• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے دلائل

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اسلام ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اگر ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت مل جائے اور وہ اپنے مزاج و منشاء کے مطابق شرعی احکام کے بارے میں فتویٰ صادر کرنے لگے تو شریعت بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گی۔ اس لئے ائمہ و فقہاء نے اجتہاد کی شرائط مقرر کی ہیں اور مجتہد کے لئے مخصوص صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ امام شاطبی نے مجتہد کی بڑی جامع اور مختصر تعریف بیان کی ہے۔
’’اجتہاد کا درجہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو ان دو اوصاف کا حامل ہو، پہلا یہ کہ وہ شریعت کے مقاصد کو مکمل طور پر سمجھتا ہو، دوسرا یہ کہ وہ ماخذ شریعت سے احکام استنباط کرنے کی مکمل استطاعت رکھتا ہو۔‘‘ نیز ایک مجتہد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرے کے رسوم و رواج کو بھی حالات زمانہ اور ضروریات معاشرہ وغیرہ کو بھی جانتا ہو۔
مذکورہ تعریف کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت کی نصوص کا عالم ہو، ان مسائل سے واقف ہو جن پر اجماع ہو چکا ہے، عربی لغت کا ماہر ہو، صرف و نحو اور بیان و معانی پر قدرت رکھتا ہو اور آیات و احادیث کے ناسخ و منسوخ سے آگاہ ہو لہٰذا جب ان تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے اجتہاد کیا جائے گا تو بارگاہِ الٰہی سے تائید و نصرت اور اجر ملے گا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہاد کرنے والے کے متعلق فرمایا :
إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ، فَلَه أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدُ ثُمَّ أَخْطَاءَ فَلَهُ أَجْرٌ.
’’جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ دینے میں صحیح اجتہاد کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، اور اگر اس نے اجتہاد میں غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنه، باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ، 6 : 2676، رقم : 6919
2. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب بيان اجر الحاکم إذا اجتهد، فأصاب أو أخطا 3 : 1342، رقم :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آپ نے اجتہاد کی دو تین شرائط اردو میں لکھ دیں ،حالانکہ میں نے شرائط نہیں ،خود اجتہاد کے بارے آپ سے پوچھا تھا کہ اجتہاد کیا ہے ؟
یعنی مجتہد کسے کہتے ہیں ؟
پھر آپ نے جو شرائط لکھیں وہ بھی آٹھویں صدی کے ایک عالم کا نام لے کر !
حالانکہ حوالہ تو قرون اولی کا یعنی متقدمین کا ہونا چاہیئے ،
اور صرف نام لینے سے کام نہیں چلے گا،اصل عبارت اور الفاظ عربی کے سامنے آنا ضروری ہیں ۔
پھر ہم سمجھ سکیں گے کہ اجتہاد کیا ہے ،، کون کرسکتا ہے ،،کون نہیں کرسکتا ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
مجھے تو لگتا ہے ”بہت“سے لوگوں کو ”ائمہ اربعہؒ“کی ”فقہ“نہیں بلکہ صرف اور صرف”فقہ حنفی“کی بالا دستی ”مقصود“ ہے۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
حدیث نمبر1
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، قَالَ : فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَا وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ ، إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْكَ حِذَاءَ أُذُنَيْكَ ، وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَا". [المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الْوَاوِ » وَائِلُ بْنُ حَجَرٍ الْحَضْرَمِيُّ القيل، رقم الحديث: 17527]
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد » كتاب الصلاة، 2594] [البدر المنير، لابن الملقن: 3/ 463]
حضرت وائل بن حجر رضی ﷲ عنہ فرماتے ہے کہ مجھے رسول ﷲ
نے فرمایا کہ اے وائل بن حجر تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔ (معجم طبرانی کبیر ج22ص18)
(۱) اس روایت کے متعلق مجمع الزوائد ص۱۰۳ ج۲ پر لکھا ہے ’’ قُلْتُ : لَہٗ فِی الصَّحِیْحِ وَغَیْرِہٖ فِیْ رَفْعِ الیَدَیْنِ غَیْرَ ہٰذَا الْحَدیْثِ رَوَاہُ الطَّبْرَانِیْ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ فِیْ مَنَاقِبِ وَائِلٍ مِنْ طَرِیْقِ مَیْمُوْنَة بِنْتِ حُجْرٍ عَنْ عَمَّتِہَا أُمِّ یَحْیٰی بِنْتِ عَبْدِ الْجَبَّارِ وَلَمْ أَعْرِفْہَا وَبَقِیَّة رَجَالِہٖ ثِقَاتٌ‘‘ ۔ تو یہ روایت بوجہ مجہولیت راویہ کمزور ہے قابل احتجاج نہیں ۔​
اسے طبرانی نے مناقب وائل ؓ سے میمونہ بن حجرسے، انہوں نے اپنی پھوپھی ام یحیی بنت عبدالجبار سے لمبی حدیث میں روایت کیا ہے۔ ام یحیی کو میں نہیں جانتا اور اس (سند ) کے باقی راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ۱ص ۱۰۳)​
معلوم ہوا کہ صاحب مجمع الزوائد نے اس روایت کی سند پر جرح کر رکھی ہے جسے دیوبندیوں چھپا لیا ہے ۔ کیا انصاف و امانت اسی کا نام ہے ؟ لطیفہ: حیاتی دیوبندیوں کے مناظر ، ماسٹر امین اوکاڑوی صاحب نے ام یحیی کی اسی روایت کو بطور حجت پیش کیا ہے ۔ دیکھئے مجموعہ رسائل (جلد ۲ ص ۹۴ طبع جون ۱۹۹۳؁ء ) جبکہ اپنی مرضی کے مخالف ایک حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ :”ام یحیی مجہولہ ہیں“ (مجموعہ رسائل ج ۱ص ۳۴۶ ، نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا ص ۱۰) ایک ہی راویہ اگر مرضی کے خلاف روایت ہو تو مجہولہ بن جاتی ہے اور دوسری جگہ اسی کی روایت سے حجت پکڑی جاتی ہے ۔ واہ کیا انصاف ہے !​
حدیث نمبر2
حضرت عبدربہ بن سیمان بن عمیر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام درواء رضی اﷲ عنہا کو ديکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندہوں کے برابر اٹھاتی ہیں۔(جزء رفع الیدین للامام بخاری ص7)
نبی علیہ السلام سے ہاتھوں کا کانوں تک اور کبھی کندھوں تک دونوں طرح کا اٹھانا ثابت ہیں۔
۔قال:‏‏‏‏"رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام في الصلاة رفع يديه حتى يكونا حذو منكبيه وكان يفعل ذلك حين يكبر للركوع ويفعل ذلك إذا رفع راسه من الركوع ويقول:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده ولا يفعل ذلك في السجود". ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم کو یونس بن یزید ایلی نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی، انہوں نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر تحریمہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھ اس وقت مونڈھوں (کندھوں) تک اٹھے اور اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے لیے تکبیر کہتے اس وقت بھی (رفع یدین) کرتے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے «سمع الله لمن حمده»البتہ سجدہ میں آپ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
حدیث نمبر3
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَاءٍ : أَتَجْلِسُ الْمَرْأَةُ فِي مَثْنَى عَلَى شِقِّهَا الْأَيْسَرِ ؟ قَالَ : " نَعَمْ " ، قُلْتُ : هُوَ أَحَبُّ إِلَيْكَ مِنَ الْأَيْمَنِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، تَجْتَمِعُ جَالِسَةً مَا اسْتَطَاعَتْ ، قُلْتُ : تَجْلِسُ جُلُوسَ الرَّجُلِ فِي مَثْنَى أَوْ تُخْرِجُ رِجْلَهَا الْيُسْرَى مِنْ تَحْتِ إِلْيَتِهَا ، قَالَ : " لَا يَضُرُّهَا أَيُّ ذَلِكَ جَلَسَتْ إِذَا اجْتَمَعَتْ " .[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » فِي الْمَرْأَةِ كَيْفَ تَجْلِسُ فِي الصَّلَاةِ ؟ رقم الحديث: 2715]

