جزاك الله خير
ابوزینب بھائی! میں آپ کی ان باتوں سے متفق ہوں، آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے، لیکن میں نے جو اوپر بات کی ہے وہ اور ہے، اس کی میں وضاحت کر دیتا ہوں۔ دو قسم کی باتیں ہیں:
1. مزاروں کو ختم کرنا
2. مزاروں پر موجود لوگوں کو قتل کرنا
جہاں تک پہلی بات ہے تو اس میں کسی راسخ العقیدہ مسلمان کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ ان کو ختم کرنا کوئی غلط کام ہو سکتا ہے، بلکہ یہی تو وہ شرک کے اڈے ہیں جن کی لعنت کی وجہ سے آج پاکستان عذابوں میں گھرا ہوا ہے۔
لیکن جہاں تک خود کش دھماکوں کا تعلق ہے ، اس کے نتیجے میں وہاں پر موجود لوگ قتل ہوتے ہیں، جیسا کہ اکثر مزاروں پر جاہل اور بے دین عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ موجود ہوتی ہیں، وہ قتل ہو جاتی ہیں۔ تو میرے خیال میں مزارات کو ختم کرنے کا یہ طریقہ کار درست نہیں۔
آپ کو یہاں ایک مثال دیتا ہوں، کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں شام میں مجاہدین نے ایک صحابی (رضی اللہ عنہ) کے مزار پر قبضہ کر لینے کے بعد اسے بم سے اُڑا دیا، میرے نزدیک مزارات کو ختم کرنے کا یہ طریقہ درست نہیں کیونکہ اس سے ہو سکتا ہے کہ لاش کی بے حرمتی ہوئی ہو، کیونکہ بم اس قدر ہیوی تھا کہ دور سے لگے کیمرے تک اس بم کے اثرات نظر آئے، اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ قبر میں موجود لاش کا کیا حال ہو گا؟
اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں موجود مزارات پر جو خود کش دھماکے ہوتے ہیں وہاں موجود انسانی جان کا قتل ہونا درست بات نہیں، اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
جزاک اللہ خیرا وبارک اللہ فیک وفی علمک
الحمد للہ پوائنٹ نمبر 1 میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ہم اس مسئلے میں ایک ہی منہج رکھتے ہیں اور یہی منہج ہے اہل السنۃ والجماعۃ کا اور ان کے اسلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین وتبع تابعین وائمۃ السلف رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس میں اہل السنۃ والجماعۃ کے مابین کوئی دورائے نہیں ہیں۔سوائے مرتد حکمرانوں، مشرکین ،علماءِ سوء،مزار پرستوں، قبرپرستوں، اور ہمارے دور میں وہ اہل ارجاء جو کہ صلیبی لشکروں کا حصہ ہیں اور ان کی حمایت میں مجاہدین کے خلاف سوشل میڈیا کی جنگ میں صلیبیوں اور مرتد حکمرانوں کے معاون ہیں۔پوجی جانے والی قبروں کو توڑنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔سوائے قبر پرستوں کے اس مسئلے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔اس تواتر کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر شدہ وہ احکامات ہیں جو آپ نے اس سلسلے میں دیئے۔اور اس سلسلے میں سب سے بہترین حکم ہم جو پاتے ہیں وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیرالمومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیا۔مشہور سلفی عالم صلاح الدین یوسف اس خوبصورت واقعے کی منطر کشی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
''عہد دوراں کے مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
''تماثیل، تمثال کی جمع ہے یہ اصل میں کسی چیز کی ہوبہو نقل کو کہتے ہیں ، جیسے پتھر کا مجسمہ یا کاغذ اور دیوار وغیرہ پر کسی کی تصویر، یہاں سے مراد وہ مورتیاں ہیں جو قوم ابراہیم علیہ السلام نے اپنے معبودوں کی بنا رکھی تھیں اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ عَاکِفٌ ، عُکُوفٌ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے اور اس پر جاگ کر جسم کو بیٹھا رہنے کے ہیں اسی سے اعتکاف ہے، جس میں انسان اللہ کی عبادت کے لئے جسم کو بٹھاتااور یکسوئی اور انہماک سے اس کی طرف لولگاتاہے یہاں (آیت) سے مراد بتوں کی تعظیم و عبادت اور ان کے تھانوں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے یہ تمثالیں اور مورتیاں اور تصویریں) قبر پرستوں اور پیر پرستوں میں بھی آج کل عام ہیں اور ان کو بڑے اہتمام سے گھروں اور دکانوں میں بطور تبرک آویزاں کیا جاتاہے۔ اللہ انہیں سمجھ عطا فرمائے۔ (تفسیر احسن البیان ، ص۸۹۵۔۸۹۶)
