• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدلس راوی کا عنعنہ اور صحیحین [انتظامیہ]

Raza Asqalani

رکن
شمولیت
جنوری 10، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
57
اور میرے سکین پیجز کو ہٹانا یہ کوئی بات نا ہوئی میں نے وہی ثابت کیا ہے جو حق تھا اب آگے آپ لوگوں کی مرضی مانیں یا نہ مانیں۔
والسلام۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے ابن داود صاحب ثابت کر دیا ہے اب اور بحث کی گنجائش نہیں بچی
اب آپ نے ثابت کرنا نجانے کس بلا کا نام رکھا ہے!
اور میرے سکین پیجز کو ہٹانا یہ کوئی بات نا ہوئی میں نے وہی ثابت کیا ہے جو حق تھا اب آگے آپ لوگوں کی مرضی مانیں یا نہ مانیں۔
آپ کو متعدد بار کہا ہے کہ آپ عبارت کو ہونیکوڈ میں تحریر فرمائیں!
اس سے آپ کے دلائل بھی سرچ میں لوگوں کو نظر مل جائیں گے، گوگل پر! اور یہ بات ہم آپ کے دلائل کی لوگوں تک رسائی کے لئے کہہ رہے ہیں! آپ اسے نجانے کیا سمجھ رہے ہو!
@محمد نعیم یونس بھائی فورم کے قواعد سے یہ بات نکال کر ذرا @Raza Asqalani صاحب کو بتلائیے گا!

مزید کہ معلوم ہوتا ہے کہ بھائی کو اصول حدیث سے معرفت کم ہے، اور وہ کسی کی تحقیق پر اصول کی معرفت کے بغیر اعتماد کئے بیٹھے ہیں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرا یہ حوالہ دینے کا مطلب یہ تھا کہ یہ صرف حسن ظن ہے ورنہ اس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔
جناب میرا یہ کہنا ہے کہ یہ صحیحین کی مدلسین والی روایت پر محمول علی السماع والی بات پر صرف حسن ظن ہے جس کا میں ثبوت دے چکا ہوں۔
آپ کا مدعا کچھ اور ہے!
اگر بات صرف حسن ظن کی ہو، تو جناب کو شاید معلوم نہیں کہ آپ کے ہاں تمام احاد ظنی ہیں!

علّامہ تفتازانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں:
خبر الواحد تقدير اشتماله علی جميع الشرائط المذكورة في اصول الفقه لايفيد إلا الظن
حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے ۔
(شرح عقائد نسفی بحث تعداد الانبیاء مطبوعہ دارالاشاعت العربیۃ قندھار ص۱۰۱)
ملاحظہ فرمائیں: بحوالہ صفحہ 472 جلد 05 العطايا النبوية في الفتاوی الرضویة معروف بہ فتاوی رضویہ - احمد رضا بریلوی - رضا فاؤنڈیشن، جامع نظامیہ رضویہ۔لاہور
اب اگر حسن ظن کے متعلق کہا جائے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، تو مسلک بریلویہ کی رو سے تمام احاد احادیث کے بارے میں بھی یہی لازم آتا ہے ، یعنی کہ پھر مسلک بریلویہ کی رو سے کسی بھی احاد حدیث کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں!
اس سے ثابت ہوتا ہے جو محدثین حسن ظن کے قائل ہیں ان کی تحقیق ان محدثین سے زیادہ صحیح ہے جو صحیحین کی ہر مدلس والی سند کو محمول علی السماع سمجھتے ہیں۔
یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی! ذرا تفصیل بیان کیجئے!
کیونکہ پہلے تو آپ حسن ظن پر نقد فرما رہے تھے!
میرا یہ حوالہ دینے کا مطلب یہ تھا کہ یہ صرف حسن ظن ہے ورنہ اس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اور میرے سکین پیجز کو ہٹانا یہ کوئی بات نا ہوئی میں نے وہی ثابت کیا ہے جو حق تھا اب آگے آپ لوگوں کی مرضی مانیں یا نہ مانیں۔
والسلام۔
بھائی !
تھوڑی محنت کرکے ، جو اعتراض ہے ، اسے لکھ دیں ۔ تصویریں بعض دفعہ نظر نہیں آتیں ۔ بعض دفعہ پورے صفحے سے اعتراض سمجھنے میں بھی غلط فہمی ہوسکتی ہے ۔
آپ کو متعدد بار کہا ہے کہ آپ عبارت کو ہونیکوڈ میں تحریر فرمائیں!
اس سے آپ کے دلائل بھی سرچ میں لوگوں کو نظر مل جائیں گے، گوگل پر! اور یہ بات ہم آپ کے دلائل کی لوگوں تک رسائی کے لئے کہہ رہے ہیں! آپ اسے نجانے کیا سمجھ رہے ہو!
ابن داود بھائی ! اگر وہ نہ لکھیں ، تو آپ ہی انہیں نظر انداز فرمائیے ۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
لگتا ہے جناب کا مدلسین کے بارے میں مطالعہ بہت کم ہے یہ خودعوادالخلف کی تحقیق پڑھو ابو زبیر کے بارے میں اور اس کا درجہ بھی دیکھیں۔18641 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
میرا مطالعہ جیسا بھی ہے کم از کم اپنے علم کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جبکہ آپ تو کسی دوسرے کی بات کو حلف آخر سمجھ رہے ہیں، مطالعہ میرا نہیں بلکہ آپ کا جہل زیادہ ہے۔
اگر تحقیق کی ہوتی تو آپ کو معلوم ہوتا کہ ابو الزبیر کی جابر سے معنعن روایات کو قبول کرنے میں بخاری ومسلم اکیلے نہیں ہیں بلکہ تمام متقدمین محدثین کا یہی موقف ہے، ابو الزبیر کے معنعن پر سب سے پہلا اعتراض پانچویں صدی ہجری میں شروع ہوا جب ابن حزم نے ان کے معنعن پر اعتراض کیا اور پھر خود ہی اپنی بات سے تضاد بھی کیا۔
اور پھر آپ تدلیس کے دوسرے اصول کا بھی جواب دینے سے قاصر ہیں کہ جو مدلس اپنے جس استاد سے مکثر ہو اس کی معنعن روایت قبول ہوتی ہے الا یہ کہ تدلیس ثابت ہو جائے۔ اس اصول کے تحت بھی ابو الزبیر کی خصوصا جابر سے روایت سماع پر محمول ہو گی۔
جہاں تک ابن القطان کے حوالے کا تعلق ہے تو امام احمد اور یحیی القطان سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے غالبا ابن القطان نے یہاں غلطی کی ہے کیونکہ امام احمد سے خود اس کے برعکس ثابت ہے۔
ابو الزبیر کی جابر سے اکثر روایات انہوں نے خود سنی ہیں اور بہت کم ہی کوئی گنی چنی روایات ہوں گی جن میں انہوں نے تدلیس کی ہے لیکن یہ بھی میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ان میں بھی تدلیس مضر نہیں ہے کیونکہ تدلیس کردہ واسطہ معلوم ہے اور وہ سلیمان الیشکری کی کتاب سے نقل کرتے ہیں جو کہ ثقہ ہیں تو تدلیس مضر کیسے ہو گئی؟
اس پر امام احمد ہی کا ایک قول آپ کو پیش کرتا ہوں، غور سے پڑہیے۔ امام ابو داؤد بیان کرتے ہیں کہ
سَمِعت أَحْمد بن حَنْبَل قَالَ قَالَ ابْن عُيَيْنَة شهِدت أَبَا الزبير يقْرَأ عَلَيْهِ صحيفَة فَقلت لِأَحْمَد هِيَ هَذِه الْأَحَادِيث يَعْنِي صحيفَة سُلَيْمَان وَهُوَ الْيَشْكُرِي الَّتِي فِي أَيدي النَّاس عَنهُ قَالَ نعم قلت أَخذهَا أَبُو الزبير من الصَّحِيفَة» ترجمہ: ”میں نے [ابو داؤد] احمد بن حنبل سے سنا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا میں نے ابو الزبیر پر ایک صحیفہ کی قراءت ہوتے ہوئے پایا۔ [ابو داؤد کہتے ہیں] میں نے احمد سے پوچھا: کیا یہ وہی صحیفہ ہے یعنی سلیمان الیشکری کا صحیفہ جسے آج لوگ ان سے روایت کرتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: ابو الزبیر نے اسی صحیفہ سے لیا ہے۔“ (سؤالات أبي داود للإمام أحمد: ص ٢٢٨)۔

