• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح بخاری - زین العابدین احمد بن عبداللطیف - حصہ دوم (یونیکوڈ)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ جو شخص کسی غیر آباد (بنجر) زمین کو آباد کر ے
(۱۰۸۲)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نبیﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :''جو شخص کسی ایسی زمین کو آباد کرے جو کسی کی ملکیت نہ ہو تو وہ آباد کرنے والا اس کا زیادہ حق دار ہے۔ ''

(۱۰۸۳)۔ سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے یہود و نصاریٰ کو سر زمین حجاز سے نکال دیا اور رسول اللہﷺ نے جب خیبر پر غلبہ پایا تو وہاں سے آپﷺ نے یہود کو نکال دینے کا ارادہ کیا اور جس وقت آپﷺ نے خیبر پر غلبہ پایا تھا تو اسی وقت وہاں کی زمین اللہ اور اس کے رسولﷺ اور تمام مسلمان کی ہو گئی تھی پس جب آپﷺ نے وہاں سے یہود سے نکل دینے کا ارادہ کیا تو یہود نے رسول اللہﷺ سے درخواست کی کہ آپ ان کو وہیں رہنے دیں اس شرط پر کہ وہ وہاں کام کریں گے اور انھیں نصف پھل ملیں گے۔ تب ان سے رسول اللہﷺ نے فرمایا:''اچھا ! ہم اس شرط پر کہ تم کو جب تک چاہیں گے رکھیں گے۔ چنانچہ وہ وہاں رہتے تھے یہاں تک کہ سیدنا عمرؓ نے ان کو (مقام) تیما ء اور اریحاء کی طرف نکال دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ نبیﷺ کے اصحاب ایک دوسرے کو کھیتی اور پھلوں میں شریک کر لیا کرتے تھے
(۱۰۸۴)۔ سیدنا رافع بن خدیجؓ (بن رافع) اپنے چچا سیدنا ظہیر بن رافعؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے ایک ایسے کام سے ہمیں منع فرما دیا کہ جس سے ہمیں بہت آسانی ہوتی تھی میں نے کہا کہ جو کچھ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے وہ حق ہے۔ انھوں نے کہا مجھے رسول اللہﷺ نے بلایا اور فرمایا :''تم اپنی کھیتیوں کو کیا کرتے ہو؟ ''میں نے کہا کہ ہم ان کو چوتھائی (پیداوار) پراور (کبھی) کھجور اور جو کے چند و سق پر کرایہ پر دے دیتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا :''ایسا نہ کیا کرو خود ان کو زراعت کر و یا (کسی سے) ان کی زراعت کروا لو یا ان کو اپنے پاس روک رکھو۔ ''سیدنا رافعؓ کہتے ہیں کہ جو ارشا دہو ا ''ہم نے سنا اور دل سے قبول کیا۔ ''

(۱۰۸۵)۔ (نافع رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ) سیدنا ابن عمرؓ نبیﷺ اور سیدنا ابو بکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ کے دور میں اور سیدنا معاویہؓ کی شروع امارت میں اپنے کھیت کرایہ پر دیا کرتے تھے۔ اس کے بعد ان سے سیدنا رافع بن خدیجؓ کی روایت بیان کی گئی کہ نبیﷺ نے کھیتیوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے تو سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سیدنا رافعؓ کے پاس گئے اور میں (نافع) بھی ان کے سا تھ گیا۔ پس سیدنا ابن عمرؓ نے ان سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ نبیﷺ نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ سیدنا ابن عمرؓ نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ ہم رسول اللہﷺ کے عہد میں اپنے کھیت چوتھائی پیداوار پر کسی قدر بھوسہ پر کرایہ پر دیتے تھے۔

(۱۰۸۶)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ کے عہد میں کھیت کرایہ پر دیے جا تے تھے، اس کے بعد سیدنا عبداللہؓ کو خیال آیا کہ شاید نبیﷺ نے اس بارے میں کوئی نیا حکم دیا ہو جو ان کو معلوم نہیں لہٰذا انھوں نے (احتیاطاً)کھیت کا کرایہ پر دینا موقوف کر دیا۔

