• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح بخاری - زین العابدین احمد بن عبداللطیف - حصہ دوم (یونیکوڈ)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ قسم کس طرح لی جائے؟
(۱۱۸۳)۔ سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :'' جو شخص قسم کھانا چاہے وہ اللہ کی قسم کھائے یا سکوت کرے۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صلح کا بیان

باب۔ جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کر ادے وہ جھوٹا نہیں ہے
(۱۱۸۴)۔ سیدہ ام کلثوم بنت عقبہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ یہ فرماتے ہوئے سنا :'' جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے کسی اچھی بات کی چغلی کھائے یا اسی سلسلہ کی اور کوئی اچھی بات کہہ دے وہ جھوٹا نہیں ہے۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ امام کا اپنے ساتھیوں سے یہ کہنا کہ ہمیں لے چلو ہم صلح کرا دیں
(۱۱۸۵)۔ سیدنا سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ قبا والوں نے (ایک دفعہ) باہم جنگ کی یہاں تک کہ باہم پتھر مارے۔ پس رسول اللہﷺ کو اس کی خبر دی گئی تو آپﷺ نے فرمایا :'' ہمیں لے چلو، ہم ان کے درمیان صلح کرا دیں۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ (صلح نامہ) کیوں کر لکھا جائے (کیا اس طرح لکھے) کہ '' یہ وہ صلح نامہ ہے جس میں فلاں بن فلاں نے صلح کی '' اور خاندان اور نسب نامہ لکھنا ضروری نہیں۔ ''
(۱۱۸۶)۔ سیدنا براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ذیقعدہ میں عمرہ کیا تو اہل مکہ نے اس بات کو نہ مانا کہ آپ کو مکہ میں داخل ہو نے دیں حتیٰ کہ آپﷺ نے ان سے اس بات پر فیصلہ کر لیا کہ تین دن مکہ میں قیام کریں پھر جب ان لوگوں نے تحریر لکھی تو یہ لکھوایا کہ '' یہ صلح نامہ ہے جس پر محمد اللہ کے رسول (ﷺ) راضی ہوئے۔ '' تو مشرکوں نے کہا کہ ہم اس بات کا اقرار نہیں کرتے کیوں کہ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں تو ہم آپ کو (عمرے سے ہر گز) نہ روکتے بلکہ (ہم یہ جانتے ہیں کہ) آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا :'' میں اللہ کا رسول ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ '' اس کے بعد آپ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا :'' تم رسول اللہ (کے لفظ) کو مٹا دو۔ تو انھوں نے عرض کی کہ نہیں اللہ کی قسم ! میں آپ (کے نام) کو ہرگز نہ مٹاؤں گا چنانچہ رسول اللہﷺ نے وہ تحریر خود لے لی اور لکھ (لکھوا) دیا کہ '' یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ (ﷺ) نے فیصلہ کیا، وہ مکہ میں ہتھیار غلاف میں رکھ کر داخل ہوں گے اور مکہ والوں میں جو کوئی ان کے ساتھ جانا چاہے گا اس کو ساتھ نہیں لے جائیں گے اور اپنے ساتھ والوں میں سے اگر کوئی مکہ میں رہ جانا چاہے گا تو اس کو منع نہیں کریں گے۔ '' پھر جب آپﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور مدت گزر گئی تو لوگ سیدنا علیؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ تم اپنے صاحب (ﷺ) سے کہو کہ اب ہمارے پاس سے چلے جائیں کیوں کہ (مقررہ) وقت گزر گیا پس نبیﷺ مکہ سے باہر آ گئے پھر سیدنا حمزہؓ کی بیٹی ان کے پیچھے اے چچا! اے چچا ! کہتی ہوئی دوڑی تو اس کو سیدنا علیؓ نے لے لیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے سیدہ فاطمہ (رضی اللہ عنہ کے پاس لائے اور) کہا کہ اپنے چچا کی بیٹی کو لے لو، میں اس کو اٹھا لایا ہوں پھر سیدنا علیؓ اور سیدنا زیدؓ اور سیدنا جعفرؓ نے باہم اختلاف کیا۔ سیدنا علیؓ کہتے تھے کہ میں اس لڑکی کا زیادہ مستحق ہوں، یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور سیدنا جعفرؓ کہتے تھے کہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے اور سیدنا زیدؓ نے کہا کہ وہ میرے بھائی کی بیٹی ہے تو نبیﷺ نے اس لڑکی کو اس کی خالہ کو دلوا دیا اور فرمایا :'' خالہ ماں کی طرح ہے۔ '' اور سیدنا علیؓ سے آپﷺ نے فرمایا :'' تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ '' اور سیدنا جعفرؓ سے آپﷺ نے فرمایا :'' تم میری صورت اور سیرت (دونوں) کے مشابہ ہو۔ '' اور سیدنا زیدؓ سے فرمایا :'' تم میرے بھائی ہو اور میرے مولا ہو۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ نبیﷺ کا سیدنا حسن بن علیؓ کی نسبت فرمانا کہ یہ میرا بیٹا سید ہے
(۱۱۸۷)۔ سیدنا ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو منبر پر دیکھا اور سیدنا حسن بن علیؓ آپﷺ کے پہلو میں تھے۔ آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور کبھی ان کی طرف اور فرماتے تھے :'' یہ میرا بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرا دے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ کیا (درست ہے کہ) امام صلح کے لیے اشارہ کر دے؟
(۱۱۸۸)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہﷺ نے کچھ جھگڑنے والوں کی بلند آوازیں (مسجد کے) دروازے سے سنیں اور یکایک (آپ کو یہ معلوم ہوا کہ) ان میں سے ایک دوسرے سے (قرض میں) کمی کرنے کی گزارش کر رہا ہے اور نرمی طلب کرتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم ! میں ایسا نہ کروں گا تو رسول اللہﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا :'' اس امر پر اللہ کی قسم کھا نے والا کہ وہ اچھی بات پر عمل نہ کرے گا کہاں ہے؟ '' تو اس شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! میں یہ ہوں (اچھا اب میں راضی ہوں کہ) جو کچھ میرا حریف چاہے گا وہ اسے دے دوں گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
شروط کے بیان میں

باب۔ عقد نکاح کے وقت مہر میں شرطیں کرنا
(۱۱۸۹)۔ سیدنا عقبہ بن عامرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' سب شرطوں میں پورا کرنے کی زیادہ مستحق وہ شرط ہے جس کے ذریعے سے تم نے شرمگاہوں کو (اپنے اوپر) حلال کیا ہو۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ وہ شرطیں جو حدود میں جائز نہیں
(۱۱۹۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ اور سیدنازید بن خالد جہنیؓ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے بیان کیا کہ ایک شخص اعراب میں سے رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہو اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ میرے لیے کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجئیے اس کے فریق ثانی نے کہا اور وہ اس سے زیادہ سمجھ دار تھا کہ ہاں آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجئیے اور مجھے اجازت دیجئیے (کہ میں اپنا حال عرض کروں) پس رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' (اچھا اب تم اپنا حال) بیان کرو۔ '' اس نے کہا کہ میرا بیٹا اس کے ہاں مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا اور مجھ سے لوگوں نے بیان کیا کہ میرے بیٹے پر رجم واجب ہے پس میں نے اس کی طرف سے سو بکریاں اور ایک لونڈی (اس شخص کو) دی۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انھوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میرے بیٹے پر سو درے اور ایک سال کی جلا وطنی واجب ہے اور اس کی بیوی پر رجم واجب ہے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کیے دیتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس مل جائیں گی اور تیرے بیٹے پر سودرے اور ایک سال کی جلا وطنی (کا حکم دیا جائے گا) اور اے ا نیس ! تم اس شخص کی عورت کے پاس جاؤ اگر وہ اقرار کر لے تو اسے سنگسار کر دینا۔ '' سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس عورت نے اقرار کر لیا۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے اس پر (حد جاری کر نے کا) حکم دیا اور وہ سنگسار کر دی گئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ مزارعت میں (اپنے شریک سے) شرط کرنا