اسی طرح امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جالس سليمان اليشكري جابرا فسمع منه وكتب عنه صحيفة فتوفي وبقيت الصحيفة عند امرأته فروى أبو الزبير وأبو سفيان والشعبي عن جابر وهم قد سمعوا من جابر وأكثره من الصحيفة، وكذلك قتادة" ترجمہ: سلیمان الیشکری جابر کے پاس بیٹھے اور ان سے احادیث سنی اور اسے ایک صحیفہ میں جمع کر لیا، پھر وہ فوت ہو گئے مگر وہ صحیفہ ان کی اہلیا کے پاس محفوظ رہا، تو اس صحیفہ سے پھر ابو الزبیر، ابو سفیان، شعبی اور قتادہ نے روایت کیا اور انہوں نے جابر سے بھی سن رکھا ہے لیکن اکثر حصہ صحیفۃ سے ہے"۔ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: ٤/١٣٦).

لہٰذا جب ہمیں راوی اور اسے روایت کرنے والے کے درمیان کا واسطہ معلوم ہو گیا تو انقطاع زائل ہو گیا اور علت بھی ختم ہو گئی جب ہمیں معلوم ہو جائے کہ یہ واسطہ ثقہ ہے۔ مثلا جس طرح حمید الطویل کی انس سے روایت مطلقا مقبول ہوتی ہے کیونکہ ان کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے یعنی ثابت البنانی جو کہ ثقہ ثبت ہیں۔ لہٰذا ابو الزبیر اگر مدلس ہیں تو ان کی روایت پھر بھی مقبول ہے کیونکہ ان کے اور جابر کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے۔

