• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ رویت ہلال سے متعلق محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا فیصلہ

شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مسئلہ رویت ہلال پر احباب نے خوب بحث کی ہے ذرا اس باب میں محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی رائے بھی جان لیتے ہیں:


ترجمہ:

سوال: کیا افریقہ میں رہنے والے ایشیاء میں رہنے والوں کی رویت کے مطابق روزہ رکھ سکتے ہیں، یا پھر اسی طرح (ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے کی رویت پر اعتبار کر سکتے ہیں)؟

جواب: اس مسئلہ میں اصل نبی علیہ السلام کا قول:" صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته" "اْس (چاند) کی رویت پر تم لوگ روزہ رکھو اور اس کی رویت پر إفطار کرو (عید الفطر کرو)"
یہ خطاب پوری امت سے خطاب ہے ، جو مشرق میں رہتے ہیں وہ بھی اور جو مغرب میں رہتے ہیں وہ بھی مخاطب ہیں لیکن اس امر کی تطبیق اْس دن (نبی علیہ السلام کے وقت میں) اس قدر آسان نہ تھی جس قدر آج ہے۔
نبی علیہ السلام نے مختلف علاقوں کا ذکر نہیں کیا (یعنی یہ نہیں فرمایا کہ تمام علاقوں والے اپنی اپنی رویت کے مطابق روزہ اور عید کریں) جس طرح کہ بعض علماء اس موقف کی طرف گیے ہیں کہ ہر علاقے کی اس کی اپنی رویت ہے، پس یہ بات انہوں نے اپنے اجتہاد سے کہی تھی کیونکہ وہ اپنے دور میں نبی علیہ السلام کے اس فیصلے کو عام طور پر (تمام عالم اسلام میں) نافذ کرنے سے عاجز تھے۔
جہاں تک ہمارے دور کا تعلق ہے تو آج پوری دنیا میں ایک ہی وقت میں رویت ہلال کا اثبات ممکن ہے (یعنی رویت کی اطلاع دنیا بھر میں فورا فورا پہنچانا ممکن ہے) پس دنیا کے جس کسی علاقے میں بھی رویت ثابت ہو جائے تو جس کسی کو رویت کی اطلاع مل جائے اس پر واجب ہے کہ وہ روزہ رکھے۔یہ (توحید رویت) ان کیلئے تفریق اور افراط وتفریط میں مبتلا ہونے سے زیادہ بہتر ہے۔
البتہ آج کے دور میں یہ معاملہ اسلامی حکومتوں سے متعلق ہے، پس ان پر لازم ہے کہ وہ توحید صوم کو عمل میں لائیں یہاں تک کہ اہل اسلام اس افراط و تفریط سے نجات حاصل کرلیں۔

فتاوى المدينة: 127
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
شیخ البانی رحمہ اللہ کا فیصلہ تو بالکل واضح ہے لیکن اگر پھر بھی کسی بھائی کو اشکال ہو یا کوئی سوال ہو تو ضرورلکھے ہم بإذن اللہ تعالی کوشیش کریں گے کہ اس کو رفع کریں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
شیخ البانی رحمہ اللہ کا فیصلہ تو بالکل واضح ہے لیکن اگر پھر بھی کسی بھائی کو اشکال ہو یا کوئی سوال ہو تو ضرورلکھے ہم بإذن اللہ تعالی کوشیش کریں گے کہ اس کو رفع کریں۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کے موقف کو بیان کرنے میں انصاف سے کام نہیں لیا گیاہے ۔
کیونکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنے اس فتوی پر عمل کو اس بات سے مشروط کیا ہے کہ پوری دنیا کے اسلامی ممالک اس ایک ہی موقف کے قائل ہوجائیں ۔
یعنی جب تک پوری دنیا کے لوگ اس موقف پر متفق نہ ہوں تب تک اس فتوی پر عمل کرنا خود علامہ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک درست نہیں ۔

چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإلى أن تجتمع الدول الإسلامية على ذلك فإني أرى على شعب كل دولة أن يصوم مع دولته ولا ينقسم على نفسه فيصوم بعضهم معها وبعضهم مع غيرها ممن تقدمت في صيامها أو تأخرت لما في ذلك من توسيع دائرة الخلاف في الشعب الواحد كما وقع في بعض الدول العربية منذ بضع سنين والله المستعان [تمام المنة ص: 398]


