ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
مکالمہ کو بہترین بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب کی نفسیات کو سامنے رکھا جائے۔ مثلا اگر ایک سلفی کسی صوفی سے مکالمہ کرنا چاہتا ہے تو اسے صوفی کی نفسیات سے واقف ہونا چاہیے۔
ابو الحسن علوی صاحب ایک موجوداہ دور کے صوفی کہتے ہیں ۔مراقبہ دیں کا حصہ سمھج کر
نہ کیا جاے تو یہ بدعت نہیں ہے۔
مراقبہ کی حقیقت کیا ہے، جو صوفیاء نے سمجھا ہے، وہ اوپر بیان ہو چکا۔ اس میں ایک چیز اہم نظر آتی ہے اور وہ حواس ظاہری یا حواس خمسہ کا تعطل ہے تا کہ کل توجہ اللہ کی طرف منتقل ہو جائے۔ باقی رہی اس کی ٹائمنگ یا ہیئت تو یہ درست نہیں ہے۔ مثلا صوفیاء کہتے ہیں کہ مراقبے میں آنکھیں بند ہونی چاہییں۔ میرے خیال میں اس کا تعلق مراقبے سے نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ حواس کا تعطل آنکھیں کھول کر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ بعض لوگ کھلی آنکھوں سوتے ہیں یا ہم اگر سٹرک پر سفر کر رہے ہوں تو راستے میں ہزاروں چیزوں کو دیکھتے ہیں لیکن ہماری توجہ چونکہ ان کی طرف نہیں ہوتی، ہم کچھ اور سوچ رہے ہوتے ہیں لہذا انہیں ہمارا دیکھنا یا نہ دیکھنا برابر ہوتا ہے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ یا تابعین یا ائمہ ایسے مراقبہ نہیں کرتے تھے جیسا کہ صوفیاء کرتے ہیں۔ لیکن صوفیاء کی بعض باتیں قابل توجہ معلوم ہوتی ہیں۔ جیسا کہ ان کا یہ کہنا ہے کہ اللہ کی طرف کامل توجہ کے لیے حواس ظاہری کو معطل کر دیں۔ اس بنیاد کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم مراقبے کی بہترین صورت متعین کرنا چاہیں تو وہ تہجد کی نماز ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ المزمل میں وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلاً کا حکم دیا گیا یعنی دنیا وما فیہا سے انقطاع کامل جو اللہ کی طرف توجہ کامل کا سبب بنے گا۔ یہی وہی بات ہے جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تعبد اللہ کانک تراہ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ مراقبہ کا مقام نماز ہے۔ اور نماز میں بھی خاص طور تہجد کی نماز کیونکہ عام فرض نمازوں میں استغراق کی کیفیت نہیں ہوتی تھی جیسا کہ قرآن نے بھی کہا ہے: ( إِنَّ لَكَ فِي اَلنَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلا ) فرض نمازوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز ہلکی کر دیتے تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فرائض میں استغراق مطلوب نہیں ہے۔ واللہ اعلم
مراقبے کی حقیقت یہی ہے کہ انسان تہجد کی دو رکعت میں قرآن مجید کی تلاوت کرے اور تلاوت وتسبیحات میں تبتل یعنی انقطاع کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اگر انقطاع حاصل نہ ہو رہا ہو تو آنکھیں بھی بند کی جا سکتی ہیں جیسا کہ امام ابن قیم نے لکھا ہے کہ نماز میں خشوع وخضوع کے لیے آنکھیں بند کر سکتے ہیں۔ توجہ الی اللہ کا پہلا قدم انقطاع دنیا ہے۔ دنیا و ما فیہا سے انقطاع ہو گا تو توجہ کے حصول کا آغاز ہو گا۔ توجہ میں استغراق کے لیے قرآن مجید کی آیات اور تسبیحات کے معنی ومفہوم پر غور کرے۔
ایک شبہ یہ ہو سکتا ہے کہ مراقبے میں تو کسی ایک تصور پر غور کیا جاتا ہے تا کہ مرکزیت قائم ہو تو قرآن مجید کی آیات پر غور کرنے کی صورت میں متفرق مضامین پر غور کرے گا تو مرکزیت کیسے قائم ہو گی، ذہن تو ادھر ادھر منتقل ہوتا رہے گا۔ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید اللہ کی صفت ہے، صفت الہی ہونے کے اعتبار سے وہ ایک ہے، اگرچہ مضامین کے اعتبار سے متنوع ہے۔ قرآن مجید میں غور وفکر ایک اعتبار سے صفت کلام میں غور بھی ہے۔ اور اللہ کی صفات کے ذریعے اس کی ذات کا جو قرب حاصل کیا جا سکتا ہے، شاید کسی اور ذریعے سے حاصل نہ ہو۔ اس دنیا میں اللہ کی ذات کے تعارف کا سب سے بڑا ذریعہ بھی اس کی صفات ہی ہیں کہ جسے ہم توحید اسماء وصفات کا نام دیتے ہیں اور اس کے قرب کا ذریعہ بھی اس کی صفات ہی ہیں۔ اور ان صفات میں اللہ اور انسان کے مابین تعلق قائم کرنے کے لیے جو اہم ترین صفت ہے، وہ صفت کلام ہے یعنی قرآن مجید۔ باقی رہی یہ بات توجہ کے حصول کے لیے انقطاع کا حصول کیسے ہو تو اس بارے مزید کچھ لکھوں گا۔