اسی لئے ائمہ متقدمین میں سے کسی نے بھی ان کے عنعنہ پر اعتراض نہیں کیا ہے، اگر کیا ہے تو آپ سے گزارش ہے کہ اس کی نشاندہی کریں۔ اس کے برعکس امام حاکم نے تو نہ صرف انہیں مکمل طور پر تدلیس سے بری قرار دیا ہے بلکہ اس پر تمام محدثین کا اجماع بھی نقل کیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ اپنی کتاب معرفہ علوم الحدیث (ص ٣٤) میں فرماتے ہیں:
«ذكر النوع الحادي عشر من علوم الحديث هذا النوع من هذه العلوم هو معرفة الأحاديث المعنعنة، وليس فيها تدليس، وهي متصلة بإجماع أئمة أهل النقل على تورع رواتها، عن أنواع التدليس، مثال ذلك ما حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا بحر بن نصر الخولاني , حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث , عن عبد ربه بن سعيد الأنصاري , عن أبي الزبير , عن جابر بن عبد الله , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لكل داء دواء، فإذا أصيب دواء الداء برئ بإذن الله عز وجل» قال الحاكم: هذا حديث رواته بصريون، ثم مدنيون ومكيون، وليس من مذاهبهم التدليس فسواء عندنا ذكروا سماعهم أو لم يذكروه، وإنما جعلته مثالا لألوف مثله»
ترجمہ: ”علوم حدیث کی گیارہویں قسم کا تذکرہ: علوم حدیث کی اس قسم کا تعلق ان معنعن احادیث کی معرفت سے ہے جن میں رواۃ کی احتیاط کے سبب تدلیس نہیں پائی جاتی اور یہ ائمہ اہل نقل کے اجماع کے ساتھ متصل ہیں۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب نے روایت کیا ہے اور کہا کہ بحر بن نصر الخولانی نے ہمیں روایت کیا، اور کہا کہ عبد اللہ بن وہب نے ہمیں روایت کیا، کہ میں نے عمرو بن الحارث پر اخبار کیا کہ عبد ربہ بن سعید الانصاری نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے جابر بن عبد اللہ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: ہر بیماری کی دوا ہے تو اگر بیماری کی دوا صحیح مل جائے تو اللہ تعالی کے حکم سے اس بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں: اس حدیث کے تمام رواۃ بصری ہیں پھر مدنی اور مکی ہیں اور تدلیس کرنا ان کا طریقہ نہیں ہے لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا سماع کا ذکر کرنا اور نہ کرنا دونوں ایک برابر ہیں، اور اس حدیث کو میں نے محض اس جیسی ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔“

یہاں پر امام حاکم صراحتا امام ابو الزبیر کو نہ صرف غیر مدلس بتا رہے ہیں بلکہ اس پر ائمہ حدیث کا اجماع بھی نقل کر رہے ہیں۔ اور یہی نہیں، انہوں نے ہزاروں غیر مدلس معنعن احادیث میں سے صرف ابو الزبیر کی حدیث کو ہی ان ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیے جانے کے قابل سمجھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حاکم کے نزدیک ابو الزبیر کی معنعن روایت کا کیا مقام ہے۔

لہٰذا دوسروں کی غیر مکمل تحقیقات پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہوئے بخاری ومسلم کی احادیث پر اعتراض کرنے کی بجائے اگر آپ اس تدلیس اور اس عنعنہ کا مضر ہونا ثابت کر سکیں تو کریں، ورنہ آپ کو تحقیق کی الف بے کے علم کے بنا امام بخاری ومسلم جیسے ائمہ پر اعتراض کرنے کا حق بالکل نہیں ہے۔ آپ خود اس محاورے کو سچ کرنے پر تلے ہوئے ہیں: نیم حکیم خطرہ جان، نیم فقیہ خطرہ ایمان۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اور میرے سکین پیجز کو ہٹانا یہ کوئی بات نا ہوئی میں نے وہی ثابت کیا ہے جو حق تھا اب آگے آپ لوگوں کی مرضی مانیں یا نہ مانیں۔
والسلام۔
اس فورم کے مقصدِ قیام میں یہ بنیادی بات بھی شامل ہے کہ مکالمہ و بحث یونیکوڈ میں ہو..جیسا کہ پورا فورم اس ضمن میں گواہ ہے البتہ بطور حوالہ کتاب کا سکین لگایا جاسکتا ہے.
جو بھائی مکالمہ و بحث میں صرف سکین لگا کر مطمئین ہو جاتے ہیں، تو اُن کے لیے اطلاعا عرض ہے کہ وہ فورم کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں.
اس لیے گذارش ہے کہ جس دھاگے میں بھی بات کا رخ بحث مباحثہ کی جانب ہو جائے تو طرفین کتب کے صفحات کا سکین بطور حوالہ ضرور لگائیں..لیکن اُس سکین میں سے کم از کم اپنے دعوی و دلیل کو ثابت کرنے والے الفاظ و جملے یونیکوڈ میں تحریر کریں تا کہ فریق مخالف اُسکا اقتباس لے کر جواب دے سکے نا کہ پہلے وہ خود ٹائپ کرے.
دوسرا یہ کہ اگر سکین کے بدلے سکین اور کتب کے بدلے کتب تھما دی جائے تو اس فورم کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے..ابتسامہ!
 

