• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرنے والے کے چھوڑے ہوئے فرائض کو ساقط کرنے کیلئے مقلدین کا حیلہ

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
یہی طریقہ ہمارے علاقے میں رائج ہے ۔ پہلے بہت سارے لوگ کرتے تھے اب کئ مقلدین نے بھی چھوڑدیا ہے ۔

نمازچوٹ جانے کے چند وجوہات و عذر ہیں ۔
بے ہوشی کی حالت۔
نیند کی حالت ۔
بھول جانے کی حالت ۔
کفار سے حالت جنگ میں ۔

نبی علیہ السلام کی جنگ احزاب میں ایک دن میں تقریباً تین نمازیں چوٹ گئ تھی جن کو اگلے روز ادا کیا گیا ۔ اور ان کو بددعا بھی تھی جن کی وجہ سے نمازیں قضا ہوگئ تھی ۔
مزید یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مفہوم ۔
کہ اگر کوئی سوجائے اور کئ نمازیں رہ جائے تو جب سونے سے اٹھ جائے تو جتنی نمازیں رہ گئ اس سے پڑھ لے ۔
اس طرح بے ہوشی والا ، ہوش میں آنے کے بعد اور بھولنے والا یاد آجانے کے بعد پڑھ لے ۔
بے ہوشی کی حالت میں نماز اس سے اس وجہ سے ساقط ہے کہ اس کو نارمل حالت نہ مل جائے ۔
کیونکہ یہ مرفوع القلم ہے ۔
"عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا دیا گیا (یعنی تین قسم کے لوگ مرفوع القلم اور غیر مکلف ہیں) ایک تو سونے والے سے جاگنے تک اور بچہ سے بڑا ہونے تک اور مجنون سے ہوش آنے تک (جب تک جنون نہ ختم ہو جائے اس وقت تک وہ غیرمکلف ہے)۔"(احمد، ابو داود، نسائی۔

واللہ اعلم ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
حق کی طرف رجوع

آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہیں

لنک

میں اهلحدیث هوں وہ میری نہی مانتی میں اپنی بهن کو بتا دوں گی لیکن میں اپنی تسلی کیلیے اسکا جواب مناسب ڈوهنڈنا چاہا

میں عالم نہی هوں اور الله کی رضا کیلے آپ لوگ میری مدد کیا کریں اللہ تعلی هم سب قرآن و حدیث سمجهنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دیں آمین