حضرت ابن جریج رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا رحمہ اﷲ سے کہا کہ کیا عورت تکبیر تحریمہ کہتے وقت مرد کی طرح اشارہ (رفع یدین) کرے گی؟ آپ نے فرمایا: عورت تکبیر کہتے وقت مرد کی طرح ہاتھ نہ اٹھائے آپ نے اشارہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں بہت ہی پست رکھے اور ان کو اپنے سے ملایا اور فرمایا عورت کی (نماز میں) ايک خاص ہیئت ہے جو مرد کی نہیں۔(منصف ابن ابی شیبہ ج1ص239)
مصنف ابن ابی شیبہ (۲۳۹/۱ح ۲۴۷۴) کی روایت ِ مذکورہ کے آخر میں ہے کہ عطاءبن ابی رباح ؒ نے فرمایا: إنّ للمرأۃ ھیئۃ لیست للرجل و إن ترکت ذلک فلا حرج'بے شک عورت کی ہیئت (حالت ) مرد کی طرح نہیں ہے اور اگر وہ عورت اسے ترک کردے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۳۹/۱) معلوم ہوا کہ عطاء ؒ نے نزدیک اگر عورت ، چھاتی تک ہاتھ اُٹھانا ترک کرکے مردوں کی طرح نماز پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اس آخری جملے کو ماتریدی وبریلوی حنفی مقلد حضرات چھپا لیتے ہیں کہ اس جملے سے ان کے مزعوم مذہب کی بنیاد ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ جب اس میں حرج کوئی نہیں ہے تو پھر دیوبندی و بریلوی حضرات شور کیوں مچا رہے ہیں کہ کانوں تک مرد اور عورتیں چھاتیوں تک ہاتھ اُٹھائیں؟ آلِ تقلید کے بزعم خود دعوی میں قرآن، حدیث ، اجماع اور اجتہاد ابی حنیفہ حجت ہے ۔ امام عطاء ؒ کا قول کہا ں سے ان کی حجت بن گیا ؟ جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں کہ : "فإن قول التابعي لا حجۃ فیہ" ]بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے [ (اعلاء السنن ج ۱ ص ۲۴۹) دیوبندیوں کی ایک پسندیدہ کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا: "اگر صحابہؓ کے آثار ہوں اور مختلف ہوں تو انتخاب کرتا ہوں اور اگر تابعین کی بات ہو تو ان کی مزاحمت کرتا ہوں یعنی ان کی طرح میں بھی اجتہاد کرتا ہوں " (تذکرۃ النعمان ترجمہ عقود الجمان ص ۲۴۱)​
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
حدیث نمبر4
عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ ، فَقَالَ : " إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ " .[مراسیل ابی داؤد: ص103، باب : مِنَ الصَّلاةِ, رقم الحديث: 77(87); سنن کبری بیہقی ج2ص223, جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَةِ، ٢/٢٣٢، رقم الحديث: 2938]