Raza Asqalani

رکن
شمولیت
جنوری 10، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
57
میرا مطالعہ جیسا بھی ہے کم از کم اپنے علم کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جبکہ آپ تو کسی دوسرے کی بات کو حلف آخر سمجھ رہے ہیں، مطالعہ میرا نہیں بلکہ آپ کا جہل زیادہ ہے۔
اگر تحقیق کی ہوتی تو آپ کو معلوم ہوتا کہ ابو الزبیر کی جابر سے معنعن روایات کو قبول کرنے میں بخاری ومسلم اکیلے نہیں ہیں بلکہ تمام متقدمین محدثین کا یہی موقف ہے، ابو الزبیر کے معنعن پر سب سے پہلا اعتراض پانچویں صدی ہجری میں شروع ہوا جب ابن حزم نے ان کے معنعن پر اعتراض کیا اور پھر خود ہی اپنی بات سے تضاد بھی کیا۔
اور پھر آپ تدلیس کے دوسرے اصول کا بھی جواب دینے سے قاصر ہیں کہ جو مدلس اپنے جس استاد سے مکثر ہو اس کی معنعن روایت قبول ہوتی ہے الا یہ کہ تدلیس ثابت ہو جائے۔ اس اصول کے تحت بھی ابو الزبیر کی خصوصا جابر سے روایت سماع پر محمول ہو گی۔
جہاں تک ابن القطان کے حوالے کا تعلق ہے تو امام احمد اور یحیی القطان سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے غالبا ابن القطان نے یہاں غلطی کی ہے کیونکہ امام احمد سے خود اس کے برعکس ثابت ہے۔
ابو الزبیر کی جابر سے اکثر روایات انہوں نے خود سنی ہیں اور بہت کم ہی کوئی گنی چنی روایات ہوں گی جن میں انہوں نے تدلیس کی ہے لیکن یہ بھی میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ان میں بھی تدلیس مضر نہیں ہے کیونکہ تدلیس کردہ واسطہ معلوم ہے اور وہ سلیمان الیشکری کی کتاب سے نقل کرتے ہیں جو کہ ثقہ ہیں تو تدلیس مضر کیسے ہو گئی؟
اس پر امام احمد ہی کا ایک قول آپ کو پیش کرتا ہوں، غور سے پڑہیے۔ امام ابو داؤد بیان کرتے ہیں کہ
سَمِعت أَحْمد بن حَنْبَل قَالَ قَالَ ابْن عُيَيْنَة شهِدت أَبَا الزبير يقْرَأ عَلَيْهِ صحيفَة فَقلت لِأَحْمَد هِيَ هَذِه الْأَحَادِيث يَعْنِي صحيفَة سُلَيْمَان وَهُوَ الْيَشْكُرِي الَّتِي فِي أَيدي النَّاس عَنهُ قَالَ نعم قلت أَخذهَا أَبُو الزبير من الصَّحِيفَة» ترجمہ: ”میں نے [ابو داؤد] احمد بن حنبل سے سنا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا میں نے ابو الزبیر پر ایک صحیفہ کی قراءت ہوتے ہوئے پایا۔ [ابو داؤد کہتے ہیں] میں نے احمد سے پوچھا: کیا یہ وہی صحیفہ ہے یعنی سلیمان الیشکری کا صحیفہ جسے آج لوگ ان سے روایت کرتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: ابو الزبیر نے اسی صحیفہ سے لیا ہے۔“ (سؤالات أبي داود للإمام أحمد: ص ٢٢٨)۔

اسی طرح امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جالس سليمان اليشكري جابرا فسمع منه وكتب عنه صحيفة فتوفي وبقيت الصحيفة عند امرأته فروى أبو الزبير وأبو سفيان والشعبي عن جابر وهم قد سمعوا من جابر وأكثره من الصحيفة، وكذلك قتادة" ترجمہ: سلیمان الیشکری جابر کے پاس بیٹھے اور ان سے احادیث سنی اور اسے ایک صحیفہ میں جمع کر لیا، پھر وہ فوت ہو گئے مگر وہ صحیفہ ان کی اہلیا کے پاس محفوظ رہا، تو اس صحیفہ سے پھر ابو الزبیر، ابو سفیان، شعبی اور قتادہ نے روایت کیا اور انہوں نے جابر سے بھی سن رکھا ہے لیکن اکثر حصہ صحیفۃ سے ہے"۔ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: ٤/١٣٦).

لہٰذا جب ہمیں راوی اور اسے روایت کرنے والے کے درمیان کا واسطہ معلوم ہو گیا تو انقطاع زائل ہو گیا اور علت بھی ختم ہو گئی جب ہمیں معلوم ہو جائے کہ یہ واسطہ ثقہ ہے۔ مثلا جس طرح حمید الطویل کی انس سے روایت مطلقا مقبول ہوتی ہے کیونکہ ان کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے یعنی ثابت البنانی جو کہ ثقہ ثبت ہیں۔ لہٰذا ابو الزبیر اگر مدلس ہیں تو ان کی روایت پھر بھی مقبول ہے کیونکہ ان کے اور جابر کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے۔

اسی لئے ائمہ متقدمین میں سے کسی نے بھی ان کے عنعنہ پر اعتراض نہیں کیا ہے، اگر کیا ہے تو آپ سے گزارش ہے کہ اس کی نشاندہی کریں۔ اس کے برعکس امام حاکم نے تو نہ صرف انہیں مکمل طور پر تدلیس سے بری قرار دیا ہے بلکہ اس پر تمام محدثین کا اجماع بھی نقل کیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ اپنی کتاب معرفہ علوم الحدیث (ص ٣٤) میں فرماتے ہیں:
«ذكر النوع الحادي عشر من علوم الحديث هذا النوع من هذه العلوم هو معرفة الأحاديث المعنعنة، وليس فيها تدليس، وهي متصلة بإجماع أئمة أهل النقل على تورع رواتها، عن أنواع التدليس، مثال ذلك ما حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا بحر بن نصر الخولاني , حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث , عن عبد ربه بن سعيد الأنصاري , عن أبي الزبير , عن جابر بن عبد الله , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لكل داء دواء، فإذا أصيب دواء الداء برئ بإذن الله عز وجل» قال الحاكم: هذا حديث رواته بصريون، ثم مدنيون ومكيون، وليس من مذاهبهم التدليس فسواء عندنا ذكروا سماعهم أو لم يذكروه، وإنما جعلته مثالا لألوف مثله»
ترجمہ: ”علوم حدیث کی گیارہویں قسم کا تذکرہ: علوم حدیث کی اس قسم کا تعلق ان معنعن احادیث کی معرفت سے ہے جن میں رواۃ کی احتیاط کے سبب تدلیس نہیں پائی جاتی اور یہ ائمہ اہل نقل کے اجماع کے ساتھ متصل ہیں۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب نے روایت کیا ہے اور کہا کہ بحر بن نصر الخولانی نے ہمیں روایت کیا، اور کہا کہ عبد اللہ بن وہب نے ہمیں روایت کیا، کہ میں نے عمرو بن الحارث پر اخبار کیا کہ عبد ربہ بن سعید الانصاری نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے جابر بن عبد اللہ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: ہر بیماری کی دوا ہے تو اگر بیماری کی دوا صحیح مل جائے تو اللہ تعالی کے حکم سے اس بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں: اس حدیث کے تمام رواۃ بصری ہیں پھر مدنی اور مکی ہیں اور تدلیس کرنا ان کا طریقہ نہیں ہے لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا سماع کا ذکر کرنا اور نہ کرنا دونوں ایک برابر ہیں، اور اس حدیث کو میں نے محض اس جیسی ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔“

