(3) بہر صورت باوجود غور و فکر کے میں نہیں سمجھ سکا کہ ابن جریج کے عنعنہ کو شیخ البانی اس درجہ ضعیف سمجھتے ہیں کہ اس کو متابعات میں بھی رد کردیتے ہیں ۔
عجیب بات ہے ۔
آپ کے یہ الفاظ تو آپ کی گذشتہ تصریحات کے خلاف لگتے ہیں۔
آپ اپنے ان حالیہ الفاظ میں بظاہر (کمایظہرلی مع اعترافی بضعف فھمی) یہ نہیں مان رہے ہیں کہ علامہ البانی ابن جریج کے عنعنہ کوحسن لغیرہ کے باب میں مقبول مانتے ہیں یا نہیں ۔
جبکہ اس سے قبل آپ کی تصریحات یہ ہیں:
شیخ البانی کے حوالے سے جو مثال بیان کی گئی ہے اس میں بھی ضعف شدید کا ذکر ہے جیسا کہ شیخ نے صراحت کی ہے ۔
آپ کا اس مثال سے استدلال اس وقت مستقیم ہے جب یہ ثابت کردیا جائےکہ ابن جریج کے عنعنہ کو شیخ البانی ضعف غیر شدید سمجھتے ہیں ۔ جو بات میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ شیخ البانی نے صرف معنعن روایت ہونے کی وجہ سے اس کو رد نہیں کیا بلکہ ابن جریج چونکہ کذا ب رایوں سے تدلیس کرتا ہے اس لیے اس کی معنعن روایت ضعف شدید ہوگی کیونکہ احتمال ہے کہ محذوف راوی ضعیف جدا یا کذاب وغیرہ ہو ۔
2۔ دوسری بات ابن جریج کا قبیح التدلیس ہونا ہے ۔ گویا کہ وہ ابن جریج کے عنعنہ کو بھی ضعف شدید قرار دیتے ہیں ۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنی تائید کیلے امام احمد اور دار قطنی کا قول نقل کیا ہے ۔
بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ البانی رحمہ اللہ ابن جریج کے عنعنہ کو ضعف شدید شمار کرنے میں غلطی پر ہیں پھر بھی پہلی وجہ برقرار رہتی ہے کہ حدیث معضل بھی ہے ۔
آپ کی یہ تصریحات اس بات پردلالت کرتی تھیں کہ آپ ابن جریج کے عنعنہ کو ضعف شدید اورحسن لغیرہ کے باب میں غیرمقبول مانتے تھے اورآپ علامہ البانی رحمہ اللہ کی بھی یہی موقف باور کرتے تھے ۔
لیکن حالیہ مراسلہ میں آپ کہتے ہیں:
(3) بہر صورت باوجود غور و فکر کے میں نہیں سمجھ سکا کہ ابن جریج کے عنعنہ کو شیخ البانی اس درجہ ضعیف سمجھتے ہیں کہ اس کو متابعات میں بھی رد کردیتے ہیں ۔
!!!!!!!!
ہماری نظر میں تو علامہ البانی رحمہ اللہ کی عبارت بالکل صاف صریح واضح اور دو ٹو ک ہے ، اس میں نہ تو کوئی اجمال ہے اورنہ ہی کوئی ابہام۔
عبارت پھر سے دیکھیں:
فتبين من كلمات هؤلاء الأئمة أن حديث ابن جريج المعنعن ضعيف، شديد الضعف، لا يستشهد به؛ لقبح تدليسه، حتى روى أحاديث موضوعة، بشهادة الإمام أحمد، وهذا إذا كان حديثه المعنعن مسندًا، فكيف إذا كان مرسلًا، بل معضلًا كهذا الحديث؟!.[جلباب المرأة المسلمة في الكتاب والسنة ص: 46 ]۔[/QUOTE]
اس عبارت میں علامہ البانی رحمہ اللہ ابن جریج کے عنعنہ کی حیثیت پر بات کررے ہیں اوراہل علم کے اقوال نقل کرکے پوری ووضاحت اورصراحت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں:
حديث ابن جريج المعنعن ضعيف، شديد الضعف، لا يستشهد به
یعنی ائمہ کے پیش کردہ اقوال سے ثابت ہوا کہ ابن جریج کی معنعن حدیث سخت ضعف والی ضعیف اورناقابل استشہاد (یعنی حسن لغیرہ کے باب میں غیرمقبول) ہوگی۔
صرف یہی نہیں بلکہ آگے پوری صراحت کے ساتھ کہتے ہیں:
وهذا إذا كان حديثه المعنعن مسندًا، فكيف إذا كان مرسلًا، بل معضلًا كهذا الحديث؟!.