ترجمہ : حضرت یزید بن ابی حبیب رحمہ ﷲ سے مروی ہے کہ آنحضرت دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں آپ نے فرمایا جب تم سجدہ کروتو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو کیونکہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے ۔(مراسیل ابی داود ص:۸)
امام بیہقیؒ نے روایت مذکورہ کو امام ابوداؤد ؒ کی کتاب المراسیل (ح ۸۷) سے نقل کرنے سے پہلے اسے "حدیث منقطع" یعنی منقطع حدیث لکھا ہے ۔ (السنن الکبری ۲۲۳/۲) منقطع حدیث کے بارے میں اصول حدیث کی ایک جدید کتاب میں لکھا ہے کہ: ”المنقطع ضعیف بالإتفاق بین العلماء و ذلک للجھل بحال الراوي المحذوف“ علماء کا اتفاق ہے کہ منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے ، اس لئے کہ اس کا محذوف راوی مجہول ہوتا ہے ۔ (تیسیر مصطلح الحدیث ص ۷۸، المنقطع) تنبیہ: کتاب المراسیل لابی داؤد (ح ۳۳) میں آیا ہے کہ طاؤس ؒ(تابعی) فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتے تھے ۔ (ص۸۹) آلِ تقلید کو اس منقطع حدیث سے چڑ ہے ۔ یہ لوگ اس حدیث پر عمل کرنے کو تیار نہیں پھر بھی اہل حدیث کے خلاف کتاب المراسیل کی منقطع روایت سے استدلال کر رہے ہیں !
حدیث نمبر5
عورت نمازمیں سمٹ کر سرین کے بل بیٹھے ‘ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

”عن ابن عمر  انہ سئل کیف کان النساء یصلین علی عہد رسول اللہ ﷺ؟ قال: کن یتربعن ثم امرن ان یحتفزن“۔ (جامع المسانید‘۱:۴۰۰)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عمر سے پوچھا گیا کہ خواتین حضور کے عہد مبارک میں کس طرح نماز پڑھا کرتی تھیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: پہلے چار زانو ہوکر بیٹھتی تھیں پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں“۔
ابو المؤید محمد بن محمود الخوارزمی (متوفی ۶۶۵؁ھ/ غیر موثق) کی کتاب "جامع المسانید "میں اس روایت کے بعض راویوں کا جائزہ درج ذیل ہے ۔ ۱: ابراہیم بن مہدی کا تعین نامعلوم ہے ۔ تقریب میں اس نام کے دو راوی ہیں۔ان میں دوسرا مجروح ہے ۔ قال الحافظ ابن حجر ؒ: ”البصري، کذبوہ“ یہ بصری ہے اسے (محدثین) نے جھوٹا کہا ہے ۔ (التقریب : ۲۵۷) ۲: زربن نجیح البصری کے حالات نہیں ملے۔ ۳: احمد بن محمد بن خالد کے حالات نہیں ملے۔ ۴: علی بن محمد البزاز کے حالات نہیں ملے۔ ۵: قاضی عمر بن الحسن بن علی الاشنانی مختلف فیہ راوی ہے ۔ اس کے بارے میں امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ :"وکان یکذب"اور وہ جھوٹ بولتا ہے۔ (سوالات الحاکم للدارقطنی:۲۵۲ ص ۱۶۴) حسن بن محمد الخلال نے کہا:"ضعیف تکلموافیہ"(تاریخ بغداد ۲۳۸/۱۱) ذہبی نے اس پر جرح کی ہے۔ ابو علی الھروی اور ابو علی الحافظ نے اس کی توثیق کی ہے ۔(تاریخ بغداد ۲۳۸/۱۱) ابن الجوزی نے اس پر سخت جرح کی (الموضوعات ۲۸۰/۳) برھان الدین الحلبی نے اسے واضعین حدیث میں ذکر کیا ہے اور کوئی دفاع نہیں کیا (دیکھئے الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث ص ۳۱۲،۳۱۱ ت ۵۴۱) ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاھد : ضعیف ، معتزلی گمراہ نے اس کی تعریف کی ہے ۔خطیب بغدادی نے بھی اس کی تعریف کی ۔ خلاصہ التحقیق: قاضی اشنانی ضعیف عند الجمہور ہے۔ تنبیہ: قاضی اشنانی تک سند میں بھی نظر ہے ۔ ۶: دوسری سند میں عبداللہ بن احمد بن خالد الرازی ، زکریا بن یحیی النیسابوری اور قبیصہ الطبری نامعلوم راوی ہیں۔ اور ابو محمد البخاری (عبداللہ بن محمد بن یعقوب ) کذاب راوی ہے۔ دیکھئے الکشف الحثیث ص (۲۴۸)و کتاب القرأۃ للبیہقی (ص ۱۵۴) ولسان المیزان (۳۴۹،۳۴۸/۳) و نور العینین فی اثبات رفع الیدین (ص ۴۱،۴۰) معلوم ہوا کہ ماتریدی حضرات کی پیش کردہ یہ روایت موضوع ہے۔​
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
حدیث نمبر1
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، قَالَ : فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَا وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ ، إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْكَ حِذَاءَ أُذُنَيْكَ ، وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَا". [المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الْوَاوِ » وَائِلُ بْنُ حَجَرٍ الْحَضْرَمِيُّ القيل، رقم الحديث: 17527]
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد » كتاب الصلاة، 2594] [البدر المنير، لابن الملقن: 3/ 463]

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 2594
وعن وائل بن حجر قال : قال لي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : " يا وائل بن حجر إذا صليت فاجعل يديك حذاء أذنيك ، والمرأة تجعل يديها حذاء ثدييها ".

وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی پاک ﷺ نے نماز کا طریقہ سکھلایا تو فرمایا کہ اے وائل بن حجرؓجب تم نماز شروع کرو تو اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھ چھاتیوں تک اُٹھائے".