یہاں پر امام حاکم صراحتا امام ابو الزبیر کو نہ صرف غیر مدلس بتا رہے ہیں بلکہ اس پر ائمہ حدیث کا اجماع بھی نقل کر رہے ہیں۔ اور یہی نہیں، انہوں نے ہزاروں غیر مدلس معنعن احادیث میں سے صرف ابو الزبیر کی حدیث کو ہی ان ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیے جانے کے قابل سمجھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حاکم کے نزدیک ابو الزبیر کی معنعن روایت کا کیا مقام ہے۔

لہٰذا دوسروں کی غیر مکمل تحقیقات پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہوئے بخاری ومسلم کی احادیث پر اعتراض کرنے کی بجائے اگر آپ اس تدلیس اور اس عنعنہ کا مضر ہونا ثابت کر سکیں تو کریں، ورنہ آپ کو تحقیق کی الف بے کے علم کے بنا امام بخاری ومسلم جیسے ائمہ پر اعتراض کرنے کا حق بالکل نہیں ہے۔ آپ خود اس محاورے کو سچ کرنے پر تلے ہوئے ہیں: نیم حکیم خطرہ جان، نیم فقیہ خطرہ ایمان۔
جناب اتنی عبارت لکھنے سے پہلے اپنے اکابر سلفیوں کی کتب کا مطالعہ کرتے ایسے ہم پر طعن نہ کرے لو خود دیکھ لو زبیر زئی کےاستاد حافظ گوندلوی کی تحریر انہوں نے تو صحیحین کے اس قاعدہ کا خون کر دیا ہے۔
ابو زبیر تیسرے درجہ کا مدلس ہے خود حافظ گوندلوی نے امام عسقلانی کی تحریر سے دلیل لی اورکہا کہ تیسرے درجہ کی مدلس کی سماع کی تصریح کے بنا اس کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
اس لیے ہم پر تنقید کرنے کی بجائے اپنے حافظ پر کریں کیونکہ انہوں نے وہی لکھا جو میں نے کہا۔
Hafiz Gondali se jawab.jpg
 

Raza Asqalani

رکن
شمولیت
جنوری 10، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
57
ابو الزبیر کی جابر سے اکثر روایات انہوں نے خود سنی ہیں اور بہت کم ہی کوئی گنی چنی روایات ہوں گی جن میں انہوں نے تدلیس کی ہے
جناب کی خود کی تحریر میں جناب کا خود رد موجود ہے۔
اوپرجوروایت میں نے اوپر پیش کی اس میں ابو زبیر کی سماع کی تصریح نہ مل سکی پھر کیا وہ بھی قبول کی جائے گی؟؟؟
ابوزبیر تیسرے درجہ کا مدلس ہے اس کی روایت بنا سماع کی تصریح کے کیسے قبول ہے ذرا یہ تو بتا دیں؟؟؟
 

Raza Asqalani

رکن
شمولیت
جنوری 10، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
57
میرا مطالعہ جیسا بھی ہے کم از کم اپنے علم کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جبکہ آپ تو کسی دوسرے کی بات کو حلف آخر سمجھ رہے ہیں، مطالعہ میرا نہیں بلکہ آپ کا جہل زیادہ ہے۔
اگر تحقیق کی ہوتی تو آپ کو معلوم ہوتا کہ ابو الزبیر کی جابر سے معنعن روایات کو قبول کرنے میں بخاری ومسلم اکیلے نہیں ہیں بلکہ تمام متقدمین محدثین کا یہی موقف ہے، ابو الزبیر کے معنعن پر سب سے پہلا اعتراض پانچویں صدی ہجری میں شروع ہوا جب ابن حزم نے ان کے معنعن پر اعتراض کیا اور پھر خود ہی اپنی بات سے تضاد بھی کیا۔
اور پھر آپ تدلیس کے دوسرے اصول کا بھی جواب دینے سے قاصر ہیں کہ جو مدلس اپنے جس استاد سے مکثر ہو اس کی معنعن روایت قبول ہوتی ہے الا یہ کہ تدلیس ثابت ہو جائے۔ اس اصول کے تحت بھی ابو الزبیر کی خصوصا جابر سے روایت سماع پر محمول ہو گی۔
جہاں تک ابن القطان کے حوالے کا تعلق ہے تو امام احمد اور یحیی القطان سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے غالبا ابن القطان نے یہاں غلطی کی ہے کیونکہ امام احمد سے خود اس کے برعکس ثابت ہے۔
ابو الزبیر کی جابر سے اکثر روایات انہوں نے خود سنی ہیں اور بہت کم ہی کوئی گنی چنی روایات ہوں گی جن میں انہوں نے تدلیس کی ہے لیکن یہ بھی میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ان میں بھی تدلیس مضر نہیں ہے کیونکہ تدلیس کردہ واسطہ معلوم ہے اور وہ سلیمان الیشکری کی کتاب سے نقل کرتے ہیں جو کہ ثقہ ہیں تو تدلیس مضر کیسے ہو گئی؟
اس پر امام احمد ہی کا ایک قول آپ کو پیش کرتا ہوں، غور سے پڑہیے۔ امام ابو داؤد بیان کرتے ہیں کہ
سَمِعت أَحْمد بن حَنْبَل قَالَ قَالَ ابْن عُيَيْنَة شهِدت أَبَا الزبير يقْرَأ عَلَيْهِ صحيفَة فَقلت لِأَحْمَد هِيَ هَذِه الْأَحَادِيث يَعْنِي صحيفَة سُلَيْمَان وَهُوَ الْيَشْكُرِي الَّتِي فِي أَيدي النَّاس عَنهُ قَالَ نعم قلت أَخذهَا أَبُو الزبير من الصَّحِيفَة» ترجمہ: ”میں نے [ابو داؤد] احمد بن حنبل سے سنا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا میں نے ابو الزبیر پر ایک صحیفہ کی قراءت ہوتے ہوئے پایا۔ [ابو داؤد کہتے ہیں] میں نے احمد سے پوچھا: کیا یہ وہی صحیفہ ہے یعنی سلیمان الیشکری کا صحیفہ جسے آج لوگ ان سے روایت کرتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: ابو الزبیر نے اسی صحیفہ سے لیا ہے۔“ (سؤالات أبي داود للإمام أحمد: ص ٢٢٨)۔