میرے خیال سے علامہ البانی رحمہ اللہ کے مشروط فتوی پر عمل ناممکن ہے کیونکہ پوری دنیا کے مسلمان اس پر کبھی متفق ہوہی نہیں سکتے ان شاء اللہ ۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یہ ہمارے لئے مقام عبرت ہے۔۔۔
کہ جب اہل علم حضرات ہی علمی ناانصافیاں کرنے لگیں تو کیا، کیا جائے۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔
شیخ کفایت اللہ سلمہ اللہ۔۔۔
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
علامہ البانی رحمہ اللہ کے موقف کو بیان کرنے میں انصاف سے کام نہیں لیا گیاہے ۔
کیونکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنے اس فتوی پر عمل کو اس بات سے مشروط کیا ہے کہ پوری دنیا کے اسلامی ممالک اس ایک ہی موقف کے قائل ہوجائیں ۔
یعنی جب تک پوری دنیا کے لوگ اس موقف پر متفق نہ ہوں تب تک اس فتوی پر عمل کرنا خود علامہ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک درست نہیں ۔

چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإلى أن تجتمع الدول الإسلامية على ذلك فإني أرى على شعب كل دولة أن يصوم مع دولته ولا ينقسم على نفسه فيصوم بعضهم معها وبعضهم مع غيرها ممن تقدمت في صيامها أو تأخرت لما في ذلك من توسيع دائرة الخلاف في الشعب الواحد كما وقع في بعض الدول العربية منذ بضع سنين والله المستعان [تمام المنة ص: 398]

میرے خیال سے علامہ البانی رحمہ اللہ کے مشروط فتوی پر عمل ناممکن ہے کیونکہ پوری دنیا کے مسلمان اس پر کبھی متفق ہوہی نہیں سکتے ان شاء اللہ ۔
محترم کفیت اللہ صاحب اگر آپ مجھ پر ناانصافی کا الزام لگانے سے پہلے شیخ البانی رحمہ اللہ کے فتوے کو غور سے پڑھ لیتے تو آپ ناانصافی والی بات کبھی نہ کرتے کیونکہ شیخ صاحب کی رائے کے متعلق جو بات آپ نے کی ہے وہ ان کے فتوے میں پہلے سے موجود ہے جس کا ذکر میں ترجمہ میں نے اپنے علم کے مطابق پوری دیانت داری سے کیا ہے۔ آپ کیلئے وہ عبارت پھر سے پیش خدمت ہے: "لكن الأمر في الواقع يتعلق بالحكومات الإسلامية فهي التي عليها أن توحد الصوم حتى تنجو الشعوب الإسلامية من أن يقعوا في هذه البلبلة" "لیکن فی الواقع یہ معاملہ اسلامی حکومتوں سے متعلق ہے پس یہ ان کا کام ہے کہ وہ روزوں میں وحدت پیدا کریں یہاں تک کہ اہل اسلام کو اس افراط و تفریط سے نجات حاصل ہو جس میں وہ مبتلا ہیں"

غور فرمائے شیخ صاحب کے فتوے میں جس شرط کا ذکر فرما کر آپ مجھ پر ناانصافی کا الزام لگا رہے تھے وہ شرط تو میں پہلے ہی شیخ صاحب کے فتوے کے ترجمے میں ذکر کر چکا ہوں۔ ویسے میں نے اس بار ترجمے کو بہتر کرنے کی کوشیش کی ہے لیکن اگر پھر بھی آپ اس میں کوئی کمی دیکھتے ہیں تو ضرور میری تصحیح فرمائے میں آپ کو اپنا خیر خواہ سمجھوں گا۔