(۱۱۹۱)۔ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ جب خیبر والوں نے عبداللہ بن عمرؓ (یعنی خود ان) کے ہاتھ پاؤں تو ڑ دیے تو سیدنا عمرؓ خطبہ پڑھنے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ بے شک رسول اللہﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے ان کے مالوں کی بابت معاملہ کیا تھا اور فرمایا تھا :'' جب تک اللہ تم کو قائم رکھے گا تو ہم بھی تم کو قائم رکھیں گے۔ ''اور(اس وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ) عبداللہ بن عمرؓ اپنی جائداد پر جو وہاں گئے تو ان پر شب کے وقت ظلم کیا گیا اور ان کے دونوں ہاتھ اور پاؤں تو ڑ دیے گئے اور ان یہودیوں کے سوا کوئی ہمارا دشمن وہاں نہیں ہے وہی ہمارے دشمن ہیں اور ہمارا شبہ انھیں پر ہے اور اب میں ان کا جلا وطن کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ پھر جب سیدنا عمرؓ نے اس بات کا مضبوط ارادہ کر لیا تو ابو حقیق کی اولاد میں سے کوئی شخص آیا اور اس نے کہا کہ اے امیر المومنین ! کیا آپ ہم کو نکالے دیتے ہیں حالانکہ محمد (ﷺ) نے ہمیں قائم کیا تھا اور (یہاں کے) مالوں کی بابت ہم سے معاملہ کیا تھا اور اس بات کی ہمارے لیے شرط کر لی تھی۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہﷺ کا قول بھول گیا ہوں (جو آپﷺ نے فرمایا تھا) کہ تیرا کیا حال ہو گا جب تو خیبر سے نکالا جائے گا، تیرا اونٹ تجھے راتوں میں پے درپے لیے پھر ے گا۔ اس نے کہا یہ تو ابوا لقاسم (ﷺ) کا مذاق تھا۔ سیدنا عمرؓ نے کہا اے اللہ کے دشمن ! تو جھوٹ بولتا ہے تو پھر ان کو سیدنا عمرؓ نے نکال دیا اور جو کچھ ان کا تھا میوہ جات، اونٹ اور دوسرے اسباب یعنی کجاوے اور رسیوں وغیرہ کی قسم سے ان کی قیمت انھیں دے دی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب۔ جہاد میں حربی کافروں کے ساتھ صلح کرنے میں شرطیں طے کرنا اور لوگوں کے ساتھ شرائط کا قول اور کتابت (دونوں) کے ساتھ کرنا (کیسا ہے؟)
(۱۱۹۲)۔ سیدنا مسوربن مخرمہ اور سیدنا مروانؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ زمانہ حدیبیہ میں تشریف لے چلے یہاں تک کہ جب آپﷺ اثنائے راہ میں تھے تو (بطور معجزہ کے) فرمایا کہ خالد بن ولید (مقام) غمیم میں قریش کے سواروں کے ساتھ مقدمۃ الجیش ہیں پس تم داہنی جانب چلو (اور اسی طرف خالد بھی تھے) مگر اللہ کی قسم خالد کو مسلمانوں کو آنا معلوم بھی نہیں ہوا یہاں تک کہ جب لشکر کا غبار ان کے پاس پہنچا تو (ان کو معلوم ہوا کہ نبیﷺ آ گئے اور فوراً) ایک شخص قریش کو خبر دینے کے لیے چل دیا اور نبیﷺ برابر چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ جب آپﷺ اس پہاڑی پر پہنچے جس کے اوپر سے ہو کے مکہ میں اترتے گئے تو آپﷺ کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگوں نے کہا حَل حَل (اور بہت کو شش کی کہ وہ چلے) مگر اس نے جنبش نہ کی تو صحابہؓ نے کہا قصواء(رسول اللہﷺ کی اونٹنی) اڑ گئی، قصواء اڑ گئی۔ نبیﷺ نے فرمایا :'' قصوا ء (خود سے) اڑی نہیں نہ یہ اس کی عادت ہے، بلکہ اسے اس ذات نے روکا ہے جس نے ہاتھی کو روکا تھا۔ '' پھر آپﷺ نے فرمایا :'' قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کفار قریش مجھ سے جس بات کا سوال کریں گے اور وہ اس میں اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کی تعظیم کریں گے تو میں ان کی اس بات کو منظور کر لوں گا۔ '' اس کے بعد آپﷺ نے اس کو ڈانٹا تو وہ جست لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ آپﷺ نے اہل مکہ کی طرف سے رخ پھیرا، یہاں تک کہ حدیبیہ کے کنارے ایک ثمد نامی چشمے یا گڑھے پر پڑاؤ کیا، جس میں پانی بہت کم تھا۔ لوگ اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی لیتے تھے پس تھوڑی ہی دیر میں لوگوں نے اس کو صاف کر دیا اور نبیﷺ سے پیاس کی شکایت کی۔ آپﷺ نے ایک تیرا اپنے ترکش سے نکال دیا اور انھیں حکم دیا کہ اس کو اس پانی میں گاڑدیں۔ پس اللہ کی قسم پانی انھیں سیراب کر نے کے لیے جوش مارنے لگا، یہاں تک کہ سب اس سے سیراب ہو گئے۔ پس وہ اسی حال میں تھے کہ بد یل بن ورقاء خزاعی اپنی قوم کے چند لوگوں کے ہمراہ خزاعہ سے آیا اور یہ لوگ رسول اللہﷺ کے خیر خواہ،تہامہ کے لوگوں میں سے تھے۔ اس نے کہا کہ میں نے کعب بن لؤی کو (اس حال میں) چھوڑا ہے کہ وہ حدیبیہ کے عمیق چشموں پر فروکش ہیں اور ان کے ہمراہ دودھ والی اونٹنیاں (غرض ہر طرح سے ان کا سامان درست ہے) اور وہ لوگ آپﷺ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کو کعبہ سے روکنا چاہتے ہیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' ہم کسی سے لڑنے کے لیے نہیں آئے، بلکہ ہم تو عمرہ کر نے کے لیے آئے ہیں اور بے شک قریش کو لڑائی نے کمزور کر دیا ہے اور ان کو (بہت کچھ) نقصان پہنچا ہے، پس اگر وہ چاہیں تو میں ان سے کوئی مدت مقرر کر لوں اور (بعد اس مدت کے) وہ میرے اور کفار عرب کے درمیان میں دخل نہ دیں (یعنی میرے اور ان کے درمیان جنگ ہو) پس اگر میں غالب آؤں تو اگر وہ چاہیں کہ اس دین میں داخل ہوں جس میں اور لو گ داخل ہوئے ہیں تو ایسا کریں اور میں غالب نہ آؤں تو پھر انھیں بھی آرام مل جائے گا (کیوں کہ اس صورت میں ان کا مقصود اصلی حاصل ہو جائے گا) اور اگر وہ لوگ اس بات کو منظور نہ کریں گے تو قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اپنی اسی حالت میں ان سے لڑوں گا یہاں تک کہ میں قتل کر دیا جاؤں اور بے شک اللہ اپنے دین کو جاری کر ے گا۔ '' تو بدیل نے کہا کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں میں قریش سے جا کر کہوں گا۔ چنانچہ وہ گیا، یہاں تک کہ قریش کے پاس پہنچا اور کہا کہ ہم تمہارے پاس اسی شخص کے پاس سے آ رہے ہیں اور ہم نے انھیں کچھ کہتے ہوئے سنا ہے، پس اگر تم چاہو کہ وہ گفتگو ہم تم سے بیان کر دیں، تو ہم بیان کریں؟ ان میں سے بیوقوف لوگوں نے کہا کہ ہمیں اس کی کچھ حاجت نہیں کہ تم ہمیں کسی بات کی خبر دو مگر ان میں سے عقلمند لوگوں نے کہا کہ تم نے انھیں جو کچھ کہتے ہوئے سناہو، بیان کرو۔ بدیل نے کہا میں نے ان کو ایسا ایسا کہتے ہوئے سنا ہے، پھر جو کچھ نبیﷺ نے فرمایا تھا وہ ان سے بیان کر دیا تو عروہ بن مسعود کھڑے ہو گئے اور انھوں نے کہا کہ اے لوگو ! کیا میں (تمہارا) باپ نہیں ہوں؟ ان لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر عروہ نے کہا کہ کیا تم (مثل) میرے بیٹے (کے) نہیں ہو؟ ان لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ عروہ نے کہا کیا تم مجھ سے (کسی قسم کی) بد ظنی رکھتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ عروہ نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے (مقام) عکاظ والوں کو تمہاری مدد کے لیے بلایا مگر جب انھوں نے میرا کہا نہ مانا تو میں نے اپنے اعزہ اور اولاد کو جس نے میرا کہا مانا اس کو تمہارے پاس لے آیا؟ انھوں نے کہا کہ ہاں (یہ سب صحیح ہے) عروہ نے کہا تو (اچھا اب میری ایک بات مانو) اس شخص (یعنی رسول اللہﷺ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی بات پیش کی ہے، اس کو منظور کر لو اور مجھے اجازت دو کہ میں اس کے پاس جاؤں۔ سب لوگوں نے کہا اچھا تم اس کے پاس جاؤ چنانچہ عروہ نبیﷺ کے پاس آیا اور نبیﷺ سے گفتگو کر نے لگا تو نبیﷺ نے ویسی ہی گفتگو (اس سے بھی) کی جیسی بدیل سے کی تھی، تو اس وقت عروہ نے کہا کہ اے محمد ! یہ بتاؤ کہ اگر تم اپنی قوم کی جڑ، بنیاد بالکل کاٹ ڈالو گے (تو اس میں تمہارا کیا فائدہ ہو گا) کیا تم نے اپنے سے پہلے کسی عرب کو سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا استیصال کیا ہو؟ اور اگر کوئی دوسری بات ہوئی (یعنی تم مغلوب ہو گئے تو پھر کیا ہو گا اور بظاہر نتیجہ یہی معلوم ہوتا ہے) کیوں کہ میں (تمہارے ہمراہ) ایسے لوگ اور ایسے مختلف آدمی دیکھ رہا ہوں کہ وہ بھاگ جانے میں ہی عافیت جانتے ہیں اور وہ تمہیں (میدان جنگ میں تنہا) چھوڑ دیں گے تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے (یہ سن کر) عروہ سے کہا کہ جا اور لات کی شرمگاہ چوس لے۔ کیا ہم (رسول اللہﷺ کے ساتھ سے) بھاگ جائیں گے؟ اور انھیں تنہا چھوڑ دیں گے؟ عروہ نے کہا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ابو بکرؓ ہیں۔ عروہ نے کہا کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا، جس کا میں نے ابھی تک بدلہ نہیں چکایا تو میں ضرور تم کو جواب دیتا۔ (مسو ر) کہتے ہیں کہ پھر عروہ نبیﷺ سے گفتگو کر نے لگا اور جب وہ آپ سے بات کرتا تھا تو (از راہ خوشامد) آپﷺ کی ڈاڑھی میں ہاتھ ڈال دیتا تھا اور سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ نبیﷺ کے سر کے پاس کھڑے ہوئے تھے اور ان کے پاس تلوار تھی اور ان (کے سر) پر خود تھا۔ پس جب عروہ اپنا ہاتھ نبیﷺ کی ڈاڑھی کی طرف بڑھانے لگتا تو سیدنا مغیرہ (رضی اللہ عنہ) اس کے ہاتھ پر تلوار کا نچلا حصہ مارتے اور کہتے کہ اپنا ہاتھ رسول اللہﷺ کی ڈاڑھی سے پیچھے رکھ۔ پس عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ مغیرہ بن شعبہؓ تو عروہ نے کہا کہ اے دغا باز ! کیا میں نے تیرے دغا بازی کی سزا سے تجھ کو نہیں بچا یا اور سیدنا مغیرہؓ زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگوں کے پاس نشست وبرخاست کرتے تھے، پھر ان کو قتل کر ڈالا اور ان کے مال لے لیے، بعد اس کے وہ آئے اور اسلام لائے تو نبیﷺ نے فرمایا :'' اسلام کو تو قبول کیے لیتا ہوں مگر مال کی نسبت مجھے کچھ اختیار معاف کرنے کا نہیں ہے۔ '' اس کے بعد عروہ گوشۂ چشم سے نبیﷺ کے اصحاب کو دیکھنے لگا۔ راوی کہتا ہے پس (اس نے یہ حال دیکھا کہ) رسول اللہﷺ جب لعاب تھوکتے تھے تو صحابہؓ میں سے کسی نے کسی کے ہاتھ میں پڑتا تھا اور وہ اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا اور جب آپﷺ انھیں کوئی حکم دیتے تھے تو اس کی بجا آوری میں لو گ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر تے۔ جب آپﷺ وضو کرتے تھے تو وہ لوگ آپﷺ کے غسالۂ وضو پر لڑتے تھے (کوئی کہتا تھا اس کو ہم لیں گے، کوئی کہتا تھا اس کو ہم لیں گے) اور جب آپﷺ بات کرتے تھے تو ان سب پر خاموشی چھا جاتی تھی اور بے محابا آپﷺ کی طرف بغرض تعظیم نہ دیکھتے تھے۔ پھر عروہ ساتھیوں کے پاس لو ٹ کر گیا اور کہا کہ اے لوگو ! اللہ کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی اس قدر تعظیم کرتے ہوں،جس قدر محمدﷺ کے اصحاب محمد (ﷺ) کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم وہ جب لعاب تھوکتے ہیں تو ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں پڑتا ہے اور وہ اس کو اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے اور جب وہ اپنے اصحاب کو کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو وہ بہت جلد ان کے حکم کے تعمیل کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو لوگ ان کے (غسالۂ) وضو کے لیے لڑتے مرتے تھے اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں لوگوں پر خاموشی چھا جاتی ہے اور بغرض تعظیم ان کی طرف نظر بھر کے دیکھتے نہیں اور بے شک انھوں نے تمہارے سامنے ایک عمدہ بات پیش کی ہے، لہٰذا تم اس کو مان لو۔ تو بنی کنانہ میں سے ایک شخص نے کہا کہ تم مجھے اجازت دو کہ میں ان کے پاس جاؤں۔ لوگوں نے کہا اچھا تم ان کے پاس جاؤ۔ پس جب وہ نبیﷺ اور آپ کے اصحاب کے سامنے آیا تو نبیﷺ نے فرمایا :'' یہ فلاں شخص ہے اور وہ اس قوم میں سے ہے جو قربانی کے جانوروں کی تعظیم کیا کرتے ہیں لہٰذا تم قربانی کے جانور اس کے سامنے کرو۔ '' چنانچہ صحابہؓ نے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دیے اور تلبیہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ پس اس نے یہ دیکھا تو کہنے لگا :سبحان اللہ ! ان لوگوں کو کعبہ سے روکنا زیبا نہیں۔ پھر جب وہ اپنے لوگوں کے پاس لوٹ کر گیا تو کہنے لگا میں نے قربانی کے جانوروں کو دیکھا کہ انھیں قلادہ پہنائے گئے تھے اور ان کا شعار (کوہان زخمی) کیا ہوا تھا، لہٰذا میں مناسب نہیں سمجھتا کہ یہ لوگ کعبہ سے روکے جائیں۔ پھر ایک شخص ان میں سے کھڑا ہو گیا۔ جس کا نام مکرز بن حفص تھا، اس نے کہا کہ مجھے اجازت دو کہ میں محمد (ﷺ) کے پاس جاؤں۔ لوگوں نے کہا کہ اچھا تم بھی جاؤ۔ چنانچہ وہ جب مسلمانوں کے پاس آیا تو نبیﷺ نے فرمایا :'' یہ مکرز ہے اور یہ ایک بد کار آدمی ہے۔ '' پھر وہ نبیﷺ سے گفتگو کرنے لگا، پس اسی حالت میں کہ وہ آپ سے گفتگو کر رہا تھا سہیل بن عمرو (نامی ایک شخص کافروں کی طرف سے) آیا تو نبیﷺ نے فرمایا :'' اب تمہارا کام آسان کر دیا گیا۔ '' اس (سہیل بن عمرو) نے کہا کہ آپ ہمارے اور اپنے درمیان میں صلح نامہ لکھ دیجئیے پس نبیﷺ نے کا تب کو بلایا اور نبیﷺ نے اس سے فرمایا کہ بِسْمِ اﷲِ الَّرحَمٰنِ الرَّحِیْمِ سہیل نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم رحمن کو نہیں جانتے کہ کون ہے، لہٰذا آپ یوں لکھوائیے :بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ جیسا کہ آپ پہلے لکھا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہم تو بِسْمِ اﷲِ الَّرحَمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھوائیں گے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ (اس پر اصرار نہ کرو)۔ بِاسْمِکَ اللّٰھُم لکھ دو۔ '' پھر آپﷺ نے فرمایا (لکھو) '' یہ وہ تحریر ہے کہ جس پر محمد رسول (ﷺ) نے صلح کی۔ '' سہیل نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو کعبہ سے نہ روکتے اور نہ آپ سے جنگ کرتے۔ لہٰذا آپ یہ لکھوائیے کہ محمد بن عبداللہ۔ نبیﷺ نے فرمایا :'' اللہ کی قسم ! بے شک میں اللہ کا رسول ہوں اگر چہ تم لوگ میری تکذیب کرتے رہو۔ لکھو جی محمد بن عبداللہ۔ '' پھر نبیﷺ نے فرمایا :'' اس بات پر کہ اے کفار مکہ ! تم ہمارے اور کعبہ کے درمیان میں راہ صاف کر دو کہ ہم اس کا طواف کر لیں۔ '' سہیل نے کہا کہ اللہ کی قسم (ہم یہ بات اس سال منظور نہ کریں گے کیوں کہ ہمیں خوف ہے کہ) کہیں عرب یہ نہ کہیں کہ ہم مجبور کر دیے گئے بلکہ آئندہ سال میں یہ بات ہو جائے گی۔ چنانچہ نبیﷺ نے یہی لکھوا دیا۔ پھر سہیل نے کہا کہ (یہ بھی لکھوا دیجئیے کہ) '' اور اس بات پر کہ اے محمد ! ہماری طرف سے جو شخص تمہارے ہاں جائے، اگر چہ وہ تمہارے دین پر ہو تو اسے ہماری طرف واپس کر دو گے۔ '' مسلمانوں نے کہا سبحان اللہ ! وہ کیوں کر مشرکوں کے پاس واپس کر دیا جائے؟ حالانکہ وہ مسلمان ہو کے آیا ہے۔ پس اسی حالت میں سیدنا ابو جندل ابن سہیل اپنی بیڑیوں میں لڑکھڑا تے ہوئے آئے اور وہ مکہ کے نشیب سے آئے تھے، یہاں تک کہ انھوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے درمیان میں ڈال دیا۔ سہیل نے کہا کہ اے محمد ! یہی سب سے پہلی بات ہے جس پر ہم آپ سے صلح کرتے ہیں کہ تم ابو جندل کو مجھے واپس دے دو تو نبیﷺ نے فرمایا :'' ہم نے ابھی تحریر ختم نہیں کی۔ ''
