• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرد کا قابل ستر حصہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظک اللہ
درج ذیل جملہ کون سی صحیح احادیث سے اخذ کیا گیا ہے.

"مرد کا قابل ستر حصہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے"

جزاکم اللہ خیرا
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مرد کا ستر کہاں سے کہاں تک ہے ؟
.
١- بہت سارى احاديث ميں آيا ہے كہ مرد كا ستر گھٹنے اور ناف كے درميان ہے، اور گھٹنا اور ناف ستر ميں شامل نہيں.
1 - ابو داود اور ابن ماجہ رحمہما اللہ نے على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنى ران ننگى مت كرو، اور نہ ہى تم كسى زندہ يا مردہ كى ران ديكھو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3140 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1460 ).
.
2 - امام احمد نے محمد بن جحش رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم معمر كے پاس سے گزرے تو معمر كى رانيں ننگى تھيں اور ميں بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھا، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" اے معمر اپنى رانيں ڈھانپ لو، كيونكہ رانيں ستر ميں شامل ہيں "
مسند احمد حديث نمبر ( 21989 )
.
3 - احمد ابو داود اور ترمذى نے جرھد ب اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جرھد كے پاس سے گزرے تو ا نكى ران ننگى تھى، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا تمہيں معلوم نہيں كہ ران ستر ميں شامل ہے ؟ "
مسند احمد حديث نمبر ( 15502 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4014 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2798 )
.
4 - امام ترمذى نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ران ستر ميں شامل ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2798 )
نماز میں ستر (لازمی لباس جو پردہ کرے)
پچھلے کچھ عرصہ سے مسجد میں نوجوانوں میں ستر کے ننگا ھونے کی شکایات بھی ملی ھیں اور بذات خود بھی مشاہدہ میں یہ بات آئی ھے کہ شرٹ چھوٹی ھونے اور پینٹ ناف سے کافی نیچے کرکے پہننے کی وجہ سے پیٹھ کا کچھ حصہ ننگا ھو جاتا ھے،
خصوصاً جب سجدہ کیا جاتا ھے تو پیٹھ یا پشت کافی زیادہ ننگی ھو جاتی ھے،
.
بقول اقبالؒ
وضع میں تم ہو نصارٰی تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کہ شرمائیں یہود
.
مرد اپنے لباس کو ٹخنے سے نیچے نہ کریں:
مر د کا اپنے لباس کو ٹخنے سے نیچے گرانا سخت گناہ ہے ، اس حوالے سے بیشمار صحیح حدیثیں سے موجود ہیں جن میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا
''جو کپڑا ٹخنے سے نیچے ہو جہنم میں لے جائے گا''(صحیح بخاری) ۔
ایک اورحدیث میں ہے کہ
'' ایک صحابی آپ ﷺ کے سامنے نماز ادا کرکے حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں اپنی نماز دہرانے کا حکم دیا، نماز دہرانے کے بعد صحابی دوبارہ حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے نماز دہرانے کے متعلق سوال کیا آپ ﷺ نے جواب دیا کہ تمہارا لباس تمہارے ٹخنے سے نیچے تھا اسلیئے تمہاری نماز نہیں ہوئی تھی'' (ابوداود)۔
آج کل بعض لوگ تواترکے ساتھ یہ غلط فہمیاں پھلا رہے ہیں کہ اسلام میں کپڑے خاص طور پر پینٹ کو ٹخنوں سے اوپر کرنے کے لئے نیچے سے اوپر کی طرف فولڈ کرنا منع ہے۔ ایسی بات بالکل من گھڑت ہے اور اس میں کوئی سچائی نہیں ، صحیح حدیثوں کے ذخائر میں ایسی کوئی بات ہم تک نہیں پہنچی۔
.
