عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
اس تعلق سے شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا مضمون ہے.
اٹیچمنٹس
-
1 MB مناظر: 426
پھر تو لوگ دین کا دیوالیہ ہی نکال کر چھوڑیں گے...... ابتسامہیعنی مردوں کو ٹخنوں سے نیچے کرنے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ انہیں سردی نہ لگ جائے ، جبکہ خواتین کو اوپر رکھنے کی اجازت دی جائے ، تاکہ انہیں گرمی نہ لگ جائے ۔ :)
محترم عمر اثری صاحبوہ حدیث نقل کریں. مع متن
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہمحترم عمر اثری صاحب
السلام علیکم
اس پوسٹ میں محترم اسحاق صاحب نے ایک لنک دیا تھا جس سے یہ بات اخذ کی گئی ہے ۔ آپ اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
جزاک اللہ عمر بھائی۔وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ ؛ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ (ابو داؤد: 4084)
محترم اثری بھائیہر چیز عرب کا ہی کلچر ہے تو ہمارے لئے باقی کیا بچتا ہے؟
پہلے میں بھی تکبر کے ساتھ ازار لٹکانے کو ممنوع سمجھتا تھا. لیکن چند سال پہلے حدیث نظر سے گزری جسمیں ازار ٹخنے سے نیچے لٹکانے کو ہی تکبر کہا گیا تھا. مزید گزشتہ سال سنن ابو داؤد کی حدیث کی روشنی میں استاذ محترم فضیلۃ الشیخ عبد البر سنابلی مدنی حفظہ اللہ کی تشریح نے میرے ذہن کو جھنجوڑ کر رکھ دیا. تب سے میں نے اپنا موقف بدل دیا.
رہی بات موزے وغیرہ کی تو وہ ازار نہیں ہے. اب اسکو کسی عربی لغت کے ماہر سے سمجھ لیں. یا شیخ @خضر حیات حفظہ اللہ سے پوچھ لیں. شاید میں اچھے سے سمجھا نہیں پاؤں گا.
اللہ اور اسکے رسول ﷺ کا جب حکم آجائے تو سر تسلیم خم کرنا ایک مومن کا شیوہ ہے. ایسا کیوں ہے ویسا کیوں نہیں ہر بات میں تلاش کرنا صحیح نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
مَن جرَّ ثوبَه مِن الخُيَلاءِ لم يَنْظُرِ اللهُ إليه ، قالت أمُّ سَلَمَةَ : يا رسولَ اللهِ ، فكيف تَصْنَعُ النساءُ بذيولهن ؟ قال : تُرْخينَه شِبْرًا . قالت: إذا تَنْكَشِفُ أقدامُهنَّ. قال : تُرْخِينَه ذِراعًا لا تزِدْنَ عليه.وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی!
معذرت چاہتا ہوں لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ وہ حدیث مع متن اور ترجمہ بذات خود نقل کریں.
نص کی موجودگی میں آپ قیاس کر رہے ہیں؟؟؟ صریح نص ہے جس میں ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے کو ہی تکبر کہا گیا ہے. نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:لیکن میری دلیل یہی ہے کہ خواتین اس سے مستثنٰی کی گئی ہیں ۔ یعنی صرف کپڑا لٹکانا باعث عذاب نہیں ہے
جی وقتا فوقتاً مشاہدات ہوتے رہتے ہیں.اگر یہ حکم عام ہوتا تو اس میں کسی کی تخصیص نہیں ہوتی۔ اور آپ اس موجودہ دور میں ایسے شخص سے ملے ہیں جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے پر اکڑ اکڑ کر چلتا ہو۔
اسکے لئے میں نے کہا تھا کہ کسی عربی لغت کے ماہر سے پوچھیں. خیر ازار کی تعریف لسان العرب وغیرہ میں بایں الفاظ ہے:آپ کی پیش کردہ حدیث کا مطالعہ کریں تو اس میں ازار کا ترجمہ تہبند کیا گیا ہے ۔ تو صرف کیا یہ وعید تہبند پر ہوگی ۔ اس کو اس کے عام پر رکھیں اور دوسری احادیث میں چادر کا ذکر تو ہے لیکن شلوار کا ذکر نہیں کیا یہ اس پر لا گو ہوگی؟
یہی حیلہ مسلمانوں نے اپنا کر اسلامی تعلیمات کی دھجیاں اڑا دیں. کیا عجیب لاجک پیش کیا ہے آپ نے.کوئی غیر مسلم آپ سے پوچھے کہ آپ ٹخنوں سے اوپر کپڑا کیوں رکھتے ہیں تو کیا آپ کو جواب ہوگا اگر یہ ٹخنوں سے نیچے آگیا (تکبر کی شرط کے بغیر) تو میرا رب مجھ پر روز قیامت رحمت کی نظر نہیں کرے گا۔اور داخل جہنم کرے گا۔