• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرد کا قابل ستر حصہ

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم عمر اثری بھائی.
حضرت ابوبکر رض والی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر کے علاوہ کسی صحیح وجہ سے اگر ازار لٹک جائے تو گنجائش ہے چاہے لٹکایا جائے یا خود لٹک جائے. ورنہ آپ ص انہیں ازار چھوٹا کرنے کا حکم دے دیتے پھر وہ لٹکتا ہی نہیں. یہ حکم نہیں دیا تو معلوم ہوا کہ گنجائش ہے.
اسی طرح عورتوں کی اجازت بھی ایک خاص وجہ یعنی پردے کی بنا پر ہے.
آپ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسبال تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے.
تطبیق یہ دی جا سکتی ہے کہ آپ کی روایت میں عموم احوال کا بیان ہے یعنی عام طور پر اسبال تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے. البتہ اگر کوئی خاص وجہ ہو جس میں تکبر نہ ہو تو اس وقت اسبال درست ہے.
اس سے دونوں قسم کی روایات پر عمل ہو جائے گا.

البتہ اسبال ازار کی اس روایت سے ایک اور باریک نکتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ تکبر اتنی مخفی چیز ہے کہ یہ خاموشی سے اسبال کے عمل میں پیدا ہو جاتی ہے. اس لیے فرمایا: یہ ہے ہی تکبر کی وجہ سے.
میری عادت چونکہ شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنے کی ہے اس لیے میرا تجربہ ہے کہ شلوار جیسے ہی ٹخنوں سے نیچے جاتی ہے دل کی کیفیت تبدیل ہو جاتی ہے. جو لوگ عادی ہوتے ہیں انہیں ظاہر ہے کیا احساس ہوگا.
اس لیے یوں کہنا چاہیے کہ بلا ضرورت شلوار نیچے لٹکانا تکبر کا سبب ہے اور جائز نہیں. البتہ اگر کسی وجہ سے یا خیال نہ رہنے سے نیچے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں. خیال آنے پر اوپر کر لی جائے.
و اللہ اعلم
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
حضرت ابوبکر رض والی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر کے علاوہ کسی صحیح وجہ سے اگر ازار لٹک جائے تو گنجائش ہے چاہے لٹکایا جائے یا خود لٹک جائے. ورنہ آپ ص انہیں ازار چھوٹا کرنے کا حکم دے دیتے پھر وہ لٹکتا ہی نہیں. یہ حکم نہیں دیا تو معلوم ہوا کہ گنجائش ہے.
محترم بھائی!
آپ نے جو معنی کشید کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے. حدیث کے الفاظ ہیں ”استرخی“ نا کہ ”ارخی“ یعنی کہ جان بوجھ کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نہیں لٹکاتے تھے. وہ حتی الامکان کوشش کرتے تھے کہ ٹخنے سے نیچے ازار نہ جائے. جیسا کہ روایات میں صراحت ہے:
إِنِّي لَأَتَعَاهَدُ ذَلِكَ مِنْهُ (ابو داؤد: 4085)
یعنی: میں اس کا بہت خیال رکھتا ہوں۔

اور یہ لٹکنا بھی ہمیشہ نہیں ہوتا تھا بلکہ کبھی کبھار ہو جاتا تھا جیسا کہ مسند احمد میں صراحت ہے ”إِنَّهُ يَسْتَرْخِي إِزَارِي أَحْيَانًا“.
اب آپ خود غور کر لیں کہ آپ کس طرح کا معنی کشید کر رہے ہیں. ابو بکر رضی اللہ عنہ خود نہیں لٹکاتے تھے بلکہ لٹک جایا کرتا تھا مزید یہ کہ عام حالات میں وہ بہت احتیاط برتتے تھے اور ہمیشہ اوپر رکھنے کی کوشش کرتے تھے. البتہ کبھی کبھار انکا ازار ٹخنے سے نیچے چلا جایا کرتا تھا. ان تمام حالات کے بعد نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ”إِنَّكَ لَسْتَ مِمَّنْ تَصْنَعُ الْخُيَلَاءَ“ گویا کہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح کسی کی حالت ہو جائے تو اسکو متکبر نہیں کہا جائے گا. لیکن آپ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ والی روایت کو مطلق ٹخنے سے نیچے لٹکانے پر فٹ کر رہے ہیں یہ سراسر نا انصافی اور ظلم ہے.
