• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مراقبہ کی کیا حقیقت ہے اسلام میں؟

مشوانی

رکن
شمولیت
ستمبر 06، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
312
پوائنٹ
44
اسلام میں مراقبہ meditation کا کیا حکم ہے؟
روحانیت کو اسلام میں کیا درجہ حاصل ہے؟
ایک ہندو کا دعوی ہے ہے کہ جو لوگ روحانی نہیں ہوتے وہ الله سے ڈرتے ہیں،جیسے کہ مسلمان اور جو لوگ روحانی ہوتے ہیں وہ الله سے ڈرتے نہیں بلکہ الله سے محبت کرتے ہیں جیسے کہ ہندوں-
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
مختصراً
مراقبہ نام ہے دل ودماغ کے استحضار کا جس میں استغراق والی کیفیت ہوتی ہے۔ جوکہ غلو محبت کا دوسرا نام ہے
اور یہ دو قسم کا ہوتا ہے
’’وہبی‘‘
اور ’’کسبی‘‘
’’وہبی ‘‘یہ اللہ کے مخصوص بندوں کو من جانب اللہ حاصل ہوتی ہے جیسے انبیاء کرام اور اولیاء کرام اور دیگر مخصوص بندے
کیفیت ان مخصوص حضرات کی یہ ہوتی ہے کہ جسم دنیا میں ہوتا ہے اور دنیاوی امور بھی انجام دیتے ہیں لیکن دل و دماغ کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان نفوس سے غلطیوں کا ارتکاب نہیں ہوتا
اور رہی بات ’’کسبی‘‘ مراقبہ کی تو اس کی دو شکلیں ہیں
ایک محمود اور دوسری غیر محمود
’’محمود ‘‘ ذکر اذکار کے ذریعہ دل و دماغ کو یکسو کرلینا اور خود کو اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر سمجھنا
’’غیر محمود‘‘ اس طرح کی مشق کرنا جیسا کہ ہپناٹزم والے یا جوگی اور مشرکین کسی چیز کا تصور جماکر یا سامنے رکھ کر کرتے ہیں مثلاً شیخ کا تصور بتوں کا تصور یا کوئی شبیہ سامنے رکھنا یا غیر اللہ کا تصور جمانا یہ سب شرک اور غیر اسلامی طریقہ ہے اور حرام ہے
مراقبہ کی کیفیت
سورہ یوسف مراقبہ کی بہترین مثال ہے اگر اس میں تدبر کیا جائے
ایک مثال پیش کرتا ہوں
فَلَمَّا رَاَيْنَہٗٓ اَكْبَرْنَہٗ وَقَطَّعْنَ اَيْدِيَہُنَّ۝۰ۡوَقُلْنَ حَاشَ لِلہِ مَا ھٰذَا بَشَرًا۝۰ۭ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا مَلَكٌ كَرِيْمٌ۝۳۱ [١٢:٣١]
جب عورتوں نے ان کو دیکھا تو ان کا رعب (حسن) ان پر (ایسا) چھا گیا کہ (پھل تراشتے تراشتے) اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بےساختہ بول اٹھیں کہ سبحان الله (یہ حسن) یہ آدمی نہیں کوئی بزرگ فرشتہ ہے
فقط واللہ اعلم بالصواب
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
محترم آپ کے اقتباس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ احسان الہی ظہیر شہید لاشعوری طور پر تصوف کی حمایت کرتے رہے ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مولانا میر سیالکوٹی کونسے تصوف کے قائل تھے؟کیونکہ یہاں ہر شخص کا اپنا نظریہ تصوف ہے۔وضاحت فرمائیں،
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
حصولِ علم اور فضائل اُمتِ محمدیہﷺ

مولانا امین اللہ پشاوری​

http://www.mohaddis.com/jul2012/933-hosol-e-ilam-or-fazail-ummat-e-muhammdia.html
جامعہ لاہور اسلامیہ کی جوہر ٹاؤن، لاہور میں واقع برانچ البیت العتیق میں مؤرخہ 2؍جون 2012ء کو مشکوٰۃ المصابیح کے اختتام کے مبارک موقع پرمشکوٰۃ کی آخری حدیث پر درس کے لئے پشاور کے نامور عالم اور مفتی مولانا امین اللہ ﷾ کودعوت دی گئی۔مولانا موصوف نے اپنے درسِ حدیث میں اس فرمان نبویؐ کے حوالے سے وقیع اور اہم نکات بیان فرمائے۔ اس موقع پر مدیرالجامعہ مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی کے علاوہ ، مولانا حافظ عبد السلام بھٹوی حفظہما اللہ کے بھی خطابات ہوئے جنہیں حاضرین کی کثیر تعداد نے بڑی توجہ سے سنا اور اپنے قلوب کو نورِ ایمان سے منور کیا۔مولانا پشاوری کا اس موقع پر ہونے والا خطاب ضروری ترامیم کے بعد ہدیۂ قارئین ہے جسے جامعہ ہذا کے اُستاذِ حدیث مولانا ابو عبداللہ طارق نے ترتیب دیا ہے۔ ح م
خطبہ مسنونہ کے بعد ...مشکوۃ المصابیح کی آخری حدیث یہ ہے:
«عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده أنه سمع ﷺ يقول في قوله تعالى: ﴿كنتم خير أمة أخرجت للناس﴾ قال: «أنتم تتمون سبعين أمة أنتم خيرها وأكرمها على الله تعالىٰ» رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي وقال الترمذي : هٰذا حديث حسن»1
''نبی کریمﷺنے اللہ کے اس فرمان '' تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہو ''کےضمن میں فرمایا: تم ستّر اُمتوں کی تکمیل کرنے والے ہو۔ تم اللہ کے ہاں اُن میں سے بہترین اور معزز ترین اُمت ہو۔''
مشکوٰۃ المصابیح کی اس آخری حدیث کی شرح سے پہلے میں ایک مقدمہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔یاد رہے کہ علم کی کئی اقسام ہیں:
1. علم روایت
یعنی کتاب میں حدیث کو پڑھنا پھر اسے آگے نقل اوربیان کردینا اور دوسرے لوگوں کو پڑھانا۔ یہ علم آسان ہے،اتنا مشکل نہیں ہے۔ اکثر علما یہ کام کرتے ہیں، البتہ پورا کمال صرف اسی میں نہیں ہے اور ایک صحیح حدیث میں بعد والے زمانے کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے:
«إنكم أصبحتم في زمان كثير فقهاؤه قليل خطباؤه قليل سؤاله كثير معطوه، العمل فيه خير من العلم، وسيأتي زمان قليل فقهاؤه كثير خطباؤه كثير سؤاله قليل معطوه العلم فيه خير من العمل»2
''آپ ایسے زمانے میں موجود ہیں جس میں دین کی بصیرت رکھنے والے زیادہ، خطابت کا جادو جگانے والے کم، مانگنے والے کم اور دینے والے زیادہ ہیں۔ اس زمانے میں علم پر عمل کو مقدم سمجھا جاتاہے۔عنقریب اس کے برعکس زمانہ آنےوالا ہے، جس میں لوگ عمل بجالانے پر محض جان لینے کو ترجیح دیں گے۔''
2. علم درایت
علم کی دوسری قسم کو'علم درایت' کہتے ہیں یعنی کتاب و سنت کے معانی کوسمجھنا اور دوسرےلوگوں کوسمجھانا،مسائل کی صحیح تحقیق کرنا۔ یہ علم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فضل ہے، جسے چاہتے ہیں عطا کردیتے ہیں، جسے چاہتے ہیں عطا کردیتے ہیں۔
نبی کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: «من یرد الله به خیرا یفقهه في الدین»3
یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں ،اسے علم درایت، فقہ الحدیث کا علم اور کتاب و سنت کی سمجھ دے دیتے ہیں۔الحمدللہ یہ علم پہلے علما کے پاس بھی بہت زیادہ تھا اور آج بھی ہے۔
3. علم رعایت
تیسرا علم 'علم رعایت' ہے یعنی اللہ ربّ العالمین کا حکم معلوم کرنے کے بعد اسے اس کے وقت اورجگہ کا لحاظ کرتے ہوئےعملی جامہ پہنانا ، اس کے مطابق عمل کرنا اور ایسا بہت کم لوگ کرتے ہیں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
﴿فَما رَ‌عَوها حَقَّ رِ‌عايَتِها...٢٧ ﴾4
''اُنہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی۔''
اللہ تعالیٰ نےاس آیتِ کریمہ میں نصاریٰ کی مذمت کی ہے اوراس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اصل تو عمل ہی ہے۔اگر کوئی انسان دعویٰ کرتا ہے کہ میں مومن، مسلمان اور اہل حدیث اور اہل سنت ہوں، لیکن اس میں ایمان، اسلام اور حدیث اور کے آثار دکھائی ہی نہیں دیتے تو یہ اکیلا دعویٰ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورہ میں علم رعایت کو بڑےعجیب انداز میں بیان فرمایا ہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لِئَلّا يَعلَمَ أَهلُ الكِتـٰبِ أَلّا يَقدِر‌ونَ عَلىٰ شَىءٍ مِن فَضلِ اللَّهِ وَأَنَّ الفَضلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤتيهِ مَن يَشاءُ وَاللَّهُ ذُو الفَضلِ العَظيمِ... ٢٩ ﴾5
''یہ اس لیے کہ اہل کتاب جان لیں کہ اللہ کے فضل کے کسی حصے پر بھی انہیں اختیار نہیں اور یہ کہ (سارا) فضل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے دے اور اللہ ہی بڑے فضل والا ہے۔''
یعنی اہل کتاب کا کہنا ہےکہ اللہ کا فضل ہم پر ہے جبکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے فرماتے ہیں کہ تم لوگ کتاب و سنت پر عمل کرو تو اللہ کافضل تم پر ہوجائے گا اور اہل کتاب خجالت میں پڑ جائیں گے۔تو میرا مقصود یہ ہےکہ حدیث کی یہ جو کتاب ہے، ہمیں اس کی رعایت کرنی چاہیے اور ہر حدیث مبارکہ کا لحاظ کرتے ہوئے اسے اس کے موقع پر عمل میں لانا چاہیے۔ قرآنِ مجید کی تلاوت کا طریقہ سنتِ نبوی ؐ میں موجود ہے، احادیث کی کتابوں میں اورمشکوٰۃ میں بھی لکھا ہوا ہے۔ہمیں اسی کے مطابق قرآنِ کریم کی تلاوت کرنی چاہیے ۔ ہمیں اپنی زندگی میں سادگی پیدا کرنی چاہیے،اس بارےمیں بھی کتابوں میں بہت ساری احادیث موجود ہیں۔شرعی علم کے حصول کا طریقہ
شریعت کا صحیح علم کیسے حاصل ہوتاہے؟ یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔اسے درج ذیل چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علم دو قسم کا ہوتا ہے:
1. ظاہر الشریعہ:
علماے کرام نے لکھا ہے کہ اس علم کو حاصل کرنےکے لئے پانچ چیزیں ضروری ہیں اور یہ چیزیں معروف ہیں۔ تفصیل میں جانےکی بجائے میں یہاں صرف ان کے نام ذکر کرنے پر ہی اکتفا کروں گا۔ پہلی چیز ہے توجہ سے سننا یعنی الاستماع اور دوسری چیز ہے خاموشی یعنی الانصات۔ تیسری چیز حفظ اور چوتھی اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔ پانچویں اور آخری چیز اس علم کی نشرواشاعت ہے۔
2. علم اسرار الشریعہ:
علم کی دوسری قسم کا نام علم اسرار الشریعہ ہے۔ یعنی شریعتِ مطہرہ کے اسرار ورموز... اور کتاب و سنت میں موجود حکمتوں کو حاصل کرنے کاجو راستہ ہے، وہ بھی پانچ چیزیں ہیں:
1. اتباع سنت:
اس علم کو حاصل کرنےکے لیے پہلی ضروری چیز نبی کریمﷺ کی سنت کی اتباع ہے۔ سنت نبویہﷺ میں نور ہے اور علم بھی نور ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَءامِنوا بِرَ‌سولِهِ يُؤتِكُم كِفلَينِ مِن رَ‌حمَتِهِ وَيَجعَل لَكُم نورً‌ا تَمشونَ بِهِ وَيَغفِر‌ لَكُم وَاللَّهُ غَفورٌ‌ رَ‌حيمٌ... ٢٨ ﴾6
''اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ اوراس کے رسولﷺ کے ساتھ ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا اور تمہیں نور دے گا جس روشنی میں تم چلو پھرو گے اور وہ تمہیں معاف کردے گا اور اللہ معاف اور رحم کرنے والا ہے۔''
2. اسرارِ شریعت کا حصول :
اسرارِ شریعت کے حصول کے لیے دوسری ضروری چیز قرآن کی اصطلاح میں احسان ہے اور بعض علما کی اصطلاح میں اسے 'مراقبہ' بھی کہا جاتا ہے۔
جب کسی انسان کے دل میں احسان کی صفت پیدا ہوجاتی ہےتو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے اس بندےکے لیے شریعت کے اسرار کوکھول دیتے ہیں اوراس کی دلیل قرآن مجید میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ یوسف کے تذکرے میں فرماتے ہیں:
﴿وَلَمّا بَلَغَ أَشُدَّهُ ءاتَينـٰهُ حُكمًا وَعِلمًا وَكَذ‌ٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ... ٢٢ ﴾7
''اور جب وہ پختگی کی عمر کو پہنچ گئے تو ہم نے اُنہیں حکمت اور علم سے نوازا اورہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی بدلہ دیتے ہیں۔''
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے یوسف کو شریعت کی حکمت عطا فرمائی ۔باطنی علم اور ظاہری علم دونوں سےنوازا اور یہ صرف انہی کی خصوصیات میں سے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ ﴿ وَكَذ‌ٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ﴾ یعنی یہ حکم اور علم میں ہر محسن کوبلکہ محسنین کو دیتاہوں ۔ ایسے ہی موسیٰ کے تذکرے میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَلَمّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاستَوىٰ ءاتَينـٰهُ حُكمًا وَعِلمًا وَكَذ‌ٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ... ١٤ ﴾8
''اور جب موسیٰ اپنی جوا نی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے تو ہم نے اُنہیں حکمت و علم عطا فرمایا۔''
'احسان' کے معنی ہمیں قرآن پاک میں ہی مل جاتے ہیں اوریہ مجرب قاعدہ ہےکہ قرآن مجید میں کوئی مشکل یا مبہم (یعنی جس کامطلب واضح نہ ہو) لفظ استعمال ہوجائے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود ہی اس کی وضاحت بھی فرما دیتے ہیں۔یہاں بھی 'احسان' کی تفسیر اللہ تعالیٰ اس طرح فرماتے ہیں کہ
