ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
دمشق
دمشق میں علم قراء ات پڑھانے والے قراء کرام، مغیرہ بن ابوشہاب مخزومی رحمہ اللہ اور خلید بن سعیدرحمہ اللہ ہیں۔ (شرح سبعہ قراء ات:۱؍۷۴،۷۵)
ان تمام حضرات میں سے بعض نے براہ راست اور بعض نے بالواسطہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرآن مجید پڑھا تھا اور ہر ہر حرف کو ضبط کیا تھا۔ ان میں سے بعض نے اپنا تمام وقت، بعض نے اکثر اور بعض نے ایک حصہ خدمت قرآن کے لیے وقف کررکھا تھا۔
دمشق میں علم قراء ات پڑھانے والے قراء کرام، مغیرہ بن ابوشہاب مخزومی رحمہ اللہ اور خلید بن سعیدرحمہ اللہ ہیں۔ (شرح سبعہ قراء ات:۱؍۷۴،۷۵)
ان تمام حضرات میں سے بعض نے براہ راست اور بعض نے بالواسطہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرآن مجید پڑھا تھا اور ہر ہر حرف کو ضبط کیا تھا۔ ان میں سے بعض نے اپنا تمام وقت، بعض نے اکثر اور بعض نے ایک حصہ خدمت قرآن کے لیے وقف کررکھا تھا۔
ان ائمہ میں سے بعض نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللہ سے پڑھی ہوئی جملہ قراء ات میں سے آحاد، غیر مشہور اور شاذ وجوہ کو چھوڑ کر عربیت میں اقویٰ اور موافق رسم وجوہ سے اپنے لیے جدا جدا قراء ات اختیارکرلیں اور عمر بھر انہی کو پڑھتے اور پڑھاتے رہے۔ تمام محدثین و مفسرین اور فقہاء و مجتہدین ان کی اختیار کردہ قراء توں کو بلا عذر قبول کرتے تھے اور کوئی اہل علم بھی ان کے کسی ایک حرف کابھی انکار نہیں کرتا تھا۔ (شرح سبعہ قراء ات :۱؍۷۶)کچھ لوگوں نے تو اپنی مکمل زندگی خدمت قرآن کے لیے وقف کردی۔ حصول قراء ات اور ان کے ضبط و حفظ میں اتنی محنت اور جدوجہد کی کہ جس سے زیادہ ممکن نہ تھی۔ حتیٰ کہ قراء ات میں مقتدائے روزگار ائمہ بن گئے۔
اختیارقراء ات کا یہ سلسلہ بے حد وسیع تھا جو صدیوں جاری رہا اور بے شمار صاحب اختیار ائمہ پیدا ہوئے۔ امام ابو محمد مکیؒ فرماتے ہیں: کتابوں میں ان ۷۰ صاحب اختیار ائمہ کی قراءات مذکور ہیں جوقراء سبعہ سے مقدم تھے۔اس سے اندازہ لگائیں کہ ان کے ہم مرتبہ اور ان سے کم مرتبہ کتنے ہی ائمہ ہوں گے۔ امام ابوجعفر ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اپنی کتابوں میں قراء سبعہ سے مقدم وہ پندرہ قراء ات نقل کی ہیں جو صحابہ کرامؓ کے عہد میں پڑھی جاتی تھیں۔ اور جن کی وہ نماز میں قراء ت کیا کرتے تھے۔(شرح سبعہ قراء ات:۱؍۷۸)دوسری صدی ہجری سے انہی ائمہ کی اختیارکردہ قراء ات پڑھی اور پڑھائی جانے لگیں۔ اسلامی ممالک کے دور دراز علاقوں، شہروں اور قصبوں سے تشنگان علم سفر کرکے ان ائمہ سے پڑھنے آتے اور ان قراء اتوں کو ان کے نام سے منسوب کرتے تھے، جو آج تک انہی کے نام سے معنون چلی آرہی ہیں۔
ان صاحب اختیار ائمہ کے تلامذہ اور رواۃ بہت زیادہ تعداد میں تھے اور پھر ان میں سے ہرایک کی جانشین ایک پوری قوم تھی جن کو احاطہ شمار میں لانا محال ہے، لیکن بعض ائمہ اور رواۃ کی قراء ات کو اُمت کی طرف سے وہ مقبولیت حاصل ہوئی کہ آج دنیا میں انہی کی قراء ات کو پڑھا اور پڑھایا جارہا ہے۔ مقبولیت کا شرف حاصل کرنے والی قراء ات دس ہیں، جن کو’’ قراء ات عشرہ ‘‘ کہا جاتاہے اوریہ قراء ات متواترہ ہیں، جن میں سے سات اہل فن کے ہاں تصنیف وتالیف میں بہت زیادہ مشہورہوئیں اور پھر ان سات میں سے بھی چار روایات کو عالم اسلام کے عام مسلمانوں میں قبول عام حاصل رہا۔ ان قراء ات عشرہ کے ائمہ اور رواۃ کا تذکرہ راقم کے مضمون ’’قراء عشرہ اور ان کے رواۃ کا مختصر تعارف‘‘ میںتفصیل سے گذر چکا ہے۔ تعارف کے لیے مذکورہ مضمون کا مطالعہ فرمائیں۔