مزید غور کرنے والی بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسکو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت گردانا ہے.
اسی طرح عورتوں کی اجازت بھی ایک خاص وجہ یعنی پردے کی بنا پر ہے.
آپ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسبال تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے.
تطبیق یہ دی جا سکتی ہے کہ آپ کی روایت میں عموم احوال کا بیان ہے یعنی عام طور پر اسبال تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے. البتہ اگر کوئی خاص وجہ ہو جس میں تکبر نہ ہو تو اس وقت اسبال درست ہے.
اس سے دونوں قسم کی روایات پر عمل ہو جائے گا.
محترم!
جب تعارض ہی نہیں تو تطبیق کیوں؟؟؟ ان روایات میں باہم کوئی تعارض نہیں.
رہا معاملہ عورتوں کا تو حدیث میں صراحت ہے کہ انکا حکم اس تعلق سے مختلف ہے. یہاں تو صراحت کے باوجود لوگوں کو تسلیم کرنے میں تامل ہے لیکن جہاں صراحت نہیں ہے کچھ لوگ وہاں بھی عورتوں کا حکم الگ بیان کرتے ہیں.
اسی طرح عورتوں کی اجازت بھی ایک خاص وجہ یعنی پردے کی بنا پر ہے.
اگر تو آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پردے کی وجہ سے انھیں ٹخنے سے نیچے رکھنے کا حکم ہے تو یہ آپ کے خلاف دلیل ہے.
اس لیے یوں کہنا چاہیے کہ بلا ضرورت شلوار نیچے لٹکانا تکبر کا سبب ہے اور جائز نہیں. البتہ اگر کسی وجہ سے یا خیال نہ رہنے سے نیچے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں. خیال آنے پر اوپر کر لی جائے.
و اللہ اعلم
ملون الفاظ کے علاوہ سے اتفاق ہے. کیونکہ روایات سے یہی پتہ چلتا ہے. آپ نے ضرورت کی بات کہاں سے اخذ کی. (استثنائی صورت کی بنا پر حکم نہیں بدلتا)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ نے جو معنی کشید کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے. حدیث کے الفاظ ہیں ”استرخی“ نا کہ ”ارخی“ یعنی کہ جان بوجھ کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نہیں لٹکاتے تھے. وہ حتی الامکان کوشش کرتے تھے کہ ٹخنے سے نیچے ازار نہ جائے. جیسا کہ روایات میں صراحت ہے:
إِنِّي لَأَتَعَاهَدُ ذَلِكَ مِنْهُ (ابو داؤد: 4085)
یعنی: میں اس کا بہت خیال رکھتا ہوں۔

اور یہ لٹکنا بھی ہمیشہ نہیں ہوتا تھا بلکہ کبھی کبھار ہو جاتا تھا جیسا کہ مسند احمد میں صراحت ہے ”إِنَّهُ يَسْتَرْخِي إِزَارِي أَحْيَانًا“.
اب آپ خود غور کر لیں کہ آپ کس طرح کا معنی کشید کر رہے ہیں. ابو بکر رضی اللہ عنہ خود نہیں لٹکاتے تھے بلکہ لٹک جایا کرتا تھا مزید یہ کہ عام حالات میں وہ بہت احتیاط برتتے تھے اور ہمیشہ اوپر رکھنے کی کوشش کرتے تھے. البتہ کبھی کبھار انکا ازار ٹخنے سے نیچے چلا جایا کرتا تھا.
محترم بھائی! کیا لٹک جانے والے ازار کا یہ حل نہیں ہے کہ اسے چھوٹا کر دیا جائے؟ آپ ﷺ نے اس کا حکم نہیں دیا حالانکہ یہ ممکن تھا۔
معلوم ہوا کہ کچھ گنجائش موجود ہے۔
آگے دیکھیے تو آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
إِنَّكَ لَسْتَ مِمَّنْ تَصْنَعُ الْخُيَلَاءَ
یعنی اصل مسئلہ متکبرین کا عمل ہے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تکبر کی وجہ سے نہیں کرتے تھے بلکہ مجبوری کی وجہ سے ہو جاتا تھا تو اجازت دی گئی۔ جب اصل مسئلہ تکبر ہے جس کی صراحت بھی دوسری روایت میں موجود ہے:
إن الذي يجر ثوبه من الخيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة
تو پھر ہم اس میں اپنی عقل کیوں لڑائیں؟

محترم!
جب تعارض ہی نہیں تو تطبیق کیوں؟؟؟ ان روایات میں باہم کوئی تعارض نہیں.
محترم عمر بھائی!
تعارض یہاں ہے:
جسمیں ازار ٹخنے سے نیچے لٹکانے کو ہی تکبر کہا گیا تھا
فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ
یہاں شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کو ہی تکبر کہا گیا۔
لَسْتَ مِمَّنْ يَصْنَعُهُ خُيَلَاءَ
یہاں سے ہمیں یہ پتا چلا کہ کوئی ایسی صورت بھی موجود ہے جہاں ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانے کو تکبر نہیں بھی سمجھا جاتا۔ اب اس معنی اور پچھلے معنی میں تعارض ہو گیا تو اسے ہم یوں دور کر سکتے ہیں:
تطبیق یہ دی جا سکتی ہے کہ آپ کی روایت میں عموم احوال کا بیان ہے یعنی عام طور پر اسبال تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے. البتہ اگر کوئی خاص وجہ ہو جس میں تکبر نہ ہو تو اس وقت اسبال درست ہے.
یہاں ایک بات یہ ہے کہ:
حدیث کے الفاظ ہیں ”استرخی“ نا کہ ”ارخی“ یعنی کہ جان بوجھ کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نہیں لٹکاتے تھے. وہ حتی الامکان کوشش کرتے تھے کہ ٹخنے سے نیچے ازار نہ جائے.
لیکن یہ بھی دیکھیے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں مطلقاً اجازت نہیں دی یعنی صرف یہ نہیں فرمایا کہ "ٹھیک ہے کوئی حرج نہیں" (جیسا کہ آپ ﷺ کا حدیث حج میں ارشاد ہے: لاباس) بلکہ آپ ﷺ نے جواز کی علت بھی بتائی ہے اور وہ ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا عدم تکبر۔ اب اگر ہم اسے صرف لٹکنے کے معنی کے حساب سے دیکھیں تو پھر اس علت کے بیان کا کوئی فائدہ نہیں رہ جائے گا اور نبی کریم ﷺ کو جوامع الکلم دیے گئے تھے۔ اس لیے حدیث کے دونوں حصوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید غور کرنے والی بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسکو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت گردانا ہے.
ایک تو امام بخاریؒ کے استدلال کے علاوہ دیگر استدلالات بھی اسی روایت سے کیے جا سکتے ہیں۔ دوسرا یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اس اعتبار سے بھی ہے کہ ایک تو اس روایت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تکبر سے دور بتایا گیا ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کے احکام اسلام کے خیال اور ان کی پریشانی اور ممنوعات سے بچنے کا اہتمام اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔

اگر تو آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پردے کی وجہ سے انھیں ٹخنے سے نیچے رکھنے کا حکم ہے تو یہ آپ کے خلاف دلیل ہے.
کیف؟

آپ نے ضرورت کی بات کہاں سے اخذ کی. (استثنائی صورت کی بنا پر حکم نہیں بدلتا)
استثناء ایک مثبت حکم ہے اور مثبت کے لیے دلیل چاہیے ہوتی ہے۔ اگر حدیث کے الفاظ میں یہ ہوتا کہ "یہ آپ کے لیے ہے" (جیسا کہ حدیث حاطب بن ابی بلتعہ میں اہل بدر کی ایک خصوصیت ارشاد ہوئی) یا دیگر دلائل اس بات پر دلالت کرتے کہ یہ حکم صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے تھا تو ہم اسے استثناء سمجھتے۔ لیکن یہاں اول تو کوئی دلیل ایسی نہیں ہے اور ثانیاً ایسی دلیل کے بجائے تکبر کا ذکر کر کے عدم تکبر کی علت بیان کی گئی ہے۔ یہ استثناء تو بن ہی نہیں سکتا۔ جب یہ استثناء نہیں ہے تو پھر اصل حکم میں اس روایت کا اثر ہوگا۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
ٹخنے سے نیچے ازار حرام ہے. اور تکبر کے ساتھ کبیرہ گناہ ہے. ہاں یہ ضرور ہے کہ حرام پر اصرار کرنے سے وہ کبائر میں تبدیل ہو جاتے ہیں.