مرد اور عورت کے لیے نماز کا لباس
نماز کی حالت میں مرد کا قابل ستر حصہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے ،البتہ ایک حدیث کی رو سے اس کے کندھوں پر بھی لباس کا کچھ ہونا ضروری ہے۔ان شرائط پر پورا اُترنے والا لباس مرد کی نماز کے لیے کافی ہے ،تاہم افضل یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بھی اس کا لباس زینت کے مفہوم کو پورا کرنے والاہو،جیسا کہ آیت ()(سورۃ الاعراف،آیت 31)کا مفاد ہے۔اور عورت کے لیے ضروری ہے کہ نماز کی حالت میں اس کے سر پر چادر یا موٹا دوپٹہ ہو،یعنی عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی ،جب کہ مرد پڑھ سکتا ہے۔اسی طرح مکمل پردے میں نماز پڑھے گی، تاہم نماز کی حالت میں اس کے لیے ہاتھ پیروں کو چھپانا اور چہرے کو چھپانا ضروری نہیں۔وہ ننگے چہرے اور ننگے ہاتھ پیروں کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے۔
***************************************************************
سلسلہ نماز محمدی ___سوال 21 کے دوسرے حصے کا مکمل جواب
.
نماز میں عورت کا لباس کتنا ہونا چاہئیے ؟
.
نماز کیلئے ہر وہ لباس شرعى ہے جو چہرہ اور ہاتھوں كے علاوہ باقى سارے جسم كے ليے ساتر اور ڈھیلا ڈھالا ہو، اور جسم كے كسى عضو كو نمایاں نہ كرتا ہو۔
نماز کیلئے سارے بدن كو ڈھانپنے والے لباس كى شرط ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ جب ان سے دريافت كيا گيا كہ عورت كس لباس ميں نماز ادا كرے تو انہوں نے جواب ديا: " عورت كو نماز دوپٹے اور ایسے لباس میں ادا كرنى چاہيے جس ميں اس كے پاؤں كا اوپر والا حصہ بھى چھپ جائے " سنن ابو داود 639 )
.
اور پھر رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ تعالى بالغ عورت كى نماز اوڑھنى كے بغير قبول نہيں فرماتا "
سنن ابو داود 641 ) ،سنن ترمذى 377 ) ،سنن ابن ماجہ 655 ) ، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع 7747 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے۔
.
چنانچہ لباس چہرے كے علاوہ باقى سارے بدن كے ليے ساتر ہونا ضرورى ہے، اور علمائے كرام كا اس ميں اختلاف ہے كہ آيا نماز ميں عورت كے ليے ہتھيلياں اور قدم چھپانے واجب ہيں يا نہيں ؟
جمہور علمائے كرام ہتھیلیوں كو چھپانا واجب نہیں سمجھتے ، جبکہ امام احمد سے اس بارے میں دو روایات ہيں: اور شيخ اسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے عدم وجوب كو اختيار كيا ہے، اور " الانصاف " ميں انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ: "یہی موقف درست ہے"
جبکہ قدموں کے بارے میں جمہور مالکی، شافعی، حنبلی انہیں ڈھانپنے کے قائل ہیں، اسی پر دائمی فتوی کمیٹی (6/178) کا فتوی ہے۔
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نماز ميں چہرے كے علاوہ عورت كا سارا جسم ستر ہے، جبکہ ہتھیلیوں کے بارے ميں علمائے كرام كا اختلاف ہے: بعض علماء نے انہيں بھى چھپانا واجب قرار ديا ہے، اور بعض نے كھلا ركھنے كى اجازت دى ہے، ان شاء اللہ اس مسئلہ ميں وسعت ہے، ليكن ننگا ركھنے سے چھپانا افضل ہے، تا كہ اس مسئلہ ميں علماء كرام كے اختلاف سے بچا جائے، جبکہ جمہور اہل علم كے ہاں نماز ميں قدموں کو چھپانا واجب ہے " انتہى
"مجموع فتاوى ابن باز "( 10 / 410 )
.
اور امام ابو حنیفہ ، ثورى، اور مزنى رحمہم اللہ نماز ميں عورت كے قدموں كو ننگا ركھنے كے قائل ہيں، شيخ الاسلام ابن تيميہ اور مرداوى نے " الانصاف " میں اسی موقف کو اختيار كيا ہے۔
شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "شرح الممتع":(2/161) میں كہتے ہيں:
.
" اس مسئلہ ميں كوئى واضح دليل نہيں ہے، اسى ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:"آزاد عورت کو مکمل طور پر ستر ہے، صرف وہ اعضاء جو اپنے گھر ميں کھلے رکھ سکتی ہے، یعنی چہرہ ہتھيلياں اور قدم ستر نہیں ہیں"، اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ : "رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں عورتيں گھروں ميں قمیصیں پہنا كرتى تھيں، اور ہر عورت كے پاس دو كپڑے نہيں تھے اسى ليے جب اسے حيض آتا تو وہ اسے دھو كر اس لباس ميں ہى نماز ادا كرتى تھىں، تو اس طرح قدم اور ہتھيلياں نماز ميں ستر نہيں، اسکا مطلب یہ نہیں کہ قدم، اور ہاتھ پر نظر ڈالی جاسکتی ہے۔
.
اور اس بنا پر كہ اس مسئلہ ميں كوئى ايسى دليل نہيں جس پر نفس مطمئن ہو، ميں اس مسئلہ ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كى تقليد كرتا اور كہتا ہوں کہ: ظاہری طور پر یہی لگتا ہے، اگرچہ ہم يہ بات ٹھوس لفظوں میں نہیں کہہ سکتے، كيونكہ چاہے عورت كا لباس اتنا لمبا ہو كہ وہ زمين پر لگ رہا ہو ليكن سجدہ كرتے وقت اس كے پاؤں كا نیچے والا حصہ ننگا تو ہو ہی جائيگا " انتہى
.
مزيد تفصیل ديكھنے كے ليے آپ "المغنى " ( 1 / 349 ) ، المجموع ( 3 / 171 ) ، بدائع الصنائع ( 5 / 121 ) ، الانصاف ( 1 / 452 ) اور مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 22 / 114 ) دیکھیں۔
.
اور اگر لباس اتنا باريك ہو كہ وہ نيچے سے بدن كو ظاہر كرے، اور اس كے نيچے سے جلد كا رنگ ظاہر ہوتا ہو تو يہ لباس باعث پردہ نہيں ہو گا۔
"روضۃ الطالبين" از: نووى ( 1 / 284 ) اور المغنى ( 2 / 286 )
.
اس كى دليل ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" جہنمیوں کی دو قسمیں ميں نے ابھی تک نہیں دیکھیں، ايك وہ قوم جس كے پاس گائے كى دموں كى طرح دُرّے ہونگے وہ اس سے لوگوں كو مارتے ہونگے اور [دوسری قسم]لباس پہننے کے باوجود ننگی عورتیں۔۔۔ "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2128 )
.
حدیث کے لفظ: " كاسيات عاريات " کے بارے میں امام نووى رحمہ اللہ "المجموع"(4/3998) میں كہتے ہيں: اس كى وضاحت ميں كہا گيا ہے كہ : "وہ اتنا باريك لباس پہنے جو اس كے بدن كا رنگ واضح كرے"اور يہى معنى پسندیدہ ہے۔ انتہى
اور ابن عبد البر رحمہ اللہ "التمہید"(13/204) میں كہتے ہيں:
" حدیث کے الفاظ: " كاسيات عاريات " كا معنى يہ ہے كہ: رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى اس جملہ سے مراد وہ عورتيں ہيں جو اتنا باريك لباس پہنتى ہيں جو ان كا بدن ظاہر كرے اور چھپائے نہ، وہ نام كے اعتبار سے تو لباس پہنے ہوئے ہيں، ليكن حقيقت ميں ننگى ہيں " انتہى
عورت كا لباس كھلا اور لمبا چوڑا ہونے كى دليل اسامہ بن زيد رضى اللہ عنہما کی حدیث ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے ايك قبطى لباس پہننے كے ليے دیا، جو انہيں دحيہ كلبى نے بطور ہديہ دیا تھا، چنانچہ ميں نے وہ لباس اپنى بيوى كو پہنا دیا تو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ( تم وہ قبطى لباس كيوں نہيں پہنتے ؟ ) تو ميں نے عرض كيا: "وہ تو ميں نے اپنى بيوى كو دے دىا ہے"، تو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: (اسے كہو كہ وہ اس كے نيچے شميض پہنے، مجھے خدشہ ہے كہ وہ اس كے جسم كى ہڈيوں كى ساخت اور حجم واضح كرے گى )
بیہقی نے سنن الكبرى ( 2 / 234 ) ميں روايت كيا اور البانى نے " جلباب المراۃ المسلمہ" ( 131 ) ميں حسن قرار ديا ہے۔
.
شيخ صالح الفوزان كہتے ہيں:
" ايسا تنگ لباس جو جسم كے اعضاء اور عورت كے جسم اور اس كے سرين اور پچھلے حصہ اور جسم كے سارے جوڑوں كے حجم كو ظاہر كرے پہننا جائز نہيں، تنگ اور چست لباس نہ تو مردوں كے ليے پہننا جائز ہے، اور نہ ہى مردوں كے ليے، ليكن عورتوں كے ليے ايسا لباس پہننے كى ممانعت زيادہ شديد ہے، كيونكہ ان كے ساتھ فتنہ اور زيادہ ہوتا ہے.
ليكن ايسے لباس ميں نماز ادا كرنے كے متعلق يہ ہے كہ: اگر كسى شخص نے ايسے لباس ميں نماز ادا كى اور اس كا ستر اس لباس ميں چھپا ہوا ہو تو اس كى نماز صحيح ہو گى؛ كيونكہ ستر چھپا ہوا ہے، ليكن ايسا تنگ لباس پہننے پر وہ گنہگار ہے؛ اس ليے كہ لباس تنگ ہونے كى بنا پر نماز كے قوانين ميں كچھ خلل پيدا ہوگا، يہ تو ايك جانب سے ہے، اور دوسرى جانب سے يہ فتنہ كا باعث بھى ہے، اور پھر ايسے لباس والے كى طرف نظريں بھى اٹھنے كا باعث بنے گا، خاص كر جب ايسا لباس عورت پہن لے تو اور بھى شديد فتنہ كا باعث بنے گى.
اس ليے عورت پر واجب اور ضرورى ہے كہ كھلا لباس پہن كر اپنے آپ كو چھپا كر ركھے، اور اس كے كسى بھى عضو كا حجم ظاہر نہ ہوتا ہو، اور نہ ہى اس كى طرف نظريں اٹھنے كا باعث بنے، اور نہ ہى اس كا لباس باريك اور شفاف ہو، بلكہ عورت ايسا لباس زيب تن كرے جو اس كے سارے جسم كے ستر كو چھپا كر ركھے" انتہى.
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان ( 3 / 454 )
.
اور شيخ صالح الفوزان كہتے ہيں:
" ايسا تنگ لباس جو عورت كے جسم اور اعضاء اور اس كے پچھلے حصہ اور اعضاء كے خد وخال واضح كرتا ہو اس كا پہننا جائز نہيں، تنگ لباس نہ تو مردوں كے ليے اور نہ ہى عورتوں كے ليے پہننا جائز ہے، ليكن عورتوں كے ليے ليے تو اور بھى زيادہ شديد منع ہے، كيونكہ ان كے ساتھ فتنہ زيادہ ہوتا ہے۔
رہا مسئلہ نماز كا؛ تو جب انسان نماز ادا كرے اور اس كا ستر اس لباس كے ساتھ ڈھانپا ہوا ہو؛ تو اس كى نماز صحيح ہے؛ كيونكہ ستر ڈھانپا ہوا ہے، ليكن تنگ لباس ميں نماز ادا كرنے والا گنہگار ہو گا؛ اس ليے كہ اس نے لباس تنگ ہونے كى بنا پر نماز ميں مشروع اشياء ميں كچھ نہ كچھ خلل پيدا ہوا ہے ،یہ تو ایک اعتبار سے ، دوسرے اعتبار سے یہ ہے کہ تنگ لباس خاص طور پر خواتین کا لباس توجہ كا باعث بنےگا،اس لئے خواتین کیلئے کھلے ، ڈھیلے ڈھالے ، اور پورے جسم کو ڈھانپنے والے لباس لازمی طور پر زیب تن کریں، جو اسکے جسم کے کسی حصہ کو نمایاں مت کرے، اور نہ ہی دیکھنے والوں کیلئے جاذب نظر ہو، اسی طرح باریک شفاف، لباس کی بجائے، مکمل طور پر اچھی طرح جسم کو ضرور ڈھکے" انتہى
المنتقى من فتاوى شيخ صالح الفوزان ( 3 / 454 )​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مرد کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہے، یہ فقہا کی راے ہے۔ بعض احاديث (جيسے بيقہی 2/229)ميں اس کی تعين ملتی ہے، مگر وہ ضعيف روايات ہيں (ضعیف الجامع از البانی3826)۔ غالباً فقہا نے ستر کا یہ تعین احتیاط کی بنا پر کیا ہے۔ قرآن مجيد کے مطابق (اعراف 31:)نماز ميں انسان کو اپنے عمدہ کپڑے پہن کر ساللہ تعالیٰ کی بارگاہ ميں آنا چاہيے، صرف ستر چھپانے کا کيا سوال ہے؟ايسا تو صرف ضرورت اور مجبوری ہی ميں ہو گا۔ حضور کا ارشاد ہے کہ ایک ہی کپڑا ہو تو اس طرح نہیں اوڑھنا چاہیے کہ اُس کا کچھ حصہ کندھوں پر نہ ہو۔ (مسلم، رقم1151)​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جزاکم اللہ خیرا محترم و مکرم یوسف بھائی، لیکن میرا مطالبہ "صحیح احادیث" کی نشاندہی کا ہے..ابتسامہ!
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم یوسف صاحب
السلام علیکم