﴿وَر‌ٰ‌وَدَتهُ الَّتى هُوَ فى بَيتِها عَن نَفسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبو‌ٰبَ وَقالَت هَيتَ لَكَ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَ‌بّى أَحسَنَ مَثواىَ إِنَّهُ لا يُفلِحُ الظّـٰلِمونَ... ٢٣ ﴾9
''اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے، یوسف کو اس کے نفس کے بارےبہلانا پھسلانا شروع کردیا اور دروازے بند کرکے کہنےلگی: آجاؤ، یوسف نے کہا: اللہ کی پناہ وہ میرا ربّ ہے۔ اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے، بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا۔''
آدمی جوان ہے خواہش بھی ہے، بیوی نہیں ہے۔ خود مسافر اورغلام ہیں، بُرائی کی دعوت دینے والی عورت جوان، حسن و جمال اور منصب والی ہے۔ الغرض بُرائی کے تمام اسباب و دواعی موجود ہیں، لیکن اللہ کی راہ پر چلنے والے کے دل میں اللہ کی توجہ اس قدر غالب ہے کہ اُنہوں نے اس غلط کام کو جوتے کی نوک پر ٹھکرا دیا۔پس یہی احسان ہے۔
درجاتِ احسان: احسان کے دو درجے ہیں:
مشکوٰۃ المصابیح کی ایک حدیث میں احسان کے یہ دونوں درجے بیان ہوئے ہیں کہ آپﷺ سے احسان کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو آپﷺ فرماتے ہیں:
«أن تعبد الله كأنك تراه»
احسان یہ کہ ''آپ اللہ تعالیٰ کی بندگی ایسے کریں جیسے آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں۔''
اور احسان کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ آپ کے دل میں یہ بات ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں: «فإن لم تكن تراه فإنه يراك»10
3.حرام سے اجتناب:
اسرار شریعت کے حصول کے لیے تیسری چیز 'حرام سے اجتناب' ہے۔ اگر کوئی طالب علم حرام کھاتا ہے تو اس کے علم میں نور نہیں ہے۔ اس کا دل جو علم کا مہبط ہے،خراب ہوجاتا ہے۔آپﷺ کاارشادِگرامی ہے کہ
«کل لحم نَبَت من السُّحت فالنار أولىٰ به»11
''ہروہ گوشت جو حرام سے نشوونما پاتا،اس کے لائق تو آگ ہی ہے۔''
اور پھر حرام سے اجتناب کے ساتھ ساتھ مشتبہات سے اجتناب بھی ضروری ہے جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ کا طریقہ تھا۔آپﷺ نے راستے میں ایک کھجور گری ہوئی پائی تو فرمایا:
«لولا أني أخاف أن تکون من الصدقة لأکلتها»12
''اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتاکہ یہ کھجور صدقے کی ہوتو میں اسےکھالیتا۔''
4. اکل حلال اور عمل صالح:
اسرارِ شریعت کو سمجھنے کے لیےچوتھی ضروری چیز ہے۔'اکلِ حلال'...ارشادِ باری ہے :
﴿يـٰأَيُّهَا الرُّ‌سُلُ كُلوا مِنَ الطَّيِّبـٰتِ وَاعمَلوا صـٰلِحًا إِنّى بِما تَعمَلونَ عَليمٌ... ٥١ ﴾13
''اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اورنیک عمل کرو۔تم جوکچھ کر رہے ہو،اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔''
اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں بڑے ہی احسن انداز میں أکل حلال اورعمل صالح دونوں کواکٹھا کردیا ہے کہ حلال کھانا عمل صالح کےلئے معاون ہے۔ سہل  سےمنقول ہے، فرماتے ہیں: «من أکل الحلال أطاع الله ومن أکل الحرام عصٰی الله»14
'' جو انسان حلال کھاتا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات اس کا نصیب ہوگا اور جو حرام کھاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان بن جاتا ہے۔''
5. غض بصر:
پانچویں چیز غض بصر ہے یعنی اپنی آنکھوں میں حیا پیدا کرنا اور یہ صرف اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے ہی ممکن ہے،ورنہ نظر بازی کا یہ گناہ تو ہمارے زمانےاور معاشرے میں اس قدر زیادہ ہے کہ اس سے بچنا انتہائی مشکل کام ہے اوریہ گناہ انسان کےدل کو برباد کردیتا ہے۔
علماے کرام کاکہنا ہے کہ جس نے اپنے ظاہر کو سنت کی اتباع اور اپنےباطن کو دوام مراقبہ کا پابند بنا لیا، حلال کھایا، حرام سے اجتناب کیا اوراپنی نگاہ کو حرام سے بچالیا تو اللہ تعالیٰ اس پر ایسے ایسے علوم کھول دیتے ہیں جن کا کبھی کسی کے دل میں خیال بھی نہیں آیا۔ یہ باتیں کتاب و سنت سے ماخوذ ہیں اوران کےدلائل بھی مختصراً بیان ہوئے ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ ظاہری علم حاصل کرنا آسان ہے اور باطنی علم یعنی شریعت کی حکمتیں معلوم کرنا۔ پس اصل علم تو یہی ہے جس کے بارے میں اللہ سبحانہ فرماتے ہیں:
﴿وَما كانَ المُؤمِنونَ لِيَنفِر‌وا كافَّةً فَلَولا نَفَرَ‌ مِن كُلِّ فِر‌قَةٍ مِنهُم طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهوا فِى الدّينِ وَلِيُنذِر‌وا قَومَهُم إِذا رَ‌جَعوا إِلَيهِم لَعَلَّهُم يَحذَر‌ونَ... ١٢٢ ﴾15
''سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں۔''
اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں کہا کہ یہ تعلم فی الدین ہے بلکہ فرمایا کہ یہ تفقہ فی الدین ہے اوریہ علم ضروری ہے۔
تأثر بآیات اللہ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جس شخص کو علم دیا ہو تو اس کے علم کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور احادیثِ نبویہ کی تاثیر قبول کرتا ہے اورصحابہ کرام میں یہ خوبی موجود تھی۔ سیدہ اسماء بنت ابوبکرؓ فرماتی ہیں کہ
''رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو آپﷺ نے قبر کے اس فتنے کا ذکر کیا جس میں آدمی مبتلا ہوتا ہے۔ تو حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ
«ضجّ المسلمون ضجّة» ''16
مسلمانوں نے انتہائی زور سے چیخ ماری۔''
سلف میں تأثر بآیات اللہ کی اوربھی کئی مثالیں موجود ہیں اور اگر ہم صحیح علم والے ہیں تو ہم پر قرآن و حدیث نمایاں ہونا اورہمارا ظاہر و باطن اس سے متاثر ہونا چاہیے اوریہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ علم رعایت اور علم اسرارِ شریعت اوراس کی حکمتوں کے جاننے کے بعد ہی انسان پر یہ کیفیت طاری ہوتی ہے۔
مشکوٰۃ المصابیح کی آخری حدیث کی شرح
