lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
صحیح البخاری --- امام بخاری --- مرض وفات النبی صلی الله علیہ وسلم کا واقعہ / یعنی واقعہ قرطاس
مرضِ وفات کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ صحیح بخاری کے مطابق جمعرات کے دن یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے چار دن پہلے ، نبی صلی الله علیہ وسلم نے شدت مرض میں حکم دیا کہ:
قَالَ النَّبِى (صلى الله عليه وسلم) : (هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لا تَضِلُّوا بَعْدَهُ) ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِى عليه السلام قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَعُ، وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ، حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ، فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ
جاؤ میں کچھ تمھارے لئے تحریرلکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو - پس عمر (رضی الله عنہ) نے کہا کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کا غلبہ ہو رہا ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے ، کتاب الله ہمارے لئے کافی ہے ، پس اہل بیت کا اس پر اختلاف ہو گیا -
نبی صلی الله علیہ وسلم کے سامنے شور ہوا کہ جاؤ قلم و تختی لےآؤ بعض نے کہا نہیں اس پر آوازیں بلند ہوئیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا -
شرح النووی على مسلم میں ابو زکریا النووی لکھتے ہیں کہ:
اعلم أن النبي صلى الله عليه وسلم معصوم من الكذب ، ومن تغيير شيء من الأحكام الشرعية في حال صحته وحال مرضه ، ومعصوم من ترك بيان ما أمر ببيانه ، وتبليغ ما أوجب الله عليه تبليغه ، وليس معصوما من الأمراض والأسقام العارضة للأجسام ونحوها مما لا نقص فيه لمنزلته ، ولا فساد لما تمهد من شريعته . وقد سحر صلى الله عليه وسلم حتى صار يخيل إليه أنه فعل الشيء ولم يكن فعله ولم يصدر منه صلى الله عليه وسلم في هذا الحال كلام في الأحكام مخالف لما سبق من الأحكام التي قررها . فإذا علمت ما ذكرناه فقد اختلف العلماء في الكتاب الذي هم النبي صلى الله عليه وسلم به ، فقيل : أراد أن ينص على الخلافة في إنسان معين لئلا يقع نزاع وفتن ، وقيل : أراد كتابا يبين فيه مهمات الأحكام ملخصة ; ليرتفع النزاع فيها ، ويحصل الاتفاق على المنصوص عليه ، وكان النبي صلى الله عليه وسلم هم بالكتاب حين ظهر له أنه مصلحة أو أوحي إليه بذلك ، ثم ظهر أن المصلحة تركه ، أو أوحي إليه بذلك ، ونسخ ذلك الأمر الأول ، وأما كلام عمر - رضي الله عنه - فقد اتفق العلماء المتكلمون في شرح الحديث على أنه من دلائل فقه عمر وفضائله ، ودقيق نظره ; لأنه خشي أن يكتب صلى الله عليه وسلم أمورا ربما عجزوا عنها ، واستحقوا العقوبة عليها لأنها منصوصة لا مجال للاجتهاد فيها ، فقال عمر : حسبنا كتاب الله ; لقوله تعالى ما فرطنا في الكتاب من شيء وقوله : اليوم أكملت لكم دينكم فعلم أن الله تعالى أكمل دينه فأمن الضلال على الأمة ، وأراد الترفيه على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فكان عمر أفقه من ابن عباس وموافقيه
جان لو کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم معصوم من الکذب ہیں اور اس سے معصوم ہیں کہ شریعت کے احکام میں تبدیلی کریں حالت صحت اور مرض دونوں میں اور اس سے بھی معصوم ہیں کہ وہ تبلیغ جس کا کیا جانا واجب ہے اس کو نہ کیا ہو - لیکن وہ امراض و اسقام ، عارضہ اجسام اور اسی نو کی چیزوں سے معصوم نہیں جس سے نبی کے درجے اور منزلت میں کوئی تنقیص نہیں آتی اور نہ کوئی فساد شریعت ہوتا ہے اور بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم پر جادو ہوا حتی کہ انہیں خیال ہوا کہ انہوں نے کوئی کام کیا ہے لیکن نہیں کیا ہوتا تھا اور اس حال میں نبی سے کوئی ایسا حکم بھی نہیں صادر ہوا جو پہلے سے الگ ہو پس جو ہم نے کہا اگر تم نے جان لیا تو پس (سمجھو) علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ وہ کیا تحریر تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم لکھوانا چاہتے تھے - کہا جاتا ہے کہ کسی انسان کو خلافت پر مقرر کرنا چاہتے تھے تاکہ نزاع یا فتنہ رونما نہ ہو اور کہا جاتا ہے کہ تحریر لکھوانا چاہتے تھے جس میں اہم احکام کی وضاحت کریں جو نزاع بڑھا سکتے ہوں اور ان پر اتفاق حاصل کرنا چاہتے تھے.....اور جہاں تک عمر رضی الله عنہ کے قول کا تعلق ہے تو اس پر متکلم علماء کا اتفاق ہے ، اس حدیث کی شرح میں کہ یہ عمر کی دقیق النظری اور فضیلت کی دلیل ہے کہ وہ ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں نبی صلی الله علیہ وسلم ایسا حکم نہ لکھوا دیں جس کو کر نہ سکیں...
