مرد اور عورت کی نماز میں فرق پر احناف کے دلائل کی حقیقت
الحمد لله رب العالمین و الصلوۃ و السلام علی رسوله الأمین_____ أما بعد:
آل تقلید کا مرد و عورت کی نماز میں فرق کے سلسلے میں دعویٰ ہے کہ :
(۱) عورت تکبیر تحریمہ کے لئے دونوں ہاتھ شانوں تک اُٹھائے
(۲) اپنے ہاتھ آستینوں سے باہر نہ نکالے
(۳) داہنے ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ دے
(۴) ہاتھ پستانوں کےنیچے چھاتی پر باندھے (۵) رکوع میں تھوڑا سا جھکے
(۶) رکوع میں ہاتھوں پر سہار ا نہ دے
(۷) رکوع میں ہاتھ کی انگلیاں کشادہ نہ رکھے بلکہ انہیں ملا لے
(۸) رکوع میں اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لے (گھٹنے پکڑے مت)
(۹) رکوع میں گھٹنوں کو کچھ خم دیدے
(۱۰) رکوع میں سمٹ جائے
(۱۱) سجدہ میں بھی جسم کو اکٹھا کر کے سمٹ جائے
(۱۲) سجدہ میں کہنیوں سمیت بازو زمین پر بچھا دے
(۱۳) قعدہ میں دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر بائیں کولہے پر بیٹھے
(۱۴) قعدہ میں انگلیاں رانوں پر اس طرح رکھے کہ انگلیوں کے سر ےگھٹنوں تک پہنچیں اور انگلیاں ملا لے_______
ان فروقِ تقلیدیہ کے مقابلے میں اہل الحدیث کا دعویٰ یہ ہے کہ:
درج بالا فروق میں سے ایک فرق بھی عورتوں کی تخصیص کے ساتھ قرآن ، حدیث اور اجماع سے ثابت نہیں ہے ، لہذا حدیث [صلو کمارأیتموني أصلي] نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو، کی رو سے عورتوں کو بھی اسی طرح نماز پڑھنی چاہیے جس طرح حضرت محمدِ مصطفیٰ صلی الله تعالیٰ علیه وآلهٖ وسلم نماز پڑھتےتھے____
اہل الحدیث کو آلِ تقلید سے یہ شکایت ہے کہ یہ لوگ ضعیف و مردود روایتیں اور موضوع سے غیر متعلقہ دلائل پیش کرکے عام مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں، اس تمہید کے بعداحناف کی طرف سے بنائے گئے “مرد و عورت کی نماز میں فرق” کا جائزہ پیش خدمت ہے، مرد و عورت کے طریقہِ نماز میں فرق کے سلسلے میں احناف کے تمام شبہات کے تسلی بخش جوابات اس مضمون میں دیے جائینگے_____والحمد لله
احناف کی پہلی دلیل :
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 2594
وعن وائل بن حجر قال : قال لي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : " يا وائل بن حجر إذا صليت فاجعل يديك حذاء أذنيك ، والمرأة تجعل يديها حذاء ثدييها ".
وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی پاک ﷺ نے نماز کا طریقہ سکھلایا تو فرمایا کہ اے وائل بن حجرؓجب تم نماز شروع کرو تو اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھ چھاتیوں تک اُٹھائے".
الجواب:
اسی حدیث کے نیچے حافظ نور الدین الھیثمی رحمہ اللہ اپنی کتاب مجمع الزوائد لکھتے ہیں کہ:
رواه الطبراني في حديث طويل في مناقب وائل من طريق ميمونة بنت حجر ، عن عمتها أم يحيى بنت عبد الجبار ، ولم أعرفها ، وبقية رجاله ثقات
اسے طبرانی نے مناقب وائل ؓ سے میمونہ بن حجرسے، انہوں نے اپنی پھوپھی ام یحیی بنت عبدالجبار سے لمبی حدیث میں روایت کیا ہے۔ ام یحیی کو میں نہیں جانتا اور اس (سند ) کے باقی راوی ثقہ ہیں.
(مجمع الزوائد ج ۱ص ۱۰۳)
نتیجہ:
معلوم ہوا کہ صاحب مجمع الزوائد نے اس روایت کی سند پر جرح کر رکھی ہے جسے دیوبندیوں کے “مناظر” اور “قراء” کی صف میں شامل قاری چن صاحب اینڈ پارٹی نے چھپا لیا ہے ۔ کیا انصاف و امانت اسی کا نام ہے ؟
لطیفہ :
حیاتی دیوبندیوں کے مناظر ، ماسٹر امین اوکاڑوی صاحب نے ام یحیی کی اسی روایت کو بطور حجت پیش کیا ہے.
دیکھئے مجموعہ رسائل (جلد ۲ ص ۹۴ طبع جون ۱۹۹۳ء )
جبکہ اپنی مرضی کے مخالف ایک حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ :”ام یحیی مجہولہ ہیں“ (مجموعہ رسائل ج ۱ص ۳۴۶ ، نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا ص ۱۰)
ایک ہی راویہ اگر مرضی کے خلاف روایت ہو تو مجہولہ بن جاتی ہے اور دوسری جگہ اسی کی روایت سے حجت پکڑی جاتی ہے. کیا انصاف ہے؟ دراصل حنفیت کو بچانے کے لیئے ایسا کرنا تو پڑتا ہے وگرنہ حنفیت ایک سیکنڈ کی مہمان نہیں..
تنبیہ: مجمع الزوائد والی روایت مذکورہ المعجم لکبیر للطبرانی (ج ۲۲ ص ۲۰،۱۹ ح ۲۸) میں ام یحیی کی سند سے موجود ہے اور اسی کتاب سے “حدیث اور اہل حدیث” کے مصنف نے اسے نقل کر رکھا ہے ۔ (ص ۴۷۹)
احناف کی دوسری دلیل
جزء رفع الیدن للامام البخاری : 23
حَدَّثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ , عَنْ إِسْمَاعِيلَ , عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا
ترجمعہ: عبدربہ بن سلیمان بن عمیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام درداء ؓ کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اُٹھاتی ہیں".
الجواب:
جزء رفع الیدین میں اگلی روایت بھی ام الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہہ ہی سے ہے جس مں ام الدرداء سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے، وہ نقل کیوں نہیں کی؟
روایت یہ ہے:
جزء رفع الیدین : 24
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا حِينَ تَفْتَتِحُ الصَّلاةَ , وَحِينَ تَرْكَعُ ، وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، رَفَعَتْ يَدَيْهَا , وَقَالَتْ : رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ".
ترجمعہ: عبدربہ بن سلیمان بن عمیر ؓ کہتے ہیں میں نے ام الدرداء رضی اللہ تعالی عنہا کو دیکھا وہ نماز میں کندھوں تک رفع الیدین کرتی تھیں. جب نماز شروع کرتیں اور جب رکوع کرتیں. اور جب (امام) سمع الله لمن حمده کہتا تو رفع الیدین کرتیں اور فرماتی تھیں. ربنا لك الحمد" .
اہلحدیث کے نزدیک کندھوں تک رفع یدین کرنا بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے اور کانوں تک کرنا بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے ملاحظہ کریں:
صحیح البخاری : 735
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا وَقَالَ " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ". وَكَانَ لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ
ترجمعہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے ، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے ( رفع یدین کرتے ) اور رکوع سے سرمبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده ، ربنا ولك الحمد» کہتے تھے ۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے" .
کانوں تک ہاتھ اٹھانے کی دلیل:
صحیح مسلم : 391
حَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَقَالَ " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " . فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ
ترجمعہ: مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاتے جب آپ صلی اللہ علیہ ولم تکبیر (تحریمہ) کہتے. اور جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو کہتے سمع الله لمن حمدہ اور اسی طرح کرتے (کانوں تک ہاتھ اٹھاتے)
احناف کی تیسری دلیل
مصنف ابن أبي شيبة : 2715
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَاءٍ : أَتَجْلِسُ الْمَرْأَةُ فِي مَثْنَى عَلَى شِقِّهَا الْأَيْسَرِ ؟ قَالَ : " نَعَمْ " ، قُلْتُ : هُوَ أَحَبُّ إِلَيْكَ مِنَ الْأَيْمَنِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، تَجْتَمِعُ جَالِسَةً مَا اسْتَطَاعَتْ ، قُلْتُ : تَجْلِسُ جُلُوسَ الرَّجُلِ فِي مَثْنَى أَوْ تُخْرِجُ رِجْلَهَا الْيُسْرَى مِنْ تَحْتِ إِلْيَتِهَا ، قَالَ : " لَا يَضُرُّهَا أَيُّ ذَلِكَ جَلَسَتْ إِذَا اجْتَمَعَتْ "
ترجمعہ: ابن جریج رحمہ ﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا رحمہ اﷲ (تابعی) سے کہا کہ کیا عورت تکبیر تحریمہ کہتے وقت مرد کی طرح اشارہ (رفع یدین) کرے گی؟ آپ نے فرمایا: عورت تکبیر کہتے وقت مرد کی طرح ہاتھ نہ اٹھائے آپ نے اشارہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں بہت ہی پست رکھے اور ان کو اپنے سے ملایا اور فرمایا عورت کی (نماز میں) ايک خاص ہیئت ہے جو مرد کی نہیں".
الجواب : یہ عطاء کا اپنا قول ھے.....عطاء کے اس قول میں بھی احناف نے ڈنڈی ماری ھے، کیونکہ عطاء کے اسی قول کے نیچے یہ بھی لکھا ھوا ھے: [وَقَالَ إنَّ لِلْمَرْأَةِ هَيْئَةً لَيْسَتْ لِلرَّجُلِ وَإِنْ تَرَكَتْ ذَلِكَ فَلَا حَرَجَ]
بیشک عورت کی ھیئت (حالت) مرد کی طرح نہیں ھے، اور اگر وہ عورت اسے ترک کردے تو کوئی حرج نہیں" .______
الزامی جواب:
آلِ تقلید کے بزعم خود دعویٰ میں قرآن، حدیث ، اجماع اور اجتہاد ابی حنیفہ حجت ہے ۔ امام عطاء ؒ کا قول کہا ں سے ان کی حجت بن گیا؟ یز تابعی کا قول اہلحدیث پر بطور حجت پیش کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے، ویسے تابعی کا قول حنفیوں کے نزدیک بھی حجت نہیں، ملاحظہ ہو
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں کہ: [فإن قول التابعي لا حجة فیه]
بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے. (اعلاء السنن ج ۱ ص ۲۴۹)
دیوبندیوں کی ایک پسندیدہ کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا: اگر صحابہؓ کے آثار ہوں اور مختلف ہوں تو انتخاب کرتا ہوں اور اگر تابعین کی بات ہو تو ان کی مزاحمت کرتا ہوں یعنی ان کی طرح میں بھی اجتہاد کرتا ہوں.
(تذکرۃ النعمان ترجمہ عقود الجمان ص ۲۴۱)
اس عبارت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔
اول: امام صاحب تابعین کے اقوال و افعال کو حجت تسلیم نہیں کرتے تھے
دوم: امام صاحب تابعین میں سے نہیں ہیں. اگر وہ تابعین میں سے ہوتے تو پھر تابعین کا علیحدہ ذکر کرنے کی کیا ضرور تھی؟
امام عطاء ؒ کے چند مسائل پیشِ خدمت ہیں جنہیں آلِ تقلید بالکل نہیں مانتے:
1) عطاء کا رفع الیدین اور عطاء سے روایت شدہ رفع الیدین احناف نہیں مانتے
1) جزء رفع الیدین : 14
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ , وَابْنَ الزُّبَيْرِ , وَأَبَا سَعِيدٍ , وَجَابِرًا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِذَا افْتَتَحُوا الصَّلاةَ , وَإِذَا رَكَعُوا
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں میں نے ابن عباس ابن زبیر ابو سعید خدری جابر بن عبد اللہ کو شروع نماز اور رکوع کے وقت رفع الیدین کرتے دیکھا ہے" .
2) جزء رفع الیدین : 18
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ : " صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَكَانَ يَرْفَعُ إِذَا كَبَّرَ وَإِذَا رَكَعَ " .
عطاء کہتے ہیں میں ابو ھریرہ رضی اللہ عنہہ کے ساتھ نماز پڑھی ہے, وہ رفع الیدین کرتے جب تکبیر (تحریمہ) کہتے اور جب رکوع کرتے" .
3) جزء رفع الدين : 45
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , وَأَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، وَابْنَ عَبَّاسٍ ، وَابْنَ الزُّبَيْرِ ، " يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ حِينَ يَفْتَتِحُونَ الصَّلاةَ , وَإِذَا رَكَعُوا , وَإِذَا رَفَعُوا رُءُوسَهُمْ مِنَ الرُّكُوعِ
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں میں نے جابر بن عبد الله, ابو سعید خدری, ابن عباس اور ابن زبیر کو دیکھا. وہ جب نماز شروع کرتے جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے" .
4) جزء رفع الیدین : 15
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ , أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , وَالْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ , وَعَطَاءً , وَمَكْحُولا ، يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي الصَّلاةِ إِذَا رَكَعُوا , وَإِذَا رَفَعُوا
عکرمه بن عمار کہتے ہیں میں نے سالم بن عبد الله (بن عمر بن الخطاب) اور قاسم بن محمد، اور عطاء (بن ابی رباح) اور مکحول کو دیکھا ہے، وہ نماز میں جب رکوع کرتے اور جب (رکوع سے) اٹھتے تو رفع الیدین کرتے تھے" .
2) عطاء کا جرابوں پر مسح کرنا احناف نہیں مانتے
مصنف عبد الرزاق:
وعن عبد الرزاق عن ابن جريج ، قلت لعطاء : نمسح على الجوربين ؟ قال نعم امسحوا عليهما مثل الخفين ؟
ابن جریج نے عطاء سے پوچھا جرابوں کے اوپر مسح کرسکتے ہیں؟ کہا ہاں جرابوں پر ایسے ہی مسح کرو جیسے موزوں پر کرتے ہو.
3) عطاء کا خلف الامام سورہ فاتحہ نہیں مانتے
1) مصنف عبدالرازاق :2786
أما أنا فأقر أمع الإمام فی الظھر و العصر بأم القرآن و سورۃ قصیرة
میں ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ اور ایک چھوٹی سورت پڑھتا ہوں ۔
(وسندہ صحیح ، ابن جریح صرح بالسماع)
4) عطاء کا یہ مسئلہ بھی احناف نہیں مانتے
مصنف عبدالرزاق : 420
عطاءؒ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ غسل کے دوران (یعنی آخر میں) اپنے ذکر کو ہاتھ لگا دیں تو کیا کریں گے؟ انہوں نے فرمایا : ”إذأ أعود بوضوء“ میں تو دوبارہ وضوکروں گا".
معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کی مخالفت کے ساتھ ساتھ آلِ تقلید حضرات امام عطاء و دیگر تابعین و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ہر اُس شخص کے مخالف ہیں جو احناف کے مذھب کے مخالف ہو...
احناف کی چوتھی دلیل
السعادیه ص 156 ج 2:
عبدالحئی لکھنوی (حنفی) فرماتے ہیں:
واما فی حق النساء فاتفقوا علی ان النسۃ لھن وضع الیدین علی الصدر....الخ
عورتوں کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ ان کے لئے سنت سینے پر ہاتھ باندھنا ہے نماز میں".
الجواب:
عبدالحئی لکھنوی تقلیدی کے قول ”سب کا اتفاق“سے مراد سب دیوبندیوں و بریلویوں و حنفیوں کا اتفاق ہے ، پوری امت کا اتفاق مراد نہیں ہے.
مثال: عبدالرحمٰن الجزیری صاحب لکھتے ہیں کہ: الحنابلة قالوا : السنة للرجل و المرأۃ أن یضع باطن یدہ الیمنیٰ علی ظھر یدہ الیسری ویجعلھما تحت سُرة
حنبلی حضرات کہتے ہیں کہ مرد و عورت (دونوں) کے لئے سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کا باطن بائیں ہاتھ کی پشت پر اور ناف کے نیچے رکھا جائے".
[کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ ص251]
نوٹ:
عبدالحئی لکھنوی جیسے تقلیدی مولویوں کا قول و فعل، اہل حدیث کے خلاف پیش کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو کتاب و سنت و اجماع سے محروم اور تہی دامن ہیں" .
احناف کی پانچویں دلیل
5) البیھقي : 3105 اعلاء السنن ص : 19
عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ فَقَالَ : " إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الْأَرْضِ ؛ فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ .
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصوں کو زمین سے چمٹا دو اس لئے کہ اس میں عورت مرد کی مانند نہیں ہے" .
الجواب:
اک بار پھر منقطع مرسل روایت سے استدلال؟ کہاں گٰئے احناف کے دعوے صحیح صریح مرفوع پر ؟؟
اس روایت کے راوی یزيد بن أَبِي حبيب کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات ثابت کریں؟ جبکہ يزيد بن أَبِي حبيب مشہور فقیہ اور صغار تابعین میں سے ہیں
ابن حجر العسقلاني کہتے ہیں : ثقة فقيه وكان يرسل
نیز امام بیہقیؒ نے اس روایت کو امام ابوداؤد ؒ کی کتاب المراسیل (ح ۸۷) سے نقل کیا اور نقل کرنے سے پہلے اسے “حدیث منقطع” یعنی منقطع حدیث لکھا ہے ملاحظہ ہو:
السنن الكبري للبيهقي : 3105
( وَرُوِيَ ) فِيهِ حَدِيثٌ مُنْقَطِعٌ ، وَهُوَ أَحْسَنُ مِنَ الْمَوْصُولِينَ قَبْلَهُ . ( أَخْبَرَنَاهُ ) أَبُو بَكْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَنْبَأَ أَبُو الْحُسَيْنِ الْفَسَوِيُّ ، ثَنَا أَبُو عَلِيٍّ اللُّؤْلُؤِيُّ ، ثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، أَنْبَأَ ابْنُ وَهْبٍ ، أَنْبَأَ حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ غَيْلَانَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ فَقَالَ : " إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الْأَرْضِ ؛ فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ .
منقطع حدیث کے بارے میں حکم
تیسیر مصطلح : ص 87
المنقطع ضعیف بالإتفاق بین العلماء و ذلک للجھل بحال الراوي المحذوف
علماء کا اتفاق ہے کہ منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے ، اس لئے کہ اس کا محذوف راوی مجہول ہوتا ہے".
گزراش: قارئین آپ نے دیکھا کہ اب تک احناف نے کوئی صحیح صریح غیر معارض حدیث اپنے دعوے اور عمل پر پیش نہیں کی، بلکہ اس کے برعکس احناف کی طرف سے منقطع مرسل ضعیف روایات کا تانتا باندھ دیا گیا ہے،
ایک مرسل روایت ہماری طرف سے تو زرا قبول کرنے کہ ھمت کریں:
السنن ابي داود : 759
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ، - يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ - عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلاَةِ
جناب طاؤس ( طاؤس بن کیسان یمانی ، تابعی ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر رکھتے اور انہیں اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے" .
الزامی جواب: آلِ تقلید کو اس منقطع حدیث سے چڑ ہے ۔ یہ لوگ اس حدیث پر عمل کرنے کو تیار نہیں پھر بھی اہل حدیث کے خلاف کتاب المراسیل کی منقطع روایت سے استدلال کر رہے ہیں، دراصل احناف کے مذھب کا نہ کوئی اصول ہے نہ ضابطہ، وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ جب اپنا اُلّو سیدھا کرنا ہو یعنی حنفیت کی لڑھکتی سسکتی ٹانگوں میں جان ڈالنے کی ناکام کوشش کرنی ہو، تو مرسل منقطع ضعیف موضوع روایت سے بھی استدلال کرکے حجت قائم کرلی جاتی ہے ۔
احناف کی چھٹی دلیل
السنن الكبري للبيهقي : 2936
وَالآخَرُ : حَدِيثُ أَبِي مُطِيعٍ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِيِّ ، عَنْ وَالآخَرُ : حَدِيثُ أَبِي مُطِيعٍ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِيِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا جَلَسَتِ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلاةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلَى فَخِذِهَا الأُخْرَى ، وَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِي فَخِذَيْهَا ، كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْظُرُ إِلَيْهَا ، وَيَقُولُ : يَا مَلائِكَتِي ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهَا " ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الصُّوفِيُّ أنبأ أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيّ ٍ ، ثنا عُبَيْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّرْخَسِيّ ُ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْبَلْخِيُّ ، ثنا أَبُو مُطِيعٍ ، ثنا بْنُ ذَر ، فَذَكَرَهُ ، قَالَ أَبُو أَحْمَدَ : أَبُو مُطِيعٍ بَيْنَ الضَّعْفِ فِي أَحَادِيثِهِ ، وَعَامَّةُ مَا يَرْوِيهِ لا يُتَابَعُ عَلَيْهِ ، قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللَّهُ : وَقَدْ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ ، وَكَذَلِكَ عَطَاءُ بْنُ عَجْلانَ ، ضَعِيفٌ وَرُوِي فِيهِ حَدِيثٌ مُنْقَطِعٌ ، وَهُوَ أَحْسَنُ مِنَ الْمَوْصُولَيْنِ قَبْلَهُ .
رسول الله محمد ﷺ نے فرمایا کہ جب عورت نماز میں بیٹھے تو دائیاں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ (کرے) تو اپنا پیٹ اپنی رانوں سے ملائے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ دیکھ کر فرماتے ہیں اے (فرشتو) گواہ ہوجاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا" .
اس روایت کو دیکھ کر تو اب بالکل بھی شک کی رتی بھر بھی گنجائش نہیں رہی کہ کائنات میں سب سے مکار و عیار احناف ہی ہیں.
الجواب :
نوٹ: یہی روایت اسی سند سے کتاب الأخبار أصبهان لأبي نعيم میں درج ھے___
اس روایت کا دارومدار ہی جس راوی (ابو مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی) پر ہے. وہ نہایت ضعیف و متروک و موضوع، مرجی جھمی بدعتی راوی ہے، اس راوی کے بارے میں السنن الکبری للبیہقی کے اسی صفحے پر لکھا ہوا ہے کہ :
قَالَ أَبُو أَحْمَدَ : أَبُو مُطِيعٍ بَيْنَ الضَّعْفِ فِي أَحَادِيثِهِ ، وَعَامَّةُ مَا يَرْوِيهِ لا يُتَابَعُ عَلَيْهِ ، قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللَّهُ : وَقَدْ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ ، وَكَذَلِكَ عَطَاءُ بْنُ عَجْلانَ ، ضَعِيفٌ وَرُوِي فِيهِ حَدِيثٌ مُنْقَطِعٌ ، وَهُوَ أَحْسَنُ مِنَ الْمَوْصُولَيْنِ قَبْلَهُ .
باقی جرحیں ملاحظہ ہوں:
أَبُو مُطِيعٍ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِي ِّ
1) أبو أحمد بن عدي الجرجاني : بين الضعف في أحاديثه وعامة ما يرويه لا يتابع عليه
2) أبو الفرج بن الجوزي : ذكر له حديثا موضوعا
3) أبو حاتم الرازي : مرجئ كذاب، ومرة: مرجئا ضعيف الحديث، لا أحدث عنه
4) أبو حاتم بن حبان البستي : من رؤساء المرجئة يبغض السنن
5) أبو دواد السجستاني : تركوا حديثه وكان جهميا
6) أحمد بن حنبل : لا ينبغي أن يروى عنه
7) أحمد بن شعيب النسائي : ضعيف
8) ابن حجر العسقلاني : متروك رمي بالرفض
9) الخطيب البغدادي كان فقيها بصيرا بالرأي
10) الذهبي ذكر له حديثا وقال: إنه سرقه
11) عمرو بن علي الفلاس ضعيف
12) محمد بن إسماعيل البخاري : ضعيف صاحب رأي
13) يحيى بن معين : ضعيف، ومرة: ليس بشيء
14) عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ , قَالَ : سَأَلْتُ أَبِي عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَبِي مُطِيعٍ الْبَلْخِيِّ ، قَالَ " لا يَنْبَغِي أَنْ يُرْوَى عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ : الْجَنَّةُ وَالنَّارُ خُلِقَتَا فَسَتَفْنَيَانِ , وَهَذَا كَلامُ جَهْمٍ , لا يُرْوَى عَنْهُ شَيْءٌ ".
15) مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى , قَالَ : حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ , قَالَ : سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ , قَالَ " الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو مُطِيعٍ الْخُرَاسَانِيُّ لَيْسَ بِشَيْءٍ ".
16) مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ , قَالَ : حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ , قَالَ : سَمِعْتُ يَحْيَى , قَالَ " أَبُو مُطِيعٍ الْبَلْخِيُّ ضَعِيفٌ
اس روایت کا دوسرا راوی: عُبَيْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّرْخَسِيّ ُ: نامعلوم مجہول ہے__
اس روایت کا تیسرس راوی: مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْبَلْخِيُّ : نامعلوم مجہول ہے
خلاصہ التحقیق: یہ روایت موضوع ہے. خود امام بیہقی ؒ نے اس روایت کو اور اسکے ساتھ کی دوسری سند کو ”حدیثان ضعیفان لا یحتج بأمثالھا“ قرار دیا ہے" .
(السنن الکبری ۲۲۲/۲)
احناف کی ساتویں دلیل
[جامع المسانید : ص 1/400]
عن إبن عمر أنہ سئل کیف النساء یصلین علی عھد رسو ل اللہ ﷺ؟ قال: کن یتربصن ثم أمرن أن یحتفزن_____
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ حضور ﷺ کے مبارک زمانہ میں خواتین نماز کس طرح پڑھا کرتی تھیں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ پہلے چار زانوں ہو کر بیٹھتی تھیں۔ پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں۔
الجواب:
ابو المؤید محمد بن محمود الخوارزمی (متوفی ۶۶۵ھ/ غیر موثق) کی کتاب [جامع المسانید] میں اس روایت کے بعض راویوں کا جائزہ درج ذیل ہے ۔
1) ابراہیم بن مہدی کا تعین نامعلوم ہے ۔ تقریب میں اس نام کے دو راوی ہیں. ان میں دوسرا مجروح ہے ۔ قال الحافظ ابن حجر ؒ: ”البصري، کذبوہ“ یہ بصری ہے اسے (محدثین) نے جھوٹا کہا ہے ۔ [التقریب : ۲۵۷]
2) زربن نجیح البصری : کے حالات نہیں ملے۔
3) احمد بن محمد بن خالد : کے حالات نہیں ملے۔
4) علی بن محمد البزاز : کے حالات نہیں ملے۔
5) قاضی عمر بن الحسن بن علی الاشنانی مختلف فیہ راوی ہے ۔ اس کے بارے میں امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ : [وکان یکذب] اور وہ جھوٹ بولتا ہے۔
[سوالات الحاکم للدارقطنی:۲۵۲ ص ۱۶۴]
حسن بن محمد الخلال نے کہا: ضعیف تکلموافیہ [تاریخ بغداد ۲۳۸/۱۱] ذہبی نے اس پر جرح کی ہے۔
ابو علی الھروی اور ابو علی الحافظ نے اس کی توثیق کی ہے ۔ [تاریخ بغداد : ۲۳۸/۱۱]
ابن الجوزی نے اس پر سخت جرح کی [الموضوعات : ۲۸۰/۳]
برھان الدین الحلبی نے اسے واضعین حدیث میں ذکر کیا ہے اور کوئی دفاع نہیں کیا [دیکھئے الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث : ص ۳۱۲،۳۱۱ ت ۵۴۱]
ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاھد : ضعیف ، معتزلی گمراہ نے اس کی تعریف کی ہے ۔ خطیب بغدادی نے بھی اس کی تعریف کی ۔
خلاصہ التحقیق: قاضی اشنانی ضعیف عند الجمہور ہے۔
تنبیہ: قاضی اشنانی تک سند میں بھی نظر ہے_______ دوسری سند میں عبداللہ بن احمد بن خالد الرازی ، زکریا بن یحیی النیسابوری اور قبیصہ الطبری نامعلوم راوی ہیں۔ اور ابو محمد البخاری [عبداللہ بن محمد بن یعقوب] کذاب راوی ہے۔
[دیکھئے الکشف الحثیث : ص۲۴۸، کتاب القرأۃ للبیہقی : ص ۱۵۴، ولسان المیزان : ۳۴۹،۳۴۸/۳، و نور العینین فی اثبات رفع الیدین : ص ۴۱،۴۰]
معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سے یہ روایات ثابت ہی نہیں ہے ۔ اس کے باوجود یہ لوگ مزے لے لے کر یہ موضوع روایت پیش کر رہے ہیں_______
احناف کی آٹھویں دلیل
مصنف ابن ابي شيبه : 2701، 2934
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، أنبأ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ زِيَادٍ ، قَالَ : ثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، ثنا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : " إِذَا سَجَدْتِ الْمَرْأَةُ ، فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا " ، وَقَدْ رُوِيَ فِيهِ حَدِيثَانِ ضَعِيفَانِ لا يُحْتَجُّ بِأَمْثَالِهِمَا .
حضرت حارث رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اﷲ تعالی نے فرمایا کہ جب عورت سجدہ کرے تو خوب سمٹ کر کرے اور اپنی دونوں رانوں کو ملائے رکھے۔
الجواب:
امام بیھقی نے اس روایت کو اور آنے والی روایت کو ضعیف کہا : وَقَدْ رُوِيَ فِيهِ حَدِيثَانِ ضَعِيفَانِ لا يُحْتَجُّ بِأَمْثَالِهِمَا
السنن الکبری للبیهقی (ج۲ ص ۲۲۲) اور مصنف ابن ابي شیبه (۲۷۰/۱ ح ۲۷۷۷) دونوں کتابوں میں یہ روایت عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، کی سند سے ہے۔
الحارث الاعور جمہور محدثین کے نزدیک سخت مجروح راوی ہے. ابن حجر العسقلاني نے کہا: كذبه الشعبي في رأيه، ورمي بالرفض، وفي حديثه ضعف
الدارقطني نے کہا : ضعيف
الذهبي نے کہا : لين شيعي
علي بن المديني نے کہا : كذاب
أبو حاتم بن حبان البستي نے کہا : كان غاليا في التشيع واهيا في الحديث
زیلعی حنفی نے کہا :”لا یحتج به” اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی [نصب الرایہ ۴۲۶/۲]
زیلعی نے مزید کہا: کذبه الشعبي وابن المدیني______ إلخ [نصب الرایہ ۳/۲]
اسے شعبی اور ابن المدینی نے کذاب کہا ہے ۔
اس روایت کے راوی ابو اسحاق السبیعي نے الحارث الاعور کو خود کذاب کہا ھے، اور یہ روایت ابو اسحاق السبیعي نے حارث الاعور سے ہی بیان کی ھے،
اس سند کے دوسرے راوی ابو اسحاق السبیعی مدلس ہیں. اور یہ روایت معنعن ہے ۔
[طبقات المدلسین لابن حجر ، المرتبہ الثالثہ ۳/۹۱]
اس سند کا راوی الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ زِيَادٍ مجھول ھے،
خلاصہ التحقیق: یہ روایت مردود ہے ۔
احناف سے گزارش ھے، اپنے دعویٰ اور عمل پر صرف اک صحیح صریح غیر معارض دلیل پیش کردیں ،
احناف کی نویں دلیل
مصنف ابن ابي شيبة : 2702
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِي ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ ، فَقَالَ : " تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ " .
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے عورت کی نماز کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ وہ اکٹھی ہو کر اور خوب سمٹ کر نماز پڑھے۔
الجواب:
یہ روایت بکیر بن عبدالله بن الاشج نے سیدنا ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما سے بیان کی ہے ۔ دیکھئے مصنف ابن ابي شیبة : 2702
بکیر کی سیدنا ابن عباس ؓ سے ملاقات ثابت نہیں ہے ۔ حاکم کہتے ہیں کہ :”لم یثبت سماعه من عبدالله بن الحارث بن جزء و إنما روایته عن التابعین”
عبداللہ بن حارث بن جزء (رضی اللہ تعالیٰ عنہ متوفی ۸۸ھ ) سے اس کا سماع ثابت نہیں ہے۔ اس کی روایت تو صرف تابعین سے ہے ۔ [تہذیب التہذیب ج ۱ ص ۴۹۳، دوسرا نسخہ ص ۴۳۲]
یاد رہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۶۸ھ میں طائف میں فوت ہوئے تھے۔ جب ۸۸ھ میں فوت ہونے والے صحابی سے ملاقات نہیں تو ۶۸ھ میں فوت ہونے والے سے کس طرح ثابت ہوسکتی ہے ؟
نتیجہ: یہ سند منقطع (یعنی ضعیف و مردود ) ہے. سخت حیرت ہے کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کے پاس اتنی ضعیف و مردود روایات کس طرح جمع ہوگئی ہیں ؟ غالباً ان لوگوں کو بہت محنت کرنا پڑی ہوگی، والله اعلم
نیز اس روایت میں موقع و محل بیان نہیں ہوا کہ عورت کب مجتمع ہو اور سکڑے؟ کیا قیام میں مجتمع/ سکڑا جاسکتا ھے جیسا کہ احناف کی عورتیں سجدے میں ہوتی ھیں؟
ان موضوع مقطوع غیر مستند اقوال کے برخلاف رسول الله صلی الله علیه وسلم کا صحیح فرمان دیکھئیے:
صحیح البخاری: 822 صحیح مسلم : 493
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ، وَلاَ يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ ".
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سجدہ میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور اپنے بازو کتوں کی طرح نہ پھیلایا کرو ۔
ان احادیث پر امیر المومنین فی الحدیث امام البخاری اور مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ نے جو باب باندھے ھیں. اس سے سجدے کی کیفیت باالکل واضح ہوجاتی ھے. امام بخاری نے اس حدیث سے پہلے، ابو حمید ساعدی رضی الله تعالٰی عنہہ کی حدیث سے، جس میں انہوں نے رسول الله صلی الله عليه وسلم کی پوری نماز صحابه کرام کے مجمع میں بیان فرمائی، سجدے کی کیفیت والا یہ ٹکڑا بیان کیا ھے" .
وَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلاَ قَابِضِهِمَا.
ابو حمید نے کہا: جب آپ صلی الله علیه وسلم سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو ( زمین پر ) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے" .
امام نووی رحمه الله نے صحیح مسلم میں اس حدیث پر جو باب باندھا ھے:
باب : الاِعْتِدَالِ فِي السُّجُودِ وَوَضْعِ الْكَفَّيْنِ عَلَى الأَرْضِ وَرَفْعِ الْمِرْفَقَيْنِ عَنِ الْجَنْبَيْنِ وَرَفْعِ الْبَطْنِ عَنِ الْفَخِذَيْنِ فِي السُّجُودِ
باب : سجدے میں اعتدال کا بیان، نیز دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے، کہنیوں کو پہلوؤں سے بلند رکھنے، اور پیٹ کو دونوں رانوں سے اٹھا کر رکھنے کا بیان
سجدے میں اعتدال کا کیا مطلب؟ حافظ ابن حجر رحمه الله نے کہا: یعنی "افتراش" [بازو زمین پر بچھا دینے] اور "قبض" کے درمیان اعتدال و توسط اختیار کرو" . اور امام ابن دقیق العید کہتے ہیں: "یہاں اعتدال سے مراد شاید" سجدے کو اس ہیئت اور کیفیت کے مطابق ادا کرنا ھے جس کا حکم دیا گیا ھے" .
[فتح الباري : جلد2 : ص390] باب مذکورہ مطبوعه دارالسلام____ ریاض
اس مختصر سی تفصیل سے نبی کریم صلی الله علیه وسلم کے سجدے کی کیفیت بھی معلوم ھو جاتی ھے، اور آپ کا وہ حکم بھی جس میں آپ نے بلا تفریق مرد وعورت، سب کو اُسی طرح سجدہ کرنے کا حکم دیا ھے جس طرح آپ صلی الله عليه وسلم خود کیا کرتے تھے" .
احناف کی نویں دلیل
مصنف ابن ابي شيبة : 2702
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : " إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا وَلْتَضَعْ بَطْنَهَا عَلَيْهِمَا
حضرت ابراہیم نخعی (تابعی) رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے۔‘‘
الجواب:
تابعی کے قول کو بطور دلیل پیش کرنے سے پہلے ھم آپ کو آپ کے مجتہدین کے قول دوبارہ دکھائینگے ملاحظہ ہو____
تقی عثمانی دیوبندی صاحب وغیرہ کے مصدقہ فتویٰ میں لکھا ہوا ہے کہ:
“اور ایک تابعی کا عمل اگر چہ اصول کے مخالف نہ بھی ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا" .
[مجموعہ رسائل ۹۹/۲و تجلیات صفدر ۱۱۳/۵]
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں کہ:
[فإن قول التابعي لا حجة فیه]
بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے" . [اعلاء السنن ج ۱ ص ۲۴۹]
مغيرة بن مقسم الضبي مدلس ھے، اور ابراھیم نخعی سے تو تدلیس میں مشہور ھے یہ، اور یہ روایت بھی معنعن ھے______
نیز ابراھیم نخعي رحمه الله [تابعی] کے یہ مسئلے کون تسلیم کرے گا؟؟؟؟؟؟؟
1) مصنف ابن ابي شيبة : 2712
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : " تَقْعُدُ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ كَمَا يَقْعُدُ الرَّجُلُ " .
ابراهيم نخعي کہتے ہیں عورت نماز میں اس طرح بیٹھے گی جس طرح مرد بیٹھتا ہے۔
2) مصنف ابن ابي شيبة : 3844
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ،قَالَ :حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُغِيرَةَ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُمَا " كَانَا يُرْسِلَانِ أَيْدِيَهُمَا فِي الصَّلَاةِ "
ابراهيم نخعي ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے" .
3) مصنف ابن ابي شيبة : 1861
حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ " بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَوَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَصَلَّى " .
4) مصنف ابن ابي شيبة : 1862
حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيّ , وَإِبْرَاهِيمَ بْنَ سُوَيْدٍ " أَحْدَثَا ثُمَّ تَوَضَّآ وَمَسَحَا عَلَى خُفَّيْهِمَا
خلاصہ: ابراھیم نخعی جرابوں پر مسح کرتے تھے" .
5) وضو کی حالت میں ابراہیم نخعي اپنی بیوی کا بوسہ نہ لینے کے قائل تھے۔
[مصنف ابن ابی شیبة ۴۵/۱ح ۵۰۰و سندہ صحیح]
6) یعنی ابراھیم نخعي کے نزدیک اپنی بیوی کا بوسہ لینے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے" .
[مصنف ابن ابی شیبة ۲۶/۱ ح ۵۰۷]
7) ابراہیم نخعي رکوع میں تطبیق کرتے یعنی اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں کے درمیان رکھتے تھے" .
[مصنف ابن ابی شیبہ ۲۴۶/۱ ح ۲۵۴۰ وسندہ صحیح ، الاعمش صرح بالسماع]
ہمیں معلوم ھے کہ حنفیہ کے پاس ایک بھی صحیح صریح روایت اس مسئلے میں (اور کسی بھی مسئلے میں) موجود نہیں، اسی لیے حنفیہ کو صحیح حدیث اور اپنے ہی اصول کے خلاف جاکر، تابعین سے استدلال کرنا پڑتا ھے، لیکن گزارش عرض یہ ھے کہ، تابعی سے استدلال اپنی مرضی کا کیوں؟ تابعی کے باقی مسائل کون تسلیم کرے گا؟ کہیں تو ٹک جائیں؟ احناف کے اندازِ استدلال سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ بس حنفیہ کا بنایا ھوا مذھب جس طرح بھی ثابت ہورہا ہو ثابت کرتے جائو چاھے روایت موضوع منکر ضعیف ہی کیوں نہ ھو.......
ہاں اگرحنفیہ کے استدلال کا کوئی نیا طریقہ مارکیٹ میں آیا ھے تو وہ ھمیں ضرور بتائیں
احناف کی دسویں دلیل
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا جَرِيرٌ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ " كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَصْنَعُ الْمَرْأَةُ
حضرت مجاہد رحمہ ﷲ [تابعی] اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے۔
الجواب:
اس سے پہلے کہ میں اس روایت (مجاھد رحمه الله کے قول) پر تبصرہ کروں_____________ تقی عثمانی دیوبندی صاحب وغیرہ کے مصدقہ فتویٰ میں لکھا ہوا ہے کہ: “اور ایک تابعی کا عمل اگر چہ اصول کے مخالف نہ بھی ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا" .
[مجموعہ رسائل ۹۹/۲و تجلیات صفدر ۱۱۳/۵]
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں کہ:
[فإن قول التابعي لا حجة فیه]
بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے" .
[اعلاء السنن ج ۱ ص ۲۴۹]
قارئین اب آئیں ھم آپکو احناف کی طرف سے پیش کیئے گئے مجاھد رحمہ اللہ کے قول کی حقیقت بھی دکھاتے ھیں،
مصنف ابن ابي شيبة : 2704
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا جَرِيرٌ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ " كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَصْنَعُ الْمَرْأَةُ
لیث بن ابي سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے______قال البوصیری :”ھذا إسناد ضعیف ، لیث ھو ابن أبي سلیم ضعفه عند الجمھور". [سنن ابن ماجہ : ۲۰۸ مع زوائد البوصیری]
امام يحيى بن معين کہتے ہیں : منكر الحديث، ومرة: ضعيف إلا أنه يكتب حديثه، ومرة: أضعف من عطاء ويزيد، ومرة: ليس به بأس، وعامة شيوخه لا يعرفون، ومرة: ليس حديثه بذاك ضعيف
امام ابن حجر رحمہ اللہ اور الدارقطني رحمہ اللہ نے بھی ضعیف کہا__________؛؛؛
لیثِ مذکور پر جرح کے لئے دیکھئے التھذیب التھذیب و کتب اسماء الرجال اور سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب: “احسن الکلام” [ج۲ ص ۱۲۸ طبع بار دوم، عنوان تیسرا باب، آثار صحابہ و تابعین وغیرہم]
لیث بن ابی سلیم مدلس بھی ہے ۔ [مجمع الزوائد للبیهقي ج ۱ ص ۸۳، کتاب مشاہیر علماء الامصار لإبن حبان ص ۱۴۶ ت:۱۱۵۳]
اور یہ روایت معنعن ہے لہذا مجاھد کا یہ قول ضعیف و مردود ہے__________؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
احناف کی گیارہویں دلیل
سنن الکبری للبیھقي : 2935
أَحَدُهُمَا حَدِيثُ عَطَاءِ بْنِ الْعَجْلانِ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ الْعَبْدِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : " خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ الأَوَّلُ ، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ الصَّفُّ الآخِرُ ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَتَجَافَوْا فِي سُجُودِهِمْ ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ يَنْخَفِضْنَ فِي سُجُودِهِنَّ ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَفْرِشُوا الْيُسْرَى ، وَيَنْصِبُوا الْيُمْنَى فِي التَّشَهُّدِ ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ يَتَرَبَّعْنَ ، وَقَالَ : يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ ، لا تَرْفَعْنَ أَبْصَارَكُنَّ فِي الصَّلاةِ تَنْظُرْنَ إِلَى عَوْرَاتِ الرِّجَالِ " ، أَخْبَرَنَاهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ثناالْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ الْبَيْرُوتِيُّ ، أنبأ مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ عَجْلانَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ فَذَكَرَهُ ، وَاللَّفْظُ الأَوَّلُ ، وَاللَّفْظُ الآخِرُ ، مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ مَشْهُورَانِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا بَيْنَهُمَا مُنْكَرٌ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا نماز میں مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے۔ آپ ﷺ سرکار مردوں کو نماز میں سجدہ کے دوران کھل کھلا کر رہنے کی تلقین فرماتے اور عورتوں کو سجدوں میں سمٹ سمٹا کر رہنے کی۔ مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو مربع شکل میں بیٹھنے کا حکم دیتے اور فرمایا عورتو! نماز کے دوران نظریں اٹھا کر مردوں کے ستر نہ دیکھنا۔‘‘
الجواب: اس روایت کے نیچے امام البیھقی کے الفاظ ھیں: [مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ مَشْهُورَانِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا بَيْنَهُمَا مُنْكَرٌ وَاللَّهُ أَعْلَمُ] یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مشہور ھیں اور ان کے درمیان سب منکر/موضوع ھے"_____
نیز اس روایت کا راوی عطاء بن عجلان جس کے بارے میں خود امام البیھقی فرماتے ھیں: [عطاء بن عجلان ضعیف] عطاء بن عجلان ضعیف ھے____[السنن الکبری : ٢٢٣/٢]
حافظ ابن حجر لکھتے ھیں: متروك بل أطلق عليه ابن معین والفلاس و غیرھما الکذب".
یہ متروک ھے بلکپ ابن معین اور الفلاس وغیرھما نے اسے مطلق طور پر کذاب قرار دیا ھے"._______[التقریب : ٤٥٩٤]
اس روایت اور سابقہ روایت کے بارے میں امام البیھقی فرماتے ھیں: یہ دونوں روایتیں ضعیف ھیں ان جیسی روایتوں سے حجت نہیں کڑی جاتی"._____[السنن الکبری : ٢٢٢/٢]
نیز اس روایت کا راوی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَيْم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف، اور صدوق يخطئ، ھے، اور عبد الرحمن بن سلیم ہی نے یہ روایت عطاء بن عجلان [متروك الحدیث] سے روایت کی ھے______
نتیجہ: یہ روایت مردود وموضوع ھے___
احناف کی گیارہویں دلیل
مصنف ابن ابي شيبة : 2705
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا ابْنُ مُبَارَكٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : " الْمَرْأَةُ تَضْطَمُّ فِي السُّجُودِ"
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ھیں کہ عورت سجدے میں سمٹ جڑ کر رہے" .
الجواب: هشام بن حسان مدلس راوی ھیں [طبقات المدلسین المرتبہ الثالثہ : ١١٠/٣] اور یہ روایت "عن" سے ھے، لہذا حسن بصری رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ قول ضعیف و مردود ھے____
مصنف ابن ابي شيبة : 2703
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : " إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا وَلْتَضَعْ بَطْنَهَا عَلَيْهِمَا ".
ابراھیم نخعی [تابعی] کہتے ھیں کہ جب عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے" .____
الجواب: مغيرة بن مقسم الضبي مدلس ھے، اور ابراھیم نخعی سے تو تدلیس میں مشہور ھے یہ، اور روایت بھی معنعن ھے______
باقی عورت سینے پر ہاتھ باندھے اور مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھے، اس تفریق کی دلیل احناف سے ملی نہیں مجھے__________;;;;;;;;;
آلِ تقلید کا ایک بہت بڑا جھوٹ:
امین اوکاڑوی دیوبندی صاحب کا ممدوحین نے مردوں اور عورتوں کا طریقۂ نماز میں فرق ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے کہ:
[قال أبو بکر بن أبی شیبۃ سمعت عطاء سئل عن المرأۃ کیف ترفع یدیھا فی الصلوۃ قال: حذو ثدییھا…..]
ترجمہ: امام بخاریؒ کے استاد ابوبکر ؒبن ابی شیبہ فرماتےہیں کہ میں حضرت عطاء ؓ سے سنا کہ ان سے عورت کے بارے میں پوچھا گیا وہ نماز میں ہاتھ کیسے اُٹھائے تو انہوں نے فرمایا کہ اپنی چھاتیوں تک……[المصنف لابی بکر بن ابی شیبہ ج۱ ص ۲۳۹]
[مجموعہ رسائل اوکاڑوی ، ج ۲ ص ۹۶ طبع اول جون ۱۹۹۳ء و تجلیات صفدر مطبوعات مکتبہ امدادیہ ملتان ج ۵ ص ۱۱۰]
الجواب:
مصنف ابن ابی شیبہ میں لکھا ہوا ہے کہ :
مصنف ابن ابي شيبة : 2401
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَنَا شَيْخٌ لَنَا ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطَاءً سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ كَيْفَ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلَاةِ ، قَالَ : " حَذْوَ ثَدْيَيْهَا " .
معلوم ہوا کہ ابوبکر بن ابی شیبہ اور عطاء (متوفی ۱۱۴ھ) کے درمیان دو واسطے ہیں جن میں سے ایک واسطہ [شیخ لنا] مجہول ہے جسے ایک خاص مقصد کے لئے اوکاڑوی صاحب کے ممدوحین نے گرا دیا ہے تاکہ سند کا ضعیف ہونا واضح نہ ہوجائے____
محمد تقی عثمانی دیوبندی صاحب وغیرہ کے مصدقہ فتویٰ میں لکھا ہوا ہے کہ:
“اور ایک تابعی کا عمل اگر چہ اصول کے مخالف نہ بھی ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا______
[مجموعہ رسائل ۹۹/۲و تجلیات صفدر ۱۱۳/۵]
اس فتویٰ کے ذمہ دار درج ذیل حضرات ہیں:
(۱)امین اوکاڑوی (۲) محمد تقی عثمانی (۳) محمد بدر عالم صدیقی (۴) محمد رفیع عثمانی وغیرہم
عرض ہے کہ آپ لوگ تابعین کے اقوال کیوں پیش کررہے ہیں؟
اہل حدیث کے دلائل پر اعتراضات
اہل حدیث کے نزدیک سینے پر ہاتھ باندھنے ، رکوع ، سجود اور نماز میں بیٹھنے وغیرہ میں مردوں اور عورتوں کا طریقۂ نماز ایک جیسا ہے کیونکہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
[صلوا کما رأیتموني أصلي] نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
[البخاری : ۶۳۱]
اس حدیث کے مفہوم پر آلِ تقلید نے بہت اعتراضات کیے ہیں لیکن دیوبندی مفتیان کے مصدقہ فتوے میں لکھا ہوا ہے کہ : اس روایت میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث کی عمومیت میں مردو عورت سمیت پوری امت شریک ہے اور پوری امت پرلازم ہے کہ جو طریقہ آنحضرت ﷺ کی نماز کا ہے وہی طریقہ پوری امت کا ہولیکن یہ واضح ہو کہ اس عمومیت پر عمل اس وقت ہی ضروری ہے جب تک کوئی شرعی دلیل اس کے معارض نہ ہو۔۔۔”
[مجموعہ رسائل ج ۲ ص ۱۰۱ و تجلیات صفدر ج ۵ ص ۱۱۴،۱۱۵]
عرض ہے کہ گذشتہ صفحات میں آپ نے باتفصیل پڑھ لیا ہے کہ عورت کے علیحدہ طریقۂ نماز کی تخصیص پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے ۔
مشہور صحابیٔ رسول ﷺ ابوالدرداء ؓ کی بیوی ام الدرداء [ھجیمۃ تابعیۃ رحمہا اللہ] کے بارے میں ان کے شاگرد (امام) مکحول الشامی ؒ فرماتے ہیں کہ :
أن أم الدرداء کانت تجلس فی الصلوۃ کجلسۃ الرجل" .____
بےشک ام الدرداء [ رحمہا اللہ] نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں۔
[مصنف ابن ابی شیبہ ۲۰۷/۱ح ۲۷۸۵ و عمدۃ القاری ۱۰۱/۶ و سندہ قوی، التاریخ الصغیر للبخاری ۲۲۳/۱ تاریخ دمشق لابن عساکر ۱۱۷/۷۴ وتغلیق التعلیق ۳۲۹/۲]
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وکانت أم الدرداء تجلس في صلاتھا جلسۃ الرجل و کانت فقیھۃ" .___
اور ام الدرداء [رحمہا اللہ] اپنی نماز میں مرد کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہہ تھیں" .
[صحیح البخاری قبل ح:۸۲۷]
کیا خیال ہے سیدنا ابوالدرداء کی فقیہہ بیوی ام الدرداء رحمہا للہ نے نماز کا طریقہ کس سے سیکھا تھا ؟
ام الدرداءؒ تابعیہ کے اس عمل کی تائید ابرہیم نخعیؒ (تابعی صغیر) کے قول سے بھی ہوتی ہے۔
ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں:
[تقعد المرأۃ فی الصلوۃ کما یقعد الرجل]
عورت نماز میں اس طرح بیٹھے جیسے مرد بیٹھتا ہے ۔ [مصنف ابن ابی شیبہ ۲۷۰/۱ ح ۲۷۸۸ وسندہ صحیح]
امام ابوحنیفہؒ کے استاد حمادؒ (بن سلیمان) فرماتے ہیں کہ : عورت کی جیسی مرضی ہو (نماز میں) بیٹھے”___
[ابن ابی شیبہ ۲۷۱/۱ ح ۲۷۹۰ و سندہ صحیح]
عطاء بن ابی رباح ؒ (تابعی) کا قول اس مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے کہ : عورت کی ہیئت مرد کی طرح نہیں ہے اگر وہ (عورت) اسے ترک کردے تو کوئی حرج نہیں ہے" .____
معلوم ہوا کہ آلِ تقلید حضرات مر د وعورت کے طریقہ نماز میں جس اختلاف کا ڈھندورا پیٹ رہے ہیں وہ بہ اجماع تابعین باطل ہے.
تنبیہ: اس مضمون میں آلِ تقلید کے تمام دریافت شدہ شبہات کا جواب آگیا ہے والحمد لله
خلاصہ التحقیق: مرد و عورت کی نماز میں یہ فرق ہے کرنا کہ مرد ناف سے نیچے ہاتھ باندھے اور عورت سینے پر، مرد سجدوں میں کہنیاں زمین سے اُٹھائے اور عورت اپنی کہنیاں زمین سے ملا لے وغیرہ_____ یہ تفریقات قرآن و حدیث و اجماع سے قطعاً ثابت نہیں ہیں، قرآن و حدیث سے جو فرق ثابت ہے اسے اہلحدیث علماء و عوام سر آنکھوں پر رکھتے ہیں مثلاً عورت کے لئے ڈوپٹے کا ہونا ضروری ہے ، بھولنے والے امام کو تسبیح کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ مار کر تنبیہ کرنا وغیرہ
فائدہ: الشیخ الفقیہ محمد بن الصالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
“فالقول الراجح: أن المرأۃ تصنع کما یصنع الرجل في کل شئ ، فترفع یدیھا و تجافي و تمد الظھر فی حال الرکوع و ترفع بطنھا عن الفخذین و الفخذین عن الساقین في حال السجود" ._______
پس راجح قول (یہ ) ہے کہ: عورت بھی (نما ز کی) ہر چیز میں اسی طرح کرے گی جس طرح مرد کرتا ہے ۔ وہ رفع یدین کرے گی (ہاتھوں کو پہلووں سے) دور رکھے گی، رکوع میں اپنی پیٹھ سیدھی کرے گی، حالتِ سجدہ میں اپنے پیٹ کو رانوں سے دور اور رانوں کو پنڈلیوں سے ہٹا کر رکھے گی۔
[الشرح الممتع علی زاد المستقع ج ۳ ص ۲۱۹ طبع دار ابن الجوزی]
وما علینا إلا البلاغ___________
@ڈاکٹر عادل ایوب سلفی @محمد نعیم یونس @اسحاق سلفی @محمد عامر یونس @محمد ارسلان @ابن قدامہ
الحمد لله رب العالمین و الصلوۃ و السلام علی رسوله الأمین_____ أما بعد:
آل تقلید کا مرد و عورت کی نماز میں فرق کے سلسلے میں دعویٰ ہے کہ :
(۱) عورت تکبیر تحریمہ کے لئے دونوں ہاتھ شانوں تک اُٹھائے
(۲) اپنے ہاتھ آستینوں سے باہر نہ نکالے
(۳) داہنے ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ دے
(۴) ہاتھ پستانوں کےنیچے چھاتی پر باندھے (۵) رکوع میں تھوڑا سا جھکے
(۶) رکوع میں ہاتھوں پر سہار ا نہ دے
(۷) رکوع میں ہاتھ کی انگلیاں کشادہ نہ رکھے بلکہ انہیں ملا لے
(۸) رکوع میں اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لے (گھٹنے پکڑے مت)
(۹) رکوع میں گھٹنوں کو کچھ خم دیدے
(۱۰) رکوع میں سمٹ جائے
(۱۱) سجدہ میں بھی جسم کو اکٹھا کر کے سمٹ جائے
(۱۲) سجدہ میں کہنیوں سمیت بازو زمین پر بچھا دے
(۱۳) قعدہ میں دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر بائیں کولہے پر بیٹھے
(۱۴) قعدہ میں انگلیاں رانوں پر اس طرح رکھے کہ انگلیوں کے سر ےگھٹنوں تک پہنچیں اور انگلیاں ملا لے_______
ان فروقِ تقلیدیہ کے مقابلے میں اہل الحدیث کا دعویٰ یہ ہے کہ:
درج بالا فروق میں سے ایک فرق بھی عورتوں کی تخصیص کے ساتھ قرآن ، حدیث اور اجماع سے ثابت نہیں ہے ، لہذا حدیث [صلو کمارأیتموني أصلي] نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو، کی رو سے عورتوں کو بھی اسی طرح نماز پڑھنی چاہیے جس طرح حضرت محمدِ مصطفیٰ صلی الله تعالیٰ علیه وآلهٖ وسلم نماز پڑھتےتھے____
اہل الحدیث کو آلِ تقلید سے یہ شکایت ہے کہ یہ لوگ ضعیف و مردود روایتیں اور موضوع سے غیر متعلقہ دلائل پیش کرکے عام مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں، اس تمہید کے بعداحناف کی طرف سے بنائے گئے “مرد و عورت کی نماز میں فرق” کا جائزہ پیش خدمت ہے، مرد و عورت کے طریقہِ نماز میں فرق کے سلسلے میں احناف کے تمام شبہات کے تسلی بخش جوابات اس مضمون میں دیے جائینگے_____والحمد لله
احناف کی پہلی دلیل :
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 2594
وعن وائل بن حجر قال : قال لي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : " يا وائل بن حجر إذا صليت فاجعل يديك حذاء أذنيك ، والمرأة تجعل يديها حذاء ثدييها ".
وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی پاک ﷺ نے نماز کا طریقہ سکھلایا تو فرمایا کہ اے وائل بن حجرؓجب تم نماز شروع کرو تو اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھ چھاتیوں تک اُٹھائے".
الجواب:
اسی حدیث کے نیچے حافظ نور الدین الھیثمی رحمہ اللہ اپنی کتاب مجمع الزوائد لکھتے ہیں کہ:
رواه الطبراني في حديث طويل في مناقب وائل من طريق ميمونة بنت حجر ، عن عمتها أم يحيى بنت عبد الجبار ، ولم أعرفها ، وبقية رجاله ثقات
اسے طبرانی نے مناقب وائل ؓ سے میمونہ بن حجرسے، انہوں نے اپنی پھوپھی ام یحیی بنت عبدالجبار سے لمبی حدیث میں روایت کیا ہے۔ ام یحیی کو میں نہیں جانتا اور اس (سند ) کے باقی راوی ثقہ ہیں.
(مجمع الزوائد ج ۱ص ۱۰۳)
نتیجہ:
معلوم ہوا کہ صاحب مجمع الزوائد نے اس روایت کی سند پر جرح کر رکھی ہے جسے دیوبندیوں کے “مناظر” اور “قراء” کی صف میں شامل قاری چن صاحب اینڈ پارٹی نے چھپا لیا ہے ۔ کیا انصاف و امانت اسی کا نام ہے ؟
لطیفہ :
حیاتی دیوبندیوں کے مناظر ، ماسٹر امین اوکاڑوی صاحب نے ام یحیی کی اسی روایت کو بطور حجت پیش کیا ہے.
دیکھئے مجموعہ رسائل (جلد ۲ ص ۹۴ طبع جون ۱۹۹۳ء )
جبکہ اپنی مرضی کے مخالف ایک حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ :”ام یحیی مجہولہ ہیں“ (مجموعہ رسائل ج ۱ص ۳۴۶ ، نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا ص ۱۰)
ایک ہی راویہ اگر مرضی کے خلاف روایت ہو تو مجہولہ بن جاتی ہے اور دوسری جگہ اسی کی روایت سے حجت پکڑی جاتی ہے. کیا انصاف ہے؟ دراصل حنفیت کو بچانے کے لیئے ایسا کرنا تو پڑتا ہے وگرنہ حنفیت ایک سیکنڈ کی مہمان نہیں..
تنبیہ: مجمع الزوائد والی روایت مذکورہ المعجم لکبیر للطبرانی (ج ۲۲ ص ۲۰،۱۹ ح ۲۸) میں ام یحیی کی سند سے موجود ہے اور اسی کتاب سے “حدیث اور اہل حدیث” کے مصنف نے اسے نقل کر رکھا ہے ۔ (ص ۴۷۹)
احناف کی دوسری دلیل
جزء رفع الیدن للامام البخاری : 23
حَدَّثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ , عَنْ إِسْمَاعِيلَ , عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا
ترجمعہ: عبدربہ بن سلیمان بن عمیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام درداء ؓ کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اُٹھاتی ہیں".
الجواب:
جزء رفع الیدین میں اگلی روایت بھی ام الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہہ ہی سے ہے جس مں ام الدرداء سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے، وہ نقل کیوں نہیں کی؟
روایت یہ ہے:
جزء رفع الیدین : 24
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا حِينَ تَفْتَتِحُ الصَّلاةَ , وَحِينَ تَرْكَعُ ، وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، رَفَعَتْ يَدَيْهَا , وَقَالَتْ : رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ".
ترجمعہ: عبدربہ بن سلیمان بن عمیر ؓ کہتے ہیں میں نے ام الدرداء رضی اللہ تعالی عنہا کو دیکھا وہ نماز میں کندھوں تک رفع الیدین کرتی تھیں. جب نماز شروع کرتیں اور جب رکوع کرتیں. اور جب (امام) سمع الله لمن حمده کہتا تو رفع الیدین کرتیں اور فرماتی تھیں. ربنا لك الحمد" .
اہلحدیث کے نزدیک کندھوں تک رفع یدین کرنا بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے اور کانوں تک کرنا بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے ملاحظہ کریں:
صحیح البخاری : 735
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا وَقَالَ " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ". وَكَانَ لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ
ترجمعہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے ، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے ( رفع یدین کرتے ) اور رکوع سے سرمبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده ، ربنا ولك الحمد» کہتے تھے ۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے" .
کانوں تک ہاتھ اٹھانے کی دلیل:
صحیح مسلم : 391
حَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَقَالَ " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " . فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ
ترجمعہ: مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاتے جب آپ صلی اللہ علیہ ولم تکبیر (تحریمہ) کہتے. اور جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو کہتے سمع الله لمن حمدہ اور اسی طرح کرتے (کانوں تک ہاتھ اٹھاتے)
احناف کی تیسری دلیل
مصنف ابن أبي شيبة : 2715
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَاءٍ : أَتَجْلِسُ الْمَرْأَةُ فِي مَثْنَى عَلَى شِقِّهَا الْأَيْسَرِ ؟ قَالَ : " نَعَمْ " ، قُلْتُ : هُوَ أَحَبُّ إِلَيْكَ مِنَ الْأَيْمَنِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، تَجْتَمِعُ جَالِسَةً مَا اسْتَطَاعَتْ ، قُلْتُ : تَجْلِسُ جُلُوسَ الرَّجُلِ فِي مَثْنَى أَوْ تُخْرِجُ رِجْلَهَا الْيُسْرَى مِنْ تَحْتِ إِلْيَتِهَا ، قَالَ : " لَا يَضُرُّهَا أَيُّ ذَلِكَ جَلَسَتْ إِذَا اجْتَمَعَتْ "
ترجمعہ: ابن جریج رحمہ ﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا رحمہ اﷲ (تابعی) سے کہا کہ کیا عورت تکبیر تحریمہ کہتے وقت مرد کی طرح اشارہ (رفع یدین) کرے گی؟ آپ نے فرمایا: عورت تکبیر کہتے وقت مرد کی طرح ہاتھ نہ اٹھائے آپ نے اشارہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں بہت ہی پست رکھے اور ان کو اپنے سے ملایا اور فرمایا عورت کی (نماز میں) ايک خاص ہیئت ہے جو مرد کی نہیں".
الجواب : یہ عطاء کا اپنا قول ھے.....عطاء کے اس قول میں بھی احناف نے ڈنڈی ماری ھے، کیونکہ عطاء کے اسی قول کے نیچے یہ بھی لکھا ھوا ھے: [وَقَالَ إنَّ لِلْمَرْأَةِ هَيْئَةً لَيْسَتْ لِلرَّجُلِ وَإِنْ تَرَكَتْ ذَلِكَ فَلَا حَرَجَ]
بیشک عورت کی ھیئت (حالت) مرد کی طرح نہیں ھے، اور اگر وہ عورت اسے ترک کردے تو کوئی حرج نہیں" .______
الزامی جواب:
آلِ تقلید کے بزعم خود دعویٰ میں قرآن، حدیث ، اجماع اور اجتہاد ابی حنیفہ حجت ہے ۔ امام عطاء ؒ کا قول کہا ں سے ان کی حجت بن گیا؟ یز تابعی کا قول اہلحدیث پر بطور حجت پیش کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے، ویسے تابعی کا قول حنفیوں کے نزدیک بھی حجت نہیں، ملاحظہ ہو
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں کہ: [فإن قول التابعي لا حجة فیه]
بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے. (اعلاء السنن ج ۱ ص ۲۴۹)
دیوبندیوں کی ایک پسندیدہ کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا: اگر صحابہؓ کے آثار ہوں اور مختلف ہوں تو انتخاب کرتا ہوں اور اگر تابعین کی بات ہو تو ان کی مزاحمت کرتا ہوں یعنی ان کی طرح میں بھی اجتہاد کرتا ہوں.
(تذکرۃ النعمان ترجمہ عقود الجمان ص ۲۴۱)
اس عبارت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔
اول: امام صاحب تابعین کے اقوال و افعال کو حجت تسلیم نہیں کرتے تھے
دوم: امام صاحب تابعین میں سے نہیں ہیں. اگر وہ تابعین میں سے ہوتے تو پھر تابعین کا علیحدہ ذکر کرنے کی کیا ضرور تھی؟
امام عطاء ؒ کے چند مسائل پیشِ خدمت ہیں جنہیں آلِ تقلید بالکل نہیں مانتے:
1) عطاء کا رفع الیدین اور عطاء سے روایت شدہ رفع الیدین احناف نہیں مانتے
1) جزء رفع الیدین : 14
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ , وَابْنَ الزُّبَيْرِ , وَأَبَا سَعِيدٍ , وَجَابِرًا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِذَا افْتَتَحُوا الصَّلاةَ , وَإِذَا رَكَعُوا
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں میں نے ابن عباس ابن زبیر ابو سعید خدری جابر بن عبد اللہ کو شروع نماز اور رکوع کے وقت رفع الیدین کرتے دیکھا ہے" .
2) جزء رفع الیدین : 18
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ : " صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَكَانَ يَرْفَعُ إِذَا كَبَّرَ وَإِذَا رَكَعَ " .
عطاء کہتے ہیں میں ابو ھریرہ رضی اللہ عنہہ کے ساتھ نماز پڑھی ہے, وہ رفع الیدین کرتے جب تکبیر (تحریمہ) کہتے اور جب رکوع کرتے" .
3) جزء رفع الدين : 45
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , وَأَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، وَابْنَ عَبَّاسٍ ، وَابْنَ الزُّبَيْرِ ، " يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ حِينَ يَفْتَتِحُونَ الصَّلاةَ , وَإِذَا رَكَعُوا , وَإِذَا رَفَعُوا رُءُوسَهُمْ مِنَ الرُّكُوعِ
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں میں نے جابر بن عبد الله, ابو سعید خدری, ابن عباس اور ابن زبیر کو دیکھا. وہ جب نماز شروع کرتے جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے" .
4) جزء رفع الیدین : 15
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ , أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , وَالْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ , وَعَطَاءً , وَمَكْحُولا ، يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي الصَّلاةِ إِذَا رَكَعُوا , وَإِذَا رَفَعُوا
عکرمه بن عمار کہتے ہیں میں نے سالم بن عبد الله (بن عمر بن الخطاب) اور قاسم بن محمد، اور عطاء (بن ابی رباح) اور مکحول کو دیکھا ہے، وہ نماز میں جب رکوع کرتے اور جب (رکوع سے) اٹھتے تو رفع الیدین کرتے تھے" .
2) عطاء کا جرابوں پر مسح کرنا احناف نہیں مانتے
مصنف عبد الرزاق:
وعن عبد الرزاق عن ابن جريج ، قلت لعطاء : نمسح على الجوربين ؟ قال نعم امسحوا عليهما مثل الخفين ؟
ابن جریج نے عطاء سے پوچھا جرابوں کے اوپر مسح کرسکتے ہیں؟ کہا ہاں جرابوں پر ایسے ہی مسح کرو جیسے موزوں پر کرتے ہو.
3) عطاء کا خلف الامام سورہ فاتحہ نہیں مانتے
1) مصنف عبدالرازاق :2786
أما أنا فأقر أمع الإمام فی الظھر و العصر بأم القرآن و سورۃ قصیرة
میں ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ اور ایک چھوٹی سورت پڑھتا ہوں ۔
(وسندہ صحیح ، ابن جریح صرح بالسماع)
4) عطاء کا یہ مسئلہ بھی احناف نہیں مانتے
مصنف عبدالرزاق : 420
عطاءؒ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ غسل کے دوران (یعنی آخر میں) اپنے ذکر کو ہاتھ لگا دیں تو کیا کریں گے؟ انہوں نے فرمایا : ”إذأ أعود بوضوء“ میں تو دوبارہ وضوکروں گا".
معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کی مخالفت کے ساتھ ساتھ آلِ تقلید حضرات امام عطاء و دیگر تابعین و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ہر اُس شخص کے مخالف ہیں جو احناف کے مذھب کے مخالف ہو...
احناف کی چوتھی دلیل
السعادیه ص 156 ج 2:
عبدالحئی لکھنوی (حنفی) فرماتے ہیں:
واما فی حق النساء فاتفقوا علی ان النسۃ لھن وضع الیدین علی الصدر....الخ
عورتوں کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ ان کے لئے سنت سینے پر ہاتھ باندھنا ہے نماز میں".
الجواب:
عبدالحئی لکھنوی تقلیدی کے قول ”سب کا اتفاق“سے مراد سب دیوبندیوں و بریلویوں و حنفیوں کا اتفاق ہے ، پوری امت کا اتفاق مراد نہیں ہے.
مثال: عبدالرحمٰن الجزیری صاحب لکھتے ہیں کہ: الحنابلة قالوا : السنة للرجل و المرأۃ أن یضع باطن یدہ الیمنیٰ علی ظھر یدہ الیسری ویجعلھما تحت سُرة
حنبلی حضرات کہتے ہیں کہ مرد و عورت (دونوں) کے لئے سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کا باطن بائیں ہاتھ کی پشت پر اور ناف کے نیچے رکھا جائے".
[کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ ص251]
نوٹ:
عبدالحئی لکھنوی جیسے تقلیدی مولویوں کا قول و فعل، اہل حدیث کے خلاف پیش کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو کتاب و سنت و اجماع سے محروم اور تہی دامن ہیں" .
احناف کی پانچویں دلیل
5) البیھقي : 3105 اعلاء السنن ص : 19
عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ فَقَالَ : " إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الْأَرْضِ ؛ فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ .
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصوں کو زمین سے چمٹا دو اس لئے کہ اس میں عورت مرد کی مانند نہیں ہے" .
الجواب:
اک بار پھر منقطع مرسل روایت سے استدلال؟ کہاں گٰئے احناف کے دعوے صحیح صریح مرفوع پر ؟؟
اس روایت کے راوی یزيد بن أَبِي حبيب کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات ثابت کریں؟ جبکہ يزيد بن أَبِي حبيب مشہور فقیہ اور صغار تابعین میں سے ہیں
ابن حجر العسقلاني کہتے ہیں : ثقة فقيه وكان يرسل
نیز امام بیہقیؒ نے اس روایت کو امام ابوداؤد ؒ کی کتاب المراسیل (ح ۸۷) سے نقل کیا اور نقل کرنے سے پہلے اسے “حدیث منقطع” یعنی منقطع حدیث لکھا ہے ملاحظہ ہو:
السنن الكبري للبيهقي : 3105
( وَرُوِيَ ) فِيهِ حَدِيثٌ مُنْقَطِعٌ ، وَهُوَ أَحْسَنُ مِنَ الْمَوْصُولِينَ قَبْلَهُ . ( أَخْبَرَنَاهُ ) أَبُو بَكْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَنْبَأَ أَبُو الْحُسَيْنِ الْفَسَوِيُّ ، ثَنَا أَبُو عَلِيٍّ اللُّؤْلُؤِيُّ ، ثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، أَنْبَأَ ابْنُ وَهْبٍ ، أَنْبَأَ حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ غَيْلَانَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ فَقَالَ : " إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الْأَرْضِ ؛ فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ .
منقطع حدیث کے بارے میں حکم
تیسیر مصطلح : ص 87
المنقطع ضعیف بالإتفاق بین العلماء و ذلک للجھل بحال الراوي المحذوف
علماء کا اتفاق ہے کہ منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے ، اس لئے کہ اس کا محذوف راوی مجہول ہوتا ہے".
گزراش: قارئین آپ نے دیکھا کہ اب تک احناف نے کوئی صحیح صریح غیر معارض حدیث اپنے دعوے اور عمل پر پیش نہیں کی، بلکہ اس کے برعکس احناف کی طرف سے منقطع مرسل ضعیف روایات کا تانتا باندھ دیا گیا ہے،
ایک مرسل روایت ہماری طرف سے تو زرا قبول کرنے کہ ھمت کریں:
السنن ابي داود : 759
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ، - يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ - عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلاَةِ
جناب طاؤس ( طاؤس بن کیسان یمانی ، تابعی ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر رکھتے اور انہیں اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے" .
الزامی جواب: آلِ تقلید کو اس منقطع حدیث سے چڑ ہے ۔ یہ لوگ اس حدیث پر عمل کرنے کو تیار نہیں پھر بھی اہل حدیث کے خلاف کتاب المراسیل کی منقطع روایت سے استدلال کر رہے ہیں، دراصل احناف کے مذھب کا نہ کوئی اصول ہے نہ ضابطہ، وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ جب اپنا اُلّو سیدھا کرنا ہو یعنی حنفیت کی لڑھکتی سسکتی ٹانگوں میں جان ڈالنے کی ناکام کوشش کرنی ہو، تو مرسل منقطع ضعیف موضوع روایت سے بھی استدلال کرکے حجت قائم کرلی جاتی ہے ۔
احناف کی چھٹی دلیل
السنن الكبري للبيهقي : 2936
وَالآخَرُ : حَدِيثُ أَبِي مُطِيعٍ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِيِّ ، عَنْ وَالآخَرُ : حَدِيثُ أَبِي مُطِيعٍ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِيِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا جَلَسَتِ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلاةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلَى فَخِذِهَا الأُخْرَى ، وَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِي فَخِذَيْهَا ، كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْظُرُ إِلَيْهَا ، وَيَقُولُ : يَا مَلائِكَتِي ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهَا " ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الصُّوفِيُّ أنبأ أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيّ ٍ ، ثنا عُبَيْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّرْخَسِيّ ُ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْبَلْخِيُّ ، ثنا أَبُو مُطِيعٍ ، ثنا بْنُ ذَر ، فَذَكَرَهُ ، قَالَ أَبُو أَحْمَدَ : أَبُو مُطِيعٍ بَيْنَ الضَّعْفِ فِي أَحَادِيثِهِ ، وَعَامَّةُ مَا يَرْوِيهِ لا يُتَابَعُ عَلَيْهِ ، قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللَّهُ : وَقَدْ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ ، وَكَذَلِكَ عَطَاءُ بْنُ عَجْلانَ ، ضَعِيفٌ وَرُوِي فِيهِ حَدِيثٌ مُنْقَطِعٌ ، وَهُوَ أَحْسَنُ مِنَ الْمَوْصُولَيْنِ قَبْلَهُ .
رسول الله محمد ﷺ نے فرمایا کہ جب عورت نماز میں بیٹھے تو دائیاں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ (کرے) تو اپنا پیٹ اپنی رانوں سے ملائے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ دیکھ کر فرماتے ہیں اے (فرشتو) گواہ ہوجاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا" .
اس روایت کو دیکھ کر تو اب بالکل بھی شک کی رتی بھر بھی گنجائش نہیں رہی کہ کائنات میں سب سے مکار و عیار احناف ہی ہیں.
الجواب :
نوٹ: یہی روایت اسی سند سے کتاب الأخبار أصبهان لأبي نعيم میں درج ھے___
اس روایت کا دارومدار ہی جس راوی (ابو مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی) پر ہے. وہ نہایت ضعیف و متروک و موضوع، مرجی جھمی بدعتی راوی ہے، اس راوی کے بارے میں السنن الکبری للبیہقی کے اسی صفحے پر لکھا ہوا ہے کہ :
قَالَ أَبُو أَحْمَدَ : أَبُو مُطِيعٍ بَيْنَ الضَّعْفِ فِي أَحَادِيثِهِ ، وَعَامَّةُ مَا يَرْوِيهِ لا يُتَابَعُ عَلَيْهِ ، قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللَّهُ : وَقَدْ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ ، وَكَذَلِكَ عَطَاءُ بْنُ عَجْلانَ ، ضَعِيفٌ وَرُوِي فِيهِ حَدِيثٌ مُنْقَطِعٌ ، وَهُوَ أَحْسَنُ مِنَ الْمَوْصُولَيْنِ قَبْلَهُ .
باقی جرحیں ملاحظہ ہوں:
أَبُو مُطِيعٍ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِي ِّ
1) أبو أحمد بن عدي الجرجاني : بين الضعف في أحاديثه وعامة ما يرويه لا يتابع عليه
2) أبو الفرج بن الجوزي : ذكر له حديثا موضوعا
3) أبو حاتم الرازي : مرجئ كذاب، ومرة: مرجئا ضعيف الحديث، لا أحدث عنه
4) أبو حاتم بن حبان البستي : من رؤساء المرجئة يبغض السنن
5) أبو دواد السجستاني : تركوا حديثه وكان جهميا
6) أحمد بن حنبل : لا ينبغي أن يروى عنه
7) أحمد بن شعيب النسائي : ضعيف
8) ابن حجر العسقلاني : متروك رمي بالرفض
9) الخطيب البغدادي كان فقيها بصيرا بالرأي
10) الذهبي ذكر له حديثا وقال: إنه سرقه
11) عمرو بن علي الفلاس ضعيف
12) محمد بن إسماعيل البخاري : ضعيف صاحب رأي
13) يحيى بن معين : ضعيف، ومرة: ليس بشيء
14) عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ , قَالَ : سَأَلْتُ أَبِي عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَبِي مُطِيعٍ الْبَلْخِيِّ ، قَالَ " لا يَنْبَغِي أَنْ يُرْوَى عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ : الْجَنَّةُ وَالنَّارُ خُلِقَتَا فَسَتَفْنَيَانِ , وَهَذَا كَلامُ جَهْمٍ , لا يُرْوَى عَنْهُ شَيْءٌ ".
15) مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى , قَالَ : حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ , قَالَ : سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ , قَالَ " الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو مُطِيعٍ الْخُرَاسَانِيُّ لَيْسَ بِشَيْءٍ ".
16) مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ , قَالَ : حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ , قَالَ : سَمِعْتُ يَحْيَى , قَالَ " أَبُو مُطِيعٍ الْبَلْخِيُّ ضَعِيفٌ
اس روایت کا دوسرا راوی: عُبَيْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّرْخَسِيّ ُ: نامعلوم مجہول ہے__
اس روایت کا تیسرس راوی: مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْبَلْخِيُّ : نامعلوم مجہول ہے
خلاصہ التحقیق: یہ روایت موضوع ہے. خود امام بیہقی ؒ نے اس روایت کو اور اسکے ساتھ کی دوسری سند کو ”حدیثان ضعیفان لا یحتج بأمثالھا“ قرار دیا ہے" .
(السنن الکبری ۲۲۲/۲)
احناف کی ساتویں دلیل
[جامع المسانید : ص 1/400]
عن إبن عمر أنہ سئل کیف النساء یصلین علی عھد رسو ل اللہ ﷺ؟ قال: کن یتربصن ثم أمرن أن یحتفزن_____
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ حضور ﷺ کے مبارک زمانہ میں خواتین نماز کس طرح پڑھا کرتی تھیں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ پہلے چار زانوں ہو کر بیٹھتی تھیں۔ پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں۔
الجواب:
ابو المؤید محمد بن محمود الخوارزمی (متوفی ۶۶۵ھ/ غیر موثق) کی کتاب [جامع المسانید] میں اس روایت کے بعض راویوں کا جائزہ درج ذیل ہے ۔
1) ابراہیم بن مہدی کا تعین نامعلوم ہے ۔ تقریب میں اس نام کے دو راوی ہیں. ان میں دوسرا مجروح ہے ۔ قال الحافظ ابن حجر ؒ: ”البصري، کذبوہ“ یہ بصری ہے اسے (محدثین) نے جھوٹا کہا ہے ۔ [التقریب : ۲۵۷]
2) زربن نجیح البصری : کے حالات نہیں ملے۔
3) احمد بن محمد بن خالد : کے حالات نہیں ملے۔
4) علی بن محمد البزاز : کے حالات نہیں ملے۔
5) قاضی عمر بن الحسن بن علی الاشنانی مختلف فیہ راوی ہے ۔ اس کے بارے میں امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ : [وکان یکذب] اور وہ جھوٹ بولتا ہے۔
[سوالات الحاکم للدارقطنی:۲۵۲ ص ۱۶۴]
حسن بن محمد الخلال نے کہا: ضعیف تکلموافیہ [تاریخ بغداد ۲۳۸/۱۱] ذہبی نے اس پر جرح کی ہے۔
ابو علی الھروی اور ابو علی الحافظ نے اس کی توثیق کی ہے ۔ [تاریخ بغداد : ۲۳۸/۱۱]
ابن الجوزی نے اس پر سخت جرح کی [الموضوعات : ۲۸۰/۳]
برھان الدین الحلبی نے اسے واضعین حدیث میں ذکر کیا ہے اور کوئی دفاع نہیں کیا [دیکھئے الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث : ص ۳۱۲،۳۱۱ ت ۵۴۱]
ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاھد : ضعیف ، معتزلی گمراہ نے اس کی تعریف کی ہے ۔ خطیب بغدادی نے بھی اس کی تعریف کی ۔
خلاصہ التحقیق: قاضی اشنانی ضعیف عند الجمہور ہے۔
تنبیہ: قاضی اشنانی تک سند میں بھی نظر ہے_______ دوسری سند میں عبداللہ بن احمد بن خالد الرازی ، زکریا بن یحیی النیسابوری اور قبیصہ الطبری نامعلوم راوی ہیں۔ اور ابو محمد البخاری [عبداللہ بن محمد بن یعقوب] کذاب راوی ہے۔
[دیکھئے الکشف الحثیث : ص۲۴۸، کتاب القرأۃ للبیہقی : ص ۱۵۴، ولسان المیزان : ۳۴۹،۳۴۸/۳، و نور العینین فی اثبات رفع الیدین : ص ۴۱،۴۰]
معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سے یہ روایات ثابت ہی نہیں ہے ۔ اس کے باوجود یہ لوگ مزے لے لے کر یہ موضوع روایت پیش کر رہے ہیں_______
احناف کی آٹھویں دلیل
مصنف ابن ابي شيبه : 2701، 2934
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، أنبأ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ زِيَادٍ ، قَالَ : ثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، ثنا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : " إِذَا سَجَدْتِ الْمَرْأَةُ ، فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا " ، وَقَدْ رُوِيَ فِيهِ حَدِيثَانِ ضَعِيفَانِ لا يُحْتَجُّ بِأَمْثَالِهِمَا .
حضرت حارث رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اﷲ تعالی نے فرمایا کہ جب عورت سجدہ کرے تو خوب سمٹ کر کرے اور اپنی دونوں رانوں کو ملائے رکھے۔
الجواب:
امام بیھقی نے اس روایت کو اور آنے والی روایت کو ضعیف کہا : وَقَدْ رُوِيَ فِيهِ حَدِيثَانِ ضَعِيفَانِ لا يُحْتَجُّ بِأَمْثَالِهِمَا
السنن الکبری للبیهقی (ج۲ ص ۲۲۲) اور مصنف ابن ابي شیبه (۲۷۰/۱ ح ۲۷۷۷) دونوں کتابوں میں یہ روایت عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، کی سند سے ہے۔
الحارث الاعور جمہور محدثین کے نزدیک سخت مجروح راوی ہے. ابن حجر العسقلاني نے کہا: كذبه الشعبي في رأيه، ورمي بالرفض، وفي حديثه ضعف
الدارقطني نے کہا : ضعيف
الذهبي نے کہا : لين شيعي
علي بن المديني نے کہا : كذاب
أبو حاتم بن حبان البستي نے کہا : كان غاليا في التشيع واهيا في الحديث
زیلعی حنفی نے کہا :”لا یحتج به” اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی [نصب الرایہ ۴۲۶/۲]
زیلعی نے مزید کہا: کذبه الشعبي وابن المدیني______ إلخ [نصب الرایہ ۳/۲]
اسے شعبی اور ابن المدینی نے کذاب کہا ہے ۔
اس روایت کے راوی ابو اسحاق السبیعي نے الحارث الاعور کو خود کذاب کہا ھے، اور یہ روایت ابو اسحاق السبیعي نے حارث الاعور سے ہی بیان کی ھے،
اس سند کے دوسرے راوی ابو اسحاق السبیعی مدلس ہیں. اور یہ روایت معنعن ہے ۔
[طبقات المدلسین لابن حجر ، المرتبہ الثالثہ ۳/۹۱]
اس سند کا راوی الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ زِيَادٍ مجھول ھے،
خلاصہ التحقیق: یہ روایت مردود ہے ۔
احناف سے گزارش ھے، اپنے دعویٰ اور عمل پر صرف اک صحیح صریح غیر معارض دلیل پیش کردیں ،
احناف کی نویں دلیل
مصنف ابن ابي شيبة : 2702
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِي ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ ، فَقَالَ : " تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ " .
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے عورت کی نماز کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ وہ اکٹھی ہو کر اور خوب سمٹ کر نماز پڑھے۔
الجواب:
یہ روایت بکیر بن عبدالله بن الاشج نے سیدنا ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما سے بیان کی ہے ۔ دیکھئے مصنف ابن ابي شیبة : 2702
بکیر کی سیدنا ابن عباس ؓ سے ملاقات ثابت نہیں ہے ۔ حاکم کہتے ہیں کہ :”لم یثبت سماعه من عبدالله بن الحارث بن جزء و إنما روایته عن التابعین”
عبداللہ بن حارث بن جزء (رضی اللہ تعالیٰ عنہ متوفی ۸۸ھ ) سے اس کا سماع ثابت نہیں ہے۔ اس کی روایت تو صرف تابعین سے ہے ۔ [تہذیب التہذیب ج ۱ ص ۴۹۳، دوسرا نسخہ ص ۴۳۲]
یاد رہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۶۸ھ میں طائف میں فوت ہوئے تھے۔ جب ۸۸ھ میں فوت ہونے والے صحابی سے ملاقات نہیں تو ۶۸ھ میں فوت ہونے والے سے کس طرح ثابت ہوسکتی ہے ؟
نتیجہ: یہ سند منقطع (یعنی ضعیف و مردود ) ہے. سخت حیرت ہے کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کے پاس اتنی ضعیف و مردود روایات کس طرح جمع ہوگئی ہیں ؟ غالباً ان لوگوں کو بہت محنت کرنا پڑی ہوگی، والله اعلم
نیز اس روایت میں موقع و محل بیان نہیں ہوا کہ عورت کب مجتمع ہو اور سکڑے؟ کیا قیام میں مجتمع/ سکڑا جاسکتا ھے جیسا کہ احناف کی عورتیں سجدے میں ہوتی ھیں؟
ان موضوع مقطوع غیر مستند اقوال کے برخلاف رسول الله صلی الله علیه وسلم کا صحیح فرمان دیکھئیے:
صحیح البخاری: 822 صحیح مسلم : 493
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ، وَلاَ يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ ".
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سجدہ میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور اپنے بازو کتوں کی طرح نہ پھیلایا کرو ۔
ان احادیث پر امیر المومنین فی الحدیث امام البخاری اور مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ نے جو باب باندھے ھیں. اس سے سجدے کی کیفیت باالکل واضح ہوجاتی ھے. امام بخاری نے اس حدیث سے پہلے، ابو حمید ساعدی رضی الله تعالٰی عنہہ کی حدیث سے، جس میں انہوں نے رسول الله صلی الله عليه وسلم کی پوری نماز صحابه کرام کے مجمع میں بیان فرمائی، سجدے کی کیفیت والا یہ ٹکڑا بیان کیا ھے" .
وَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلاَ قَابِضِهِمَا.
ابو حمید نے کہا: جب آپ صلی الله علیه وسلم سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو ( زمین پر ) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے" .
امام نووی رحمه الله نے صحیح مسلم میں اس حدیث پر جو باب باندھا ھے:
باب : الاِعْتِدَالِ فِي السُّجُودِ وَوَضْعِ الْكَفَّيْنِ عَلَى الأَرْضِ وَرَفْعِ الْمِرْفَقَيْنِ عَنِ الْجَنْبَيْنِ وَرَفْعِ الْبَطْنِ عَنِ الْفَخِذَيْنِ فِي السُّجُودِ
باب : سجدے میں اعتدال کا بیان، نیز دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے، کہنیوں کو پہلوؤں سے بلند رکھنے، اور پیٹ کو دونوں رانوں سے اٹھا کر رکھنے کا بیان
سجدے میں اعتدال کا کیا مطلب؟ حافظ ابن حجر رحمه الله نے کہا: یعنی "افتراش" [بازو زمین پر بچھا دینے] اور "قبض" کے درمیان اعتدال و توسط اختیار کرو" . اور امام ابن دقیق العید کہتے ہیں: "یہاں اعتدال سے مراد شاید" سجدے کو اس ہیئت اور کیفیت کے مطابق ادا کرنا ھے جس کا حکم دیا گیا ھے" .
[فتح الباري : جلد2 : ص390] باب مذکورہ مطبوعه دارالسلام____ ریاض
اس مختصر سی تفصیل سے نبی کریم صلی الله علیه وسلم کے سجدے کی کیفیت بھی معلوم ھو جاتی ھے، اور آپ کا وہ حکم بھی جس میں آپ نے بلا تفریق مرد وعورت، سب کو اُسی طرح سجدہ کرنے کا حکم دیا ھے جس طرح آپ صلی الله عليه وسلم خود کیا کرتے تھے" .
احناف کی نویں دلیل
مصنف ابن ابي شيبة : 2702
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : " إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا وَلْتَضَعْ بَطْنَهَا عَلَيْهِمَا
حضرت ابراہیم نخعی (تابعی) رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے۔‘‘
الجواب:
تابعی کے قول کو بطور دلیل پیش کرنے سے پہلے ھم آپ کو آپ کے مجتہدین کے قول دوبارہ دکھائینگے ملاحظہ ہو____
تقی عثمانی دیوبندی صاحب وغیرہ کے مصدقہ فتویٰ میں لکھا ہوا ہے کہ:
“اور ایک تابعی کا عمل اگر چہ اصول کے مخالف نہ بھی ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا" .
[مجموعہ رسائل ۹۹/۲و تجلیات صفدر ۱۱۳/۵]
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں کہ:
[فإن قول التابعي لا حجة فیه]
بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے" . [اعلاء السنن ج ۱ ص ۲۴۹]
مغيرة بن مقسم الضبي مدلس ھے، اور ابراھیم نخعی سے تو تدلیس میں مشہور ھے یہ، اور یہ روایت بھی معنعن ھے______
نیز ابراھیم نخعي رحمه الله [تابعی] کے یہ مسئلے کون تسلیم کرے گا؟؟؟؟؟؟؟
1) مصنف ابن ابي شيبة : 2712
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : " تَقْعُدُ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ كَمَا يَقْعُدُ الرَّجُلُ " .
ابراهيم نخعي کہتے ہیں عورت نماز میں اس طرح بیٹھے گی جس طرح مرد بیٹھتا ہے۔
2) مصنف ابن ابي شيبة : 3844
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ،قَالَ :حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُغِيرَةَ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُمَا " كَانَا يُرْسِلَانِ أَيْدِيَهُمَا فِي الصَّلَاةِ "
ابراهيم نخعي ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے" .
3) مصنف ابن ابي شيبة : 1861
حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ " بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَوَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَصَلَّى " .
4) مصنف ابن ابي شيبة : 1862
حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيّ , وَإِبْرَاهِيمَ بْنَ سُوَيْدٍ " أَحْدَثَا ثُمَّ تَوَضَّآ وَمَسَحَا عَلَى خُفَّيْهِمَا
خلاصہ: ابراھیم نخعی جرابوں پر مسح کرتے تھے" .
5) وضو کی حالت میں ابراہیم نخعي اپنی بیوی کا بوسہ نہ لینے کے قائل تھے۔
[مصنف ابن ابی شیبة ۴۵/۱ح ۵۰۰و سندہ صحیح]
6) یعنی ابراھیم نخعي کے نزدیک اپنی بیوی کا بوسہ لینے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے" .
[مصنف ابن ابی شیبة ۲۶/۱ ح ۵۰۷]
7) ابراہیم نخعي رکوع میں تطبیق کرتے یعنی اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں کے درمیان رکھتے تھے" .
[مصنف ابن ابی شیبہ ۲۴۶/۱ ح ۲۵۴۰ وسندہ صحیح ، الاعمش صرح بالسماع]
ہمیں معلوم ھے کہ حنفیہ کے پاس ایک بھی صحیح صریح روایت اس مسئلے میں (اور کسی بھی مسئلے میں) موجود نہیں، اسی لیے حنفیہ کو صحیح حدیث اور اپنے ہی اصول کے خلاف جاکر، تابعین سے استدلال کرنا پڑتا ھے، لیکن گزارش عرض یہ ھے کہ، تابعی سے استدلال اپنی مرضی کا کیوں؟ تابعی کے باقی مسائل کون تسلیم کرے گا؟ کہیں تو ٹک جائیں؟ احناف کے اندازِ استدلال سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ بس حنفیہ کا بنایا ھوا مذھب جس طرح بھی ثابت ہورہا ہو ثابت کرتے جائو چاھے روایت موضوع منکر ضعیف ہی کیوں نہ ھو.......
ہاں اگرحنفیہ کے استدلال کا کوئی نیا طریقہ مارکیٹ میں آیا ھے تو وہ ھمیں ضرور بتائیں
احناف کی دسویں دلیل
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا جَرِيرٌ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ " كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَصْنَعُ الْمَرْأَةُ
حضرت مجاہد رحمہ ﷲ [تابعی] اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے۔
الجواب:
اس سے پہلے کہ میں اس روایت (مجاھد رحمه الله کے قول) پر تبصرہ کروں_____________ تقی عثمانی دیوبندی صاحب وغیرہ کے مصدقہ فتویٰ میں لکھا ہوا ہے کہ: “اور ایک تابعی کا عمل اگر چہ اصول کے مخالف نہ بھی ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا" .
[مجموعہ رسائل ۹۹/۲و تجلیات صفدر ۱۱۳/۵]
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں کہ:
[فإن قول التابعي لا حجة فیه]
بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے" .
[اعلاء السنن ج ۱ ص ۲۴۹]
قارئین اب آئیں ھم آپکو احناف کی طرف سے پیش کیئے گئے مجاھد رحمہ اللہ کے قول کی حقیقت بھی دکھاتے ھیں،
مصنف ابن ابي شيبة : 2704
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا جَرِيرٌ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ " كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَصْنَعُ الْمَرْأَةُ
لیث بن ابي سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے______قال البوصیری :”ھذا إسناد ضعیف ، لیث ھو ابن أبي سلیم ضعفه عند الجمھور". [سنن ابن ماجہ : ۲۰۸ مع زوائد البوصیری]
امام يحيى بن معين کہتے ہیں : منكر الحديث، ومرة: ضعيف إلا أنه يكتب حديثه، ومرة: أضعف من عطاء ويزيد، ومرة: ليس به بأس، وعامة شيوخه لا يعرفون، ومرة: ليس حديثه بذاك ضعيف
امام ابن حجر رحمہ اللہ اور الدارقطني رحمہ اللہ نے بھی ضعیف کہا__________؛؛؛
لیثِ مذکور پر جرح کے لئے دیکھئے التھذیب التھذیب و کتب اسماء الرجال اور سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب: “احسن الکلام” [ج۲ ص ۱۲۸ طبع بار دوم، عنوان تیسرا باب، آثار صحابہ و تابعین وغیرہم]
لیث بن ابی سلیم مدلس بھی ہے ۔ [مجمع الزوائد للبیهقي ج ۱ ص ۸۳، کتاب مشاہیر علماء الامصار لإبن حبان ص ۱۴۶ ت:۱۱۵۳]
اور یہ روایت معنعن ہے لہذا مجاھد کا یہ قول ضعیف و مردود ہے__________؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
احناف کی گیارہویں دلیل
سنن الکبری للبیھقي : 2935
أَحَدُهُمَا حَدِيثُ عَطَاءِ بْنِ الْعَجْلانِ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ الْعَبْدِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : " خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ الأَوَّلُ ، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ الصَّفُّ الآخِرُ ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَتَجَافَوْا فِي سُجُودِهِمْ ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ يَنْخَفِضْنَ فِي سُجُودِهِنَّ ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَفْرِشُوا الْيُسْرَى ، وَيَنْصِبُوا الْيُمْنَى فِي التَّشَهُّدِ ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ يَتَرَبَّعْنَ ، وَقَالَ : يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ ، لا تَرْفَعْنَ أَبْصَارَكُنَّ فِي الصَّلاةِ تَنْظُرْنَ إِلَى عَوْرَاتِ الرِّجَالِ " ، أَخْبَرَنَاهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ثناالْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ الْبَيْرُوتِيُّ ، أنبأ مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ عَجْلانَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ فَذَكَرَهُ ، وَاللَّفْظُ الأَوَّلُ ، وَاللَّفْظُ الآخِرُ ، مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ مَشْهُورَانِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا بَيْنَهُمَا مُنْكَرٌ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا نماز میں مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے۔ آپ ﷺ سرکار مردوں کو نماز میں سجدہ کے دوران کھل کھلا کر رہنے کی تلقین فرماتے اور عورتوں کو سجدوں میں سمٹ سمٹا کر رہنے کی۔ مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو مربع شکل میں بیٹھنے کا حکم دیتے اور فرمایا عورتو! نماز کے دوران نظریں اٹھا کر مردوں کے ستر نہ دیکھنا۔‘‘
الجواب: اس روایت کے نیچے امام البیھقی کے الفاظ ھیں: [مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ مَشْهُورَانِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا بَيْنَهُمَا مُنْكَرٌ وَاللَّهُ أَعْلَمُ] یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مشہور ھیں اور ان کے درمیان سب منکر/موضوع ھے"_____
نیز اس روایت کا راوی عطاء بن عجلان جس کے بارے میں خود امام البیھقی فرماتے ھیں: [عطاء بن عجلان ضعیف] عطاء بن عجلان ضعیف ھے____[السنن الکبری : ٢٢٣/٢]
حافظ ابن حجر لکھتے ھیں: متروك بل أطلق عليه ابن معین والفلاس و غیرھما الکذب".
یہ متروک ھے بلکپ ابن معین اور الفلاس وغیرھما نے اسے مطلق طور پر کذاب قرار دیا ھے"._______[التقریب : ٤٥٩٤]
اس روایت اور سابقہ روایت کے بارے میں امام البیھقی فرماتے ھیں: یہ دونوں روایتیں ضعیف ھیں ان جیسی روایتوں سے حجت نہیں کڑی جاتی"._____[السنن الکبری : ٢٢٢/٢]
نیز اس روایت کا راوی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سُلَيْم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف، اور صدوق يخطئ، ھے، اور عبد الرحمن بن سلیم ہی نے یہ روایت عطاء بن عجلان [متروك الحدیث] سے روایت کی ھے______
نتیجہ: یہ روایت مردود وموضوع ھے___
احناف کی گیارہویں دلیل
مصنف ابن ابي شيبة : 2705
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا ابْنُ مُبَارَكٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : " الْمَرْأَةُ تَضْطَمُّ فِي السُّجُودِ"
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ھیں کہ عورت سجدے میں سمٹ جڑ کر رہے" .
الجواب: هشام بن حسان مدلس راوی ھیں [طبقات المدلسین المرتبہ الثالثہ : ١١٠/٣] اور یہ روایت "عن" سے ھے، لہذا حسن بصری رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ قول ضعیف و مردود ھے____
مصنف ابن ابي شيبة : 2703
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : " إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا وَلْتَضَعْ بَطْنَهَا عَلَيْهِمَا ".
ابراھیم نخعی [تابعی] کہتے ھیں کہ جب عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے" .____
الجواب: مغيرة بن مقسم الضبي مدلس ھے، اور ابراھیم نخعی سے تو تدلیس میں مشہور ھے یہ، اور روایت بھی معنعن ھے______
باقی عورت سینے پر ہاتھ باندھے اور مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھے، اس تفریق کی دلیل احناف سے ملی نہیں مجھے__________;;;;;;;;;
آلِ تقلید کا ایک بہت بڑا جھوٹ:
امین اوکاڑوی دیوبندی صاحب کا ممدوحین نے مردوں اور عورتوں کا طریقۂ نماز میں فرق ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے کہ:
[قال أبو بکر بن أبی شیبۃ سمعت عطاء سئل عن المرأۃ کیف ترفع یدیھا فی الصلوۃ قال: حذو ثدییھا…..]
ترجمہ: امام بخاریؒ کے استاد ابوبکر ؒبن ابی شیبہ فرماتےہیں کہ میں حضرت عطاء ؓ سے سنا کہ ان سے عورت کے بارے میں پوچھا گیا وہ نماز میں ہاتھ کیسے اُٹھائے تو انہوں نے فرمایا کہ اپنی چھاتیوں تک……[المصنف لابی بکر بن ابی شیبہ ج۱ ص ۲۳۹]
[مجموعہ رسائل اوکاڑوی ، ج ۲ ص ۹۶ طبع اول جون ۱۹۹۳ء و تجلیات صفدر مطبوعات مکتبہ امدادیہ ملتان ج ۵ ص ۱۱۰]
الجواب:
مصنف ابن ابی شیبہ میں لکھا ہوا ہے کہ :
مصنف ابن ابي شيبة : 2401
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَنَا شَيْخٌ لَنَا ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطَاءً سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ كَيْفَ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلَاةِ ، قَالَ : " حَذْوَ ثَدْيَيْهَا " .
معلوم ہوا کہ ابوبکر بن ابی شیبہ اور عطاء (متوفی ۱۱۴ھ) کے درمیان دو واسطے ہیں جن میں سے ایک واسطہ [شیخ لنا] مجہول ہے جسے ایک خاص مقصد کے لئے اوکاڑوی صاحب کے ممدوحین نے گرا دیا ہے تاکہ سند کا ضعیف ہونا واضح نہ ہوجائے____
محمد تقی عثمانی دیوبندی صاحب وغیرہ کے مصدقہ فتویٰ میں لکھا ہوا ہے کہ:
“اور ایک تابعی کا عمل اگر چہ اصول کے مخالف نہ بھی ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا______
[مجموعہ رسائل ۹۹/۲و تجلیات صفدر ۱۱۳/۵]
اس فتویٰ کے ذمہ دار درج ذیل حضرات ہیں:
(۱)امین اوکاڑوی (۲) محمد تقی عثمانی (۳) محمد بدر عالم صدیقی (۴) محمد رفیع عثمانی وغیرہم
عرض ہے کہ آپ لوگ تابعین کے اقوال کیوں پیش کررہے ہیں؟
اہل حدیث کے دلائل پر اعتراضات
اہل حدیث کے نزدیک سینے پر ہاتھ باندھنے ، رکوع ، سجود اور نماز میں بیٹھنے وغیرہ میں مردوں اور عورتوں کا طریقۂ نماز ایک جیسا ہے کیونکہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
[صلوا کما رأیتموني أصلي] نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
[البخاری : ۶۳۱]
اس حدیث کے مفہوم پر آلِ تقلید نے بہت اعتراضات کیے ہیں لیکن دیوبندی مفتیان کے مصدقہ فتوے میں لکھا ہوا ہے کہ : اس روایت میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث کی عمومیت میں مردو عورت سمیت پوری امت شریک ہے اور پوری امت پرلازم ہے کہ جو طریقہ آنحضرت ﷺ کی نماز کا ہے وہی طریقہ پوری امت کا ہولیکن یہ واضح ہو کہ اس عمومیت پر عمل اس وقت ہی ضروری ہے جب تک کوئی شرعی دلیل اس کے معارض نہ ہو۔۔۔”
[مجموعہ رسائل ج ۲ ص ۱۰۱ و تجلیات صفدر ج ۵ ص ۱۱۴،۱۱۵]
عرض ہے کہ گذشتہ صفحات میں آپ نے باتفصیل پڑھ لیا ہے کہ عورت کے علیحدہ طریقۂ نماز کی تخصیص پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے ۔
مشہور صحابیٔ رسول ﷺ ابوالدرداء ؓ کی بیوی ام الدرداء [ھجیمۃ تابعیۃ رحمہا اللہ] کے بارے میں ان کے شاگرد (امام) مکحول الشامی ؒ فرماتے ہیں کہ :
أن أم الدرداء کانت تجلس فی الصلوۃ کجلسۃ الرجل" .____
بےشک ام الدرداء [ رحمہا اللہ] نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں۔
[مصنف ابن ابی شیبہ ۲۰۷/۱ح ۲۷۸۵ و عمدۃ القاری ۱۰۱/۶ و سندہ قوی، التاریخ الصغیر للبخاری ۲۲۳/۱ تاریخ دمشق لابن عساکر ۱۱۷/۷۴ وتغلیق التعلیق ۳۲۹/۲]
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وکانت أم الدرداء تجلس في صلاتھا جلسۃ الرجل و کانت فقیھۃ" .___
اور ام الدرداء [رحمہا اللہ] اپنی نماز میں مرد کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہہ تھیں" .
[صحیح البخاری قبل ح:۸۲۷]
کیا خیال ہے سیدنا ابوالدرداء کی فقیہہ بیوی ام الدرداء رحمہا للہ نے نماز کا طریقہ کس سے سیکھا تھا ؟
ام الدرداءؒ تابعیہ کے اس عمل کی تائید ابرہیم نخعیؒ (تابعی صغیر) کے قول سے بھی ہوتی ہے۔
ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں:
[تقعد المرأۃ فی الصلوۃ کما یقعد الرجل]
عورت نماز میں اس طرح بیٹھے جیسے مرد بیٹھتا ہے ۔ [مصنف ابن ابی شیبہ ۲۷۰/۱ ح ۲۷۸۸ وسندہ صحیح]
امام ابوحنیفہؒ کے استاد حمادؒ (بن سلیمان) فرماتے ہیں کہ : عورت کی جیسی مرضی ہو (نماز میں) بیٹھے”___
[ابن ابی شیبہ ۲۷۱/۱ ح ۲۷۹۰ و سندہ صحیح]
عطاء بن ابی رباح ؒ (تابعی) کا قول اس مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے کہ : عورت کی ہیئت مرد کی طرح نہیں ہے اگر وہ (عورت) اسے ترک کردے تو کوئی حرج نہیں ہے" .____
معلوم ہوا کہ آلِ تقلید حضرات مر د وعورت کے طریقہ نماز میں جس اختلاف کا ڈھندورا پیٹ رہے ہیں وہ بہ اجماع تابعین باطل ہے.
تنبیہ: اس مضمون میں آلِ تقلید کے تمام دریافت شدہ شبہات کا جواب آگیا ہے والحمد لله
خلاصہ التحقیق: مرد و عورت کی نماز میں یہ فرق ہے کرنا کہ مرد ناف سے نیچے ہاتھ باندھے اور عورت سینے پر، مرد سجدوں میں کہنیاں زمین سے اُٹھائے اور عورت اپنی کہنیاں زمین سے ملا لے وغیرہ_____ یہ تفریقات قرآن و حدیث و اجماع سے قطعاً ثابت نہیں ہیں، قرآن و حدیث سے جو فرق ثابت ہے اسے اہلحدیث علماء و عوام سر آنکھوں پر رکھتے ہیں مثلاً عورت کے لئے ڈوپٹے کا ہونا ضروری ہے ، بھولنے والے امام کو تسبیح کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ مار کر تنبیہ کرنا وغیرہ
فائدہ: الشیخ الفقیہ محمد بن الصالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
“فالقول الراجح: أن المرأۃ تصنع کما یصنع الرجل في کل شئ ، فترفع یدیھا و تجافي و تمد الظھر فی حال الرکوع و ترفع بطنھا عن الفخذین و الفخذین عن الساقین في حال السجود" ._______
پس راجح قول (یہ ) ہے کہ: عورت بھی (نما ز کی) ہر چیز میں اسی طرح کرے گی جس طرح مرد کرتا ہے ۔ وہ رفع یدین کرے گی (ہاتھوں کو پہلووں سے) دور رکھے گی، رکوع میں اپنی پیٹھ سیدھی کرے گی، حالتِ سجدہ میں اپنے پیٹ کو رانوں سے دور اور رانوں کو پنڈلیوں سے ہٹا کر رکھے گی۔
[الشرح الممتع علی زاد المستقع ج ۳ ص ۲۱۹ طبع دار ابن الجوزی]
وما علینا إلا البلاغ___________
@ڈاکٹر عادل ایوب سلفی @محمد نعیم یونس @اسحاق سلفی @محمد عامر یونس @محمد ارسلان @ابن قدامہ
Last edited by a moderator: