Raza Asqalani
رکن
- شمولیت
- جنوری 10، 2017
- پیغامات
- 60
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 57
اور میرے سکین پیجز کو ہٹانا یہ کوئی بات نا ہوئی میں نے وہی ثابت کیا ہے جو حق تھا اب آگے آپ لوگوں کی مرضی مانیں یا نہ مانیں۔
والسلام۔
والسلام۔
اب آپ نے ثابت کرنا نجانے کس بلا کا نام رکھا ہے!میں نے ابن داود صاحب ثابت کر دیا ہے اب اور بحث کی گنجائش نہیں بچی
آپ کو متعدد بار کہا ہے کہ آپ عبارت کو ہونیکوڈ میں تحریر فرمائیں!اور میرے سکین پیجز کو ہٹانا یہ کوئی بات نا ہوئی میں نے وہی ثابت کیا ہے جو حق تھا اب آگے آپ لوگوں کی مرضی مانیں یا نہ مانیں۔
میرا یہ حوالہ دینے کا مطلب یہ تھا کہ یہ صرف حسن ظن ہے ورنہ اس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔
آپ کا مدعا کچھ اور ہے!جناب میرا یہ کہنا ہے کہ یہ صحیحین کی مدلسین والی روایت پر محمول علی السماع والی بات پر صرف حسن ظن ہے جس کا میں ثبوت دے چکا ہوں۔
یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی! ذرا تفصیل بیان کیجئے!اس سے ثابت ہوتا ہے جو محدثین حسن ظن کے قائل ہیں ان کی تحقیق ان محدثین سے زیادہ صحیح ہے جو صحیحین کی ہر مدلس والی سند کو محمول علی السماع سمجھتے ہیں۔
میرا یہ حوالہ دینے کا مطلب یہ تھا کہ یہ صرف حسن ظن ہے ورنہ اس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔
بھائی !اور میرے سکین پیجز کو ہٹانا یہ کوئی بات نا ہوئی میں نے وہی ثابت کیا ہے جو حق تھا اب آگے آپ لوگوں کی مرضی مانیں یا نہ مانیں۔
والسلام۔
ابن داود بھائی ! اگر وہ نہ لکھیں ، تو آپ ہی انہیں نظر انداز فرمائیے ۔آپ کو متعدد بار کہا ہے کہ آپ عبارت کو ہونیکوڈ میں تحریر فرمائیں!
اس سے آپ کے دلائل بھی سرچ میں لوگوں کو نظر مل جائیں گے، گوگل پر! اور یہ بات ہم آپ کے دلائل کی لوگوں تک رسائی کے لئے کہہ رہے ہیں! آپ اسے نجانے کیا سمجھ رہے ہو!
میرا مطالعہ جیسا بھی ہے کم از کم اپنے علم کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جبکہ آپ تو کسی دوسرے کی بات کو حلف آخر سمجھ رہے ہیں، مطالعہ میرا نہیں بلکہ آپ کا جہل زیادہ ہے۔لگتا ہے جناب کا مدلسین کے بارے میں مطالعہ بہت کم ہے یہ خودعوادالخلف کی تحقیق پڑھو ابو زبیر کے بارے میں اور اس کا درجہ بھی دیکھیں۔18641 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اس فورم کے مقصدِ قیام میں یہ بنیادی بات بھی شامل ہے کہ مکالمہ و بحث یونیکوڈ میں ہو..جیسا کہ پورا فورم اس ضمن میں گواہ ہے البتہ بطور حوالہ کتاب کا سکین لگایا جاسکتا ہے.اور میرے سکین پیجز کو ہٹانا یہ کوئی بات نا ہوئی میں نے وہی ثابت کیا ہے جو حق تھا اب آگے آپ لوگوں کی مرضی مانیں یا نہ مانیں۔
والسلام۔
جناب اتنی عبارت لکھنے سے پہلے اپنے اکابر سلفیوں کی کتب کا مطالعہ کرتے ایسے ہم پر طعن نہ کرے لو خود دیکھ لو زبیر زئی کےاستاد حافظ گوندلوی کی تحریر انہوں نے تو صحیحین کے اس قاعدہ کا خون کر دیا ہے۔میرا مطالعہ جیسا بھی ہے کم از کم اپنے علم کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جبکہ آپ تو کسی دوسرے کی بات کو حلف آخر سمجھ رہے ہیں، مطالعہ میرا نہیں بلکہ آپ کا جہل زیادہ ہے۔
