• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مروجہ قراء ات قرآنیہ اور مطبوع مصاحف کا جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مروجہ قراء ات قرآنیہ اور مطبوع مصاحف کا جائزہ

قاری محمد مصطفی راسخ​
قرآن کریم میں رب ذوالجلال کا ارشاد ہے کہ ’’قرآن کریم کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘ (الحجر:۹) اسی طرح فرمایا کہ قرآن کریم میں کسی بھی طریقہ سے باطل کو داخل کرنے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی، (حم السجدۃ:۴۲) حتیٰ کہ اس ضمن میں اِتمام حجت کے لیے انتہائی انداز اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ اے محمدﷺ ! اگر آپ بھی اس طرح کی کوئی کوشش کریں گے تو ہم آپ کی شہ رگ کاٹ ڈالیں گے۔(الحاقۃ:۴۶) ان نصوص سے قطع نظر ’’اَوَ لَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أنَّہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدٌ‘‘(حم السجدۃ:۵۳)اور اللہ تعالیٰ کی صفت ’’اَلْمُؤمن‘‘ (الحشر:۲۳) اس بات کی دلیل ِقاطع ہے کہ چودہ صدیوں سے اُمت کا قراء اتِ قرآنیہ کو قبول کرنے کا متفقہ تعامل اللہ تعالیٰ کی تکوینی تقدیر اور تائید غیبی کے ساتھ ہی ممکن ہوا ہے، جس کی سادہ عقلی دلیل یہ ہے کہ آپ مشرق کے ایک کونے سے مغرب کے دوسرے کونے تک اور شمال سے جنوب کی انتہاؤں پر چلے جائیں، جن لوگوں کی کبھی ملاقات ممکن نہ تھی، ان کی تلاوتوں میں بھی معمولی سا معمولی اختلاف نظر نہیں آتا۔ روایت ورشؒ، روایت قالونؒ، روایت دوریؒ وغیرہ جس طرح ہزاروں میل دور رہنے والے مغربی ممالک کے لوگ پڑھتے ہیں،ہمارے مشرقی علاقوں کے دیہات کے رہنے والے طلبائے علم کے تعلیم وتعلّم میں اَخذ کردہ روایت ورشؒ، روایت قالونؒ اور روایت دوریؒ میں ذرہ برابر اداء یا لہجے کا فرق نظر نہیں آتا، لیکن کنویں کے مینڈک کے مصداق، تنگ نظر دانشوروں کاخیال یہ ہے کہ قراء کرام قراء توں کو خود ہی وضع کرکے چودہ صدیوں سے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے آزاد پھر رہے ہیں۔مجلس التحقیق الاسلامی کے فاضل رکن قاری محمد مصطفی راسخ حفظہ اللہ نے انتہائی کدوکاوش کے ساتھ متعدد اِسلامی ممالک کے طبع شدہ روایت ورشؒ کے۱۲، روایت قالونؒ کے ۷ اور روایت دوریؒ کے ۴ مصاحف کو جمع کیا ہے اور عقل ونظر کے ان نا بیناؤں کے لیے چشم کشا حقیقت کو آشکارا کرنے کیلئے زیرنظر مضمون کو ہدیہ قارئین کیا ہے۔ (ادارہ)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سبعہ احرف پر نازل کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عہد نبوی میں خود نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ سبعہ احرف پر ہی پڑھتے اور پڑھاتے رہے۔ جیسے ہی قرآن مجید کا کوئی حصہ نازل ہوتاتو نبی کریمﷺ کاتبین وحی کو بلوا کر فوراً لکھوا دیا کرتے اور حفظ وحی کے مشتاق صحابہ اسے یاد کرلیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ کے دور میں کتابت کے باوجود حفظ قرآن کا بنیادی ذریعہ حفظ و ضبط ہی تھا۔اس حفظ کی تاکید کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام ہر رمضان المبارک میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ آپﷺکی زندگی کے آخری رمضان المبارک میں دو مرتبہ دور کیا گیا، جسے عرضۂ اخیرہ کہا جاتاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عہد نبوی ﷺ

نبی کریمﷺ کے دور میں قرآن مجید مکمل لکھا جاچکا تھا مگر ایک جگہ جمع نہ تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اصل اعتماد حضورﷺ کی تعلیم اور حفظ پر تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے بعض کو تمام، بعض کو نصف، بعض کو رُبع اور بعض کو اس سے کم و بیش قرآن مجید زبانی یاد تھا۔ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسے بھی تھے جو مکمل قرآن مجید کے حافظ اور قاری تھے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیا کرتے تھے۔(شرح سبعہ قراء ات :۱؍۷۱) ان میں سے چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسماء گرامی یہ ہیں:
سیدنا ابوبکر صدیق، سیدناعمر بن خطاب، سیدناعثمان بن عفان، سیدناعلی ،سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا معصب بن عمیر،سیدناابوالدردائ، سیدنا ابی بن کعب، سیدنا زید بن ثابت، سیدنا معاذ بن جبل اور سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ۔ (شرح سبعہ قراء ات:۱؍۷۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عہد صدیقی