(شرح النووی على مسلم: كتاب الوصية: رقم ١٦٣٧)
روایت کے الفاظ "قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَع" (بے شک ان پر بیماری کی شدت ہے) کی شرح کی جاتی ہے -
شرح صحيح البخارى میں ابن بطال (المتوفی: 449هـ) لکھتے ہیں کہ:
فقنع عمر بهذا، وأراد الترفيه عن النبى (صلى الله عليه وسلم) ، لاشتداد مرضه وغلبة الوجع عليه
پس عمر نے اس (کتاب الله) پر قناعت کی ان کا ارادہ نبی کو خوش کرنے کا تھا ، کیونکہ نبی پر مرض کی شدت اور بیماری غالب آ رہی ہے -
(شرح صحيح البخارى لابن بطال: جلد ١ ، صفحہ ١٨٩ ، مکتبہ الرشد ، السعودیہ - الریاض)
ایک دوسری روایت میں ہے "فقالوا ما شأنه ؟ أهجر"
پس صحابہ نے کہا ان کی کیا کیفیت ہے کیا انکو ھجر ہوا؟
"أهجر" کی شروحات میں مختلف مفہوم ہیں -
ابن الملقن (المتوفی: 804هـ) لکھتے ہیں کہ:
(أهجر) سلف بيانه، وهو سؤال ممن حضر في البيت، هل هو هذيان؟ يقال: هجر العليل: إذا هذى، ويحتمل أن يكون من قائله على وجه الإنكار، كأنه قال: أتظنونه هجر؟ وقيل: إن عمر قال: غلبه الوجع، فيجوز أن يكون قال للذي ارتفعت أصواتهم على جهة الزجر، كقول القائل: نزل فلان الوجع فلا تؤذوه بالصوت
(أهجر) یہ سوال تھا انکا جو گھر میں اس وقت موجود تھے کیا یہ ہذیان ہے کہا هجر العليل (بیمار کو هجر) جب وہ ہذیان کہے اور احتمال ہے کہ کہنے والا اس کیفیت کا انکاری ہو جسے کہے کیا سمجھتے ہو کہ یہ ہذیان ہے؟ اور کہا جاتا ہے عمر نے کہا ان پر بیماری کی شدت ہے پس جائز ہے کہ انہوں نے شور کرنے والوں کو ڈانٹنے کے لئے ایسا کہا ہو جیسے کوئی قائل کہے ان پر بیماری آئی ہے پس اپنی آوازوں سے ان کو اذیت نہ دو -
(التوضيح لشرح الجامع الصحيح: جلد ٢١ ، صفحہ ٦٢٣ ، دار النوادر ، دمشق - سوریا)
القسطلانی (المتوفی: 923هـ) کتاب ارشاد الساری لشرح صحيح البخاری میں لکھتے ہیں کہ:
وقال النووي: وإن صح بدون الهمزة فهو لما أصابه الحيرة والدهشة لعظيم ما شاهده من هذه الحالة الدالة على وفاته وعظم المصيبة أجرى الهجر مجرى شدة الوجع. قال الكرماني: فهو مجاز لأن الهذيان الذي للمريض مستلزم لشدة وجعه فأطلق الملزوم وأراد اللازم، وللمستملي والحموي: أهجر بهمزة الاستفهام الإنكاري أي أهذى إنكارًا على من قال: لا تكتبوا أي لا تجعلوه كأمر من هذى في كلامه أو على من ظنه بالنبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- في ذلك الوقت لشدة المرض عليه
اور النووی کہتے ہیں اور اگر یہ لفظ همزة (استفھامیہ) کے بغیر ہے (یعنی عمر نے یہ سوال نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایسا کہا) تو پس جو انہوں نے یہ کیفیت دیکھی تو اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات جانا اور بڑی دہشت کے عالم میں ان سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ بیماری کی شدت ہے - کرمانی کہتے ہیں یہ مجاز ہے کیونکہ هذيان اس مریض کے لئے ہے جس پر بیماری کی شدت ہو -
(جلد ٥ ، صفحہ ١٦٩ ، المطبعة الكبرى الأميرية - مصر)
اس روایت کو شیعہ دلیل بناتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ، علی رضی الله تعالی عنہ کی امامت و خلافت کا حکم کرنے والے تھے جس کو بھانپتے ہوئے نعوذ باللہ عمر رضی الله تعالی عنہ نے یہ چال چلی اور کہنا شروع کر دیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت ہے -
لہذا غالب رائے یہی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت تھی ورنہ آپ ایسا حکم نہیں دیتے -
نبی صلی الله علیہ وسلم کو زبردستی دوا پلائی گئی:
ایک دوسرا واقعہ ہے جس میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود ان کو دوا پلا دی گئی - نبی صلی الله علیہ وسلم کو جب ہوش آیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے منع کرنے کے باوجود دوا کیوں دی؟ نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس وقت حجرے میں موجود سب کو جو اس وقت وہاں موجود تھے ان سب کو یہ دوا پلائی جائے سوائے ان کے چچا عباس (رضی الله عنہ) کے کیونکہ وہ دوا پلاتے وقت وہاں نہیں تھے -
بخاری کتاب الطب کی حدیث ہے کہ:
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن سفيان، حدثنا موسى بن أبي عائشة، عن عبيد الله بن عبد الله قَالَتْ عَائِشَةُ لَدَدْنَاهُ فِي مَرَضِهِ، فَجَعَلَ يُشِيرُ إِلَيْنَا، أَنْ لاَ تَلُدُّونِي. فَقُلْنَا كَرَاهِيَةُ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ. فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ ” أَلَمْ أَنْهَكُمْ أَنْ تَلُدُّونِي ”. قُلْنَا كَرَاهِيَةَ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ. فَقَالَ ” لاَ يَبْقَى فِي الْبَيْتِ أَحَدٌ إِلاَّ لُدَّ ـ وَأَنَا أَنْظُرُ ـ إِلاَّ الْعَبَّاسَ فَإِنَّهُ لَمْ يَشْهَدْكُمْ
عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض (وفات) میں دوا آپ کے منہ میں ڈالی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اشارہ کیا کہ دوا منہ میں نہ ڈالو ہم نے خیال کیا کہ مریض کو دوا سے جو نفرت ہوتی ہے اس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم منع فرما رہے ہیں پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ دوا میرے منہ میں نہ ڈالو - ہم نے عرض کیا کہ یہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی دوا سے طبعی نفرت کی وجہ سے فرمایا ہو گا - رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب گھر میں جتنے لوگ اس وقت موجود ہیں سب کے منہ میں دوا ڈالی جائے اور میں دیکھتا رہوں گا ، البتہ عباس (رضی اللہ عنہ) کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ میرے منہ میں (دوا) ڈالتے وقت موجود نہ تھے ، بعد میں آئے -
ایک روایت میں الفاظ ہیں کہ:
فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ هَذَا مِنْ فِعْلِ نِسَاءٍ جِئْنَ مِنْ هُنَا وَأَشَارَ إِلَى الْحَبَشَةِ وَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ عَلَيَّ ذَاتَ الْجَنْبِ مَا كَانَ اللَّهُ لِيَجْعَلَ لَهَا عَلَيَّ سُلْطَانًا وَاللَّهِ لَا يَبْقَى أَحَدٌ فِي الْبَيْتِ إِلَّا لُدَّ فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ فِي الْبَيْتِ إِلَّا لُدَّ وَلَدَدْنَا مَيْمُونَةَ وَهِيَ صَائِمَةٌ
پس جب نبی صلی الله علیہ وسلم کو ہوش آیا تو آپ نے فرمایا یہ عورتوں کا کام ہے جو وہاں سے آئی ہیں آپ نے حبشہ کی طرف اشارہ کیا اور (کہا) کیا تم یہ دیکھتے ہو کہ الله ذَاتَ الْجَنْبِ (دوا کا عنصر) کو میرے اوپر مسلط کرے گا الله اس کو میرے اوپر اختیار نہیں دے گا - الله کی قسم! اب گھر میں کوئی ایسا نہ رہے جس کو یہ دوا پلائی نہ جائے - پس کوئی نہ چھوڑا گیا جس کے منہ میں دوا نہ ڈالی گئی ہو اور (ام المومنین) ميمونہ (رضی الله عنہا) کو بھی پلائی جبکہ وہ روزے سے تھیں -
شیعہ حضرات اس روایت سے دلیل لیتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو شبہ تھا کہ ان کو زہر دیا جا رہا ہے لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کیا اور نبی صلی الله علیہ وسلم کو زہردے کر شہید کیا گیا -