اگر تحقیق کی ہوتی تو آپ کو معلوم ہوتا کہ ابو الزبیر کی جابر سے معنعن روایات کو قبول کرنے میں بخاری ومسلم اکیلے نہیں ہیں بلکہ تمام متقدمین محدثین کا یہی موقف ہے، ابو الزبیر کے معنعن پر سب سے پہلا اعتراض پانچویں صدی ہجری میں شروع ہوا جب ابن حزم نے ان کے معنعن پر اعتراض کیا اور پھر خود ہی اپنی بات سے تضاد بھی کیا۔
اور پھر آپ تدلیس کے دوسرے اصول کا بھی جواب دینے سے قاصر ہیں کہ جو مدلس اپنے جس استاد سے مکثر ہو اس کی معنعن روایت قبول ہوتی ہے الا یہ کہ تدلیس ثابت ہو جائے۔ اس اصول کے تحت بھی ابو الزبیر کی خصوصا جابر سے روایت سماع پر محمول ہو گی۔
جہاں تک ابن القطان کے حوالے کا تعلق ہے تو امام احمد اور یحیی القطان سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے غالبا ابن القطان نے یہاں غلطی کی ہے کیونکہ امام احمد سے خود اس کے برعکس ثابت ہے۔
ابو الزبیر کی جابر سے اکثر روایات انہوں نے خود سنی ہیں اور بہت کم ہی کوئی گنی چنی روایات ہوں گی جن میں انہوں نے تدلیس کی ہے لیکن یہ بھی میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ان میں بھی تدلیس مضر نہیں ہے کیونکہ تدلیس کردہ واسطہ معلوم ہے اور وہ سلیمان الیشکری کی کتاب سے نقل کرتے ہیں جو کہ ثقہ ہیں تو تدلیس مضر کیسے ہو گئی؟
اس پر امام احمد ہی کا ایک قول آپ کو پیش کرتا ہوں، غور سے پڑہیے۔ امام ابو داؤد بیان کرتے ہیں کہ
سَمِعت أَحْمد بن حَنْبَل قَالَ قَالَ ابْن عُيَيْنَة شهِدت أَبَا الزبير يقْرَأ عَلَيْهِ صحيفَة فَقلت لِأَحْمَد هِيَ هَذِه الْأَحَادِيث يَعْنِي صحيفَة سُلَيْمَان وَهُوَ الْيَشْكُرِي الَّتِي فِي أَيدي النَّاس عَنهُ قَالَ نعم قلت أَخذهَا أَبُو الزبير من الصَّحِيفَة» ترجمہ: ”میں نے [ابو داؤد] احمد بن حنبل سے سنا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا میں نے ابو الزبیر پر ایک صحیفہ کی قراءت ہوتے ہوئے پایا۔ [ابو داؤد کہتے ہیں] میں نے احمد سے پوچھا: کیا یہ وہی صحیفہ ہے یعنی سلیمان الیشکری کا صحیفہ جسے آج لوگ ان سے روایت کرتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: ابو الزبیر نے اسی صحیفہ سے لیا ہے۔“ (سؤالات أبي داود للإمام أحمد: ص ٢٢٨)۔
اسی طرح امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جالس سليمان اليشكري جابرا فسمع منه وكتب عنه صحيفة فتوفي وبقيت الصحيفة عند امرأته فروى أبو الزبير وأبو سفيان والشعبي عن جابر وهم قد سمعوا من جابر وأكثره من الصحيفة، وكذلك قتادة" ترجمہ: سلیمان الیشکری جابر کے پاس بیٹھے اور ان سے احادیث سنی اور اسے ایک صحیفہ میں جمع کر لیا، پھر وہ فوت ہو گئے مگر وہ صحیفہ ان کی اہلیا کے پاس محفوظ رہا، تو اس صحیفہ سے پھر ابو الزبیر، ابو سفیان، شعبی اور قتادہ نے روایت کیا اور انہوں نے جابر سے بھی سن رکھا ہے لیکن اکثر حصہ صحیفۃ سے ہے"۔ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: ٤/١٣٦).
