• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدلس راوی کا عنعنہ اور صحیحین [انتظامیہ]

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
محترم یہ اصول مجھے کہیں نھیں ملا ۔ ھمارے علماء میں سے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر لکھتے ہیں: ''مدلس راوی عن سے روایت کرے تو حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا کوئی اس کا ثقہ متابع موجود ہو۔'' [خزائن السنن:١/١]
محترم! میں اصول حدیث کی نہیں فہمِ حدیث کی بات کر رہا ہوں۔
اصولِ حدیث ”روات“ سے متعلق ہوتے ہیں اور فہمِ حدیث ”متن“ سے متعلق۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
محترم! مجھے صرف یہ بتا دیں کہ “مدلس“ کو میں قابلِ اعتبار ثقہ راوی سمجھوں یا ناقابلِ اعتبار؟

محترم! مجھے صرف یہ بتا دیں کہ “مدلس“ کو میں قابلِ اعتبار ثقہ راوی سمجھوں یا ناقابلِ اعتبار؟
آپ وہی سمجھیں جو محدثین نے سمجھا جو میں پہلے بتا چکا ہوں
a محدثین کے ہاں تدلیس کی متعدد صورتیں ہیں جس کے متعدد احکام ہیں۔

b مدلسین کی طبقاتی تقسیم اس کی مؤید ہے۔

c تدلیس کی کمی وزیاتی کا اعتبار کرنا ضروری ہے۔

d ثقہ اور ضعیف راویوں سے تدلیس کرنے کا حکم یکساں نہیں۔

e مدلس راوی کسی ایسے شیخ سے عنعنہ سے بیان کرے جس سے اس کی صحبت معروف ہو تو اسے سماع پر محمول کیا جائے گا۔

f جو مدلس راوی مخصوص اساتذہ سے تدلیس کرے تو اس کی باقی شیوخ سے روایت سماع پر محمول قرار دی جائے گی۔

g اگر کثیر التدلیس مدلس روایت کو عنعنہ سے بیان کرے تو اس کے سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی۔یہاں یہ بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ محدثین بعض کثیر التدلیس مدلسین کی عنعنہ کو بھی قبول کرتے ہیں جب اس عنعنہ میں تدلیس مضمر نہ ہو۔

h جس مدلس کی روایت میں تدلیس ہوگی تو وہ قطعی طور پرناقابل قبول ہوگی۔ اس نکتہ پرجمہور محدثین متفق ہیں۔خواہ وہ مدلس قلیل التدلیس ہو، صرف ثقات یا مخصوص اساتذہ سے تدلیس کرنے والا ہو، وغیرہ

یاد رہے کہ تدلیس کے شک کااِرتفاع صراحتِ سماع سے زائل ہوجائے گایامتابع یاشاہد تدلیس کے شبہ کو زائل کرے گا۔یہی متقدمین ومتاخرین کا منہج ہے جس پرانکے اقوال اور تعاملات شاہدہیں۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
محترم! مدلس راوی اگر ”ثقہ“ ہے تو پھر وہ ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے روایت کرے یا ”عن فلاں، عن فلاں“ سے اس کی مروی حدیث کو ”صحیح“ ہی کہا جا نا چاہیئے۔
مدلس راوی اگر ”ضعیف“ہے تو پھر وہ ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے روایت کرے یا ”عن فلاں، عن فلاں“ سے اس کی مروی حدیث کو ”ضعیف“ ہی کہا جا نا چاہیئے۔
اسکا جواب میں یہاں دے چکا ہوں


”مدلس“ جب ”عن فلاں“ سے روایت کرے تو قابلِ قبول نہیں یا کچھ شرائط کے ساتھ قابلِ قبول ہے اور اگر ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے روایت کرے تو وہ ”صحیح“ ہے۔ اس اشکال پر روشنی ڈالیں؟ شکریہ

