یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن دوسری حدیث::: جب تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کا نکاح کردے تو اس کی شرمگاہ کی طرف ہرگز نہ دیکھے ::: ۔ ۔ ۔ کا کیا مطلب ہے ؟ کیا نکاح کرنے سے قبل مالک اپنے غلام کا "ستر" دیکھ سکتا ہے ؟؟؟
اس حدیث شریف کے مذکورہ ترجمہ سے واقعی یہ سوال پیدا ہوتا ہے ، اسکی طرف میں نے توجہ نہیں دی ،
اصل میں یہاں مراد مرد غلام اور نوکر نہیں ، بلکہ لونڈی ہی ہے ، مصر کے مشہور فقیہ فقہ مالکی کے عالم محمود محمد خطاب السبكي سنن ابوداود کی شرح " المنهل العذب المورود " میں لکھتے ہیں :
( إن الضمير في قوله فلا ينظر عائد على الخادم الشامل للذكر والأنثى. والمراد هنا الأمة. والمعنى عليه إذا زوّج السيد عبده أو أجيره أمته فلا يجوز للأمة أن تنظر إلى ما بين ركبة سيدها وسرّته لأن ذلك محرّم عليها حينئذ. ويؤيد هذا رواية الدارقطني من طريق النضر بن شميل عن سوّار بن داود عن عمرو بن شعيب بلفظ وإذا زوّج أحدكم عبده أمته أو أجيره فلا تنظر الأمة إلى شيء من عورته فإن ما تحت السرّة إلى الرّكبة من العورة. )
یعنی اس حدیث میں جو فرمایا کہ :
جب تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کا نکاح کردے تو اس کی شرمگاہ کی طرف ہرگز نہ دیکھے "
تو یہاں ( اس کی شرمگاہ کی طرف نہ دیکھے ) میں ضمیر " خادم " کی طرف عائد ہے جو مذکر و مؤنث کو شامل ہے ، لیکن یہاں " مراد " لونڈی ہے ،
اور اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ : جب مالک اپنی لونڈی اپنے غلام یا نوکر سے بیاہ دے تو اس لونڈی کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مالک کے گھٹنے سے ناف تک کے مقام کو دیکھے ، کیونکہ یہ عمل اس لونڈی کیلئے منکوحہ بننے کے بعد حرام ہے ،
اور اس معنی کی تائید سنن دار قطنی کی روایت کرتی ہے ،جس میں الفاظ یہ ہیں :
اور جب تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کا نکاح کردے تو وہ لونڈی (اپنے مالک ) کی شرمگاہ کی طرف ہرگز نہ دیکھے کیونکہ ناف کے نیچے سے گھٹنوں تک کا حصہ ستر ہے۔ "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور سعودی عرب کے دینیات کے مشہور استاذ عبد المحسن بن حمد العباد البدر شرح سنن ابی داود میں مذکورہ جملہ کی تشریح میں لکھتے ہیں :
(إذا زوج أحدكم خادمه) والمقصود به هنا المرأة الأمة،
جب مالک اپنے نوکر کو بیاہ دے " سے مقصود لونڈی عورت ہے "