• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرجئہ کون ہیں؟

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مرجئہ کون ہیں؟

مرجئہ کی تین اقسام :
1 ایمان میں ارجاء کے قائل ہیں اور قدری اورمعتزلہ کے مذہب پر ہیں۔
2 ایمان میں ارجاءکے قائل ہیں اورجبر یہ پر اعمال میں جھمیہ مذہب پر ہیں۔
3 جبریہ اور قدریہ دونوں سے باہر ہیں یہ کئی فرقے ہیں:الیونسیۃ،الغسانیہ،الثوبانیہ ،التومنیہ اور المریسیہ ،انہیں مرجئہ اس لئے کہا گیا ہے کہ انھوں نے عمل کو ایمان سے پیچھے کردیاہے۔اس لئے کہ ارجاء کا معنی ہے تا خیرکرنا اور پیچھے کرنا،کہا جاتاہے کہ:’’ أأرْ جَیْتُہ،وأرْجَأتُہ‘‘ جب میں کسی چیز کو پیچھے کرتاہوں۔

اور مرجئہ ایمان کے باب میں دوقسم کے ہیں:
1 غلو کرنے والے مرجئہ یعنی متکلمین مرجئہ۔
2 مرجئہ فقہاء۔
جو متکلمین مرجئہ ہیں:تو(ان میں سے) جہم بن صفوان اور اس کے پیروکارکہتے ہیں :ایمان یہ ہے کہ اس کاعلم رکھاجا ئے اور اس کی تصدیق کی جائے،دل کے(دوسرے)اعمال کو وہ ایمان میں شمارنہیں کرتے، ان کا خیال ہے کہ انسان دل سے بھی کامل مؤمن بن سکتاہے،اب چاہے وہ اﷲاور اس کے رسول کو گالی دے اور اﷲ کے دوستوں سے دشمنی اور اﷲکے دشمنوں سے دوستی رکھے اورمسجدیں منہدم کرے قرآن اور مؤمنین کی حددرجہ اہانت کرے اورکفار کی بہت عزت کرے،(ان سب کے باوجودمرجئہ کے دعویٰ کے مطابق اس ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑتا)وہ کہتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں گناہ ہیں،ایمان کے منافی نہیں ہیں جو دل میں ہے بلکہ یہ سب کرتے ہوئے بھی وہ باطنی طور پر اﷲکے نزدیک مؤمن ہے وہ کہتے ہیں کہ ایسے انسان پر دنیا میں کفار کے احکام اس لئے لگے کہ یہ تمام اقوال کفر کی علامات ہیں۔)نہ یہ کہ یہ بذات خود کفر ہوں(جب ان پر قرآن وحد یث اور اجماع سے دلائل پیش کئے جائیں کہ)مذکورہ گناہوں کے ارتکاب کرنے والوں(میں سے کسی ایک کوایک ہی گناہ کی وجہ سے کافر قرار دیاگیا ہے اور آخرت میں عذاب کا مستحق بھی قراردیا گیاہے۔ )جبکہ تم کہتے ہو کہ وہ صرف اس دنیا میں کافرہے آخرت میں یعنی عنداﷲ کافر نہیں ہے( تووہ کہتے ہیں کہ:یہ تو دل سے علم اور تصدیق کی نفی کی دلیل ہے۔ان کے نزدیک کفرایک ہی چیز ہے اور وہ جہل ہے اور ایمان ایک ہی چیزکا نام ہے اور وہ علم ہے۔یا یہ کہ دل کا جھٹلانا اور اس کا تصدیق کرنا ،ان کا آپس میں اختلاف ہے کہ کیا دل کا تصدیق کرنا علم کے علاوہ کوئی دوسری چیز ہے یا وہی ہے ۔یہ قول سب سے زیادہ فاسدترین قول ہے منجملہ ان اقوال کے جو ایمان کے بارے میں کہے گئے ہیں ،اس کے باوجود اس کی طرف بہت سے متکلمین مرجئہ مائل ہوئے ہیں ۔جبکہ سلف نے اس قول کے قائل کی تکفیرکی ہے مثلاً:وکیع بن الجراح ، احمد بن حنبل، ابوعبیدِِ﷭ اور انھوں نے کہا کہ ابلیس نص قرآنی کی رو سے کافر تھا اس کو اس کے تکبر کی وجہ سے اور آدم(علیہ السلام ) کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے کافر قرار دیا نہ کہ اس وجہ سے کہ اس نے )دل سے(خبرکو جھٹلایا تھا۔یہی وجہ سے فرعون اور اس کی قوم کی (تکفیرکی)تھی۔

اﷲتعالیٰ نے فرمایا:
وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا (النمل:۱۴)
’’انہوں نے صرف ظلم اور تکبر کی بناء پر انکار کردیا حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے۔ ‘‘

اور موسیٰ نے فرعون سے کہا :
لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ھٰٓؤُلَاءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرضِ بَصَآئِرَ. (بنی اسرائیل: ۱۰۲)
’’یقینا تو جان چکا ہے کہ آسمان وزمین کے رب نے ہی یہ) معجزے(دکھانے کو نازل فرمائے ہیں۔‘‘

یہ موسیٰ جو صادق ومصدوق ہیں اُسے یہ کہہ رہے ہیں ،تومعلوم ہوا کہ فرعون یہ جانتا تھا کہ یہ نشانیاں اﷲکی نازل کردہ ہیں اور وہ (فرعون)اﷲکی مخلوق میں اپنے قصد وارادہ کی فساد کی وجہ سے نہ کہ اپنی اورلاعلمی کی وجہ سے سب سے بڑا دشمنی اور سرکشی کرنے والا تھا۔
فرمان الٰہی ہے :
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الأرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ . (القصص :٤)
’’بے شک فرعون نے زمین میں سرکشی کررکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کوگروہ گروہ بنارکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور بنارکھا تھا ان کے لڑکوں کو ذبح کرتا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑدیتا تھا بے شک وہ مفسدوں میں سے تھا۔‘‘

اسی طرح یہود تھے کہ جن کے بارے میں اﷲنے فرمایا:
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ. (البقرۃ:١٤٦)
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جنھیں ہم نے کتاب دی وہ اُسے ایسے جانتے پہنچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کوپہچانتے ہیں۔‘‘

اسی طرح مشرکین کے بارے میں اﷲنے فرمایا:
فَإِنَّهُمْ لا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ. (الانعام:٣٣)
’’(اے محمدﷺ)بے شک وہ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ ظالم لوگ تو اﷲکی آیات کاانکار کرتے ہیں۔‘‘

اور جو مرجئہ فقہاء میں سے ہیں تو یہ وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ : ایمان دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کو کہتے ہیں۔ اور اعمال کو اس میں سے نہیں(شمارکرتے)ان مرجئہ فقہاءمیں سے ایک گروہ کوفہ کے فقہاءِ اور عابد لوگوںمیں سے بھی تھا۔مگران کا قول جہم بن صفوان کے قول کی طرح نہ تھا،وہ جانتے تھے کہ اگر قدرت رکھنے کے باوجودانسان زبان سے ایمان کا اقرارنہیں کرتا۔تو وہ مومن نہیں ہوسکتااور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ابلیس اور فرعون دل سے تصدیق کرنے باوجودکافرتھے ۔لیکن اگر وہ دل کے اعمال کو ایمان میں داخل نہ کرتے تو ان کو جہم بن صفوان کا قول لازم آتا،وہ عمل کی وجہ سے ایمان کے بڑھنے اور گھٹنے کے قائل بھی نہیں ہیں۔لیکن اتنا وہ کہتے ہیں کہ:ایمان کا بڑھنا شریعت کے مکمل ہونے سے پہلے تھا اس کا مطلب(ان کے ہاں) یہ ہے کہ اﷲنے جب بھی کوئی آیت نازل کی اس کی تصدیق واجب ہوئی ۔تویہ تصدیق اس تصدیق میں ضم ہوگئی،جو پہلے سے تھی لیکن جب وہ چیزمکمل ہوگئی جو اﷲ نازل کررہاتھاتو ان کے نزدیک ایمان میں تفاضل باقی نہ رہا،بلکہ تمام لوگوں کا ایمان برابر ہوا)چاہے( سابقین اولین جیسے ابوبکرو عمر کا ایمان یافاجر(اورظالم)جیسے حجاج اور ابو مسلم الخراسانی وغیرہ کا ایمان ان کے نزدیک برابر ہے۔ (کتاب الایمان ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫ )

اور ارجاء کا عقیدہ زمانے میں بہت عام ہے چا ہے وہ عوام میں ہویا دیندارکہلانے والوں میں ہو۔ عوام کے ارجاء میں سے ان کایہ مشہور قول ہے کہ: ایمان دل میں ہے۔اعمال کا ان کے نزدیک کوئی اعتبار نہیں بلکہ دل کے بناؤاور نیت کے صاف ہونے کی دلیل کی وجہ سے اعمال کو غیرضروری سمجھناان کی تو ہین کرنا اور ان کو چھوڑنا۔(اگر ارجاء نہیں تو اور کیا ہے۔)

اور جودین اور دعوت کی طرف منسوب لوگوں کا ارجاء ہے۔وہ غالبًا ایمان کی تعریف اور اس کے نام میں نہیں ،کیو نکہ وہ ایمان کی تعریف بالکل صحیح کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’ایمان، زبان کا قول دل کااعتقاد اور اعضاء کاعمل ہے ‘‘یا وہ کہتے ہیں کہ وہ ’’ قول اور عمل کا نام ہے‘‘یہ ایمان کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا قول ہے ۔لیکن اسے واقعاتی طور پر اور عملی انداز میں دیکھیں جائے ، خاص کر نواقض ایمان میں توآپ کو معلوم ہوجائے گا کہ جس رکن عمل کو انہوں نے تعریف میں ثابت کیا ہے وہ ان کے نزدیک فضول ہے۔بلکہ ساقط ہونے چھوڑنے کے قریب ہے۔ان کے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایمان اطاعت سے بڑھتا ہے اور نافرمانی سے گھٹتا ہے ۔جیساکہ اہل سنت نے کہا لیکن تمام گناہ ان کے نزدیک کمالِ ایمان کوصرف ناقص کرتے ہیں۔(ان کے نزدیک)ایسی کوئی چیز نہیں جو کہ اصل ایمان کو توڑنے والی ہو،مگرصرف ایک حالت میں(جن گناہوں سے ایمان ختم ہوجاتاہے)کہ ا ن کو حلال سمجھنا اور ان کا اعتقاد رکھنابھی شامل ہے اسی طرح کھلم کھلا(وہ کہتے ہیں) چاہے وہ گناہ یا عمل کسی بھی شکل میں ہو۔حالانکہ نبی ﷺنے توبیان فرمانے کے باوجودکہ :
’’الایمان بضع وسبعون شعبة )وفي روایة ترمذي(فأفضلھا ’وعندالترمذي )ارفعہا(قول:لاالٰہ الااﷲ وأدناھا اماطة الأذی عن الطریق والحیاء شعبة من الایمان‘‘(رواہ مسلم واصحاب السنن من حدیث ابی ھریرة )
’’ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں (ترمذی کی ایک روایت میں ہے)اس میں سب سے افضل ان میں سب سے بلند ارفع ’’لاالٰہ الااﷲ‘‘یعنی اس بات کی گواہی کہ:اﷲ کے علا وہ کو بھی عبادت کا مستحق نہیں۔اور سب سے ادنی رستہ میں سے تکلیف دہ چیز کاہٹاناہے۔ اورحیاء ایک اہم شاخ ہے۔ایمان کے درجات میں سے ہے‘‘۔اسے مسلم اور اصحاب سنن نے ابوہریرۃ سے روایت کیا۔

تو(معلوم ہوا) ایمان کی تمام شاخیں برابر نہیں ،یعنی ’’لاالٰہ الااﷲ‘‘کی شاخ (حیاء)یا (رستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا)کے برابرنہیں۔بلکہ بعض ان میں وہ ہیں جن کے زائل ہونے سے ایمان میں نقص آتا ہے۔جیسا کہ حیاء ،اوربعض ان میں وہ ہیں جن کے زائل ہونے سے ایمان ختم ہوجاتا ہے۔جیسا کہ ’’لاالٰہ الااﷲ‘‘ کی شاح۔

اور خوارج اورجنھوں نے تکفیریوں میں سے ان کی موافقت اور متابعت کی ہے۔ایمان کی(کوئی بھی) شاخ کے زائل ہونے کو(پورے)ایمان کا ناقص اور زائل ہونا قراردیا۔

گویاکہ ان(تکفیریوں)کے مذہب کے ردعمل میں اس زمانے کے مرجئہ ’’مرجئہ العصر‘‘آئے تو انھوں نے ایمان کی تمام شاخوں کے زوال کو صرف ناقص ایمان قراردیا،اور(ان کے نزدیک)کوئی چیزبھی ان میں سے ایمان کے اصل کوناقص یا زائل کرنے والی نہیں،مگرصرف وہ جس کے ساتھ انکار اورعقیدہ شامل ہوجائے یہ دونوں گمراہ ہیں۔

اور جواہل حق، فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ والے ہیں۔تو یہ سب ایمان اورکفرکے بارے میں اعتدال پر ہیں۔ایمان کی شاخیں ان کے نزدیک بعض توصرف کمال ایمان پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اُسے زائل نہیں کرتے۔ان کی دوقسم ہیں :
1 وہ جو کمال ایمان میں مستحب ہو۔(یعنی وہ ظاہر اقوال واعمال جن کے ساتھ ایمان کو مکمل کرنا مستحب ہو)
2 وہ جوکمال ایمان میں واجب ہو۔(یعنی جن کے ساتھ ایمان کو مکمل کرنے واجب ہو)اور ایمان کی شاخ میں بعض وہ ہیں جواصل ایمان کو زائل اور ناقص کرتے ہیں۔یعنی توڑدیتاہے۔اس بنا پر ان(اہل حق)کے نزدیک ایمان کی تین اقسام ہیں:
1 جوکہ کمال ایمان میں مستحب ہواور وہ یہ کہ جس میں شریعت کے بنانے والے نے رغبت دلائی مگر اس میں کمی پرکوئی پکڑنہیں۔
2 جوکہ کمال ایمان میں واجب ہواور وہ یہ کہ جس میں زیادتی یا کمی پرشارع نے ایسے وعیدسنائی ہوجو کفر تک نہ پہنچتی ہو۔
3 وہ جو کہ اصل ایمان میں سے ہیں تو وہ مرکب ہے ہر اس شاخ سے جس کے ناقض اورزائل ہونے سے ایمان زائل ہوجاتاہے۔

اوراہل حق دلیل شرعی کے سوا کسی بھی چیز کو ان میں سے فیصلہ کن نہیں مانتے۔﴿سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا﴾’’اے اﷲ!تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتناہی علم ہے جتناتو نے ہمیں سکھارکھاہے‘‘(البقرۃ: )۳۲۔اور(اہل سنت)ان میں سے کسی بھی چیز کو فیصلہ کرنے والا نہیں مانتے مگر تب جب اس کے ساتھ دلیل شرعی موجود ہو یا جب اﷲ اور اس کے رسول ﷺکی طرف سے نص موجود ہو۔

ابواب ایمان اور کفر میں ہمارے زمانے کے مرجئہ میں ارجاء کے لحاظ سے نزدیک ترین فرقہ بغداد کے مرجئہ مریسیہ ہے یہ لوگ بشر بن غیاث المریسی کے پیروکار ہیں جو کہ ایمان کے بارے میں یہ کہتا تھا کہ :وہ دل و زبان دونوں کی تصدیق کا نام ہے اور یہ کہ: کفر انکار کانام ہے،ان کاخیال تھا کہ بتوں کو سجدہ کرنا کفر نہیں بلکہ کفر پر دلالت کرتا ہے۔ )یعنی ان کے خیال میں بت کو سجدہ کرنا بذات خود کفر نہیں بلکہ یہ سجدہ کرنا دیکھنے والے کو بتا تا ہے کہ اس سجدہ کرنے والے کے دل میں کفر اور شرک ہے اس بناء پر وہ مشرک یا کافر ٹھہر تاہے۔(مثال کے طور پر دیکھئے عبدالقاہر بغدادی کی کتاب ’’الفرق بین الفرق‘‘عبدالقاھربغدادی ص۱۸۰)