اسی طرح امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جالس سليمان اليشكري جابرا فسمع منه وكتب عنه صحيفة فتوفي وبقيت الصحيفة عند امرأته فروى أبو الزبير وأبو سفيان والشعبي عن جابر وهم قد سمعوا من جابر وأكثره من الصحيفة، وكذلك قتادة" ترجمہ: سلیمان الیشکری جابر کے پاس بیٹھے اور ان سے احادیث سنی اور اسے ایک صحیفہ میں جمع کر لیا، پھر وہ فوت ہو گئے مگر وہ صحیفہ ان کی اہلیا کے پاس محفوظ رہا، تو اس صحیفہ سے پھر ابو الزبیر، ابو سفیان، شعبی اور قتادہ نے روایت کیا اور انہوں نے جابر سے بھی سن رکھا ہے لیکن اکثر حصہ صحیفۃ سے ہے"۔ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: ٤/١٣٦).

لہٰذا جب ہمیں راوی اور اسے روایت کرنے والے کے درمیان کا واسطہ معلوم ہو گیا تو انقطاع زائل ہو گیا اور علت بھی ختم ہو گئی جب ہمیں معلوم ہو جائے کہ یہ واسطہ ثقہ ہے۔
مثلا جس طرح حمید الطویل کی انس سے روایت مطلقا مقبول ہوتی ہے کیونکہ ان کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے یعنی ثابت البنانی جو کہ ثقہ ثبت ہیں۔ لہٰذا ابو الزبیر اگر مدلس ہیں تو ان کی روایت پھر بھی مقبول ہے کیونکہ ان کے اور جابر کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے۔

اسی لئے ائمہ متقدمین میں سے کسی نے بھی ان کے عنعنہ پر اعتراض نہیں کیا ہے، اگر کیا ہے تو آپ سے گزارش ہے کہ اس کی نشاندہی کریں۔ اس کے برعکس امام حاکم نے تو نہ صرف انہیں مکمل طور پر تدلیس سے بری قرار دیا ہے بلکہ اس پر تمام محدثین کا اجماع بھی نقل کیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ اپنی کتاب معرفہ علوم الحدیث (ص ٣٤) میں فرماتے ہیں:
«ذكر النوع الحادي عشر من علوم الحديث هذا النوع من هذه العلوم هو معرفة الأحاديث المعنعنة، وليس فيها تدليس، وهي متصلة بإجماع أئمة أهل النقل على تورع رواتها، عن أنواع التدليس، مثال ذلك ما حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا بحر بن نصر الخولاني , حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث , عن عبد ربه بن سعيد الأنصاري , عن أبي الزبير , عن جابر بن عبد الله , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لكل داء دواء، فإذا أصيب دواء الداء برئ بإذن الله عز وجل» قال الحاكم: هذا حديث رواته بصريون، ثم مدنيون ومكيون، وليس من مذاهبهم التدليس فسواء عندنا ذكروا سماعهم أو لم يذكروه، وإنما جعلته مثالا لألوف مثله»
ترجمہ: ”علوم حدیث کی گیارہویں قسم کا تذکرہ: علوم حدیث کی اس قسم کا تعلق ان معنعن احادیث کی معرفت سے ہے جن میں رواۃ کی احتیاط کے سبب تدلیس نہیں پائی جاتی اور یہ ائمہ اہل نقل کے اجماع کے ساتھ متصل ہیں۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب نے روایت کیا ہے اور کہا کہ بحر بن نصر الخولانی نے ہمیں روایت کیا، اور کہا کہ عبد اللہ بن وہب نے ہمیں روایت کیا، کہ میں نے عمرو بن الحارث پر اخبار کیا کہ عبد ربہ بن سعید الانصاری نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے جابر بن عبد اللہ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: ہر بیماری کی دوا ہے تو اگر بیماری کی دوا صحیح مل جائے تو اللہ تعالی کے حکم سے اس بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں: اس حدیث کے تمام رواۃ بصری ہیں پھر مدنی اور مکی ہیں اور تدلیس کرنا ان کا طریقہ نہیں ہے لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا سماع کا ذکر کرنا اور نہ کرنا دونوں ایک برابر ہیں، اور اس حدیث کو میں نے محض اس جیسی ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔“