یہ تو حقیقت ہے کہ آج کل کے جاہل گور پرست اپنے مزعومہ بزرگوں کی تصاویر اپنے گھروں ، دکانوں کی دیواروں پر آویزاں کرتے ہیں اور مشکل کے وقت ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر فریادیں کرتے ہیں۔ ایسے شرک کے شرمناک مناظر ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے تو اپنے داماد سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہ کو تماثیل وتصاویر کو مسمار کرنے کا مشن سونپا تھا۔ اسی مشن کو حیدر کرار نے جاری رکھا جیسا کہ ابو الھیاج اسدی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مجھے سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے ایک مشن سونپا اور فرمایا :
أَلَّا أَبْعَثُکَ عَلٰى مَا بَعَثَنِى عَلَيْہِ رَسُولُ اللہ -صلى اللہ عليہ وسلم- أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّيْتَہُ (صحیح مسلم ، الجنائز، رقم الحدیث : ۹۶۹)
'' کیا میں آپ کو اس مہم پہ نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس مورتی (تصویر) کو دیکھوں اسے مٹا دوں اور جس بلند قبر کو دیکھوں اسے زمین کے برابر کردوں۔''
قبرپرستی اس قدر خطرناک ہے کہ اس سے اللہ کی پناہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق قیامت قبر پرستوں پر ہی قائم ہوگی :
فرمان نبوی ہے:
"سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِكُهُ السَّاعَةُ وَهُمْ أَحْيَاءٌ وَمَنْ يَتَّخِذُ الْقُبُورَ مَسَاجِدَََََ". صحيح ابن خزيمة:789، صحيح ابن حبان:6808، مسند احمد1/405، الطبراني الكبير:10413 بروايت ابن مسعود.
میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ سب سے برے لوگ وہ ہیں جن پر قیامت قائم ہوگی اور وہ لوگ جو قبروں کو مسجدیں بنا ئیں گے۔
قبرپرستی کا فتنہ اس قدر خوفناک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پانچ دن قبل اپنی امت کو جو وصیت کی وہ ملاحظہ فرمائیں:
سَمِعْتُ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِخَمْسٍ وَهُوَ يَقُولُ « 0000 أَلاَ وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ أَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّى أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ . مسلم:532 المساجد، الطبراني الكبير:1686، بروايت جندب بن عبدالله البجلي.
حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے سنا آپ فرما رہے تھے۰۰۰۰۰ دھیان دینا تم سے پہلے جو لوگ تھے انہوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا ، تم قبروں کو مسجد نہ بنانا ، میں تمہیں اس سے منع کر رہا ہوں۔
یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں الحارث النجرانی سے بھی مروی ہے:
عن عبد الله بن الحارث النجراني قال حدثني جدي قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم قبل أن يموت بخمس وهو يقول : (ألا وإن من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور أنبيائهم وصالحيهم مساجد ألا فلا تتخذوا القبور مساجد إني أنهاكم عن ذلك). مصنف ابن ابي شيبة:7620،3/366.
حضرت عبد اللہ بن حارث نجرانی بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے سنا آپ فرما رہے تھے۰۰۰۰۰ دھیان دینا تم سے پہلے جو لوگ تھے انہوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کومسجد بنا لیا تھا ، تم قبروں کو مسجد نہ بنانا ، میں تمہیں اس سے منع کر رہا ہوں۔
بیماری کے بالکل آخری ایام اور آخری لحظات میں:
لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ فَإِذَا اغْتَمَّ بِهَا كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ فَقَالَ وَهُوَ كَذَلِكَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا. صحيح البخاري :435 الصلاة، صحيح مسلم: 531 المساجد، مسند احمد1/218و6/275، سنن النسائي 2/40.
