• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدارس اور رمضان

شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
ماہِ رمضان، مخیرین اور مدارس اسلامیہ
چند گزارشات ٭ چند تجاویز

ازقلم
عبد السلام بن صلاح الدین الفیضی المدنی
(داعی جمعیۃ الدعوۃ و الارشاد و توعیۃ الجالیات ‘محافظۃ میسان‘ سعودی عرب)
Email:smadani80@gmail.com

~~~~؛

الحمد لله رب العالمين، و الصلاة و السلام الأتمان الأكملان على أشرف الأنبياء و المرسلين، نبينا محمد بن عبد الله الأمين و على آله الطيبين الطاهرين و على أصحابه الغر الميامين أجمعين، و من تبعهم بإحسانٍ إلى يوم الدين أما بعد!

پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا ۔جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے ہم نے پالے ہیں
رمضان کی آمد آمد ہے، ملک میں لاک ڈاؤن ہے، پورے عالم میں کورونا وائرس نے تباہی مچا رکھی ہے، پوری دنیا قلق و اضطراب میں مبتلا ہے، اور اربابِ مدارس اہل خیر کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے ہیں، اسی تناظر میں کاتبِ سطور نے یہ تحریر ترتیب دی ہے، جو انتہائی عجلت میں عمل میں آئی ہے، اس امید کے ساتھ اصحابِ خیر، اربابِ ثروت و دولت اور اہل جود و سخا کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں کہ اہل جود و سخا اس طرف خصوصی توجہ فرمائیں گے
؎ گر قبول افتد زہے عزّ و شرف

أولا: ماہِ رمضان اور مسلمان
بلاشبہ ماہِ رمضان المبارک ایک عظیم، با برکت، مقدس اور قابل احترام مہینہ ہے، قرآن اسی ماہ میں اترا، اس ماہ کے روزے (صیام) تمام مسلمانوں پر فرض قرار دئے گئے، ہر صاحب استطاعت پر اس کے روزے رکھنے ضروری ہیں، اس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے الا یہ کہ کوئی عذر شرعی ہو، قرآن و حدیث میں اس ماہ اور اس ماہ کےروزے رکھنے کی بڑے فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، خود نبیٔ اکرمﷺ اس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور اس کی تعلیم بھی دیا کرتے تھے اور ترغیب بھی، اس ماہ میں صدقہ و خیرات کا خصوصی اہتمام اس قدر فرماتے کہ آپ ﷺ کا جذبۂ انفاق اس ماہ میں فزوں تر ہوجایا کرتا اور اپنے اوج کو پہنچ جاتاتھا، نماز تراویح کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے، اس کی تعلیم دیا کرتے تھے اور ثواب کو بتلا کر اس کی اہمیت اجاگر کرتے تھے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لاک ڈاؤن کے زمانے میں بھی درج ذیل امور کی طرف خصوصی توجہ مبذول کریں:

(۱) رمضان المبارک کا گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی انتہائی گرم جوشی، احساسّ ایمانی اور جذبۂ فروانی اور پر تپاک استقبال کریں

(۲) امسال بھی گزشتہ سالوں کی طرح روزے رکھیں، اور ایمان و ایقان کے ساتھ اللہ کو راضی کرنے کی کوششیں کریں

(۳) سال کے دیگر ایام کی طرح رمضان میں بھی نمازوں کا خوب خوب اہتمام کریں

(۴) ماضی کی طرح اس رمضان میں بھی تراویح کا اہتمام کریں اور خوب خوب کریں

(۵) تروایح کی نماز اپنے گھر میں اپنے بال بچوں کے ساتھ با جماعت ادا کریں

(۶) اپنے گھر کے افراد کے علاوہ دوسرے لوگوں کو اپنے گھر میں آنے کی دعوت دیں نہ اجازت ‘کیوں کہ لاک ڈاؤن کا مقصد گیدرنگ سے اجتناب ہے

