میں اپنی طرف سے اس موضوع پر کچھ کہنے کی حالت میں نہیں ہوں ۔
البتہ
جامعہ اسلامیہ میں ایک تحقیقی رسالہ اس موضوع پر موجود ہے ، جس میں واقدی اور اس کے مغازی کا دقت نظر سے مطالعہ کیا گیا ہے ، محقق جس نتیجہ پر پہنچا ہے اس کا
خلاصہ یوں بیان کیا گیا ہے :
الخاتمة: وبعد دراستي للواقدي وكتابه المغازي توصلت إلى نتائج عدة منها ما يلي:
1- أن القول الراجح في مولد الواقدي أنه ولد سنة ثلاثين ومائة للهجرة.
2- أن الواقدي يعتبر من بحور العلم وأحد الحفاظ المشهورين، ولذلك يمكن أن يقال أنه أحد الموسوعات العلمية في تاريخ الإسلام.
3- ظهر لي من خلال الكلام على مصنفات الواقدي، أن كتاب المغازي هو الكتاب الوحيد الذي وصل إلينا من كتب الواقدي وما عداه فقد سبق الإشارة إلى عدم صحة ثبوت نسبتها إليه.
4- أن الواقدي يعتبر ضعيفا في الحديث، ولكن يكتب حديث ويروي، وقول من أهدره فيه مجازفة من بعض الوجوه، كما أن الظاهر عدم اتهامه بالوضع كما قال الذهبي.
5- أن للواقدي منهجا خاصا في الرواية التاريخية يختلف من منهج أئمة الحديث، فلا مانع عنده من أن يروي عن شخص مجهول إذا كان الحديث وقع في سلفه أو أحد أفراد عشيرته، أما أئمة الحديث فلا يروون إلا عن الثقة المعروف بالعدالة والصدق، ولعل هذا من أسباب تضعيفه عند المحدثين.
6- إن استخدام الإسناد الجمعي لم ينفرد به الواقدي بل عمل به غيره، ولكن الواقدي أكثر منه، فلعل هذه الكثرة هي التي أوثقته أحيانا بما نسب إليه من تركيب الأسانيد كما سبق بيان ذلك.
7- إن الواقدي يعتبر إماما ورأسا في المغازي والسير لا يستغنى عنه في هذا الباب، فهو أحد أئمة هذا الشأن الكبار، وهذا محل إجماع بين أهل السير والتراجم.
8- ظهر لي عدم صحة اتهام الواقدي بالتشيع.
9- تبين لي أن الواقدي كتب مغازيه في المدينة النبوية قبل انتقاله إلى بغداد وصلته الوثيقة ببعض خلفاء بني العباس، وهذا يسقط ما زعمه هوروفتس من تأثير هذه الصلة على مروياته في المغازي.
10- أن القول الراجح في تاريخ وفاة الواقدي هو ما ذكره تلميذه ابن سعد حيث قال عنه: " فلم يزل قاضيا حتى مات ببغداد ليلة الثلاثاء لإحدى عشرة ليلة خلت من ذي الحجة سنة سبع ومائتين ودفن يوم الثلاثاء في مقابر الخيزران، وهو ابن ثمان وسبعين سنة"
11- إن كتاب المغازي يعتبر مصدرا مهما من مصادر السيرة النبوية.
12- عدم صحة تهمة سطو الواقدي على سيرة ابن إسحاق.
13- جودة عرض الواقدي للمادة العلمية وتنظيمها في كتابه المغازي.
14- ضبط الواقدي لتاريخ الغزوات والسرايا النبوية.
15- إن الواقدي قام بتحديد موقفه عند كثير من مسائل الخلاف بذكر الراجح عنده.
16- اهتمام الواقدي بالدراسة الميدانية للمواقع الجغرافية في المغازي والسرايا النبوية مما يجعله مصدرا مهماً في هذا المجال.
17- إيراد الواقدي بعض الإضافات العلمية في كتابه المغازي وقد عقدت لإبرازها فصلاً كاملاً مما يدل على سعة علمه وتنوع ثقافته.
