سے کام لیا اور ان کی طرف بعض ایسی کرامتیں بھی منسوب کر دیں ہیں جو شیخ کے مقام و مرتبہ سے مناسبت نہیں رکھتیں۔ حتی کہ اسمیں سے بعض ایسی کرامتیں ہیں جو شریعت سے کھلے طور پر ٹکراتی ہیں سچ کہا ہے امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہ مشائخ میں جس قدر کرامات و احوال شیخ عبد القادر کے بیان کئے جاتے ہیں کسی اور کے نہیں بیان کئے جاتے ہیں لیکن یہ بات بھی حق ہے کہ ان میں سے بہت سی کرامتیں جھوٹی ہیں اور بعض کرامتوں میں تو محال چیزوں کا ذکر ہے ۔ [السیر ۲۵۰/۲۰]۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ کے تذکرہ اور کرامات سے متعلق وہ کتاب جو ابو الحسن الشطنوفی المصری نے لکھی ہے اس پر علماء نے سخت نکیر کی ہے حتی کہ بعض علماء نے اس کتاب کی بنیاد پر خود شطنوفی کو متہم اور جھوٹا قرار دیا ہے ۔ [دیکھئے ذیل الطبقات ۲۹۳/۱، الدرر الکامنہ ۱۴۲/۳]۔
مثال کے طور پر دو ایک ایسی کرامتیں ملاحظہ کر لیں جسے لوگوں نے جھوٹ اور غلط شیخ کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔
عمر البزار بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں شیخ عبد القادر کے ساتھ جامع مسجد کی طرف نکلا، دیکھا یہ کہ آج کوئی بھی شخص شیخ سے سلام نہیں کر رہا ہے ، مجھے تعجب ہوا کہ ہر جمعہ کو جب ہم نکلتے تھے تو سلام کرنے والوں کے ہجوم کی وجہ سے راستہ چلنا مشکل ہو جاتا تھا ابھی میرے دل میں یہ خیالات گھوم ہی رہے تھے کہ کہ شیخ مسکراتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سلام کرنے کے لئے اس قدر لوگ ٹوٹ پڑے کہ میرے اور شیخ کے درمیان آڑ بن گئے میں نے اپنے دل میں سوچا اس سے بہتر تو وہی حالت تھی جو پہلے تھی کہ شیخ سے کوئی سلام نہیں کر رہا تھا شیخ مسکراتے ہوئے دوبارہ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے عمر تم ایسا سوچ رہے ہو؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ لوگوں کا دل میرے ہاتھ میں ہے جب چاہوں تو اپنی طرف پھیر لوں اور جب چاہوں اپنے سے دور کر دوں۔ [بھجۃ الاسرار ۷۶]۔
۲- ابو حفص عمر الکیسانی بیان کرتے ہیں کہ شیخ عبد القادر لوگوں کے سامنے ہوا میں چلا کرتے تھے اور کہتے تھے سورج طلوع ہونے سے قبل مجھ سے سلام کرتا ہے ، کوئی بھی نیا سال آنے سے پہلے مجھ سے سلام کرتا اور مجھے یہ بتلا دیتا ہے کہ سال بھر میں کیا کیا ہونے والا ہے ، کوئی بھی نیا مہینہ آنے سے قبل مجھ سے سلام کر کے پورے مہینہ میں پیش آنے والے واقعات کی خبر دے دیتا ہے ، اسی طرح ہفتہ آنے سے قبل مجھ سے سلام کر کے ہفتہ بھر پیش آنے والے واقعات کی خبر دے دیتا ہے اور دن آنے سے پہلے مجھ سے سلام کرتا ہے اور پورے دن میں پیش آنے والے واقعات کی مجھے اطلاع دیتا ہے ۔ نیز فرماتے : میرے رب کے عزت کی قسم نیک بختوں اور بدبختوں کے نام جو لوح محفوظ میں درج ہیں میری آنکھوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں میں علم الہی اور اس کے مشاہدات کے سمندر میں غوطہ لگاتا ہوں میں تم تمام لوگوں میں اللہ کی حجت اور اس کے رسول کا نائب اور وارث ہوں۔ صفحہ ۴۰
۳- اسی طرح کی ایک اور جھوٹی کرامت پڑھئے ۔
ایک مرتبہ شیخ عبد القادر جیلانی لوگوں کے سامنے بڑے ہی حضور قلب سے تقریر کر رہے تھے کہ آپ نے فرمایا: میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے یہ سن کر شیخ علی الھیثمی کھڑے ہوئے اور کرسی پر چڑھ کر شیخ کے قدم کو اپنی گردن پر رکھ لیا اور ان کے دامن میں داخل ہو گئے یہ دیکھ کر تمام حاضرین نے اپنی گردن جھکا دی۔ صفحہ ۳
اسی پر بس نہیں بلکہ اس مولف نے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ جب شیخ عبد القادر نے یہ کلمات کہے تو ان کے دل میں حق تعالی کی تجلی نازل ہوئی اور مقرب فرشتوں کی ایک جماعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک خلعت خلافت لیکر آئی اور تمام گزرے ہوئے اور آنے والے ولیوں کی موجودگی میں زندہ ولی اپنے جسموں سمیت حاضر تھے اور مردہ ولیوں کی روحیں حاضر ہوئیں سب کے سامنے خلعت خلافت پہنا دیا ، اس وقت فرشتے اور رجال غیب ہوا میں صفیں باندھے کھڑے تھے حتی کہ ان سے سارا افق بھرا ہوا تھا۔ صفحہ ۹