مجهے مسجد میں رفع یدین اور تیز آمین سے منع کیا گیا کہ اس سے مسجد میں فتنہ پیدا هو گا اور میں نے نماز والی کتاب لائ هے جب میں ان کو دکهاتا هوں بولتے هیں یہ امام شافعی مزهب والی کتاب اور حدیث صعیف هیں میری بهنیں رشتدار سب میرے پاس بار بار آئے کہ اپنی دین واپس لوٹو -
اس کا بہتر جواب تو علماء ہی دیں گے، جہاں تک میرا اپنا ذاتی خیال ہے وہ یہ کہ اگر سوال پوچھنے والا بھائی اہلحدیث ہے تو اسے دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنی ہی نہیں چاہئے، وہ کوشش کرے کہ ساتھ میں کہیں اور اہلحدیث مسجد اگرچہ وہ کچھ فاصلے پر ہی کیوں نہ ہو وہاں جا کر ادا کر لیا کرے، کم از کم موحد کے پیچھے نماز پڑھنے کا اطمینان تو ہو گا، اگر اہلحدیث مسجد نہیں ہے تو وہاں کی اہلحدیث انتظامیہ سے درخواست کریں کہ وہ مخیر حضرات کو کہیں ایک چھوٹی سی اہلحدیث مسجد بنانے کے لئے، اور ابھی فی الحال اگر دیگر چند ساتھی اہلحدیث ہیں تو وہ کسی اور جگہ جماعت کروا لیا کریں، لیکن دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑحنے سے نہیں۔
@محمد ارسلان
بھائی آپ نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ جب وہ لوگ اس بات سے روکتے ہیں تو اہل حدیث کے پیچھے نماز کیسے پڑھنے دیں گے اس طرح کا ایک مسلہ میں نے اپنے بارے میں شیخ توصیف الرحمن سے پوچھا
تھا
سوال۔ میر ے گھر والے دیوبند ہیں۔وہ مجھے اہل حدیث کی مسجد میں نماز پڑنے نہیں دیتے۔میرے
والدیں نہیں ہیں ۔اور میر عمر کم ہے میں کیا کرؤ وہ مجھے زبردستی لے جاتے ہیں ۔اور اکیلے گھر میں بھی نہیں پڑھنے دیتے
جواب۔ آپ دیوبند کی کی مسجد میں امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد اکیلے مسجد میں ہی نماز ادا کر لیں
پھر میں نے جمعہ اور عید کے بارے میں سوال کیا ۔تو انہوں کے کہا آپ چھپ کر ادا کر لیا کریں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
محدث فتویٰ : فتویٰ نمبر : 3718
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس طرح کا اسقاط جائزنہیں ہے درمختار میں ہے کہ اگر روزہ کے فدیہ کی مرنے والا وصیت کہ جائے تو اس کے وارث ارادا کردیں تو اس سے ساقط ہوجائے گا۔اوراگر وصیت نہ کرے۔او ر وارث از خودادا کریں۔تو یہ صحیح نہیں۔بخلاف نماز کے کہ وہ بدنی عبادت ہے۔اور حج میں نیابت جائز ہے۔شامی میں ہے ک اس طر ح میت سے نماز ساقط نہیں ہوتی۔اور ایسے ہی روزے کا ھکم ہے۔ہاں اگر ورثہ خود نماز پڑھیں۔او روزہ رکھیں اور اس کا ثواب میت کو بخشیں تو صحیح ہے کیونکہ آدمی اپنا عمل غیر کو ہبہ کرسکتا ہے۔عبادت تین قسم کی ہے۔مالی ۔بدنی۔ اور مرکب مالی عبادات مثلاذکواۃ وغیرہ میں نیابت جائز ہے۔جب کہ اس کی قدرت نہ ہو اور بدنی عبادات میں نیابت جائز نہیں ۔مثلا نماز روزہ اورمرکب عبادات مثلا حج وغیرہ میں اگر نفلی ہو تو نیابت جائز ہے۔اگر فرضی ہو و نیابت جائز نہیں۔میت اگر روزہ کے فدیہ کی وصیت کرجائے تو درست ہے۔اور اگر وارث از خودفدیہ دیں تو امام محمد نے زیادت میں کہا ہے کہ امید ہے اللہ اس کو معاف فرمائے گا۔او ر عجز کی حالت میں رہی ہوئی نمازون کو بھی بعض نے روزہ پر قیاس کیا ہے۔لیکن روزے کے متعلق تو یقین سے کہتے ہیں کہ وہ فدیہ ہوگیا۔اور نماز کے متعلق توفع کے الفاظ بیان کرتے ہیں۔اگر آدمی اپنی بیماری کی حالت میں نمازوں کا فدیہ دے تو یہ جائز نہیں ہے۔اگر بوڑھا آدمی جو روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو۔اپنے روزے کا فدیہ دے تو جائز ہے۔او ر عاجز آدمی نماز کا فدیہ نہیں دے سکتا۔ اگر ویسے نہ پڑھ سکتا ہو تو اشار ہ سے پڑھے۔اگراشارے کی طاقت بھی نہ ہو تو جب نمازیں زیادہ ہوجایئں گی توساقط ہوجایئں گی۔ہاں روزے کا فدیہ چونکہ نص سے ثابت ہے۔اس پر نماز کو قیاس نہیں کیا جاسکتا بدنی عبادت میں نیابت اصولا منع ہے۔الحاصل ایسی اسقاط کتاب وسنت اور فقہ کی کتابوں کے بھی برخلاف ہے۔ خصوصا جب کہ اس کے ساتھ یہ عیدہ بھی شامل ہو جائے کہ اس طرح فرائض ساقط ہوجاتے ہیں۔بہتر یہ ہے کہ شامی کی عبارت کے مطابق ورثاء خود نماز روزہ ادا کرکے اس کو ثواب پہنچایئں۔واللہ اعلم