حدثنا اور اخبرنا سے جب بیان کرتا ہے تو اس میں سماعت ثابت ہوتی ہے سند میں کہیں بھی شکوک نہیں ہوتے اور عنعن سے جب روایت کرتا ہے تو اس میں سماعت مشکوک ہوتی ہے جس کی مختلف صورتیں ہیں مثلاً ایک یہ ہے کہ جس سے روایت کررہا ہوتا ہے وہ اس سے بہت پہلے کا ہوتا ہے اور اسکی وفات پہلے ہو چکی ہوتی ہے یا اس راوی سے ملاقات ثابت نہیں ہوتی مدلس کی۔ااس وجہ سے روایت مشکوک ہوجاتی ہے تو قابل حجت نہیں رہتی خصوصاً جب اس کے خلاف صحیح حدیث بھی موجود ہو جس کی مثال سجدوں میں رفع الیدین والے تھریڈ میں میں دے چکا ہوں۔

رہی بات ضعیف راوی کی تو اسکی تو ویسے بھی کون روایت قبول کرتا ہے؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
واضح جدا
علم حاصل کرنیوالا خود بہی علم حاصل کرنے کی کوشش کرے تو بہتر ہے ۔ مسئلہ کو بہر طور سمجہانے کی کوشش کی گئی ۔ کتابوں پر کتابیں درکار ہیں ۔ ایسی وسعت کو سمیٹنا کسطرح ممکن ہی ۔ افضل ترین اور قابل قبول یہی ہیکہ بیان کردہ کتب کے علاوہ بہی جو کتب مل سکیں ان کا مطالعہ کیا جانا چاہئے اور جہاں کہیں مسئلہ پیش آجائے تو مختلف الفکر علماء سے مشورہ لے لیں تاکہ فہم مکمل ہو پہر جو زیادہ صحیح آپکو محسوس هو اس پر عمل کریں ۔ حساب سبکو اللہ کو ہی دینا ہے ۔
آپ علم حدیث سیکہنا چاہتے ہیں اللہ آپکی مدد کرے ۔ اپنے راستے کا تعین کرلیں ۔ کتابیں پڑہیں ۔ سیکہیں لوٹ کر ہمیں بہی سکہائیں ۔ اللہ آپکو صحت و تندرستی دے اور آپ کو مفید بنادے ۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
آپ وہی سمجھیں جو محدثین نے سمجھا جو میں پہلے بتا چکا ہوں
a محدثین کے ہاں تدلیس کی متعدد صورتیں ہیں جس کے متعدد احکام ہیں۔

b مدلسین کی طبقاتی تقسیم اس کی مؤید ہے۔

c تدلیس کی کمی وزیاتی کا اعتبار کرنا ضروری ہے۔

d ثقہ اور ضعیف راویوں سے تدلیس کرنے کا حکم یکساں نہیں۔

e مدلس راوی کسی ایسے شیخ سے عنعنہ سے بیان کرے جس سے اس کی صحبت معروف ہو تو اسے سماع پر محمول کیا جائے گا۔

f جو مدلس راوی مخصوص اساتذہ سے تدلیس کرے تو اس کی باقی شیوخ سے روایت سماع پر محمول قرار دی جائے گی۔

g اگر کثیر التدلیس مدلس روایت کو عنعنہ سے بیان کرے تو اس کے سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی۔یہاں یہ بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ محدثین بعض کثیر التدلیس مدلسین کی عنعنہ کو بھی قبول کرتے ہیں جب اس عنعنہ میں تدلیس مضمر نہ ہو۔

h جس مدلس کی روایت میں تدلیس ہوگی تو وہ قطعی طور پرناقابل قبول ہوگی۔ اس نکتہ پرجمہور محدثین متفق ہیں۔خواہ وہ مدلس قلیل التدلیس ہو، صرف ثقات یا مخصوص اساتذہ سے تدلیس کرنے والا ہو، وغیرہ

یاد رہے کہ تدلیس کے شک کااِرتفاع صراحتِ سماع سے زائل ہوجائے گایامتابع یاشاہد تدلیس کے شبہ کو زائل کرے گا۔یہی متقدمین ومتاخرین کا منہج ہے جس پرانکے اقوال اور تعاملات شاہدہیں۔
امام ابن شیبہؒ نے امام العلل سے سوال کیا:

اگر مدلس اپنی روایت میں قابل اعتماد ہوتاہے یا وہ 'حدثنا' یا 'أخبرنا'کہے؟ یعنی اپنے سماع کی صراحت کرے۔امام صاحب نے انتہائی لطیف جواب ارشاد فرمایا جو اُن کے اس فن کے شہسوار ہونے پر دلالت کرتا ہے، فرمایا: لایکون حجۃ فیما دلَّس''جس روایت میں وہ تدلیس کرے گا، اس میں قابل اعتماد نہیں ہوگا۔'' (الکفایۃ البغدادي:۲؍۳۸۷ اِسنادہ صحیح، الکامل لابن عدی: ۱؍۴۸، التمہید لابن عبدالبر:۱؍۱۷،۱۸)

قارئین کرام! ذرا غور فرمائیں کہ امام ابن معینؒ نے مدلس کی روایت کے عدمِ حجت ہونے میں یہ قاعدہ بیان نہیں فرمایا کہ جب وہ روایت عنعنہ سے کرے تو تب وہ حجت نہیں ہوگا،بلکہ فرمایا کہ اس کی عنعنہ مقبول ہے مگر اس شرط پر کہ اس عنعنہ میں تدلیس مضمر نہ ہو۔ بصورتِ دیگر وہ روایت منکر اور ناقابل اعتماد ہوگی۔ یہی سوال امام یعقوبؒ نے امام ابن معینؒ کے ہم عصر امام علی بن مدینیؒ سے کیا۔

bامام ابن المدینیؒ کے ہاں تاثیر

è إمام العلل وطبیبھا علی بن مدینیؒ امام ابن شیبہ کے استفسار پر فرماتے ہیں:

''إذا کان الغالب علیه التدلیس فلا، حتی یقول: حدثنا''

''جب تدلیس اس پر غالب آجائے تو تب وہ حجت نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنے سماع کی توضیح کرے۔'' (الکفایۃ للبغدادي:۲؍۳۸۷، اسنادہ صحیح، التمہید لابن عبدالبر:۱؍۱۸)

امام علی بن مدینیؒ نے اس جوابی فقرہ میں دو باتوں کی طرف نشاندہی فرمائی ہے:

اولاً: مدلَّس روایت حجت نہیں۔

ثانیاً: اس راوی کی جتنی مرویات ہیں، ان کے تناسب سے وہ بہت زیادہ تدلیس کرتاہے یعنی اس کی تدلیس مرویات پر غالب ہے تو اس کی روایت کے قبول کرنے میں یہ شرط لاگو کی جائے گی کہ وہ اپنے سماع کی صراحت کرے۔

امام ابن المدینیؒ کے کلام کا مفہومِ مخالف یہ ہے کہ قلیل التدلیس راوی کا عنعنہ مقبول ہوگا اِلا یہ کہ اس میں تدلیس ہو۔جیسا کہ امام سخاویؒ نے امام ابن مدینیؒ کے اس قول کی توضیح میں فرمایا ہے۔دیکھئے فتح المغیث للسخاوي:۱؍۲۱۶
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
آپ وہی سمجھیں جو محدثین نے سمجھا جو میں پہلے بتا چکا ہوں
a محدثین کے ہاں تدلیس کی متعدد صورتیں ہیں جس کے متعدد احکام ہیں۔

b مدلسین کی طبقاتی تقسیم اس کی مؤید ہے۔

c تدلیس کی کمی وزیاتی کا اعتبار کرنا ضروری ہے۔

d ثقہ اور ضعیف راویوں سے تدلیس کرنے کا حکم یکساں نہیں۔

e مدلس راوی کسی ایسے شیخ سے عنعنہ سے بیان کرے جس سے اس کی صحبت معروف ہو تو اسے سماع پر محمول کیا جائے گا۔

f جو مدلس راوی مخصوص اساتذہ سے تدلیس کرے تو اس کی باقی شیوخ سے روایت سماع پر محمول قرار دی جائے گی۔

g اگر کثیر التدلیس مدلس روایت کو عنعنہ سے بیان کرے تو اس کے سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی۔یہاں یہ بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ محدثین بعض کثیر التدلیس مدلسین کی عنعنہ کو بھی قبول کرتے ہیں جب اس عنعنہ میں تدلیس مضمر نہ ہو۔

h جس مدلس کی روایت میں تدلیس ہوگی تو وہ قطعی طور پرناقابل قبول ہوگی۔ اس نکتہ پرجمہور محدثین متفق ہیں۔خواہ وہ مدلس قلیل التدلیس ہو، صرف ثقات یا مخصوص اساتذہ سے تدلیس کرنے والا ہو، وغیرہ