افسوس ان کی عقل پر اہل بیت میں سے عباس رضی الله تعالی عنہ کی موجوگی میں سب کو دوا پلائی گئی عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے بھی پی لیکن سب زندہ رہے اگر اس دوا میں زہر تھا تو کسی اور کی وفات کیوں نہیں ہوئی؟
نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا المهلب کہتے ہیں کہ:
قال المهلب: وجه ذلك- والله أعلم- أنه لما فعل به من ذلك ما لم يأمرهم به من المداواة بل نهاهم عنه
اس کی وجہ اللہ کو پتا ہے ، پس جب انہوں نے ایسا کیا جس کا حکم نہیں دیا گیا تھا تو منع کرنے کے لئے ایسا کیا -
(شرح صحيح البخارى لابن بطال: باب: رقية النبي صلى الله عليه وسلم)
نبی صلی الله علیہ وسلم نے شاید کسی بیماری میں بھی دوا نہیں لی یہ ان کی خصوصیت تھی لیکن چونکہ مرض وفات میں شدت بہت تھی اس وجہ سے اہل بیت نے دوا پلا دی نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا الله اس دوا کو میرے اوپر اختیار نہیں دے گا جس سے ظاہر ہے کہ اگر زہر ہوتا تو وفات نہیں ہوتی -
نبی صلی الله علیہ وسلم کو اس وفات کی پہلے سے خبر تھی جیسا کہ بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور کہا کہ:
إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ ، وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ
الله نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ دنیا کی زینت لے یا وہ جو الله کے پاس ہے ، پس اس بندے نے اختیار کر لیا
ان دو واقعات سے شیعہ حضرات کا اپنےعقائد کے لئے دلیل پکڑنا صحیح نہیں بلکہ ان کے مذہب میں تو امام سب کر سکتا ہے اس کے آگے کائنات کا زرہ رزہ سرنگوں ہوتا ہے - دوئم الله تعالی اپنا پرانا حکم بدل دیتا ہے لہذا نبی صلی الله علیہ وسلم پر زہر کا اثر کیوں ہونے دیا گیا؟ امام تو عالم الغیب ہوتا ہے - اس باخبری کے عالم میں تو یہ نعوذ باللہ علی رضی الله عنہ کی چال بنتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو اکیلا چھوڑ دیا گیا کہ جلدی خاتمہ ہو اور خلافت ملے -
نام نہاد اہلسنت سے بھی ہماری گزارش ہے کہ عمر رضی الله تعالی عنہ کے الفاظ کی وہی تاویل کریں جو حقیقت کے قریب ہو یہ کہنا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت نہیں تھی بخاری کی حدیث کے خلاف ہے - نبی صلی الله علیہ وسلم پر اگر بیماری کی شدت نہیں تھی تو صحابہ نے انکو زبردستی دوا کیوں پلائی؟
عمر رضی الله تعالی عنہ کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کا گمان نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے وفات النبی والے دن کہا کہ جو یہ کہے کہ نبی کی وفات ہو گئی اس کی میں گردن اڑا دوں گا -
عائشہ رضی الله تعالی عنہا کو بھی آخری وقت تک نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کا گمان نہیں تھا لیکن جب نبی صلی الله علیہ وسلم نے آخری الفاظ کہے کہ:
مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا
ان لوگوں کے ساتھ جن پر الله نے انعام کیا نبیوں ، صدیقین ، شہداء اور صالحین -
فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ، يَقُولُ: {مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ} [النساء: 69] الآيَةَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ
پس اس وقت میں جان گئی کہ آپ نے (دنیا کی رفاقت چھوڑنے کا) فیصلہ کر لیا -
فاعتبرو یا اولی الابصار!