الجواب:
اسی حدیث کے نیچے حافظ نور الدین الھیثمی رحمہ اللہ اپنی کتاب مجمع الزوائد میں لکھتے ہیں کہ:
رواه الطبراني في حديث طويل في مناقب وائل من طريق ميمونة بنت حجر ، عن عمتها أم يحيى بنت عبد الجبار ، ولم أعرفها ، وبقية رجاله ثقات

اسے طبرانی نے مناقب وائل ؓ سے میمونہ بن حجرسے، انہوں نے اپنی پھوپھی ام یحیی بنت عبدالجبار سے لمبی حدیث میں روایت کیا ہے۔ ام یحیی کو میں نہیں جانتا اور اس (سند ) کے باقی راوی ثقہ ہیں.
(مجمع الزوائد ج ۱ص ۱۰۳)

نتیجہ:
معلوم ہوا کہ صاحب مجمع الزوائد نے اس روایت کی سند پر جرح کر رکھی ہے جسے احناف نے بڑی ھوشیاری سے چھپا کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے کی ناکام کوشش کی ھے. کیا انصاف و امانت اسی کا نام ہے ؟

لطیفہ

حیاتی دیوبندیوں کے مناظر ، ماسٹر امین اوکاڑوی صاحب نے ام یحیی کی اسی روایت کو بطور حجت پیش کیا ہے.
دیکھئے مجموعہ رسائل (جلد ۲ ص ۹۴ طبع جون ۱۹۹۳؁ء )
جبکہ اپنی مرضی کے مخالف ایک حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ :”ام یحیی مجہولہ ہیں“ (مجموعہ رسائل ج ۱ص ۳۴۶ ، نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا ص ۱۰)

ایک ہی راویہ اگر مرضی کے خلاف روایت ہو تو مجہولہ بن جاتی ہے اور دوسری جگہ اسی کی روایت سے حجت پکڑی جاتی ہے. کیا انصاف ہے؟ دراصل حنفیت کو بچانے کے لیئے ایسا کرنا تو پڑتا ہے وگرنہ حنفیت ایک سیکنڈ کی مہمان نہیں..
تنبیہ: مجمع الزوائد والی روایت مذکورہ المعجم لکبیر للطبرانی (ج ۲۲ ص ۲۰،۱۹ ح ۲۸) میں ام یحیی کی سند سے موجود ہے اور اسی کتاب سے “حدیث اور اہل حدیث” کے مصنف نے اسے نقل کر رکھا ہے ۔ (ص ۴۷۹)
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
حدیث نمبر2
حضرت عبدربہ بن سیمان بن عمیر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام درواء رضی اﷲ عنہا کو ديکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندہوں کے برابر اٹھاتی ہیں۔(جزء رفع الیدین للامام بخاری ص7)

جزء رفع الیدن للامام البخاری : 23
حَدَّثَنَا خَطَّابُ بْنُ عُثْمَانَ , عَنْ إِسْمَاعِيلَ , عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا

ترجمعہ: عبدربہ بن سلیمان بن عمیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام درداء ؓ کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اُٹھاتی ہیں".

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

الجواب:

جزء رفع الیدین میں اگلی روایت بھی ام الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہہ ہی سے ہے جس مں ام الدرداء سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے، وہ نقل کیوں نہیں کی؟

روایت یہ ہے:

جزء رفع الیدین : 24
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا حِينَ تَفْتَتِحُ الصَّلاةَ , وَحِينَ تَرْكَعُ ، وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، رَفَعَتْ يَدَيْهَا , وَقَالَتْ : رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ".

ترجمعہ: عبدربہ بن سلیمان بن عمیر ؓ کہتے ہیں میں نے ام الدرداء رضی اللہ تعالی عنہا کو دیکھا وہ نماز میں کندھوں تک رفع الیدین کرتی تھیں. جب نماز شروع کرتیں اور جب رکوع کرتیں. اور جب (امام) سمع الله لمن حمده کہتا تو رفع الیدین کرتیں اور فرماتی تھیں. ربنا لك الحمد" .

اہلحدیث کے نزدیک کندھوں تک رفع یدین کرنا بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے اور کانوں تک کرنا بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے ملاحظہ کریں:

صحیح البخاری : 735
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا وَقَالَ " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ". وَكَانَ لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ

ترجمعہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے ، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے ( رفع یدین کرتے ) اور رکوع سے سرمبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده ، ربنا ولك الحمد» کہتے تھے ۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے" .

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

کانوں تک ہاتھ اٹھانے کی دلیل:

صحیح مسلم : 391
حَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَقَالَ " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " . فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ

ترجمعہ: مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاتے جب آپ صلی اللہ علیہ ولم تکبیر (تحریمہ) کہتے. اور جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو کہتے سمع الله لمن حمدہ اور اسی طرح کرتے (کانوں تک ہاتھ اٹھاتے).
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
حدیث نمبر3
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَاءٍ : أَتَجْلِسُ الْمَرْأَةُ فِي مَثْنَى عَلَى شِقِّهَا الْأَيْسَرِ ؟ قَالَ : " نَعَمْ " ، قُلْتُ : هُوَ أَحَبُّ إِلَيْكَ مِنَ الْأَيْمَنِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، تَجْتَمِعُ جَالِسَةً مَا اسْتَطَاعَتْ ، قُلْتُ : تَجْلِسُ جُلُوسَ الرَّجُلِ فِي مَثْنَى أَوْ تُخْرِجُ رِجْلَهَا الْيُسْرَى مِنْ تَحْتِ إِلْيَتِهَا ، قَالَ : " لَا يَضُرُّهَا أَيُّ ذَلِكَ جَلَسَتْ إِذَا اجْتَمَعَتْ " .[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » فِي الْمَرْأَةِ كَيْفَ تَجْلِسُ فِي الصَّلَاةِ ؟ رقم الحديث: 2715]