لہٰذا جب ہمیں راوی اور اسے روایت کرنے والے کے درمیان کا واسطہ معلوم ہو گیا تو انقطاع زائل ہو گیا اور علت بھی ختم ہو گئی جب ہمیں معلوم ہو جائے کہ یہ واسطہ ثقہ ہے۔ مثلا جس طرح حمید الطویل کی انس سے روایت مطلقا مقبول ہوتی ہے کیونکہ ان کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے یعنی ثابت البنانی جو کہ ثقہ ثبت ہیں۔ لہٰذا ابو الزبیر اگر مدلس ہیں تو ان کی روایت پھر بھی مقبول ہے کیونکہ ان کے اور جابر کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے۔
اسی لئے ائمہ متقدمین میں سے کسی نے بھی ان کے عنعنہ پر اعتراض نہیں کیا ہے، اگر کیا ہے تو آپ سے گزارش ہے کہ اس کی نشاندہی کریں۔ اس کے برعکس امام حاکم نے تو نہ صرف انہیں مکمل طور پر تدلیس سے بری قرار دیا ہے بلکہ اس پر تمام محدثین کا اجماع بھی نقل کیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ اپنی کتاب معرفہ علوم الحدیث (ص ٣٤) میں فرماتے ہیں:
«ذكر النوع الحادي عشر من علوم الحديث هذا النوع من هذه العلوم هو معرفة الأحاديث المعنعنة، وليس فيها تدليس، وهي متصلة بإجماع أئمة أهل النقل على تورع رواتها، عن أنواع التدليس، مثال ذلك ما حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا بحر بن نصر الخولاني , حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث , عن عبد ربه بن سعيد الأنصاري , عن أبي الزبير , عن جابر بن عبد الله , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لكل داء دواء، فإذا أصيب دواء الداء برئ بإذن الله عز وجل» قال الحاكم: هذا حديث رواته بصريون، ثم مدنيون ومكيون، وليس من مذاهبهم التدليس فسواء عندنا ذكروا سماعهم أو لم يذكروه، وإنما جعلته مثالا لألوف مثله»
ترجمہ: ”علوم حدیث کی گیارہویں قسم کا تذکرہ: علوم حدیث کی اس قسم کا تعلق ان معنعن احادیث کی معرفت سے ہے جن میں رواۃ کی احتیاط کے سبب تدلیس نہیں پائی جاتی اور یہ ائمہ اہل نقل کے اجماع کے ساتھ متصل ہیں۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب نے روایت کیا ہے اور کہا کہ بحر بن نصر الخولانی نے ہمیں روایت کیا، اور کہا کہ عبد اللہ بن وہب نے ہمیں روایت کیا، کہ میں نے عمرو بن الحارث پر اخبار کیا کہ عبد ربہ بن سعید الانصاری نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے جابر بن عبد اللہ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: ہر بیماری کی دوا ہے تو اگر بیماری کی دوا صحیح مل جائے تو اللہ تعالی کے حکم سے اس بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں: اس حدیث کے تمام رواۃ بصری ہیں پھر مدنی اور مکی ہیں اور تدلیس کرنا ان کا طریقہ نہیں ہے لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا سماع کا ذکر کرنا اور نہ کرنا دونوں ایک برابر ہیں، اور اس حدیث کو میں نے محض اس جیسی ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔“