علم کے فضائل ومناقب اور اس کے حصول کے تقاضوں سے آگاہ ہونے کے بعد ، اب میں شرحِ حدیث کی طرف بڑھتا ہوں۔مشکوٰۃ المصابیح کا آخری باب 'باب ثواب هذه الأمة'ہے لیکن اس کی وضاحت سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ بعض چیزوں کو بعض پر فضیلت عطا فرماتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی نشانی ہے۔ارشادِ باری ہے:
﴿وَرَ‌بُّكَ يَخلُقُ ما يَشاءُ وَيَختارُ‌... ٦٨ ﴾17
''اور آپ کا ربّ جس کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور اس کو پسند فرما لیتا ہے۔''
اور یہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہی اختیار میں ہے کہ جس کو چاہے فضیلت عطا فرما دے۔اس نے اپنے عرش کو فضیلت عطا فرمائی ہے، آسمانوں کو زمینوں پر فوقیت دی ہے ۔ اسی طرح کعبہ اورحرمین شریفین کو فضیلت عطا فرمائی ہے اورانبیا علیہم السلام کو فضیلت سےنوازا ہے خصوصاً ہمارے پیارے نبیﷺ کو ساری انسانیت سے افضل بنایا ہے۔اللہ فرماتے ہیں:
﴿تِلكَ الرُّ‌سُلُ فَضَّلنا بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ مِنهُم مَن كَلَّمَ اللَّهُ وَرَ‌فَعَ بَعضَهُم دَرَ‌جـٰتٍ...٢٥٣ ﴾18
''یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اِن میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے۔''
اور اللہ تعالیٰ نے بعض ایام کو دوسرے ایام پراور جمعہ کے دن کو ہفتے کےباقی دنوں پر، لیلۃ القدر کوباقی راتوں پر فضیلت دی ہے اور بارہ مہینوں میں سے رمضان کو افضل ترین مہینہ بنایا۔ اسی طرح قرآنِ کریم کوباقی کتابوں پر اوربعض آیات کوبعض پر فضیلت سے نوازا ہے۔جیساکہ اس کی حکمت، علم اور مشیت کا تقاضا تھا۔
اُمت محمدیہ کی فضیلت
اس اُمت کی فضیلت کے دو پہلو ہیں:
1. وہبی :
یعنی اس اُمت کی فضیلت کا یہ پہلو، فضیلتِ وہبی اور خیریتِ وہبی سے تعلق رکھتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش ، عطیہ، ہبہ اور ہدیہ ہے۔ وہ اپنی حکمت و مشیت سے جسے جو چاہے عطا کرے،اس اُمت کا اپنا کوئی کمال نہیں ہے اورفضیلت ِاُمت ِمحمدیہ کی ساٹھ سےزیادہ صورتیں ہیں،جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
1.رسول اللہ ﷺ:
اس اُمت کی سب سےبڑی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ اسے کائنات کے سب سے بڑے امام، امام الانبیاﷺ کی اُمت بنایا ہے۔اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے، کم ہے۔
2. قرآنِ کریم:
اس اُمت کے لیےاللہ تعالیٰ کی دوسری بڑی نعمت کلامِ الٰہی قرآنِ مجید ہے جو سراسر کتابِ خیر ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَقيلَ لِلَّذينَ اتَّقَوا ماذا أَنزَلَ رَ‌بُّكُم قالوا خَيرً‌ا...٣٠ ﴾19
''اورپرہیزگاروں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا نازل فرمایا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ سب سے اچھی چیز۔''
خیراً میں تنوین تعظیم کی ہے یعنی قرآنِ کریم خیر عظیم ہے،اس میں ہر قسم کی خیر ہے۔ اس کے الفاظ،قرا ت، تجوید، معانی، تفسیر، تفکر و تدبر اوراحکام، الغرض ہر چیز میں خیر ہے اور یہ اپنےموضوع پرکا مل کتاب ہے جس میں کسی قسم کانقص نہیں ہے۔ارشاد باری ہے:
﴿وَنَزَّلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ تِبيـٰنًا لِكُلِّ شَىءٍ وَهُدًى وَرَ‌حمَةً وَبُشر‌ىٰ لِلمُسلِمينَ... ٨٩ ﴾20
''اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہر چیز کا شافی بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت ، رحمت اور شفا ہے۔''
3. عالم اورحافظ قرآن کی فضیلت:
اس فرمانِ نبویﷺ میں حافظِ قرآن کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ سو جس کا عقیدہ و عمل اس مطابق ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی جہنم میں نہیں ڈالیں گے۔آپﷺ نے فرمایا:
«لو جُعل القرآن في إهاب ثم ألقي في النار ما احترق»21
''اگر قرآنِ کریم کو چمڑے میں ڈال کر آگ میں ڈال دیا جائے ، تو آگ اُس کو نہیں جلائے گی۔''
اور اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ قیامت کےدن علما سے گویا ہوں گے: «إني لم أضع علمي فیکم لأعذّبکم»22
''میں نے اپنا علم تمہیں اس لیے نہیں دیاتھا کہ تمہیں عذاب دوں۔ تم چلے جاؤ، میں نے تمہیں معاف کردیا۔''
4. پانچ نمازیں:
صرف اسی اُمت کی خصوصیت ہے۔جیساکہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ عشا کی نماز پہلی اُمتوں میں نہیں تھی۔
5. اعضاے وضو کی چمک:
یہ بھی صرف اُمتِ محمدیہ کی ہی فضیلت و خصوصیت ہے کہ قیامت کے دن وضو کے اعضا یعنی چہرہ، ہاتھ اورپاؤں چمک رہے ہوں گے۔
6. تیمّم :
پانی نہ ہونے یا اس کے استعمال پر قادر نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرلینا بھی اسی اُمت کی خصوصیت ہے۔
7. مسجدًا وطهورًا:
یہ بھی اس اُمت کی ہی خاص فضیلت ہے کہ ساری زمین ہی اس کے لئے جائے نماز اور طہور ہے، یعنی تیمم کرسکتے ہیں۔
ارشادِ نبویﷺ ہے :
«جعلت لي الأرض مسجدا وطهورًا»23
8. عمل کم اور اَجر زیادہ :
پہلی اُمتوں کی نسبت اس اُمت کے لوگوں کا وقت کم ہے ۔ عصر تا مغرب اور عمل بھی کم ہے جبکہ اجر زیادہ ہے۔
9. اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں:
قیامت کے دن دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ سب سے پہلے اس اُمت کےلوگوں کو دیا جائے گا۔
10. چھوٹے بچے:
چھوٹے بچے جو فوت ہوجاتے ہیں، قیامت کے دن اپنے والدین کی شفاعت کے لیے ان کے آگے آگے بھاگ رہے ہوں گے۔
11. قرآن وسنت کی حفاظت:
قرآنِ کریم کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے :
﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ...٩ ﴾24
اور احادیث کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے علما کےذریعے انتظام فرمایا ہے اور اس اُمت کے پاس اپنے سے لے کر اپنے نبی تک قرآن و حدیث کی سند موجود ہے جو کہ کسی اوراُمت کے پاس نہیں ہے۔
یہ ان چند ایک خصوصیات میں سے ہیں جو امت محمدیہ کو وہبی طورپر اللہ عزوجل نے عطا کئے ہیں۔ذیل میں وہ خصوصیات ملاحظہ فرمائیں جن کو حاصل کرنے کی استعداد اللہ تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ میں ودیعت فرمائی ہے:
2. کسبی:
امت محمدیہ کی فضیلت کا دوسرا پہلو کسبی ہے یعنی اس اُمت کے اندر خیر حاصل کرنے والی استعداد اور صفات موجود ہیں، البتہ یہ فضیلت بھی اللہ تعالیٰ نےاسے اپنی حکمت و مشیت کے تحت عطا کی ہے۔ اس کی مثالیں بھی قرآن و حدیث میں موجود ہیں:
1.خیر الامم:
اُمتِ محمدیہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے خیر الامم کی فضیلت سے نوازا ہے ۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :
﴿كُنتُم خَيرَ‌ أُمَّةٍ أُخرِ‌جَت لِلنّاسِ تَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ... ١١٠ ﴾25
''تم بہترین اُمت ہوں جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم دیتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو اوراللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔''
اس آیتِ کریمہ میں اُمتِ محمدیہ کےخیر اُمت ہونےکے تین اسباب بیان کئے گئے ہیں:
الف. امر بالمعروف:
امت کی خیریت کا پہلا سبب یہ ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دیتے ہیں۔
ب. نہی عن المنکر:
دوسرا سبب بُرائی سے روکنا ہے۔ یاد رہے کہ دعوت الیٰ اللہ صرف وعظ و نصیحت نہیں بلکہ نہی عن المنکر بھی اس دعوت میں شامل ہےاور یہ اس اُمت کا کام ہے۔ اس کی وضاحت اس حدیث سے بھی بخوبی ہوجاتی ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا:
«من رأىٰ منكم منكرًا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه وإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان»26
یہ حدیث بہت ہی مؤثر ہے کہ اگر طاقت ہےتو ہاتھ سے ورنہ زبان سے بُرائی کو مٹانے کی کوشش کی جائے۔ اگر نہیں تو کم از کم دل سے تو بُرا جانے اگر یہ بھی نہیں تو پھر ایسے آدمی کو ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔ تو جو آدمی اس آیت کا مصداق بننا چاہتا ہے، اسے چاہیےکہ اس میں مذکور شرائط پر عمل کرے اور جو شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرتا تو ایسا شخص خیر اُمت میں سے نہیں ہے۔
ج. ایمان باللہ:
پہلی اُمتوں کی نسبت اس اُمت میں یہ صفت بہت زیادہ ہے اوریہ بھی اس اُمت میں موجود نمایاں خصوصیات میں سے ہے۔
2. بلا حساب جنتی :
اُمتِ محمدیہ کی یہ نمایاں فضیلت صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اس اُمت کے 70ہزار افراد بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ
'' میں نے دعا کی: اے اللہ! یہ 70 ہزار افراد کم ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان میں سے ہرشخص کےساتھ 70،70 ہزار بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے۔''27
صحابہ نے عرض کی: اےاللہ کے رسولﷺ یہ کون لوگ ہیں؟ کیا اس سےرسول اللہﷺمراد ہیں یا وہ لوگ جو اسلام میں پیدا ہوئے تو آپ ﷺ نے ان لوگوں کی چار صفات بیان کردیں کہ جن میں یہ پائی جائیں گی، وہ اُمت کے بہترین لوگ ہیں۔
الف. دم کرنے کا مطالبہ کرنا:
بلا حساب جنت میں داخل ہونے والوں کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ دم طلب کرنے والے نہیں ہیں کیونکہ اس سے توکل ختم ہوجاتاہے۔
ب. داغنا :
دوسری صفت یہ ہے کہ وہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے جسم کو داغنے والے نہیں ہیں۔
ج. بدفالی لینا:
وہ بدفالی لینے والے نہیں ہیں۔نیک فالی لینا صحیح ہے جبکہ بدفالی لیناغلط ہے اوریہ شرک کے زمرے میں آجاتا ہے۔
د. توکّل :
﴿وَعَلىٰ رَ‌بِّهِم يَتَوَكَّلونَ... ٣٦﴾ یعنی بلا حساب جنت میں جانے والے ہر معاملے میں صرف اپنے ربّ پر ہی توکل کرنےوالے ہیں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر توکل اور اعتماد کرناوغیرہ صفاتِ کسبی ہیں۔ اورایک روایت میں لا یَرقُون کےلفظ بھی ہیں، لیکن یہ ثابت نہیں ہیں بلکہ شاذ ہیں۔
3. حمد ِباری تعالیٰ:
اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ سے فرمایا:
«إني باعث بعدك أمة إذا أصابهم ما يحبون حمدوا لله وشكروا وإذا أصابهم ما يكرهون احتسبوا وصبروا. لا حلم ولا علم. قال: يا ربّ كيف يكون؟ قال أعطيهم من حلمي وعلمي»28
''یقیناً میں آپ کے بعد ایک ایسی اُمت بھیجنے والا ہوں جب اُنہیں اُن کی پسندیدہ چیز حاصل ہوگی تو وہ اللہ تعالیٰ کی حمدبیان کریں گے اور اُس کاشکر ادا کریں گے اورجب کوئی ناپسندیدہ معاملہ پیش آئے تواللہ سے اجر کی اُمید کرتے ہوئے صبر کریں گے۔''
اس صحیح حدیث میں اس اُمت کی فضیلت کا بیان ہے کہ اس کے اندر حمد اور شکر کا مادہ رکھا گیا ہے۔اللہ ربّ العزّت فرماتے ہیں: ﴿ اَلتَّآىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ ﴾29
''اس اُمت کےلوگ توبہ کرنیوالے، اپنے ربّ کی عبادت اورحمد کرنیوالے ہیں۔''
نعمت کے وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور مصیبت کے وقت صبر کرنا اس اُمت کی صفاتِ خیر میں سے ہیں۔
4. وارثانِ انبیا:
اس امت کے اندر ایسے علما بکثرت موجود ہیں جو انبیا کے صحیح وارث ہیں اوراس جانشینی کا حق بھی اداکررہے ہیں، البتہ ان کا درجہ انبیا سے کم ہے۔ آپﷺ کا فرمانِ مبارک ہے: «العلماء ورثة الأنبیاء»30
الغرض اللہ تعالیٰ نے اس اُمت میں صفات و خصائل خیر بہت زیادہ رکھی ہیں۔
طبقات ِاُمت
اس اُمت کے تین طبقات ہیں:
1. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
2. تابعین عظام
3. تبع تابعین
یقیناً یہ لوگ اُمت کے افضل ترین انسان ہیں اوراس کی گواہی آپﷺ نے حدیث میں دی ہے۔فرمایا: «خیر القرون قرني ثم الذین یلونهم ثم الذین یلونهم»31
''سب سےبہتر لوگ وہ ہیں جو میرےزمانے میں ہیں،پھر وہ لوگ جو اُن کےبعد ہوں گے، پھر وہ جو اُن کےبعد ہوں گے۔ ان میں ایمان، علم، عمل، نصیحت، دعوت و جہاد اور للہیت جیسے اسباب و صفاتِ خیر بہت زیادہ تھیں۔''
عظمتِ صحابہ
یہ امت افضل الاُمم ہے اورخیر القرون کےلوگ اُمت میں افضل لوگ ہیں اور اصحابِ رسول ﷺ تو سب سے افضل ہیں۔ یہ ہمارا اہل السنّۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے اور صحابہ سب کے سب جنتی ہیں۔