(رشید احمد۔عبد الوہاب ۔محمد وسیم الدین۔محمد اسد علی۔محمد عبد المطلب ۔سید محمد نزیر حسین فتاوی نزیریہ ص203)




فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 11 ص 345
محدث فتویٰ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
فتویٰ رضویہ جلد 10 صفحہ 543 ۔547 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن
تنویرالابصار اور درمختار میں ہے اگر کوئی فوت ہُوا اور اس کی نماز یں رہ گئی تھیں اور اس نے کفارہ کی وصیت کی تو ہر نماز کے عوض صدقہ فطر کے برابر فدیہ دیا جائے، اسی طرح وتر اور روزے کاحکم ہے، باقی یہ فدیہ صرف اس کے تہائی مال سے ادا کیا جائیگا، اگر کسی نے اپنی نماز کا فدیہ مرضِ موت میں دیا تو صحیح نہیں بخلاف روزہ کے کہ اس کا فدیہ مرض موت میں دینا جائز ہے۔

(۱؎ درمختار باب قضاء الفوائت مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۰۱)

وفی ردالمحتار اذا اوصی بفدیۃ الصوم یحکم بالجواز قطعا، واذالم یوص فتطوع بھا الوارث فقال محمد فی الزیادات یجزیہ ان شاء اﷲتعالٰی وکذا علقہ بالمشئیۃ فیما اذااوصی بفدیۃ الصلٰوۃ فاذالم یوص فالشبھۃ اقوی۱؎

ردالمحتار میں ہے جب کسی نے فدیہ صوم کی وصیت کی توقطعاً جواز کا حکم دیا جائے، اور اگر اس نے وصیت نہ کی مگر وارث نے بطور نفل فدیۃً ادا کردیا تو امام محمد نے زیادات میں فرمایا اگر اﷲتعالٰی نے چاہا تو یہ فدیۃً کفایت کرجائے گا، اسی طرح انہوں نے اسے مشیتِ باری تعالیٰ سے معلق فرمایا، جب کسی نے نماز کے فدیہ کی وصیت کی تو جب اس نے وصیت نہ کی ہوتو شبہ بہت قوی ہوگا ۔

(۱؎ ردالمحتار باب قضاء الفوائت مصطفی البابی مصر ۱ /۵۴۱)
فی البحرا الرائق، الولی لایصوم عنہ ولا یصلی لحدیث النسائی عہ لایصوم احد عن احد ولا یصلی احد عن احد اھ۱؎ واﷲتعالٰی اعلم۔
بحرا لرائق میں ہے ولی میت کی طرف سے نہ روزہ رکھے نہ نماز پڑھے کیونکہ حدیث نسائی میں ہے کوئی شخص کسی کی طرف سے نہ روزہ رکھے اور نہ نماز پڑھے۔ اھ، واﷲ تعالیٰ اعلم(ت)

(۱؎ البحرالرائق ،فصل فی العوارض ،ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ، ۲ /۲۸۵)