حضرت عاٗشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مرض موت کی کیفیت طاری تھی تو آپ اپنی چادر کو باربار چہرے پر ڈالتے ، جب کچھ افاقہ ہوتا تو اپنے مبارک چہرے سے چادر کو ہٹا دیتے ، اپنی اسی پریشانی کی حالت میں فرمایا: اللہ کی پھٹکار ہو یہود ونصاری پر کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا ،ٓاپ یہ فرما کر امت کو انکے کارناموں سے متنبہ کر رہے تھے۔
ایک اور حدیث میں ہے:
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ آخِرُ مَا تَكَلَّمَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ. مسند احمد1/196، مسند ابويعلى:872،2/177.
حضرت ابو عبیدہ ؓ سے رواےت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آخری جو بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ حجاز کے یہود اور اہل نجران کو جزیرہ عربیہ سے باہر نکال دینا اور یاد رکھو کہ سب سے برے لوگ وہ ہیں جو اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنالئے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ کی یہ حدیث بھی پڑھیں:
علي بن أبي طالب يقول لقيني العباس فقال يا علي انطلق بنا إلى النبي ( صلى الله عليه وسلم ) فإن كان لنا من الأمر شئ وإلا أوصى بنا الناس فدخلنا عليه وهو مغمى عليه فرفع رأسه فقال لعن الله اليهود اتخذوا قبور الأنبياء مساجد، ثم قال: فلما رأينا ما به خرجنا ولم نسأله عن شئ . تاريخ دمشق 42/426،الطبقات الكبرى4/28.دیکھئے تحذیر الساجد 27۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری کے ایام میں میری ملاقات حضرت عباسؓ سے ہوئی، انہوں نے مچھ سے کہا : اے علی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چلیں اور آپ سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعد حکومتی معاملات میں ہمارا کچھ حصہ ہے کہ نہیں ، اگر نہیں ہے تو آپ ہمارے بارے میں لوگوں کو کچھ وصیت کردیں، چنانچہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اس وقت آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ پر غشی طاری تھی ، پھر آپ نے اپنا سر اٹھاکر فرمایا : یہود پر اللہ کی لعنت ہو جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا۔ پھر جب ہم نے آپ کی یہ کیفیت دیکھی تو ہم باہر نکل آئے اور کچھ نہیں پوچھا۔
پکی قبروں اور قبوں کا بنانے کا معاملہ اس خوفناک ہے کہ :
علامہ ابن حجر ہیثمی اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر میں فرماتے ہیں:
«وتجب المبادرة لهدمها وهدم القباب التي علىٰ القبور إذ هي أضر من مسجد الضرار»7
یعنی ''قبروں اور ان پر بنے ہوئے قبوں کو فوراً مسمار کردینا چاہیے، اس لیے کہ یہ'مسجد ضرار' سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔''
جو لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی تعلیمات سے متاثر ہیں۔ لیکن ان لوگوں کو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے اس اسوہ کا پتہ ہی نہیں ہے ہم ایسے لاعلم لوگوں کے لئے ایک منظر پیش کیے دیتے ہیں :
شیخ موصوف بارہویں صدی ہجری میں منظر عام پر آئے۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کے فکر وعمل کا کیاحال تھا؟ یہ ایک دل دوز داستان ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے رب العزت کی بندگی فراموش کردی تھی۔ عقلوں پر نیند طاری تھی، ظنون و اوہام کی پیروی کی جارہی تھی، ذلّت و مسکنت چھائی ہوئی تھی۔ہندوستان کے بے شمار مسلمانوں کی پیشانیاں قبروں اور آستانوں پر جھکی ہوئی تھیں۔ مصر میں بدوی و رفاعی، عراق میں سیدنا علی المرتضیٰ ، حضرت حسین ،امام ابوحنیفہ اور شیخ عبدالقادر جیلانی، یمن میں ابن علون، مکہ مکرمہ اورطائف میں ابن عباس سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ خاص طور پر اہل نجد اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ لوگوں کا بہت بڑا طبقہ صدیوں سے مشرکانہ عقیدوں کی زندگی بسر کرتا چلا آرہا تھا۔ جبیلہ میں حضرت زید بن خطاب کی قبر اور وادئ غِیرہ میں حضرت ضرار بن ازور کا قُبہ شرک و بدعت کے اعمال کا گڑھ بن گیاتھا۔ علاقہ بلیدۃ الفداء میں ایک پرانا درخت تھا، اس کے بارے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ یہ لوگوں کو اولاد عطا کرتا ہے۔ اس فاسد عقیدے کی وجہ سے بے شمار عورتیں آتی تھیں اور اس درخت سے چمٹی رہتی تھیں۔ درعیہ میں بعض صحابہ کرام سے منسوب قبروں پر جاہلانہ عقیدت کے مظاہر عام تھے۔ اسی علاقے کے قریب ایک غار تھا، یہاں لوگ شرمناک افعال انجام دیتے تھے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر بھی شرک و بدعت کے افعال سے محفوظ نہیں تھے۔ مسجد نبویؐ میں عین رسول اللہ ﷺ کے مرقد کے قریب مشرکانہ صدائیں بلند کی جاتی تھیں اور غیر اللہ کے وسیلوں سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔
ایک موقع پر شیخ محمد مسجد نبوی میں موجود تھے۔لوگ استغاثہ و استعانت کی صداؤں میں گم تھے اورعجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے۔ اسی لمحے تدریس حدیث کے جلیل القدر معلم محمد حیات سندی جو شیخ محمد کے اتالیق بھی تھے، وہاں آگئے۔ شیخ نے جاہلانہ حرکتیں کرنے والوں کی طرف اُنگشت نمائی کی اور پوچھا: ان لوگوں کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ موصوف نے معاً سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی:
﴿إِنَّ هـٰؤُلاءِ مُتَبَّرٌ ما هُم فيهِ وَبـٰطِلٌ ما كانوا يَعمَلونَ ١٣٩ ﴾..... سورة الاعراف
''یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ باطل ہے اور نیست و نابود ہوکر رہے گا۔''
دیکھا قارئین کے مجاہدین نے پکی قبروں اور قبوں کو توڑنے کام کرکے اللہ کی توحید کا احیاء کیا ہے۔دین اسلام کو جلابخشی ہے۔اب مجاہدین کے اس عمل پر جو شخص اعتراض کرتا ہے اور ان کے اس عمل پر قدغن لگاتا ہے تو وہ سوچ لے کہ وہ کس پر اعتراض کررہا ہے۔ اور کیسی کیسی مبارک ہستیوں کو اپنے اس اعتراض کی لسٹ میں شامل کررہا ہے۔یقیناًایسا شخص گمراہ ہے اور اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ وہ محض اپنی انا اور تسکین یا کسی غیرمسلموں کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے مجاہدین اسلام کے اس مبارک اور اہم ترین فعل پر اعتراض کررہا ہے۔ہم اللہ سے اس بات کی پناہ طلب کرتے ہیں کہ پکی اور پوجی جانے والی قبروں کے توڑنے کے عمل پر مجاہدین اسلام پر اعتراض کریں۔
جہاں تک محترم قابل عزت بھائی ارسلان ملک حفظہ اللہ کے دوسرے پوائنٹ کا تعلق ہے:
مزاروں پر موجود لوگوں کو قتل کرنا
اس سلسلے میں ہم اپنا تبصرہ کرنے سے پہلے اس بارے میں مجاہدین کا موقف بیان کیے دیتے ہیں :
شام میں القاعدہ نے جہاد کو بدنام کرنے والے تکفیری گروپوں سے اعلان برأت کرتے ہوئے انکو اپنی جماعت سے نکال باہر کیا
تکفیری اور خارجی مسلمان ہونے کے باوجود جہاد ومجاہدین کے دشمن اسی طرح ہیں، جس طرح مرجئہ ہیں کیونکہ یہ دونوں ہی اسلام کے اعتدال پسند نبوی منہج کو چھوڑ کر افراط وتفریط (کمی وزیادتی) کی راہ اپناتے ہیں۔
تکفیری سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات میں غلو وزیادتی کرتے ہوئے حد سے آگے نکل جاتے ہیں۔
مرجئہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات میں کمی اور کوتاہی کرتے ہوئے فرائض واحکام کو بھی ساقط کردیتے ہیں۔
دورِ حاضر میں جس طرح ہر جہاد کا نام لیکر لڑنے والے کو مجاہد قرار دیدیا جاتا ہے بالکل اسی طرح اپنے مخالف کو تکفیری قرار دیدیا جاتاہے۔ لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہے۔
اسلام نے صرف مجاہد اس کو قرار دیا ہے جو اللہ کی راہ میں اس کے توحید کے نظام کی خاطر لڑنے والا ہوں۔
اب کوئی زمین کے کسی ٹکڑے یا کسی شخصیت یا کسی نظام کی خاطر جہاد کا نام لیکر لڑے تو اسلام اسے مجاہد نہیں قرار دیتا ہے بلکہ اسے جاہلیت وعصبیت کی راہ میں لڑنے والوں میں شمار کرتا ہے۔
اسی طرح دورِ حاضر میں ہر کوئی اپنے مخالف کو تکفیری قراردیتے ہیں۔ شیعہ کے نزدیک سنی مسلمان تکفیری ہیں جبکہ مرجئہ کے نزدیک غیراللہ کے نظاموں اور سیکولر حکمران و افواج سمیت مرتدین کو کافر قرار دینے والے مجاہدین تکفیری ہیں۔ لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہے۔
اسلام نے تکفیری اس کو قرار دیا ہے جو غلو کرتے ہوئے دینی احکامات میں اللہ اور اس کے رسول کی مقرر کردہ حد کو کراس کرتے ہوئے آگے نکل جاتا ہے۔
اسلام نے جس کو کافر اور مرتد کہا ہے، وہ اس میں زیادتی کرتے ہوئے کئی اور لوگوں کو کافر قرار دینے لگ جاتے ہیں، جن کو اسلام نے کافر نہیں قراردیا ہوتا جیساکہ کبائر گناہ (شراب، زنا) کے مرتکب لوگ ہیں۔
اسی طرح اسلام نے ہر معاملات کے جو اصول وضوابط مقرر کررکھے ہیں، وہ ان میں غلو وزیادتی کرتے ہوئے بالکل اسی طرح حد سے آگے نکل جاتے ہیں ہے جس طرح مرجئہ ان میں کمی وکوتاہی کرتے ہوئے فرائض واحکام میں کوتاہی وکمی کرتے ہوئے ان کو ساقط کردیتے ہیں، جن کو بجالانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
آج مجاہدین کو جس طرح دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح آج مجاہدین کو تکفیری کہا جاتا ہے۔
حالانکہ دشمنان اسلام کے لیے دہشت گرد ہونے کا حکم اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اسی طرح دیا ہے جس طرح مرتدین اور (سیکولر جمہوری نظام سمیت) تمام غیر اللہ نظاموں کو چلانے والے کافر اور مرتدین کیخلاف جہاد کرنے اور ان سے اعلان برأت کرنے کا حکم دیا ہے۔
سو عالمی جہادی تحریک جماعۃ القاعدۃ الجہاد کے امیر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے مجاہدین کو تکفیری کہنے والوں کا رد کرتے ہوئے بتایا کہ: یہ الزام لگانے والے یا جاہل ہیں یا پھر جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ: ہم مجاہدین ہی وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے گزشتہ 40سال سے تکفیری منہج کا رد کرتے ہوئے اس کی سرکوبی کررہے ہیں اور اس بات کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ میں نے خود تکفیریوں کے رد میں کئی کتابوں اور مقالات کو لکھا ہے اور کئی دروس وبیانات میں میں ان کا رد کرچکا ہوں۔ جو کوئی حق کا متلاشی ہے وہ ہماری ان کتابوں اور بیانات کی طرف رجوع کرکے ان کو پڑھ لیں۔
یاد رہے کہ القاعدہ صرف ان تکفیریوں کی سرکوبی کررہی ہے جو اسلام کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے غلو اور شدت پسندی کو اختیار کرتے ہیں۔
شام میں بھی بشار اسد کیخلاف جہاد کرنے والوں میں سے بعض مجاہدین نے دینی غیرت میں آکر اسلام کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے تکفیری منہج کو اپناتے ہوئے اس شدت پسندی کی راہ کو اپنالیا جس کی مذمت اسلام نے کی ہے۔
اب عالمی جہادی تحریک القاعدہ سے وابستہ ''الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام''(اسلامی ریاست عراق وشام) میں شامل ہونے والی ''جیش المہاجرین والانصار'' (مہاجر وانصار آرمی) کے امیر شیخ عمر شیشانی حفظہ اللہ نے سیف اللہ شیشانی گروپ کو تکفیری سوچ رکھنے کی وجہ سے بارہا مرتبہ سمجھایا اور انہیں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے ساتھ معاملات کرنے میں غلو وزیادتی کرنے سے منع کرتے ہوئے جہادی کارروائیوں میں اس شدت پسندی سے کام لینے سے باز آنے کا حکم دیا جس کی مذمت اسلام کرتا ہے مگر وہ باز نہیں آئے۔ اس گروپ کو شرعی عدالت کے سامنے پیش کرنے کی دھمکی دیکر بھی سمجھایا گیا، مگر سیف اللہ شیشانی گروپ جس کے افراد کی تعداد 50 سے کم ہے، نے باز آنے سے انکار کردیا اور جہادی کارروائیوں کو اسلامی اصول وضوابط کی پابندی کرنے کی بجائے تکفیری ذہن کے ساتھ انجام دیتے رہیں۔ نیز مقامی مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اسلامی احکامات کو بجالانے پر زبردستی مجبور کرنا اور جو نہ کریں اسے ہلاک یا کوئی اور سخت سزا دینا، مقامی مسلمانوں کے اموال کو حلال سمجھنا، ان سے ٹیکس لینا، عوام الناس کے ساتھ معاملات میں اسلامی اصول وضوابط کی پابندی نہ کرنا اور عیسائیوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا اور جو انکار کریں تو اسے ماردینا۔
ان سب کاموں کو کرنے کی وجہ سے ''الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام''(اسلامی ریاست عراق وشام) کے عسکری امیر ابو عمر شیشانی حفظہ اللہ نے سیف اللہ شیشانی گروپ کو بہت مرتبہ سمجھانے کے بعد باز نہ آنے کی وجہ سے ''الدولۃ الاسلامیۃ'' سے الگ کرتے ہوئے ان کے افعال واعمال سے اعلان برأت کرنے کا پریس بیان جاری کردیا۔
یہ پریس بیان روسی زبان میں قوقاز سنٹر کی جہادی ویب سائٹ پر نشر ہوا جو یہ ہے:
http://www.kavkazcenter.com/russ/content/2013/08/03/99665.shtml
اس پریس بیان میں انہوں نے سیف اللہ شیشانی کو ابو بنات شیشانی سے تشبیہ دیتے ہوئے مسلمانوں کو ان سے خبردار رہنے کا حکم دیا۔
ابو بنات شیشانی کی داستان یہ ہے کہ وہ داغستان کی ٹریفک پولیس میں کام کرنے والے ایک روسی پولیس افسر کا بیٹا تھا، جس نے شام آکر جہاد کے نام پر ہی تکفیری سوچ کے ساتھ مجاہدین کو آپس میں اور آزاد شامی فوج سے لڑوانا شروع کردیا۔ جب حلب میں مجاہدین کی قیادت کے انتخاب کا معاملہ درپیش آیا تو ابو بنات شیشانی نے القاعدہ کی بیعت کرنے کا اعلان کیا لیکن بعد میں اس کی نافرمانیوں سے پتہ چلا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔
ابوبنات کے گروپ میں قوقاز کے علاوہ آذربائیجان، داغستان اور تاتاریوں کی اقوام کے لوگ شامل تھے جنہوں نے بشار اسد کیخلاف ہونے والے جہاد میں حصہ لینے کی بجائے مسلسل شامیوں سے الجھنا اور لڑنا شروع کردیا۔
پھر جب حلب کے علاقہ مشہد روحی میں شریعت کا نفاذ ہوا تو ابو بنات نے مقامی شہریوں کے ساتھ شدت کے ساتھ پیش آنا شروع کرتے ہوئے ان کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ وہ ہمیشہ انتشار اور شرانگیزی والے کام کرتا رہا۔
ابو بنات نے وہاں کی ایک مقامی لڑکی سے بھی شادی کی اور اگلے دن اس لڑکی کو اس کے گھر یہ کہہ کر طلاق دیتے ہوئے بھجوادیا کہ یہ کنواری نہیں ہے۔ جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اس نے تو اپنی دلہن کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔
ابو بنات کی ان حرکتوں کی وجہ سے شامی عوام میں نفرت اور مایوسی پھیلنے لگی، جس کو پھیلانا اس کا مقصد تھا۔
پھر ابو بنات نے مجاہدین کے مجموعوں اور آزاد شامی فوج کے ساتھ تکفیری آئیڈیالوجی کی وجہ سے لڑنا شروع کردیا۔
حلب میں موجود مجاہدین کی قیادت نے اسے بار بار سمجھایا اور اسے شرعی سزا دینے کی دھمکی بھی دی۔
پھر قوقاز سینٹر کے ذرائع کے مطابق 22 اپریل 2013ء کو ابو بنات نے دو عیسائی پادریوں کو گرفتار کرکے انہیں اسلام قبول نہ کرنے کی وجہ سے بم دھماکوں سے اڑادیا۔
پھر جون 2013ء کے مہینہ میں ابو بنات کا گروپ تکفیر کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور وہ ایک دوسرے پر کافر ہونے کا حکم لگاتے ہوئے بکھر کر رہ گئے اور شام سے ان کا وجود ختم ہوگیا۔
ابو بنات فی الوقت کہاں ہے؟ اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ بعض رپورٹوں کے مطابق وہ واپس شام سے داغستان آگیا ہے۔
ابوبنات سے متعلق القاعدہ کی جماعت جیش المہاجرین والانصار کے پریس بیان کو یہاں سے پڑھیں:
http://www.kavkazcenter.com/arab/content/2013/07/03/9037.shtml
اس طرح القاعدہ نے جہاد کو نقصان پہنچانے والے دو گروپوں کو اپنے سے الگ کردیا، جن کے بارے میں ان کے اعمال کی وجہ سے یہ ثابت ہورہا تھا کہ وہ دشمن کے ایجنڈے کو پورا کرتے ہوئے تکفیری منہج کو اختیار کرکے حرام تشدد پسندی کو پھیلارہے تھے تاکہ شامی جہاد کو کمزور اور مجاہدین کو بدنام کرکے مسلمانوں اور عوام کو ان سے متنفر کیا جاسکے۔
لیکن القاعدہ نے ایسے تکفیریوں کو پیار سے سمجھایا اور ڈرایا لیکن باز نہ آنے پر انہیں اپنے سے الگ کرکے چھوڑدیا۔ اس وجہ کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے تکفیریوں اور خارجیوں سے قتال نہیں کیا اور نہ ہی انہیں گرفتار کیا۔ اہل علم میں سے کسی نے بھی انہیں گرفتار اور قتل کرنے کے بارے میں نہیں کہا ہے۔ ان سے قتال کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ جب تک یہ اپنی تکفیری سوچ وافکار کو زبان کی بجائے ہاتھ سے عملی جامہ پہنانا شروع نہ کردے۔
مالکیہ کے علماء نے سلف صالحین کے واقعات کی روشنی میں تو خارجیوں کی قیادت کے سائے تلے ان کے ساتھ مل کر شیعوں اور کافروں کیخلاف لڑ نے کے جائز ہونے کا فتوی دیا۔
ان وجوہات کی وجہ سے القاعدہ نے ان تکفیریوں کو اپنے سے الگ کرنے اوران سے اعلان برأت کرنے پر اکتفاء کیا اور ان کیخلاف کوئی عسکری ایکشن نہیں لیا کیونکہ یہ بشار اسد اور نصیری کافروں کیخلاف جہاد میں مصروف ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح قومیت پرست اور وطنیت پرست لوگ دنیوی مفادات کے لیے بشار اسد کیخلاف لڑنے میں مصروف ہیں۔
لہٰذا پوائنٹ نمبر2 کے معاملے مزید معلومات حاصل کرنے کی خاطر مجاہدین کی قیادت سے رجوع کرتے ہوئے اس سلسلے میں استفسار کیا جاسکتا ہےکہ ان کا اس بارے میں کیا موقف ہے۔جہاں تک ہمیں معلوم تھا ہم نے لکھ دیا ہے۔لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ جب آپ قبر توڑنے آئیں گے تو آپ کا مقابلہ اول کس سے ہوگا اور سلف رحمہم اللہ کو اس بارے میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے۔لہٰذا کسی عالم کا قبروں پر فدائی حملے کرنے والے کسی مجاہد کو کھٹ سے اسلام سے خارج کردینا قرآن وسنت کے صحیح علم سے ناواقفیت یا پھر کسی دنیاوی مفاد یا پھر عصر حاضر کے طواغیت کی خوشنودی کا حصول بھی ہوسکتا ہے۔واللہ اعلم۔