محمد بن کامل کرزی قرآنِ کریم پر عبور رکھنے والے مفسر ہیں، اُنہوں نےفرمایا کہ اصحابِ رسولؐ جنتی ہیں تو ان کے شاگرد حماد نے پوچھا کہ یہ بات کہاں ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ یہ قرآنِ مجید میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَالسّـٰبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـٰجِر‌ينَ وَالأَنصارِ‌ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ رَ‌ضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَ‌ضوا عَنهُ وَأَعَدَّ لَهُم جَنّـٰتٍ تَجر‌ى تَحتَهَا الأَنهـٰرُ‌ خـٰلِدينَ فيها أَبَدًا ذ‌ٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ... ١٠٠ ﴾32
یہ آیتِ کریمہ صحابہ کے فضائل و مناقب، اُن سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور ان کے جنتی ہونے کے بارے میں نص صریح ہے۔
اتباع صحابہ:
وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ کی دو تفسیریں ہیں:
الف. بعد میں مسلمان ہونے والے اور صغار یعنی چھوٹے صحابہ
ب. اوراس کی دوسری تفسیریہ کی جاتی ہے کہ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ سے ساری اُمت مراد ہے بشرطیکہ اعمالِ حسنہ میں ان کی اتباع کی جائے۔
اتباع بالحسنہ:
اتباع بالحسنہ کی بھی دو تفسیریں ہیں:
الف. اصحابِ رسولﷺ کی ثنا اور مدح کرنا
ب. صحابہ کے منہج کو اپناتے ہوئے اعمالِ حسنہ میں ان کی اتباع کرنا
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمام صحابہ اوراُن کے اتباع سے راضی ہے۔
مراتبِ صحابہ
فضائل و مناسب کے لحاظ سے صحابہ کے مختلف مراتب ہیں۔
1. عشرہ مبشرہ :
عشرہ مبشرہ صحابہ سے مراد وہ دس صحابہ ؓ ہیں جن کو آپﷺ نے ایک ہی مجلس اور ایک ہی جملے میں جنتی ہونے کی بشارت دی تھی۔فرمایا:
«أبوبکر في الجنة وعُمر في الجنة وعثمان في الجنة وعلي في الجنة... الخ»33
2.بدری صحابہ :
بدری صحابہ سب کے سب جنتی ہیں۔ فرمان نبویؐ ہے:
«إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَكُونَ قَدْ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ»34
''یہ صحابی بدر میں شریک تھے، اور آپ کو کیا پتہ؟ شاید کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف توجہ کرکے فرمایا کہ تم جو جی چاہے کرلو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔''
3. بیعتِ رضوان:
حدیبیہ کےمقام پر ایک درخت پر آپﷺ کے ہاتھ پر جہاد کے لیےبیعت کرنےوالے تقریباً چودہ صد صحابہ ہیں اور وہ سب کے سب جنتی ہیں۔
بغض صحابہ
اللہ تعالیٰ اپنےنبیﷺ کے صحابہؓ سے راضی ہونے کا اعلان فرماتے ہیں تو جو بدبخت صحابہ ؓ سے بغض رکھے۔ اُن کو گالی دے، کافر و مرتد کہے توگویا وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کھڑا ہوا ہے اور ایسا شخص یقیناً ہلاک و برباد ہوگیا۔
امام ابن کثیر نے کتنی اچھی بات کہی ہے، فرماتے ہیں:
«فيا ويل من أبغضهم أو سبهم أو أبغض أو سبّ بعضهم»35
''پس ہلاکت ہے اس کے لیے جس نے صحابہؓ سےبغض رکھا یا اُن کو گالی دی یا کسی بھی صحابیؓ سے بعض رکھا یااُس کوبرا بھلا کہا۔''
مشاجراتِ صحابہؓ کے دوران جو اختلاف ہوئے ، ہمیں اس بارے میں اچھی گفتگو ہی کرنی چاہیے۔ وہ صحابہ ان میں معذور ہیں اوراللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کررکھا ہے۔
اقسام مراتبِ اُمت
صحابہؓ اُمت کے افضل ترین لوگ ہیں البتہ بعد میں آنے والے اُمت کے افراد تین اقسام پرمنقسم ہوں گے:
1. اہل اسلام
2. فرقہ ناجیہ
3. طائفہ منصورہ
ان تینوں گروہوں میں عموم و خصوص کی نسبت ہے:
1. اہل اسلام :
اس میں کلمہ پڑھنے والے سب لوگ داخل ہیں، بلکہ ان میں اہل بدعت بھی شامل ہیں۔ اسے' اُمتِ اجابت' بھی کہا جاتا ہے۔
اہل سنت غیر محضہ: جن لوگوں کاعقیدہ توحید ہے اور اُن میں شرک نہیں ہے لیکن بدعت، تقلید اور بعض خرافات موجود ہیں تو یہ لوگ اہل سنت غیر محضہ ہیں جیسے اشاعرہ، ماتریدیہ وغیرہ۔ البتہ بڑی بدعات والے اہل بدعت اِن میں شامل نہیں ہیں لیکن اہل اسلام میں اُن کا شمار ہوگا۔
2. فرقہ ناجیہ:
جس راستے نبیﷺ اور آپ کےصحابہؓ چلےتھے، جو اس راستے اور منہج پرچلیں، اُن کا عقیدہ صحیح ہو اورقرآن و سنت کی پیروی کرنے والے لوگ ہوں۔
3. طائفہ منصورہ:
طائفہ منصورہ فرقہ ناجیہ کے اندر ہی ایک خصوصی جماعت ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے خصوصی نصرت و انعام کا اور ان کے ہاتھ پرغلبہ دین کا وعدہ کیا ہے۔
صفاتِ طائفہ منصورہ :
طائفہ منصورہ کی تین صفات ہیں:
الف. عقیدہ صحیح ہو اور عمل میں بھی قرآن و سنت کی پیروی کرنےوالے لوگ ہوں۔
ب. اس کے ساتھ ساتھ کتاب و سنت کی دعوت دینے والے لوگ ہیں۔اگر عقیدہ صحیح کتاب و سنت کا متبع ہے، لیکن دعوت نہیں ہے تو یہ فرقہ ناجیہ میں شامل ہے، عاقبت صحیح ہے البتہ طائفہ منصورہ میں شامل نہیں۔
ج. اوراس کے ساتھ ساتھ جہاد فی سبیل اللہ بھی ہو جس کا حدیث میں ذکر ہے:
«لا تزال طائفة من أمتي یقاتلون علىٰ الحق»36
''میری اُمّت میں ہمیشہ ایک گروہ رہے گا جو حق کے لئے جہاد کرتا رہے گا۔''
اوریہی غلبہ اسلام کا راستہ ہے، طائفہ منصورہ کا راستہ ہے۔کتاب و سنت کامل ہے، اس میں خیر ہے اوریہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ اگر اس کے علاوہ دوسرے راستے اختیارکئے جائیں جو لوگوں نے اپنے ذہنوں سے نکالے ہیں تو یہ خیر والے راستے نہیں ہیں۔ جس طرح یہ ہمارے جمہوریت والے کرتے ہیں تو یہ وقت کا ضیاع ہے، یہ راستہ خلافتِ اسلامیہ کاراستہ نہیں ہے۔
تومشکوٰۃ المصابیح کی اس آخری حدیث میں اس اُمت کی فضیلت و منقبت بیان کی گئی ہے اور آپﷺ نے ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی اُمتیں جو گزر چکی ہیں تم ان سب کے آخر میں ان 70؍اُمتوں کو پورا کرنے والا، ان سب سےبہتر اور اللہ کے ہاں سب سےزیادہ عزت والے ہو۔
یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتیں ہیں اوراللہ کا شکر ادا کرنا ہم سب پر لازم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو خیر اُمت بالخصوص فرقہ ناجیہ اورطائفہ منصورہ میں شامل کرے۔اللہم ربنا آتنا فی الدنیا حسنة وفی الآخرة حسنة وقنا عذاب النار!