یہاں پر امام حاکم صراحتا امام ابو الزبیر کو نہ صرف غیر مدلس بتا رہے ہیں بلکہ اس پر ائمہ حدیث کا اجماع بھی نقل کر رہے ہیں۔ اور یہی نہیں، انہوں نے ہزاروں غیر مدلس معنعن احادیث میں سے صرف ابو الزبیر کی حدیث کو ہی ان ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیے جانے کے قابل سمجھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حاکم کے نزدیک ابو الزبیر کی معنعن روایت کا کیا مقام ہے۔

لہٰذا دوسروں کی غیر مکمل تحقیقات پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہوئے بخاری ومسلم کی احادیث پر اعتراض کرنے کی بجائے اگر آپ اس تدلیس اور اس عنعنہ کا مضر ہونا ثابت کر سکیں تو کریں، ورنہ آپ کو تحقیق کی الف بے کے علم کے بنا امام بخاری ومسلم جیسے ائمہ پر اعتراض کرنے کا حق بالکل نہیں ہے۔ آپ خود اس محاورے کو سچ کرنے پر تلے ہوئے ہیں: نیم حکیم خطرہ جان، نیم فقیہ خطرہ ایمان۔
جناب کی خود کی تحریر جناب کا ساتھ نہیں دے رہی۔امام حاکم کی اس بات کو امام عسقلانی نے وہم قرار دیا ہے۔
باقی ابوزبیر اور حمیدالطویل کی عن والی روایت کے بارے میں اپنی جماعت کے محقق زبیر زئی کی تحقق بھی پڑھ لو۔
Abu Zubair aur Hameed Tool  Ka Mudalis hony ka saboot Zubair Zai se.jpg
 

Raza Asqalani

رکن
شمولیت
جنوری 10، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
57
میرا مطالعہ جیسا بھی ہے کم از کم اپنے علم کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جبکہ آپ تو کسی دوسرے کی بات کو حلف آخر سمجھ رہے ہیں، مطالعہ میرا نہیں بلکہ آپ کا جہل زیادہ ہے۔
اگر تحقیق کی ہوتی تو آپ کو معلوم ہوتا کہ ابو الزبیر کی جابر سے معنعن روایات کو قبول کرنے میں بخاری ومسلم اکیلے نہیں ہیں بلکہ تمام متقدمین محدثین کا یہی موقف ہے، ابو الزبیر کے معنعن پر سب سے پہلا اعتراض پانچویں صدی ہجری میں شروع ہوا جب ابن حزم نے ان کے معنعن پر اعتراض کیا اور پھر خود ہی اپنی بات سے تضاد بھی کیا۔
اور پھر آپ تدلیس کے دوسرے اصول کا بھی جواب دینے سے قاصر ہیں کہ جو مدلس اپنے جس استاد سے مکثر ہو اس کی معنعن روایت قبول ہوتی ہے الا یہ کہ تدلیس ثابت ہو جائے۔ اس اصول کے تحت بھی ابو الزبیر کی خصوصا جابر سے روایت سماع پر محمول ہو گی۔
جہاں تک ابن القطان کے حوالے کا تعلق ہے تو امام احمد اور یحیی القطان سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے غالبا ابن القطان نے یہاں غلطی کی ہے کیونکہ امام احمد سے خود اس کے برعکس ثابت ہے۔
ابو الزبیر کی جابر سے اکثر روایات انہوں نے خود سنی ہیں اور بہت کم ہی کوئی گنی چنی روایات ہوں گی جن میں انہوں نے تدلیس کی ہے لیکن یہ بھی میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ان میں بھی تدلیس مضر نہیں ہے کیونکہ تدلیس کردہ واسطہ معلوم ہے اور وہ سلیمان الیشکری کی کتاب سے نقل کرتے ہیں جو کہ ثقہ ہیں تو تدلیس مضر کیسے ہو گئی؟
اس پر امام احمد ہی کا ایک قول آپ کو پیش کرتا ہوں، غور سے پڑہیے۔ امام ابو داؤد بیان کرتے ہیں کہ
سَمِعت أَحْمد بن حَنْبَل قَالَ قَالَ ابْن عُيَيْنَة شهِدت أَبَا الزبير يقْرَأ عَلَيْهِ صحيفَة فَقلت لِأَحْمَد هِيَ هَذِه الْأَحَادِيث يَعْنِي صحيفَة سُلَيْمَان وَهُوَ الْيَشْكُرِي الَّتِي فِي أَيدي النَّاس عَنهُ قَالَ نعم قلت أَخذهَا أَبُو الزبير من الصَّحِيفَة» ترجمہ: ”میں نے [ابو داؤد] احمد بن حنبل سے سنا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا میں نے ابو الزبیر پر ایک صحیفہ کی قراءت ہوتے ہوئے پایا۔ [ابو داؤد کہتے ہیں] میں نے احمد سے پوچھا: کیا یہ وہی صحیفہ ہے یعنی سلیمان الیشکری کا صحیفہ جسے آج لوگ ان سے روایت کرتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: ابو الزبیر نے اسی صحیفہ سے لیا ہے۔“ (سؤالات أبي داود للإمام أحمد: ص ٢٢٨)۔

اسی طرح امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جالس سليمان اليشكري جابرا فسمع منه وكتب عنه صحيفة فتوفي وبقيت الصحيفة عند امرأته فروى أبو الزبير وأبو سفيان والشعبي عن جابر وهم قد سمعوا من جابر وأكثره من الصحيفة، وكذلك قتادة" ترجمہ: سلیمان الیشکری جابر کے پاس بیٹھے اور ان سے احادیث سنی اور اسے ایک صحیفہ میں جمع کر لیا، پھر وہ فوت ہو گئے مگر وہ صحیفہ ان کی اہلیا کے پاس محفوظ رہا، تو اس صحیفہ سے پھر ابو الزبیر، ابو سفیان، شعبی اور قتادہ نے روایت کیا اور انہوں نے جابر سے بھی سن رکھا ہے لیکن اکثر حصہ صحیفۃ سے ہے"۔ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: ٤/١٣٦).