آپ کے سوال سے تعلق رکھنے والی بات اس میں یہ ہے کہ
- واقدی روایت حدیث میں ضعیف ہے ، لیکن اس کا ضعف اس قدر شدید نہیں کہ اس کی روایت کو کلیتا چھوڑ دیا جائے ۔
- واقدی کو جھوٹے ہونے کا الزام دینا بھی درست محسوس نہیں ہوتا ۔
- واقدی مغازی و سیرت بیان کرنے میں جلیل القدر ائمہ میں سے ہے ، اس سلسلے میں اس کی قدر و منزلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
- واقدی کی کتاب سیرت نبوی پر لکھی گئی کتابوں میں خاص اہمیت کی حامل ہے ۔
آپ کی اس تحقیق کا یہ جواب دیا گیا
جرح و تعدیل کی کتب میں احمد کا واقدی کے لئے یہ قول بھی ملتا ہے جس کو الذھبی سیر الاعلام میں لکھتے ہیں
الدُّوْلاَبِيُّ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بنُ صَالِحٍ، قَالَ لِي أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: الوَاقِدِيُّ كَذَّابٌ.
امام دولابی (المتوفی ٣٢٠ ھ) کہتے ہیں کہ معاویہ بن صالح (بن أبي عبيد الله المتوفی ٢٦٣ ھ) کہتے ہیں مجھ سے امام احمد نے کہا واقدی کذاب ہے
لیکن ابو بشر دولابی اہل رائے میں سے تھے جن سے امام احمد کو چڑ تھی. کیا ان کی بات، امام احمد کے حوالے سے دلیل بن سکتی ہے ؟ اسی حوالے کو بعد میں لوگوں نے جرح و تعدیل کی کتابوں میں لکھا ہے.
کتاب الکنی و الاسماء از الدولابی میں خود واقدی کے اقوال نقل ہوئے ہیں جس سے لگتا ہے کہ امام دولابی بھی خود واقدی کو مطلقا کذاب نہیں سمجھتے تھے اور احمد کے اس قول کو ثابت نہیں مانتے تھے
ابو داود المتوفی ٢٧٥ ھ کہتے ہیں
وكان أحمد لا يذكر عنه كلمة
احمد، واقدی کی کسی بات کا ذکر نہ کرتے
کسی متنازع شخصیت کا ذکر نہ کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ خود بھی ان کے نزدیک ثقه نہیں. سوال ہے کہ کیا
إبراهيم بن إسحاق بن إبراهيم بن بشير البغدادي ، الحربي المتوفی ٢٨٥ جھوٹ بولتے تھے کیونکہ وہ مسلسل واقدی کے بارے میں امام احمد کے حسن خیال والے حوالے دیتے تھے حتی کہ ان کے مطابق امام احمد، واقدی کو ثقہ جانتے تھے
تاریخ بغداد ج ٤ ص ٢٠ میں ہے
أَخْبَرَنِي إبراهيم بن عمر البرمكي، قَالَ: حَدَّثَنَا عبيد الله بن محمد بن محمد بن حمدان العكبري، قَالَ: حَدَّثَنَا محمد بن أيوب بن المعافى، قَالَ: قَالَ إبراهيم الحربي: سمعت أحمد، وذكر الواقدي، فقال ليس أنكر عليه شيئا، إلا جمعه الأسانيد، ومجيئة بمتن واحد على سياقة واحدة عن جماعة ربما اختلفوا، قَالَ إبراهيم: ولم؟ وقد فعل هذا ابن إسحاق، كان يقول: [ص:25] حَدَّثَنَا عاصم بن عمر وعبد الله بن أبي بكر وفلان وفلان، والزهري أيضا قد فعل هذا قَالَ وسمعت إبراهيم، يقول: قَالَ لي فوران: رآني الواقدي أمشي مع أحمد بن حنبل، قَالَ: ثم لقيني بعد، فقال لي: رأيتك تمشي مع إنسان ربما تكلم في الناس، قيل لإبراهيم: لعله بلغه عنه شيء قَالَ: نعم، بلغني أن أحمد أنكر عليه جمعه الرجال والأسانيد في متن واحد.