حوالہ جات
1. مشکوٰۃ المصابیح:رقم 6285
2. السلسلۃ الصحیحۃ: 3189
3. صحیح بخاری :69
4. سورة الحدید:27
5. ایضاً :29
6. سورة الحدید:28
7. سورة یوسف:22
8. سورة القصص:14
9. سورة یوسف :23
10. صحیح بخاری: 48
11. السلسلۃ الصحیحۃ :2609
12. صحیح بخاری :2252
13. سورة المؤمنون:51
14. مواہب الجلیل:3؍501
15. سورة التوبۃ:122
16. صحیح بخاری:1284
17. سورة القصص:64
18. سورة البقرة:253
19. سورة النمل:30
20. سورة النحل:89
21. السلسلۃ الصحیحۃ:3562... قال الالبانی: ہذا اسناد حسن
22. اگرچہ اس حدیث کو شیخ البانی نے سلسلہ ضعیفہ:868 میں اورعلامہ ابواشبال شاغف نے جامع البیان میں ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس کا صحیح ہونا راجح ہے، کیونکہ اس کی ایک دوسری سندابوبکر محمد بن ہارون الرویانی (متوفی307ھ )کی مسندالرویانی: رقم 528 میں بھی ہے اور وہ حسن صحیح کے درجے میں ہے، چونکہ یہ سند ان علما کی نظر سے نہیں گزری، اس لیےوہ معذور ہیں۔
23. صحیح بخاری:419
24. سورة الحجر:9
25. آل عمران:110
26. صحیح مسلم :70
27. السلسلۃ الصحیحۃ:1484
28. شعب الایمان ازبیہقی:4482
29. سورۃ التوبۃ:112
30. سنن ابو داود: 3643
31. سنن ابو داود:4038
32. سورة التوبہ: 100
33. سنن ابن ماجہ:130
34. صحیح بخاری: 2785
35. تفسیر ابن کثیر:2؍422
36. صحیح مسلم :225
 
شمولیت
جولائی 20، 2013
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
محترم آپ کے اقتباس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ احسان الہی ظہیر شہید لاشعوری طور پر تصوف کی حمایت کرتے رہے ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مولانا میر سیالکوٹی کونسے تصوف کے قائل تھے؟کیونکہ یہاں ہر شخص کا اپنا نظریہ تصوف ہے۔وضاحت فرمائیں،
آپ اسی فورم پر موجود میرصاحبؒ کی کتاب سراجا منیرا کا مطالعہ فرمائیں۔
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
السلام علیکم
مختصراً
مراقبہ نام ہے دل ودماغ کے استحضار کا جس میں استغراق والی کیفیت ہوتی ہے۔ جوکہ غلو محبت کا دوسرا نام ہے
اور یہ دو قسم کا ہوتا ہے
''وہبی''
اور ''کسبی''
''وہبی ''یہ اللہ کے مخصوص بندوں کو من جانب اللہ حاصل ہوتی ہے جیسے انبیاء کرام اور اولیاء کرام اور دیگر مخصوص بندے
کیفیت ان مخصوص حضرات کی یہ ہوتی ہے کہ جسم دنیا میں ہوتا ہے اور دنیاوی امور بھی انجام دیتے ہیں لیکن دل و دماغ کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان نفوس سے غلطیوں کا ارتکاب نہیں ہوتا
اور رہی بات ''کسبی'' مراقبہ کی تو اس کی دو شکلیں ہیں
ایک محمود اور دوسری غیر محمود
''محمود '' ذکر اذکار کے ذریعہ دل و دماغ کو یکسو کرلینا اور خود کو اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر سمجھنا
''غیر محمود'' اس طرح کی مشق کرنا جیسا کہ ہپناٹزم والے یا جوگی اور مشرکین کسی چیز کا تصور جماکر یا سامنے رکھ کر کرتے ہیں مثلاً شیخ کا تصور بتوں کا تصور یا کوئی شبیہ سامنے رکھنا یا غیر اللہ کا تصور جمانا یہ سب شرک اور غیر اسلامی طریقہ ہے اور حرام ہے
مراقبہ کی کیفیت
سورہ یوسف مراقبہ کی بہترین مثال ہے اگر اس میں تدبر کیا جائے
ایک مثال پیش کرتا ہوں

فَلَمَّا رَاَيْنَہٗٓ اَكْبَرْنَہٗ وَقَطَّعْنَ اَيْدِيَہُنَّ۝۰ۡوَقُلْنَ حَاشَ لِلہِ مَا ھٰذَا بَشَرًا۝۰ۭ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا مَلَكٌ كَرِيْمٌ۝۳۱ [١٢:٣١]
جب عورتوں نے ان کو دیکھا تو ان کا رعب (حسن) ان پر (ایسا) چھا گیا کہ (پھل تراشتے تراشتے) اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بےساختہ بول اٹھیں کہ سبحان الله (یہ حسن) یہ آدمی نہیں کوئی بزرگ فرشتہ ہے
فقط واللہ اعلم بالصواب
إنا لله وإنا إليه راجعون
یہ کیسی مراقبہ کی 'بہترین مثال' ہے کہ جس میں ’مراقبہ‘ کرنے والی فاسق وفاجر، زنا کی دعوت دینے والیاں، مکر وفریب اور کید وخداع کرنے والی عورتیں ایک غیر مرد کے حسن سے متاثر ہو کر اپنے ہی ہاتھ کاٹ رہی ہیں؟؟؟!

