• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مزارات پر دھماکے کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں (شیخ توصیف الرحمن راشدی)

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ہمارے محترم بھائی ارسلان ملک حفظہ اللہ کی خدمت میں۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !شیخ توصیف الرحمن الراشدی کی یہ تقریر مکمل طور پر ملت ابراہیم سے انحراف کا نمونہ ہے۔اگر ہم اس تقریر میں سے خودکش حملوں کا ذکر ہٹا کر بھی بات کریں تو ہمارا موقف قرآن وسنت کے دلائل کی روشنی میں مضبوط ہے ۔ محترم بھائی آج پاکستان میں اللہ نے جن لوگوں کو حکومت دی ہوئی ہے انہوں ہی نے ان مزارات اور قبوں مضبوط اور مستحکم کیا ہے۔ انہی حکمرانوں نے ان مزارات کو سجایا ہے ۔مشرکین کے لئے ان مزارات کی پوجاپاٹ کو آسان بنایا ہے۔مشرکین کو وہ تمام سہولتیں ان حکمرانوں نے ان مزارات پر دی ہیں ۔جس طرح سعودی عرب کے حکمران حجاج کو آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔یہ کہنا کہ ہمارا کام صرف دعوت دینے کا حکم ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک مومن کو تو یہی نصیحت کی تھی تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے مٹائے اور اگر اس میں اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے ایسا کرے اور زبان سے بھی کہنے کی طاقت نہیں ہے دل میں برا جانے یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔اب مجھے بتائیں کہ اگر کوئی مومن کسی بت پرستی کو دیکھتا ہے اور اس میں اس بت پرستی کو ہاتھ سے مٹانے کی طاقت ہے تو کیا وہ اس بت پرستی کوہاتھ سے نہیں مٹائےگا؟؟؟؟میرے بھائی حکومت میں تو شرک کو پروان چڑھاتی ہے ۔ اور اس نے تو ان مزارات کو پکا ٹھوس اور مستحکم کیا ہے۔اس کو باقاعدہ حکومت کی سپورٹ کے ساتھ چلایا جارہا ہے اس کے لئے تو انہوں نے محکمہ اوقاف کو تشکیل دیا ہوا ہے ۔ بتوں پر نذرانوں کی صندوقچیاں رکھی ہیں جو کہ ان مشرک حکومتوں کے خزانوں میں جمع ہوتے ہیں اور ان نذرانوں کی وصولیابی کا باقاعدہ حساب وکتاب رکھا جاتا ہے۔اب مجھے بتلائیے کہ کون سی وہ حکومت ہوگی جو ان بتوں کو توڑے گی ان پر ہونے والے عرسوں اور میلوں کو ختم کرے گی ؟؟؟لہٰذا اس ملک کے مزارات اورجو کہ بت کی شکل اختیار کرچکے ہیں ان کو اسی طرح توڑنا ہوگا جس طرح سے مجاہدین اسلام نے صومالیہ مالی اور دیگر اسلامی خطوں میں ان کو مسمار کیا ہے ۔ لہٰذا اس بات کا انتظار کرنا کہ یہ مشرک حکومتیں ان مزارات پر ہونے والی بت پرستی کو ختم کریں گی عبث ہے۔بہت دور کی بات ہے۔یہ حکمران تو انہی بتوں پر نذرانے چڑھا کر اور ان بتوں پر منتیں مان کر تو الیکشن لڑتے ہیں اور جینتے کے بعد وہ اپنی منتوں کو ان مزارات کو پختہ اور مزید ترقی دے کر پوری کرتے ہیں ۔ تو ان حالات میں شیخ توصیف الرحمان الراشدی کا یہ نظریہ باطل قرار پاتا ہے۔دراصل اس نظریےکو اختیارکرنے کی وجہ کچھ اور ہی ہے ۔ان بتوں کو بچانے کا مقصد کچھ اور ہی ہے۔ اور وہ باطل مقصد ہے بتوں کی محافظ حکومتوں کو مجاہدین کے قہر وغضب سے بچانا ۔جب یہ دعوت عام کردی جائے گی کہ ایک مسلمان کا کام صرف اور صرف دعوت دینا ہے تو وہ زندگی بھر تبلیغی جماعت کی طرح دعوت ہی دیتا رہے گا۔بس صرف زبان ہی ہلاتا رہے رگا خواہ اس کے سامنے تمام اسلامی ممالک ایک ایک کرکے صلیبیوں کی بھینٹ چڑھ جائیں۔خیر سے اب تو ان جماعتوں کی ابتداء اہلحدیثوں میں شروع ہوچکی ہے۔اور ہاتھ سے منکرات کو روکنے سے منع کرنے کا مطلب واضح طور پر عوام الناس کو جہاد سے دور کرنا ہے ۔مجاہدین سے دور کرنا ہے۔ بتوں کی محافظ حکومتوں کو حمایت فراہم کرنا ہے ۔ان کو آکسیجن دیتے رہنا ہے تاکہ پانچ سال تک ایک بت پرست حکومت بتوں کی خدمت کرتی اس کے بعد اگلے پانچ سالوں تک دوسری بت پرست حکومت ان مزاروں پر نصب بتوں کی حفاظت کرتی رہے ۔ان کو آکسیجن فراہم کرتی ہے ۔ اور امت کے ابطال اسی طرح طاقت اور قوت کے ہونے کے باوجود گلاپھاڑ پھاڑ کر حق بیان کرتے کرتے بوڑھے ہوکر مرجائیں ۔ہمیں حیرت ہے ان علماء پر کیا ان کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے منہج کا پتہ نہیں ؟ کہ کس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا تھا جس چیز کو قرآن روکے اور لوگ نہ رکیں تو ہم اپنے تلواروں سے انہیں روکیں گے ۔اب جب اس ملک میں سالوں گزگئے اور لوگ اسی بت پرستی کے سائے تلے جی رہے ہیں ۔ نام نہادی سلفی جماعتوں کے بزعم خود جہادی قافلے پاکستان سے ہندوستان میں داخل کردیے جاتے ہیں لیکن یہ تمام جہادی قافلے مزارات پر نصب انہی بتوں کے سائے تلے گزرتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی نام نہاد جہادی کے چہرے پر ان مزارات کو دیکھ کر ناگواری کی لہر دیکھی جاسکے ۔اس بات کا قرآن کریم نے کیا خوب ہی نقشہ کھینچا ہے:أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ أُولَٰئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ(اے اہل عرب) کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے (پہلی) کتابوں میں کوئی فارغ خطی لکھ دی گئی ہے(القمر:۴۳)
لہٰذا میرے بھائی سوچیں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے کیونکہ کل کو ہم نے اللہ کے پاس تنہا اس سے ملاقات کرنی ہے اللہ کےاور ہمارے مابین کوئی ترجمان بھی نہ ہوگا۔اگر وہاں اللہ نے سوال کرلیا کہ تمہارے پاس جب اس بت پرستی کوہاتھ سے روکنے کی طاقت تھی تو تم نے اس بت پرستی کوہاتھ سے کیوں نہ روکا ۔اس برائی کو ہاتھ سے کیوں نہ روکا؟
شیخ توصیف الرحمن الراشدی کی اسی تقریر میں یہ بات بیان کی گئی کہ :
[جب تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس طاقت نہیں تھی کیا بیت اللہ میں نبی عبادت نہیں کرتے تھے کیا وہاں پر بت موجود نہیں تھے جب تک طاقت نہیں ہاتھ روک کر رکھااور جب طاقت آئی پھر ان بتوں کو ختم کیا ان بتوں کو توڑا ]
[/arb]

جزاك الله خيرا

ابوزینب بھائی! میں آپ کی ان باتوں سے متفق ہوں، آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے، لیکن میں نے جو اوپر بات کی ہے وہ اور ہے، اس کی میں وضاحت کر دیتا ہوں۔ دو قسم کی باتیں ہیں:
  1. مزاروں کو ختم کرنا
  2. مزاروں پر موجود لوگوں کو قتل کرنا
جہاں تک پہلی بات ہے تو اس میں کسی راسخ العقیدہ مسلمان کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ ان کو ختم کرنا کوئی غلط کام ہو سکتا ہے، بلکہ یہی تو وہ شرک کے اڈے ہیں جن کی لعنت کی وجہ سے آج پاکستان عذابوں میں گھرا ہوا ہے۔
لیکن جہاں تک خود کش دھماکوں کا تعلق ہے ، اس کے نتیجے میں وہاں پر موجود لوگ قتل ہوتے ہیں، جیسا کہ اکثر مزاروں پر جاہل اور بے دین عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ موجود ہوتی ہیں، وہ قتل ہو جاتی ہیں۔ تو میرے خیال میں مزارات کو ختم کرنے کا یہ طریقہ کار درست نہیں۔
آپ کو یہاں ایک مثال دیتا ہوں، کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں شام میں مجاہدین نے ایک صحابی (رضی اللہ عنہ) کے مزار پر قبضہ کر لینے کے بعد اسے بم سے اُڑا دیا، میرے نزدیک مزارات کو ختم کرنے کا یہ طریقہ درست نہیں کیونکہ اس سے ہو سکتا ہے کہ لاش کی بے حرمتی ہوئی ہو، کیونکہ بم اس قدر ہیوی تھا کہ دور سے لگے کیمرے تک اس بم کے اثرات نظر آئے، اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ قبر میں موجود لاش کا کیا حال ہو گا؟
اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں موجود مزارات پر جو خود کش دھماکے ہوتے ہیں وہاں موجود انسانی جان کا قتل ہونا درست بات نہیں، اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
جزاك الله خير
ابوزینب بھائی! میں آپ کی ان باتوں سے متفق ہوں، آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے، لیکن میں نے جو اوپر بات کی ہے وہ اور ہے، اس کی میں وضاحت کر دیتا ہوں۔ دو قسم کی باتیں ہیں:
1. مزاروں کو ختم کرنا
2. مزاروں پر موجود لوگوں کو قتل کرنا
جہاں تک پہلی بات ہے تو اس میں کسی راسخ العقیدہ مسلمان کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ ان کو ختم کرنا کوئی غلط کام ہو سکتا ہے، بلکہ یہی تو وہ شرک کے اڈے ہیں جن کی لعنت کی وجہ سے آج پاکستان عذابوں میں گھرا ہوا ہے۔
لیکن جہاں تک خود کش دھماکوں کا تعلق ہے ، اس کے نتیجے میں وہاں پر موجود لوگ قتل ہوتے ہیں، جیسا کہ اکثر مزاروں پر جاہل اور بے دین عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ موجود ہوتی ہیں، وہ قتل ہو جاتی ہیں۔ تو میرے خیال میں مزارات کو ختم کرنے کا یہ طریقہ کار درست نہیں۔
آپ کو یہاں ایک مثال دیتا ہوں، کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں شام میں مجاہدین نے ایک صحابی (رضی اللہ عنہ) کے مزار پر قبضہ کر لینے کے بعد اسے بم سے اُڑا دیا، میرے نزدیک مزارات کو ختم کرنے کا یہ طریقہ درست نہیں کیونکہ اس سے ہو سکتا ہے کہ لاش کی بے حرمتی ہوئی ہو، کیونکہ بم اس قدر ہیوی تھا کہ دور سے لگے کیمرے تک اس بم کے اثرات نظر آئے، اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ قبر میں موجود لاش کا کیا حال ہو گا؟
اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں موجود مزارات پر جو خود کش دھماکے ہوتے ہیں وہاں موجود انسانی جان کا قتل ہونا درست بات نہیں، اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
جزاک اللہ خیرا وبارک اللہ فیک وفی علمک
مزاروں کو ختم کرنا