(۷) اگر آپ کے گھر میں کوئی حافظ قرآن ہیں تو وہ امامت کرائیں، ورنہ کوئی بھی دیکھ کر تراویح پڑھا سکتے ہیں
(بخاری معلقا مجزوما ۱؍۲۲۵، مجموع فتاوی ابن باز ۳۰؍۳۹، نیز دیکھئے بخاری حدیث نمبر: ۴۹۴، مسلم حدیث نمبر: ۵۴۳)

(۸) تلاوتِ قرآن کریم کا بھی خصوصی اہتمام کریں اور ابھی سے ہی اس کے لئے نظام الاوقات مرتب فرمائیں

(۹) نہار رمضان(حالتِ روزہ) میں خصوصی طور پر دعاؤں کا اہتمام کریں، اللہ کے سامنے روئیں، گڑگڑائیں اور اپنی مرادیں اللہ کی بارگاہ میں پیش کریں، یقینا اللہ سننے والا دیکھنے والا اور دعائیں قبول کرنے والا ہے

(۱۰) شبِ قدر میں جاگنے جگانے کا بھی اہتمام کریں، دعائیں کریں اور اپنے گھر ہی میں رہ کر خلوت میں اللہ کو یاد کریں

(۱۱) اس ماہ میں ( سال کے دوسرے ایام کی طرح) بدعات و خرافات سے قطعی اجتناب کریں کہ بدعتوں کے ایجاد سے ربِ کائنات کا غیظ و غضب بھڑکتا ہے اور بلائیں نازل ہوتی ہیں، دور کبھی نہیں ہوسکتیں ۔

ثانیا: ہمارا ملکِ عزیز اور لاک ڈاؤن
ہمارے ملکِ عزیز ہندوستان بھر میں پہلے مرحلہ (۲۱ دن کے لاک ڈاؤن) کے بعد دوسرے مرحلہ (۳ مئی تک لاک ڈاؤن ) کرونا وائرس سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کے طور پر لاک ڈاؤن کی میعاد بڑھادی گئی، جس کا راست اثربلاشبہ ان مزدوروں، بیکسوں، غریبوں، محتاجوں اور فاقہ کشوں پر پڑا ہے، جو یومیہ مزدور ی کرتے تھے، یومیہ کے آمدن سے ان کے گھر بار، اہل و عیال کی روزی روٹی چلتی تھی، یہ تمام مزدور ملک کے مختلف علاقوں کے باشندے تھے اور مختلف شہروں میں کام کاج کیا کرتے تھے، جو دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے گھر بار چھوڑ کر دہلی، ممبئی، کیرل، تامل ناڈو، حیدرآباد یا ان جیسے دوسرے شہروں میں مقیم تھے۔ جب ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا، تو ان مزدوروں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے، اور ان کی یومیہ اجرت ختم ہوگئی۔ پھر ان کے ساتھ بدقسمتی یہ ہوئی ہے کہ وہ جس کرایے کے مکان میں رہتے تھے، بعض مالکانِ مکان ایسے بھی بے رحم واقع ہوئے کہ انہوں نے جبراً ان سے مکان خالی کرالیا، اب ان کے پاس نہ رہنے کیلئے چھت تھی اور نہ ہی کھانے کیلئے دو وقت کی روٹی۔ وہ کہا ں جاتے، کیا کرتے؟ اور کس سے چھت اور دو وقت کی روٹی مانگتے؟ بادلِ نخواستہ بھوکے پیاسے پیدل ہی 1000 - 1500یا پھر 700 کیلومیٹر ہی چل کھڑے ہوئے۔ کوئی دہلی سے پیدل اپنے بچوں کے ساتھ صوبہ بہار 1100 کیلو میٹر دور جارہا ہے، تو کوئی 500 کیلومیٹر پیدل چل کر مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کی طرف کوچ کررہا ہے ،کوئی راجستھان جیسے دور دراز صوبہ سے پیدل چلنے کو مجبور ہوئے پھر کیا تھا؟ کسی کی جان گئی تو کسی کی ران، کسی کی زندگی ختم ہوئی تو کسی کی نوکری جوکھم میں ہوئی، یہ بات ضرور ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے، لیکن جیسی تصاویر ہندوستان کی آرہی ہیں، جس طرح کے واقعات ہمارے ملک عزیز میں پیش آئے ہیں، کسی بھی ملک میں ایسے واقعات سنے گئے، نہ دیکھے گئے نہ پڑھے گئے اور پھر ہوا یہ کہ ان جیسے واقعات سے انسانیت شرمسار ہی نہیں بلکہ اِس انسانیت پر لرزہ بھی طاری ہے کہ آخر حکومت نے بغیر کسی منصوبہ بند اور منظم پلان کے، لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا، لیکن ان غریبوں اور یومیہ مزدوروں کا کوئی خیال کیوں نہیں کیا؟ نہ ان کے لئے کسی پیکج کا اعلان ہوا نہ کسی راحت کی خبر دی گئی اور نہ ہی کسی فنڈ کی پیش رفت ہوئی، فاللہ المستعان، جب کہ ہندوستان میں ۷۰ فیصد آبادی یومیہ مزدوروں کی ہے، کچھ صوبوں نے مزدوروں کی راحت رسانی کے لئے معمولی رقم کا اعلان کیا (جس پر وہ بہر حال شکریے کے مستحق ہیں) مگر وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے ‘نہ اس معمولی رقم سے پیٹ بھر سکتا ہے نہ راحت کا سامان میسر ہو سکتا ہے، اور نہ ہی کوئی بہتر چیز کا انتظام۔

اصل مسئلہ تو ان کے اپنے گھروں کو لوٹنے کا تھا، ان کے پیٹ پالنے کے انتظام کا تھا، ان کی ضروریات پوری کرنے کا تھا، مگر یہ سب کچھ نہ ہوا اور دوسرے مرحلہ کے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا۔

انتہائی تعجب ہوتا ہے کہ ۲۱ دن اور ۱۹ دن کے مجموعہ (۴۰دن )کو بعض لوگ بڑے عجیب و غریب معمہ سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ چالیس دن کا عدد عجیب ہے، چالیس دن حضرت یونس ۔علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں رہے، چالیس دن کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کو طور میں تورات ملی، اگر کوئی بد دین ہوجائے، باتیں نہ مانے تو چالیس دن جماعت میں نکل جائے تو اللہ اس کے دل میں نور پیدا کردیتا ہے، اسی طرح کی کچھ باتیں ایک گروپ میں آئیں تو اس کا جواب خاکسار نے کچھ یوں دیا:

‘‘مجھے نہیں معلوم کہ اس تحریر میں مودی جی کی فضیلت ثابت کی گئی ہے یا مودی جی کی اس حرکت کی یا چالیس دن کی، مگر جو بھی ہو تمام صورتیں باطل، فالتو اور بے بنیاد ہیں، اس طرح کی چیزوں سے آدمی کو اجتناب کرنا چاہئے، مجھے خدشہ ہے کہ کہیں مودی جی کی نبوت اس چالیس سے نہ ثابت کریں(نعوذ باللہ)، چونکہ برادرم طارق انور صاحب نے کچھ عرض کرنے کے لئے کہا ہے، اس لئے عرض ہے کہ:

عدد چالیس کی اسلام میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، نبی ﷺ کو چالیس برس کی عمر میں نبوت ملنے کی ایک خاص وجہ تھی وہ یہ کہ انسان کی عمر چالیس سال کی عمر میں پختہ ہوتی ہے، بس اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔

اس چالیس کی عدد سے کہیں مودی جی کی نبوت نہ ثابت کردیا جائے(نعوذ باللہ) کیوں کہ نبیﷺ کو بھی چالیس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز فرمایا گیا تھا
حضرت یونس ۔علیہ السلام ۔کو مچھلی کے پیٹ میں کتنے دن رہنا پڑا تھا اس سلسلہ میں مفسرین کا خود شدید اختلاف ہے، کچھ ۴۰ دن بتاتے ہیں‘کچھ ۲۰ دن، کچھ تین دن، کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ ایک ہفتہ اور بعض دیگر نے (دن کے کچھ وقت) کی بات کہی ہے، اس لئے چالیس دن مچھلی کے پیٹ میں رہنے پر اصرار غلط ہے.
(دیکھئے: تفسیر ابن کثیر ۷؍۳۸)
مستدرک حاکم میں ایک روایت ہے مگر وہ انتہائی ضعیف ہے، اس لئے اس سے چالیس دن کی فضیلت اور یہ کہ چالیس دن کے بعد کچھ بڑا ہونے والا ہے، جیسی بات کہنا یکسر بے بنیاد اور لغو ہے .