(ابھی سے ان شرائط پر کیوں کر عمل ضروری ہو سکتا ہے؟) سہیل نے کہا تو اللہ کی قسم ہم تم سے کسی بات پر کبھی صلح نہ کریں گے تو نبیﷺ نے فرمایا :'' اچھا اس (ایک آدمی) کی تم مجھے اجازت دے دو۔ '' سہیل نے کہا کہ میں ہرگز اس کی اجازت نہ دوں گا۔ '' نبیﷺ نے پھر فرمایا :'' نہیں ! اس کی اجازت دے دو۔ اس نے کہا کہ میں نے نہ دوں گا۔ مکرز نے کہا چلئیے ہم اس کا آپﷺ ہیں (مگر اس کی بات نہیں چلی) ابو جندل نے کہا کہ اے مسلمانو ! کیا میں مشرکوں کی طرف واپس کر دیا جاؤں گا؟ حالانکہ میں مسلمان ہو کے آیا ہوں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں نے (اسلام کے لیے) کیا کیا تکلیفیں اٹھائی ہیں؟ (اور درحقیقت) ابو جندل کو اللہ کی راہ میں بہت سخت تکلیف دی گئی تھی۔ سیدنا عمر بن خطابؓ کہتے ہیں کہ پھر میں نبیﷺ کے پاس آیا اور میں نے عرض کی کہ کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟ نبیﷺ نے فرمایا :'' ہاں (میں ضرور سچا نبی ہوں)۔ '' میں نے عرض کی کہ کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ نبیﷺ نے فرمایا :'' ہاں (یہ بھی درست ہے)۔ '' میں نے عرض کی پھر ہم کیوں اپنے دین کے متعلق یہ ذلت گوارا کریں؟ آپﷺ نے فرمایا :'' میں اللہ کارسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ میرا مدد گار ہے۔ '' میں نے عرض کی کہ کیا آپ ہم سے نہ بیان کرتے تھے کہ ہم کعبہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟ نبیﷺ نے فرمایا :'' ہاں ! مگر کیا میں نے تم سے کہا تھا کہ ہم اب کے ہی سال کعبہ جائیں گے؟ '' میں نے کہا نہیں (یہ تو نہیں بیان کیا تھا) آپﷺ نے فرمایا :'' تو تم کعبہ جاؤ گے اور اس کا طواف کر و گے۔ '' سیدنا عمرؓ کہتے ہیں کہ پھر میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ اے ابو بکرؓ ! کیا یہ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟ سیدنا ابو بکرؓ نے کہا ہاں (بے شک وہ اللہ کے رسول ہیں) میں نے کہا کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ انھوں نے کہا ہاں (ضرور ہے) میں نے کہا کہ پھر ہم کیوں اپنے دین کے متعلق یہ ذلت گوارا کریں؟ سیدنا ابو بکرؓ نے کہا اے شخص !بے شک یہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ اپنے پروردگار کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ ان کا مددگار ہے۔ لہٰذا تم ان کی مخالفت نہ کرو، کیوں کہ اللہ کی قسم وہ حق پر ہیں۔ میں نے کہا کیا وہ ہم سے بیان نہ کرتے تھے کہ ہم کعبہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟ سیدنا ابوبکرؓ نے کہا کہ ہاں (کہا تھا) مگر کیا تم سے بیان کیا تھا کہ تم اسی سال کعبہ جاؤ گے اور اس کا طواف کر و گے؟ میں نے کہا کہ نہیں تو سیدنا ابو بکرؓ نے کہا تو پھر کعبہ جاؤ گے اور اس کا طواف کر و گے۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں کہ اس (گستاخی) کے کفارہ میں میں نے بہت سی عبادتیں کیں۔ (راوی) کہتے ہیں کہ پھر جب صلح نامہ کی تحریر سے فراغت ہوئی تو رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا :'' اٹھو ! قربانی کر ڈالو اور سر منڈوا ڈالو۔ '' راوی کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم کوئی شخص بھی ان میں سے نہ اٹھا، یہاں تک کہ آپﷺ نے تین مرتبہ یہی فرمایا۔ پھر جب ان میں سے کوئی نہ اٹھا تو آپ سیدہ ام سلمہؓ کے پاس گئے اور ان سے (یہ سب واقعہ) بیان کیا، جو لوگوں سے آپﷺ کو پیش آیا تھا۔ ام المومنین ام سلمہؓ نے کہا یا نبی اللہ ! کیا آپ یہ بات چاہتے ہیں؟ آپ باہر تشریف لے جائیے اور ان میں سے کسی کے ساتھ کلام نہ کیجئیے، یہاں تک کہ آپ اپنے قربانی کے جانوروں کو ذبح کر دیجئیے اور اپنا سرمونڈھنے والے کو بلائیے تاکہ وہ آپ کا سرمونڈھے۔ چنانچہ آپﷺ باہر تشریف لائے اور ان میں سے کسی سے کچھ گفتگو نہیں کی یہاں تک کہ آپﷺ نے (سب کچھ)کر لیا۔ اپنے قربانی کے جانور ذبح کر لیے اور اپنے سرمونڈھنے والے کو بلا یا،اس نے آپﷺ کا سر مونڈھ دیا، پس صحابہؓ نے جب یہ دیکھا تو اٹھے اور انھوں نے بھی قربانی کی اور ان میں سے ایک دوسرے کا سرمونڈھنے لگا یہاں تک کہ جب یہ اژدحام کی وجہ سے قریب تھا کہ ایک دوسرے کو قتل کر دے۔ پھر آپﷺ کے پاس کچھ مسلمان عورتیں آئیں تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی '' اے مسلمانو ! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان کر لو۔۔۔ '' اور کافر عورتوں کی ناموس اپنے قبضہ میں نہ رکھو۔ '' (الممتحنہ : ۱۰) تک۔ پس سیدنا عمرؓ نے اس دن دو مشرکہ عورتوں کو جو ان کے نکاح میں تھیں، طلاق دے دی۔ پس ان میں سے ایک کے ساتھ تو معاویہ بن ابو سفیان نے اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کر لیا۔ پھر نبیﷺ مدینہ لوٹ کر آئے تو سیدنا ابو بصیر، جو ایک قریشی النسل تھے، نبیﷺ کے پاس آئے اور وہ مسلمان تھے۔ کفار نے ان کے تعاقب میں دو آدمی بھیجے اور (نبیﷺ سے) کہلوا بھیجا کہ جو عہد ہم سے آپ نے کیا ہے اس کا خیال کیجئیے۔ پس آپﷺ نے سیدنا ابو بصیر (رضی اللہ عنہ) کو ان دونوں کے حوالہ کر دیا اور وہ دونوں ابو بصیر (رضی اللہ عنہ) کو لے کر چلے یہاں تک کہ جب ذوالحلیفہ میں پہنچے تو وہ لوگ اتر کر اپنی کھجوریں کھانے لگے تو سیدنا ابو بصیر نے ان میں سے ایک شخص سے کہا کہ اے فلاں ! اللہ کی قسم میں تیری تلوار کو بہت عمدہ دیکھتا ہوں۔ میں نے اس کو کئی مرتبہ آزمایا ہے۔ سیدنا ابو بصیر نے کہا مجھے دکھاؤ، میں بھی اس کو دیکھوں۔ چنانچہ وہ تلواراس نے سیدنا ابو بصیر کو دے دی۔ ابو بصیر (رضی اللہ عنہ) نے اسے مارا یہاں تک کہ اس کو ٹھنڈا کر دیا اور دوسرا شخص بھاگ گیا اور مدینہ میں آیا اور دوڑتا ہوا مسجد میں گھس گیا تو رسول اللہﷺ نے جب اسے دیکھا تو فرمایا:'' یہ کچھ خوف زدہ ہے۔ '' پھر جب وہ نبیﷺ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا :'' اللہ کی قسم ! میرا ساتھی قتل کر دیا گیا اور میں بھی ابھی قتل کر دیا جاؤں گا۔ '' پھر سیدنا ابو بصیر آئے اور انھوں نے کہا کہ '' یا نبی اللہ ! بے شک اللہ کی قسم ! اللہ نے آپﷺ کا ذمہ بری کر دیا۔ آپ نے مجھے کفار کی طرف واپس کر دیا تھا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دے دی '' نبیﷺ نے فرمایا :'' یہ لڑائی کی آگ ہے، اگر کوئی اس کا مددگار ہوتا تو یہ آگ بھڑک اٹھتی۔ '' پس جب یہ بات ابو بصیر نے سنی تو وہ سمجھ گئے کہ نبیﷺ پھرا نھیں کفار کی طرف واپس کر دیں گے لہٰذا وہ چل دئیے یہاں تک کہ وہ سمندر کے کنارے پہنچے اور (اس طرف سے) سیدنا ابو جندل بن سہیل بھی چھوٹ کر آ رہے تھے (راستہ میں) وہ ابو بصیر سے مل گئے۔ پس جو شخص قریش کا مسلمان ہو کر آتا تھا وہ ابو بصیر سے مل جاتا تھا، یہاں تک کہ ان سب کی پوری جماعت بن گئی۔ پس اللہ کی قسم ! جب وہ قریش کے کسی قافلہ کی نسبت سنتے تھے کہ وہ شام کی طرف جا رہا ہے تو وہ اس کی گھات میں رہتے اور ان (کے آدمیوں) کو قتل کرتے اور ان کے مال لے لیتے۔ پس قریش نے نبیﷺ کے پاس آدمی بھیجا اور آپ کو اللہ کا اور قرابت کا واسطہ دلایا تا کہ (آپ ابو بصیر کو) ان باتوں سے منع کر ابھیجیں اور جو شخص آپ کے پاس (مسلمان ہو کے) جائے، وہ بے خوف ہے۔ چنانچہ نبیﷺ نے ابو بصیر وغیرہ کو منع کر ا بھیجا۔ پس اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی '' اور وہی ہے جس نے خاص مکہ میں کافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دے دیا تھا۔۔۔ حمیت کو جگہ دی اور حمیت بھی جاہلیت کی۔۔۔ '' (الفتح۔ : ۲۴۔ ۲۶)اور ان کی حمیت یہ تھی کہ انھوں نے نبیﷺ کے نبی ہونے اور اور بسم اﷲالرحمن الرحیم کو نہ مانا اور مسلمانوں کے اور کعبہ کے درمیان حائل ہو گئے۔
 
Top