لہٰذا جب ہمیں راوی اور اسے روایت کرنے والے کے درمیان کا واسطہ معلوم ہو گیا تو انقطاع زائل ہو گیا اور علت بھی ختم ہو گئی جب ہمیں معلوم ہو جائے کہ یہ واسطہ ثقہ ہے۔ مثلا جس طرح حمید الطویل کی انس سے روایت مطلقا مقبول ہوتی ہے کیونکہ ان کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے یعنی ثابت البنانی جو کہ ثقہ ثبت ہیں۔ لہٰذا ابو الزبیر اگر مدلس ہیں تو ان کی روایت پھر بھی مقبول ہے کیونکہ ان کے اور جابر کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے۔

اسی لئے ائمہ متقدمین میں سے کسی نے بھی ان کے عنعنہ پر اعتراض نہیں کیا ہے، اگر کیا ہے تو آپ سے گزارش ہے کہ اس کی نشاندہی کریں۔ اس کے برعکس امام حاکم نے تو نہ صرف انہیں مکمل طور پر تدلیس سے بری قرار دیا ہے بلکہ اس پر تمام محدثین کا اجماع بھی نقل کیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ اپنی کتاب معرفہ علوم الحدیث (ص ٣٤) میں فرماتے ہیں:
«ذكر النوع الحادي عشر من علوم الحديث هذا النوع من هذه العلوم هو معرفة الأحاديث المعنعنة، وليس فيها تدليس، وهي متصلة بإجماع أئمة أهل النقل على تورع رواتها، عن أنواع التدليس، مثال ذلك ما حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا بحر بن نصر الخولاني , حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث , عن عبد ربه بن سعيد الأنصاري , عن أبي الزبير , عن جابر بن عبد الله , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لكل داء دواء، فإذا أصيب دواء الداء برئ بإذن الله عز وجل» قال الحاكم: هذا حديث رواته بصريون، ثم مدنيون ومكيون، وليس من مذاهبهم التدليس فسواء عندنا ذكروا سماعهم أو لم يذكروه، وإنما جعلته مثالا لألوف مثله»
ترجمہ: ”علوم حدیث کی گیارہویں قسم کا تذکرہ: علوم حدیث کی اس قسم کا تعلق ان معنعن احادیث کی معرفت سے ہے جن میں رواۃ کی احتیاط کے سبب تدلیس نہیں پائی جاتی اور یہ ائمہ اہل نقل کے اجماع کے ساتھ متصل ہیں۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب نے روایت کیا ہے اور کہا کہ بحر بن نصر الخولانی نے ہمیں روایت کیا، اور کہا کہ عبد اللہ بن وہب نے ہمیں روایت کیا، کہ میں نے عمرو بن الحارث پر اخبار کیا کہ عبد ربہ بن سعید الانصاری نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے جابر بن عبد اللہ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: ہر بیماری کی دوا ہے تو اگر بیماری کی دوا صحیح مل جائے تو اللہ تعالی کے حکم سے اس بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں: اس حدیث کے تمام رواۃ بصری ہیں پھر مدنی اور مکی ہیں اور تدلیس کرنا ان کا طریقہ نہیں ہے لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا سماع کا ذکر کرنا اور نہ کرنا دونوں ایک برابر ہیں، اور اس حدیث کو میں نے محض اس جیسی ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔“

یہاں پر امام حاکم صراحتا امام ابو الزبیر کو نہ صرف غیر مدلس بتا رہے ہیں بلکہ اس پر ائمہ حدیث کا اجماع بھی نقل کر رہے ہیں۔ اور یہی نہیں، انہوں نے ہزاروں غیر مدلس معنعن احادیث میں سے صرف ابو الزبیر کی حدیث کو ہی ان ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیے جانے کے قابل سمجھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حاکم کے نزدیک ابو الزبیر کی معنعن روایت کا کیا مقام ہے۔


لہٰذا دوسروں کی غیر مکمل تحقیقات پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہوئے بخاری ومسلم کی احادیث پر اعتراض کرنے کی بجائے اگر آپ اس تدلیس اور اس عنعنہ کا مضر ہونا ثابت کر سکیں تو کریں، ورنہ آپ کو تحقیق کی الف بے کے علم کے بنا امام بخاری ومسلم جیسے ائمہ پر اعتراض کرنے کا حق بالکل نہیں ہے۔ آپ خود اس محاورے کو سچ کرنے پر تلے ہوئے ہیں: نیم حکیم خطرہ جان، نیم فقیہ خطرہ ایمان۔
نیم حکیم خطرہ جان، نیم فقیہ خطرہ ایمان ہم نہیں جناب ہیں جو امام حاکم کی تحقیق پر بھروسہ کر بیٹھے امام عسقلانی نے امام حاکم کی اس بات کو وہم قرار دے دیا لو خود پڑھ لو اپنے زبیر زئی کی تحقیق کو۔
Abu Zubair Ka Mudalis hony ka saboot Zubair Zai se.jpg
 
Top