ایک اورحدیث میں ہے کہ
'' ایک صحابی آپ ﷺ کے سامنے نماز ادا کرکے حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں اپنی نماز دہرانے کا حکم دیا، نماز دہرانے کے بعد صحابی دوبارہ حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے نماز دہرانے کے متعلق سوال کیا آپ ﷺ نے جواب دیا کہ تمہارا لباس تمہارے ٹخنے سے نیچے تھا اسلیئے تمہاری نماز نہیں ہوئی تھی'' (ابوداود)۔
یہ حدیث ضعیف ہے ۔ اسی فورم پر اس کی سند کے متعلق ایک طویل بحث ہوچکی ہے۔ جس میں رضا میاں نے ثابت کیا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔

لباس کا ٹخنوںسے نیچے ہونے پر جہنم کی وعید کنڈیشنل ہے یعنی اگرتکبر کے ساتھ لٹکائے یا پھر یہ ایک عام حکم ہے ۔
اگر یہ عام حکم ہے تو میری ناقص عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ اللہ رب العزت جو روز قیامت ان کو بھی جہنم سے نکال دے گا جن کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان ہوگا ۔وہ صرف اس وجہ سے مخلوق کو داخل جہنم کرے گا کہ لباس ٹخنوں سے نیچے پہنا۔؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
درج ذیل جملہ کون سی صحیح احادیث سے اخذ کیا گیا ہے.
"مرد کا قابل ستر حصہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے"
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
یہ جملہ درج ذیل حسن حدیث سے ثابت ہے ،
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا زَوَّجَ أَحَدُكُمْ خَادِمَهُ - عَبْدَهُ، أَوْ أَجِيرَهُ - فَلَا يَنْظُرْ إِلَى مَا دُونَ السُّرَّةِ، وَفَوْقَ الرُّكْبَةِ»،(سنن ابي داود ، حدیث نمبر 4114 )
ترجمہ :
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب تم میں سے کوئی اپنی لونڈی کی اپنے غلام یا مزدور سے شادی کر دے تو پھر وہ اس کے اس حصہ کو نہ دیکھے جو ناف کے نیچے اور گھٹنے کے اوپر ہے“