محترم عمر بھائی
مجھے یہ جملہ سمجھ نہیں آیا۔ کیا کسی حرام کا ایک دفعہ کرنا کبیرہ گناہ نہیں ہے۔ ؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
محترم عمر بھائی
مجھے یہ جملہ سمجھ نہیں آیا۔ کیا کسی حرام کا ایک دفعہ کرنا کبیرہ گناہ نہیں ہے۔ ؟
کبیرہ گناہ اور حرام میں فرق ہے۔ حرام کا لفظ صغیرہ اور کبیرہ دونوں قسم کے گناہوں پر بولا جاتا ہے، جبکہ کبیرہ گناہ کبیرہ گناہوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ صغیرہ گناہوں پر نہیں بولا جاتا۔ واللہ اعلم
مزید تفصیل یہاں دیکھیں.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
محترم بھائی! کیا لٹک جانے والے ازار کا یہ حل نہیں ہے کہ اسے چھوٹا کر دیا جائے؟ آپ ﷺ نے اس کا حکم نہیں دیا حالانکہ یہ ممکن تھا۔
معلوم ہوا کہ کچھ گنجائش موجود ہے۔
جی بالکل حل ہے. لیکن نبی ﷺ نے کیوں حکم نہیں دیا اسکی وجہ تو مجھے نہیں معلوم.
گنجائش بھی موجود ہے میں اسکا انکار نہیں کرتا. لیکن جو گنجائش آپ نکال رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے. آپ علت دیکھیں.
ایک تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خود نہیں لٹکاتے تھے. بلکہ خود لٹک جایا کرتا تھا.
دوسرے کبھی کبھار لٹک جایا کرتا تھا. وہ بھی ایک جانب جیسا کہ روایت میں صراحت ہے.
اب آپ اسکو مطلق جواز پر محمول کر رہے ہیں. ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسی صورتحال گر کسی کے ساتھ پیش آئے تو وہ متکبر نہیں کہلائے گا. بس اتنی سی بات ہے.
یعنی اصل مسئلہ متکبرین کا عمل ہے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تکبر کی وجہ سے نہیں کرتے تھے بلکہ مجبوری کی وجہ سے ہو جاتا تھا تو اجازت دی گئی۔ جب اصل مسئلہ تکبر ہے جس کی صراحت بھی دوسری روایت میں موجود ہے:
آپ خود مجبوری کا نام لے رہے ہیں اور پھر اس کو مطلق رکھ رہے ہیں. آپ کے حساب سے کوئی بھی ٹخنے سے نیچے (مطلقا) اپنا ازار رکھ لے اور خود کا تزکیہ کرتا پھرے کہ میں تکبر کی بنا پر نہیں لٹکا رہا تو وہ صحیح ہے؟؟؟؟ حالانکہ نبی اکرم ﷺ نے خود اسکو تکبر گردانا ہے. تکبر کا اطلاق آپ ﷺ نے اس پر نہیں کیا جس کا ازار بے دھیانی میں چلا جائے.
اور پھر یہاں نبی اکرم ﷺ نے خود ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تزکیہ کیا ہے. اور کن حالات میں کیا ہے اس کو بار بار دھرا چکا ہوں. یہ تو خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کا تواضع اور احتیاط تھا کہ وہ بے چین ہوگئے اور آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھ لیا. حالانکہ وہ ایک نحیف انسان تھے. احتیاط کے باوجود ازار ٹخنے سے نیچے آجانا کوئی بعید نہیں.
لیکن یہ بھی دیکھیے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں مطلقاً اجازت نہیں دی یعنی صرف یہ نہیں فرمایا کہ "ٹھیک ہے کوئی حرج نہیں" (جیسا کہ آپ ﷺ کا حدیث حج میں ارشاد ہے: لاباس) بلکہ آپ ﷺ نے جواز کی علت بھی بتائی ہے اور وہ ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا عدم تکبر۔ اب اگر ہم اسے صرف لٹکنے کے معنی کے حساب سے دیکھیں تو پھر اس علت کے بیان کا کوئی فائدہ نہیں رہ جائے گا اور نبی کریم ﷺ کو جوامع الکلم دیے گئے تھے۔ اس لیے حدیث کے دونوں حصوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
نبی ﷺ نے صورت مسؤولہ کے جواب میں فرمایا تھا کہ آپ تکبر کی بنا پر نہیں کر رہے اسمیں علت کے بیان کا فائدہ کیوں نہیں؟ آخر سوال بھی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی علت کی بنا پر کیا تھا. انھوں نے جب نبی ﷺ کا فرمان سنا تو مزید استفسار کیا اور اپنی حالت و کیفیت بتلائی. جوابا نبی ﷺ نے اسی علت کے ذکر کے ساتھ بتلایا کہ آپ کی جو کیفیت ہے وہ تکبر والی نہیں کیونکہ آپ کا ازار بے خیالی میں لٹک جاتا ہے جبکہ آپ حتی الامکان ازار اوپر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.
