• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اموال (کی مقدار ) کا بیان جن پر زکوٰۃ فرض ہے یعنی نقدی، کھیتی اور جانور۔
502: سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: غلہ اور کھجور میں زکوٰۃ نہیں جب تک کہ پانچ وسق (بیس من) تک نہ ہو اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ ہے اور نہ پانچ اوقیہ (52.50 تولے ) سے کم چاندی میں زکوٰۃ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جس (مال) میں عشر یا عشر کا نصف ہے اس کا بیان۔
503: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جس (کھیت) میں نہروں اور بارش (کے ذریعے ) سے پانی دیا جائے اس میں عشر (یعنی دسواں حصہ) زکوٰۃ ہے اور جو اونٹ لگا کر سینچی جائے اس میں نصف العشیر (یعنی بیسواں حصہ زکوٰۃ) فرض ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسلمان کے غلام اور گھوڑے میں زکوٰۃ نہیں۔
504: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان کے غلام اور گھوڑے پر زکوٰۃ (فرض) نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : زکوٰۃ (سال سے ) پہلے ادا کر دینا اور زکوٰۃ نہ دینے کے متعلق۔
505: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا عمرؓ کو زکوٰۃ وصول کرنے کو بھیجا۔ پھر آپ کو بتایا گیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور (رسول اللہﷺ کے چچا) عباسؓ، ان لوگوں نے زکوٰۃ نہیں دی تو آپﷺ نے فرمایا کہ ابن جمیل تو اس کا بدلہ لیتا ہے کہ وہ محتاج تھا اور اللہ نے اس کو امیر کر دیا اور خالدؓ پر تم زیادتی کرتے ہو اس لئے کہ اس نے تو زرہیں اور ہتھیار تک اللہ کی راہ میں دے دئیے ہیں (یعنی پھر زکوٰۃ کیوں نہ دے گا) اور رہے عباسؓ تو ان کی زکوٰۃ اور اتنی ہی مقدار اور میرے ذمہ ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے عمر ص! کیا تم نہیں جانتے کہ چچا تو باپ کے برابر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس آدمی کے بارے میں جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتا۔
506: سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں آپﷺ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب آپﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا کہ رب کعبہ کی قسم وہی نقصان والے ہیں۔ تب میں آپﷺ کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور نہ ٹھہر سکا کہ کھڑا ہو گیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں، وہ کون (لوگ) ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ بہت مال والے ہیں۔ مگر جس نے خرچ کیا ادھر اور ادھر اور جدھر مناسب ہوا اور دیا آگے سے اور پیچھے سے اور داہنے اور بائیں سے اور ایسے لوگ تھوڑے ہیں۔ (یعنی جہاں دین کی تائید اور اللہ اور رسولﷺ کی مرضی دیکھی وہاں بلا تکلف خرچ کیا) اور جو اونٹ، گائے اور بکری والا ان کی زکوٰۃ نہیں دیتا تو قیامت کے دن وہ جانور ، جیسے دنیا میں تھے اس سے زیادہ موٹے اور چربیلے ہو کر آئیں گے اور اپنے سینگوں سے اس کو ماریں گے ، اور اپنے کھروں سے اس کو روندیں گے۔ جب ان جانوروں میں سب سے پچھلا گزر جائے گا تو آگے والا پھر اس پر آ جائے گا۔ اور جب تک بندوں کا فیصلہ نہ ہو جائے ، اس کو یہی عذاب ہوتا رہے گا۔

507: سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کوئی چاندی یا سونے کا مالک ایسا نہیں کہ اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر وہ قیامت کے دن ایسا ہو گا کہ اس کے لئے آگ کی چٹانوں کے پرت بنائے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ میں گرم کئے جائیں گے جس سے اس کی پیشانی، پہلو اور پیٹھ داغی جائے گی۔ جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے تو پھر گرم کئے جائیں گے۔ اس وقت جبکہ دن پچاس ہزار برس کے برابر ہے ، بندوں کا فیصلہ ہونے تک اس کو یہی عذاب ہو گا اور یہاں تک کہ اس کی راہ جنت یا دوزخ کی طرف نکلے۔ آپﷺ سے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! پھر اونٹ (والوں) کا کیا حال ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جو اونٹ والا اپنے اونٹوں کا حق نہیں دیتا اور اس کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دودھ دوھ کر غریبوں کو بھی پلائے جس دن ان کو پانی پلائے (عرب کا معمول تھا کہ تیسرے یا چوتھے دن اونٹوں کو پانی پلانے لے جاتے وہاں مسکین جمع رہتے اونٹوں کے مالک ان کو دودھ دوہ کر پلاتے حالانکہ یہ واجب نہیں ہے مگر آپﷺ نے اونٹوں کا ایک حق اس کو بھی قرار دیا ہے ) جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ ایک ہموار زمین پر اوندھا لٹایا جائے گا اور وہ اونٹ نہایت فربہ ہو کر آئیں گے کہ ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا اور اس کو اپنے کھروں سے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے۔ پھر جب ان میں کا پہلا جانور روندتا چلا جائے گا تو پچھلا آ جائے گا۔ یونہی سدا عذاب ہوتا رہے گا سارا دن جو کہ پچاس ہزار برس کا ہو گا یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ ہو جائے اور پھر اس کی جنت یا دوزخ کی طرف کچھ راہ نکلے۔ پھر عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! گائے بکری کا کیا حال ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی گائے بکری والا ایسا نہیں جو اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ ایک ہموار زمین پر اوندھا لٹایا جائے گا اور اُن گائے بکریوں میں سے سب آئیں گی، کوئی باقی نہ رہے گی اور ایسی ہوں گی کہ ان میں سینگ مڑی ہوئی نہ ہوں گی نہ بے سینگ اور نہ ٹوٹے ہوئے سینگوں والی اور آ کر اس کو اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی۔ جب اگلی اس پرسے گزر جائے گی تو پچھلی پھر آئے گی، یہی عذاب اس کو پچاس ہزار برس کے سارے دن میں ہوتا رہے گا یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ ہو جائے اور پھر جنت یا دوزخ کی طرف اس کی کوئی راہ نکلے۔ پھر عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اور گھوڑے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ گھوڑے تین طرح کے ہیں ایک اپنے مالک پر بار (یعنی وبال) ہے ، دوسرا اپنے مالک کا عیب ڈھانپنے والا ہے اور تیسرا اپنے مالک کے لئے ثواب کا سامان ہے۔ اب اس وبال والے گھوڑے کا حال سنو جو اس لئے باندھا گیا ہے کہ لوگوں کو دکھائے اور لوگوں میں بڑھکیں مارے اور مسلمانوں سے عداوت کرے ، سو یہ اپنے مالک کے حق میں وبال ہے۔ اور وہ جو عیب ڈھانپنے والا ہے وہ گھوڑا ہے کہ اس کو اللہ کی راہ میں باندھا ہے (یعنی جہاد کے لئے ) اور اس کی سواری میں اللہ کا حق نہیں بھولتا اور نہ اس کے گھاس چارہ میں کمی کرتا ہے ، تو وہ اس کا عیب ڈھانپنے والا ہے۔ اور جو ثواب کا سامان ہے اس کا کیا کہنا کہ وہ گھوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں اور اہل اسلام کی مدد اور حمایت کے لئے کسی چراگاہ یا باغ میں باندھا گیا ہے۔ پھر اس نے اس چراگاہ یا باغ سے جو کھایا اس کی گنتی کے موافق نیکیاں اس کے مالک کے لئے لکھی گئیں اور اس کی لید اور پیشاب تک نیکیوں میں لکھا گیا۔ اور جب وہ اپنی لمبی رسی توڑ کر ایک دو ٹیلوں پر چڑھ جاتا ہے تو اس کے قدموں اور اس کی لید کی گنتی کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور جبﷺ سکا مالک کسی ندی پر سے گزرے اور وہ گھوڑا اس میں سے پانی پی لیتا ہے اگرچہ مالک کا پلانے کا ارادہ بھی نہ تھا، تب بھی اس کے لئے ان قطروں کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو اس نے پئے ہیں۔ (یہ ثواب تو بے ارادہ پانی پی لینے میں ہے پھر جب پانی پلانے کے ارادہ سے لے جائے تو کیا کچھ ثواب نہ پائے گا) پھر عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ! گدھے کا حال بیان فرمائیے تو آپﷺ نے فرمایا کہ گدھوں کے بارے میں میرے اوپر کوئی حکم نہیں اترا سوائے اس آیت کے جو بے مثل اور جمع کرنے والی ہے کہ "جس نے ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسے (قیامت کے دن) دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی وہ بھی اسے دیکھ لے گا"۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : خزانہ جمع کرنے والوں اور ان پر سخت سزا کے بیان میں۔