حضرت ابن جریج رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا رحمہ اﷲ سے کہا کہ کیا عورت تکبیر تحریمہ کہتے وقت مرد کی طرح اشارہ (رفع یدین) کرے گی؟ آپ نے فرمایا: عورت تکبیر کہتے وقت مرد کی طرح ہاتھ نہ اٹھائے آپ نے اشارہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں بہت ہی پست رکھے اور ان کو اپنے سے ملایا اور فرمایا عورت کی (نماز میں) ايک خاص ہیئت ہے جو مرد کی نہیں۔(منصف ابن ابی شیبہ ج1ص239)


مصنف ابن أبي شيبة : 2715
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَاءٍ : أَتَجْلِسُ الْمَرْأَةُ فِي مَثْنَى عَلَى شِقِّهَا الْأَيْسَرِ ؟ قَالَ : " نَعَمْ " ، قُلْتُ : هُوَ أَحَبُّ إِلَيْكَ مِنَ الْأَيْمَنِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، تَجْتَمِعُ جَالِسَةً مَا اسْتَطَاعَتْ ، قُلْتُ : تَجْلِسُ جُلُوسَ الرَّجُلِ فِي مَثْنَى أَوْ تُخْرِجُ رِجْلَهَا الْيُسْرَى مِنْ تَحْتِ إِلْيَتِهَا ، قَالَ : " لَا يَضُرُّهَا أَيُّ ذَلِكَ جَلَسَتْ إِذَا اجْتَمَعَتْ "

ترجمعہ: ابن جریج رحمہ ﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا رحمہ اﷲ (تابعی) سے کہا کہ کیا عورت تکبیر تحریمہ کہتے وقت مرد کی طرح اشارہ (رفع یدین) کرے گی؟ آپ نے فرمایا: عورت تکبیر کہتے وقت مرد کی طرح ہاتھ نہ اٹھائے آپ نے اشارہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں بہت ہی پست رکھے اور ان کو اپنے سے ملایا اور فرمایا عورت کی (نماز میں) ايک خاص ہیئت ہے جو مرد کی نہیں".

نوٹ: اس مرسل منقطع روایت سے استدلال کرنے پر واضح ہوتا ہے کہ احناف کے پاس اپنے مذھب کو بچانے کے لیئے کوئی صحیح صریح غیر معارض دلیل نہیں.

الجواب: آلِ تقلید کے بزعم خود دعویٰ میں قرآن، حدیث ، اجماع اور اجتہاد ابی حنیفہ حجت ہے ۔ امام عطاء ؒ کا قول کہا ں سے ان کی حجت بن گیا؟ نیز تابعی کا قول اہلحدیث پر بطور حجت پیش کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے، ویسے تابعی کا قول حنفیوں کے نزدیک بھی حجت نہیں، ملاحظہ ہو:

جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں کہ: [فإن قول التابعي لا حجة فیه]
بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے. (اعلاء السنن ج ۱ ص ۲۴۹)

دیوبندیوں کی ایک پسندیدہ کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا: اگر صحابہؓ کے آثار ہوں اور مختلف ہوں تو انتخاب کرتا ہوں اور اگر تابعین کی بات ہو تو ان کی مزاحمت کرتا ہوں یعنی ان کی طرح میں بھی اجتہاد کرتا ہوں.
(تذکرۃ النعمان ترجمہ عقود الجمان ص ۲۴۱)

اس عبارت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔
اول: امام صاحب تابعین کے اقوال و افعال کو حجت تسلیم نہیں کرتے تھے
دوم: امام صاحب تابعین میں سے نہیں ہیں. اگر وہ تابعین میں سے ہوتے تو پھر تابعین کا علیحدہ ذکر کرنے کی کیا ضرور تھی؟

الزامی جواب: امام عطاء ؒ کے چند مسائل پیشِ خدمت ہیں جنہیں آلِ تقلید بالکل نہیں مانتے:

1) مصنف عبدالرازاق :2786
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ عَطَاءٍ , قال : " أَمَّا أَنَا فَأَقْرَأُ مَعَ الإِمَامِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَسُورَةٍ قَصِيرَةٍ " . وسندہ صحیح ، ابن جریج صرح بالسماع

میں (عطاء) ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ اور ایک چھوٹی سورت پڑھتا ہوں ۔


2) عطاء کا رفع الیدین اور عطاء سے روایت شدہ رفع الیدین احناف نہیں مانتے:

2) جزء رفع الیدین : 14
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ , وَابْنَ الزُّبَيْرِ , وَأَبَا سَعِيدٍ , وَجَابِرًا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِذَا افْتَتَحُوا الصَّلاةَ , وَإِذَا رَكَعُوا
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں میں نے ابن عباس ابن زبیر ابو سعید خدری جابر بن عبد اللہ کو شروع نماز اور رکوع کے وقت رفع الیدین کرتے دیکھا ہے" .

3) جزء رفع الیدین : 18
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ : " صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَكَانَ يَرْفَعُ إِذَا كَبَّرَ وَإِذَا رَكَعَ " .
عطاء کہتے ہیں میں نے ابو ھریرہ رضی اللہ عنہہ کے ساتھ نماز پڑھی ہے, وہ رفع الیدین کرتے جب تکبیر (تحریمہ) کہتے اور جب رکوع کرتے" .