علامہ ناصر الدین االبانیؒ نے سنن ابی داود اور ارواء الغلیل میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی روایت مسند امام احمدؒ میں حسب ذیل ہے :

عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مروا أبناءكم بالصلاة لسبع سنين، واضربوهم عليها لعشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع، وإذا أنكح أحدكم عبده أو أجيره، فلا ينظرن إلى شيء من عورته، فإن ما أسفل من سرته إلى ركبتيه من عورته " (إسناده حسن)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
بچوں کی عمر جب سات سال ہوجائے تو انہیں نماز کا حکم دو دس سال کی عمر ہوجانے پر ترک صلوٰۃ کی صورت میں انہیں سزا دو ، اور سونے کے بستر الگ کردو اور جب تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کا نکاح کردے تو اس کی شرمگاہ کی طرف ہرگز نہ دیکھے کیونکہ ناف کے نیچے سے گھٹنوں تک کا حصہ ستر ہے۔ "
مسند احمد کے محقق علامہ شعیب الارناؤطؒ نے اس حدیث کو (إسناده حسن ) قرار دیا ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور مستدرک حاکمؒ میں یہ جملہ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں منقول ہے ،لیکن وہ روایت سنداً ناکارہ ہے ؛

عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، قَالَ: قُلْنَا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: حَدِّثْنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا رَأَيْتَ مِنْهُ وَلَا تُحَدِّثْنَا عَنْ غَيْرِهِ، وَإِنْ كَانَ ثِقَةً قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا بَيْنَ السُّرَّةِ إِلَى الرُّكْبَةِ عَوْرَةٌ»
یعنی رسول کریم ﷺ نے فرمایا :
ناف اور گھٹنوں کے درمیان کا حصہ شرمگاہ ہے ؛
لیکن اس روایت کے متعلق امام ذھبیؒ فرماتے ہیں : میرے خیال میں یہ موضوع ہے​
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 6418 - أظنه موضوعا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مسئلہ کا ایک ضمنی لیکن اہم پہلو یہ بھی ہے کہ :
کیا ناف اور گھٹنے بھی شرمگاہ میں شمار ہیں یا نہیں ؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
”جب تم میں سے کوئی اپنی لونڈی کی اپنے غلام یا مزدور سے شادی کر دے تو پھر وہ اس کے اس حصہ کو نہ دیکھے جو ناف کے نیچے اور گھٹنے کے اوپر ہے“
جب تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کا نکاح کردے تو اس کی شرمگاہ کی طرف ہرگز نہ دیکھے کیونکہ ناف کے نیچے سے گھٹنوں تک کا حصہ ستر ہے۔ "

لونڈی کا ستر تو مالک کے ''استفادہ'' لئے جائز ہے ۔ ۔ ۔ لیکن جب لونڈی کا کسی اور سے نکاح کردیا جائے تب لونڈی کا یہی ستر "دیکھنا" بھی مالک کے لئے جائز نہیں۔

یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن دوسری حدیث::: جب تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کا نکاح کردے تو اس کی شرمگاہ کی طرف ہرگز نہ دیکھے ::: ۔ ۔ ۔ کا کیا مطلب ہے ؟ کیا نکاح کرنے سے قبل مالک اپنے غلام کا "ستر" دیکھ سکتا ہے ؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن دوسری حدیث::: جب تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کا نکاح کردے تو اس کی شرمگاہ کی طرف ہرگز نہ دیکھے ::: ۔ ۔ ۔ کا کیا مطلب ہے ؟ کیا نکاح کرنے سے قبل مالک اپنے غلام کا "ستر" دیکھ سکتا ہے ؟؟؟
اس حدیث شریف کے مذکورہ ترجمہ سے واقعی یہ سوال پیدا ہوتا ہے ، اسکی طرف میں نے توجہ نہیں دی ،
اصل میں یہاں مراد مرد غلام اور نوکر نہیں ، بلکہ لونڈی ہی ہے ، مصر کے مشہور فقیہ فقہ مالکی کے عالم محمود محمد خطاب السبكي سنن ابوداود کی شرح " المنهل العذب المورود " میں لکھتے ہیں :