(۱۰۸۷)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ایک دن یہ بیان فرما رہے تھے اور(اس وقت) آپﷺ کے پاس ایک گاؤں کا آدمی بیٹھا ہو ا تھا :''ایک شخص اہل جنت میں سے اپنے پروردگار سے کھیتی کرنے کی اجازت طلب کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ کیا تو جس حا لت میں ہے اس میں خوش نہیں ہےَ'' وہ عرض کر ے گا کہ ہاں خوش تو ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ کھیتی کروں۔ ''آپﷺ نے فرمایا :''پھر وہ بیج بوئے گا تو اس کا اگنا اور بڑھنا اور کٹنا پلک جھپکنے سے پہلے ہو جائے گا اور اس کی پیداوار کے ڈھیر پہاڑوں کے برابر ہو جائیں گے تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے ابن آدم ! تو کسی چیز سے سیر نہیں ہو تا۔ ''تو وہ اعرابی کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ! آپ ایسا شخص کسی قریشی یا انصاری کو پائیں گے اس لیے کہ وہی لوگ کاشتکار ہیں اور ہم تو کاشتکار نہیں ہیں۔ اس پر نبیﷺ مسکرانے لگے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مساقات کا بیان

(مساقات در حقیقت مز راعت کی ہی ایک قسم ہے۔ فر ق یہ ہے کہ مزراعت زمین میں ہو تی ہے اور مساقات باغات میں۔ یعنی ایک شخص کا با غ ہو دو سرا اس کی نگہبانی کرے پھر پھلوں کو طے شدہ حصے کے مطابق تقسیم کر لیا جائے۔
باب۔ پانی کی تقسیم کے بیان میں
(۱۰۸۸)۔ سیدنا سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے پاس ایک پیالہ (پانی) لا یا گیا۔ آپﷺ نے اس میں سے پیا اور آپﷺ کے داہنی جا نب ایک لڑ کا بیٹھا تھا جو سب لو گوں میں چھوٹا تھا اور معمر بوڑھے سب آپﷺ کی بائیں طرف تھے تو آپﷺ نے اس سے فرما یا :''اے بچے ! کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ پہلے میں یہ پیالہ ان بڑے لو گوں کو دے دوں؟ ''اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں آپﷺ کا جوٹھا اپنے سو اکسی کو نہ دوں گا چنانچہ آپﷺ نے وہ اس کو دے دیا۔

(۱۰۸۹)۔ سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ (ایک مر تبہ) رسول اللہﷺ کے لیے ایک پلی ہو ئی بکری دو ہی گئی اور آپﷺ انس بن مالک کے گھر میں تھے اور اس دودھ میں کنویں کا پانی ملا یا گیا جو انس بن ما لکؓ کے گھر میں تھا۔ پھر وہ قدح (پیالہ) رسول اللہﷺ کو دیا تو آپﷺ نے اس میں سے نوش فرمایا، جب پیا لے کو اپنے منہ سے ہٹایا تو اس وقت آپﷺ کے بائیں جا نب سیدنا ابو بکرؓ تھے اور آپﷺ کے داہنی جا نب ایک اعرابی تھا۔ تو سیدنا عمرؓ نے کہا کیوں کہ ان کو خیال تھا کہ نبیﷺ اپنا جوٹھا اعرابی کو دے دیں گے۔ کہ یا رسول اللہ ! سیدنا ابو بکرؓ کو دے دیجئیے وہ آپﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں مگر آپﷺ نے اپنا جوٹھا اعرابی کو دیا اور فرمایا :''پہلے داہنی جا نب (بیٹھنے) والا زیادہ حق دار ہے پھر جو اس کی دائیں جا نب ہو۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ بعض لو گوں نے کہا سیراب ہو نے تک پانی کا مالک پانی کا زیادہ حق دار ہے
(۱۰۹۰)۔ سیدناابو ہریر ہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :''اپنی ضرورت سے زیادہ پانی اس لیے نہ رو کا جائے کہ جو گھاس ہو۔ وہ بھی رکی رہے۔ ''