یعنی ابن جریج کی حدیث کی یہ حالت (یعنی ضعیف شدید اورناقابل استشہاد) اس وقت ہوگی
جب اس کی معنعن حدیث مسند ہو ، پھر اگر وہ معنعن حدیث مرسل یا معضل حدیث ہو جیسے زیربحث حدیث کاحال ہے تب وہ تو بدرجہ اولی ناقابل اشتشہاد ہے۔
یعنی یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ متعلقہ روایت کے اعضال کا ابن جریج کے عنعنہ پرلگائے گئے حکم (ضعف شدید) سے کوئی تعلق نہیں ۔
بلکہ اس اعضال کا تعلق توروایت پر حکم سے ہیں کہ روایت میں کئی علتیں ہیں ۔
غورکیا جائے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کسی طرح کا اجمال نہیں چھوڑا ہے بلکہ پوری صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ ابن جریج کی معنعن حدیث شدید ضعیف اورناقابل استشہاد ہوتی خواہ وہ مسند ہی کیوں نہ ہو یعنی گرچہ معنعن کے ساتھ مرسل یا معضل نہ ہو۔
یہیں سے آپ کی یہ بات بھی صاف ہوگئی :
ہاں اگر کسی متابع کو شیخ نے صرف ابن جریج کی وجہ سے رد کیا ہو اور اس میں اور کوئی علت نہ ہوتو پھر یہ بات کہی جا سکتی ہے ۔ کیونکہ جلباب المرأۃ والی حدیث میں شیخ نے اگر چہ ابن جریج کے عنعنہ کی بھی بات کی ہے لیکن زیادہ زور اس کے معضل ہونے پر دیا ہے ۔
میرے بھائی علامہ البانی رحمہ اللہ کا جو اقتباس میں نے ابھی دوبارہ نقل کیا ہے اس پرغور کریں ، بالخصوص اس اقتباس کے ان الفاظ پر :
وهذا إذا كان حديثه المعنعن مسندًا، فكيف إذا كان مرسلًا، بل معضلًا كهذا الحديث؟!.
یعنی ابن جریج کی حدیث کی یہ حالت (یعنی ضعیف شدید اورناقابل استشہاد) اس وقت ہوگی جب اس کی معنعن حدیث مسند ہو ، پھر اگر وہ معنعن حدیث مرسل یا معضل حدیث ہو جیسے زیربحث حدیث کاحال ہے تب وہ تو بدرجہ اولی ناقابل اشتشہاد ہے۔
ان الفاظ پر غورکریں تو سمجھتا ہوں کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی طرف سے اس صریح وضاحت کے ہوتے ہیں آپ کو یہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ انہوں نے کسی روایت کو محض اس علت کی وجہ سے ناقابل استشہاد کہا ہے یا نہیں ۔
ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ یہاں پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اصولی طور پر ابن جریج کے عنعنہ کو ضعیف شدید کہا ہے ۔
بلکہ ہم تو اس حد تک یقین رکھتے ہیں کسی بھی عربی داں اور انصاف پسند کے سامنے علامہ البانی رحمہ اللہ کی یہ عبارت پیش کرکے پوچھا جائے کی یہاں پر علامہ موصوف ابن جریج کے عنعنہ کو کس درجہ کا بتلارہے ہیں تو سب بیک زبان ہوکرکہیں گے گے کہ ضعف شدید اورناقابل استشہاد بتلارہے ہیں ، کیونکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس عبارت میں کسی طرح کی اجمال وابہام نہیں رکھاہے بلکہ پوری صراحت ووضاحت کے ساتھ دوٹوک میں اپنی بات پیش کردی ہے۔
یادرہے کہ ہم علامہ البانی رحمہ اللہ کے اصولی اورعمومی موقف پر بات کررہے ہیں ، اوربعض قرائن کی بناپر ابن جریج کاعنعنہ ہی نہیں بلکہ جابرجعفی اور اس طرح کے دیگر سخت ضعیف رواۃ کی متابعات بھی علامہ البانی رحمہ اللہ قبول کرلیتے یہ الگ مسئلہ ہے ، اگرہم حسن لغیرہ کے معاملے علامہ البانی رحمہ اللہ کی طرف سے قبول روایات کی بات کریں تو اس سلسلے میں علامہ موصوف کا کوئی حتمی اصول ہے ہی نہیں بلکہ علامہ موصوف کہیں پر تو کذاب و متروکین کی روایات کو حسن لغیرہ کے باب میں لے لیتے ہیں اورکبھی معمولی ضعف والی روایات کو بھی حسن لغیر ہ کے باب میں نہیں لیتے اوراس بابت ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ اس بار ے میں کوئی حتمی اورکلی اصول پیش ہی نہیں کیا جاسکتا زیادہ سے زیادہ سی الحفظ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جب اس کے طرق متعدد ہوں اور ایک دوسرے کی آپس میں ملاقات ممکن نہ ہو تو یہاں پر کلی قاعدہ پیش کیا جاسکتا ہے لیکن تدلیس اور اس جیسے دیگر ضعیف کے بارے میں کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بنایا سکتا۔
لہٰذا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اصولی اورعمومی طورپر ابن جریج کا عنعنہ ضعف شدید ہے یا نہیں اورعلامہ البانی رحمہ اللہ اسے ضعیف شدید مانتے ہیں یا نہیں ۔
پھر یہ مسئلہ کہ علامہ البانی کا کسی عنعنہ کو ضعیف شدید ماننا حافظ ابن حجر اوران کے نہج پر چلنے والوں کے خلاف ہے کہ نہیں ، قطع نظر اس کے کہ علامہ البانی کا موقف صحیح ہے یا حافظ ابن حجر اوران کے نہج پرچلنے والوں کا موقف۔
وجزاک اللہ خیرا وبارک فیک