سيده فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا جہیز
3۔ رہا تیسرا واقعہ حضرت فاطمہؓ کو جہیز دینے کا، جس سے جہیز کے جواز پر استد لال کیا جاتا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟
اس واقعے پر غور و خوض کرنے اور اس سے متعلقہ روایات کے مختلف طرق کا جائزہ لینے سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس کا تعلق بھی أثاث البیت(گھریلو سامانِ ضرورت) سے نہیں ہے بلکہ یہ بھی دراصل دلہن کو پہلی مرتبہ دولہا کے پاس بھیجنے ہی کی تیاری تھی اور اس موقعے پر رسول اللّٰہﷺ نے حضر ت فاطمہ ؓکو جو چیزیں دی تھیں، ان کا تعلق رات کو سونے کيلیے کام آنے والی چیزوں سے تھا، جیسے چادر، تکیہ، پانی کی مشک۔ جیسے سنن نسائی میں ہے:
«جَهَّزَ رَسُولُ الله ﷺ فَاطِمَةَ فِي خَمِيلٍ وَقِرْبَةٍ وَوِسَادَةٍ حَشْوُهَا إِذْخِرٌ» (سنن نسائی: ۳۳۸۲)
’’رسول اللّٰہﷺنے(حضرت علیؓ کے پاس بھیجنے کے لیے) حضرت فاطمہؓ کو تیار کیا، ایک چادر، مشک اور تکیہ کے ساتھ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔‘‘
اس روایت میں جهز اور جهازکے معنی وہی ہیں جو اس سے پہلے حضرت صفیہ اور حضرت اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہما والی دونوں حدیثوں میں اس لفظ کے گزرے ہیں یعنی دلہن کو شبِ زفاف کے لیے تیار کر کے دولہا کے پاس بھیجنا۔ چنانچہ حضرت صفیہؓ سے متعلقہ روایت، جس میں آتا ہے :
جهز تها أم سلیم فاهد تها إلیه من اللیل
’’اُن کو حضرت امّ سلیم نے تیار کر کے (دلہن بنا کر) شب باشی کے لیے رسول اللّٰہﷺکی خدمت میں پیش کیا۔‘‘
اس روایت کوامام نسائی ب
اب البناء في السفر میں لائے ہیں۔ بناء کا لفظ شبِ زفاف ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ امام نسائی کی اس تبویب اور اس کے تحت
جهّزتها والی روایت درج کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ
جهَّز کے معنی دلہن سازی کے ہیں، نہ کہ سامانِ جہیز کے۔
ہماری بیان کر دہ وضاحت کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت فاطمہ سے متعلقہ روایت سنن ابن ماجہ میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ رسول اﷲﷺ حضرت علی و فاطمہ رضی اﷲ عنہما کے پاس تشریف لے گئے اور وہ دونوں ایک چادر (خمیل) میں تھے۔
قَدْ كَانَ رَسُولُ الله ﷺجَهَّزَهُمَا بِهَا وَوِسَادَةٍ مَحْشُوَّةٍ إِذْخِرًا وَقِرْبَةٍ (سنن ابن ماجہ:4291)
’’اس چادر کے ساتھ ہی رسول اللّٰہﷺنے ان دونوں کو تیار کیا تھا اور ایک تکیہ، اِذخر گھاس کا بھرا ہوا، اور ایک مشک بھی عنایت کی تھی۔‘‘
امام ابن ماجہ نے اس روایت کو باب ضجاع آل محمد ﷺکے تحت بیان کیا ہے۔ یعنی
’’آل محمد(محمد ﷺ کے گھرانے)کا بستر۔‘‘
امام ابن ماجہ کی اس تبویب سے بھی واضح ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہاسے متعلقہ روایت میں جہیز کے معنی شب باشی کے سامان یا شب باشی کے لیے تیار کرنا ہیں، نہ کہ مروّجہ سامانِ جہیز کے ۔
احادیث میں ان تین واقعات کے علاوہ (سوائے حدیثِ جہاد
«من جهز غازيا ... الحديث کے) تجہیز کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے، بالخصوص شادی بیاہ کے مسائل میں اور ان تینوں واقعات میں جس سیاق میں یہ لفظ آیا ہے، اس کا وہی مفہوم ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ اس سے مروّجہ جہیز مراد لینا یکسر بے جواز اور خلافِ واقعہ ہے۔ بنا بریں پورے یقین اور قطعیت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ مروّجہ جہیز کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