کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
مدخلی ، سروری مناقشے اور خارجیت کے مظاہر
فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی
متوازن فکر اور معتدل سوچ اور پھر ان کے مطابق رویہ بنانا انسانی زندگی کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ معتدل سوچ اور معتدل رویہ انسان کے لیے کامیابی کی دلیل ہوتی ہے اور ضمانت بھی۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انساان بلاوجہ لوگوں کی دل آزاری اور فکری و ذہنی انتشار کا سبب نہیں بنتا ہے اور نئی الجھنیں اور پریشانیاں نہیں لاتا ہے۔
عدم توازن کا مظاہرہ صرف ایک ڈھنگ سے نہیں ہوتا ہے اس کا اظہار بہت سے طریقوں سے ہوتا ہے اور سب سے خطرناک عدم توازن اس وقت یہ ہے کہ سماجی اور اجتماعی امور کے ذمہ دار اصول و ضوابط کے بغیر کام کریں اور ہر شے کو اپنی مٹھی میں بند کر لیں اور فساد عام کا ذریعہ بنیں اخلاقی اقدار، دینی اصول، سماجی انصاف اور منصبی ذمہ داری کی پرواہ نہ کریں۔ بس ہر شے کو اپنی نفس ناطقہ بنا لیں اور مفاد عامہ کو نظر انداز کرکے مفاد ذات کا مسئلہ بنا لیں۔ اور ہر فاسق فاجر سے تال میل کرنا کمال جانیں اور لیپ پوت کو کامیابی کا نسخہ بنا لیں۔ یہ گاڑھی منافقت اور بے ایمانی انتہائی درجہ کا عدم توازن ہے۔ اس سے صرف فساد پھیلتا ہے اور سارا اجتماعی نظم کوڑھ زدہ بن جاتا ہے۔ اور مشکل یہ ہے کہ بگڑی ذہنیت بگڑی قیادتیں اسے کمال سمجھتی ہیں۔
عدم توازان کی ایک نہایت سطحی شکل یہ ہے اور وہ بھی فساد عام کا نتیجہ ہے کہ انسان دین کے نام پر کسی معمولی سی بات کو اساسی اور اصولی مسئلہ بنا دے، یا ایک مباح شے کو عین اسلام یا عین کفر بتانا شروع کردے۔ یاذہنی کج یا اپج کو کلی دین کا درجہ بنا دے۔ باہمی نزاعات کو عین دین بتانا شروع کردے، کفر سازی اور فتنہ سازی کو مہم جوئی بنا ڈالے۔ علم کی بو بھی سونگھنے کی صلاحیت نہ ہو لیکن علّامہ بننے کی کوشش کرے۔ دعوت و افتاء کا کاروبار کرنے لگے اور اس غیر ذمہ دارانہ عمل پر لوگ اچھلنا شروع کردیں۔