• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدلس راوی کا عنعنہ اور صحیحین [انتظامیہ]

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
جی بالکل۔ یہ اصول حدیث کا اتفاقی ضابطہ ہے۔ اگر آپ کو محدثین کا بنایا ہوا یہ اصول قبول نہیں تو منکر حدیث بن جائیے۔
جی آپ لوگوں کا اصل مقصد تو یہی ہے!!!!!!!!!!!!!!!!!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
یہ تو سادہ سی بات ہے کہ سچا انسان بھی جب ثبوت کے ساتھ بات کرے تو اسکی بات کو قبول کیا جاتا ہے مگر وہی شخص اگر مبہم بات کرے جس میں شک ہو تو اس کی بات لی بھی جاسکتی ہے چھوڑی بھی جا سکتی ہے یہی فرق سمجھایا تھا پہلے بھی کہ حدثنا یا اخبرنا جب کہتا ہے تو اسکی مکمل سندثابت ہوتی ہے جب کہ عنعن والی روایت مبہم ہوتی ہے اور اور اس کے خلاف صحیح اور ثابت شدہ حدیث مل جائے تو پھر اس مبہم روایت کو قابل حجت نہیں سمجھا جاتا۔آپ کے باربار کے کمنٹس تکرار اور بے دلیل بحث کے سوا کچھ نہیں۔یہ ایک متفقہ اور اجماعی مسئلہ ہے جمہور علما کے نزدیک بلکہ احناف بھی اسے مانتے ہیں انکی اقسام میں اور درجات میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر مدلس کی روایت کسی کے نزدیک بھی قابل حجت نہیں ہےالا یہ کہ وہ کس اور حدیث یا سند سے بھی ثابت ہو۔
محترم! مجھے صرف یہ بتا دیں کہ “مدلس“ کو میں قابلِ اعتبار ثقہ راوی سمجھوں یا ناقابلِ اعتبار؟
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
کیا یہ دھوکہ نہیں؟
چند الفاظ میں اس مسئلے کو سمجھانا آسان نہیں ہے اسی لئے آپ سے گزارش کی تھی کہ اصول حدیث کی چند کتب کا مطالعہ کریں جن میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی گئی ہو۔
اس کے لئے آپ کو تدلیس کیوں کی جاتی ہے اس کے اسباب دیکھنے پڑیں گے۔ اب جس طرح اوپر مثال میں میں نے کہا کہ کوئی شخص وضاحت یا ٹو دی پوائینٹ بات کرنے کے لئے بیچ والے رپوٹر کو گرا دیتا اور اس سیاستدان کا بیان براہ راست بیان کر دیتا ہے تو ایسی صورت میں کیا آپ اس شخص کو دھوکہ باز کہیں گے؟
تدلیس کے اسباب درج ذیل ہو سکتے ہیں (مگر محض انہی تک محدود نہیں ہوتے):
1- پہلا سبب تو وہی ہو سکتا ہے جو میں نے مثال میں ذکر کیا، کہ کوئی راوی یا محدث اپنی بات سمجھانے کے لئے سند بیان نہیں کرتا۔ مثلا فتوی دیتے وقت، مناظرہ کرتے وقت، یا مذاکرہ کرتے وقت بعض اوقات وہ سند کے ذکر سے بات کو طویل کرنا نہیں چاہتے اس لئے وہ یا تو پوری سند گرا دیتے ہیں یا اس کے چند راوی۔ اس میں کس کو گرایا گیا ہے اور کہاں سے گرا گیا ہے اس بنیاد پر یہ عمل کبھی تدلیس کہلاتا ہے کبھی ارسال تو کبھی تعلیق۔ یہ عام طور پر کبار ائمہ میں پائی جاتی ہے جیسے ابراہیم نخعی، شعبی، مالک، زہری، بخاری اور اکثر تابعین وغیرہ۔

2- بعض اوقات ایک راوی اپنے استاد سے اس کی اکثر روایتیں لیتا ہے اور وہ اس کا خاص شاگرد مانا جاتا ہے لیکن اس خاص استاد کی چند روایتیں ایسی ہوتی ہیں جو اسے کسی اور کے زریعے سے ملتی ہیں تو وہ اپنے خاص استاد سے معروف رہنے اور سند کو عالی رکھنے کی غرض سے ان روایتوں میں درمیان والے راوی کو نکال دیتا ہے۔ یا پھر ایسا ہو سکتا ہے کہ درمیان والا اس سے کم سن ہو اور وہ اپنی شان کو برقرار رکھنے کے لئے اس کم سن راوی کو بیچ میں سے نکال دیتا ہے۔ ایسا کرنے میں اس کا مقصد محض سند کے علو کو برقرار رکھنا ہوتا ہے نہ کہ روایت کے ضعف کو چھپانا۔