حضرت موسی علیہ السلام کو یقینا چالیس دن طور میں رہنے کے بعد نبوت ملی مگر یہ بھی نبوتِ محمدی کے ہی مثل ہے، اس سے بھی کسی خاص چیز پر استدلال درست نہیں ہے
جہاں تک یہ بات کہ جس نے پنجوقتہ نماز کی پابندی چالیس دن کی، تو اس کے دل میں اللہ ایمان کی روشنی پیدا کردیتا ہے، یہ بھی ایک من گھڑت بات ہے، ایسی کوئی حدیث موجود نہیں ہے، ہاں ایک حدیث میں (جس میں کچھ لوگوں نے کلام بھی کیا ہے، علامہ البانی نے اسے حسن کہا ہے) اتنی بات ضرور ہے کہ ‘‘جس نے فجر کی نماز چالیس دن تک پابندی سے پڑھی ‘اس کے لئے دو برائتیں لکھی جاتی ہیں، جہنم سے برائت اور نفاق سے برأت.
(ترمذی حدیث نمبر۲۴۱‘البانی اسے حسن قرار دیا ہے)۔

اگر کوئی بد ذہن (بد دین) اور نہ ماننے والا جماعت میں چلا جائے تو اللہ اس کے دل میں بدلاؤ پیدا کردیتا ہے، یہ بھی انتہائی بیکار اور عبث بات ہے .

سوال یہ ہے کہ کیا نبیﷺ نے چالیس دن کسی بد ذہن (بد دین) اور نہ ماننے والے کو کسی جماعت میں بھیجا؟، بالکل نہیں، ہرگز نہیں، پھر ایسی بے تکی باتیں کیوں،اور کس لئے کی جاتی ہیں، سمجھ سے بالا تر ہے
کیا نبیﷺ کے زمانے میں بد ذہن (بد دین) اور نہ ماننے والے لوگ نہیں تھے؟ یقینا تھے مگر ایسا نہیں کیا، معلوم ہوا کہ اسلام میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے،طم اگر ایسا کرنا صحیح ہوتا تو آٖپ ﷺ بھی ایسا کرتے.

پھر یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنے کی ہے کہ کورونا ایک وائرس اور اللہ کا عذاب ہے، اسے فرعون اور قارون سے تشبیہ دینا، انتھائی غلط بات ہے، نہ اسے گالی دیا جاسکتا ہے، نہ ہی اسے برا بھلا کہا جا سکتا ہے، ایسی باتوں سے عقیدے میں خلل پڑتا ہے، لہذا ایسی بات نہیں کرنا چاہئے

چالیس دن کے اس لاک ڈاؤن سے بہت بڑا بدلاؤ آنے والا ہے، انتہائی عجیب اور بے تکی بات ہے (بلکہ اگر اسے حماقت سے تعبیر کیا جائے تو شاید بیجا نہ ہوگا)

غور کیجئے اور بتائیے کہ کیا یہ وائرس صرف ہمارے ملک میں نازل ہوا ہے؟ نہیں،
کیا دیگر ممالک میں نازل نہیں ہوا؟ بالکل ہوا ہے، مگر وہ سپر پاور والے ممالک بھی اس نہ دیکھے جانے والے وائرس کے سامنے عاجز، بے بس اور لاچار کھڑے ہیں، جس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ (لمن الملک الیوم؟ للہ الواحد القہار)

پھر ذرا غور کیجئے کہ جن ممالک میں چالیس دن کی مدت پوری ہوگئی کیا وہاں کوئی بدلاؤ آیا؟، کیا کورونا وائرس وہاں سے ختم ہوگیا؟ نہیں بالکل نہیں، پھر ایسی بے تکی باتیں کیوں؟

چین جہاں سے یہ مرض پھیلا تقریبا ۸۰ دن ہوگئے، مگر تا ہنوز بیماری میں اضافہ ہورہا ہے، اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے، پھر ان کے چالیس کا کیا ہوگا؟ انہیں بھی ایک اور چالیس کا چلہ لگانا چاہئے (عجیب بات ہے)

یاد رکھنا چاہئے کہ اس مرض کا دینے والا اللہ ہے اور اسی کی مشیت سے ایک دوسری کو لگتا ہے اور وہی جب چاہے گا، اسے ختم کرے گا،
اللہ سے ہم انتہائی تضرع و ابتہال دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہماری حفاظت فرمائے، یہ مرض جلد ختم کردے، اور پوری دنیا میں جو بے چینی و اضطراب ہے، اسے ختم فرمادے، انہ ولی ذلک والقادر علیہ .