ان تینوں کرامتوں پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ ان کا توحید کے خلاف ہونا بالکل ظاہر ہے ، ہر شخص جو معمولی علم بھی رکھتا ہے وہ ان کے کذب و دجل ہونے کے بارے میں شبہ نہیں کرسکتا، یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی اور ابن رجب رحمہمااللہ وغیرہ نے شیخ کی طرف منسوب بہت سی کرامتوں کے جھوٹے ہونے کی صراحت کی ہے ۔ [ذیل البطقات ۲۹۳/۱، السیر ۴۵۰/۲۰]۔
دیکھئے الشیخ عبد القادر جیلانی و آراؤہ الاعتقادیہ والصوفیہ صفحہ ۵۷۵ اور اس کے بعد۔
البتہ شیخ رحمہ اللہ کی جو کرامات ثابت ہیں ان سے انکار کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی عقیدہ اہل سنت و جماعت کے خلاف ہے ان میں سے بعض کرامات کا ذکر امام ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء اور حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے ذیل طبقات حنابلہ میں کیا ہے ۔
اب آخر میں شیخ کے محبین کے لئے ایک قادری تحفہ اور پھر شیخ رحمہ اللہ کی ایک دعا پر اس کتابچہ کو ختم کرتے ہیں۔
شیخ رحمہ اللہ چند نصیحتی کلمات کے بعد فرماتے ہیں:
توحید فرض ہے ، طلب حلال فرض ہے ، ضروری علم کا حاصل کرنا فرض ہے ، عمل میں اخلاص فرض ہے ، {شرعی} عمل پر بدلہ نہ لینا فرض ہے ، اس لئے تم فاسقوں اور منافقوں کی مجلس سے دور بھاگو ، سچے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو اگر ایک نیک صالح اور منافق کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو جائے تو رات کو اٹھ کر دو رکعت نماز پڑھو اور اللہ کے حضور یہ دعا کرو، اے میرے رب اپنے نیک و صالح بندوں تک مجھے پہنچا، میری رہنمائی اس بندے تک کر جو میری رہنمائی تیری طرف کرے ، جو مجھے تیرا رزق {مراد پاک رزق} کھلائے تیرا پانی پلائے اور میری آنکھوں میں تیرے قرب کا سرمہ لگائے اور جو حق وہ دیکھ رہا ہے ظاہری طور پر، تقلیدی طور پر نہیں مجھے بتلائے ۔ [الفتح الربانی صفحہ ۱۱۹ مجلس ۲۶]۔
کاش کہ شیخ کا نعرہ لگانے والے ان سے محبت کا دعوی کرنے والے حضرات جب انہیں کوئی مشکل مسئلہ در پیش ہوتا اور حق و باطل میں تمیز مشکل ہو جاتی تو اس نسخہ قادریہ کو اپناتے ۔
اس مجلس نمبر ۲۶ کے آخر میں ہے کہ شیخ مجلس کی ابتداء میں یہ دعا پڑھتے پھر اپنی بات شروع کرتے ۔

الحمد لله رب العالمین (تین بار) عدد خلقه وزنة عرشه ورضا نفسه ومداد كلماته ومنتهى علمه وجمیع ما شاء خلق و ذرأ و برأ ، عالم الغیب والشهادة الرحمن الرحیم الملك القدوس العزیز الحكیم وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شریك له له الملك وله الحمد یحیی ویمیت وهو حی لا یموت بیده الخیر وهو على كل شیء قدیر وإلیه المصیر وأشهد أن محمدا عبده ورسوله أرسله بالهدى ودین الحق لیظهره على الدین كله ولو كره الكافرون .
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد و احفظ الإمام والأمة والراعی والرعیة وألف بین قلوبهم فی الخیرات و ادفع شر بعضهم عن بعض
اللهم وأنت العالم بسرائرنا فأصلحها وأنت العالم بحوائجنا فاقضها وأنت العالم بذنوبنا فاغفرها وأنت العالم بعیوبنا فاسترها ، لا ترنا حیث نهیتنا لا تفقدنا حیث أمرتنا ، لا تنسنا ذكرك ولا تؤمنا مكرك لا تحوجنا إلى غیرك ، لا تجعلنا من الغافلین . اللهم ألهمنا رشدنا وأعذنا من شر أنفسنا ، اشغلنا بك عمن سواك ، اقطع عنا كل قاطع یقطعنا عنك ، ألهمنا ذكرك وشكرك وحسن عبادتك

پھر دائیں طرف متوجہ ہو کر فرماتے :
لا إله إلا الله ما شاء الله ، لا حول ولا قوة لنا إلا بالله العلی العظیم
پھر یہی کلمات سامنے کی طرف رخ کر کے فرماتے ، پھر بائیں طرف متوجہ ہو کر یہی کلمات دہراتے ، پھر فرماتے :
لا تبدأ أخبارنا ولا تهتك أستارنا ولا تؤاخذنا بسوء أعمالنا ، لا تحینا فی غفلة ولا تأخذنا على غرة:
[لَا یُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِینَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى القَوْمِ الكَافِرِینَ] {البقرة:286}
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 
Top