3- بعض اوقات راوی کو اپنے شیخ کے دوسرے شاگرد کی کتاب مل جاتی ہے جس میں اس نے اس شیخ کی روایات درج کی ہوتی ہیں، تو راوی کتاب کے زریعے اپنے شیخ سے براہ راست روایت کرنے لگتا ہے اس کتاب کے مؤلف کو ظاہر کیے بغیر۔ اس قسم کی تدلیس ابو الزبیر، حسن البصری، اور آپ کے پیارے امام ابو حنیفہ بھی کیا کرتے تھے۔

4- بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ راوی نے جس شخص کے زریعے اپنے شیخ سے روایت کی ہے اس میں محدثین کا اختلاف پایا جاتا ہے، اکثر اس کو ضعیف مانتے ہیں جبکہ خود راوی اس کو ثقہ مانتا ہے، تو اس خوف سے کہ اس کی روایت اس مختلف فیہ راوی کی وجہ سے رد نہ کردی جائے، اس لئے وہ اس مختلف فیہ راوی کو درمیان سے نکال دیتا ہے یا اسے ایسی کنیت یا لقب سے ظاہر کرتا ہے جس کے ساتھ وہ معروف نہیں ہے۔ اس میں اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہیں ایک ثقہ راوی کی حدیث (جسے وہ صحیح سمجھتا ہے اور دوسرے ضعیف) اس اختلاف کی وجہ سے رد نہ ہو جائے۔

5- بعض اوقات راوی کا شیخ اپنے ضعف کے ساتھ جانا جاتا ہے اور راوی نہیں چاہتا کہ اسے ضعفاء سے روایت کرنے کے ساتھ جانا جائے جبکہ وہ اس کی روایت کو بطور حجت نہیں بلکہ بطور اعتبار روایت کرتا ہے، اس لئے اسے فکر نہیں ہوتی کہ وہ اس راوی کو گرا دے، اس لئے وہ اسے گرا دیتا ہے۔ حالانکہ اس میں راوی کا مقصد ضعیف حدیث کو صحیح بنانا نہیں ہوتا بلکہ وہ محض بطور اعتبار روایت کی گئی حدیث میں سے ضعیف راوی کو ہٹا کر اپنے اوپر انگلی اٹھنے سے بچنا چاہتا ہے۔ اس قسم کی تدلیس کوفہ کے لوگوں میں معروف ہے۔ اسی لئے امام سفیان الثوری آخر عمر میں اپنے اس عمل پر پچھتایا کرتے تھے حالانکہ انہوں نے ایسا بہت کم کیا ہے۔