دیگر استدلالات بھی اسی روایت سے کیے جا سکتے ہیں۔ دوسرا یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اس اعتبار سے بھی ہے کہ ایک تو اس روایت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تکبر سے دور بتایا گیا ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کے احکام اسلام کے خیال اور ان کی پریشانی اور ممنوعات سے بچنے کا اہتمام اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔
ملون الفاظ ہی تو آپ کو بتانا چاہتا ہوں. ساتھ ساتھ اگر آپ لَسْتَ مِمَّنْ يَصْنَعُهُ خُيَلَاءَ کے الفاظ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص مانتے ہیں تو یہ بھی آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر دال ہے کہ آپ تکبر سے کوسوں دور ہیں.
وہ اس طرح کہ اگر علت پردہ مانی جائے تو مفہوم یہ ہوگا کہ اگر پردے کا معاملہ نہ ہوتا تو عورتوں کو بھی ٹخنے سے اوپر ازار رکھنے کا حکم ہوتا. واللہ اعلم
استثناء ایک مثبت حکم ہے اور مثبت کے لیے دلیل چاہیے ہوتی ہے۔ اگر حدیث کے الفاظ میں یہ ہوتا کہ "یہ آپ کے لیے ہے" (جیسا کہ حدیث حاطب بن ابی بلتعہ میں اہل بدر کی ایک خصوصیت ارشاد ہوئی) یا دیگر دلائل اس بات پر دلالت کرتے کہ یہ حکم صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے تھا تو ہم اسے استثناء سمجھتے۔ لیکن یہاں اول تو کوئی دلیل ایسی نہیں ہے اور ثانیاً ایسی دلیل کے بجائے تکبر کا ذکر کر کے عدم تکبر کی علت بیان کی گئی ہے۔ یہ استثناء تو بن ہی نہیں سکتا۔ جب یہ استثناء نہیں ہے تو پھر اصل حکم میں اس روایت کا اثر ہوگا۔
میں اصل میں کچھ اور کہنا چاہتا تھا چونکہ مجھے زیادہ تجربہ نہیں اس لئے شاید سمجھا نہیں سکا. میرا مقصود یہ تھا کہ اصل یہ ہے کہ ٹخنے سے نیچے ازار رکھنا تکبر کی علامت ہے البتہ ایک استثنائی صورت یہ نکلتی ہے کہ اگر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسی صورت حال کسی کے ساتھ ہو تو وہ متکبر نہیں کہلائے گا. اب اس استثنائی صورت کی بنا پر حکم نہیں بدل جائے گا.
واللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ کے حساب سے کوئی بھی ٹخنے سے نیچے (مطلقا) اپنا ازار رکھ لے اور خود کا تزکیہ کرتا پھرے کہ میں تکبر کی بنا پر نہیں لٹکا رہا تو وہ صحیح ہے
بھائی یہ کس نے کہا ہے؟ میرا خیال ہے میں نے ضرورت اور صحیح وجہ کی بات کی ہے.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
بھائی یہ کس نے کہا ہے؟ میرا خیال ہے میں نے ضرورت اور صحیح وجہ کی بات کی ہے.
محترم بھائی!
آپ پہلے یہ تعین کر لیں کہ آپ کس بنا پر ٹخنے سے ازار نیچے رکھنے کے جواز (یا حلت) کے قائل ہیں. ضرورت، مجبوری یا صحیح وجہ؟ مزید یہ بھی تعیین کر لیں کہ یہ ضرورت، اور صحیح وحہ کی نوعیت کیا ہے؟؟؟؟ آیا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نوعیت کا کوئی معاملہ ہو یا دل کو دلاسہ دینے والا کوئی معاملہ ہو؟؟؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
بھائی یہ کس نے کہا ہے؟ میرا خیال ہے میں نے ضرورت اور صحیح وجہ کی بات کی ہے.
تب آخر ہم میں اختلاف کس تعلق سے پیدا ہوا؟؟؟ میں یہاں پھر کہوں گا کہ استثنائی صورت کی بنا پر اصل قاعدہ تبدیل نہیں ہوتا.