امیرالمؤمنین سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جنگ یمامہ واقع ہوئی جس میں متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوگئے۔ اس نازک صورت حال کا اِدراک کرتے ہوئے کہ کہیں حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت سے قرآن مجید معدوم نہ ہوجائے، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے امیرالمؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جمع قرآن کا مشورہ دیا۔ پہلے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر انکارکردیا کہ جو کام نبی کریمﷺ نے نہیں کیا وہ کام میں کیوں کر کرسکتا ہوں ؟ لیکن سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے مسلسل اصرار اور توجہ دلانے پر اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا اور وہ اس کام کو کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے۔
امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کاتب وحی سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں ان کے ساتھ سیدنا عبداللہ بن زبیر اسدی رضی اللہ عنہ، عبدالرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی رضی اللہ عنہ اور سیدنا سعید بن عاص اُموی رضی اللہ عنہ شامل تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اگر مجھے پہاڑ اٹھانے کا حکم دیا جاتا تومیرے لیے اس کام سے آسان ہوتا۔‘‘
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حافظ ہونے کے باوجود ایک ایک آیت صحابہ کرام ؓ کی گواہی سے لکھی اور تمام قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کردیا، مگر وہ متفرق صحیفے تھے جو تاحیات امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہے۔ ان کی وفات کے بعد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہے اور آپ کی شہادت کے بعد ان کی بیٹی اُم المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود رہے۔ (شرح سبعہ قراء ات :۱؍۷۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عہد عثمانی

امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت (۳۰ھ) میں آرمینیا اور آذربائیجان کی جنگیں ہوئیں، جن میں سیدناحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بھی شریک ہوئے۔ جس میں انہوں نے دیکھا کہ مسلمان قراء ات ِقرآنیہ کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں اور ہر شخص اپنی قراء ت کو دیگر کی قراء ت پر افضل قرار دے رہا ہے۔ اس گھمبیر صورت حال کو دیکھ کر سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ انتہائی رنجیدہ ہوئے اور مدینہ منورہ پہنچ کر امیرالمؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس نازک صورت حال سے آگاہ کیا اور مشورہ دیا : اے امیرالمؤمنین رضی اللہ عنہ! قرآن مجید کے متعلق اُمت کاتفرقہ مٹائیے اور اس سے قبل کہ ان میں یہود و نصاریٰ کی مانند اختلاف پیدا ہو جائے ان کی دست گیری کیجئے۔
امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود صحیفے منگوائے اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، جو عہد صدیقی میں بھی یہ خدمت سرانجام دے چکے تھے، کو یہ کام سرانجام دینے کا حکم دیا کہ وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جمع شدہ کام کو حکومتی نگرانی میں دوبارہ فائنل کردیں تاکہ لوگوں میں کچھ مصدقہ ومستند مصاحف بھیج دیے جائیں، تاکہ آئندہ سے قرآن کریم کے ضمن میں پیدا ہونے والے اختلافات میں صحیح وغلط کے مابین امتیاز کرنے کے لیے علیحدہ سے کوئی معیار مقرر کیا جاسکے۔
انہوں نے ان متفرق صحیفوں کو یکجا کیا اور ان کے کئی نسخے تیار کئے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ حکم دیا کہ اگر کسی کلمہ میں سیدنازید اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اختلاف ہوجائے تو اسے لغت قریش کے رسم کے موافق لکھیں،کیونکہ قرآن مجید ابتداء لغت قریش ہی میں نازل ہوا تھا، اس لیے لغت قریش کو دیگر عربی لغات پریک گونہ فضیلت حاصل ہونے کی وجہ سے ترجیح دی گئی۔ جب قرآن مجید کے کم وبیش آٹھ عدد نقول تیار کرلی گئیں توسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بارہ صحابہ کے سامنے اس کام کو پیش کیا، تمام نے اس کے جائزہ کے بعد اس مہر تصدیق پیش فرمائی، اس طرح سے تاریخ اسلامی میں پہلی دفعہ حکومتی نگرانی میں ایک معیاری رسم الخط کا تعین ہوگیا، جس پر بارہ ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم کا اتفاق بھی کرالیا گیا۔ اب دنیا کے تمام کونوںمیں مصاحف کی ایک ایک نقل بھیجنے کا انتظام کیا گیا۔ مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ، کوفہ، بصرہ، دمشق، یمن اور بحرین کے علاقوں میں ایک ایک مصحف معلّمین کے ساتھ روانہ کیا گیا اور ان علاقوں کے لوگوں کو حکم دیا گیا کہ اب وہ انہی مصاحف کے مطابق قرآن مجید کی تلاوت کیا کریں اور اپنے اختلافات کے ضمن میں اس کو معیار بناکر اپنے اختلاف کو حل کریں، نیز اپنے پاس موجود غیر مصدقہ مصاحف کو جلا ڈالیں۔ ایک نسخہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس حکومتی نگرانی میں رکھ لیا، جسے مصحف امام کہا جاتا ہے۔
قرآن مجید کے ان نسخوں پر تقریباً بارہ ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا ہے کہ جو کچھ ان مصاحف عثمانیہ کے رسم کے مطابق نہیں ہے، وہ قرآن کا حصہ نہیں ہے۔
امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مصاحف کے بارے جو کچھ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا ہے، اگر مجھے موقع ملتا تو میں بھی وہی کرتا۔‘‘
علاوہ ازیں ان تمام مصاحف کو نقاط و اعراب سے خالی رکھا گیا تھا تاکہ جملہ قراء ات کے حامل ہرسکیں نیز نقص و زیادت کی ان وجوہ صحیحہ کی بعض مصاحف میں رعایت رکھی گئی تھی جو عرضۂ اخیرہ تک منسوخ نہیں ہوئی تھیں اور اصل اعتماد اب بھی حفظ و ضبط پر تھا اور ہر شہر میں صحیح تلفظ سکھانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ قراء موجود تھے۔ (شرح سبعہ قراء ات:۱؍۷۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء صحابہ رضی اللہ عنہم

جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ قاری، بعض حافظ اوربعض خصوصیت کے ساتھ قراء ات کے امام تھے۔ مہاجرین میں سے سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر بن خطاب، سیدنا عثمان بن عفان، سیدنا علی، سیدنا طلحہ، سیدنا ابن مسعود، سیدنا حذیفہ بن یمان، سیدنا ابوموسیٰ اشعری، سیدنا سالم، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا ابن عمر، سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن زبیر،سیدنا عمرو بن عاص، سیدنا ابن عمرو، سیدنا معاویہ، سیدنا عبداللہ بن سائب، سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ اور انصار میں سے سیدنا ابی بن کعب، سیدنا معاذ بن جبل ، سیدنا ابوالدرداء، سیدنا زید، سیدنا مجمع بن جاریہ اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے وجوہ قراء ات منقول ہیں۔ (شرح سبعہ قراء ات:۱؍۷۳)
ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثر نے براہِ راست اور بعض نے بالواسطہ نبی کریمﷺ سے قرآن مجید پڑھا تھا اور تمام جماعت روزانہ نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس سے قرآن مجید سنتی تھی۔اس برگزیدہ جماعت نے ہرحرکت و اسکان اور حذف واثبات کو آپؐ سے ضبط کیا اور جس طرح پڑھا تھا اسی طرح آگے تابعین عظامؒ کو پڑھا دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی یہ برگزیدہ جماعت ہر قسم کے وہم وشک سے پاک تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء تابعین رحمہم اللہ

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد قرآن مجید پڑھانے والے تابعین عظام رحمہم اللہ ہیں جو اسلامی دنیا کے ہر گوشے میں موجود تھے۔ وہ پانچ معروف اسلامی مراکز میں خصوصیت کے ساتھ قراء ات قرآنیہ کے استاد رہے۔ تفصیل درج ذیل ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مدینہ منورہ

مدینہ منورہ میں قراء ات پڑھانے والے متعدد تابعین عظام میں سے چند کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
امام زین العابدین، سعید بن مسیب، عروۃ بن زبیر، سالم بن عبداللہ، عمربن عبدالعزیز، سلیمان و عطاء ابن یسار، معاذ بن حبیب، زید بن اسلم، عبدالرحمن بن ہرمز الأعرج، عکرمہ اور محمد بن شہاب زہری رحمہم اللہ وغیرہ وغیرہ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مکہ مکرمہ

مکہ مکرمہ میں قراء ات پڑھانے والے متعدد تابعین عظام میں سے چند کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
عبید بن عمر، عطاء بن ابی رباح،طاؤس، مجاہد بن جبیر، عکرمہ بن خالد، ابن ابی ملیکہ رحمہم اللہ وغیرہ وغیرہ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کوفہ

کوفہ میں قراء ات پڑھانے والے متعدد تابعین عظام میں سے چند کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
علقمہ بن قیس، اسود بن زید، عبیدہ بن عمرو، عمرو بن شرجیل، مسروق بن اجدع، ابوعبدالرحمن سلمی،زر بن جیش، سعید بن جبیر، عامر شبعی، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ اور طلحہ بن مصرف رحمہم اللہ وغیرہ وغیرہ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بصرہ

بصرہ میں قراء ات پڑھانے والے متعدد تابعین عظام میںسے چند کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
عامر بن عبد قیس، ابوالعالیہ، نصر بن عاصم، یحییٰ بن یعمر، جابربن زید، معاذ، ابن سیرین اور ابوالاسود الدؤلی رحمہم اللہ وغیرہ وغیرہ۔
 
Top