قَالَ إبراهيم: وهذا قد كان يفعله حماد بن سلمة، وابن إسحاق، ومحمد بن شهاب الزهري.
ابراہیم الحربی کہتے ہیں میں نے امام احمد کو سنا انہوں نے واقدی کا ذکر کیا پس کہا میں اس کی کسی چیز کا انکار نہیں کرتا سوائے اس کے کہ یہ اسناد کو جمع کر دیتا ہے اور پھر ایک ہی متن بیان کر دیتا ہے ایک جماعت سے جو کبھی کبھی اختلاف کرتی ہیں. ابراہیم نے کہا اور ایسا کیوں جبکہ ایسا محمد بن اسحاق بھی کرتا ہے؟ ابراہیم نے کہا کہ ہم سے عاصم بن عمر اور عبد الله بن ابی بکر اور فلاں فلاں نے روایت کیا کہ امام زہری بھی ایسا ہی کرتے تھے. محمّد بن ایوب کہتے ہیں ابراہیم الحربی کو سنا کہا مجھ سے فوران (عَبْد اللَّه بْن محمد بْن المهاجر، أَبُو محمد البَغْداديُّ المتوفی ٢٦٠ ھ) نے کہا کہ میں نے واقدی کو دیکھا امام احمد بن حنبل کے ساتھ چلتے ہوئے اس کے بعد احمد سے ملا تو کہا میں نے اپ کو ایک ایسے انسان کے ساتھ چلتے دیکھا جس پر کبھی کبھی لوگ کلام کرتے ہیں؟ ابراہیم سے کہا ہو سکتا ہے اس (واقدی) سے کوئی چیز پھنچے! کہا ہاں! مجھ تک پہنچا کہ احمد اس کا انکار رجال اور اسناد ایک متن کے ساتھ بیان کرنے پر کرتے تھے. ابراہیم کہتے ہیں اور ایسا حماد بن سلمہ اور ابن اسحاق اور امام زہری بھی کرتے تھے
امام احمد کو اسناد ایک جگہ جمع کرنے پر اعتراض تھا. واقدی کی کتب ابن سعد کے ہاں پر جمعہ کو جا کر دیکھتے اس کے ساتھ چل قدمی کرتے لہذا اس صحبت کا اثر ان پر ہوا اور شیعیت کے حق میں انہوں نے مسند میں ایک انبار اکھٹا کیا
سیر الاعلام النبلاء ج ١٠ ص ٦٦٥ میں الذھبی لکھتے ہیں
سُلَيْمَانُ بنُ إِسْحَاقَ بنِ الخَلِيْلِ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيْمَ الحَرْبِيَّ يَقُوْلُ:
كَانَ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ يُوَجِّهُ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ بِحَنْبَلٍ إِلَى ابْنِ سَعْدٍ يَأْخُذُ مِنْهُ جُزْأَيْنِ مِنْ حَدِيْثِ الوَاقِدِيِّ يَنْظُرُ فِيْهِمَا.