الحمد للہ پوائنٹ نمبر 1 میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ہم اس مسئلے میں ایک ہی منہج رکھتے ہیں اور یہی منہج ہے اہل السنۃ والجماعۃ کا اور ان کے اسلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین وتبع تابعین وائمۃ السلف رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس میں اہل السنۃ والجماعۃ کے مابین کوئی دورائے نہیں ہیں۔سوائے مرتد حکمرانوں، مشرکین ،علماءِ سوء،مزار پرستوں، قبرپرستوں، اور ہمارے دور میں وہ اہل ارجاء جو کہ صلیبی لشکروں کا حصہ ہیں اور ان کی حمایت میں مجاہدین کے خلاف سوشل میڈیا کی جنگ میں صلیبیوں اور مرتد حکمرانوں کے معاون ہیں۔پوجی جانے والی قبروں کو توڑنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔سوائے قبر پرستوں کے اس مسئلے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔اس تواتر کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر شدہ وہ احکامات ہیں جو آپ نے اس سلسلے میں دیئے۔اور اس سلسلے میں سب سے بہترین حکم ہم جو پاتے ہیں وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیرالمومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیا۔مشہور سلفی عالم صلاح الدین یوسف اس خوبصورت واقعے کی منطر کشی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
''عہد دوراں کے مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
''تماثیل، تمثال کی جمع ہے یہ اصل میں کسی چیز کی ہوبہو نقل کو کہتے ہیں ، جیسے پتھر کا مجسمہ یا کاغذ اور دیوار وغیرہ پر کسی کی تصویر، یہاں سے مراد وہ مورتیاں ہیں جو قوم ابراہیم علیہ السلام نے اپنے معبودوں کی بنا رکھی تھیں اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ عَاکِفٌ ، عُکُوفٌ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے اور اس پر جاگ کر جسم کو بیٹھا رہنے کے ہیں اسی سے اعتکاف ہے، جس میں انسان اللہ کی عبادت کے لئے جسم کو بٹھاتااور یکسوئی اور انہماک سے اس کی طرف لولگاتاہے یہاں (آیت) سے مراد بتوں کی تعظیم و عبادت اور ان کے تھانوں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے یہ تمثالیں اور مورتیاں اور تصویریں) قبر پرستوں اور پیر پرستوں میں بھی آج کل عام ہیں اور ان کو بڑے اہتمام سے گھروں اور دکانوں میں بطور تبرک آویزاں کیا جاتاہے۔ اللہ انہیں سمجھ عطا فرمائے۔ (تفسیر احسن البیان ، ص۸۹۵۔۸۹۶)
یہ تو حقیقت ہے کہ آج کل کے جاہل گور پرست اپنے مزعومہ بزرگوں کی تصاویر اپنے گھروں ، دکانوں کی دیواروں پر آویزاں کرتے ہیں اور مشکل کے وقت ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر فریادیں کرتے ہیں۔ ایسے شرک کے شرمناک مناظر ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے تو اپنے داماد سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہ کو تماثیل وتصاویر کو مسمار کرنے کا مشن سونپا تھا۔ اسی مشن کو حیدر کرار نے جاری رکھا جیسا کہ ابو الھیاج اسدی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مجھے سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے ایک مشن سونپا اور فرمایا :
أَلَّا أَبْعَثُکَ عَلٰى مَا بَعَثَنِى عَلَيْہِ رَسُولُ اللہ -صلى اللہ عليہ وسلم- أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّيْتَہُ (صحیح مسلم ، الجنائز، رقم الحدیث : ۹۶۹)
'' کیا میں آپ کو اس مہم پہ نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس مورتی (تصویر) کو دیکھوں اسے مٹا دوں اور جس بلند قبر کو دیکھوں اسے زمین کے برابر کردوں۔''
قبرپرستی اس قدر خطرناک ہے کہ اس سے اللہ کی پناہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق قیامت قبر پرستوں پر ہی قائم ہوگی :
فرمان نبوی ہے: "سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِكُهُ السَّاعَةُ وَهُمْ أَحْيَاءٌ وَمَنْ يَتَّخِذُ الْقُبُورَ مَسَاجِدَََََ". صحيح ابن خزيمة:789، صحيح ابن حبان:6808، مسند احمد1/405، الطبراني الكبير:10413 بروايت ابن مسعود.
میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ سب سے برے لوگ وہ ہیں جن پر قیامت قائم ہوگی اور وہ لوگ جو قبروں کو مسجدیں بنا ئیں گے۔
قبرپرستی کا فتنہ اس قدر خوفناک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پانچ دن قبل اپنی امت کو جو وصیت کی وہ ملاحظہ فرمائیں:
سَمِعْتُ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِخَمْسٍ وَهُوَ يَقُولُ « 0000 أَلاَ وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ أَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّى أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ . مسلم:532 المساجد، الطبراني الكبير:1686، بروايت جندب بن عبدالله البجلي.
حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے سنا آپ فرما رہے تھے۰۰۰۰۰ دھیان دینا تم سے پہلے جو لوگ تھے انہوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا ، تم قبروں کو مسجد نہ بنانا ، میں تمہیں اس سے منع کر رہا ہوں۔
یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں الحارث النجرانی سے بھی مروی ہے: عن عبد الله بن الحارث النجراني قال حدثني جدي قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم قبل أن يموت بخمس وهو يقول : (ألا وإن من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور أنبيائهم وصالحيهم مساجد ألا فلا تتخذوا القبور مساجد إني أنهاكم عن ذلك). مصنف ابن ابي شيبة:7620،3/366.
حضرت عبد اللہ بن حارث نجرانی بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے سنا آپ فرما رہے تھے۰۰۰۰۰ دھیان دینا تم سے پہلے جو لوگ تھے انہوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کومسجد بنا لیا تھا ، تم قبروں کو مسجد نہ بنانا ، میں تمہیں اس سے منع کر رہا ہوں۔
بیماری کے بالکل آخری ایام اور آخری لحظات میں:
لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ فَإِذَا اغْتَمَّ بِهَا كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ فَقَالَ وَهُوَ كَذَلِكَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا. صحيح البخاري :435 الصلاة، صحيح مسلم: 531 المساجد، مسند احمد1/218و6/275، سنن النسائي 2/40.
حضرت عاٗشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مرض موت کی کیفیت طاری تھی تو آپ اپنی چادر کو باربار چہرے پر ڈالتے ، جب کچھ افاقہ ہوتا تو اپنے مبارک چہرے سے چادر کو ہٹا دیتے ، اپنی اسی پریشانی کی حالت میں فرمایا: اللہ کی پھٹکار ہو یہود ونصاری پر کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا ،ٓاپ یہ فرما کر امت کو انکے کارناموں سے متنبہ کر رہے تھے۔
ایک اور حدیث میں ہے: عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ آخِرُ مَا تَكَلَّمَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ. مسند احمد1/196، مسند ابويعلى:872،2/177.
حضرت ابو عبیدہ ؓ سے رواےت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آخری جو بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ حجاز کے یہود اور اہل نجران کو جزیرہ عربیہ سے باہر نکال دینا اور یاد رکھو کہ سب سے برے لوگ وہ ہیں جو اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنالئے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ کی یہ حدیث بھی پڑھیں: علي بن أبي طالب يقول لقيني العباس فقال يا علي انطلق بنا إلى النبي ( صلى الله عليه وسلم ) فإن كان لنا من الأمر شئ وإلا أوصى بنا الناس فدخلنا عليه وهو مغمى عليه فرفع رأسه فقال لعن الله اليهود اتخذوا قبور الأنبياء مساجد، ثم قال: فلما رأينا ما به خرجنا ولم نسأله عن شئ . تاريخ دمشق 42/426،الطبقات الكبرى4/28.دیکھئے تحذیر الساجد 27۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری کے ایام میں میری ملاقات حضرت عباسؓ سے ہوئی، انہوں نے مچھ سے کہا : اے علی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چلیں اور آپ سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعد حکومتی معاملات میں ہمارا کچھ حصہ ہے کہ نہیں ، اگر نہیں ہے تو آپ ہمارے بارے میں لوگوں کو کچھ وصیت کردیں، چنانچہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اس وقت آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ پر غشی طاری تھی ، پھر آپ نے اپنا سر اٹھاکر فرمایا : یہود پر اللہ کی لعنت ہو جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا۔ پھر جب ہم نے آپ کی یہ کیفیت دیکھی تو ہم باہر نکل آئے اور کچھ نہیں پوچھا۔
پکی قبروں اور قبوں کا بنانے کا معاملہ اس خوفناک ہے کہ :
علامہ ابن حجر ہیثمی﷫ اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر میں فرماتے ہیں:
«وتجب المبادرة لهدمها وهدم القباب التي علىٰ القبور إذ هي أضر من مسجد الضرار»7
یعنی ''قبروں اور ان پر بنے ہوئے قبوں کو فوراً مسمار کردینا چاہیے، اس لیے کہ یہ'مسجد ضرار' سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔''
جو لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی تعلیمات سے متاثر ہیں۔ لیکن ان لوگوں کو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے اس اسوہ کا پتہ ہی نہیں ہے ہم ایسے لاعلم لوگوں کے لئے ایک منظر پیش کیے دیتے ہیں :
شیخ موصوف بارہویں صدی ہجری میں منظر عام پر آئے۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کے فکر وعمل کا کیاحال تھا؟ یہ ایک دل دوز داستان ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے رب العزت کی بندگی فراموش کردی تھی۔ عقلوں پر نیند طاری تھی، ظنون و اوہام کی پیروی کی جارہی تھی، ذلّت و مسکنت چھائی ہوئی تھی۔ہندوستان کے بے شمار مسلمانوں کی پیشانیاں قبروں اور آستانوں پر جھکی ہوئی تھیں۔ مصر میں بدوی و رفاعی، عراق میں سیدنا علی المرتضیٰ ، حضرت حسین ،امام ابوحنیفہ﷫ اور شیخ عبدالقادر جیلانی﷫، یمن میں ابن علون، مکہ مکرمہ اورطائف میں ابن عباس سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ خاص طور پر اہل نجد اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ لوگوں کا بہت بڑا طبقہ صدیوں سے مشرکانہ عقیدوں کی زندگی بسر کرتا چلا آرہا تھا۔ جبیلہ میں حضرت زید بن خطاب کی قبر اور وادئ غِیرہ میں حضرت ضرار بن ازور کا قُبہ شرک و بدعت کے اعمال کا گڑھ بن گیاتھا۔ علاقہ بلیدۃ الفداء میں ایک پرانا درخت تھا، اس کے بارے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ یہ لوگوں کو اولاد عطا کرتا ہے۔ اس فاسد عقیدے کی وجہ سے بے شمار عورتیں آتی تھیں اور اس درخت سے چمٹی رہتی تھیں۔ درعیہ میں بعض صحابہ کرام سے منسوب قبروں پر جاہلانہ عقیدت کے مظاہر عام تھے۔ اسی علاقے کے قریب ایک غار تھا، یہاں لوگ شرمناک افعال انجام دیتے تھے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر بھی شرک و بدعت کے افعال سے محفوظ نہیں تھے۔ مسجد نبویؐ میں عین رسول اللہ ﷺ کے مرقد کے قریب مشرکانہ صدائیں بلند کی جاتی تھیں اور غیر اللہ کے وسیلوں سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔
ایک موقع پر شیخ محمد﷫ مسجد نبوی میں موجود تھے۔لوگ استغاثہ و استعانت کی صداؤں میں گم تھے اورعجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے۔ اسی لمحے تدریس حدیث کے جلیل القدر معلم محمد حیات سندی﷫ جو شیخ محمد کے اتالیق بھی تھے، وہاں آگئے۔ شیخ نے جاہلانہ حرکتیں کرنے والوں کی طرف اُنگشت نمائی کی اور پوچھا: ان لوگوں کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ موصوف نے معاً سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی:
﴿إِنَّ هـٰؤُلاءِ مُتَبَّرٌ‌ ما هُم فيهِ وَبـٰطِلٌ ما كانوا يَعمَلونَ ١٣٩ ﴾..... سورة الاعراف
''یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ باطل ہے اور نیست و نابود ہوکر رہے گا۔''
دیکھا قارئین کے مجاہدین نے پکی قبروں اور قبوں کو توڑنے کام کرکے اللہ کی توحید کا احیاء کیا ہے۔دین اسلام کو جلابخشی ہے۔اب مجاہدین کے اس عمل پر جو شخص اعتراض کرتا ہے اور ان کے اس عمل پر قدغن لگاتا ہے تو وہ سوچ لے کہ وہ کس پر اعتراض کررہا ہے۔ اور کیسی کیسی مبارک ہستیوں کو اپنے اس اعتراض کی لسٹ میں شامل کررہا ہے۔یقیناًایسا شخص گمراہ ہے اور اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ وہ محض اپنی انا اور تسکین یا کسی غیرمسلموں کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے مجاہدین اسلام کے اس مبارک اور اہم ترین فعل پر اعتراض کررہا ہے۔ہم اللہ سے اس بات کی پناہ طلب کرتے ہیں کہ پکی اور پوجی جانے والی قبروں کے توڑنے کے عمل پر مجاہدین اسلام پر اعتراض کریں۔
جہاں تک محترم قابل عزت بھائی ارسلان ملک حفظہ اللہ کے دوسرے پوائنٹ کا تعلق ہے:
مزاروں پر موجود لوگوں کو قتل کرنا
اس سلسلے میں ہم اپنا تبصرہ کرنے سے پہلے اس بارے میں مجاہدین کا موقف بیان کیے دیتے ہیں :
شام میں القاعدہ نے جہاد کو بدنام کرنے والے تکفیری گروپوں سے اعلان برأت کرتے ہوئے انکو اپنی جماعت سے نکال باہر کیا
تکفیری اور خارجی مسلمان ہونے کے باوجود جہاد ومجاہدین کے دشمن اسی طرح ہیں، جس طرح مرجئہ ہیں کیونکہ یہ دونوں ہی اسلام کے اعتدال پسند نبوی منہج کو چھوڑ کر افراط وتفریط (کمی وزیادتی) کی راہ اپناتے ہیں۔
تکفیری سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات میں غلو وزیادتی کرتے ہوئے حد سے آگے نکل جاتے ہیں۔
مرجئہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات میں کمی اور کوتاہی کرتے ہوئے فرائض واحکام کو بھی ساقط کردیتے ہیں۔
دورِ حاضر میں جس طرح ہر جہاد کا نام لیکر لڑنے والے کو مجاہد قرار دیدیا جاتا ہے بالکل اسی طرح اپنے مخالف کو تکفیری قرار دیدیا جاتاہے۔ لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہے۔
اسلام نے صرف مجاہد اس کو قرار دیا ہے جو اللہ کی راہ میں اس کے توحید کے نظام کی خاطر لڑنے والا ہوں۔
اب کوئی زمین کے کسی ٹکڑے یا کسی شخصیت یا کسی نظام کی خاطر جہاد کا نام لیکر لڑے تو اسلام اسے مجاہد نہیں قرار دیتا ہے بلکہ اسے جاہلیت وعصبیت کی راہ میں لڑنے والوں میں شمار کرتا ہے۔
اسی طرح دورِ حاضر میں ہر کوئی اپنے مخالف کو تکفیری قراردیتے ہیں۔ شیعہ کے نزدیک سنی مسلمان تکفیری ہیں جبکہ مرجئہ کے نزدیک غیراللہ کے نظاموں اور سیکولر حکمران و افواج سمیت مرتدین کو کافر قرار دینے والے مجاہدین تکفیری ہیں۔ لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہے۔
اسلام نے تکفیری اس کو قرار دیا ہے جو غلو کرتے ہوئے دینی احکامات میں اللہ اور اس کے رسول کی مقرر کردہ حد کو کراس کرتے ہوئے آگے نکل جاتا ہے۔
اسلام نے جس کو کافر اور مرتد کہا ہے، وہ اس میں زیادتی کرتے ہوئے کئی اور لوگوں کو کافر قرار دینے لگ جاتے ہیں، جن کو اسلام نے کافر نہیں قراردیا ہوتا جیساکہ کبائر گناہ (شراب، زنا) کے مرتکب لوگ ہیں۔
اسی طرح اسلام نے ہر معاملات کے جو اصول وضوابط مقرر کررکھے ہیں، وہ ان میں غلو وزیادتی کرتے ہوئے بالکل اسی طرح حد سے آگے نکل جاتے ہیں ہے جس طرح مرجئہ ان میں کمی وکوتاہی کرتے ہوئے فرائض واحکام میں کوتاہی وکمی کرتے ہوئے ان کو ساقط کردیتے ہیں، جن کو بجالانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
آج مجاہدین کو جس طرح دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح آج مجاہدین کو تکفیری کہا جاتا ہے۔
حالانکہ دشمنان اسلام کے لیے دہشت گرد ہونے کا حکم اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اسی طرح دیا ہے جس طرح مرتدین اور (سیکولر جمہوری نظام سمیت) تمام غیر اللہ نظاموں کو چلانے والے کافر اور مرتدین کیخلاف جہاد کرنے اور ان سے اعلان برأت کرنے کا حکم دیا ہے۔
سو عالمی جہادی تحریک جماعۃ القاعدۃ الجہاد کے امیر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے مجاہدین کو تکفیری کہنے والوں کا رد کرتے ہوئے بتایا کہ: یہ الزام لگانے والے یا جاہل ہیں یا پھر جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ: ہم مجاہدین ہی وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے گزشتہ 40سال سے تکفیری منہج کا رد کرتے ہوئے اس کی سرکوبی کررہے ہیں اور اس بات کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ میں نے خود تکفیریوں کے رد میں کئی کتابوں اور مقالات کو لکھا ہے اور کئی دروس وبیانات میں میں ان کا رد کرچکا ہوں۔ جو کوئی حق کا متلاشی ہے وہ ہماری ان کتابوں اور بیانات کی طرف رجوع کرکے ان کو پڑھ لیں۔
یاد رہے کہ القاعدہ صرف ان تکفیریوں کی سرکوبی کررہی ہے جو اسلام کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے غلو اور شدت پسندی کو اختیار کرتے ہیں۔
شام میں بھی بشار اسد کیخلاف جہاد کرنے والوں میں سے بعض مجاہدین نے دینی غیرت میں آکر اسلام کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے تکفیری منہج کو اپناتے ہوئے اس شدت پسندی کی راہ کو اپنالیا جس کی مذمت اسلام نے کی ہے۔
اب عالمی جہادی تحریک القاعدہ سے وابستہ ''الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام''(اسلامی ریاست عراق وشام) میں شامل ہونے والی ''جیش المہاجرین والانصار'' (مہاجر وانصار آرمی) کے امیر شیخ عمر شیشانی حفظہ اللہ نے سیف اللہ شیشانی گروپ کو تکفیری سوچ رکھنے کی وجہ سے بارہا مرتبہ سمجھایا اور انہیں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے ساتھ معاملات کرنے میں غلو وزیادتی کرنے سے منع کرتے ہوئے جہادی کارروائیوں میں اس شدت پسندی سے کام لینے سے باز آنے کا حکم دیا جس کی مذمت اسلام کرتا ہے مگر وہ باز نہیں آئے۔ اس گروپ کو شرعی عدالت کے سامنے پیش کرنے کی دھمکی دیکر بھی سمجھایا گیا، مگر سیف اللہ شیشانی گروپ جس کے افراد کی تعداد 50 سے کم ہے، نے باز آنے سے انکار کردیا اور جہادی کارروائیوں کو اسلامی اصول وضوابط کی پابندی کرنے کی بجائے تکفیری ذہن کے ساتھ انجام دیتے رہیں۔ نیز مقامی مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اسلامی احکامات کو بجالانے پر زبردستی مجبور کرنا اور جو نہ کریں اسے ہلاک یا کوئی اور سخت سزا دینا، مقامی مسلمانوں کے اموال کو حلال سمجھنا، ان سے ٹیکس لینا، عوام الناس کے ساتھ معاملات میں اسلامی اصول وضوابط کی پابندی نہ کرنا اور عیسائیوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا اور جو انکار کریں تو اسے ماردینا۔
ان سب کاموں کو کرنے کی وجہ سے ''الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام''(اسلامی ریاست عراق وشام) کے عسکری امیر ابو عمر شیشانی حفظہ اللہ نے سیف اللہ شیشانی گروپ کو بہت مرتبہ سمجھانے کے بعد باز نہ آنے کی وجہ سے ''الدولۃ الاسلامیۃ'' سے الگ کرتے ہوئے ان کے افعال واعمال سے اعلان برأت کرنے کا پریس بیان جاری کردیا۔
یہ پریس بیان روسی زبان میں قوقاز سنٹر کی جہادی ویب سائٹ پر نشر ہوا جو یہ ہے:
http://www.kavkazcenter.com/russ/content/2013/08/03/99665.shtml
اس پریس بیان میں انہوں نے سیف اللہ شیشانی کو ابو بنات شیشانی سے تشبیہ دیتے ہوئے مسلمانوں کو ان سے خبردار رہنے کا حکم دیا۔
ابو بنات شیشانی کی داستان یہ ہے کہ وہ داغستان کی ٹریفک پولیس میں کام کرنے والے ایک روسی پولیس افسر کا بیٹا تھا، جس نے شام آکر جہاد کے نام پر ہی تکفیری سوچ کے ساتھ مجاہدین کو آپس میں اور آزاد شامی فوج سے لڑوانا شروع کردیا۔ جب حلب میں مجاہدین کی قیادت کے انتخاب کا معاملہ درپیش آیا تو ابو بنات شیشانی نے القاعدہ کی بیعت کرنے کا اعلان کیا لیکن بعد میں اس کی نافرمانیوں سے پتہ چلا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔
ابوبنات کے گروپ میں قوقاز کے علاوہ آذربائیجان، داغستان اور تاتاریوں کی اقوام کے لوگ شامل تھے جنہوں نے بشار اسد کیخلاف ہونے والے جہاد میں حصہ لینے کی بجائے مسلسل شامیوں سے الجھنا اور لڑنا شروع کردیا۔
پھر جب حلب کے علاقہ مشہد روحی میں شریعت کا نفاذ ہوا تو ابو بنات نے مقامی شہریوں کے ساتھ شدت کے ساتھ پیش آنا شروع کرتے ہوئے ان کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ وہ ہمیشہ انتشار اور شرانگیزی والے کام کرتا رہا۔
ابو بنات نے وہاں کی ایک مقامی لڑکی سے بھی شادی کی اور اگلے دن اس لڑکی کو اس کے گھر یہ کہہ کر طلاق دیتے ہوئے بھجوادیا کہ یہ کنواری نہیں ہے۔ جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اس نے تو اپنی دلہن کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔
ابو بنات کی ان حرکتوں کی وجہ سے شامی عوام میں نفرت اور مایوسی پھیلنے لگی، جس کو پھیلانا اس کا مقصد تھا۔
پھر ابو بنات نے مجاہدین کے مجموعوں اور آزاد شامی فوج کے ساتھ تکفیری آئیڈیالوجی کی وجہ سے لڑنا شروع کردیا۔
حلب میں موجود مجاہدین کی قیادت نے اسے بار بار سمجھایا اور اسے شرعی سزا دینے کی دھمکی بھی دی۔
پھر قوقاز سینٹر کے ذرائع کے مطابق 22 اپریل 2013ء کو ابو بنات نے دو عیسائی پادریوں کو گرفتار کرکے انہیں اسلام قبول نہ کرنے کی وجہ سے بم دھماکوں سے اڑادیا۔
پھر جون 2013ء کے مہینہ میں ابو بنات کا گروپ تکفیر کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور وہ ایک دوسرے پر کافر ہونے کا حکم لگاتے ہوئے بکھر کر رہ گئے اور شام سے ان کا وجود ختم ہوگیا۔
ابو بنات فی الوقت کہاں ہے؟ اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ بعض رپورٹوں کے مطابق وہ واپس شام سے داغستان آگیا ہے۔
ابوبنات سے متعلق القاعدہ کی جماعت جیش المہاجرین والانصار کے پریس بیان کو یہاں سے پڑھیں:
http://www.kavkazcenter.com/arab/content/2013/07/03/9037.shtml
اس طرح القاعدہ نے جہاد کو نقصان پہنچانے والے دو گروپوں کو اپنے سے الگ کردیا، جن کے بارے میں ان کے اعمال کی وجہ سے یہ ثابت ہورہا تھا کہ وہ دشمن کے ایجنڈے کو پورا کرتے ہوئے تکفیری منہج کو اختیار کرکے حرام تشدد پسندی کو پھیلارہے تھے تاکہ شامی جہاد کو کمزور اور مجاہدین کو بدنام کرکے مسلمانوں اور عوام کو ان سے متنفر کیا جاسکے۔
لیکن القاعدہ نے ایسے تکفیریوں کو پیار سے سمجھایا اور ڈرایا لیکن باز نہ آنے پر انہیں اپنے سے الگ کرکے چھوڑدیا۔ اس وجہ کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے تکفیریوں اور خارجیوں سے قتال نہیں کیا اور نہ ہی انہیں گرفتار کیا۔ اہل علم میں سے کسی نے بھی انہیں گرفتار اور قتل کرنے کے بارے میں نہیں کہا ہے۔ ان سے قتال کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ جب تک یہ اپنی تکفیری سوچ وافکار کو زبان کی بجائے ہاتھ سے عملی جامہ پہنانا شروع نہ کردے۔
مالکیہ کے علماء نے سلف صالحین کے واقعات کی روشنی میں تو خارجیوں کی قیادت کے سائے تلے ان کے ساتھ مل کر شیعوں اور کافروں کیخلاف لڑ نے کے جائز ہونے کا فتوی دیا۔
ان وجوہات کی وجہ سے القاعدہ نے ان تکفیریوں کو اپنے سے الگ کرنے اوران سے اعلان برأت کرنے پر اکتفاء کیا اور ان کیخلاف کوئی عسکری ایکشن نہیں لیا کیونکہ یہ بشار اسد اور نصیری کافروں کیخلاف جہاد میں مصروف ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح قومیت پرست اور وطنیت پرست لوگ دنیوی مفادات کے لیے بشار اسد کیخلاف لڑنے میں مصروف ہیں۔
لہٰذا پوائنٹ نمبر2 کے معاملے مزید معلومات حاصل کرنے کی خاطر مجاہدین کی قیادت سے رجوع کرتے ہوئے اس سلسلے میں استفسار کیا جاسکتا ہےکہ ان کا اس بارے میں کیا موقف ہے۔جہاں تک ہمیں معلوم تھا ہم نے لکھ دیا ہے۔لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ جب آپ قبر توڑنے آئیں گے تو آپ کا مقابلہ اول کس سے ہوگا اور سلف رحمہم اللہ کو اس بارے میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے۔لہٰذا کسی عالم کا قبروں پر فدائی حملے کرنے والے کسی مجاہد کو کھٹ سے اسلام سے خارج کردینا قرآن وسنت کے صحیح علم سے ناواقفیت یا پھر کسی دنیاوی مفاد یا پھر عصر حاضر کے طواغیت کی خوشنودی کا حصول بھی ہوسکتا ہے۔واللہ اعلم۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
اب کوئی بتائے روضہ رسول صل اللہ علیہ وسلم پر دھماکے کرنا بھی حضور صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت کیا جارہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بُت بھی کہہ دیا۔ معاذ اللہ لعنہ اللہ ۔
تکفیری سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات میں غلو وزیادتی کرتے ہوئے حد سے آگے نکل جاتے ہیں۔
مرجئہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات میں کمی اور کوتاہی کرتے ہوئے فرائض واحکام کو بھی ساقط کردیتے ہیں۔اور اس بارے میں یہ مرجئہ رکیک اور باطل عبارات کا سہارا لیتے ہیں ۔مسلمانوں کے مابین ابہامات کو پھیلاتے ہیں۔عبارات سے غلط مقصد نکال کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔جیسے کہ مرجئہ کے چوزے کی مندرجہ بالا عبارت ہے جس کو ہم نے اقتباس کے طور پر نقل کیا ہے ۔ہم اس عبارت کو کبھی نقل نہیں کرتے اگر ہمیں یہ گمان نہ ہوتا کہ یہ عبارت لکھی ہی اس وجہ سے گئی ہے کہ مسلمانوں کو گمراہ کیاجاسکے ۔دراصل یہ عبارت مرجئہ کے چوزے کیے دماغ کی خودساختہ فیکٹری میں تشکیل دی گئی ہے۔موجودہ حالات میں طاغوتی حکمرانوں کے لیے فکرارجاء سے بڑھ کر بھی کوئی سوغات ہو سکتی ہے ؟!! دراصل ارجاء ہے کیا اس بارے میں ہم قارئین کو ایک دلچسپ واقعے سے روشاس کراتے ہیں:
امام نضر بن شمیل ﷫بخاری ومسلم کے راوی اور اہل سنت کے ائمہ میں سے شمار ہوتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے ان کا کیا ہی خوبصورت قول نقل کیا ہے۔
نضر بن شمیل فرماتے ہیں:میں مامون کے پاس آیا .........
مامون کہنے لگا : نضر کیسے ہو؟
میں نے کہا :امیر المومنین خیریت سے ہوں۔
مامون نے پوچھا:ارجاء کیا ہے؟
میں نے کہا:وہ ایسا دین ہے جو بادشاہوں کو پسند ہے۔ وہ اس کے ذریعے سے اپنی دنیا کماتے ہیں اور اپنے دین کو ناکارہ کر دیتے ہیں۔
مامون نے کہا:آپ نے سچ فرمایا ہے۔ ( البدایة و النہایة :276/10.)
دیکھئے کہ علمائے اہل الحدیث ان مرجئوں کے چوزوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں:
ابراہیم نخعی﷫نے کہا ہے کہ :ازارقہ کے فتنہ سے زیادہ مرجئہ کا فتنہ اس امت کیلئے خطرناک ہے۔کتاب السنۃ عبداﷲ بن احمد۱/(۳۳۷)
اور انہی کاقول ہے کہ ''خوارج مرجئہ سے زیادہ میرے نزدیک معذور ہیں''۔کتاب السنۃ عبداﷲ بن احمد۱/ (۳۱۸)
امام اوزاعی ﷫کہتے ہیں:یحییٰ اور قتادہ )تابعین﷮ کہتے تھے :اس امت کے لئے ارجاء سے زیاد ہ بدعات میں سے کوئی اور چیزخطرناک نہیں۔)کتاب السنۃ عبداﷲ بن احمد۱/ (۳۱۸)
امام زہری ﷫فرماتے ہیں کہ:
((ما ابتدعت فی الاسلام بد عة ھی اضر علی اھلہ من ھذہ یعنی الارجاءٍ)) ''اسلام کیلئے ارجاء سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی اور بدعت نہیں ہے ''(رواہ ابن بطة فی الانابة)
اور ایسے لوگوں سے ہی اللہ کے رسولﷺ روزِ قیامت بیزاری کا اظہار کریں گے:
((عن انسؓقال قال رسول اﷲﷺ''صنفان من أمتی لا یردان عليّ الحوض القدریة،والمرجئة)) حضرت انس بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:''میری امت کے دو گروہ میرے پاس حوض کوثر پر نہ آسکیں گے : قدریہ اورمرجئہ''(رواہ الطبرانی فی الاوسط،وأوردہ الالبانی فی سلسلۃ الصحیحة ج ۶وقال (اسنادہ قوي))
امام اوزاعی ﷫ فرماتے ہیں :''یحییٰ بن ابی کثیر اور قتادہ﷮دونوں کہا کرتے تھے کہ ارجائیت کی بنسبت خواہشات میں سے کوئی شئے اس امت کے لئے خوفناک نہیں۔
قاضی شریک﷫مرجئہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :''وہ (مرجئہ )خبیث ترین لوگ ہیں حالانکہ خباثت میں رافضہ کافی ہیں لیکن مرجئہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں '' (کتاب السنة:۱/۳۱۸)
امام سفیان الثوری﷫فرماتے ہیں :''مرجئہ نے اسلام کو باریک کپڑے سے بھی زیادہ رکیک بنادیا''۔
امام ذہبی﷫مرجئہ کے عقائد کے نتائج سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں :''انہوں نے ہر فاسق اور ڈاکو کو تباہ کن گناہوں پر جری کردیا ہم اس خذلان سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ '' (سیر اعلام النبلاء:۹/۴۳۶)
ابراہیم نخعی﷫نے کہا : ''خوارج مرجئہ سے زیادہ میرے نزدیک معذور ہیں''۔( کتاب السنۃ عبداﷲ بن احمد۱/۳۳۷)
یہ تھیں علمائے امت کی تصریحات ان مرجئوں کے بارے میں اور جو مرجئہ کے چوزے ہیں ان کا حال تو بہت ہی برا ہے۔مرجئہ کا یہ چوزہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے لکھتا ہے کہ :
''اب کوئی بتائے روضہ رسول صل اللہ علیہ وسلم پر دھماکے کرنا بھی حضور صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت کیا جارہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بُت بھی کہہ دیا۔ معاذ اللہ لعنہ اللہ ۔''
مندرجہ بالا عبارت مرجئہ کے چوزے کی اپنی اختراع ہے ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ مرجئہ کا یہ چوزہ قرآن وسنت کے علم سے بھی نابلد ہے ۔ اس کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک قیامت تک بت نہیں بن سکتی ۔ہم بتاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ :اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد (مؤطا مالک)اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے۔یہ حدیث امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں روایت کی ہے ۔ اور یہ بہت مشہور حدیث ہے ۔ مدرسہ میں علم حاصل کرنے والے ہر طالب علم کو اس حدیث کا پتہ ہے ۔ لیکن مرجئہ کے چوزے اس حدیث سے غافل ہیں۔لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے علاوہ جو بھی قبر پوجی جائے وہ بت ہے۔اس کا توڑنا واجب ہے ۔اس کا مسمار کرنا واجب ہے۔اور ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہے ۔ ایسا کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسوۂ مبارکہ سے ثابت ہے۔اس کے خلاف شریعت اسلام میں کچھ بھی نہیں ہے۔اور ایسا ہی ہمارے اسلاف سے ثابت ہے۔اب جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جو شخص منت مانگتا ہے تو وہ بت بن جاتا ہے۔تو ایسے شخص کے گمراہ ہونے میں ہمیں کوئی شک نہیں ہے۔بلکہ ہمیں ایسے شخص کے اوپر کفر کا خدشہ لاحق ہے کیونکہ یہ شخص اس بات کا مدعی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کو رد کردیا جو کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی ۔ایسے شخص کو کوڑے لگانے چاہئیں جس طرح امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صبیغ کو لگائے تھے تاکہ اس مرجئہ کے چوزے کا دماغ درست ہوجائے۔
جب ہم نے اپنے پوسٹ میں لاہور میں واقع علی ہجویری کے مزار کو بت قرار دیا تو مرجئہ کے چوزوں نے اس پر بہت شور مچایا کہ دیکھو ان لوگوں نے اولیاء اللہ کے مزار ات کو بت قراردے دیا ہے۔اور اس کو توڑنے اور منہدم کرنے کی جسارت کی ہے۔ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ہر وہ قبر جس پر مشرکین منتیں مانیں عبادات بجالائیں ،اس مزار کے گرد طواف کریں وہ مزار بت ہے ۔ اس کا انہدام واجب ہے۔یہ بت مسجد ضرار سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔اس کو منہدم کرکے ہی لوگوں کو قبر پرستی کے شرک سے روکا جاسکتا ہے۔
ہم قارئین کو بتلاتے چلیں جب شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جنت البقیع میں مزارات کا انہدام کیا گیا تو یہ مبارک عمل سلفی وہابی علماء کی موجودگی میں کیا گیا ان کے ہاتھوں یہ مبارک عمل انجام قرار پایا ۔ اور ان علماء اسلام نے ان پوجے جانے والے مزارات کو بت کی مانند قراردیتے ہوئے انہیں مسمار کردیا ۔ہم مرجئہ کے چوزوں کی معلومات کی غرض سے قبروں میں مدفون لوگوں کی فہرست کو یہاں نقل کررہے ہیں۔جن کو ان مبارک علماء نے منہدم کیا۔مشرکین کی قبر پرستی کی وجہ سے :
1.امام حسن رضی اللہ عنہ کی قبر
2.امام زین العابدین رحمہ اللہ کی قبر
3. امام محمد باقر رحمہ اللہ کی قبر
4. امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی قبر
5.فاطمہ بنت اسد رحمہااللہ کی قبر
6.عباس ابن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی قبر
7.عقیل ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قبر
8.عبداللہ ابن جعفر رحمہ اللہ کی قبر
9.صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی قبر
10.عاتکہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی قبر
11.حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ کی قبر
12.ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر
13.عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر
14.اسمعٰیل بن جعفرصادق رحمہ اللہ کی قبر
15.ابو سعید حذری رضی اللہ عنہ کی قبر
16.عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قبر
17.ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی کی قبریں
(۱۸)زینب بنت خزیمہ(وفات ۴ ھ)
(۱۹)ریحانہ بنت زید(وفات ۸ ھ)
(۲۰)ماریہٴ قبطیہ(وفات ۱۶ ھ)
(۲۱)زینب بنت جحش (وفات ۲۰ ھ)
(۲۲)ام حبیبہ (وفات ۴۲ ھ یا ۴۳ھ)
(۲۳)حفصہ بنت عمر (وفات ۴۵ ھ)
(۲۴)سودہ بنت زمعہ (وفات۵۰ ھ)
(۲۵)صفیہ بنت حی (وفات۵۰ ھ)
(۲۶)جویریہ بنت حارث (وفات۵۰ ھ)
(۲۷)ام سلمہ (وفات۶۱ ھ) رضی اللہ عنہن
29.جناب رقيه، ام کلثوم ،زینب رضی اللہ عنہن
30.شہداء احد رضی اللہ عنہم
31.محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ
32.جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ
33.مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ
ان کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل البیت میں ازواج مطہرات اور فاطمہ رضی اللہ عنہ کی اولاد وغیرہم کی قبریں جنت البقیع میں موجود تھیں ۔جن پر قبر پرستی ہوتی تھی اس لیے ان کو منہدم کردیا گیا ۔ان کو زمین کے برابر کردیا گیا۔اور یہ سب امور سلفی وہابی علماء ، علماءِ نجد نے انجام دیئے جو کہ اس دور میں روئے زمین پر بہترین علماء تھے ۔ انبیاء علیہم السلام کے حقیقی معنوں میں وارث تھے جنہوں نے ورثہ انبیاء کی تعلیمات پر مکمل عمل کرتے ہوئے بت پرستی اور قبر پرستی کا اپنے دور بطریق احسن انہدام کیا۔جب اس دور میں پوجی جانے والی قبروں کو توڑنا مستحسن اقدام تھا تو آج مجاہدین اسلام کا پوجی جانے والی قبروں کو توڑنے کا عمل تکفیریت اور خارجیت کس طرح ہوگیا؟کیا پوجی جانے والی قبروں کو توڑنا تکفیریت اور خارجیت ہے ۔ تو پھر علماء نجد اور شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے احفاد کو یہ مرجئہ کے چوزے کس نام سے پکاریں گے؟؟؟؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان مرجئہ کے چوزوں کا ایک ہی کام رہ گیا ہے وہ یہ ہے مجاہدین اسلام جو بھی اسلامی احکام پر عمل کریں وہ اس پر تنقید کرتے ہوئے ان کو خارجی اور تکفیری قرار دیں تاکہ امریکی اور مرتد حکمرانوں کے مقاصد کو پروان چڑھایا جاسکے تاکہ دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی اس نام نہاد جنگ میں مجاہدین اسلام کو متہم کیا جاسکے ۔ مرجئہ کے ان چوزوں کو یہ معلوم نہیں کہ مجاہدین اسلام تو محاذ جنگ پر صلیبیوں اور معاون مرتد حکمرانوں کے خلاف قتال میں مصروف ہیں ۔ لیکن ان کے حمایتی ۔ سوشل میڈیا کی جنگ میں تمہارے مدمقابل ہیں ۔ اور ان شاء اللہ آخری سانسوں تک تمہارا مقابلہ کرتے رہیں گے ۔یہ مرجئہ کے چوزے مجاہدین پر جو بھی الزام لگائیں گے ان شاء اللہ ، اللہ کی مدد اور توفیق سے مجاہدین کے حمایتی بلاکسی خوف اور دھمکی کے مجاہدین کی حمایت سوشل میڈیا کی جنگ میں تمہیں آڑے ہاتھوں لیں گے ۔تمہارا مقابلہ قرآن وسنت کی روشن تعلیمات کے ذریعے کریں گے ۔ مسلمانوں کو تمہاری خیانتوں سے آگاہ کرتے رہیں گے اور اس سلسلے میں کسی دھونس اور دھمکی کی پراہ نہیں کریں گے کیونکہ ان کا مددگار ان کا مولا اللہ عزوجل ہے ۔ جبکہ ان مرجئہ کے چوزوں کے مقدر سوائے شرمندگی اور بدبختی کے کچھ بھی نہ ہوگا۔ان شاء اللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاك الله خيرا ابو زینب بھائی
آپ نے بہت تفصیل سے معلومات فراہم کیں، اس سے بہت ساری الجھنیں دور ہوئیں۔ الحمدللہ
ان خوارجین اورتکفیری لوگوں کے پیچھے اصل مجاہدین بھی بدنام ہو جاتے ہیں، اور لوگ سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ آپ کا دوسرے پوائنٹ پر موجود بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ:
"موجودہ خود کش دھماکے کر کے مزاروں پر موجود لوگوں کا قتل کرنا بھی تکفیری منہج میں شمار ہوتا ہے، لیکن چونکہ آج کے قبر پرست اپنے غلیظ عقائد میں بہت سخت ہیں، اور قبروں کی حفاظت کرتے ہیں لہذا اگر کوئی مجاہد ان مزارات کو توڑنے کے لیے بم بلاسٹ کرتا ہے تو اس کو مکمل طور پر اسلام سے خارج تو قرار نہیں دیا جا سکتا البتہ اس کے اس عمل کو شدت پسندی اور تکفیری سوچ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔"
کیا میں صحیح سمجھا ہوں، اگر کوئی کمی بیشی ہو تو اصلاح کر دیں۔ جزاک اللہ خیرا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اب کوئی بتائے روضہ رسول صل اللہ علیہ وسلم پر دھماکے کرنا بھی حضور صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت کیا جارہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بُت بھی کہہ دیا۔ معاذ اللہ لعنہ اللہ ۔
جناب ہاتھ روکنے کا مطلب قتل کرنا تو نہیں ہے یہ مطلب ا ٓ پ نے کہا ں سے نکالا ہے ؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
تکفیری سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات میں غلو وزیادتی کرتے ہوئے حد سے آگے نکل جاتے ہیں۔
مرجئہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات میں کمی اور کوتاہی کرتے ہوئے فرائض واحکام کو بھی ساقط کردیتے ہیں۔اور اس بارے میں یہ مرجئہ رکیک اور باطل عبارات کا سہارا لیتے ہیں ۔مسلمانوں کے مابین ابہامات کو پھیلاتے ہیں۔عبارات سے غلط مقصد نکال کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔جیسے کہ مرجئہ کے چوزے کی مندرجہ بالا عبارت ہے جس کو ہم نے اقتباس کے طور پر نقل کیا ہے ۔ہم اس عبارت کو کبھی نقل نہیں کرتے اگر ہمیں یہ گمان نہ ہوتا کہ یہ عبارت لکھی ہی اس وجہ سے گئی ہے کہ مسلمانوں کو گمراہ کیاجاسکے ۔دراصل یہ عبارت مرجئہ کے چوزے کیے دماغ کی خودساختہ فیکٹری میں تشکیل دی گئی ہے۔موجودہ حالات میں طاغوتی حکمرانوں کے لیے فکرارجاء سے بڑھ کر بھی کوئی سوغات ہو سکتی ہے ؟!! دراصل ارجاء ہے کیا اس بارے میں ہم قارئین کو ایک دلچسپ واقعے سے روشاس کراتے ہیں:
امام نضر بن شمیل ﷫بخاری ومسلم کے راوی اور اہل سنت کے ائمہ میں سے شمار ہوتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے ان کا کیا ہی خوبصورت قول نقل کیا ہے۔
نضر بن شمیل فرماتے ہیں:میں مامون کے پاس آیا .........
مامون کہنے لگا : نضر کیسے ہو؟
میں نے کہا :امیر المومنین خیریت سے ہوں۔
مامون نے پوچھا:ارجاء کیا ہے؟
میں نے کہا:وہ ایسا دین ہے جو بادشاہوں کو پسند ہے۔ وہ اس کے ذریعے سے اپنی دنیا کماتے ہیں اور اپنے دین کو ناکارہ کر دیتے ہیں۔
مامون نے کہا:آپ نے سچ فرمایا ہے۔ ( البدایة و النہایة :276/10.)
دیکھئے کہ علمائے اہل الحدیث ان مرجئوں کے چوزوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں:
ابراہیم نخعی﷫نے کہا ہے کہ :ازارقہ کے فتنہ سے زیادہ مرجئہ کا فتنہ اس امت کیلئے خطرناک ہے۔کتاب السنۃ عبداﷲ بن احمد۱/(۳۳۷)
اور انہی کاقول ہے کہ ''خوارج مرجئہ سے زیادہ میرے نزدیک معذور ہیں''۔کتاب السنۃ عبداﷲ بن احمد۱/ (۳۱۸)
امام اوزاعی ﷫کہتے ہیں:یحییٰ اور قتادہ )تابعین﷮ کہتے تھے :اس امت کے لئے ارجاء سے زیاد ہ بدعات میں سے کوئی اور چیزخطرناک نہیں۔)کتاب السنۃ عبداﷲ بن احمد۱/ (۳۱۸)
امام زہری ﷫فرماتے ہیں کہ:
((ما ابتدعت فی الاسلام بد عة ھی اضر علی اھلہ من ھذہ یعنی الارجاءٍ)) ''اسلام کیلئے ارجاء سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی اور بدعت نہیں ہے ''(رواہ ابن بطة فی الانابة)
اور ایسے لوگوں سے ہی اللہ کے رسولﷺ روزِ قیامت بیزاری کا اظہار کریں گے:
((عن انسؓقال قال رسول اﷲﷺ''صنفان من أمتی لا یردان عليّ الحوض القدریة،والمرجئة)) حضرت انس بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:''میری امت کے دو گروہ میرے پاس حوض کوثر پر نہ آسکیں گے : قدریہ اورمرجئہ''(رواہ الطبرانی فی الاوسط،وأوردہ الالبانی فی سلسلۃ الصحیحة ج ۶وقال (اسنادہ قوي))
امام اوزاعی ﷫ فرماتے ہیں :''یحییٰ بن ابی کثیر اور قتادہ﷮دونوں کہا کرتے تھے کہ ارجائیت کی بنسبت خواہشات میں سے کوئی شئے اس امت کے لئے خوفناک نہیں۔
قاضی شریک﷫مرجئہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :''وہ (مرجئہ )خبیث ترین لوگ ہیں حالانکہ خباثت میں رافضہ کافی ہیں لیکن مرجئہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں '' (کتاب السنة:۱/۳۱۸)
امام سفیان الثوری﷫فرماتے ہیں :''مرجئہ نے اسلام کو باریک کپڑے سے بھی زیادہ رکیک بنادیا''۔
امام ذہبی﷫مرجئہ کے عقائد کے نتائج سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں :''انہوں نے ہر فاسق اور ڈاکو کو تباہ کن گناہوں پر جری کردیا ہم اس خذلان سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ '' (سیر اعلام النبلاء:۹/۴۳۶)
ابراہیم نخعی﷫نے کہا : ''خوارج مرجئہ سے زیادہ میرے نزدیک معذور ہیں''۔( کتاب السنۃ عبداﷲ بن احمد۱/۳۳۷)
یہ تھیں علمائے امت کی تصریحات ان مرجئوں کے بارے میں اور جو مرجئہ کے چوزے ہیں ان کا حال تو بہت ہی برا ہے۔مرجئہ کا یہ چوزہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے لکھتا ہے کہ :
''اب کوئی بتائے روضہ رسول صل اللہ علیہ وسلم پر دھماکے کرنا بھی حضور صل اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت کیا جارہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بُت بھی کہہ دیا۔ معاذ اللہ لعنہ اللہ ۔''
مندرجہ بالا عبارت مرجئہ کے چوزے کی اپنی اختراع ہے ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ مرجئہ کا یہ چوزہ قرآن وسنت کے علم سے بھی نابلد ہے ۔ اس کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک قیامت تک بت نہیں بن سکتی ۔ہم بتاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ :اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد (مؤطا مالک)اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے۔یہ حدیث امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں روایت کی ہے ۔ اور یہ بہت مشہور حدیث ہے ۔ مدرسہ میں علم حاصل کرنے والے ہر طالب علم کو اس حدیث کا پتہ ہے ۔ لیکن مرجئہ کے چوزے اس حدیث سے غافل ہیں۔لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے علاوہ جو بھی قبر پوجی جائے وہ بت ہے۔اس کا توڑنا واجب ہے ۔اس کا مسمار کرنا واجب ہے۔اور ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہے ۔ ایسا کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسوۂ مبارکہ سے ثابت ہے۔اس کے خلاف شریعت اسلام میں کچھ بھی نہیں ہے۔اور ایسا ہی ہمارے اسلاف سے ثابت ہے۔اب جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جو شخص منت مانگتا ہے تو وہ بت بن جاتا ہے۔تو ایسے شخص کے گمراہ ہونے میں ہمیں کوئی شک نہیں ہے۔بلکہ ہمیں ایسے شخص کے اوپر کفر کا خدشہ لاحق ہے کیونکہ یہ شخص اس بات کا مدعی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کو رد کردیا جو کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی ۔ایسے شخص کو کوڑے لگانے چاہئیں جس طرح امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صبیغ کو لگائے تھے تاکہ اس مرجئہ کے چوزے کا دماغ درست ہوجائے۔
جب ہم نے اپنے پوسٹ میں لاہور میں واقع علی ہجویری کے مزار کو بت قرار دیا تو مرجئہ کے چوزوں نے اس پر بہت شور مچایا کہ دیکھو ان لوگوں نے اولیاء اللہ کے مزار ات کو بت قراردے دیا ہے۔اور اس کو توڑنے اور منہدم کرنے کی جسارت کی ہے۔ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ہر وہ قبر جس پر مشرکین منتیں مانیں عبادات بجالائیں ،اس مزار کے گرد طواف کریں وہ مزار بت ہے ۔ اس کا انہدام واجب ہے۔یہ بت مسجد ضرار سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔اس کو منہدم کرکے ہی لوگوں کو قبر پرستی کے شرک سے روکا جاسکتا ہے۔
ہم قارئین کو بتلاتے چلیں جب شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جنت البقیع میں مزارات کا انہدام کیا گیا تو یہ مبارک عمل سلفی وہابی علماء کی موجودگی میں کیا گیا ان کے ہاتھوں یہ مبارک عمل انجام قرار پایا ۔ اور ان علماء اسلام نے ان پوجے جانے والے مزارات کو بت کی مانند قراردیتے ہوئے انہیں مسمار کردیا ۔ہم مرجئہ کے چوزوں کی معلومات کی غرض سے قبروں میں مدفون لوگوں کی فہرست کو یہاں نقل کررہے ہیں۔جن کو ان مبارک علماء نے منہدم کیا۔مشرکین کی قبر پرستی کی وجہ سے :
1.امام حسن رضی اللہ عنہ کی قبر
2.امام زین العابدین رحمہ اللہ کی قبر
3. امام محمد باقر رحمہ اللہ کی قبر
4. امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی قبر
5.فاطمہ بنت اسد رحمہااللہ کی قبر
6.عباس ابن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی قبر
7.عقیل ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قبر
8.عبداللہ ابن جعفر رحمہ اللہ کی قبر
9.صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی قبر
10.عاتکہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی قبر
11.حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ کی قبر
12.ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر
13.عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر
14.اسمعٰیل بن جعفرصادق رحمہ اللہ کی قبر
15.ابو سعید حذری رضی اللہ عنہ کی قبر
16.عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قبر
17.ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی کی قبریں
(۱۸)زینب بنت خزیمہ(وفات ۴ ھ)
(۱۹)ریحانہ بنت زید(وفات ۸ ھ)
(۲۰)ماریہٴ قبطیہ(وفات ۱۶ ھ)
(۲۱)زینب بنت جحش (وفات ۲۰ ھ)
(۲۲)ام حبیبہ (وفات ۴۲ ھ یا ۴۳ھ)
(۲۳)حفصہ بنت عمر (وفات ۴۵ ھ)
(۲۴)سودہ بنت زمعہ (وفات۵۰ ھ)
(۲۵)صفیہ بنت حی (وفات۵۰ ھ)
(۲۶)جویریہ بنت حارث (وفات۵۰ ھ)
(۲۷)ام سلمہ (وفات۶۱ ھ) رضی اللہ عنہن
29.جناب رقيه، ام کلثوم ،زینب رضی اللہ عنہن
30.شہداء احد رضی اللہ عنہم
31.محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ
32.جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ
33.مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ
ان کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل البیت میں ازواج مطہرات اور فاطمہ رضی اللہ عنہ کی اولاد وغیرہم کی قبریں جنت البقیع میں موجود تھیں ۔جن پر قبر پرستی ہوتی تھی اس لیے ان کو منہدم کردیا گیا ۔ان کو زمین کے برابر کردیا گیا۔اور یہ سب امور سلفی وہابی علماء ، علماءِ نجد نے انجام دیئے جو کہ اس دور میں روئے زمین پر بہترین علماء تھے ۔ انبیاء علیہم السلام کے حقیقی معنوں میں وارث تھے جنہوں نے ورثہ انبیاء کی تعلیمات پر مکمل عمل کرتے ہوئے بت پرستی اور قبر پرستی کا اپنے دور بطریق احسن انہدام کیا۔جب اس دور میں پوجی جانے والی قبروں کو توڑنا مستحسن اقدام تھا تو آج مجاہدین اسلام کا پوجی جانے والی قبروں کو توڑنے کا عمل تکفیریت اور خارجیت کس طرح ہوگیا؟کیا پوجی جانے والی قبروں کو توڑنا تکفیریت اور خارجیت ہے ۔ تو پھر علماء نجد اور شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے احفاد کو یہ مرجئہ کے چوزے کس نام سے پکاریں گے؟؟؟؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان مرجئہ کے چوزوں کا ایک ہی کام رہ گیا ہے وہ یہ ہے مجاہدین اسلام جو بھی اسلامی احکام پر عمل کریں وہ اس پر تنقید کرتے ہوئے ان کو خارجی اور تکفیری قرار دیں تاکہ امریکی اور مرتد حکمرانوں کے مقاصد کو پروان چڑھایا جاسکے تاکہ دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی اس نام نہاد جنگ میں مجاہدین اسلام کو متہم کیا جاسکے ۔ مرجئہ کے ان چوزوں کو یہ معلوم نہیں کہ مجاہدین اسلام تو محاذ جنگ پر صلیبیوں اور معاون مرتد حکمرانوں کے خلاف قتال میں مصروف ہیں ۔ لیکن ان کے حمایتی ۔ سوشل میڈیا کی جنگ میں تمہارے مدمقابل ہیں ۔ اور ان شاء اللہ آخری سانسوں تک تمہارا مقابلہ کرتے رہیں گے ۔یہ مرجئہ کے چوزے مجاہدین پر جو بھی الزام لگائیں گے ان شاء اللہ ، اللہ کی مدد اور توفیق سے مجاہدین کے حمایتی بلاکسی خوف اور دھمکی کے مجاہدین کی حمایت سوشل میڈیا کی جنگ میں تمہیں آڑے ہاتھوں لیں گے ۔تمہارا مقابلہ قرآن وسنت کی روشن تعلیمات کے ذریعے کریں گے ۔ مسلمانوں کو تمہاری خیانتوں سے آگاہ کرتے رہیں گے اور اس سلسلے میں کسی دھونس اور دھمکی کی پراہ نہیں کریں گے کیونکہ ان کا مددگار ان کا مولا اللہ عزوجل ہے ۔ جبکہ ان مرجئہ کے چوزوں کے مقدر سوائے شرمندگی اور بدبختی کے کچھ بھی نہ ہوگا۔ان شاء اللہ
کیا محمد بن عبد الوہاب وغیرہ نے وہا ں دھماکے کیے تھے ؟لوگوں کو قتل کیا تھا یا کوئی اور طریقہ اپنا یا تھا؟
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے علاوہ جو بھی قبر پوجی جائے وہ بت ہے۔اس کا توڑنا واجب ہے
یہ اقتباس آپ کی جہالت کا مظہر ہے۔ بلکہ کفر کا۔ ہم پہلے ہی آپ کے خوارجیوں کے کفر دیکھا چُکے ہیں یہ بھی آپ کے خوارجیوں کا کفر ہے اس سے توبہ لازم ہے بلکہ تجدید ایمان بھی

ان خوارجیوں کی عقل تو دیکھو مزارات میں بم دھماکوں کو مزارات کو گرانے پر منقبت کر رہا ہے۔ اللہ سیدھی سادھی اُردو عبارت کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے،
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ اقتباس آپ کی جہالت کا مظہر ہے۔ بلکہ کفر کا۔ ہم پہلے ہی آپ کے خوارجیوں کے کفر دیکھا چُکے ہیں یہ بھی آپ کے خوارجیوں کا کفر ہے اس سے توبہ لازم ہے بلکہ تجدید ایمان بھی

ان خوارجیوں کی عقل تو دیکھو مزارات میں بم دھماکوں کو مزارات کو گرانے پر منقبت کر رہا ہے۔ اللہ سیدھی سادھی اُردو عبارت کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے،
لوگوں کے قتل کی بات کر رہا ہوں ؟ان کو کیوں قتل کرتے ہو ؟ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ان کو ٖگرا دو مگر لوگوں کو قتل نہ کرو
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
یہ اقتباس آپ کی جہالت کا مظہر ہے۔ بلکہ کفر کا۔ ہم پہلے ہی آپ کے خوارجیوں کے کفر دیکھا چُکے ہیں یہ بھی آپ کے خوارجیوں کا کفر ہے اس سے توبہ لازم ہے بلکہ تجدید ایمان بھی ان خوارجیوں کی عقل تو دیکھو مزارات میں بم دھماکوں کو مزارات کو گرانے پر منقبت کر رہا ہے۔ اللہ سیدھی سادھی اُردو عبارت کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے،
ہم مرجئہ کے چوزوں سے کہتے ہیں کہ تمہارے شہروں میں جو لات اور منات کے بت جنہیں تم مزارات کہتے ہو جیسے لاہور میں علی ہجویری کی قبر جس پر مشرکین کا طواف کرنا اور اس قبر کی عبادت کرنا مشہور ومعروف ہے۔جس کے بارے میں مزید کسی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔بلکہ اہل لاہور علی ہجویری کی قبر کو داتا کا دربار یا داتا دربار کہتے ہیں۔خود مرجئہ کے چوزے بھی علی ہجویری کی قبر کو داتا دربار کے الفاظوں سے یاد کرتے ہیں۔اسی طرح پاکستان کے ہر شہر میں ان پوجے جانے والے مزارات کے بت موجود ہیں کوئی بت ان میں بڑا ہے تو کوئی چھوٹے درجے کا بت ہے ۔ ان بتوں کے درجوں کی تقسیم بعینہ مشرکین مکہ کی تقسیم کی طرح ہے جس طرح لات اور مناف بڑے بت تھے اسی طرح لاہور میں علی ہجویری کا مزارہے جسے اہل لاہور داتا صاحب ، داتا دربار ،داتا کا دربار کے نام سے پکارتے ہیں اس بت پر مشرکین جاکر منتیں مانگتے ہیں چڑھاوے چڑھاتے ہیں ۔اس بت پر مشرکین عبادت تک بجالاتے ہیں۔ مشرکین علی ہجویری کی قبر پر سجدے رکوع اور طواف تک کرتے ہیں۔اور یہ سب کچھ اہل علم ، علماء کی موجودگی میں ہورہا ہے۔علماء نے سوائے فتاویٰ لکھنے کے آج تک کسی پاکستان میں پائے جانے والے ان مزار نما بتوں کو گرانے کا عملی فریضہ سرانجام نہیں دیا۔چنانچہ یہی وجہ ہے بلاکھٹکے ان مزارات پر مشرکین باقاعدگی سے سالانہ عرس بھی مناتے ہیں۔طواف بھی کرتے ہیں ،اور ان مزارنمابتوں پرمشرکین کا رکوع اور سجود کرنا تو روز مرہ کا معمول ہے۔اورمشرکین کے اس کام میں سب سے بڑے معاون اس ملک کے مرتد حکمران اور ان کے لشکر ہیں جوان مشرکین کی ان مزارنمابتوں پر عبادت کے دوران ان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔آج تک کسی بھی عالم نے ان مزارات کو جن کی مشرکین عبادت کرتے ہیں ان کو منہدم کرنے یا گرانے یا مسمار کرنے کی کوشش تک نہیں کی ہے۔جب کہ ان فتاویٰ میں اس عمل کی طرف تحریض دلائی گئی ہے۔اب جب مجاہدین نے غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان شرک کے اڈوں اور بتوں کو دھماکوں سے اڑانا شروع کیا تو تومرجئہ کے چوزوں نے مجاہدین کو متہم کرنا شروع کردیا۔ان علماء کو تو یہ چاہیے تھا امت اسلام کے ان ابطال کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں مجاہدین کی صف اول میں شامل ہونا چاہیے تھا۔اور سب سے پہلے خود آگے بڑھ کر ان مزار نما بتوں کو گرانے کا فریضہ سر انجام دینا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس ایک لمبا عرصہ گزرگیا اور یہ مشرکین ان مزارات پر آج تک اسی طرح بلا کھٹکے اپنی عبادت کو سرانجام دے رہے ہیں۔ہم مرجئہ کے ان چوزوں کو کہتے ہیں کہ جس مجاہد نے علی ہجویری کے بت کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی اس کو آپ اس مجاہد کی غلطی گردانتے ہو۔لیکن آج تک آپ نے کیا کیا؟؟ کیا آپ نے ان بتوں پر ہونے والی عبادت کو اپنے ہاتھ سے روکنے کی کبھی کوشش کی یا صرف ڈرائنگ روم اور ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صرف دورہ احادیث ہی کرتے رہے۔ان مزارات کو کون گرائے گا ؟ اور کیسے گرائے گا؟ ان مزارات کو گرانے کے بارے میں ان مرجئہ کے چوزوں کے پاس یا ان کے بڑے مرجئہ سرداروں کے پاس کیا لائحہ عمل ہے ۔ان مرجئوں کے بڑے بڑے لاؤ لشکر کس کے لئےہیں؟ان لاؤ لشکروں کا کیا مقصد ہے ؟ کیا ان لاؤ لشکروں میں توحید کی غیرت بالکل نہیں ہے؟اگر ان مرجئہ کے چوزوں کے پاس غیرتِ توحید ہے تو ان کو چاہیے کہ وہ ان بت نمامزارات کو منہدم کرنے کی کوشش ضرور کریں ۔اور اگر ان میں غیرتِ توحید نہیں ہے۔تو پھر وہ ان پاک طینت موحدین کوان بت نمامزارات کو گرانے کے سلسلے میں متہم نہ کریں۔عصر حاضر میں جب طواغیت اور مرتد حکمران ان مزارات کے متولی ہوں ان چادریں چڑھانے والے ہوں ان مزارات پر جاکر منتیں مانگنے والے ہوں اور انہوں نے اپنے لاؤ لشکروں کو ان مزارات کی حفاظت پر مامور کررکھا ہو تو ہم مرجئہ کے ان چوزوں سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ جہاد کے علاوہ وہ کون سا طریقہ ہے ان مزارات کو مسمار کرنے کا جب کہ ان مزارات پر آنے والے ، ان مزارات پر عبادت کرنے والے ، مزارات کا طواف کرنے مشرکین بھی مسلح ہوں اور ان مزارات کی حفاظت پر کمربستہ ہوں تو وہ کون سا طریقہ ہے کہ ان مزارات کو منہدم کیا جاسکے ۔ جب صورتحال یہ ہو تو کیا جہاد کے بغیر ان مزارات کو منہدم کیا جاسکتا ہے؟؟؟۔ہم مرجئہ کے ان چوزوں کو علماء اسلام کے فتاویٰ کی ایک جھلک دکھلاتے ہیں کہ شاید ان میں توحید کی غیرت موجزن ہوجائے :
قبروں پر عمارت بنانا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 02 June 2012 02:44 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قبروں پر عمارت بنانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قبروں پر عمارت بنانا حرام ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور منع اس لیے فرمایا ہے کہ اس میں اہل قبور کی تعظیم ہے جو قبروں کی پوجا کا وسیلہ اور ذریعہ بنتی ہے پھرہوتے ہواتے اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہیں بھی معبود تسلیم کیا جانے لگتا ہے جیسا کہ ان بہت سے مزاروں پر ہو رہا ہے جنہیں قبروں پر تعمیر کیا گیا ہے۔ لوگ اصحاب قبور کو اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھنے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہیں بھی پکارنے اور دہائی دینے لگتے ہیں، جب کہ اصحاب قبور کو پکارنا اور تکلیفوں اور مصیبتوں کے دور کرنے کے لیے ان سے مدد مانگنا شرک اکبر ہے اور اسلام سے مرتد ہونا ہے۔
وباللہ التوفیق:http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/934/0/
غور سے پڑھو اس فتویٰ کو اے مرجئہ کے چوزوں دیکھو علماء کرام کیا فرمارہے ہیں ان قبروں پر جاکر پکارنا اور تکالیف اور مصائب کے وقت ان سے مدد مانگنا شرک اکبر ہے اور اسلام سے مرتد ہونا ہے۔ہم مرجئہ کے چوزوں سے سوال کرتے ہیں کہ اسلام میں ارتداد کے کیا احکام ہیں ۔ اور ایسے لوگوں کے بارے میں جوقبرپرستی کی وجہ سے شرک اکبر میں مبتلا ہوچکے ہوں ان کے متعلق شریعت کیا احکامات صادر کرتی ہے؟؟
ہم مرجئہ کے چوزوں کو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اور ان رفقاء رحمہم اللہ کی سیرت کا ایک پہلو عبرت حاصل کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں :
شیخ موصوف بارہویں صدی ہجری میں منظر عام پر آئے۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کے فکر وعمل کا کیاحال تھا؟ یہ ایک دل دوز داستان ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے رب العزت کی بندگی فراموش کردی تھی۔ عقلوں پر نیند طاری تھی، ظنون و اوہام کی پیروی کی جارہی تھی، ذلّت و مسکنت چھائی ہوئی تھی۔ہندوستان کے بے شمار مسلمانوں کی پیشانیاں قبروں اور آستانوں پر جھکی ہوئی تھیں۔ مصر میں بدوی و رفاعی، عراق میں سیدنا علی المرتضیٰ ، حضرت حسین ،امام ابوحنیفہ﷫ اور شیخ عبدالقادر جیلانی﷫، یمن میں ابن علون، مکہ مکرمہ اورطائف میں ابن عباس سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ خاص طور پر اہل نجد اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ لوگوں کا بہت بڑا طبقہ صدیوں سے مشرکانہ عقیدوں کی زندگی بسر کرتا چلا آرہا تھا۔ جبیلہ میں حضرت زید بن خطاب کی قبر اور وادئ غِیرہ میں حضرت ضرار بن ازور کا قُبہ شرک و بدعت کے اعمال کا گڑھ بن گیاتھا۔ علاقہ بلیدۃ الفداء میں ایک پرانا درخت تھا، اس کے بارے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ یہ لوگوں کو اولاد عطا کرتا ہے۔ اس فاسد عقیدے کی وجہ سے بے شمار عورتیں آتی تھیں اور اس درخت سے چمٹی رہتی تھیں۔ درعیہ میں بعض صحابہ کرام سے منسوب قبروں پر جاہلانہ عقیدت کے مظاہر عام تھے۔ اسی علاقے کے قریب ایک غار تھا، یہاں لوگ شرمناک افعال انجام دیتے تھے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر بھی شرک و بدعت کے افعال سے محفوظ نہیں تھے۔ مسجد نبویؐ میں عین رسول اللہ ﷺ کے مرقد کے قریب مشرکانہ صدائیں بلند کی جاتی تھیں اور غیر اللہ کے وسیلوں سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ایک موقع پر شیخ محمد﷫ مسجد نبوی میں موجود تھے۔لوگ استغاثہ و استعانت کی صداؤں میں گم تھے اورعجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے۔ اسی لمحے تدریس حدیث کے جلیل القدر معلم محمد حیات سندی﷫ جو شیخ محمد کے اتالیق بھی تھے، وہاں آگئے۔ شیخ نے جاہلانہ حرکتیں کرنے والوں کی طرف اُنگشت نمائی کی اور پوچھا: ان لوگوں کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ موصوف نے معاً سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی:
﴿ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾الاعراف139''یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ باطل ہے اور نیست و نابود ہوکر رہے گا۔''
مذہبی حالت کے علاوہ عرب کی سیاسی اور سماجی حالت بھی خراب تھی۔ عثمانی ترکوں کی حکمرانی کا سکہ چل رہا تھا، نجد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ خانہ جنگی عام تھی۔ فقر وفاقہ مسلط تھا۔ ترکوں کے زیر اہتمام مصر سے رقوم آتی تھیں اورمزاروں کے مجاوروں اورمتولّیوں میں بانٹی جاتی تھیں۔ لوگوں کی گزر بسر مزاروں ، قبروں اور آستانوں کی مجاوری ، گداگری اور لوٹ کھسوٹ پر موقوف تھی۔ یہ حالات دیکھا کر شیخ کا حساس دل تڑپ اٹھا اور وہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کی دعوت کا پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کی دعوت کا خلاصہ یہ ہے :
1۔ عقیدہ و عمل کی بنیاد صرف قرآن وسنت کی تعلیمات پر رکھی جائے۔
2۔ نماز، روزہ، حج اور اداے زکوٰۃ کا التزام کیا جائے۔
3۔ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات صرف اسی کی ذاتِ عالی سے وابستہ ہیں، ان میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
4۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے، پس اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہ مانگا جائے۔
5۔ پختہ قبریں اور مقبرے نہ بنائے جائیں۔
6۔ شراب، تمباکو، جوا، جادو، ریشم اور سونا نہایت سختی سے ممنوع ہے۔
شیخ ﷫ کا جذبہ حق پرستی بڑا پُرجوش تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی دعوت ہر مسلمان کے رگ و ریشے میں نفوذ کرجائے اور برگ و بار لائے۔ اُنہوں نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ ان کے والد جناب عبدالوہاب﷫ اپنے نورِنظر کی حق پرستی اور علمی وجاہتوں سے اتنے خوش ہوئے کہ اُنہوں نے خود نماز پڑھانی موقوف کردی اوراپنے داعی الیٰ اللہ بیٹے کو آگے بڑھاکر اِمامت کے مُصلے پر کھڑا کردیا۔ شیخ ﷫ نے اپنے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور عیینہ کے رہنے والوں کے علاوہ دور و نزدیک کے تمام اکابر و اصاغر کو اصل دین کی طرف رجوع کی دعوت دی۔ موصوف کا خیال تھا کہ بااثر حکام کی مدد حاصل کیے بغیر دعوت کا کام آگے نہیں بڑھے گا، چنانچہ اُنہوں نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو قبولِ حق کی دعوت دی تو اُس نے خوش سے قبول کرلی لیکن ملال کی بات یہ ہے کہ وہ اس عظیم دعوت پر استقامت نہ دکھا سکا۔ شیخ نے عثمان بن معمر کو اپنی رفاقت میں رکھ کر نماز باجماعت کا اہتمام کیا جو پہلے اس علاقے میں مفقود تھا۔ نماز نہ پڑھنے والوں اورجماعت کا التزام نہ کرنے والوں کے لیے سزائیں تجویز کیں۔ شرک و بدعت کے اڈّوں کا صفایا کردیا۔جن درختوں کی پوجا کی جاتی تھی وہ کٹوا دیئے اورجن قبروں اور قبوں کو ملجا و ماویٰ سمجھا جاتاتھا، اُنہیں ڈھا دیا۔ یہ کوئی انوکھا اقدام نہیں تھا۔ حضرت عمر نے بھی بہت سے دینی مصالح کی بنا پر وہ درخت کٹوا دیا تھا جس کی چھاؤں میں جناب رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعتِ رضوان ہوئی تھی۔ پکّی قبروں اور قبوں کو مسمار کرنے کے بارے میں علامہ ابن حجر ہیثمی﷫ اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر میں فرماتے ہیں:
وتجب المبادرة لهدمها وهدم القباب التي علىٰ القبور إذ هي أضر من مسجد الضرار (الزواجر عن اقتراف الکبائر، ج١ص ١٤٩، کبیرہ گناہ نمبر ٩٣تا ٩٨)یعنی ''قبروں اور ان پر بنے ہوئے قبوں کو فوراً مسمار کردینا چاہیے، اس لیے کہ یہ'مسجد ضرار' سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔''
واضح رہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب ﷫زیارتِ قبور کے خلاف نہیں تھے۔ وہ ان مشرکانہ رسوم اورخرافات کے خلاف تھے جو قبروں اور آستانوں پر روا رکھی جاتی تھیں۔ اسی موقع پر آپ نے تبلیغی رسالے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو مرتے دم تک جاری رہا۔عیینہ میں اصلاح عقیدہ و عمل کا کام آہستہ آہستہ پھیلتا جارہا تھا کہ ایک دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک لڑکی کسی کمزور لمحے میں جوانی کی بھول کا شکار ہوگئی۔ یہ لڑکی شادی شدہ تھی۔ اپنے گناہ پر بہت نادم ہوئی۔ شیخ کی خدمت میں پہنچی۔ سارا ماجرا سنایا اور سبیل نجات کی خواہش ظاہر کی۔ شیخ اس لڑکی کی روداد سن کر سنّاٹے میں آگئے۔ اُنہوں نے اس المیے کے تمام پہلوؤں کی چھان پھٹک کی اوراس بدقسمت لڑکی پر بار بار جرح کرتے رہے۔ وہ ہٹ کی پکّی تھی، ٹلی نہیں۔ رہ رہ کر اقرارِ گناہ کرتی رہی،چنانچہ شیخ نے سنگساری کا فیصلہ سنا دیا اور علاقے کے مسلم حاکم عثمان بن معمر نے مسلمانوں کی ایک جماعت کےساتھ اس لڑکی کو سنگسار کردیا۔لڑکی کے سنگسار ہوجانے کی خبر سارے نجد میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔اس زمانے میں یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا، جس نے سنا دم بخود رہ گیا۔ خاص طورپر وہ مالدار لوگ بہت گھبرائے جو زر خرید عیاشیوں سے رت جگے کرتے تھے۔ اللہ اللہ! ربّ العزت کےاحکام کی تعمیل میں کس قدر برکتیں اور خیر کثیر چھپی ہوئی ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ان حکموں میں چھپی ہوئی زبردست حکمتیں اور فیوض و برکات بھی عیاں نہیں ہوتے۔ اس کااندازہ اسی سنگساری کے واقعے سے لگائیے کہ جونہی یہ واقعہ رونما ہوا، سابقہ حالت یکسر بدل گئی اور شیخ محمد بن عبدالوہاب﷫ کی دعوت گھر گھر پھیل گئی ۔ پہلے کوئی شیخ کی بات پر توجہ نہیں دیتاتھا، اب سبھی شیخ کی طرف متوجہ ہوگئے اور ہر جگہ انہی کی تحریک کاچرچا ہونے لگا۔ہوتے ہوتے یہ خبر حکامِ بالا کو پہنچی۔احساء و قطیف کا حاکم اعلیٰ سلیمان بن محمد عزیز حمیدی بدمعاش اور عیاش آدمی تھا۔ اِسے یہ خبر سن کر بڑاغصہ آیا۔ اس نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو فوراً لکھا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ہاں ایک مولوی شرعی فیصلے لاگو کررہا ہے ۔ اسے فوراً قتل کردو، ورنہ ہم تمہیں جو سالانہ بارہ سو دینار اور دیگر امداد بھیجتے ہیں، وہ بند کردی جائے گی۔ عثمان بن معمر یہ حکم نامہ پاکر سراسیمہ ہوگیا۔ اسے اپنے منصب اوردرہم و دینار چھن جانے کا خطرہ لاحق ہوا تو اس نے شیخ محمد کو عیینہ سے باہر نکل جانے کا حکم دے دیا۔
اس تمام عبارت کو پڑھنے کے بعد محدث فورم پر ایک موحد نے اسی ضمن یہ سوال کیا کہ :
حکومتِ عثمانیہ اسلامی حکومت کے دعویدار ہونے کی بنا پر لوگوں سے زیادہ قریب تھی۔ اس نے ہم سے اسلام اور مسلمانوں کے نام پر کئی شدید جنگیں کیں۔ ہر طرف سے ہمارا محاصرہ کرلیا۔ مدحت پاشانے قطیف اوراحساء کی جانب سے ہم سے جنگ کی، حجاز اوریمن کی طرف سے لشکرِ جرار کی چڑھائی کرادی، شمالی جانب سے عثمانی لشکر چڑھ آیا، ہمیں نیست و نابود کرنےاور اندر خانہ مارنے کے لیے ہر جانب سے محاصرہ کرلیا گیا۔ کیسی کیسی جھوٹی باتیں گھڑی گئیں، غلط باتوں کی کیسی دھول اُڑائی گئی۔ دعوت جس کو تحریک وہابیت کانام دیا گیا، اسے نیا مذہب بتایا گیا۔ امام محمد بن عبدالوہاب﷫ پر تہمت لگائی گئی کہ وہ تحریک وہابیت کی ایک نئی بدعت لے کر آئے ہیں اور وہابیوں سے جنگ کرنا فرض ہے، پھر خوبصورت الفاظ سے کانوں کو دھوکے دیئے گئے۔ ہم سے جنگ کی گئی۔ بھولے بھالے اورکم عقل عوام کو ہمارے خلاف بہکایا گیا۔ وہ دھوکا کھاگئے اور حکومت کی باتوں میں آکر ہم سے دشمنی کرنےلگے۔ لیکن ان تمام باتوں کی باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح و نصرت عطا فرمائی۔ اس دور میں اوروں نے بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کیا، ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا اوردین ہی کے نام پر ہمیں ختم کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان پر کامیابی عطا فرمائی اور اپنے کلمے کو بلند و بالا رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے قوت توحید سے جو دلوں میں ہے اور طاقت ایمان سے جو سینوں میں ہے، ہماری مدد فرمائی۔ترکوں کے زیر اہتمام مصر سے رقوم آتی تھیں اورمزاروں کے مجاوروں اورمتولّیوں میں بانٹی جاتی تھیں۔ لوگوں کی گزر بسر مزاروں ، قبروں اور آستانوں کی مجاوری ، گداگری اور لوٹ کھسوٹ پر موقوف تھی۔
کلمہ گو سے جہاد کا یہ ثبوت نہیں ہے ؟زرداری اور بے نظیر کا اجمیر اور سیہون کے "مندروں" کے لیے نذرانہ یہی کام نہیں ؟
نواز شریف اور شہباز شریف کا داتا کے "مندر" اور پاکپتن کے مندروں کی تعمیر اور نذرانہ یہیں کام نہیں ؟
اس وقت محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام پچاس ہزار "مندر" چل رہے ہیں
اگر ان وجہوں سے ترکوں یعنی حکومت عثمانیہ سے جہاد ہو سکتا ہے تو آج کے حکمرانوں سے کیوں نہیں ؟
مرجئہ کے چوزوں کو ہم ایک اور تحریر سے نصیحت کرتے ہیں کہ وہ علمائے حدیث کا احترام کرنا سیکھیں اور ان کی بات کو غور سے سنیں اور سمجھیں اور پھر اس پر عمل کریں ۔ مجاہدین اسلام نے ان علماء حدیث کے فتاویٰ کو پڑھا ان پر غوروفکر کیا پھر اپنی ایمانی غیرت کے مطابق ان فتاویٰ پر عمل کرنے کی کوشش اپنی استطاعت کے مطابق کی ۔جبکہ مرجئہ کے چوزے مجاہدین کے اس فعل پر ان کو متہم کرتے رہے:
مختصر بات!
یہ ہے کہ قبروں کا پختہ بنانا اور اُن پر قبے تعمیر کرنا خلاف قرآن و حدیث اور خلاف مذہب حنفی اور مخالف فتاوائے علماء کرام ہے۔اور یہ ظاہر ہے کہ جو کام ناجائز ہے۔اس کا جاری رکھنا بھی نا جائز ہے۔جیسے نماز بے وضو پڑھنا۔ناجائز ہے۔اسی طرح شروع کر کے اسے جاری رکھنا بھی ناجائز ہے۔
نتیجہ صاف ہے۔
کہ قبروں پر اگر قبے بنائے گئے ہیں۔تو بااختیار شخص ان کو گرادے تو حرج نہیں۔کیونکہ حدیث شریف میں ہے۔
من راي منكم منكرا فليغيره بيده وان لم يستطع فبلسا نه وان كم يستطع فبقلبه وليس وراء ذلك من الايمان
یعنی جو کوئی ناجائز کام دیکھے اگر اُس کو اختیار اور طا قت ہے۔تو اسے ہاتھ سے بدلے (یہ درجہ زی اختیار اشخاص کا ہے جن کے ایسا نہ کرنے پر فتنہ فساد نہ ہو)اور اگر ہاتھ کی طاقت نہیں تو زبان سے روکے۔( یہ درجہ عالم علماء واعظین کا ہے۔)اور اگر کسی کے جبر و ظلم کے دبائو میں زبان سے بھی نہیں روک سکتا۔تو دل ہی دل میں اس کو برا جانے(یہ سب آخری درجہ ہے۔)اس کے بعد ایمان کی حیثیت سے کئی درجے ہیں۔
افواج نجدیہ نے:
جو مکہ مکرمہ میں قبروں اور مزارات پر سے قبے گرائے تو اسی حدیث کے ماتحت گرائے ہوں گے۔
اُن کو کہا گیا کہ تمہارے ایسا کرنے پر ہندوستان مسلمان خفا ہوں گے۔تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کام میں خدا کی رضا منظور ہے۔ سچ ہے۔

ہو گیا کیا دشمن اگر سارا جہاں ہو جائے گا۔
جب کہ وہ با مہر ہم پر مہرباں ہو جائے گا۔​

آج ہم مرجئہ کے چوزوں سے پوچھتے ہیں کہ اس دور میں ایک مومن کس طرح مندرجہ بالا حدیث پر عمل کرے جب علی ہجویری کے مزار کو ڈھانے کے لئے آلات لے کر جائے گاتو اس موحد کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور وہ کیسے ان شرک کے اڈوں کو منہدم کرسکے گا۔اس حدیث پر کیسے عمل ہوگا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو منکر کو مٹانے کے لئے ہاتھ کی قوت کو استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔جو کہ مجاہدین کے پاس ہے ۔ الحمد للہ ۔اے مرجئہ کے چوزے جب مجاہدین اس مزار کو اللہ کی دی ہوئی مدد اور قوت کے ساتھ تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو تم ان پر اپنے ارجائی فتاویٰ کی بارش کردیتے ہو ۔ان کو اسلام سے خارج کرنا شروع کردیتے ہو۔ اب تم ہی بتاؤ کہ یہ شرک کے اڈے کس طرح ختم ہوں گے ۔ ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والے لٹیرے جو ان شرک کے اڈوں میں موجود ہیں وہ کس طرح ختم ہوں گے ۔ عورتوں کی عصمتوں کو لوٹنے والے لٹیرے جو کہ ان شرک کے اڈوں میں بنائے گئے تہہ خانوں اور خفیہ کمروں میں موجود ہیں کس طرح ختم کیے جائیں گے ؟ ان مزارات پر عورتوں کی لٹتی عوئی عصمتوں کو کس طرح بچایا جاسکتا ہے؟​
 
Top