یاد رہے کہ تدلیس کے شک کااِرتفاع صراحتِ سماع سے زائل ہوجائے گایامتابع یاشاہد تدلیس کے شبہ کو زائل کرے گا۔یہی متقدمین ومتاخرین کا منہج ہے جس پرانکے اقوال اور تعاملات شاہدہیں۔
cحافظ ابن رجبؒ کا موقف

èحافظ ابن رجبؒ امام شافعیؒ کا قول:''ہرمدلس کی عنعنہ مردود ہوگی'' ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

''امام شافعیؒ کے علاوہ دیگر محدثین نے راوی کی حدیث کے بارے میں تدلیس کے غالب ہونے کا اعتبار کیا ہے۔جب تدلیس اس پر غالب آجائے گی تو اس کی حدیث اسی وقت قبول کی جائے گی جب وہ صراحت ِسماع کرے۔ یہ علی بن مدینیؒ کا قول ہے جسے یعقوب بن شیبہؒ نے بیان کیا ہے۔'' (شرح علل الترمذي لابن رجب:۲؍۵۸۳)

حافظ ابن رجبؒ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کا رجحان بھی امام علی بن مدینیؒ وغیرہ کی طرف ہے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم! میں اصول حدیث کی نہیں فہمِ حدیث کی بات کر رہا ہوں۔
اصولِ حدیث ”روات“ سے متعلق ہوتے ہیں اور فہمِ حدیث ”متن“ سے متعلق۔
تدلیس راوی کرتا ھے اس کا سند سے تعلق ھے ۔ اس کا متن سے تعلق نہیں ۔ آپ نے مدلس راوی کے متعلق ایک سوال کیا تھا میں نے اس کا جواب دیا تھا باقی فہمِ حدیث ”متن“ سے متعلق مجھے اس تھریڈ میں آپ کا سوال نظر نہیں آیا
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
تدلیس راوی کرتا ھے اس کا سند سے تعلق ھے ۔ اس کا متن سے تعلق نہیں ۔ آپ نے مدلس راوی کے متعلق ایک سوال کیا تھا میں نے اس کا جواب دیا تھا باقی فہمِ حدیث ”متن“ سے متعلق مجھے اس تھریڈ میں آپ کا سوال نظر نہیں آیا
جس حدیث کو مدلس راوی روایت کر رہا ہے اس حدیث کا متن قابلِ قبول ہوتا ہے کہ نہیں؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
جس حدیث کو مدلس راوی روایت کر رہا ہے اس حدیث کا متن قابلِ قبول ہوتا ہے کہ نہیں؟
جس حدیث کی سند میں مدلس ثقہ راوی حدثنا یا اخبرنا سے روایت کر رہا ھو وہ سند صحیح ہے لیکن متن کے صحیح ہونے کے لئے مذید کچھ شرائط ہیں مثلا حدیث کا شاذ نہ ھونا یا اس میں کوئی علت نہ ہونا ۔۔۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
جس حدیث کی سند میں مدلس ثقہ راوی حدثنا یا اخبرنا سے روایت کر رہا ھو وہ سند صحیح ہے لیکن متن کے صحیح ہونے کے لئے مذید کچھ شرائط ہیں مثلا حدیث کا شاذ نہ ھونا یا اس میں کوئی علت نہ ہونا ۔۔۔
جس حدیث کی سند صحیح ہو وہ حدیث ”صحیح “ ہی کہلائے گی (اگر نہیں تو وجہ لکھیں)۔ اب یہ ممکن ہے کہ حدیث صحیح ہو اور اس کا ”متن“ صحیح نہ ہو۔یہی کہنا چاہتے ہیں یا کچھ اور؟ میں آپ لوگوں کی طرح یہ نہیں کرنا چاہتا کہ کسی تحریر کا اپنا مفید مطلب معنیٰ لے لوں۔ بات انشاء اللہ تفہیم کی ہوگی شکست دینے دلانے کی نہیں۔
یاد رکھیں دین کے سمجھنے میں فتح اور شکست کا کوئی تصور نہیں کہ اس میں ہر کوئی جیتنے والا ہی ہوتا ہے اگر کینہ نہ ہو تو۔
 
Top