شیخ صاحب کے فتوے میں ایک اور بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ اختلاف مطالع کا اعتبار کر کے الگ الگ روزہ اور عید کرنے کو شیخ صاحب "البلبلة" یعنی تفریق اور افراط و تفریط سے تعبیر فرما رہے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ شیخ صاحب نے اس معاملے کی ذمہ داری اسلامی حکومتوں پر عائد کی ہے نہ کہ موجودہ دور کے مسلمان ممالک پر جن میں سے اکثر کے ہاں نظام حکومت غیر اسلامی ہے۔ البتہ آپ کے آخری جملے سے متعلق مجھے یہ تشویش ہے کہ شاید آپ کی یہی خواہش ہے کہ مسلمان ممالک میں ایسی اسلامی حکومتیں قائم ہی نہ ہوں جو امت کے روزے اورعید میں وحدت قائم کریں۔ شاید اسی لئے آپ نے فرمایا: "میرے خیال سے علامہ البانی رحمہ اللہ کے مشروط فتوی پر عمل ناممکن ہے کیونکہ پوری دنیا کے مسلمان اس پر کبھی متفق ہوہی نہیں سکتے ان شاء اللہ"

کلمہ 'ان شاء اللہ' کہہ کر آپ کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں؟ وضاحت درکار۔۔۔۔۔
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
یہ ہمارے لئے مقام عبرت ہے۔۔۔
کہ جب اہل علم حضرات ہی علمی ناانصافیاں کرنے لگیں تو کیا، کیا جائے۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔
شیخ کفایت اللہ سلمہ اللہ۔۔۔
بلا دلیل شخصی تنقید اور الزام تراشی کرنے سے بہتر تھا کہ آپ اس موضوع پر علمی گفتگو فرماتے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بلا دلیل شخصی تنقید اور الزام تراشی کرنے سے بہتر تھا کہ آپ اس موضوع پر علمی گفتگو فرماتے۔
میں نہیں کررہا ہے۔۔۔
آپ کی تحقیق سے متفق نہیں بس۔۔۔
جس حدیث کا حوالہ آپ دے رہے ہیں ہم بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔۔۔
شاید بس سمجھنے کا فرق ہے۔۔۔
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
اس مسئلہ ميں دلائل كے ساتھ ہمارے ليے تو يہى كچھ ظاہر ہوا ہے، جو كہ مطلع جات مختلف ہونے ميں حكم بھى مختلف ہونے ميں راجح قول پر مبنى ہے، اور يہ كہنا كہ اس سے حكم مختلف نہيں ہوتا اور جب بھى كسى جگہ چاند كى شرعى رؤيت ثابت ہو جائے سب لوگوں پر روزہ ركھنا، يا عيد الفطر منانا لازم ہو جاتى ہے، تو پھر چاند كے ثابت ہونے پر حكم جارى ہوتا ہے، ليكن وہ سرى طور پر روزہ ركھے يا نہ ركھے، تا كہ جماعت كى مخالفت نہ ہو " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 19 / 69 )-
عرب دنیا کی معاصر علمی شخصیات میں سے اگر میں ذاتی طور پر کسی شخص سے شدید طور پر متاثر ہوں تو "فقیہ العصر العلامۃ الأصولی الشیخ ابن عثیمین قدس الله روحه" ہیں۔ مسئلہ زیر بحث میں شیخ محترم کی رائے کا مجھے بخوبی علم ہے، شیخ کا موقف وہی ہے جو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا تھا کہ جن شہروں کا مطلع متفق ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کی رویت کو قبول کریں گے لیکن جن شہروں کا مطلع مختلف ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کی رویت قبول نہیں کریں گے۔

یہ تو ہوا شیخین کا موقف، اب آپ فرمائے کہ آپ کیا اسی موقف کے حامل ہیں:"جن شہروں کا مطلع متفق ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کی رویت کو قبول کریں گے لیکن جن شہروں کا مطلع مختلف ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کی رویت قبول نہیں کریں گے۔ "؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
یہ ٹھریڈ خاص علامہ البانی رحمہ اللہ کے موقف سے متعلق شروع کیا گیا ہے اس لئے یہاں صرف علامہ البانی رحمہ اللہ ہی کے موقف پر بات ہونی چاہے۔

اس کے برخلاف دیگر اہل علم کے فتاوی کیا ہیں اور کس کی کیا دلیل ہے ان سب پر مشتمل مراسلات کو درج ذیل تھریڈ کے تحت الگ کردیا ہے:

 
Top