چند الفاظ میں اس مسئلے کو سمجھانا آسان نہیں ہے اسی لئے آپ سے گزارش کی تھی کہ اصول حدیث کی چند کتب کا مطالعہ کریں جن میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی گئی ہو۔
اس کے لئے آپ کو تدلیس کیوں کی جاتی ہے اس کے اسباب دیکھنے پڑیں گے۔ اب جس طرح اوپر مثال میں میں نے کہا کہ کوئی شخص وضاحت یا ٹو دی پوائینٹ بات کرنے کے لئے بیچ والے رپوٹر کو گرا دیتا اور اس سیاستدان کا بیان براہ راست بیان کر دیتا ہے تو ایسی صورت میں کیا آپ اس شخص کو دھوکہ باز کہیں گے؟
تدلیس کے اسباب درج ذیل ہو سکتے ہیں (مگر محض انہی تک محدود نہیں ہوتے):
1- پہلا سبب تو وہی ہو سکتا ہے جو میں نے مثال میں ذکر کیا، کہ کوئی راوی یا محدث اپنی بات سمجھانے کے لئے سند بیان نہیں کرتا۔ مثلا فتوی دیتے وقت، مناظرہ کرتے وقت، یا مذاکرہ کرتے وقت بعض اوقات وہ سند کے ذکر سے بات کو طویل کرنا نہیں چاہتے اس لئے وہ یا تو پوری سند گرا دیتے ہیں یا اس کے چند راوی۔ اس میں کس کو گرایا گیا ہے اور کہاں سے گرا گیا ہے اس بنیاد پر یہ عمل کبھی تدلیس کہلاتا ہے کبھی ارسال تو کبھی تعلیق۔ یہ عام طور پر کبار ائمہ میں پائی جاتی ہے جیسے ابراہیم نخعی، شعبی، مالک، زہری، بخاری اور اکثر تابعین وغیرہ۔
2- بعض اوقات ایک راوی اپنے استاد سے اس کی اکثر روایتیں لیتا ہے اور وہ اس کا خاص شاگرد مانا جاتا ہے لیکن اس خاص استاد کی چند روایتیں ایسی ہوتی ہیں جو اسے کسی اور کے زریعے سے ملتی ہیں تو وہ اپنے خاص استاد سے معروف رہنے اور سند کو عالی رکھنے کی غرض سے ان روایتوں میں درمیان والے راوی کو نکال دیتا ہے۔ یا پھر ایسا ہو سکتا ہے کہ درمیان والا اس سے کم سن ہو اور وہ اپنی شان کو برقرار رکھنے کے لئے اس کم سن راوی کو بیچ میں سے نکال دیتا ہے۔ ایسا کرنے میں اس کا مقصد محض سند کے علو کو برقرار رکھنا ہوتا ہے نہ کہ روایت کے ضعف کو چھپانا۔
3- بعض اوقات راوی کو اپنے شیخ کے دوسرے شاگرد کی کتاب مل جاتی ہے جس میں اس نے اس شیخ کی روایات درج کی ہوتی ہیں، تو راوی کتاب کے زریعے اپنے شیخ سے براہ راست روایت کرنے لگتا ہے اس کتاب کے مؤلف کو ظاہر کیے بغیر۔ اس قسم کی تدلیس ابو الزبیر، حسن البصری، اور آپ کے پیارے
امام ابو حنیفہ بھی کیا کرتے تھے۔
4- بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ راوی نے جس شخص کے زریعے اپنے شیخ سے روایت کی ہے اس میں محدثین کا اختلاف پایا جاتا ہے، اکثر اس کو ضعیف مانتے ہیں جبکہ خود راوی اس کو ثقہ مانتا ہے، تو اس خوف سے کہ اس کی روایت اس مختلف فیہ راوی کی وجہ سے رد نہ کردی جائے، اس لئے وہ اس مختلف فیہ راوی کو درمیان سے نکال دیتا ہے یا اسے ایسی کنیت یا لقب سے ظاہر کرتا ہے جس کے ساتھ وہ معروف نہیں ہے۔ اس میں اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہیں ایک ثقہ راوی کی حدیث (جسے وہ صحیح سمجھتا ہے اور دوسرے ضعیف) اس اختلاف کی وجہ سے رد نہ ہو جائے۔
5- بعض اوقات راوی کا شیخ اپنے ضعف کے ساتھ جانا جاتا ہے اور راوی نہیں چاہتا کہ اسے ضعفاء سے روایت کرنے کے ساتھ جانا جائے جبکہ وہ اس کی روایت کو بطور حجت نہیں بلکہ بطور اعتبار روایت کرتا ہے، اس لئے اسے فکر نہیں ہوتی کہ وہ اس راوی کو گرا دے، اس لئے وہ اسے گرا دیتا ہے۔ حالانکہ اس میں راوی کا مقصد ضعیف حدیث کو صحیح بنانا نہیں ہوتا بلکہ وہ محض بطور اعتبار روایت کی گئی حدیث میں سے ضعیف راوی کو ہٹا کر اپنے اوپر انگلی اٹھنے سے بچنا چاہتا ہے۔ اس قسم کی تدلیس کوفہ کے لوگوں میں معروف ہے۔ اسی لئے امام سفیان الثوری آخر عمر میں اپنے اس عمل پر پچھتایا کرتے تھے حالانکہ انہوں نے ایسا بہت کم کیا ہے۔
6- بعض اوقات راوی کا تدلیس کرنے کا مقصد اپنے تلامذہ کا امتحان لینا ہوتا ہے۔
7- بعض اوقات راوی قصدا کسی شدید ضعیف یا کذاب راوی کو گرا دیتا ہے۔ ایسا کرنا یقینا دھوکا دہی اور حرام ہے اور یہ عمل اس کی عدالت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ان کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے اکثر قسم کی تدلیس کو محدثین نے مکروہ قرار دیا ہے لیکن بعض محدثین انہیں جائز سمجھتے تھے اس لئے وہ اسے ایک جائز عمل سمجھتے ہوئے کر لیا کرتے تھے۔ لیکن ان میں سے کوئی (سوائے شاید ساتویں کے) اس راوی کی صداقت اور ثقاہت کو مجروح نہیں کرتی۔ اسی لئے محدثین ان کی مصرح بالسماع روایت کو قبول کیا کرتے تھے اور جس روایت کو انہوں نے محتمل الفاظ سے روایت کیا ہو جس میں تدلیس کا شبہ ہوتا ہو اسے وہ قبول نہیں کیا کرتے تھے۔