یہاں پر امام حاکم صراحتا امام ابو الزبیر کو نہ صرف غیر مدلس بتا رہے ہیں بلکہ اس پر ائمہ حدیث کا اجماع بھی نقل کر رہے ہیں۔ اور یہی نہیں، انہوں نے ہزاروں غیر مدلس معنعن احادیث میں سے صرف ابو الزبیر کی حدیث کو ہی ان ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیے جانے کے قابل سمجھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حاکم کے نزدیک ابو الزبیر کی معنعن روایت کا کیا مقام ہے۔
لہٰذا دوسروں کی غیر مکمل تحقیقات پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہوئے بخاری ومسلم کی احادیث پر اعتراض کرنے کی بجائے اگر آپ اس تدلیس اور اس عنعنہ کا مضر ہونا ثابت کر سکیں تو کریں، ورنہ آپ کو تحقیق کی الف بے کے علم کے بنا امام بخاری ومسلم جیسے ائمہ پر اعتراض کرنے کا حق بالکل نہیں ہے۔ آپ خود اس محاورے کو سچ کرنے پر تلے ہوئے ہیں: نیم حکیم خطرہ جان، نیم فقیہ خطرہ ایمان۔
جناب کی خود کی تحریر میں جناب کا خود رد موجود ہے۔ابو الزبیر کی جابر سے اکثر روایات انہوں نے خود سنی ہیں اور بہت کم ہی کوئی گنی چنی روایات ہوں گی جن میں انہوں نے تدلیس کی ہے
جناب کی خود کی تحریر جناب کا ساتھ نہیں دے رہی۔امام حاکم کی اس بات کو امام عسقلانی نے وہم قرار دیا ہے۔میرا مطالعہ جیسا بھی ہے کم از کم اپنے علم کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جبکہ آپ تو کسی دوسرے کی بات کو حلف آخر سمجھ رہے ہیں، مطالعہ میرا نہیں بلکہ آپ کا جہل زیادہ ہے۔
اگر تحقیق کی ہوتی تو آپ کو معلوم ہوتا کہ ابو الزبیر کی جابر سے معنعن روایات کو قبول کرنے میں بخاری ومسلم اکیلے نہیں ہیں بلکہ تمام متقدمین محدثین کا یہی موقف ہے، ابو الزبیر کے معنعن پر سب سے پہلا اعتراض پانچویں صدی ہجری میں شروع ہوا جب ابن حزم نے ان کے معنعن پر اعتراض کیا اور پھر خود ہی اپنی بات سے تضاد بھی کیا۔
اور پھر آپ تدلیس کے دوسرے اصول کا بھی جواب دینے سے قاصر ہیں کہ جو مدلس اپنے جس استاد سے مکثر ہو اس کی معنعن روایت قبول ہوتی ہے الا یہ کہ تدلیس ثابت ہو جائے۔ اس اصول کے تحت بھی ابو الزبیر کی خصوصا جابر سے روایت سماع پر محمول ہو گی۔
جہاں تک ابن القطان کے حوالے کا تعلق ہے تو امام احمد اور یحیی القطان سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے غالبا ابن القطان نے یہاں غلطی کی ہے کیونکہ امام احمد سے خود اس کے برعکس ثابت ہے۔
ابو الزبیر کی جابر سے اکثر روایات انہوں نے خود سنی ہیں اور بہت کم ہی کوئی گنی چنی روایات ہوں گی جن میں انہوں نے تدلیس کی ہے لیکن یہ بھی میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ان میں بھی تدلیس مضر نہیں ہے کیونکہ تدلیس کردہ واسطہ معلوم ہے اور وہ سلیمان الیشکری کی کتاب سے نقل کرتے ہیں جو کہ ثقہ ہیں تو تدلیس مضر کیسے ہو گئی؟
اس پر امام احمد ہی کا ایک قول آپ کو پیش کرتا ہوں، غور سے پڑہیے۔ امام ابو داؤد بیان کرتے ہیں کہ
