محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 710
- ری ایکشن اسکور
- 26
- پوائنٹ
- 53
مرد يا عورت کے غسل كر لینے کے بعد بچے ہوئے پانی سے طہارت حاصل کرنا
اگر مرد نے کسی ٹب وغيره سے وضو یا غسل کیا ہو اس کے وضو يا غسل کرنے کے بعد بچے ہوئے پانی سے طہارت حاصل کرنے کے بارے میں علماء کرام کے دو اقوال ہیں:
1- اس پانی سے طہارت حاصل کرنا جائز نہیں ہے، یہ ابن عمر، عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہم ام المؤمنین جویریہ رضی اللہ عنہا ، حسن بصری، امام احمد ، امام شعبی ، او رامام داود ظاہری رحمہم اللہ کا قول ہے۔
2- اس پانی سے طہارت حاصل کرنا جائز ہے، یہ عمر ، ابو ہریرہ ، عبد اللہ بن عباس، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم امام ابو عبید ، امام ابن المنذر ، حنفیہ ، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کا قول ہے، امام احمدکا بھی ایک قول یہی ہے۔
پہلے قول کی دلیل:
1- حکم بن عمرو بيان كرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مرد، عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے۔ (سنن ابی داود: 82)
2- حمید حمیری کہتے ہیں کہ میں ایک ایسے شخص سے ملا جو چار سال تک نبی کریم ﷺ کی صحبت میں رہا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ آپ ﷺ کی صحبت میں رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے: ’’عورت مرد کے یا مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے۔‘‘ مسدد نے یہ اضافہ بیان کیا ہے: ’’چاہیے کہ دونوں اکٹھے ہی (باری باری) چلو لیں۔‘‘ (سنن ابی داود: 81)
دوسرے قول کی دلیل:
1- کیونکہ پانی اصل میں پاک ہی ہوتا ہے اس کو نجس قرار دینے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔
2- سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی کسی اہلیہ محترمہ نے لگن میں سے غسل کیا۔ نبی کریم ﷺ تشریف لائے آپ ﷺ اس سے وضو یا غسل کرنا چاہتے تھے، تو اہلیہ محترمہ نے آپ ﷺ کو بتایا کہ اے اللہ کے رسول! میں جنابت سے تھی (اور میں نے اسی پانی سے غسل کیا ہے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(تو کیا ہوا ؟) پانی جنبی نہیں ہوتا (پاک ہی رہتا ہے)۔ “
دوسرا قول راجح ہے ، پہلے قول کے دلائل کو کراہت تنزیہی پر محمول کیا جائے گا۔ واللہ اعلم
اگر مرد نے کسی ٹب وغيره سے وضو یا غسل کیا ہو اس کے وضو يا غسل کرنے کے بعد بچے ہوئے پانی سے طہارت حاصل کرنے کے بارے میں علماء کرام کے دو اقوال ہیں:
1- اس پانی سے طہارت حاصل کرنا جائز نہیں ہے، یہ ابن عمر، عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہم ام المؤمنین جویریہ رضی اللہ عنہا ، حسن بصری، امام احمد ، امام شعبی ، او رامام داود ظاہری رحمہم اللہ کا قول ہے۔
2- اس پانی سے طہارت حاصل کرنا جائز ہے، یہ عمر ، ابو ہریرہ ، عبد اللہ بن عباس، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم امام ابو عبید ، امام ابن المنذر ، حنفیہ ، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کا قول ہے، امام احمدکا بھی ایک قول یہی ہے۔
پہلے قول کی دلیل:
1- حکم بن عمرو بيان كرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مرد، عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے۔ (سنن ابی داود: 82)
2- حمید حمیری کہتے ہیں کہ میں ایک ایسے شخص سے ملا جو چار سال تک نبی کریم ﷺ کی صحبت میں رہا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ آپ ﷺ کی صحبت میں رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے: ’’عورت مرد کے یا مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے۔‘‘ مسدد نے یہ اضافہ بیان کیا ہے: ’’چاہیے کہ دونوں اکٹھے ہی (باری باری) چلو لیں۔‘‘ (سنن ابی داود: 81)
دوسرے قول کی دلیل:
1- کیونکہ پانی اصل میں پاک ہی ہوتا ہے اس کو نجس قرار دینے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔
2- سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی کسی اہلیہ محترمہ نے لگن میں سے غسل کیا۔ نبی کریم ﷺ تشریف لائے آپ ﷺ اس سے وضو یا غسل کرنا چاہتے تھے، تو اہلیہ محترمہ نے آپ ﷺ کو بتایا کہ اے اللہ کے رسول! میں جنابت سے تھی (اور میں نے اسی پانی سے غسل کیا ہے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(تو کیا ہوا ؟) پانی جنبی نہیں ہوتا (پاک ہی رہتا ہے)۔ “
- (صحیح سنن ابی داود: 68)
- (صحیح مسلم: 323)
دوسرا قول راجح ہے ، پہلے قول کے دلائل کو کراہت تنزیہی پر محمول کیا جائے گا۔ واللہ اعلم