ثالثا: مدارس اور اس کی اہمیت وافادیت
یہ بات بلا جھجک اور بغیر کسی تردد و تذبذب کہی جا سکتی ہے کہ دینی مدارس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اسلام کی، دینی مدارس عہد نبوی سے لے کر آج تک اپنے ایک مخصوص انداز سے آزاد چلے آ رہے ہیں۔ نبیٔ کریمﷺ کے دور میں پہلا دینی مدرسہ وہ مخصوص چبو ترہ ہے جس کوعام طور پر "صُفّہ" کہا جا تا ہے اور اس میں نبی ﷺ سے تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور تز کیۂ نفس حاصل کرنے والے حضرات ابو ہریرہ، انس بن مالک، کعب بن مالک، ابو ذر اور حذیفہ بن الیمان سمیت ۱۰۰ سے زائد صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)، "اصحابِ صُفّہ‘‘ اور سب سے پہلے دینی طا لب علم کہلاتے ہیں
(دیکھئے ابو نعیم کی "حلیۃ الأولیاء" مگر جن کے نام گنائے ہیں وہ تقریبا ۵۲ تک پہنچتی ہے، نیز دیکھئے :فتح الباری : ۱۱؍۲۸۷ ) جو حصولِ علم و معرفت کے لئے وقف ہوگئے تھے اور ان کا اوڑھنا بچھونا مسجدِ نبوی کی چٹائی تھی ۔

دینی مدارس و جامعات اور اسلامی مکاتب و مراکز کا اپنا ایک مخصوص نصاب ہوتا ہے جو انتہائی پاکیزہ، نفیس، نظیف اور نورانی ماحول میں پڑھا یا جا تا ہے جس میں مستند عالم دین کا مقام حاصل کرنے کے لئے عربی و فارسی، صرف و نحو، قرآن و حدیث، عقیدہ و تفسیر، فقہ و اصول فقہ، معانی و ادب جیسے ضروری علوم کا ایک مکمل نصاب پڑھنے کے بعد وہ عالم دین کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔ انہی دینی مدرسوں کے بارے میں شا عر مشرق علامہ محمد اقبال نے کسی موقعے پر فرمایا تھا:
"ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہو گا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے با وجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈ رات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروکاروں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا ، ہندوستا ن میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا"۔

دینی مدارس جہاں اسلام کے قلعے، ہدایت کے سر چشمے، دین کی پنا ہ گا ہیں، آدم گری کے پاور ہاؤس اور اشاعت دین کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، وہیں یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقی طور پر "این جی اوز" بھی ہیں۔ جو لاکھوں طلبہ و طالبا ت کو بلا معاوضہ تعلیمِِ کتاب و سنت کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو رہائش و خوراک اور مفت طبی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔

ان دینی مدارس و جامعات نے ہر دور میں تمام ترمصائب و مشکلات، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت اور شکل میں اپنا وجود و مقام اور شناخت و پہچان قائم رکھتے ہوئے اسلام کے تحفظ اور اس کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

انگریز نے برصغیر میں اپنے تسلّط اور قبضہ کیلئے دینی اقدار اور شعائر اسلام مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی دینی مدارس اور اس میں پڑھنے پڑھانے والے ’’خرقہ پوش اور بوریا نشین‘‘ طلباء دین اور علماء کرام ہی تھے، انگریز نے متحدہ ہندوستان میں سب سے پہلے دینی مدارس کو مسمار کیا، آگرہ سے لے کر دہلی تک سینکڑوں علماء حق کو پھانسی، ’’کالا پانی‘‘ اور دیگر ظالمانہ سزائیں دیں۔ لیکن امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی، مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی، مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی، مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی، مولانا سید احمد شہید رائے بریلوی، مولانا سید اسماعیل شہید دہلوی، مولانا شاہ اسحاق دہلوی، مولانا عبدالحئی بڈھانوی، مولانا ولایت علی عظیم آبادی، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا عبداللہ صادق پوری، مولانا نذیر حسین دہلوی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی تک سینکڑوں علماء حق و حریت کے سینکڑوں ستاروں نے اپنی تقریروں اور تحریکوں کے ذریعہ مسلمانوں میں آزادی کی وہ روح پھونکی کہ جس کے نتیجہ میں آخر کار انگریز برصغیر سے اپنا ’’بوریا بستر‘‘ سمیٹنے پر مجبور ہوگیا ؎
یہ ہند میں سرمایہٴ ملت کے نگہباں
اللہ نے بروقت کیا ان کو خبردار
مذکورہ مجاہدین وعلماء کرام سب مدارس اسلامیہ ہی کے فضلا و فیض یافتہ تھے ایک دو حضرات ایسے ہیں جو باضابطہ کسی مدرسے کے فارغ نہ تھے لیکن علماء کرام کے باضابطہ صحبت یافتہ ضرور تھے، ان میں وہ علماء کرام بھی ہیں جنھوں نے جدوجہد آزادی کا آغاز کیا اور حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب اور پھر سید احمد شہید کی زیر قیادت کام کرتے رہے اور ان کے بعد بھی جد و جہد جاری رکھی-
دہلی، کلکتہ، لاہور، بمبئی، پٹنہ، انبالہ، الہ آباد، لکھنوٴ، سہارنپور، شاملی اور ملک کے چپے چپے میں مسلمان اور دیگر مظلوم ہندوستانیوں کی لاشیں نظر آرہی تھیں علماء کرام کو زندہ خنزیر کی کھالوں میں سی دیا جاتا پھر نذر آتش کردیا جاتا تھا کبھی ان کے بدن پر خنزیر کی چربی مل دی جاتی پھر زندہ جلادیا جاتا تھا

اس بزم جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تک
ہیں عام ہمارے افسانے دیوار چمن سے زنداں تک

نیز یہ بھی غور کیجئے اور داد دیجئے اور سب مل کر کہئے:

یہ ہیں وہ سورما، وہ مجاہد ہیں یہ، فیض سے جن کے یہ ملک آزاد ہے
انکو ہم بھول جائیں یہ زیبا نہیں، یہ وطن انکے احساس سے آباد ہے

رابعا: مدارس اور ماہِ رمضان
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ بعض مدارس و جامعات کو چھوڑ کر اکثر مدارس کے مدرسین و معلمین کی تنخواہیں رمضان المبارک کے مبارک چندوں، اس کے حصول کے لئے بے تحاشہ محنت و جفا کشی، رمضان کی شدت ِ امس کو برداشت و تحمل، بھوکے پیاسے ان کے ٹوٹے پھوٹے بیگ میں موجود چند کھجوریں، اور دھوپ کی شدت سے تڑپ تڑپ کرکے حاصل شدہ رقومات سے ادا کی جاتی ہیں، گیارہ ماہ صبر و تحمل اور بلا تنخواہ گزارنے کے بعد یہ ماہ آتا ہے، جس میں وہ اپنے بال بچوں کی خواہش پوری کرنے کا سامان کر پاتے ہیں، اب جبکہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہمارے ملکِ عزیز میں ۳ مئی تک لاک ڈاؤن بڑھا دیا گیا ہے، مدارس اور اربابِ مدارس کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں، حقیقت میں انہیں دن ہی میں اب تارے نظر آنے لگے ہیں، پریشان حال ہیں کہ آگے کے مراحل کیسے طے ہوں گے؟ کیسے انتظامات کئے جائیں گے، لہذا اربابِ مدارس کی نمائندگی کرتے ہوئے اصحابِ خیر اور اہل ثروت و دولت کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں، امید کہ حوصلہ افزائی کے ساتھ قبول کی جائیں گی، اس وضاحت کے ساتھ کہ انفاق و عطا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، فی سبیل اللہ اپنے مال و زر کو لٹانے کی بڑی فضیلتیں قرآن و سنت میں آئی ہیں، صحابہ کرام نے اسے خوب خوب برتا، حضرات ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہما) کے واقعات سے کون مسلمان نا آشنا ہوگا؟ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کی دریا دلی سے ہر وہ شخص آگاہ ہوگا جس نے اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہوگا

(۱) آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہر مدرسے کے پاس بینک اکاؤنٹ، رابطہ نمبرات، سوشل میڈیا کی تفصیلات ہوتی ہیں، جنہیں وہ اپنے مدرسے کی طرف سے شائع شدہ اشتہارات، پمفلٹس، کتابوں اور کتابچوں میں شائع کرتے ہیں، اس سال آپ (مخیرین اور اصحابِ جود و سخا) کے جذبۂ اخلاص کا امتحان ہے کہ آپ کس جذبۂ وافر سے راہ الٰہی میں خرچ کرتے ہیں، وقت آن پڑا ہے کہ آپ اپنی طرف سے ہر سال دیا جانے والا چندہ ان کے اکاؤنٹ میں ڈال دیں، اور ان کے جذبات کو بھر پور تسکین پہنچائیں کہ انہیں احساس ہوجائے کہ آج بھی اللہ کے بندے (عباد اللہ) موجود ہیں، جن کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔

(۲) ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کا جوشِ حمیت پھڑکے اور آپ ان مدارس کے منتظمین کو خود یاد کریں، ہر سال وہ آپ کی خدمت میں پہنچتے تھے، امسال آپ ان کی خدمت میں پہنچیں، انہیں فون کریں کہ آپ کو گھبرانے کی قطعا کوئی ضروت نہیں ہے، آپ کا مقررہ چندہ محفوظ ہے، آپ لاک ڈاؤن کے بعد تشریف لائیں اور اپنی رقم لے جائیں

(۳) یہ موقعہ اللہ تعالی نے آپ کو عنایت فرمایا ہے کہ آپ ان غریب طلبہ و طالبات کے خورد و نوش کا انتظام کریں جو ان مدارس میں تعلیم کتاب و سنت سے آراستہ ہوتے ہیں اور یہ پیشکش کریں کہ ہم (اللہ کے بعد) آپ کا سہارا بنیں گے، آپ کی مدد کو تیار ہیں، اور ہم کسی بھی صورت (حالات چاہے جیسے بھی ہوں) آپ کو بے سہارا نہیں چھوڑ سکتے ہیں

(۴) یقینی طور پر یہ گھڑی مالداروں، اصحابِ ثروت و دولت کے لئے بے انتہا قیمتی ہے کہ وہ اپنے اندر جذبۂ صدیقی، احساسِ فاروقی اور شعورِ عثمانی اپنے اندر پیدا کریں اور خالصتا للہ اپنے مال کی زکاۃ نکالیں، اور اس میں غریبوں اور فقیروں کے لئے بھر پور حصہ لگائیں

(۵) مساجد کے متولیان اور ذمہ داران اپنی مسجدوں کے مصلیوں میں باستمرار چندوں کا اعلان کریں، ایک کمیٹی بنائیں جو تمام صوبہ جات کے مدارس و جامعات کی فہرست تیار کریں، اور اپنے پلیٹ فارم سے ان مدارس کا تعاون کریں جو آپ کے یہاں گزشتہ سالوں میں پہنچتے رہے ہیں، اور آپ کے توسط سے ان کا تعاون ہوتا آیا ہے، یہ آپ کے لئے بھی صدقۂ جاریہ ہوگا اور آپ کی مسجد کی طرف سے بھی ایک عظیم پہل ہوگی اور بہت سی مسجدوں کے ذمہ داران اس پیش رفت کو اپنا آئیڈیل بنا سکتے ہیں

(۶) مقامی جمعیت سے لے کر مرکزی جمعیت تک کی تمام جمعیات حقیقی مدارس و جامعات (وہ مدارس و جامعات جو قرار واقعی زمینی سطح پر فعال اور سرگرم ہیں) کے لئے توصیہ جات جاری فرمائیں اور ایک فہرست (خاص اس سال کے لئے ) تیار فرمائیں، تاکہ اصحابِ خیر کو ان تک اپنے تعاون پہنچانے میں سہولت ہو

(۷) تمام جمعیات کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ (خاص اس سال کے لئے ) ایک خصوصی اپیل تمام مخیرین کے نام جاری فرمائیں، جس میں وہ اصحابِ خیر کو صدقہ و خیرات پر ابھاریں، یہ آپ کے لئے بھی صدقہ جاریہ ہوگا اور اصحابِ خیر کے لئے بھی باعثِ اطمینان ہوگا

(۸) ائمہ مساجد بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں اور ان مدارس و جامعات کی نشاندہی کرنے میں متولیانِ مساجد کے لئے ممد و معان ثابت ہوں ۔

اللہ تعالی سے انتہائی تضرع و ابتہال کیساتھ دست بہ دعا ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کی یاوری فرمائے، حفاظت و حمایت کرے اور تمام قسم کی بیماریوں سے محفوظ و مصؤن رکھے. آمین یا رب العالمین

حرر فی :۲۶ ؍شعبان ۱۴۴۱ھ۔۱۹ ؍اپریل ۲۰۲۰

http://uzairadonvi.blogspot.com/2020/04/blog-post.html

.
 
Top