سَمِعت أَحْمد بن حَنْبَل قَالَ قَالَ ابْن عُيَيْنَة شهِدت أَبَا الزبير يقْرَأ عَلَيْهِ صحيفَة فَقلت لِأَحْمَد هِيَ هَذِه الْأَحَادِيث يَعْنِي صحيفَة سُلَيْمَان وَهُوَ الْيَشْكُرِي الَّتِي فِي أَيدي النَّاس عَنهُ قَالَ نعم قلت أَخذهَا أَبُو الزبير من الصَّحِيفَة» ترجمہ: ”میں نے [ابو داؤد] احمد بن حنبل سے سنا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا میں نے ابو الزبیر پر ایک صحیفہ کی قراءت ہوتے ہوئے پایا۔ [ابو داؤد کہتے ہیں] میں نے احمد سے پوچھا: کیا یہ وہی صحیفہ ہے یعنی سلیمان الیشکری کا صحیفہ جسے آج لوگ ان سے روایت کرتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: ابو الزبیر نے اسی صحیفہ سے لیا ہے۔“ (سؤالات أبي داود للإمام أحمد: ص ٢٢٨)۔
اسی طرح امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جالس سليمان اليشكري جابرا فسمع منه وكتب عنه صحيفة فتوفي وبقيت الصحيفة عند امرأته فروى أبو الزبير وأبو سفيان والشعبي عن جابر وهم قد سمعوا من جابر وأكثره من الصحيفة، وكذلك قتادة" ترجمہ: سلیمان الیشکری جابر کے پاس بیٹھے اور ان سے احادیث سنی اور اسے ایک صحیفہ میں جمع کر لیا، پھر وہ فوت ہو گئے مگر وہ صحیفہ ان کی اہلیا کے پاس محفوظ رہا، تو اس صحیفہ سے پھر ابو الزبیر، ابو سفیان، شعبی اور قتادہ نے روایت کیا اور انہوں نے جابر سے بھی سن رکھا ہے لیکن اکثر حصہ صحیفۃ سے ہے"۔ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: ٤/١٣٦).
لہٰذا جب ہمیں راوی اور اسے روایت کرنے والے کے درمیان کا واسطہ معلوم ہو گیا تو انقطاع زائل ہو گیا اور علت بھی ختم ہو گئی جب ہمیں معلوم ہو جائے کہ یہ واسطہ ثقہ ہے۔ مثلا جس طرح حمید الطویل کی انس سے روایت مطلقا مقبول ہوتی ہے کیونکہ ان کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے یعنی ثابت البنانی جو کہ ثقہ ثبت ہیں۔ لہٰذا ابو الزبیر اگر مدلس ہیں تو ان کی روایت پھر بھی مقبول ہے کیونکہ ان کے اور جابر کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے۔
اسی لئے ائمہ متقدمین میں سے کسی نے بھی ان کے عنعنہ پر اعتراض نہیں کیا ہے، اگر کیا ہے تو آپ سے گزارش ہے کہ اس کی نشاندہی کریں۔ اس کے برعکس امام حاکم نے تو نہ صرف انہیں مکمل طور پر تدلیس سے بری قرار دیا ہے بلکہ اس پر تمام محدثین کا اجماع بھی نقل کیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ اپنی کتاب معرفہ علوم الحدیث (ص ٣٤) میں فرماتے ہیں:
«ذكر النوع الحادي عشر من علوم الحديث هذا النوع من هذه العلوم هو معرفة الأحاديث المعنعنة، وليس فيها تدليس، وهي متصلة بإجماع أئمة أهل النقل على تورع رواتها، عن أنواع التدليس، مثال ذلك ما حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا بحر بن نصر الخولاني , حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث , عن عبد ربه بن سعيد الأنصاري , عن أبي الزبير , عن جابر بن عبد الله , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لكل داء دواء، فإذا أصيب دواء الداء برئ بإذن الله عز وجل» قال الحاكم: هذا حديث رواته بصريون، ثم مدنيون ومكيون، وليس من مذاهبهم التدليس فسواء عندنا ذكروا سماعهم أو لم يذكروه، وإنما جعلته مثالا لألوف مثله»