( إن الضمير في قوله فلا ينظر عائد على الخادم الشامل للذكر والأنثى. والمراد هنا الأمة. والمعنى عليه إذا زوّج السيد عبده أو أجيره أمته فلا يجوز للأمة أن تنظر إلى ما بين ركبة سيدها وسرّته لأن ذلك محرّم عليها حينئذ. ويؤيد هذا رواية الدارقطني من طريق النضر بن شميل عن سوّار بن داود عن عمرو بن شعيب بلفظ وإذا زوّج أحدكم عبده أمته أو أجيره فلا تنظر الأمة إلى شيء من عورته فإن ما تحت السرّة إلى الرّكبة من العورة. )
یعنی اس حدیث میں جو فرمایا کہ :
جب تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کا نکاح کردے تو اس کی شرمگاہ کی طرف ہرگز نہ دیکھے "
تو یہاں ( اس کی شرمگاہ کی طرف نہ دیکھے ) میں ضمیر " خادم " کی طرف عائد ہے جو مذکر و مؤنث کو شامل ہے ، لیکن یہاں " مراد " لونڈی ہے ،
اور اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ : جب مالک اپنی لونڈی اپنے غلام یا نوکر سے بیاہ دے تو اس لونڈی کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مالک کے گھٹنے سے ناف تک کے مقام کو دیکھے ، کیونکہ یہ عمل اس لونڈی کیلئے منکوحہ بننے کے بعد حرام ہے ،
اور اس معنی کی تائید سنن دار قطنی کی روایت کرتی ہے ،جس میں الفاظ یہ ہیں :

اور جب تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کا نکاح کردے تو وہ لونڈی (اپنے مالک ) کی شرمگاہ کی طرف ہرگز نہ دیکھے کیونکہ ناف کے نیچے سے گھٹنوں تک کا حصہ ستر ہے۔ "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور سعودی عرب کے دینیات کے مشہور استاذ عبد المحسن بن حمد العباد البدر شرح سنن ابی داود میں مذکورہ جملہ کی تشریح میں لکھتے ہیں :
(إذا زوج أحدكم خادمه) والمقصود به هنا المرأة الأمة،
جب مالک اپنے نوکر کو بیاہ دے " سے مقصود لونڈی عورت ہے "
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
وإذا أنكح أحدكم عبده أو أجيره، فلا ينظرن إلى شيء من عورته، فإن ما أسفل من سرته إلى ركبتيه من عورته
یہ مذکر کا صیغہ ہے۔
فلا تنظر الأمة إلى شيء من عورته
یہ مونث کا صیغہ ہے۔ فشتان ما بینھما۔
مزید یہ کہ دار قطنی کی نظر عن سوار عن عمرو بن شعیب کی روایت یہ ہے:
حدثنا محمد بن مخلد , نا أحمد بن منصور زاج , نا النضر بن شميل , أنا أبو حمزة الصيرفي وهو سوار بن داود , نا عمرو بن شعيب , عن أبيه , عن جده , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مروا صبيانكم بالصلاة لسبع , واضربوهم عليها لعشر , وفرقوا بينهم في المضاجع , وإذا زوج أحدكم عبده أمته أو أجيره فلا ينظر إلى ما دون السرة وفوق الركبة , فإن ما تحت السرة إلى الركبة من العورة»
(سنن، 1۔430، الرسالۃ)
اس میں بھی صیغہ مذکر کا ہے۔
ایک روایت سنن ابی داود میں الولید عن الاوزاعی کے طریق سے ہے جس میں "عورتہ" کے بجائے "عورتھا" ہے لیکن ولید بن مسلم تدلیس کے سلسلے میں سخت متہم ہیں۔ البتہ یہی روایت سنن کبری میں الولید حدثنا الاوزاعی سے روایت ہوئی ہے لیکن روایت امام ابو داودؒ کے واسطے سے ہے اور ابو داودؒ خود جب روایت کرتے ہیں تو معنعن روایت کرتے ہیں۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم یوسف صاحب
السلام علیکم



یہ حدیث ضعیف ہے ۔ اسی فورم پر اس کی سند کے متعلق ایک طویل بحث ہوچکی ہے۔ جس میں رضا میاں نے ثابت کیا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔

لباس کا ٹخنوںسے نیچے ہونے پر جہنم کی وعید کنڈیشنل ہے یعنی اگرتکبر کے ساتھ لٹکائے یا پھر یہ ایک عام حکم ہے ۔
اگر یہ عام حکم ہے تو میری ناقص عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ اللہ رب العزت جو روز قیامت ان کو بھی جہنم سے نکال دے گا جن کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان ہوگا ۔وہ صرف اس وجہ سے مخلوق کو داخل جہنم کرے گا کہ لباس ٹخنوں سے نیچے پہنا۔؟
محترم یوسف صاحب السلام علیکم
مذکورہ سوال کا جواب ابھی تک نہیں ملا۔
 
Top