4) جزء رفع الدين : 45
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , وَأَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، وَابْنَ عَبَّاسٍ ، وَابْنَ الزُّبَيْرِ ، " يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ حِينَ يَفْتَتِحُونَ الصَّلاةَ , وَإِذَا رَكَعُوا , وَإِذَا رَفَعُوا رُءُوسَهُمْ مِنَ الرُّكُوعِ
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں میں نے جابر بن عبد الله, ابو سعید خدری, ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کو دیکھا. وہ جب نماز شروع کرتے جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے" .


5) جزء رفع الیدین : 15
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ , أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , وَالْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ , وَعَطَاءً , وَمَكْحُولا ، يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي الصَّلاةِ إِذَا رَكَعُوا , وَإِذَا رَفَعُوا
عکرمه بن عمار کہتے ہیں میں نے سالم بن عبد الله (بن عمر بن الخطاب) اور قاسم بن محمد، اور عطاء (بن ابی رباح) اور مکحول کو دیکھا ہے، وہ نماز میں جب رکوع کرتے اور جب (رکوع سے) اٹھتے تو رفع الیدین کرتے تھے" .


2) عطاء کا جرابوں پر مسح کرنا احناف نہیں مانتے

6) مصنف عبد الرزاق:

وَعَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قُلْتُ لِعَطَاءٍ : نَمْسَحُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ ؟ قَالَ نَعَمْ امْسَحُوا عَلَيْهِمَا مِثْلَ الْخُفَّيْنِ

ابن جریج نے عطاء سے پوچھا جرابوں پر مسح کے بارے میں؟ عطاء رحمہ اللہ نے کہا ہاں جرابوں پر ایسے ہی مسح کرو جیسے موزوں پر کرتے ہو.


7) مصنف عبد الرزاق: 420
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ : قُلْتُ لِعَطَاءٍ : أَرَأَيْتَ إِنْ [ ص: 116 ] مَسَسْتَ ذَكَرَكَ وَأَنْتَ تَغْتَسِلُ قَالَ : " إِذًا أَعُودُ بِوُضُوءٍ" .
عطاءؒ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ غسل کے دوران (یعنی آخر میں) اپنے ذکر کو ہاتھ لگا دیں تو کیا کریں گے؟ انہوں نے فرمایا : " إِذًا أَعُودُ بِوُضُوءٍ“ میں تو دوبارہ وضوکروں گا".


معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کی مخالفت کے ساتھ ساتھ آلِ تقلید حضرات امام عطاء و دیگر تابعین و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ہر اُس شخص کے مخالف ہیں جو احناف کے بنائے ہوئے مذھب کے مخالف ہو... فتدبر
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
حدیث نمبر4
عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ ، فَقَالَ :
" إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ " .[مراسیل ابی داؤد: ص103، باب : مِنَ الصَّلاةِ, رقم الحديث: 77(87); سنن کبری بیہقی ج2ص223, جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَةِ، ٢/٢٣٢، رقم الحديث: 2938]

ترجمہ : حضرت یزید بن ابی حبیب رحمہ ﷲ سے مروی ہے کہ آنحضرت
دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں آپ نے فرمایا جب تم سجدہ کروتو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو کیونکہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے ۔(مراسیل ابی داود ص:۸)

الجواب: ماشاء الله اک بار پھر ❌منقطع ❌ مرسل روایت سے استدلال؟ کہاں گٰئے احناف کے دعوے صحیح صریح مرفوع پر ؟؟

اس روایت کے راوی یزيد بن أَبِي حبيب کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات ثابت کریں؟ جبکہ يزيد بن أَبِي حبيب مشہور فقیہ اور صغار تابعین میں سے ہیں

ابن حجر العسقلاني کہتے ہیں : ثقة فقيه وكان يرسل

نیز امام بیہقیؒ نے اس روایت کو امام ابوداؤد ؒ کی کتاب المراسیل (ح ۸۷) سے نقل کیا اور نقل کرنے سے پہلے اسے “حدیث منقطع” یعنی منقطع حدیث لکھا ہے ملاحظہ ہو:

السنن الكبري للبيهقي : 3105
( وَرُوِيَ ) فِيهِ حَدِيثٌ مُنْقَطِعٌ ، وَهُوَ أَحْسَنُ مِنَ الْمَوْصُولِينَ قَبْلَهُ . ( أَخْبَرَنَاهُ ) أَبُو بَكْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَنْبَأَ أَبُو الْحُسَيْنِ الْفَسَوِيُّ ، ثَنَا أَبُو عَلِيٍّ اللُّؤْلُؤِيُّ ، ثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، أَنْبَأَ ابْنُ وَهْبٍ ، أَنْبَأَ حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ غَيْلَانَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ فَقَالَ : " إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الْأَرْضِ ؛ فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ .

❌ منقطع حدیث کے بارے میں حکم ❌

تیسیر مصطلح : ص 87
المنقطع ضعیف بالإتفاق بین العلماء و ذلک للجھل بحال الراوي المحذوف
علماء کا اتفاق ہے کہ منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے . اس لئے کہ اس کا محذوف راوی مجہول ہوتا ہے".

قارئین آپ نے دیکھا کہ اب تک احناف نے کوئی صحیح صریح غیر معارض حدیث اپنے دعوے اور عمل پر پیش نہیں کی، بلکہ اس کے برعکس احناف کی طرف سے منقطع مرسل ضعیف وموضوع روایات کا تانتا باندھ دیا گیا ہے،

ایک مرسل روایت ہماری طرف سے تو زرا قبول کرنے کی ھمت کریں:


السنن ابي داود : 759
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ، - يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ - عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلاَةِ

جناب طاؤس (بن کیسان یمانی ، تابعی ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر رکھتے اور انہیں اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے" .