ترجمہ: ”علوم حدیث کی گیارہویں قسم کا تذکرہ: علوم حدیث کی اس قسم کا تعلق ان معنعن احادیث کی معرفت سے ہے جن میں رواۃ کی احتیاط کے سبب تدلیس نہیں پائی جاتی اور یہ ائمہ اہل نقل کے اجماع کے ساتھ متصل ہیں۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب نے روایت کیا ہے اور کہا کہ بحر بن نصر الخولانی نے ہمیں روایت کیا، اور کہا کہ عبد اللہ بن وہب نے ہمیں روایت کیا، کہ میں نے عمرو بن الحارث پر اخبار کیا کہ عبد ربہ بن سعید الانصاری نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے جابر بن عبد اللہ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: ہر بیماری کی دوا ہے تو اگر بیماری کی دوا صحیح مل جائے تو اللہ تعالی کے حکم سے اس بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں: اس حدیث کے تمام رواۃ بصری ہیں پھر مدنی اور مکی ہیں اور تدلیس کرنا ان کا طریقہ نہیں ہے لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا سماع کا ذکر کرنا اور نہ کرنا دونوں ایک برابر ہیں، اور اس حدیث کو میں نے محض اس جیسی ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔“
یہاں پر امام حاکم صراحتا امام ابو الزبیر کو نہ صرف غیر مدلس بتا رہے ہیں بلکہ اس پر ائمہ حدیث کا اجماع بھی نقل کر رہے ہیں۔ اور یہی نہیں، انہوں نے ہزاروں غیر مدلس معنعن احادیث میں سے صرف ابو الزبیر کی حدیث کو ہی ان ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیے جانے کے قابل سمجھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حاکم کے نزدیک ابو الزبیر کی معنعن روایت کا کیا مقام ہے۔
لہٰذا دوسروں کی غیر مکمل تحقیقات پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہوئے بخاری ومسلم کی احادیث پر اعتراض کرنے کی بجائے اگر آپ اس تدلیس اور اس عنعنہ کا مضر ہونا ثابت کر سکیں تو کریں، ورنہ آپ کو تحقیق کی الف بے کے علم کے بنا امام بخاری ومسلم جیسے ائمہ پر اعتراض کرنے کا حق بالکل نہیں ہے۔ آپ خود اس محاورے کو سچ کرنے پر تلے ہوئے ہیں: نیم حکیم خطرہ جان، نیم فقیہ خطرہ ایمان۔
نیم حکیم خطرہ جان، نیم فقیہ خطرہ ایمان ہم نہیں جناب ہیں جو امام حاکم کی تحقیق پر بھروسہ کر بیٹھے امام عسقلانی نے امام حاکم کی اس بات کو وہم قرار دے دیا لو خود پڑھ لو اپنے زبیر زئی کی تحقیق کو۔میرا مطالعہ جیسا بھی ہے کم از کم اپنے علم کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جبکہ آپ تو کسی دوسرے کی بات کو حلف آخر سمجھ رہے ہیں، مطالعہ میرا نہیں بلکہ آپ کا جہل زیادہ ہے۔