ابراہیم الحربی کہتے ہیں امام احمد بن حنبل ، حنبل بن اسحاق کے ساتھ ہر جمعہ، ابن سعد کی طرف رخ کرتے اور ان سے واقدی کی حدیثوں کی دو جلدیں لے کر دیکھتے
واقدی ٢٠٧ ہجری میں فوت ہوئے اور امام احمد ٢٤١ ہجری میں فوت ہوئے امام احمد واقدی کی وفات کے بعد ہی ابن سعد کے ہاں جاتے ہوں گے کیونکہ واقدی اور امام احمد دونوں بغداد کے رہائشی تھے. جب تک زندہ رہے واقدی کے ساتھ چل قدمی کرتے وفات کے بعد اس گم گشتہ صحبت کی یاد تازہ کرنے ہر جمعہ کو جاتے. اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ امام احمد کی واقدی کے بارے میں دلچسپی بڑھ رہی تھی
ابراہیم الحربی سن ١٩٨ ہجری میں پیدا ہوئے لہذا واقدی کے حوالے سے امام احمد کے اقوال، امام احمد سے آخری عمر میں سنے ہوں گے کیونکہ واقدی کی وفات کے وقت ابراہیم الحربی ١١ سال کے تھے
الذھبی سیر الاعلام النبلاء ج ٩ ص ٤٥٥ میں لکھتے ہیں
الأَثْرَمُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بنَ حَنْبَلٍ يَقُوْلُ:
لَمْ نَزَلْ نُدَافِعُ أَمرَ الوَاقِدِيِّ حَتَّى رَوَى عَنْ: مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ نَبْهَانَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ:
عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا؟
أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ هَانِئ الإِسْكَافيُّ الأَثْرَم المتوفی ٢٦١ ھ کہتے ہیں
میں نے امام احمد کو سنا کہتے تھے ہم نے واقدی کے کام کا دفاع کرنا نہیں چھوڑا حتی کہ اس نے مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ نَبْهَانَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ: عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے روایت کی کہ کیا تم دونوں اندھیاں ہو
امام احمد کو اعتراض کسی مغازی والی روایت پر نہیں بلکہ ایک حدیث پر تھا
تاریخ بغداد ج ٤ ص ٢٠ میں ہے
إبراهيم بن جابر، قَالَ: حَدَّثَنِي عبد الله بن أحمد بن حنبل، قَالَ: كتب أبي عن أبي يوسف، ومحمد، ثلاثة قماطر، فقلت له: كان ينظر فيها؟ قَالَ: كان ربما نظر فيها، وكان أكثر نظره في كتب الواقدي
ابراہیم بن جابر کہتے ہیں مجھ سے عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے کہا کہ میرے باپ…. اکثر واقدی کی کتب دیکھتے
معلوم ہوتا ہے واقدی امام احمد کی نگاہ میں باوجود متروک ہونے کے پسندیدہ رہے ہیں
سوال ہے کہ ایک مورخ کی کتب جس کی عدالت پر باقی سب جرح کرتے ہوں امام احمد کو کیا استفادہ دے سکتیں تھیں؟ کسی کذاب کی کتاب میں ایسی کیا چیز تھی جس کی وجہ سے وہ اکثر کتاب دیکھتے اور باقاعدہ ہر جمعہ کو جاتے. واقدی کے کام میں امام احمد کی دلچسپی کی نوعیت یہ سمجھ میں اتی ہے کہ انہوں نے وہ واقعات جو واقدی نقل کرتا ہے ان کو اپنی سند سے مسند میں بیان کیا کیونکہ مسند میں انہوں نے واقدی سے کچھ روایت نہیں کیا ہے
واضح رہے کہ هوروفتس نے یہ دعوی نہیں کیا کہ امام احمد نے باوجود واقدی کو کذاب کہنے کے مسند میں اس سے روایت کیا ہے بلکہ یہ کہا ہے واقدی کی بیان کردہ روایات اور مسند احمد میں مماثلت ہے جو غلط بھی نہیں کیونکہ واقدی پر شیعیت کا الزاام ہے اور امام احمد نے شیعیت کے حق میں کافی روایات مسند میں جمع کی ہیں دیکھئے بلاگ
هوروفتس تو چلیں ٹہرا مشتشرق اس کی تحقیق تعصب پر منبی ہو سکتی ہے لیکن ابراہیم الحربی کا کیا کیا جائے جو یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ امام احمد کو واقدی سے شغف نہ تھا بلکہ ان کے نزدیک ثقہ تھا ابراہیم الحربی کے اقوال ھوروفتس کی بات کی تائید کرتے ہیں