میرے بھائی! مراقبہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان ہر وقت یہ تصور کرے کہ میری نگرانی ہو رہی ہے، اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، لہٰذا وہ گناہوں سے باز رہے۔ اس کی اصل مثال زلیخا کی دعوتِ زنا کے جواب میں حضرت یوسف علیہ السلام کا ’معاذ اللہ‘ کہنا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
السلام علیکم
دو چار دنوں سے مراقبہ سے متعلقہ مباحث کی تلاش میں تقریبا مراقبہ کی سی کیفیت کے ساتھ مشغول رہا ہوں۔ تلاش کے دوران ابھی محدث فورم کے اس صفحہ پر پہنچ گیا۔ مراقبہ کا ایک تصور سلف صالحین کا ہے اور ایک صوفیاء کا۔ دونوں میں کافی فرق ہے۔ امام ابن قیم نے مدارج السالکین میں ایک فصل المراقبۃ کے نام سے قائم کی ہے۔ یہ درحقیقت سلف صالحین کے تصور مراقبہ کو بیان کر رہی ہے اور یہی وہ مراقبہ ہے کہ جس کی صدائے بازگشت آج بھی خطبات حرمین میں بھی آپ کو نظر آئے گی۔ اس کے جواز میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔

صوفیاء، خاص طور متاخرین نے، مراقبہ کو ایک پوری سائنس بنا دیا ہے کہ جس سے بیماریوں کا علاج تک کیا جاتا ہے۔ اس مراقبہ کے لیے درجات، قسمیں، اوقات اور ہدایات کی لمبی چوڑی تفصیلات ہیں۔ مثال کے طور وہ کہتے ہیں کہ مراقبہ کا بہترین وقت طلوع آفتاب سے پہلے ہے یا غروب آفتاب کے بعد اور اس کی ایک ریزن ان کے پاس یہ ہے کہ لاشعوری حواس اس وقت میں متحرک ہوتے ہیں یا ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر اس کی بجائے یہ ریزن دی جاتی کہ ان دو اوقات میں تسبیح وتہلیل کا حکم قرآن مجید میں بار بار دیا گیا ہے کہ وہ صبح وشام اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں تو اور بات تھی۔ اسی طرح ان کے نزدیک مراقبہ کا اوسط وقت ۲۰ تا ۴۵ منٹ ہوتا ہے اور اس وقت میں آپ نے ایک کم روشنی والی جگہ میں سکون واطمینان سے بیٹھ جانا ہے اور اپنے حواس معطل کر دینے ہیں یعنی آنکھیں، کان اور سوچ وغیرہ کو بند کر دیں۔ خالی الذہن ہو جائیں۔ خالی الذہن ہونے سے مراد تمام سوچوں کو معطل کر کے ایک نقطے پر مرکوز کر دیں۔ اوسط مراقبے چار مہینے تک جاری رہتے ہیں لیکن ایک مہینے میں انسان کو عجیب و غریب تجربات ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جسے یقین نہ آئے وہ تجربہ کر کے دیکھ لے۔ بہر حال ہزاروں لوگ نے کچھ ایسی باتیں بیان کی ہیں اور ان میں معاصر لوگوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو مراقبہ کے نتائج اور ثمرات سے بحث کرتی ہیں۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ظاہری حواس معطل کر دینے سے اور ذہن کو ایک نقطہ پر مرکوز کر دینے سے لاشعوری طاقتیں نفس میں بیدار ہو جاتی ہیں یعنی روح کے حواس خمسہ اور ان کے ذریعے انسان باطنی دنیا کو دیکھنا شروع کر دیتا ہے یعنی وہ دنیا جو وہ موت کے بعد دیکھے گا۔ بہر حال امام غزالی رحمہ اللہ سے لے کر شاہ ولی اللہ دہلوی تک بڑے بڑے نام ملتے ہیں جو اس تصور مراقبہ کی کسی نہ کسی درجے میں نہ صرف حمایت کرتے نظر آتے ہیں بلکہ عملا بھی اس کی پریکٹس کرتے رہے ہیں اور بعض تو باطنی آنکھ کے کھلنے پر قسم کھاتے بھی نظر آتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص فجر کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر پندرہ یا بیس یا پچیس وغیرہ منٹ کے لیے آنکھیں بند کر کے اپنے حواس کو معطل کر دے اور ذہن صرف اسی نقطہ پر مرکوز کر دے کہ اللہ تعالی مجھے دیکھ رہا ہے تو کیا یہ شرعا جائز ہو گا؟ اور دلیل اس میں حدیث جبرئیل کو بنائے کہ میں وہ کیفیت حاصل کرنے کے لیے مشق کر رہا ہوں کہ اللہ کی ایسے عبادت کروں کہ اللہ تعالی مجھے دیکھ رہے ہوں، اور اگر اس سوال میں ایک اضافہ یہ بھی کر لیا جائے کہ اگر اس مشق سے واقعتا اس کو بہت فائدہ ہوتا ہو جیسا کہ صوفیاء نے دعوی کیا ہے کہ مراقبہ سے احسان کی کیفیات قطعی طور حاصل ہوتی ہیں تو کیا مقصد شرعی کے حصول کے لیے ایسا کرنا جائز ہو گا؟

یا سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صوفیاء مراقبے کے ذریعے فناء، سیر الی اللہ، فناء فی اللہ، سیر من اللہ، بقاء باللہ کے مراتب سے گزرتے ہیں۔ ان کے بقول وہ مقام اعراف کو دیکھتے ہیں، اپنے رب کو دیکھتے ہیں، موت کے بعد کی زندگی کو دیکھتے ہیں، مرے ہووں کو دیکھتے ہیں وغیرہ ذلک۔ اور اس کی صحت پر قسمیں کھاتے ہیں۔ یہ دعوے پچھلے ہزار سال سے ہزاروں لوگ کر رہے ہیں، اس سے اتنی بات تو کہی جا سکتی ہے کہ وہ کچھ دیکھتے ضرور ہیں، لیکن کیا دیکھتے ہیں؟ اس میں بحث ہو سکتی ہے؟ مجھے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح ظاہری حواس خطا کرتے ہیں جسے ہالوسینیشن کہتے ہیں، سائیکالوجی کی ایک اصطلاح ہے، اسی طرح باطنی حواس بھی خطا کر جاتے ہیں، یہ بات صرف ایک شخص نے کہی ہے اور وہ بھی فیلڈ کے آدمی ہیں، شیخ مجدد الف ثانی، لیکن وہ ایک طرف یہ تو کہتے ہیں کہ ابن عربی نے دیکھا ضرور ہے لیکن غلط دیکھا ہے یعنی وحدت الوجود وہ نچلے مقام پر رک گیا حالانکہ حقیقت اس سے آگے تھی لیکن وہ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ جو میں نے دیکھا ہے وہ صحیح ہے، وہ آخری مقام ہے یعنی وحدت الشہود یعنی اعدام متقابلہ میں اسمائے حسنی کا عکس۔ یہاں وحدت الوجود یا وحدت الشہود معروف سطحی معنوں میں نہیں ہے۔ کیا یہ جانچنے کے لیے کہ وہ کیا دیکھتے ہیں کسی سلفی کو اس نظام میں داخل ہو کر تحقیق کرنی چاہیے؟ سادہ الفاظ میں صوفیاء کے تجربات کی تحقیق کے لیے ان کی مشقوں کو اختیار کرنے کی شرعی اجازت ہو سکتی ہے؟اس پر کچھ مواد تلاش کر رہا تھا کہ یہ پوسٹ سامنے آ گئی؟ اگر کسی بھائی کی نظر سے اس موضوع پر کسی سلفی عالم دین کی تحریر گزری ہو تو اس کا ریفرنس اگر دے دیں؟ یا کوئی بھائی اپنی رائے دینا چاہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اور اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ قیامت کےدن علما سے گویا ہوں گے: «إني لم أضع علمي فیکم لأعذّبکم»22
''میں نے اپنا علم تمہیں اس لیے نہیں دیاتھا کہ تمہیں عذاب دوں۔ تم چلے جاؤ، میں نے تمہیں معاف کردیا۔''
اگرچہ اس حدیث کو شیخ البانی نے سلسلہ ضعیفہ:868 میں اورعلامہ ابواشبال شاغف نے جامع البیان میں ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس کا صحیح ہونا راجح ہے، کیونکہ اس کی ایک دوسری سندابوبکر محمد بن ہارون الرویانی (متوفی307ھ )کی مسندالرویانی: رقم 528 میں بھی ہے اور وہ حسن صحیح کے درجے میں ہے، چونکہ یہ سند ان علما کی نظر سے نہیں گزری، اس لیےوہ معذور ہیں۔
یہ روایت ضعیف ہے ،اس کی سند مین سعید بن ابی ہند کا ابو موسی سے سماع ثابت نہیں ہے جیسا کہ علامہ الالبانی نے لکھا ہے :

وسعيد بن أبي هند؛ قال الحافظ:
"ثقة، أرسل عن أبي موسى
"(الضعیفہ:۴۸۳۳)
 
Top