(۱۰۹۱)۔ سیدنا ابو ہر یرہؓ سے ایک دو سر ی رو ایت میں منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :''ضرورت سے زائد گھاس کو رو کنے کی غرض سے ضر و رت سے زائد پانی کو نہ رو کا جائے۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ کنویں کے با رے میں جھگڑ ا کر نا اور اس کا فیصلہ کر نا
(۱۰۹۲)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نبیﷺ سے روایت کر تے ہیں کہ آ پﷺ نے فرما یا :'' جو شخص قسم کھائے تا کہ اس کے ذریعہ سے کسی مسلمان کا حق مار لے اور وہ اس قسم میں جھوٹا ہو تو وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کر ے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا۔ ''پھر اللہ نے یہ آیت نا زل فرمائی :''جو لو گ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھو ڑ ی قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں۔۔۔ آخر آیت تک ''(آل عمران :۷۷)تو اتنے میں سیدنا اشعثؓ آ گئے اور انھوں نے کہا کہ ابو عبد الرحمن (یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ) تم سے کیا بیان کر رہے ہیں، یہ آیت تو میرے ہی حق میں نا زل ہو ئی ہے، میر ے چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا (اس نے کنویں کو اپنی ملکیت بتا یا یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کے سا منے اس کا مقدمہ پیش ہو ا) تو نبیﷺ نے مجھ سے فرمایا :''تم اپنے گواہ پیش کرو (تا کہ معلوم ہو کہ یہ کنواں تمہارا ہے؟) میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! میرے پاس گو اہ تو نہیں ہیں تو آپﷺ نے فرمایا :''پھر اس (دو سرے فریق) سے قسم لی جائے گی میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! وہ تو فوراً قسم کھا لے گا۔ اس موقع پر نبیﷺ نے یہ حدیث بیان فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی تصدیق کے لیے یہ آیت کریمہ نا زل فرمائی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ اس شخص کا گناہ جس نے مسا فر کو پانی (پینے سے) روکا
(۱۰۹۳)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فرماتے تھے :''تین آدمی ایسے ہو گے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کو دیکھنا بھی پسند نہیں فرمائے گا اور نہ انھیں (گنا ہوں سے) پا ک فرمائے گا اور ان کو سخت عذاب دیا جائے گا (۱) وہ شخص جور استے میں ہو اور اس کی حا جت سے زیادہ پانی اس کے پاس ہو پھر وہ پانی مسا فر کو نہ دے (۲) وہ شخص جو کسی امام سے بیعت کرے محض دنیا کے لیے کہ اگر وہ اس کو کچھ دنیا و ی حصہ دے تو وہ خوش رہے اور اگر نہ دے تو نا خوش ہو جائے۔ (۳)وہ شخص جو عصر کو بعد اپنا مال فروخت کرنے کے لیے کھڑ ا ہو جائے کہے کی اس اللہ کی قسم جس کے سوا کو ئی معبود نہیں کہ مال کی میں نے اتنی اور اتنی قیمت ادا کی ہے۔ پھر کو ئی شخص اس کو صحیح سمجھ لے (اور اس چیز کو خر ید لے) پھر آ پﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :''جو لو گ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھو ڑ ی قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں۔۔۔ آخر آیت تک۔ (آل عمران :۷۷)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ پانی پلا نے کی فضیلت کا بیان
(۱۰۹۴)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''ایک شخص اس حا لت میں کہ چلا جا رہا تھا اس پر تشنگی غالب ہو ئی تو وہ کنویں میں اترا اوراس نے اس سے پانی پیا پھر وہاں سے نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت کی وجہ سے گیلی مٹی چا ٹ رہا ہے تو اس شخص نے (اپنے دل میں) کہا کہ اس کو بھی ویسی ہی پیاس لگی ہے جیسی مجھے لگی تھی لہٰذا وہ پھر کنویں میں اترا اور اس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا پھر اس کو اپنے دانت سے پکڑا اس کے بعد اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ کام قبول فرما لیا اور اس کو معاف فرما دیا۔ ''لو گوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا ہمیں جا نوروں کی (خد مت) میں ثواب ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا :''ہاں ! ہر (تر جگر) جاندار کی خدمت میں ثواب ملتا ہے۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ حوض اور مشک کا مالک اس کے پانی کا زیادہ حق دار ہے (جو باقی رہ جائے وہ دو سروں کو دے)
(۱۰۹۵)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :'' قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ (قیامت کے دن) اپنے حوض (کوثر) سے کچھ لوگوں کو اس طرح ہانک دوں گا جس طرح اجنبی اونٹ حوض سے ہانک دیے جاتے ہیں۔ ''