508: احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں قریش کے چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ سیدنا ابو ذرؓ آئے اور کہنے لگے کہ بشارت دو خزانہ جمع کرنے والوں کو ایسے داغوں کی جو ان کی پیٹھوں پر لگائے جائیں گے اور ان کی کروٹوں سے نکل جائیں گے۔ اور ان کی گدیوں میں لگائے جائیں گے تو ان کی پیشانیوں سے نکل آئیں گے۔ پھر ابو ذرؓ ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ سیدنا ابو ذرؓ ہیں۔ میں ان کی طرف کھڑا ہوا اور کہا کہ یہ کیا تھا جو میں نے ابھی ابھی سنا کہ آپ کہہ رہے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا تھا جو میں نے ان کے نبیﷺ سے سنا۔ پھر میں نے کہا کہ آپ اس عطا کے بارے میں (یعنی جو مالِ غنیمت سے امراء مسلمانوں کو دیا کرتے ہیں) کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ تم اس کو لیتے رہو کہ اس میں ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ پھر جب یہ تمہارے دین کی قیمت ہو جائے تب چھوڑ دینا (یعنی دینے والے تم سے مداہنت فی الدین چاہیں تو نہ لینا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرنے کا حکم۔
509: سیدنا جریر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ دیہات کے چند لوگ رسول اللہﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ بعض تحصیلدار (زکوٰۃ وصول کرنے والے ) ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر زیادتی کرتے ہیں۔ (یعنی جانور اچھے سے اچھا لیتے ہے حالانکہ متوسط لینا چاہئیے ) تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے تحصیلداروں کو راضی کر دیا کرو (یعنی اگرچہ وہ تم پر زیادتی بھی کریں) سیدنا جریرؓ نے کہا کہ جب سے میں نے رسول اللہﷺ سے یہ سنا تب سے کوئی تحصیلدار میرے پاس سے نہیں گیا مگر خوش ہو کر۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : صدقہ لانے والے کے لئے دعا کرنا۔
510: سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی قوم صدقہ لاتی تھی تو آپﷺ ان کے لئے فرماتے تھے کہ اے اللہ! ان پر رحمت فرما۔ پھر میرے والد ابو اوفیؓ صدقہ لے کر آئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! ابو اوفی کی آل پر رحمت فرما۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس آدمی کو عطیہ دینا جس کے ایمان میں خطرہ ہو۔
511: سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کچھ مال بانٹا تو میں نے عرض کیا یہ یا رسول اللہﷺ! فلاں کو دیجئے کہ وہ مومن ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یا وہ مسلمان ہے۔ میں نے تین بار یہی کہا کہ وہ مومن ہے اور آپﷺ نے ہر بار یہی فرمایا کہ "یا مسلمان ہے " پھر آپﷺ نے فرمایا: میں ایک شخص کو دیتا ہوں حالانکہ دوسرے کو اس سے زیادہ چاہتا ہوں اس ڈر سے (اس شخص کو دیتا ہوں) کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کو اوندھے منہ جہنم میں نہ گرا دے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جن کے دل اسلام کی طرف راغب ہیں، ان کو دینا اور مضبوط ایمان والوں کو چھوڑ دینا۔
512: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ جب حنین کا دن ہوا تو (قبیلہ) ہوازن اور غطفان اور دوسرے قبیلوں کے لوگ اپنی اولاد اور جانوروں کو لے کر آئے اور نبیﷺ کے ساتھ دس ہزار غازی تھے اور مکہ کے لوگ (جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے ) بھی، جن کو طلقاء کہتے ہیں۔ پھر یہ سب ایک بار پیٹھ دے گئے یہاں تک کہ نبیﷺ اکیلے رہ گئے۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ اس دن آپﷺ دو آوازیں دیں کہ ان کے بیچ میں کچھ نہیں کہا، پہلے دائیں طرف منہ کیا اور پکارا کہ اے گروہِ انصار! تو انصار نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! ہم حاضر ہیں اور آپ خوش ہوں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپﷺ نے بائیں طرف منہ کیا اور پکارا کہ اے گروہِ انصار! تو انہوں نے پھر جواب دیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ہم حاضر ہیں اور آپ خوش ہوں کہ ہم آپﷺ کے ساتھ ہیں۔ اور آپﷺ اس دن ایک سفید خچر پر سوار تھے ، آپﷺ اترے اور فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں (مقامِ بندگی سے بڑھ کر کوئی فخر کا مقام نہیں شیخ اکبر نے اس کی خوب تصریح کی ہے کہ مقام عبدیت انبیاء کے واسطے خاص ہے اور کسی کو اس مقام میں مشارکت نہیں۔ سبحان اللہ اللہ کا بندہ ہونا اور اس کا رسول ہونا کتنی بڑی نعمت ہے ) اور رسول ہوں۔ پس مشرک شکست کھا گئے۔ اور رسول اللہﷺ کو بہت زیادہ مالِ غنیمت ہاتھ آیا تو آپﷺ نے سب مہاجرین اور مکہ کے لوگوں میں تقسیم کر دیا اور انصار کو اس میں سے کچھ نہ دیا۔ تب انصار نے کہا کہ مشکل گھڑی میں تو ہم بلائے جاتے ہیں اور لوٹ کا مال اوروں کو دیا جاتا ہے۔ آپﷺ کو یہ خبر ہوئی تو آپ نے انہیں ایک خیمہ میں اکٹھا کیا اور فرمایا کہ اے گروہِ انصار! یہ کیسی بات ہے جو مجھے تم لوگوں سے پہنچی ہے ؟ تب وہ چپ ہو رہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے گروہِ انصار! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ لوگ دنیا لے کر چلے جائیں اور تم محمدﷺ کو اپنے گھروں میں لے جاؤ؟ انہوں نے کہا کہ بیشک اے اللہ کے رسولﷺ! ہم راضی ہو گئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگ ایک گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری گھاٹی میں تو میں انصار کی گھاٹی کی راہ لوں گا۔ ہشام(سیدنا انس کے شاگرد) نے کہا کہ میں نے کہا کہ اے ابو حمزہ! تم اس وقت حاضر تھے ؟ تو انہوں نے کہ کہ میں آپﷺ کو چھوڑ کر کہاں جاتا؟

513: سیدنا رافع بن خدیجؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ابو سفیان، صفوان، عُیینہ اور اقرع بن حابسؓ کو سو سو اونٹ دئیے اور عباس صبن مرداس کو کچھ کم دئیے تو عباسؓ نے یہ اشعار کہے : (ترجمہ) "آپﷺ میرا اور میرے گھوڑے کا حصہ جس کا نام عبید تھا عُیینہ اور اقرع کے بیچ میں مقرر فرماتے ہیں حالانکہ عُیینہ اور اقرع دونوں مرداس سے (یعنی مجھ سے ) کسی مجمع میں بڑھ نہیں سکتے اور میں ان دونوں سے کچھ کم نہیں ہوں۔ اور آج جس کی بات نیچے ہو گئی وہ پھر اوپر نہ ہو گی۔ سیدنا رافعؓ کہتے ہیں کہ تب رسول اللہﷺ نے ان کے سو اونٹ پورے کر دئیے۔

514: سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ نے رسول اللہﷺ کے پاس یمن سے کچھ سونا ایک چمڑے میں رکھ کر بھیجا جو ببول کی چھال سے رنگا ہوا تھا اور ابھی (وہ سونا) مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا۔ اسے رسول اللہﷺ نے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، عیینہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید (عرف) خیل اور چوتھا علقمہ یا عامر بن طفیلؓ۔ آپﷺ کے صحابہ میں سے کسی شخص نے کہا کہ ہم اس مال کے ان سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبیﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے ؟ حالانکہ میں اُس کا امانتدار ہوں جو آسمانوں کے اوپر ہے اور میرے پاس آسمان کی خبر صبح و شام آتی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، جس کے رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، ابھری ہوئی پیشانی، گھنی ڈاڑھی، سر منڈا ہوا، اونچی ازار باندھے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ سے ڈرو۔ آپﷺ نے جوا ب دیا کہ تیری خرابی ہو، کیا میں ساری زمین والوں میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں ہوں؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا۔ سیدنا خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپﷺ نے فرمایا "نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو" (معلوم ہوا کہ وہ اکثر حاضر باش خدمت مبارک بھی نہ تھا ورنہ ایسی حرکت سرزد نہ ہوتی) سیدنا خالدؓ بولے کہ بہت سے نمازی ایسے (منافق ہوتے ہیں) ہیں جو زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو اُن کے دل میں نہیں ہوتی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں کسی کا دل چیر کر دیکھوں اور نہ یہ (حکم دیا) کہ میں ان کے پیٹ چیروں۔ پھر آپﷺ نے اس کی طرف دیکھا جب کہ وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا، اور کہا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو اچھی طرح پڑھیں گے حالانکہ وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے کہ تیر شکار (کے جسم) سے پار نکل جاتا ہے (راوی کہتا ہے ) میں گمان کرتا ہوں کہ آپﷺ نے یہ بھی کہا کہ اگر میں اس قوم کو پا لوں تو میں انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں۔
 
Top