عہ ای فی سننہ الکبری عن ابن عباس رضی اﷲتعالٰی عنہما(م)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
محدث فتویٰ : فتویٰ نمبر : 3718
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس طرح کا اسقاط جائزنہیں ہے
درمختار میں ہے
کہ اگر روزہ کے فدیہ کی مرنے والا وصیت کہ جائے تو اس کے وارث ارادا کردیں تو اس سے ساقط ہوجائے گا۔اوراگر وصیت نہ کرے۔او ر وارث از خودادا کریں۔تو یہ صحیح نہیں۔بخلاف نماز کے کہ وہ بدنی عبادت ہے۔اور حج میں نیابت جائز ہے۔شامی میں ہے ک اس طر ح میت سے نماز ساقط نہیں ہوتی۔اور ایسے ہی روزے کا ھکم ہے۔ہاں اگر ورثہ خود نماز پڑھیں۔او روزہ رکھیں اور اس کا ثواب میت کو بخشیں تو صحیح ہے کیونکہ آدمی اپنا عمل غیر کو ہبہ کرسکتا ہے۔عبادت تین قسم کی ہے۔مالی ۔بدنی۔ اور مرکب مالی عبادات مثلاذکواۃ وغیرہ میں نیابت جائز ہے۔جب کہ اس کی قدرت نہ ہو اور بدنی عبادات میں نیابت جائز نہیں ۔مثلا نماز روزہ اورمرکب عبادات مثلا حج وغیرہ میں اگر نفلی ہو تو نیابت جائز ہے۔اگر فرضی ہو و نیابت جائز نہیں۔میت اگر روزہ کے فدیہ کی وصیت کرجائے تو درست ہے۔اور اگر وارث از خودفدیہ دیں تو امام محمد نے زیادت میں کہا ہے کہ امید ہے اللہ اس کو معاف فرمائے گا۔او ر عجز کی حالت میں رہی ہوئی نمازون کو بھی بعض نے روزہ پر قیاس کیا ہے۔لیکن روزے کے متعلق تو یقین سے کہتے ہیں کہ وہ فدیہ ہوگیا۔اور نماز کے متعلق توفع کے الفاظ بیان کرتے ہیں۔اگر آدمی اپنی بیماری کی حالت میں نمازوں کا فدیہ دے تو یہ جائز نہیں ہے۔اگر بوڑھا آدمی جو روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو۔اپنے روزے کا فدیہ دے تو جائز ہے۔او ر عاجز آدمی نماز کا فدیہ نہیں دے سکتا۔ اگر ویسے نہ پڑھ سکتا ہو تو اشار ہ سے پڑھے۔اگراشارے کی طاقت بھی نہ ہو تو جب نمازیں زیادہ ہوجایئں گی توساقط ہوجایئں گی۔ہاں روزے کا فدیہ چونکہ نص سے ثابت ہے۔اس پر نماز کو قیاس نہیں کیا جاسکتا بدنی عبادت میں نیابت اصولا منع ہے۔الحاصل ایسی اسقاط کتاب وسنت اور فقہ کی کتابوں کے بھی برخلاف ہے۔ خصوصا جب کہ اس کے ساتھ یہ عیدہ بھی شامل ہو جائے کہ اس طرح فرائض ساقط ہوجاتے ہیں۔بہتر یہ ہے کہ
شامی کی عبارت کے مطابق
ورثاء خود نماز روزہ ادا کرکے اس کو ثواب پہنچایئں۔واللہ اعلم

(رشید احمد۔عبد الوہاب ۔محمد وسیم الدین۔محمد اسد علی۔محمد عبد المطلب ۔سید محمد نزیر حسین فتاوی نزیریہ ص203)

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 11 ص 345
محدث فتویٰ
اہل حدیث سے مناظرہ کے لئے ۔۔آپ کو کتنی محنت کرنا پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فتاوی علمائے اہل حدیث کی گیارہویں جلد کھنگال ڈالی ۔۔
اس میں ۔۔نکلا کیا ۔۔۔درمختار ۔۔۔اور فتاوی شامی۔۔۔۔۔۔
یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ۔۔۔۔۔۔مختار ثقفی متنبی ۔۔۔۔کو ہیرو کے روپ ۔۔میں پیش کیا جاتا ۔
’’ در مختار ‘کو بھی آپ نے یہاں ویسے ہی پیش فرمادیا ۔۔۔
اہل حدیث نہ تو ۔۔اسقاط صلاۃ ۔۔کےلئے ۔۔حیلے کرتے ہیں ۔۔۔۔نہ درمختار کو ’‘ اختیار ’‘ کرتے ہیں ۔
فتاوی علمائے اہل حدیث ‘‘ میں حنفیوں کا فتوی نقل کرکے ان کا مذہب بتایا گیا ،کہ وہ ایسا کہتے ہیں ۔۔یہ مطلب نہیں کہ ’‘علمائے اہل حدیث ‘‘ بھی ایسا ہی مانتے ہیں ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اہل حدیث سے مناظرہ کے لئے ۔۔آپ کو کتنی محنت کرنا پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فتاوی علمائے اہل حدیث کی گیارہویں جلد کھنگال ڈالی ۔۔
اس میں ۔۔نکلا کیا ۔۔۔درمختار ۔۔۔اور فتاوی شامی۔۔۔۔۔۔
یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ۔۔۔۔۔۔مختار ثقفی متنبی ۔۔۔۔کو ہیرو کے روپ ۔۔میں پیش کیا جاتا ۔
’’ در مختار ‘کو بھی آپ نے یہاں ویسے ہی پیش فرمادیا ۔۔۔
ایسا لگتا ہے کہ میں نے بڑی غلطی کردی ہے جو فتاوی اہل حدیث سے اس مسئلے کے بارے میں کچھ نقل کردیا
ویسے یہ بھی بہت حیرت انگیز چیز ہے کہ یہ فتویٰ تو ہے اہل حدیث مولوی کا اور وہ اس مسئلے کے حل کے لئے حوالے دے رہا در مختار ۔۔۔۔اور فتاویٰ شامی کے اس بھی زیادہ حیران کرنے والی بات یہ کہ فتویٰ دینے والا وہابی مولوی آخر میں یہ کہتا ہے کہ
بہتر یہ ہے کہ شامی کی عبارت کے مطابق ورثاء خود نماز روزہ ادا کرکے اس کو ثواب پہنچایئں۔واللہ اعلم
جب کہ فتویٰ رضویہ کے مطابق حدیث نسائی میں ہے کوئی شخص کسی کی طرف سے نہ روزہ رکھے اور نہ نماز پڑھے
یعنی جن کے بارے آپ یہ پرو پیگنڈہ کرتے نہیں تھکتے کہ یہ لوگ احادیث کے احکام کے خلاف فتوہ دیتے ہیں وہ لوگ تو احادیث سے استدلال کرتے ہوئے فتوہ دیتےہیں اور جن وہابیہ کے بارے میں آپ لوگ یہ گمان کرتے ہیں یہ احادیث کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں در اصل وہی لوگ احادیث کے احکام سے روگردانی کرتے ہیں
ویسے نہ میں مناظرہ کرتا ہوں نہ اس بات کا میں مکلف ہوں میں تو صرف وہابیہ کو آئینہ دیکھتا ہوں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ہل حدیث نہ تو ۔۔اسقاط صلاۃ ۔۔کےلئے ۔۔حیلے کرتے ہیں ۔۔۔۔نہ درمختار کو ’‘ اختیار ’‘ کرتے ہیں ۔
فتاوی علمائے اہل حدیث ‘‘ میں حنفیوں کا فتوی نقل کرکے ان کا مذہب بتایا گیا ،کہ وہ ایسا کہتے ہیں ۔۔یہ مطلب نہیں کہ ’‘علمائے اہل حدیث ‘‘ بھی ایسا ہی مانتے ہیں ۔
لیجئے میں وہ سوال جس پر یہ فتوی دیا گیا نقل کئے دیتا ہوں ساتھ میں اس مسئلے پر اہل حدیث مولوی کا جواب بھی اور ساتھ میں اس سائٹ کا لنک بھی فراہم کئے دیتا ہوں
جب مرد کو دفن کرچکتے ہیں۔تو میت کے رشتہ داروں میں سے کوئی...الخ
شروع از M Aamir بتاریخ : 07 June 2013 08:55 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ اس علاقہ میں میں یہ رواج ہے کہ جب مرد کو دفن کرچکتے ہیں۔تو میت کے رشتہ داروں میں سے کوئی آدمی ایک یا چند قرآن مجید ھاجیوں اور ھافظوں سے بلا کر کہتا ہے کہ میں نے یہ قرآن مجید اس میت کے متروکہ نماز و روزہ کے عوض تم کو دیتا ہوںاور پھر وہ آدمی اسی طرح دوسرے کو وہ قرآن مجید بخشتا ہے اور پھر وہ کسی اور کو علی ہذا القیاس چند بار اس کو پھیر کر پھر اسی آدمی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔او اس طرھ کرنے سے ان کا خیال ہے کہ اس کے نماز روزہ جو کہ اس کے زمہ واجب الادا تھے اس سے ساقط ہوجاتے ہیں۔اور اس علاقہ کے بعض علماء اس کی عوام کو تلقین کرتے ہیں۔کیا اسی طرح نماز روزہ ساقط ہوجاتے ہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتهالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


اس طرح کا اسقاط جائزنہیں ہے درمختار میں ہے کہ اگر روزہ کے فدیہ کی مرنے والا وصیت کہ جائے تو اس کے وارث ارادا کردیں تو اس سے ساقط ہوجائے گا۔اوراگر وصیت نہ کرے۔او ر وارث از خودادا کریں۔تو یہ صحیح نہیں۔بخلاف نماز کے کہ وہ بدنی عبادت ہے۔اور حج میں نیابت جائز ہے۔شامی میں ہے ک اس طر ح میت سے نماز ساقط نہیں ہوتی۔اور ایسے ہی روزے کا ھکم ہے۔ہاں اگر ورثہ خود نماز پڑھیں۔او روزہ رکھیں اور اس کا ثواب میت کو بخشیں تو صحیح ہے کیونکہ آدمی اپنا عمل غیر کو ہبہ کرسکتا ہے۔عبادت تین قسم کی ہے۔مالی ۔بدنی۔ اور مرکب مالی عبادات مثلاذکواۃ وغیرہ میں نیابت جائز ہے۔جب کہ اس کی قدرت نہ ہو اور بدنی عبادات میں نیابت جائز نہیں ۔مثلا نماز روزہ اورمرکب عبادات مثلا حج وغیرہ میں اگر نفلی ہو تو نیابت جائز ہے۔اگر فرضی ہو و نیابت جائز نہیں۔میت اگر روزہ کے فدیہ کی وصیت کرجائے تو درست ہے۔اور اگر وارث از خودفدیہ دیں تو امام محمد نے زیادت میں کہا ہے کہ امید ہے اللہ اس کو معاف فرمائے گا۔او ر عجز کی حالت میں رہی ہوئی نمازون کو بھی بعض نے روزہ پر قیاس کیا ہے۔لیکن روزے کے متعلق تو یقین سے کہتے ہیں کہ وہ فدیہ ہوگیا۔اور نماز کے متعلق توفع کے الفاظ بیان کرتے ہیں۔اگر آدمی اپنی بیماری کی حالت میں نمازوں کا فدیہ دے تو یہ جائز نہیں ہے۔اگر بوڑھا آدمی جو روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو۔اپنے روزے کا فدیہ دے تو جائز ہے۔او ر عاجز آدمی نماز کا فدیہ نہیں دے سکتا۔ اگر ویسے نہ پڑھ سکتا ہو تو اشار ہ سے پڑھے۔اگراشارے کی طاقت بھی نہ ہو تو جب نمازیں زیادہ ہوجایئں گی توساقط ہوجایئں گی۔ہاں روزے کا فدیہ چونکہ نص سے ثابت ہے۔اس پر نماز کو قیاس نہیں کیا جاسکتا بدنی عبادت میں نیابت اصولا منع ہے۔الحاصل ایسی اسقاط کتاب وسنت اور فقہ کی کتابوں کے بھی برخلاف ہے۔ خصوصا جب کہ اس کے ساتھ یہ عیدہ بھی شامل ہو جائے کہ اس طرح فرائض ساقط ہوجاتے ہیں۔بہتر یہ ہے کہ شامی کی عبارت کے مطابق ورثاء خود نماز روزہ ادا کرکے اس کو ثواب پہنچایئں۔واللہ اعلم

(رشید احمد۔عبد الوہاب ۔محمد وسیم الدین۔محمد اسد علی۔محمد عبد المطلب ۔سید محمد نزیر حسین فتاوی نزیریہ ص203)




فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 11 ص 345
محدث فتویٰ

لنک
یہاں اہل حدیث مولوی نے درمختار اور شامی کا رد نہیں کیا بلکہ ان کے مطابق فتویٰ دیا ہے
آنکھ میں سرمہ لگا کے ملاحظہ فرمائے گا صاف نظر آجائے گا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ہمارے علاقے میں میت کی طرف سے اس کی فوت شدہ نمازوں ،اور روزوں کا فدیہ ادا کرنے کا (بلکہ ان کو ساقط کرنے کا) ۔۔زبردست ۔۔طریقہ رائج ہے ۔
جس میں ہینگ بھی نہیں لگتی ،اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے ( یعنی محنت اور خرچ بھی زیادہ نہیں ہوتا ،اور فائدہ بھی کمال ہوتا ہے )

اس کی صورت یہ ہے کہ عام طور پر میت کے ذمہ بے شمار نمازیں ،اور روزے بقایا ہوتے ہیں ۔۔۔۔
جن کا حساب لگانا بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
اور حساب لگا بھی لیا جائے تو ۔۔حنفی فدیہ ۔۔۔کی مقدار لاکھوں روپے مالیت کی بنتی ہے ۔۔۔

تو اسکا ایک سمارٹ حل اور آسان طریقہ مقلدین کے غمخوار مولویوں نے یہ نکالا ہے ۔۔۔
کہ حسب توفیق چند ہزار روپئیے ،اور ایک عدد نسخہ قرآن ، میت کے جنازے کے ساتھ جنازہ گاہ لے جاتے ہیں ۔۔۔
نماز جنازہ کے سلام کے بعد ایک دائرے میں چند لوگ بیٹھ جاتے ہیں ۔امام بھی بھی میر مجلس بن کر ان کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔۔

ساتھ لائی گئے روپئیے ، مصحف قرآن کے ساتھ ایک کپڑے میں باندھ کر ایک آدمی اسے لے اس طرح گھماتا ہے کہ امام سے شروع کرکے پورے دائرے میں موجود
ہر آدمی کے ہاتھ لگواتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح تین پھیروں میں یہ مبارک عمل مکمل ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں مولوی صاحب دعاء کرواتے ہیں ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔مردہ جنت گیا لو رسید ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔
اگر اس طرح کی کوئی صورت ہے تو شرع میں اس کی کوئی اصل معلوم نہیں۔
غلط کام حنفی کرے یا غیر مقلد، وہ غلط ہی ہوتا ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
یہاں کے علماء اور مفتیوں نے اسکے دونوں بیٹوں کو دوسالوں کے نمازوں کا حساب لگا کر 320000 یعنی 3 لاکه بیس هزار روپے نمازوں فدیہ دینے کو کها ہے
چھوڑی گئی نمازوں کا کوئی کفارہ نہیں ، اگر نماز ترک کرنے والا زندہ ہے تو نماز قضاء کرنا ہوگی ،او اگر فوت ہوجائے تو شریعت نے اس کے ورثا کو مرنے والے کی نمازوں کے کفارے کی کسی صورت کا مکلف نہیں بنایا ،
نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے :
’’ عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من نسي صلاة فليصل إذا ذكرها، لا كفارة لها إلا ذلك ۔۔‘‘
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اس کو پڑھ لے۔ اس نماز کا قضاء کے سوا اور کوئی کفارہ نہیں ۔
(صحیح بخاری ج 1 باب من نسی صلاۃ )
 
Top