(۱۰۹۶)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا :'' تین آدمی ایسے ہوں گے جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہ فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظر (رحمت) فرمائے گا (۱) وہ شخص جس نے اپنے مال پر قسم کھائی کہ اس نے اس کی زیادہ رقم دی ہے اور وہ جھوٹا ہو (۲) وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی مسلمان کا مال بٹورنے کے لیے جھوٹی قسم کھائی (۳)وہ شخص جس کے پاس اپنی حاجت سے زیادہ پانی ہو مگر وہ لوگوں کو نہ دے تو اللہ (قیامت میں اس سے) فرمائے گا کہ آ ج میں تجھے اپنے فضل سے روکتا ہوں جس طرح تو لوگوں کو فاضل پانی سے روکتا تھا جس کو تو نے پیدا نہیں کیا تھا۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ سرکاری چراگاہ تو صرف اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ کے لیے ہے۔
(۱۰۹۷)۔ سیدنا صعب بن جثامہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ چراگاہ (گھاس اور شکار کرنے سے روکنا) سوائے اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسولﷺ کے کسی کو جائز نہیں۔ '' (خلیفہ بھی رسول اللہﷺ کا قائم مقام ہے)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ نہروں سے انسانوں او چوپایوں کا پانی پینا (درست ہے)
(۱۰۹۸)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' گھوڑا بعض لوگوں کے لیے باعث ثواب ہے اور بعض لوگوں کے لیے باعث ستر اور بعض لوگوں کے لیے باعث گناہ ہے۔ سووہ شخص کہ جس کے لیے باعث اجر ہے وہ شخص ہے جس نے اس کو اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) پالا ہو پھر اس کو چراگاہ میں یا باغ میں بڑی رسی سے باندھ دیا پس وہ اس باغ یا چراگاہ کے جس قدر میدان میں پھر ے گا اس کے عوض اسے نیکیاں ملیں گی اور اگر اس گھوڑے کی رسی ٹوٹ جائے اور وہ ایک بلندی یا دو بلند ی پھاندے تو اس کے قدم اور اس کا فضلہ سب اس کے لیے نیکی میں شمار کیے جائیں گے اور اگر اس گھوڑے کا گزر کسی نہر پر ہو اور وہ اس میں پانی پیے حالانکہ وہ شخص اس نہر سے پانی پلانے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تب بھی اسے نیکیاں ملیں گی پس اس قسم کا گھوڑا اس وجہ سے باعث ثواب ہے۔ اور جس شخص نے سوال سے بچنے اور روپیہ پیسہ کمانے کے لیے گھوڑا پال رکھا ہو پھر وہ اپنی ذات اپنی سواری میں اللہ کا حق نہ بھولتا ہو تو یہ گھوڑا اس شخص کے لیے باعث ستر (یعنی بچاؤ) ہے اور جس شخص نے محض فخر اور ریا کی غرض سے اور اہل اسلام سے دشمنی کے لیے گھوڑا پالا ہو تو وہ گھوڑا اس شخص پر وبال ہو گا۔ '' اور رسول اللہﷺ سے گدھوں کے پالنے کی بابت پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا :'' ان کی بابت مجھ پر نازل نہیں ہوا سوائے اس جامع اور بے مثال آیت کے :'' قیامت کے دن جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس (نیکی) کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ بھی اس (برائی) کو دیکھ لے گا۔ ''(الزلزال : ۷۔ ۸)
 
Top