• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مستشرقین واقدی اور مسند احمد (تحقیق درکار ہے )

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
هوروفتس نے یہ دعوی کیا کہ مسند امام احمد اور واقدی کی مغازی ایک مواد رکھتی ہے اس کا رد ابھی تک کسی مسلمان نے نہیں کیا
کیا یہ سچ ہے اگر سچ نہیں تو کیا اس کا پورا جواب دیا گیا ہے

اگر اس کا جواب دیا گیا ہے تو یہاں پر شیہر کیا جا ے

شکریہ
یہ جواب ہے مستشرق کے اعتراض کا ایک عام آدمی کے لیے ، جو بحث کرنا چاہتا ہے ، وہ پوسٹ کو نظر انداز کرکے پوسٹ نمبر 6 کا جواب عنایت فرمادے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مستشرق کی تحقیق غلط ہے ، مغازی الواقدی اور مسند احمد میں بعد المشرقین ہے ۔
واقدی کے مغازی کے نام سے بھی کتاب مطبوع ہے ، جبکہ مسند احمد بھی موجود ہے ، دونوں کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں ۔
میں نے جہاں تک تلاش کیا ہے ، مجھے مسند احمد میں واقدی کی ایک روایت بھی نہیں ملی ۔ واللہ اعلم ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ جواب ہے مستشرق کے اعتراض کا ایک عام آدمی کے لیے ، جو بحث کرنا چاہتا ہے ، وہ پوسٹ کو نظر انداز کرکے پوسٹ نمبر 6 کا جواب عنایت فرمادے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مستشرق کی تحقیق غلط ہے ، مغازی الواقدی اور مسند احمد میں بعد المشرقین ہے ۔
واقدی کے مغازی کے نام سے بھی کتاب مطبوع ہے ، جبکہ مسند احمد بھی موجود ہے ، دونوں کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں ۔
میں نے جہاں تک تلاش کیا ہے ، مجھے مسند احمد میں واقدی کی ایک روایت بھی نہیں ملی ۔ واللہ اعلم ۔

الله آپ کو جزائے خیر دے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ جواب ہے مستشرق کے اعتراض کا ایک عام آدمی کے لیے ، جو بحث کرنا چاہتا ہے ، وہ پوسٹ کو نظر انداز کرکے پوسٹ نمبر 6 کا جواب عنایت فرمادے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مستشرق کی تحقیق غلط ہے ، مغازی الواقدی اور مسند احمد میں بعد المشرقین ہے ۔
واقدی کے مغازی کے نام سے بھی کتاب مطبوع ہے ، جبکہ مسند احمد بھی موجود ہے ، دونوں کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں ۔
میں نے جہاں تک تلاش کیا ہے ، مجھے مسند احمد میں واقدی کی ایک روایت بھی نہیں ملی ۔ واللہ اعلم ۔
واقدی کے بارے میں آپ کی کیا تحقیق ہے - کیا یہ کذاب تھا

کیا یہ صحیح ہے کہ الواقدی حدیث کی روایت میں قابل اعتبار نہیں لیکن تاریخ میں ان کے اقوال کوا ئمہ جرح و تعدیل نے لیا ہے
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
میرا خیال ہے کہ سب نے اس تھریڈ کو پڑھا ہی نہیں بس تیر برسانا شروع کر دیے ہیں
میں نے اوپر سب سے پہلے یہ لکھا ہے کہ مجھے اس کی تحقیق چاہیے
بھائی آپ کا طریقہ کار بالکل ویسا ہی ہے جیسے آجکل کمپنیاں اشتہاروں میں ریٹ پر سٹار بنا کر، اور نیچے اتنا باریک لکھ دینتی ہیں کہ " شرائط لاگو ہونگی"۔ یہ ان کمپنیوں کا طریقہ واردات ہے۔ آپ واضح تو کیا کریں کہ کس بات کی تحقیق درکار ہے؟ ایک مضمون کوپی پیسٹ کیا اور اوپر لکھ دیا تحقیق درکار ہے۔ باقی علامہ ذہبی کی سیر الاعلام النبلاء میں ہی موجود ایک جملہ ہے:

قال أبو داود :وكان أحمد لا يذكر عنه كلمة

اور احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے اس (واقدی) سے کچھ ذکر نہیں کیا (اس ترجمہ میں اگر کوئی غلطی ہے تو تصحیح کیجیئے)

آپ نے اگر کسی جگہ موجود کسی پوسٹ کی تحقیق کروانی ہے تو برائے مہربانی اس پوسٹ کو کاپی پیسٹ کرتے ہوئے تمام پوسٹ نقل کیا کریں، تاکہ علماء صحیح طور پر تحقیق پیش کر کہ مجھ سمیت تمام طالب علموں کو گائڈ کر سکیں۔ جیسا کہ اس پوسٹ کے آخر میں، جہاں سے آپ نے کاپی پیسٹ کیا ہے، یہ پیرا بھی موجود ہے:

"
ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے جوزف هوروفتس کی بات کو جبل الله کی ایک اشاعت میں نقل کیا اور صحیح بخاری اور مسند احمد کا موازنہ پیش کیا . ان کا مقصد صحیح امام بخاری اورمسند امام احمد کا اپس کا اختلاف اجاگر کرنا تھا تاکہ احادیث و تاریخ کے حوالے سے دونوں کے منہج کو سمجھا جا سکے. یہ ایک تحقیقی کام تھا جس پر مسلک پرستوں نے بودے اعتراضات کیے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امام بخاری، امام احمد کو استاد مانتے تھے جو سراسر جھوٹ ہے"

اب ان شاءاللہ "صحیح" طور پر تحقیق ہو سکے گی اسکی۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
بھائی آپ کا طریقہ کار بالکل ویسا ہی ہے جیسے آجکل کمپنیاں اشتہاروں میں ریٹ پر سٹار بنا کر، اور نیچے اتنا باریک لکھ دینتی ہیں کہ " شرائط لاگو ہونگی"۔ یہ ان کمپنیوں کا طریقہ واردات ہے۔ آپ واضح تو کیا کریں کہ کس بات کی تحقیق درکار ہے؟ ایک مضمون کوپی پیسٹ کیا اور اوپر لکھ دیا تحقیق درکار ہے۔ باقی علامہ ذہبی کی سیر الاعلام النبلاء میں ہی موجود ایک جملہ ہے:

قال أبو داود :وكان أحمد لا يذكر عنه كلمة

اور احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے اس (واقدی) سے کچھ ذکر نہیں کیا (اس ترجمہ میں اگر کوئی غلطی ہے تو تصحیح کیجیئے)

آپ نے اگر کسی جگہ موجود کسی پوسٹ کی تحقیق کروانی ہے تو برائے مہربانی اس پوسٹ کو کاپی پیسٹ کرتے ہوئے تمام پوسٹ نقل کیا کریں، تاکہ علماء صحیح طور پر تحقیق پیش کر کہ مجھ سمیت تمام طالب علموں کو گائڈ کر سکیں۔ جیسا کہ اس پوسٹ کے آخر میں، جہاں سے آپ نے کاپی پیسٹ کیا ہے، یہ پیرا بھی موجود ہے:

"
ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے جوزف هوروفتس کی بات کو جبل الله کی ایک اشاعت میں نقل کیا اور صحیح بخاری اور مسند احمد کا موازنہ پیش کیا . ان کا مقصد صحیح امام بخاری اورمسند امام احمد کا اپس کا اختلاف اجاگر کرنا تھا تاکہ احادیث و تاریخ کے حوالے سے دونوں کے منہج کو سمجھا جا سکے. یہ ایک تحقیقی کام تھا جس پر مسلک پرستوں نے بودے اعتراضات کیے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امام بخاری، امام احمد کو استاد مانتے تھے جو سراسر جھوٹ ہے"

اب ان شاءاللہ "صحیح" طور پر تحقیق ہو سکے گی اسکی۔

وہاں پر میں نے @خضر حیات بھائی کا یہ جواب لکھ دیا ہے -


اس کا جواب یہ ہے کہ مستشرق کی تحقیق غلط ہے ، مغازی الواقدی اور مسند احمد میں بعد المشرقین ہے ۔
واقدی کے مغازی کے نام سے بھی کتاب مطبوع ہے ، جبکہ مسند احمد بھی موجود ہے ، دونوں کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں ۔
میں نے جہاں تک تلاش کیا ہے ، مجھے مسند احمد میں واقدی کی ایک روایت بھی نہیں ملی ۔ واللہ اعلم ۔



لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا -

باقی مجھے عثمانی سے کوئی غرض نہیں - جو کچھ لکھا گیا ہے اس کی تحقیق پوچھی ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
واقدی کے بارے میں آپ کی کیا تحقیق ہے - کیا یہ کذاب تھا
کیا یہ صحیح ہے کہ الواقدی حدیث کی روایت میں قابل اعتبار نہیں لیکن تاریخ میں ان کے اقوال کوا ئمہ جرح و تعدیل نے لیا ہے
میں اپنی طرف سے اس موضوع پر کچھ کہنے کی حالت میں نہیں ہوں ۔
البتہ جامعہ اسلامیہ میں ایک تحقیقی رسالہ اس موضوع پر موجود ہے ، جس میں واقدی اور اس کے مغازی کا دقت نظر سے مطالعہ کیا گیا ہے ، محقق جس نتیجہ پر پہنچا ہے اس کا خلاصہ یوں بیان کیا گیا ہے :
الخاتمة: وبعد دراستي للواقدي وكتابه المغازي توصلت إلى نتائج عدة منها ما يلي:
1- أن القول الراجح في مولد الواقدي أنه ولد سنة ثلاثين ومائة للهجرة.