اگر تحقیق کی ہوتی تو آپ کو معلوم ہوتا کہ ابو الزبیر کی جابر سے معنعن روایات کو قبول کرنے میں بخاری ومسلم اکیلے نہیں ہیں بلکہ تمام متقدمین محدثین کا یہی موقف ہے، ابو الزبیر کے معنعن پر سب سے پہلا اعتراض پانچویں صدی ہجری میں شروع ہوا جب ابن حزم نے ان کے معنعن پر اعتراض کیا اور پھر خود ہی اپنی بات سے تضاد بھی کیا۔
اور پھر آپ تدلیس کے دوسرے اصول کا بھی جواب دینے سے قاصر ہیں کہ جو مدلس اپنے جس استاد سے مکثر ہو اس کی معنعن روایت قبول ہوتی ہے الا یہ کہ تدلیس ثابت ہو جائے۔ اس اصول کے تحت بھی ابو الزبیر کی خصوصا جابر سے روایت سماع پر محمول ہو گی۔
جہاں تک ابن القطان کے حوالے کا تعلق ہے تو امام احمد اور یحیی القطان سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے غالبا ابن القطان نے یہاں غلطی کی ہے کیونکہ امام احمد سے خود اس کے برعکس ثابت ہے۔
ابو الزبیر کی جابر سے اکثر روایات انہوں نے خود سنی ہیں اور بہت کم ہی کوئی گنی چنی روایات ہوں گی جن میں انہوں نے تدلیس کی ہے لیکن یہ بھی میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ان میں بھی تدلیس مضر نہیں ہے کیونکہ تدلیس کردہ واسطہ معلوم ہے اور وہ سلیمان الیشکری کی کتاب سے نقل کرتے ہیں جو کہ ثقہ ہیں تو تدلیس مضر کیسے ہو گئی؟
اس پر امام احمد ہی کا ایک قول آپ کو پیش کرتا ہوں، غور سے پڑہیے۔ امام ابو داؤد بیان کرتے ہیں کہ
سَمِعت أَحْمد بن حَنْبَل قَالَ قَالَ ابْن عُيَيْنَة شهِدت أَبَا الزبير يقْرَأ عَلَيْهِ صحيفَة فَقلت لِأَحْمَد هِيَ هَذِه الْأَحَادِيث يَعْنِي صحيفَة سُلَيْمَان وَهُوَ الْيَشْكُرِي الَّتِي فِي أَيدي النَّاس عَنهُ قَالَ نعم قلت أَخذهَا أَبُو الزبير من الصَّحِيفَة» ترجمہ: ”میں نے [ابو داؤد] احمد بن حنبل سے سنا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا میں نے ابو الزبیر پر ایک صحیفہ کی قراءت ہوتے ہوئے پایا۔ [ابو داؤد کہتے ہیں] میں نے احمد سے پوچھا: کیا یہ وہی صحیفہ ہے یعنی سلیمان الیشکری کا صحیفہ جسے آج لوگ ان سے روایت کرتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: ابو الزبیر نے اسی صحیفہ سے لیا ہے۔“ (سؤالات أبي داود للإمام أحمد: ص ٢٢٨)۔
اسی طرح امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جالس سليمان اليشكري جابرا فسمع منه وكتب عنه صحيفة فتوفي وبقيت الصحيفة عند امرأته فروى أبو الزبير وأبو سفيان والشعبي عن جابر وهم قد سمعوا من جابر وأكثره من الصحيفة، وكذلك قتادة" ترجمہ: سلیمان الیشکری جابر کے پاس بیٹھے اور ان سے احادیث سنی اور اسے ایک صحیفہ میں جمع کر لیا، پھر وہ فوت ہو گئے مگر وہ صحیفہ ان کی اہلیا کے پاس محفوظ رہا، تو اس صحیفہ سے پھر ابو الزبیر، ابو سفیان، شعبی اور قتادہ نے روایت کیا اور انہوں نے جابر سے بھی سن رکھا ہے لیکن اکثر حصہ صحیفۃ سے ہے"۔ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: ٤/١٣٦).