اصل یہ ہے کہ کوئی خنزیر نہ کھائے اسکا کھانا حرام ہے لیکن کبھی حالات ایسے ہوئے کہ جان بچانے وغیرہ کی خاطر خنزیر کھانا پڑا (اللہ نہ کرے کبھی ایسے حالات ہوں) تو کیا خنزیر حلال ٹھہرے گا؟؟؟ ہیارے بھائی قاعدہ تو اب بھی یہی رہے گا نا کہ خنزیر حرام ہے؟؟؟ یا کھانے کی اجازت کی بنا پر حکم تبدیل ہو جائے گا؟؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
تب آخر ہم میں اختلاف کس تعلق سے پیدا ہوا؟؟؟ میں یہاں پھر کہوں گا کہ استثنائی صورت کی بنا پر اصل قاعدہ تبدیل نہیں ہوتا.
اصل یہ ہے کہ کوئی خنزیر نہ کھائے اسکا کھانا حرام ہے لیکن کبھی حالات ایسے ہوئے کہ جان بچانے وغیرہ کی خاطر خنزیر کھانا پڑا (اللہ نہ کرے کبھی ایسے حالات ہوں) تو کیا خنزیر حلال ٹھہرے گا؟؟؟ ہیارے بھائی قاعدہ تو اب بھی یہی رہے گا نا کہ خنزیر حرام ہے؟؟؟ یا کھانے کی اجازت کی بنا پر حکم تبدیل ہو جائے گا؟؟؟
حکم کی سختی اور نرمی کا اختلاف ہے. اگر کسی کو دھیان نہ رہے اور وہ خنزیر کھا لے تو کیا یہ جائز ہوگا؟
لیکن ٹخنوں سے نیچے لباس کے معاملے میں اس میں گنجائش ہوگی.
ہم بسا اوقات جب سوئمنگ کے لیے جاتے ہیں اور اپنا لباس موجود نہیں ہوتا تو کسی سے مستعار لے لیتے ہیں. یہ ٹراؤزر ہوتا ہے اور عموما سائز میں زیادہ ہوتا ہے تو ڈھلک کر ٹخنوں سے نیچے آ جاتا ہے. کیا آپ اسے تکبر کہیں گے یا یہاں گنجائش دیں گے؟
اس طرح کے کئی مواقع پیش آتے ہیں. لوگوں کو احرام باندھنے کا عموما تجربہ نہیں ہوتا. ایسے میں اگر احرام ذرا بڑا ہو تو ٹخنوں سے اوپر رکھنا مشکل ہوتا ہے. ایسے میں انسان رمی اور دیگر افعال کرے یا احرام پکڑا رہے؟ یہاں بھی تکبر نہیں ہوتا.
اس طرح کے مسائل میں گنجائش ہوگی.
تو ہمارا اختلاف سختی اور نرمی کا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں حرمت کی علت تکبر کو سمجھتا ہوں اور اسبال کو تکبر کی علامت سمجھتا ہوں. آپ نفس اسبال کو ہی غالبا حرمت کی علت سمجھتے ہیں.

محترم بھائی!
آپ پہلے یہ تعین کر لیں کہ آپ کس بنا پر ٹخنے سے ازار نیچے رکھنے کے جواز (یا حلت) کے قائل ہیں. ضرورت، مجبوری یا صحیح وجہ؟ مزید یہ بھی تعیین کر لیں کہ یہ ضرورت، اور صحیح وحہ کی نوعیت کیا ہے؟؟؟؟ آیا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نوعیت کا کوئی معاملہ ہو یا دل کو دلاسہ دینے والا کوئی معاملہ ہو؟؟؟
ضرورت یا مجبوری ایک فقہی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے کہ کسی چیز کی عدم موجودگی سے ضرر یا تکلیف ہو. حضرت ابوبکر رض کے معاملے میں ضرورت تھی کیوں کہ اگر انہیں یہ فرمایا جاتا کہ آپ نے ہر حال میں اپنے ازار کا خیال رکھنا ہے تو وہ سخت پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتے.
رہ گئی بات صحیح وجہ کی تو اس کی ایک مثال عورتوں کے پردے والی ہے. اس کے علاوہ بھی کوئی صحیح وجہ ہو سکتی ہے.
البتہ جب فقہی ابحاث میں ضرورت یا وجہ وغیرہ کا ذکر ہو تو اس سے مراد شرعی ضروریات اور شرعی وجوہ ہوتی ہیں.
 
Top