سن ٢٠٠٤میں دکتور عبد العزیز بن سلیمان بن ناصر السلومی کی تحقیق بنام الواقدی و کتابہ المغازی منہجہ و مصادرہ شایع ہوئی. جو ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ تھا اور سعودی عرب کی جامعہ الاسلامیہ با لمدینہ المنورہ میں پیش ہوا. اس میں محقق نے کئی مقامات پر جرمن مشتشرق ھورو فتس کے حوالے اپنی تائید میں دئے ہیں. کیا یہ کام غلط ہے؟ اگر کوئی بات مستشرق کہہ رہا ہے اور وہ صحیح ہے تو اس کو قبول کرنے میں کیا حرج ہے ایک قول ہے
یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے
دکتور عبد العزیز بن سلیمان بن ناصر السلومی لکھتے ہیں
بے شک امام احمد ہر جمعہ کو حنبل بن اسحاق کے ساتھ ابن سعد، کاتب الواقدی کی طرف رخ کرتے اور واقدی کی دو کتابیں لاتے ان کو دیکھتے پھر لوٹاتے اور دوسری لیتے
اور اسی وجہ سے عبد الله بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میرے باپ اکثر واقدی کی کتابیں دیکھتے
اور امام احمد نے واقدی کی کتب دیکھنے کا سبب واضح کیا، پس کہا … تاکہ میں ان ( کتابوں) کو جان سکوں اوران پر اعتبار کر سکوں
یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ امام احمد واقدی پر اعتبار کرنے لگے تھے اور واقدی میں ان کا شغف بڑھ گیا تھا رونہ ایک ایک کر کے کتابیں دیکھنے کا شوق کیوں ہوا. یہ بات احمد کی عمر کے آخری حصے میں ہو گی کیونکہ اس بات کو ابراہیم الحربی بتاتے ہیں جو واقدی کی وفات کے وقت ١١ سال کے ہونگے ظاہر ہے کہ ١١ سال کی عمر میں ابراہیم علم تاریخ اور جرح و تعدیل پر عبور نہیں رکھ سکتے
اب یہ بھی غور طلب ہے کہ
حنبل بن اسحاق واقدی سے روایت کرتے تھے کتاب مسند القاروق از ابن کثیر کے مطابق
قال حنبل (بن اسحاق) وحدثنى ابى اسحاق حدثنا محمد بن عمر حدثنا ابن ابى سبرة عن عثمان بن عبد الله بن رافع عن ابن المسيب قال اول من كتب التاريخ عمر لسنتين ونصف من خلافته فكتب لست عشرة من الهجرة بمشورة من على بن ابى طالب قال محمد بن عمر هو الواقدى
عبداللہ بن احمد بھی روایت کرتے تھے طبرانی کی کتاب الدعا میں روایت ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ثنا شَبَابٌ الْعُصْفُرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِيُّ، ثنا هَارُونُ الْأَهْوَازِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ وَعَذَابِالْقَبْرِ، وَفِتْنَةِ الْمَحْيَا وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ»
اگر واقدی متروک تھا تو حنبل بن اسحاق اور عبد الله نے روایت کیوں کی؟ اس کی وجہ کیا تھی ؟ یہ نقطہ نظر میں تبدیلی کب واقعہ ہوئی؟
الغرض
مشتشرق کی بات کو اہل علم اپنے حق میں پیش کرتے رہے ہیں لہذا اس کو مطلقا یہودی مشتشرق کہہ کر رد نہیں کر سکتے
امام احمد کی آخری عمر میں واقدی کی کتب میں دلچسپی بڑھ گئی تھی اور وہ جاننے اور اعتبار کرنے کے لئے ان کو پڑھتے تھے
ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے جوزف هوروفتس کی بات کو جبل الله کی ایک اشاعت میں نقل کیا اور صحیح بخاری اور مسند احمد کا موازنہ پیش کیا . ان کا مقصد صحیح امام بخاری اورمسند امام احمد کا اپس کا اختلاف اجاگر کرنا تھا تاکہ احادیث و تاریخ کے حوالے سے دونوں کے منہج کو سمجھا جا سکے. یہ ایک تحقیقی کام تھا جس پر مسلک پرستوں نے بودے اعتراضات کیے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امام بخاری، امام احمد کو استاد مانتے تھے جو سراسر جھوٹ ہے