6- بعض اوقات راوی کا تدلیس کرنے کا مقصد اپنے تلامذہ کا امتحان لینا ہوتا ہے۔

7- بعض اوقات راوی قصدا کسی شدید ضعیف یا کذاب راوی کو گرا دیتا ہے۔ ایسا کرنا یقینا دھوکا دہی اور حرام ہے اور یہ عمل اس کی عدالت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ان کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے اکثر قسم کی تدلیس کو محدثین نے مکروہ قرار دیا ہے لیکن بعض محدثین انہیں جائز سمجھتے تھے اس لئے وہ اسے ایک جائز عمل سمجھتے ہوئے کر لیا کرتے تھے۔ لیکن ان میں سے کوئی (سوائے شاید ساتویں کے) اس راوی کی صداقت اور ثقاہت کو مجروح نہیں کرتی۔ اسی لئے محدثین ان کی مصرح بالسماع روایت کو قبول کیا کرتے تھے اور جس روایت کو انہوں نے محتمل الفاظ سے روایت کیا ہو جس میں تدلیس کا شبہ ہوتا ہو اسے وہ قبول نہیں کیا کرتے تھے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
6- بعض اوقات راوی کا تدلیس کرنے کا مقصد اپنے تلامذہ کا امتحان لینا ہوتا ہے۔
ا ــچــ ھــ ا جی!!!!!!!
محترم! مجھے صرف یہ بتا دیں کہ “مدلس“ کو میں قابلِ اعتبار ثقہ راوی سمجھوں یا ناقابلِ اعتبار؟
جواب ہاں یا نہ میں دے دیں۔ شکریہ
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
ا ــچــ ھــ ا جی!!!!!!!
محترم! مجھے صرف یہ بتا دیں کہ “مدلس“ کو میں قابلِ اعتبار ثقہ راوی سمجھوں یا ناقابلِ اعتبار؟
جواب ہاں یا نہ میں دے دیں۔ شکریہ
مدلس راوی اگر ثقہ ہے تو ظاہر ہے قابلِ اعتبار ہو گا۔
اور اگر ضعیف ہے تو نہیں!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
مدلس راوی اگر ثقہ ہے تو ظاہر ہے قابلِ اعتبار ہو گا۔
اور اگر ضعیف ہے تو نہیں!
محترم! مدلس راوی اگر ”ثقہ“ ہے تو پھر وہ ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے روایت کرے یا ”عن فلاں، عن فلاں“ سے اس کی مروی حدیث کو ”صحیح“ ہی کہا جا نا چاہیئے۔
مدلس راوی اگر ”ضعیف“ہے تو پھر وہ ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے روایت کرے یا ”عن فلاں، عن فلاں“ سے اس کی مروی حدیث کو ”ضعیف“ ہی کہا جا نا چاہیئے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
محترم! مدلس راوی اگر ”ثقہ“ ہے تو پھر وہ ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے روایت کرے یا ”عن فلاں، عن فلاں“ سے اس کی مروی حدیث کو ”صحیح“ ہی کہا جا نا چاہیئے۔
مدلس راوی اگر ”ضعیف“ہے تو پھر وہ ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے روایت کرے یا ”عن فلاں، عن فلاں“ سے اس کی مروی حدیث کو ”ضعیف“ ہی کہا جا نا چاہیئے۔
لگتا ہے اتنے آسان الفاظ میں بھی آپ کو سمجھ نہیں آئی۔ اس کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ آپ سمجھیں گے۔ اگر ایک چھوٹے بچے کو بھی یہ آسان سی بات سمجھائی ہوتی تو وہ سمجھ جاتا مگر آپ کی سوئی وہیں کی وہیں ہے۔ خیر۔۔۔
والسلام۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
گزارش ہے ہم سے نہیں تو کم از کم اپنے ہی علماء سے یہ علم اور اصول سیکھ لیں۔ وہ بھی آپ کو یہی سمجھائیں گے۔ ان شاء اللہ۔
اور جب تک آپ کو اس علم کی الف بے کا پتہ نہ چل جائے، آپ کے لئے شرعا جائز نہیں کہ دینی مسائل میں بحث ومباحثہ کریں۔ اگر سیکھنے کی نیت سے خلوص دل کے ساتھ سوال کریں تو آپ کو ضرور سمجھانے کی کوشش کی جائے گی لیکن بنا علم کے بحث ومناظرہ کرنے کی بہت سخت وعید ہے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم! مدلس راوی اگر ”ثقہ“ ہے تو پھر وہ ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے روایت کرے یا ”عن فلاں، عن فلاں“ سے اس کی مروی حدیث کو ”صحیح“ ہی کہا جا نا چاہیئے۔
مدلس راوی اگر ”ضعیف“ہے تو پھر وہ ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے روایت کرے یا ”عن فلاں، عن فلاں“ سے اس کی مروی حدیث کو ”ضعیف“ ہی کہا جا نا چاہیئے۔
محترم یہ اصول مجھے کہیں نھیں ملا ۔ ھمارے علماء میں سے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر لکھتے ہیں: ''مدلس راوی عن سے روایت کرے تو حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا کوئی اس کا ثقہ متابع موجود ہو۔'' [خزائن السنن:١/١]
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
جب تک آپ کو اس علم کی الف بے کا پتہ نہ چل جائے، آپ کے لئے شرعا جائز نہیں کہ دینی مسائل میں بحث ومباحثہ کریں۔
جناب کو میں نہ تو ”الٰہ“ مانتا ہوں اور نہ ہی ”نبی یا رسول“! دلیل میں شرع سے کچھ پیش فرما دیں ؟؟؟
 
Top