ابو الحسن علوی صاحب ایک موجوداہ دور کے صوفی کہتے ہیں ۔مراقبہ دین کا حصہ سمھج کرمکالمہ کو بہترین بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب کی نفسیات کو سامنے رکھا جائے۔ مثلا اگر ایک سلفی کسی صوفی سے مکالمہ کرنا چاہتا ہے تو اسے صوفی کی نفسیات سے واقف ہونا چاہیے۔
مراقبہ کی حقیقت کیا ہے، جو صوفیاء نے سمجھا ہے، وہ اوپر بیان ہو چکا۔ اس میں ایک چیز اہم نظر آتی ہے اور وہ حواس ظاہری یا حواس خمسہ کا تعطل ہے تا کہ کل توجہ اللہ کی طرف منتقل ہو جائے۔ باقی رہی اس کی ٹائمنگ یا ہیئت تو یہ درست نہیں ہے۔ مثلا صوفیاء کہتے ہیں کہ مراقبے میں آنکھیں بند ہونی چاہییں۔ میرے خیال میں اس کا تعلق مراقبے سے نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ حواس کا تعطل آنکھیں کھول کر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ بعض لوگ کھلی آنکھوں سوتے ہیں یا ہم اگر سٹرک پر سفر کر رہے ہوں تو راستے میں ہزاروں چیزوں کو دیکھتے ہیں لیکن ہماری توجہ چونکہ ان کی طرف نہیں ہوتی، ہم کچھ اور سوچ رہے ہوتے ہیں لہذا انہیں ہمارا دیکھنا یا نہ دیکھنا برابر ہوتا ہے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ یا تابعین یا ائمہ ایسے مراقبہ نہیں کرتے تھے جیسا کہ صوفیاء کرتے ہیں۔ لیکن صوفیاء کی بعض باتیں قابل توجہ معلوم ہوتی ہیں۔ جیسا کہ ان کا یہ کہنا ہے کہ اللہ کی طرف کامل توجہ کے لیے حواس ظاہری کو معطل کر دیں۔ اس بنیاد کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم مراقبے کی بہترین صورت متعین کرنا چاہیں تو وہ تہجد کی نماز ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ المزمل میں وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلاً کا حکم دیا گیا یعنی دنیا وما فیہا سے انقطاع کامل جو اللہ کی طرف توجہ کامل کا سبب بنے گا۔ یہی وہی بات ہے جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تعبد اللہ کانک تراہ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ مراقبہ کا مقام نماز ہے۔ اور نماز میں بھی خاص طور تہجد کی نماز کیونکہ عام فرض نمازوں میں استغراق کی کیفیت نہیں ہوتی تھی جیسا کہ قرآن نے بھی کہا ہے: ( إِنَّ لَكَ فِي اَلنَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلا ) فرض نمازوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز ہلکی کر دیتے تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فرائض میں استغراق مطلوب نہیں ہے۔ واللہ اعلم
مراقبے کی حقیقت یہی ہے کہ انسان تہجد کی دو رکعت میں قرآن مجید کی تلاوت کرے اور تلاوت وتسبیحات میں تبتل یعنی انقطاع کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اگر انقطاع حاصل نہ ہو رہا ہو تو آنکھیں بھی بند کی جا سکتی ہیں جیسا کہ امام ابن قیم نے لکھا ہے کہ نماز میں خشوع وخضوع کے لیے آنکھیں بند کر سکتے ہیں۔ توجہ الی اللہ کا پہلا قدم انقطاع دنیا ہے۔ دنیا و ما فیہا سے انقطاع ہو گا تو توجہ کے حصول کا آغاز ہو گا۔ توجہ میں استغراق کے لیے قرآن مجید کی آیات اور تسبیحات کے معنی ومفہوم پر غور کرے۔
ایک شبہ یہ ہو سکتا ہے کہ مراقبے میں تو کسی ایک تصور پر غور کیا جاتا ہے تا کہ مرکزیت قائم ہو تو قرآن مجید کی آیات پر غور کرنے کی صورت میں متفرق مضامین پر غور کرے گا تو مرکزیت کیسے قائم ہو گی، ذہن تو ادھر ادھر منتقل ہوتا رہے گا۔ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید اللہ کی صفت ہے، صفت الہی ہونے کے اعتبار سے وہ ایک ہے، اگرچہ مضامین کے اعتبار سے متنوع ہے۔ قرآن مجید میں غور وفکر ایک اعتبار سے صفت کلام میں غور بھی ہے۔ اور اللہ کی صفات کے ذریعے اس کی ذات کا جو قرب حاصل کیا جا سکتا ہے، شاید کسی اور ذریعے سے حاصل نہ ہو۔ اس دنیا میں اللہ کی ذات کے تعارف کا سب سے بڑا ذریعہ بھی اس کی صفات ہی ہیں کہ جسے ہم توحید اسماء وصفات کا نام دیتے ہیں اور اس کے قرب کا ذریعہ بھی اس کی صفات ہی ہیں۔ اور ان صفات میں اللہ اور انسان کے مابین تعلق قائم کرنے کے لیے جو اہم ترین صفت ہے، وہ صفت کلام ہے یعنی قرآن مجید۔ باقی رہی یہ بات توجہ کے حصول کے لیے انقطاع کا حصول کیسے ہو تو اس بارے مزید کچھ لکھوں گا۔
نہ کیا جاے تو یہ بدعت نہیں ہے۔اور اسے کرنا بہتر ہے۔اور اس کو کرنے کاترغیب دیتے ہیں۔
جب میں دیوبندی تھا۔میں بھی مراقبہ کرتا تھا۔بہت مشکل کام ہے
Last edited: