• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے دلائل

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
محترم شیخ @اشماریہ صاحب. شاید اس سے مدد مل جاۓ آپکو:
(((بكير بن عبد الله بن الأشج)))
قال ابن حجر في ترجمته من التهذيب: «وقال أحمد بن صالح المصري إذا رأيت بكير بن عبد الله روى عن رجل فلا تسأل عنه فهو الثقة الذي لا شك فيه».
وقال المعلمي في التنكيل (2/ 123): «وعثمان بن الوليد ذكره ابن حبان فب الثقات وذاك لا يخرجه عن جهالة الحال لما عرف من قاعدة ابن حبان، لكن إن صحت رواية بكير بن الأشج عنه فإنها تقويه» ثم ذكر كلمة أحمد بن صالح ثم قال: «وهذه العبارة تحتمل وجهين:
الأول: أن يكون المراد بقوله (فلا تسأل عنه) أي عن ذلك المروي أي لا تلتمس لبكير متابعاً فإنه أي بكيراً الثقة الذي لا شك فيه ولا يحتاج إلى متابع.
الوجه الثاني: أن يكون المراد فلا تسأل عن ذلك الرجل فإنه الثقة، يعني أن بكيراً لا يروي الا عن ثقة فلا شك فيه، والله أعلم».
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
لا يحل لرجل أن يهجر أخاه المسلم فوق ثلاث ، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ) رواه البخاري ( 5727 ) ومسلم ( 2560 )

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الإِثْنَيْنِ ، وَيَوْمَ الْخَمِيسِ ، فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا ، إِلاَّ رَجُلاً كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ ، فَيُقَالُ: أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا ، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا ، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا. (مسلم: 2565)

عمر بھائی ۔ ۔۔میں تو ایک جاہل سا آدمی ہوں ۔۔۔علم اور عربیت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ۔۔۔بہت غلطیاں کرتا ہوں ۔۔
بہر حال ۔۔۔پہلی حدیث میں استدلال کا لفظ ۔۔۔احدکم۔۔ہے
یہ لفظ محتمل ہے ۔ میں نے جو حدیث پیش کی کہ اس میں رجل لفظ سے اس کی تعین کی کوشش کی کہ چونکہ ميري نظر ميں سلف کی اکثریت ( ماسوا حافظ ابن حزمؒ ) اسی بات کی قائل ہے کہ مرد و عورت کے سجدے میں یا بیٹھنے میں کچھ فرق ہے اس لئے یہ لفظ متعین ہوگیا ۔
۔ آپ کا بھی احتمال ہے کہ اس میں دونوں شامل ہیں ۔یہ صریح نہیں ۔ اسی لئے بریکٹ میں آپ کو مرد و عورت لکھنا پڑتا ہے ۔ تشریح کرنی پڑتی ہے کہ یہ عام ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ رجل لفظ کا اطلاق کبھی مرد و عورت دونوں پر ہوتا ہے ۔ جیسے اردو میں آدمی یا شخص۔ لیکن کیا ہمیشہ رجل سے مراد ایسا ہوتا ہے تو ایسا نہیں ہے ۔

تفضل صلاة الجميع صلاة أحدكم وحده بخمس وعشرين جزءا۔..... (بخاری ٦٤٨)
پھر احدکم کی تعین رجل سے ۔۔۔۔
صلاة الرجل في الجماعة تضعف على صلاته في بيته وفي سوقه خمساً وعشرين ضعفا .... (بخاري ٦٤٧)
ان احادیث میں بالاتفاق عورت شامل نہیں ۔ ( اگر کسی کو اتفاق نہیں ۔تو مجھے اس سے بحث نہیں )
توپھر یہاں بھی میرا یہی نظریہ ہے ۔اور سوائے ابن حزمؒ کے اور اس کا خلاف بھی نہیں ۔جن کے دلائل پر کبھی دل مطمئن نہیں ہوا ۔کیونکہ ان کے پیچھے سلف میں سے کوئی بھی نہیں ۔ محتمل اور غیر صریح کے بارے میں اپنی تشریح کیوں کریں ۔۔۔سلف کی کیوں نہ کریں ۔
اسی طرح کوئی اثر بھی صریح نہیں لگا۔
باقی روایات کی جرح و تعدیل ۔۔۔ ۔وہ کافی ہو چکی ہے ۔۔۔جس کا دل مطمئن نہ ہو ۔پھر کیا کیا جائے۔۔۔اپنے طریقے پر عمل کریں پھر ۔
دوسرے پہ رد و قدح ۔ ۔۔۔۔میں اس لائن کا بندہ نہیں ۔۔۔اشماریہ بھائی اس میں دلچسپی رکھتے ہوں تو ان سے بات کر لیں ۔۔۔
نہ اس کا قائل ہوں کہ اپنے موافق کی کتاب سے دلائل نقل کردوں ۔۔۔تاکہ آپ کو چپ کرادوں ۔۔۔
جب تک خود نہ دیکھ لوں ۔۔۔دل مطمئن نہیں ہوتا ۔۔۔اور یہ فرصت کےاور اہل علم کے کام ہیں ۔۔۔۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
عمر بھائی ۔ ۔۔میں تو ایک جاہل سا آدمی ہوں ۔۔۔علم اور عربیت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ۔۔۔بہت غلطیاں کرتا ہوں ۔۔
بہر حال ۔۔۔پہلی حدیث میں استدلال کا لفظ ۔۔۔احدکم۔۔ہے
یہ لفظ محتمل ہے ۔ میں نے جو حدیث پیش کی کہ اس میں رجل لفظ سے اس کی تعین کی کوشش کی کہ چونکہ ميري نظر ميں سلف کی اکثریت ( ماسوا حافظ ابن حزمؒ ) اسی بات کی قائل ہے کہ مرد و عورت کے سجدے میں یا بیٹھنے میں کچھ فرق ہے اس لئے یہ لفظ متعین ہوگیا ۔
۔ آپ کا بھی احتمال ہے کہ اس میں دونوں شامل ہیں ۔یہ صریح نہیں ۔ اسی لئے بریکٹ میں آپ کو مرد و عورت لکھنا پڑتا ہے ۔ تشریح کرنی پڑتی ہے کہ یہ عام ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ رجل لفظ کا اطلاق کبھی مرد و عورت دونوں پر ہوتا ہے ۔ جیسے اردو میں آدمی یا شخص۔ لیکن کیا ہمیشہ رجل سے مراد ایسا ہوتا ہے تو ایسا نہیں ہے ۔

تفضل صلاة الجميع صلاة أحدكم وحده بخمس وعشرين جزءا۔..... (بخاری ٦٤٨)
پھر احدکم کی تعین رجل سے ۔۔۔۔
صلاة الرجل في الجماعة تضعف على صلاته في بيته وفي سوقه خمساً وعشرين ضعفا .... (بخاري ٦٤٧)
ان احادیث میں بالاتفاق عورت شامل نہیں ۔ ( اگر کسی کو اتفاق نہیں ۔تو مجھے اس سے بحث نہیں )
توپھر یہاں بھی میرا یہی نظریہ ہے ۔اور سوائے ابن حزمؒ کے اور اس کا خلاف بھی نہیں ۔جن کے دلائل پر کبھی دل مطمئن نہیں ہوا ۔کیونکہ ان کے پیچھے سلف میں سے کوئی بھی نہیں ۔ محتمل اور غیر صریح کے بارے میں اپنی تشریح کیوں کریں ۔۔۔سلف کی کیوں نہ کریں ۔
اسی طرح کوئی اثر بھی صریح نہیں لگا۔
باقی روایات کی جرح و تعدیل ۔۔۔ ۔وہ کافی ہو چکی ہے ۔۔۔جس کا دل مطمئن نہ ہو ۔پھر کیا کیا جائے۔۔۔اپنے طریقے پر عمل کریں پھر ۔
دوسرے پہ رد و قدح ۔ ۔۔۔۔میں اس لائن کا بندہ نہیں ۔۔۔اشماریہ بھائی اس میں دلچسپی رکھتے ہوں تو ان سے بات کر لیں ۔۔۔
نہ اس کا قائل ہوں کہ اپنے موافق کی کتاب سے دلائل نقل کردوں ۔۔۔تاکہ آپ کو چپ کرادوں ۔۔۔
جب تک خود نہ دیکھ لوں ۔۔۔دل مطمئن نہیں ہوتا ۔۔۔اور یہ فرصت کےاور اہل علم کے کام ہیں ۔۔۔۔
جناب عالی!
آپ نے رجل کے بارے میں پوچھا تھا.
میں نے ایک دلیل دی کہ رجل بول کر کبھی عورت بھی مراد لیا جاتا ھے. لہذا آپ کا تخصیص کی بات کہنا درست نہیں معلوم ھوتا.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
عمر بھائی ۔ ۔۔میں تو ایک جاہل سا آدمی ہوں ۔۔۔علم اور عربیت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ۔۔۔بہت غلطیاں کرتا ہوں ۔۔
محترم میں بھی کوئ عالم دین نہیں ھوں. اس لۓ اکثر خاموش رہتا ھوں. اور یقین جانۓ پچھلے تین چار ماہ سے مطالعہ کرنا شروع کیا ھے ورنہ اب تک سو رھا تھا.
یہ ٹھیک ہے کہ رجل لفظ کا اطلاق کبھی مرد و عورت دونوں پر ہوتا ہے ۔ جیسے اردو میں آدمی یا شخص۔ لیکن کیا ہمیشہ رجل سے مراد ایسا ہوتا ہے تو ایسا نہیں ہے ۔
محترم عموم کو عمومیت پر باقی رکھا جاتا ھے نا؟
ھاں اگر آپ خاص کر رھے ھیں تو اسکے لۓ دلائل وغیرہ کی ضرورت پڑتی ھے.... جی واللہ اعلم بالصواب
دوسرے پہ رد و قدح ۔ ۔۔۔۔میں اس لائن کا بندہ نہیں ۔۔۔اشماریہ بھائی اس میں دلچسپی رکھتے ہوں تو ان سے بات کر لیں ۔۔۔
میں ایک طالب علم ھوں سیکھنے کی کوشش کرتا ھوں...... اور الحمد للہ اس فورم سے بہت کچھ سیکھا ھے.
اللہ ھم سبکو عمل کی توفیق عطا فرماۓ.
آمین
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
عموم کو عمومیت پر باقی رکھا جاتا ھے نا؟
بھائی اپنی بات کی مزید وضاحت کر دوں کہ ۔۔۔رجل ۔۔۔سے اکثریت مراد ۔۔۔مرد۔۔۔ ہی لیا جاتا ہے ۔۔۔امید ہے قرآن و سنت سے اس کی مثالیں دینے کی ضرورت نہیں ۔۔ورنہ پھر مرد کے لئے کیا لفظ لیا جاتاہے ؟ ۔
کبھی کبھی جو اس میں عورت شامل ہوتی ہے ۔ اس کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔
چناچہ رجل کی عمومیت کو باقی رکھیں ۔۔۔
 
Last edited:
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
عمر بھائی میں اپنی اوپر کی تحریر پہ مزید اضافہ نہیں کر سکوں گا ۔ مجھے بے علمی کی وجہ سے معزور سمجھیں ۔
ایک اور بات کی بھی وضاحت کردوں فروعی مسائل میں رفع یدین ، قرااۃ خلف الامام ، وضع یدین وغیرہ میں میرا یہ نظریہ ہے کہ اس میں شروع سے ہی اختلاف ہے ۔ دونوں طرف دلائل ہیں ۔
لیکن مرد و عورت کی نماز کے فرق میں میں نے جو یہ لکھا کہ ۔حافظ ابن حزمؒ کے علاوہ کوئی اختلاف نہیں ۔
بعض آثار (مصنف ابن ابی شیبہ میں )اس کے خلاف میں جو منقول ہیں ۔
مثلاََ بعض میں ہے ۔حمادؒ یا عامرؒ سے روایت ہیں ۔ان میں ہے کہ عورت جس طرح آسانی ہو بیٹھے ۔
ان کا تو مطلب واضح نہیں ۔
ابراہیم ؒ کا اثر کہ۔عورت مرد کی طرح بیٹھے ۔
تو ساتھ ہی ان کا دوسرا اثر ہے ۔۔تجلس من جانب الصلاۃ۔
ام درداءؒ کا اثر بخاری میں سند کے ساتھ نہیں ۔ مصنف میں ہے اوردوسری کتب میں ۔
ابن رجبؒ نے شرح بخاریؒ ۷۔۲۹۹میں اس کو سند سےنقل کیا ہے اس میں اضافہ ہے
أن أم الدرداء كانت تجلس في الصلاة جلسة الرجل إلا إنها تميل على شقها الأيسر، وكانت فقيهةً
یعنی وہ کچھ بائیں جانب مائل ہوتی تھیں۔
اور مشکل الآثار ۱۳۔۲۴۴میں تو ہے کہ وہ چوکڑی مار کر بیٹھتی تھیں ۔
اگر یہ آثار واضح ہوتے تو میرا یہ نظریہ ہوتا کہ اس بارے میں بھی اختلاف ہے ۔
ان کی وضاحت میں نے یہ مسئلہ مزید چھیڑنے کے لئے نہیں کی بلکہ اپنی اس بات کی وضاحت کے لئے کی کہ
(اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں) ۔ ورنہ آج کل یہ جملہ بڑا مشہور ہے ۔ جو پوری دنیا میں متفرد بھی ہو تو یہ جملہ بول دیتا ہے ۔
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
عمر بھائی میں اپنی اوپر کی تحریر پہ مزید اضافہ نہیں کر سکوں گا ۔ مجھے بے علمی کی وجہ سے معزور سمجھیں ۔
میرے پیارے بھائ!
معذرت کے ساتھ... پھر تو آپ کو یہ بات نہ کہنی چایۓ تھی.
خیر.
اللہ ھمیں عمل کی توفیق عطا فرماۓ.
آمین
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم شیخ @اشماریہ صاحب. شاید اس سے مدد مل جاۓ آپکو:
(((بكير بن عبد الله بن الأشج)))
قال ابن حجر في ترجمته من التهذيب: «وقال أحمد بن صالح المصري إذا رأيت بكير بن عبد الله روى عن رجل فلا تسأل عنه فهو الثقة الذي لا شك فيه».
وقال المعلمي في التنكيل (2/ 123): «وعثمان بن الوليد ذكره ابن حبان فب الثقات وذاك لا يخرجه عن جهالة الحال لما عرف من قاعدة ابن حبان، لكن إن صحت رواية بكير بن الأشج عنه فإنها تقويه» ثم ذكر كلمة أحمد بن صالح ثم قال: «وهذه العبارة تحتمل وجهين:
الأول: أن يكون المراد بقوله (فلا تسأل عنه) أي عن ذلك المروي أي لا تلتمس لبكير متابعاً فإنه أي بكيراً الثقة الذي لا شك فيه ولا يحتاج إلى متابع.
الوجه الثاني: أن يكون المراد فلا تسأل عن ذلك الرجل فإنه الثقة، يعني أن بكيراً لا يروي الا عن ثقة فلا شك فيه، والله أعلم».
محترم عمر اثری بھائی۔
معلمیؒ نے جو دو معنی بیان کیے ہیں ضمیر کے مرجع کے ان میں اگر ہم دوسرے معنی کو ترجیح دیں تو کیا خیال ہے؟
میرا یہ خیال ہے کہ پہلے معنی تھوڑا بعید لگتا ہے کیوں کہ
اگر یہاں مرجع "مروی" لیں تو یہ مرجع بعید ہے اور قریب کے اسم کو مرجع بنانا اولی ہوتا ہے۔ دوسری بات بکیر کی ثقاہت کے ساتھ روی عن رجل کا اضافہ زائد لگتا ہے (بکیر کی ثقاہت کا کسی سے روایت کرچکنے سے کیا تعلق؟ اور اس صورت میں "اذا رایت بکیر بن عبد اللہ 'یروی' عن رجل" زیادہ مناسب ہوتا جو عربی کا عام طرز ہے) بنسبت دوسرے کے۔ دوسرے میں یہ دونوں مسائل نہیں ہیں۔ مرجع بھی قریب ہے اور روی عن رجل کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ اسی رجل کی بات کرنی ہے۔
بہر حال یہ میری رائے ہے فقط۔


محترم عموم کو عمومیت پر باقی رکھا جاتا ھے نا؟
ھاں اگر آپ خاص کر رھے ھیں تو اسکے لۓ دلائل وغیرہ کی ضرورت پڑتی ھے.... جی واللہ اعلم بالصواب
درست بات ہے کہ عموم کو عموم پر باقی رکھا جاتا ہے لیکن جو ایک اثر میں نے ذکر کیا ہے اس سے اس کی تخصیص ہو رہی ہے۔ اور جب ایك بار تخصیص ہو جائے تو پھر اثر ظنی ہو جاتا ہے (یہ حنفیہ کے نزدیک ہے۔ جمہور کے نزدیک تو عام ابتداء ہی ظنی ہوتا ہے چاہے تخصیص ہو یا نہ ہو)۔ ظنی ہونے کے بعد مزید تخصیص خبر واحد سے بھی جائز ہے اور قیاس سے بھی (تفصیل کے لیے الوجیز للزحیلی)۔ اور قیاس یہ کہتا ہے کہ عورت کو ہر معاملے میں پردے اور ستر کا حکم مردوں سے زیادہ ہے اور سمٹ کر نماز پڑھنے میں عورت کا پردہ بہت زیادہ ہے بنسبت مردوں کی طرح اٹھا ہوا کھلا سجدہ کرنے کے۔
دوسری بات یہ کہ سلف صالحین جو ہم سے زیادہ عربی جانتے تھے اگر انہوں نے متفقہ طور پر اسے عموم پر نہیں رکھا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ یا تو یہاں عموم کا یہ قاعدہ جاری نہیں ہو رہا اور یا یہاں اس قسم کے آثار سے تخصیص ہو رہی ہے۔
و الله اعلم
 
Top