ہدایت اللہ فارس
رکن
- شمولیت
- فروری 21، 2019
- پیغامات
- 53
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 56
1۔ علمائے کوفہ کے نزدیک یہ محذوف فعل "مقدم" ہے، جس کی اصل " ابدأ بسم الله الرحمن الرحيم " ہے، یعنی میں اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔
2۔ بصریین کے نذدیک یہ محذوف فعل نہیں بلکہ اسم مقدم ہے ، اس لحاظ سے اصل یوں ہے " ابتدائي كائن بسم الله الرحمن الرحيم" یعنی میرا شروع کرنا اللہ کے نام کے ساتھ قائم ومستقر ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان دونوں اقوال کو صحیح قرار دیا ہے، اور کہا کہ دونوں کا استعمال قرآن مجید میں ہوا ہے۔(تفسیر القرآن العظیم ١/ ١٩ )
جنہوں نے اسم کو مقدم مانا ہے ان کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے" وَقَالَ ٱرۡكَبُوا۟ فِیهَا بِسۡمِ ٱللَّهِ مَجۡرٜىٰهَا وَمُرۡسَىٰهَاۤ...." جو اس پر دلالت کرتی ہے۔
اور جنہوں نے فعل کو مقدم مانا ہے وہ بھی صحیح ہے، ان کے مؤقف کی تائید قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ "إقۡرَأۡ بِٱسۡمِ رَبِّكَ ٱلَّذِی خَلَقَ " کرتی ہے۔
چونکہ کسی بھی فعل کے لیے مصدر کا ہونا ضروری ہے اور فعل جو کہ مصدر سے ہی بنتا ہے(راجح قول کے مطابق) سو یہ اختیار ہے، چاہے تو فعل کو محذوف مانا جائے یا اس کے مصدر کو۔
علامہ زمخشری فرماتے ہیں کہ فعل محذوف کو مؤخر مانا جائے، اور جس نوعیت کا کام ہو اسی معنی کا فعل محذوف تصور کیا جائے مثلا قرآن کی تلاوت مقصود ہو یا کچھ اور پڑھنا ہو تو " بسم اللہ اتلو أو أقرأ۔۔۔ "اسی طرح سے کھانے والا کہے "بسم اللہ آکل" وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے فعل محذوف کو مؤخر اس لیے قرار دیا ہے تاکہ عمل کے ذکر سے پہلے اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک مذکور ہوجائے، اس سے ایک تو اختصاص کا فائدہ حاصل ہوتا ہے، یعنی ہر کام کی ابتدا اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کے ساتھ ہی مختص ہے اس کے علاوہ کسی اور کے ذکر کی مجال نہیں۔
دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم اس بات کے متقاضی ہے کہ اپنے کام کے ذکر سے پہلے اس ذات وحدہ لا شریك له کے نام کا ذکر کیا جائے، جس کی توفیق کے بغیر نہ تو کسی کام کی ابتدا ممکن ہے اور نہ تکمیل۔
تیسرا یہ کہ ترتیب وجودی کی مطابقت بھی اسی میں ہے، چنانچہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود مبارک ہر چیز پر مقدم ہے، لہذا ابتداء کے تعلق سے عمل کے ذکر سے پیشتر اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کا ذکر ہونا چاہیے۔
(الکشاف ١ / ٤٧۔ ٤٨ )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے (مجموع الفتاوی ١٠ / ٢٣١ ) اور یہی بات شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے (شرح العقيدة الواسطية ١ / ٣٧- ٣٨ )
واللہ أعلم بالصواب
ہدایت اللہ فارس
جامعہ نجران سعودیہ عربیہ
2۔ بصریین کے نذدیک یہ محذوف فعل نہیں بلکہ اسم مقدم ہے ، اس لحاظ سے اصل یوں ہے " ابتدائي كائن بسم الله الرحمن الرحيم" یعنی میرا شروع کرنا اللہ کے نام کے ساتھ قائم ومستقر ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان دونوں اقوال کو صحیح قرار دیا ہے، اور کہا کہ دونوں کا استعمال قرآن مجید میں ہوا ہے۔(تفسیر القرآن العظیم ١/ ١٩ )
جنہوں نے اسم کو مقدم مانا ہے ان کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے" وَقَالَ ٱرۡكَبُوا۟ فِیهَا بِسۡمِ ٱللَّهِ مَجۡرٜىٰهَا وَمُرۡسَىٰهَاۤ...." جو اس پر دلالت کرتی ہے۔
اور جنہوں نے فعل کو مقدم مانا ہے وہ بھی صحیح ہے، ان کے مؤقف کی تائید قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ "إقۡرَأۡ بِٱسۡمِ رَبِّكَ ٱلَّذِی خَلَقَ " کرتی ہے۔
چونکہ کسی بھی فعل کے لیے مصدر کا ہونا ضروری ہے اور فعل جو کہ مصدر سے ہی بنتا ہے(راجح قول کے مطابق) سو یہ اختیار ہے، چاہے تو فعل کو محذوف مانا جائے یا اس کے مصدر کو۔
علامہ زمخشری فرماتے ہیں کہ فعل محذوف کو مؤخر مانا جائے، اور جس نوعیت کا کام ہو اسی معنی کا فعل محذوف تصور کیا جائے مثلا قرآن کی تلاوت مقصود ہو یا کچھ اور پڑھنا ہو تو " بسم اللہ اتلو أو أقرأ۔۔۔ "اسی طرح سے کھانے والا کہے "بسم اللہ آکل" وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے فعل محذوف کو مؤخر اس لیے قرار دیا ہے تاکہ عمل کے ذکر سے پہلے اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک مذکور ہوجائے، اس سے ایک تو اختصاص کا فائدہ حاصل ہوتا ہے، یعنی ہر کام کی ابتدا اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کے ساتھ ہی مختص ہے اس کے علاوہ کسی اور کے ذکر کی مجال نہیں۔
دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم اس بات کے متقاضی ہے کہ اپنے کام کے ذکر سے پہلے اس ذات وحدہ لا شریك له کے نام کا ذکر کیا جائے، جس کی توفیق کے بغیر نہ تو کسی کام کی ابتدا ممکن ہے اور نہ تکمیل۔
تیسرا یہ کہ ترتیب وجودی کی مطابقت بھی اسی میں ہے، چنانچہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود مبارک ہر چیز پر مقدم ہے، لہذا ابتداء کے تعلق سے عمل کے ذکر سے پیشتر اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کا ذکر ہونا چاہیے۔
(الکشاف ١ / ٤٧۔ ٤٨ )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے (مجموع الفتاوی ١٠ / ٢٣١ ) اور یہی بات شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے (شرح العقيدة الواسطية ١ / ٣٧- ٣٨ )
واللہ أعلم بالصواب
ہدایت اللہ فارس
جامعہ نجران سعودیہ عربیہ