اس لئے ہمارے زمانے کے مرجئہ کے خیال میں کوئی ایسا عملی کفر نہیں ہے جودین اسلام سے نکالنے والا ہو۔مگریہ کہ اس کا تعلق عقیدہ،انکار اور استحلال سے ہو۔ان کے نزدیک یہی کفر ہے۔(کہ آدمی کوئی حرام کام کرے اور اسے دل سے حلال بھی سمجھے جب تک اسے حرام نہ سمجھے تو کوئی بھی حرام کام یا بات ان کے نزدیک دین اسلام سے خارج کرنے والی نہیں ہے)چاہے وہ اﷲکو گالی دینے کے باب میں ہویا بت کو سجدہ کرنے یا اﷲکی شریعت کے علاوہ کفریہ قوانین بنانے میں ہویا اﷲکے دین کے ساتھ مذاق ہو،تویہ سب(ان کے نزدیک)بذات خود کفر نہیں ہے بلکہ وہ(ان کے نزدیک)اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا کرنے والاکفرکا عقیدہ رکھتا ہے،تو کفر(ان کے نزدیک)کسی)حرام چیز(کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھنا اس کا انکار کرنا)یاکسی حلال چیزکے حرام ہونے کا عقیدہ رکھنا اور اس کے حلال ہونے کا انکار کرناہے(اس چیز سے انہوں نے اہل اسلام پربہت بڑے شر کادروازہ کھول دیا جس سے ہرملحد اور زندیق اور اﷲ کے دین میں طعن کرنے والاامن اور اطمینان سے داخل ہوا،اور انھوں نے مرتد طواغیت کے لئے ایسی پیوندکاری کی اور ایسےشبھات کے ساتھ ان کی طرف جھگڑااور مناظرہ کیا کہ ان طواغیت کے وہم وگمان میں بھی نہ گزراہوگا،اورنہ کبھی ا نھوں نے سناہوگا،اور نہ ہی کبھی مرجئہ العصر جیسی کوئی مخلص فوج ملنے کا(سوچاہوگا)کہ جو ان کی طرف سے لڑے اوران کے باطل کا دفاع کرے ۔اس لئے بعض سلف نے ارجاء کے بارے میں فرمایاہے کہ ’’وہ ایسا دین ہے جو بادشاہوں کوخوش کرتاہے‘‘اور بعض نے مرجئہ کے فتنہ کے بارے میں کہا کہ وہ یہ’’ خوارج کے فتنہ سے زیادہ امت کے لئے خطرناک ہے ‘ ‘ اورکہا کہ ’’ہمارے نزدیک خوارج مرجئہ سے زیادہ معذور ہیں ‘‘یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو بے فکری میں کہی گئی ہوبلکہ یہ حق اور سچ ہیں،کیونکہ شروع میں خوارج جن اسباب کی بناء پر غلو اور انحراف پر مجبور ہوئے وہ اﷲ کے محرمات اوراس کی حدود کے لئے ان کا غصہ ہونا(اور ان کی غیرت)تھی۔یہی ان کا دعویٰ تھا۔جبکہ مرجئہ کو ان کا مذہب شرعی حدود کی خلاف ورزیوں اور دینی قواعد وضوابط سے خاص کی طرف لے گیا۔

اور اس نے ارتداد کے ابواب کفار کی آسانی اور زنادقہ کی سہولت کے لئے کھول دئیے۔ہمارے اس دور نے عصرِ حاضر کے خوارج اورتکفیرمیں غلوکرنے والوں کے رد ّمیں بہت کچھ لکھا ہوادیکھااور پایا یہاں تک کہ بازار کتابوں اور رسائل سے بھرگئے ،اکثرمیں تو ظلم زیادہ اور انصاف کم تھا۔جبکہ اس کے مقابل میں ہم کو ایسی کتابیں بہت کم ملیں جو کہ ارجاء پر تفصیلی بحث کریں خصوصاًدورِحاضر کاارجاء اورمرجئہ کے بارے میں(جوکہ)ان کے شبہات سے اس طرح ڈرائیں جیسا کہ خوارج کے شبہات سے ڈراتے ہیں ۔توشایداس باب میں ہماری یہ کتاب اس کمی کو کسی حد تک پورا کردے یاایک اچھے طریقے کو جاری کرے تا کہ اہل علم کو اس بارے میں لکھنے پر ابھارے تاکہ حق کو بیان ہو،باطل اور بدعتیوں کے ان شبہات کاجنھوں نے حق مبین کو مسخ کردیا ہے۔ کھوٹا ہونا ظاہر ہو اور میں اﷲسے دعاگو ہوں کہ وہ اس کے ذریعے بہرے کانوں، اندھی آنکھوں اور پردے پڑے ہوئے دلوں کوکھول دے ،اور اس کو خالص اپنی کریم ذات کے لئے کردے اور تمام کمال کی صفات اسی کے لئے ہیں اول بھی آخربھی۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ان شارٹ : حنفی رجسٹرڈ مرجئہ ہیں سلف صالحین کے نزدیک۔
صرف حنفی کیوں؟؟؟ ہر وہ شخص مرجئہ ہے جو پیش کی گئی مندرجہ بالا صفات کا حامل ہے۔
اسی لئے شہیدامت سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
مرجئہ اس امت کے یہود ہیں
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
Top