الزامی جواب: آلِ تقلید کو اس منقطع حدیث سے چڑ ہے ۔ یہ لوگ اس حدیث پر عمل کرنے کو تیار نہیں پھر بھی اہل حدیث کے خلاف کتاب المراسیل کی منقطع روایت سے استدلال کر رہے ہیں، دراصل احناف کے مذھب کا نہ کوئی اصول ہے نہ ضابطہ، وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ جب اپنا اُلّو سیدھا کرنا ہو یعنی حنفیت کی لڑھکتی سسکتی ٹانگوں میں جان ڈالنے کی ناکام کوشش کرنی ہو، تو مرسل منقطع ضعیف موضوع روایت سے بھی استدلال کرکے حجت قائم کرلی جاتی ہے، بحرحال میں نے بھی اوپر اک مرسل روایت پیش کی ہے احناف اس مرسل روایت کو قبول کرنے کی ھمت کریں...!!! احناف ایسا ھرگز نہیں کرینگے :)
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
حدیث نمبر5
عورت نمازمیں سمٹ کر سرین کے بل بیٹھے ‘ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

”عن ابن عمر  انہ سئل کیف کان النساء یصلین علی عہد رسول اللہ ﷺ؟ قال: کن یتربعن ثم امرن ان یحتفزن“۔ (جامع المسانید‘۱:۴۰۰)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عمر سے پوچھا گیا کہ خواتین حضور کے عہد مبارک میں کس طرح نماز پڑھا کرتی تھیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: پہلے چار زانو ہوکر بیٹھتی تھیں پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں“۔

عورت زمین کے ساتھ چمٹ کر اور پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملاکر سجدہ کرے‘ حدیث شریف میں ہے؛

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا جَلَسَتِ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلاةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلَى فَخِذِهَا الأُخْرَى ، وَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِي فَخِذَيْهَا ، كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْظُرُ إِلَيْهَا ، وَيَقُولُ : يَا مَلائِكَتِي ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهَا "[السنن الكبرى للبيهقي » كِتَابُ الْحَيْضِ » بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْمَرْأَةِ مِنْ تَرْكِ التَّجَافِي ...رقم الحديث: 2936]

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کہ جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے۔ اس طرح کہ اس کے لئے زیادہ سے زیادہ پردہ ہوجائے۔ بلا شبہ اﷲ تعالی اس کی طرف نظر (رحمت) فرما کر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتوں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں اس بات پر کہ میں نے اسے بخش دیا ہے۔(کنز العمال ج7ص549)
ابو المؤید محمد بن محمود الخوارزمی (متوفی ۶۶۵؁ھ/ غیر موثق) کی کتاب “جامع المسانید “ میں اس روایت کے بعض راویوں کا جائزہ درج ذیل ہے ۔
1) ابراهيم بن مھدي کا تعین نامعلوم ہے ۔ تقریب میں اس نام کے دو راوی ہیں۔ ان میں دوسرا مجروح ہے ۔ قال الحافظ ابن حجر ؒ: ”البصري، کذبوہ“ یہ بصری ہے اسے (محدثین) نے جھوٹا کہا ہے ۔ (التقریب : ۲۵۷)
2) زربن نجیح البصری کے حالات نہیں ملے۔
3) احمد بن محمد بن خالد کے حالات نہیں ملے۔
4) علی بن محمد البزاز کے حالات نہیں ملے۔
5) قاضی عمر بن الحسن بن علی الاشنانی مختلف فیہ راوی ہے ۔ اس کے بارے میں امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ :”وکان یکذب” اور وہ جھوٹ بولتا ہے۔ (سوالات الحاکم للدارقطنی:۲۵۲ ص ۱۶۴)
حسن بن محمد الخلال نے کہا: ”ضعیف تکلموافیه” (تاریخ بغداد ۲۳۸/۱۱) ذہبی نے اس پر جرح کی ہے۔
ابو علی الھروی اور ابو علی الحافظ نے اس کی توثیق کی ہے (تاریخ بغداد ۲۳۸/۱۱)
ابن الجوزی نے اس پر سخت جرح کی (الموضوعات ۲۸۰/۳) برھان الدین الحلبی نے اسے واضعین حدیث میں ذکر کیا ہے اور کوئی دفاع نہیں کیا (دیکھئے الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث ص ۳۱۲،۳۱۱ ت ۵۴۱)
ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاھد : ضعیف ، معتزلی گمراہ نے اس کی تعریف کی ہے ۔خطیب بغدادی نے بھی اس کی تعریف کی ۔
خلاصہ التحقیق: قاضی اشنانی ضعیف عند الجمہور ہے۔
تنبیہ: قاضی اشنانی تک سند میں بھی نظر ہے ۔
2) دوسری سند میں عبدالله بن احمد بن خالد الرازی ، زکریا بن یحیی النیسابوری اور قبیصة الطبري نامعلوم راوی ہیں۔ اور ابو محمد البخاری (عبداللہ بن محمد بن یعقوب ) کذاب راوی ہے۔ دیکھئے الکشف الحثیث ص (۲۴۸)و کتاب القرأۃ للبیہقی (ص ۱۵۴) ولسان المیزان (۳۴۹،۳۴۸/۳) و نور العینین فی اثبات رفع الیدین [ص ۴۱،۴۰]

نتیجہ : احناف کی طرف سے پیش کردہ یہ روایت موضوع ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سے یہ روایات ثابت ہی نہیں ہے ۔ اس کے باوجود یہ لوگ مزے لے لے کر یہ موضوع روایت پیش کر رہے ہیں. صرف حنفیت بچانے کے واسطے


البیھقي والی روایت کا حال:

السنن الكبري للبيهقي : 2936
وَالآخَرُ : حَدِيثُ أَبِي مُطِيعٍ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِيِّ ، عَنْ وَالآخَرُ : حَدِيثُ أَبِي مُطِيعٍ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِيِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ ، عَنْمُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا جَلَسَتِ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلاةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلَى فَخِذِهَا الأُخْرَى ، وَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِي فَخِذَيْهَا ، كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْظُرُ إِلَيْهَا ، وَيَقُولُ : يَا مَلائِكَتِي ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهَا " ، أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الصُّوفِيُّ أنبأ أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيّ ٍ ، ثنا عُبَيْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّرْخَسِيّ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْبَلْخِيُّ ، ثنا أَبُو مُطِيعٍ ، ثنا بْنُ ذَر ، فَذَكَرَهُ ، قَالَ أَبُو أَحْمَدَ : أَبُو مُطِيعٍ بَيْنَ الضَّعْفِ فِي أَحَادِيثِهِ ، وَعَامَّةُ مَا يَرْوِيهِ لا يُتَابَعُ عَلَيْهِ ، قَالَ الشَّيْخُ رَحِمَهُ اللَّهُ : وَقَدْ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ ، وَكَذَلِكَ عَطَاءُ بْنُ عَجْلانَ ، ضَعِيفٌ وَرُوِي فِيهِ حَدِيثٌ مُنْقَطِعٌ ، وَهُوَ أَحْسَنُ مِنَ الْمَوْصُولَيْنِ قَبْلَهُ .

اس روایت کا دارومدار ہی جس راوی (ابو مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی) پر ہے. وہ نہایت ضعیف و متروک وضع الحدیث، مرجی جھمی سنت سے بغض رکھنے والا بدعتی راوی ہے، اس راوی کے بارے میں السنن الکبری للبیہقی کے اسی صفحے پر لکھا ہوا ہے کہ :

قَالَ أَبُو أَحْمَدَ : أَبُو مُطِيعٍ بَيْنَ الضَّعْفِ فِي أَحَادِيثِهِ
امام ابو احمد (بن عدی) نے فرمایا : ابو مطیع کا اپنی حدیثوں میں ضعیف ہونا واضح ہے" .

أبو حاتم بن حبان البستي
نے ابو مطیع البلخي کے بارے کہا من رؤساء المرجئة يبغض السنن
اسے امام یحیی بن معین وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس پر جمہور محدثین کی جرح کے لئے لسان المیزان (۳۳۴/۲۔۳۳۶) پڑھ لیں۔

اس روایت کا دوسرا راوی محمد بن القاسم البلخی مجہول حال ھے ۔ دیکھئے لسان المیزان (۳۴۷/۵ ت ۷۹۹۷)

اس روایت کا تیسرا راوی عبید بن محمد السرخسی بھی مجہول الحال ھے" .

خلاصہ التحقیق: یہ روایت موضوع ہے ۔ خود امام بیہقی ؒ نے اسے اور آنے والی حدیث (۹) کو ”حدیثان ضعیفان لا یحتج بأمثالھا“ قرار دیا ہے۔ (السنن الکبری ۲۲۲/۲)
یہ روایت کنز العمال (۵۴۹/۷ ح ۲۰۲۰۳) میں بحوالہ بیہقی و ابن عدی (الکامل ۵۰۱/۲) منقول ہے (کنزالعمال میں لکھا ہوا ہے کہ : عدق و ضعفہ عن ابن عمر)بعض الناس نے کان کو اُلٹی طرف سے پکڑتے ہوئے اسے بحوالہ کنزالعمال نقل کیا ہے ۔ (حدیث اور اہلحدیث ص ۴۸۱ نمبر۵)
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
(۱) اس روایت کے متعلق مجمع الزوائد ص۱۰۳ ج۲ پر لکھا ہے ’’ قُلْتُ : لَہٗ فِی الصَّحِیْحِ وَغَیْرِہٖ فِیْ رَفْعِ الیَدَیْنِ غَیْرَ ہٰذَا الْحَدیْثِ رَوَاہُ الطَّبْرَانِیْ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ فِیْ مَنَاقِبِ وَائِلٍ مِنْ طَرِیْقِ مَیْمُوْنَة بِنْتِ حُجْرٍ عَنْ عَمَّتِہَا أُمِّ یَحْیٰی بِنْتِ عَبْدِ الْجَبَّارِ وَلَمْ أَعْرِفْہَا وَبَقِیَّة رَجَالِہٖ ثِقَاتٌ‘‘ ۔
اسے طبرانی نے مناقب وائل ؓ سے میمونہ بن حجرسے، انہوں نے اپنی پھوپھی ام یحیی بنت عبدالجبار سے لمبی حدیث میں روایت کیا ہے۔ ام یحیی کو میں نہیں جانتا اور اس (سند ) کے باقی راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ۱ص ۱۰۳)
محترم! طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اگر کسی ”عورت“ کو نہیں جانتے تو یہ کیسے لازم آیا کہ؛
تو یہ روایت بوجہ مجہولیت راویہ کمزور ہے قابل احتجاج نہیں ۔
میمونہ بنت حجر ثقہ راویہ ہیں اور وہ اپنی ”پھوپھی“ ام یحیٰی سے روایت کر رہی ہیں۔ کیا میمونہ بنت حجر بھی انہیں نہیں جانتی تھیں؟ یہ ”مجہولیت“ اور ”ضعیف“ ہونے کے اعتراضات دراصل اسلام کو گھر کی مرغی بنانے کے مترادف ہے کہ جب چاہا پکڑ کر ذبح کر لیا۔
 
Top