لہٰذا جب ہمیں راوی اور اسے روایت کرنے والے کے درمیان کا واسطہ معلوم ہو گیا تو انقطاع زائل ہو گیا اور علت بھی ختم ہو گئی جب ہمیں معلوم ہو جائے کہ یہ واسطہ ثقہ ہے۔ مثلا جس طرح حمید الطویل کی انس سے روایت مطلقا مقبول ہوتی ہے کیونکہ ان کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے یعنی ثابت البنانی جو کہ ثقہ ثبت ہیں۔ لہٰذا ابو الزبیر اگر مدلس ہیں تو ان کی روایت پھر بھی مقبول ہے کیونکہ ان کے اور جابر کے درمیان کا واسطہ معلوم ہے۔
اسی لئے ائمہ متقدمین میں سے کسی نے بھی ان کے عنعنہ پر اعتراض نہیں کیا ہے، اگر کیا ہے تو آپ سے گزارش ہے کہ اس کی نشاندہی کریں۔ اس کے برعکس امام حاکم نے تو نہ صرف انہیں مکمل طور پر تدلیس سے بری قرار دیا ہے بلکہ اس پر تمام محدثین کا اجماع بھی نقل کیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ اپنی کتاب معرفہ علوم الحدیث (ص ٣٤) میں فرماتے ہیں:
«ذكر النوع الحادي عشر من علوم الحديث هذا النوع من هذه العلوم هو معرفة الأحاديث المعنعنة، وليس فيها تدليس، وهي متصلة بإجماع أئمة أهل النقل على تورع رواتها، عن أنواع التدليس، مثال ذلك ما حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا بحر بن نصر الخولاني , حدثنا عبد الله بن وهب، أخبرني عمرو بن الحارث , عن عبد ربه بن سعيد الأنصاري , عن أبي الزبير , عن جابر بن عبد الله , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لكل داء دواء، فإذا أصيب دواء الداء برئ بإذن الله عز وجل» قال الحاكم: هذا حديث رواته بصريون، ثم مدنيون ومكيون، وليس من مذاهبهم التدليس فسواء عندنا ذكروا سماعهم أو لم يذكروه، وإنما جعلته مثالا لألوف مثله»
ترجمہ: ”علوم حدیث کی گیارہویں قسم کا تذکرہ: علوم حدیث کی اس قسم کا تعلق ان معنعن احادیث کی معرفت سے ہے جن میں رواۃ کی احتیاط کے سبب تدلیس نہیں پائی جاتی اور یہ ائمہ اہل نقل کے اجماع کے ساتھ متصل ہیں۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب نے روایت کیا ہے اور کہا کہ بحر بن نصر الخولانی نے ہمیں روایت کیا، اور کہا کہ عبد اللہ بن وہب نے ہمیں روایت کیا، کہ میں نے عمرو بن الحارث پر اخبار کیا کہ عبد ربہ بن سعید الانصاری نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے جابر بن عبد اللہ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: ہر بیماری کی دوا ہے تو اگر بیماری کی دوا صحیح مل جائے تو اللہ تعالی کے حکم سے اس بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔ امام حاکم فرماتے ہیں: اس حدیث کے تمام رواۃ بصری ہیں پھر مدنی اور مکی ہیں اور تدلیس کرنا ان کا طریقہ نہیں ہے لہٰذا ہمارے نزدیک ان کا سماع کا ذکر کرنا اور نہ کرنا دونوں ایک برابر ہیں، اور اس حدیث کو میں نے محض اس جیسی ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔“
یہاں پر امام حاکم صراحتا امام ابو الزبیر کو نہ صرف غیر مدلس بتا رہے ہیں بلکہ اس پر ائمہ حدیث کا اجماع بھی نقل کر رہے ہیں۔ اور یہی نہیں، انہوں نے ہزاروں غیر مدلس معنعن احادیث میں سے صرف ابو الزبیر کی حدیث کو ہی ان ہزاروں احادیث کی مثال کے طور پر پیش کیے جانے کے قابل سمجھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حاکم کے نزدیک ابو الزبیر کی معنعن روایت کا کیا مقام ہے۔
لہٰذا دوسروں کی غیر مکمل تحقیقات پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہوئے بخاری ومسلم کی احادیث پر اعتراض کرنے کی بجائے اگر آپ اس تدلیس اور اس عنعنہ کا مضر ہونا ثابت کر سکیں تو کریں، ورنہ آپ کو تحقیق کی الف بے کے علم کے بنا امام بخاری ومسلم جیسے ائمہ پر اعتراض کرنے کا حق بالکل نہیں ہے۔ آپ خود اس محاورے کو سچ کرنے پر تلے ہوئے ہیں: نیم حکیم خطرہ جان، نیم فقیہ خطرہ ایمان۔