2- أن الواقدي يعتبر من بحور العلم وأحد الحفاظ المشهورين، ولذلك يمكن أن يقال أنه أحد الموسوعات العلمية في تاريخ الإسلام.
3- ظهر لي من خلال الكلام على مصنفات الواقدي، أن كتاب المغازي هو الكتاب الوحيد الذي وصل إلينا من كتب الواقدي وما عداه فقد سبق الإشارة إلى عدم صحة ثبوت نسبتها إليه.
4- أن الواقدي يعتبر ضعيفا في الحديث، ولكن يكتب حديث ويروي، وقول من أهدره فيه مجازفة من بعض الوجوه، كما أن الظاهر عدم اتهامه بالوضع كما قال الذهبي.
5- أن للواقدي منهجا خاصا في الرواية التاريخية يختلف من منهج أئمة الحديث، فلا مانع عنده من أن يروي عن شخص مجهول إذا كان الحديث وقع في سلفه أو أحد أفراد عشيرته، أما أئمة الحديث فلا يروون إلا عن الثقة المعروف بالعدالة والصدق، ولعل هذا من أسباب تضعيفه عند المحدثين.
6- إن استخدام الإسناد الجمعي لم ينفرد به الواقدي بل عمل به غيره، ولكن الواقدي أكثر منه، فلعل هذه الكثرة هي التي أوثقته أحيانا بما نسب إليه من تركيب الأسانيد كما سبق بيان ذلك.
7- إن الواقدي يعتبر إماما ورأسا في المغازي والسير لا يستغنى عنه في هذا الباب، فهو أحد أئمة هذا الشأن الكبار، وهذا محل إجماع بين أهل السير والتراجم.
8- ظهر لي عدم صحة اتهام الواقدي بالتشيع.
9- تبين لي أن الواقدي كتب مغازيه في المدينة النبوية قبل انتقاله إلى بغداد وصلته الوثيقة ببعض خلفاء بني العباس، وهذا يسقط ما زعمه هوروفتس من تأثير هذه الصلة على مروياته في المغازي.
10- أن القول الراجح في تاريخ وفاة الواقدي هو ما ذكره تلميذه ابن سعد حيث قال عنه: " فلم يزل قاضيا حتى مات ببغداد ليلة الثلاثاء لإحدى عشرة ليلة خلت من ذي الحجة سنة سبع ومائتين ودفن يوم الثلاثاء في مقابر الخيزران، وهو ابن ثمان وسبعين سنة"

11- إن كتاب المغازي يعتبر مصدرا مهما من مصادر السيرة النبوية.
12- عدم صحة تهمة سطو الواقدي على سيرة ابن إسحاق.
13- جودة عرض الواقدي للمادة العلمية وتنظيمها في كتابه المغازي.
14- ضبط الواقدي لتاريخ الغزوات والسرايا النبوية.
15- إن الواقدي قام بتحديد موقفه عند كثير من مسائل الخلاف بذكر الراجح عنده.
16- اهتمام الواقدي بالدراسة الميدانية للمواقع الجغرافية في المغازي والسرايا النبوية مما يجعله مصدرا مهماً في هذا المجال.
17- إيراد الواقدي بعض الإضافات العلمية في كتابه المغازي وقد عقدت لإبرازها فصلاً كاملاً مما يدل على سعة علمه وتنوع ثقافته.
آپ کے سوال سے تعلق رکھنے والی بات اس میں یہ ہے کہ
  • واقدی روایت حدیث میں ضعیف ہے ، لیکن اس کا ضعف اس قدر شدید نہیں کہ اس کی روایت کو کلیتا چھوڑ دیا جائے ۔
  • واقدی کو جھوٹے ہونے کا الزام دینا بھی درست محسوس نہیں ہوتا ۔
  • واقدی مغازی و سیرت بیان کرنے میں جلیل القدر ائمہ میں سے ہے ، اس سلسلے میں اس کی قدر و منزلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
  • واقدی کی کتاب سیرت نبوی پر لکھی گئی کتابوں میں خاص اہمیت کی حامل ہے ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ جواب ہے مستشرق کے اعتراض کا ایک عام آدمی کے لیے ، جو بحث کرنا چاہتا ہے ، وہ پوسٹ کو نظر انداز کرکے پوسٹ نمبر 6 کا جواب عنایت فرمادے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مستشرق کی تحقیق غلط ہے ، مغازی الواقدی اور مسند احمد میں بعد المشرقین ہے ۔
واقدی کے مغازی کے نام سے بھی کتاب مطبوع ہے ، جبکہ مسند احمد بھی موجود ہے ، دونوں کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں ۔
میں نے جہاں تک تلاش کیا ہے ، مجھے مسند احمد میں واقدی کی ایک روایت بھی نہیں ملی ۔ واللہ اعلم ۔
@خضر حیات بھائی میں نے جب وہاں آپ کا یہ جواب وہاں لکھا تو مجھے یہ جواب ملا


امام احمد نے ایک ضخیم مسند لکھی ہے اس میں ان کا مقصد صرف صحیح روایات اکھٹی کرنا نہیں تھا لہذا اس کی سینکڑوں روایات پر جرح ہو چکی ہے اور اس کے بہت سے راویوں کو خود احمد نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن کام کا مقصد کچھ بھی ہو اس کے ثمرات ظاہر ہیں اس کی روایات سے شیعیت کو تقویت ملی ہے جس کی تفصیل بلاگ موازنہ مسند احمد اور صحیح بخاری میں دیکھی جا سکتی ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ اہل سنت کے دو امام ایک امام احمد دوسرے امام حاکم دونوں نے اپنی کتابوں میں باوجود سنی ہونے کے شیعہ روایات شامل کی ہیں

اب رہی ھوروفتس کی بات تو وہ مغازی کے بارے میں ہے نہ کہ حدیث کے بارے میں. مسند میں تاریخی روایات بھی ہیں اور اگر اپ کا مطالعہ ہو تو اپ کو اندازہ ہو گا کہ شیعیت اصل میں تاریخی جھگڑا ہی تھا جو بعد میں اعتقادی بنا. مستشرق کی بات کی تائید امام ابراہیم الحربی کے موقف سے بھی ہوتی ہے جو مسلسل وضاحت کر رہے ہیں کہ امام احمد کے نزدیک واقدی ثقہ ہیں. ابی داود الگ بات کرتے ہیں جو احادیث کی روایات تک صحیح ہے امام احمد نے مسند میں واقدی کا ذکر نہیں کیا

لیکن اگر اپ نے بات کو سمجھا ہو تو یہ کہا ہی نہیں گیا کہ امام احمد مسند میں واقدی سے روایت کرتے ہیں بلکہ کہا گیا ہے کہ مسند احمد اور واقدی کے کام میں مماثلت ہے جو ایک صحیح بات ہے جس کے حق میں ابراہیم الحربی کے اقوال بھی ہیں اور خود شیعیت کے حق میں مسند کی روایات

بہت سے محدثین واقدی کو کذاب نہیں سمجھتے تھے مثلا ابن سعد جنہوں نے کتاب الطبقات لکھی ہے وہ اس کے کآتب تھے.

الذھبی نے اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں واقدی کے بہت حوالے دے ہیں ابن تیمیہ کتاب رأس الحسين میں الواقدی کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں-

ومعلوم أن الواقدي نفسه خير عند الناس من مثل هشام بن الكلبي وأبيه محمد بن السائب وأمثالها، وقد علم كلام الناس فيالواقدي، فإن ما يذكره هو وأمثاله يعتضد به، ويستأنس به. وأما الاعتماد عليه بمجرده في العلم: فهذا لا يصلح.


اور معلوم ہے کہ واقدی فی نفسہ ہشام بن الکلبی اور اس کے باپ محمّد بن السا ئب اور اس کے جیسوں سے تو اچّھا ہے. اور لوگوں کے الواقدی کے بارے میں کلام کا پتا ہے پس وہ اور اس کے جیسے کوئی بات بیان کریں تو اس سے وہ بات قوی ہو گی اور ٹھہرے گی اور
جہاں تک واقدی پر مجرد اعتماد کا تعلّق ہے تو وہ صحیح نہیں


ابن العمآد الحنبلی کہتے ہیں

الواقدي قاضي بغداد، المدني، العَلاَّمة، أحد أوعية العلم


ہو سکتا ہے امام احمد کا آخری عمر میں واقدی کو ثقہ کہنا اسی طرح ہو جس طرح ابن تیمیہ نے رائے قائم کی ہے

شبلی الفاروق میں لکھتے ہیں

اس کے بعد فن تاریخ نے نہایت ترقی کی اور بڑے بڑے نامور مؤرخ پیدا ہوئے۔ جن میں ابو محتف کلبی اور واقدی زیادہ مشہور ہیں۔ ان لوگوں نے نہایت عمدہ اور جدید عنوانوں پر کتابیں لکھیں۔ مثلاً واقدی نے افواج اسلام، قریش کے پیشے ، قبائل عرب کے مناظرات، جاہلیت اور اسلام کے احکام کا توارد، ان مضامین پر مستقل رسالے لکھے ، رفتہ رفتہ اس سلسلے کو نہایت وسعت ہوئی۔ یہاں تک کہ چوتھی صدی ہجری تک ایک دفتر بے پایاں تیار ہو گیا اور بڑی خوبی کی بات یہ تھی کہ ہر صاحب قلم کا موضوع اور عنوان جدا تھا۔

لہذا اس میں جذباتی ہونے کی بجائے کھلے دماغ سے سوچنا چاہئے.
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
میں اپنی طرف سے اس موضوع پر کچھ کہنے کی حالت میں نہیں ہوں ۔
البتہ جامعہ اسلامیہ میں ایک تحقیقی رسالہ اس موضوع پر موجود ہے ، جس میں واقدی اور اس کے مغازی کا دقت نظر سے مطالعہ کیا گیا ہے ، محقق جس نتیجہ پر پہنچا ہے اس کا خلاصہ یوں بیان کیا گیا ہے :
الخاتمة: وبعد دراستي للواقدي وكتابه المغازي توصلت إلى نتائج عدة منها ما يلي:
1- أن القول الراجح في مولد الواقدي أنه ولد سنة ثلاثين ومائة للهجرة.

2- أن الواقدي يعتبر من بحور العلم وأحد الحفاظ المشهورين، ولذلك يمكن أن يقال أنه أحد الموسوعات العلمية في تاريخ الإسلام.
3- ظهر لي من خلال الكلام على مصنفات الواقدي، أن كتاب المغازي هو الكتاب الوحيد الذي وصل إلينا من كتب الواقدي وما عداه فقد سبق الإشارة إلى عدم صحة ثبوت نسبتها إليه.
4- أن الواقدي يعتبر ضعيفا في الحديث، ولكن يكتب حديث ويروي، وقول من أهدره فيه مجازفة من بعض الوجوه، كما أن الظاهر عدم اتهامه بالوضع كما قال الذهبي.
5- أن للواقدي منهجا خاصا في الرواية التاريخية يختلف من منهج أئمة الحديث، فلا مانع عنده من أن يروي عن شخص مجهول إذا كان الحديث وقع في سلفه أو أحد أفراد عشيرته، أما أئمة الحديث فلا يروون إلا عن الثقة المعروف بالعدالة والصدق، ولعل هذا من أسباب تضعيفه عند المحدثين.
6- إن استخدام الإسناد الجمعي لم ينفرد به الواقدي بل عمل به غيره، ولكن الواقدي أكثر منه، فلعل هذه الكثرة هي التي أوثقته أحيانا بما نسب إليه من تركيب الأسانيد كما سبق بيان ذلك.
7- إن الواقدي يعتبر إماما ورأسا في المغازي والسير لا يستغنى عنه في هذا الباب، فهو أحد أئمة هذا الشأن الكبار، وهذا محل إجماع بين أهل السير والتراجم.
8- ظهر لي عدم صحة اتهام الواقدي بالتشيع.
9- تبين لي أن الواقدي كتب مغازيه في المدينة النبوية قبل انتقاله إلى بغداد وصلته الوثيقة ببعض خلفاء بني العباس، وهذا يسقط ما زعمه هوروفتس من تأثير هذه الصلة على مروياته في المغازي.
10- أن القول الراجح في تاريخ وفاة الواقدي هو ما ذكره تلميذه ابن سعد حيث قال عنه: " فلم يزل قاضيا حتى مات ببغداد ليلة الثلاثاء لإحدى عشرة ليلة خلت من ذي الحجة سنة سبع ومائتين ودفن يوم الثلاثاء في مقابر الخيزران، وهو ابن ثمان وسبعين سنة"

11- إن كتاب المغازي يعتبر مصدرا مهما من مصادر السيرة النبوية.
12- عدم صحة تهمة سطو الواقدي على سيرة ابن إسحاق.
13- جودة عرض الواقدي للمادة العلمية وتنظيمها في كتابه المغازي.
14- ضبط الواقدي لتاريخ الغزوات والسرايا النبوية.
15- إن الواقدي قام بتحديد موقفه عند كثير من مسائل الخلاف بذكر الراجح عنده.
16- اهتمام الواقدي بالدراسة الميدانية للمواقع الجغرافية في المغازي والسرايا النبوية مما يجعله مصدرا مهماً في هذا المجال.
17- إيراد الواقدي بعض الإضافات العلمية في كتابه المغازي وقد عقدت لإبرازها فصلاً كاملاً مما يدل على سعة علمه وتنوع ثقافته.
آپ کے سوال سے تعلق رکھنے والی بات اس میں یہ ہے کہ
  • واقدی روایت حدیث میں ضعیف ہے ، لیکن اس کا ضعف اس قدر شدید نہیں کہ اس کی روایت کو کلیتا چھوڑ دیا جائے ۔
  • واقدی کو جھوٹے ہونے کا الزام دینا بھی درست محسوس نہیں ہوتا ۔
  • واقدی مغازی و سیرت بیان کرنے میں جلیل القدر ائمہ میں سے ہے ، اس سلسلے میں اس کی قدر و منزلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
  • واقدی کی کتاب سیرت نبوی پر لکھی گئی کتابوں میں خاص اہمیت کی حامل ہے ۔

آپ کی اس تحقیق کا یہ جواب دیا گیا

جرح و تعدیل کی کتب میں احمد کا واقدی کے لئے یہ قول بھی ملتا ہے جس کو الذھبی سیر الاعلام میں لکھتے ہیں

الدُّوْلاَبِيُّ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بنُ صَالِحٍ، قَالَ لِي أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: الوَاقِدِيُّ كَذَّابٌ.


امام دولابی (المتوفی ٣٢٠ ھ) کہتے ہیں کہ معاویہ بن صالح (بن أبي عبيد الله المتوفی ٢٦٣ ھ) کہتے ہیں مجھ سے امام احمد نے کہا واقدی کذاب ہے


لیکن ابو بشر دولابی اہل رائے میں سے تھے جن سے امام احمد کو چڑ تھی. کیا ان کی بات، امام احمد کے حوالے سے دلیل بن سکتی ہے ؟ اسی حوالے کو بعد میں لوگوں نے جرح و تعدیل کی کتابوں میں لکھا ہے.

کتاب الکنی و الاسماء از الدولابی میں خود واقدی کے اقوال نقل ہوئے ہیں جس سے لگتا ہے کہ امام دولابی بھی خود واقدی کو مطلقا کذاب نہیں سمجھتے تھے اور احمد کے اس قول کو ثابت نہیں مانتے تھے

ابو داود المتوفی ٢٧٥ ھ کہتے ہیں

وكان أحمد لا يذكر عنه كلمة


احمد، واقدی کی کسی بات کا ذکر نہ کرتے


کسی متنازع شخصیت کا ذکر نہ کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ خود بھی ان کے نزدیک ثقه نہیں. سوال ہے کہ کیا

إبراهيم بن إسحاق بن إبراهيم بن بشير البغدادي ، الحربي المتوفی ٢٨٥ جھوٹ بولتے تھے کیونکہ وہ مسلسل واقدی کے بارے میں امام احمد کے حسن خیال والے حوالے دیتے تھے حتی کہ ان کے مطابق امام احمد، واقدی کو ثقہ جانتے تھے

تاریخ بغداد ج ٤ ص ٢٠ میں ہے

أَخْبَرَنِي إبراهيم بن عمر البرمكي، قَالَ: حَدَّثَنَا عبيد الله بن محمد بن محمد بن حمدان العكبري، قَالَ: حَدَّثَنَا محمد بن أيوب بن المعافى، قَالَ: قَالَ إبراهيم الحربي: سمعت أحمد، وذكر الواقدي، فقال ليس أنكر عليه شيئا، إلا جمعه الأسانيد، ومجيئة بمتن واحد على سياقة واحدة عن جماعة ربما اختلفوا، قَالَ إبراهيم: ولم؟ وقد فعل هذا ابن إسحاق، كان يقول: [ص:25] حَدَّثَنَا عاصم بن عمر وعبد الله بن أبي بكر وفلان وفلان، والزهري أيضا قد فعل هذا قَالَ وسمعت إبراهيم، يقول: قَالَ لي فوران: رآني الواقدي أمشي مع أحمد بن حنبل، قَالَ: ثم لقيني بعد، فقال لي: رأيتك تمشي مع إنسان ربما تكلم في الناس، قيل لإبراهيم: لعله بلغه عنه شيء قَالَ: نعم، بلغني أن أحمد أنكر عليه جمعه الرجال والأسانيد في متن واحد.
قَالَ إبراهيم: وهذا قد كان يفعله حماد بن سلمة، وابن إسحاق، ومحمد بن شهاب الزهري.


ابراہیم الحربی کہتے ہیں میں نے امام احمد کو سنا انہوں نے واقدی کا ذکر کیا پس کہا میں اس کی کسی چیز کا انکار نہیں کرتا سوائے اس کے کہ یہ اسناد کو جمع کر دیتا ہے اور پھر ایک ہی متن بیان کر دیتا ہے ایک جماعت سے جو کبھی کبھی اختلاف کرتی ہیں. ابراہیم نے کہا اور ایسا کیوں جبکہ ایسا محمد بن اسحاق بھی کرتا ہے؟ ابراہیم نے کہا کہ ہم سے عاصم بن عمر اور عبد الله بن ابی بکر اور فلاں فلاں نے روایت کیا کہ امام زہری بھی ایسا ہی کرتے تھے. محمّد بن ایوب کہتے ہیں ابراہیم الحربی کو سنا کہا مجھ سے فوران (عَبْد اللَّه بْن محمد بْن المهاجر، أَبُو محمد البَغْداديُّ المتوفی ٢٦٠ ھ) نے کہا کہ میں نے واقدی کو دیکھا امام احمد بن حنبل کے ساتھ چلتے ہوئے اس کے بعد احمد سے ملا تو کہا میں نے اپ کو ایک ایسے انسان کے ساتھ چلتے دیکھا جس پر کبھی کبھی لوگ کلام کرتے ہیں؟ ابراہیم سے کہا ہو سکتا ہے اس (واقدی) سے کوئی چیز پھنچے! کہا ہاں! مجھ تک پہنچا کہ احمد اس کا انکار رجال اور اسناد ایک متن کے ساتھ بیان کرنے پر کرتے تھے. ابراہیم کہتے ہیں اور ایسا حماد بن سلمہ اور ابن اسحاق اور امام زہری بھی کرتے تھے


امام احمد کو اسناد ایک جگہ جمع کرنے پر اعتراض تھا. واقدی کی کتب ابن سعد کے ہاں پر جمعہ کو جا کر دیکھتے اس کے ساتھ چل قدمی کرتے لہذا اس صحبت کا اثر ان پر ہوا اور شیعیت کے حق میں انہوں نے مسند میں ایک انبار اکھٹا کیا

سیر الاعلام النبلاء ج ١٠ ص ٦٦٥ میں الذھبی لکھتے ہیں

سُلَيْمَانُ بنُ إِسْحَاقَ بنِ الخَلِيْلِ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيْمَ الحَرْبِيَّ يَقُوْلُ:

كَانَ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ يُوَجِّهُ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ بِحَنْبَلٍ إِلَى ابْنِ سَعْدٍ يَأْخُذُ مِنْهُ جُزْأَيْنِ مِنْ حَدِيْثِ الوَاقِدِيِّ يَنْظُرُ فِيْهِمَا.

ابراہیم الحربی کہتے ہیں امام احمد بن حنبل ، حنبل بن اسحاق کے ساتھ ہر جمعہ، ابن سعد کی طرف رخ کرتے اور ان سے واقدی کی حدیثوں کی دو جلدیں لے کر دیکھتے


واقدی ٢٠٧ ہجری میں فوت ہوئے اور امام احمد ٢٤١ ہجری میں فوت ہوئے امام احمد واقدی کی وفات کے بعد ہی ابن سعد کے ہاں جاتے ہوں گے کیونکہ واقدی اور امام احمد دونوں بغداد کے رہائشی تھے. جب تک زندہ رہے واقدی کے ساتھ چل قدمی کرتے وفات کے بعد اس گم گشتہ صحبت کی یاد تازہ کرنے ہر جمعہ کو جاتے. اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ امام احمد کی واقدی کے بارے میں دلچسپی بڑھ رہی تھی

ابراہیم الحربی سن ١٩٨ ہجری میں پیدا ہوئے لہذا واقدی کے حوالے سے امام احمد کے اقوال، امام احمد سے آخری عمر میں سنے ہوں گے کیونکہ واقدی کی وفات کے وقت ابراہیم الحربی ١١ سال کے تھے

الذھبی سیر الاعلام النبلاء ج ٩ ص ٤٥٥ میں لکھتے ہیں

الأَثْرَمُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بنَ حَنْبَلٍ يَقُوْلُ:

لَمْ نَزَلْ نُدَافِعُ أَمرَ الوَاقِدِيِّ حَتَّى رَوَى عَنْ: مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ نَبْهَانَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ:
عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا؟

أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ هَانِئ الإِسْكَافيُّ الأَثْرَم المتوفی ٢٦١ ھ کہتے ہیں میں نے امام احمد کو سنا کہتے تھے ہم نے واقدی کے کام کا دفاع کرنا نہیں چھوڑا حتی کہ اس نے مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ نَبْهَانَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ: عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے روایت کی کہ کیا تم دونوں اندھیاں ہو

امام احمد کو اعتراض کسی مغازی والی روایت پر نہیں بلکہ ایک حدیث پر تھا

تاریخ بغداد ج ٤ ص ٢٠ میں ہے

إبراهيم بن جابر، قَالَ: حَدَّثَنِي عبد الله بن أحمد بن حنبل، قَالَ: كتب أبي عن أبي يوسف، ومحمد، ثلاثة قماطر، فقلت له: كان ينظر فيها؟ قَالَ: كان ربما نظر فيها، وكان أكثر نظره في كتب الواقدي


ابراہیم بن جابر کہتے ہیں مجھ سے عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے کہا کہ میرے باپ…. اکثر واقدی کی کتب دیکھتے


معلوم ہوتا ہے واقدی امام احمد کی نگاہ میں باوجود متروک ہونے کے پسندیدہ رہے ہیں

سوال ہے کہ ایک مورخ کی کتب جس کی عدالت پر باقی سب جرح کرتے ہوں امام احمد کو کیا استفادہ دے سکتیں تھیں؟ کسی کذاب کی کتاب میں ایسی کیا چیز تھی جس کی وجہ سے وہ اکثر کتاب دیکھتے اور باقاعدہ ہر جمعہ کو جاتے. واقدی کے کام میں امام احمد کی دلچسپی کی نوعیت یہ سمجھ میں اتی ہے کہ انہوں نے وہ واقعات جو واقدی نقل کرتا ہے ان کو اپنی سند سے مسند میں بیان کیا کیونکہ مسند میں انہوں نے واقدی سے کچھ روایت نہیں کیا ہے

واضح رہے کہ هوروفتس نے یہ دعوی نہیں کیا کہ امام احمد نے باوجود واقدی کو کذاب کہنے کے مسند میں اس سے روایت کیا ہے بلکہ یہ کہا ہے واقدی کی بیان کردہ روایات اور مسند احمد میں مماثلت ہے جو غلط بھی نہیں کیونکہ واقدی پر شیعیت کا الزاام ہے اور امام احمد نے شیعیت کے حق میں کافی روایات مسند میں جمع کی ہیں دیکھئے بلاگ

هوروفتس تو چلیں ٹہرا مشتشرق اس کی تحقیق تعصب پر منبی ہو سکتی ہے لیکن ابراہیم الحربی کا کیا کیا جائے جو یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ امام احمد کو واقدی سے شغف نہ تھا بلکہ ان کے نزدیک ثقہ تھا ابراہیم الحربی کے اقوال ھوروفتس کی بات کی تائید کرتے ہیں

سن ٢٠٠٤میں دکتور عبد العزیز بن سلیمان بن ناصر السلومی کی تحقیق بنام الواقدی و کتابہ المغازی منہجہ و مصادرہ شایع ہوئی. جو ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ تھا اور سعودی عرب کی جامعہ الاسلامیہ با لمدینہ المنورہ میں پیش ہوا. اس میں محقق نے کئی مقامات پر جرمن مشتشرق ھورو فتس کے حوالے اپنی تائید میں دئے ہیں. کیا یہ کام غلط ہے؟ اگر کوئی بات مستشرق کہہ رہا ہے اور وہ صحیح ہے تو اس کو قبول کرنے میں کیا حرج ہے ایک قول ہے

یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے

دکتور عبد العزیز بن سلیمان بن ناصر السلومی لکھتے ہیں

بے شک امام احمد ہر جمعہ کو حنبل بن اسحاق کے ساتھ ابن سعد، کاتب الواقدی کی طرف رخ کرتے اور واقدی کی دو کتابیں لاتے ان کو دیکھتے پھر لوٹاتے اور دوسری لیتے

اور اسی وجہ سے عبد الله بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میرے باپ اکثر واقدی کی کتابیں دیکھتے

اور امام احمد نے واقدی کی کتب دیکھنے کا سبب واضح کیا، پس کہا … تاکہ میں ان ( کتابوں) کو جان سکوں اوران پر اعتبار کر سکوں

یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ امام احمد واقدی پر اعتبار کرنے لگے تھے اور واقدی میں ان کا شغف بڑھ گیا تھا رونہ ایک ایک کر کے کتابیں دیکھنے کا شوق کیوں ہوا. یہ بات احمد کی عمر کے آخری حصے میں ہو گی کیونکہ اس بات کو ابراہیم الحربی بتاتے ہیں جو واقدی کی وفات کے وقت ١١ سال کے ہونگے ظاہر ہے کہ ١١ سال کی عمر میں ابراہیم علم تاریخ اور جرح و تعدیل پر عبور نہیں رکھ سکتے


اب یہ بھی غور طلب ہے کہ

حنبل بن اسحاق واقدی سے روایت کرتے تھے کتاب مسند القاروق از ابن کثیر کے مطابق

قال حنبل (بن اسحاق) وحدثنى ابى اسحاق حدثنا محمد بن عمر حدثنا ابن ابى سبرة عن عثمان بن عبد الله بن رافع عن ابن المسيب قال اول من كتب التاريخ عمر لسنتين ونصف من خلافته فكتب لست عشرة من الهجرة بمشورة من على بن ابى طالب قال محمد بن عمر هو الواقدى


عبداللہ بن احمد بھی روایت کرتے تھے طبرانی کی کتاب الدعا میں روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ثنا شَبَابٌ الْعُصْفُرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِيُّ، ثنا هَارُونُ الْأَهْوَازِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ وَعَذَابِالْقَبْرِ، وَفِتْنَةِ الْمَحْيَا وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ»


اگر واقدی متروک تھا تو حنبل بن اسحاق اور عبد الله نے روایت کیوں کی؟ اس کی وجہ کیا تھی ؟ یہ نقطہ نظر میں تبدیلی کب واقعہ ہوئی؟


الغرض

مشتشرق کی بات کو اہل علم اپنے حق میں پیش کرتے رہے ہیں لہذا اس کو مطلقا یہودی مشتشرق کہہ کر رد نہیں کر سکتے

امام احمد کی آخری عمر میں واقدی کی کتب میں دلچسپی بڑھ گئی تھی اور وہ جاننے اور اعتبار کرنے کے لئے ان کو پڑھتے تھے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ نے جوزف هوروفتس کی بات کو جبل الله کی ایک اشاعت میں نقل کیا اور صحیح بخاری اور مسند احمد کا موازنہ پیش کیا . ان کا مقصد صحیح امام بخاری اورمسند امام احمد کا اپس کا اختلاف اجاگر کرنا تھا تاکہ احادیث و تاریخ کے حوالے سے دونوں کے منہج کو سمجھا جا سکے. یہ ایک تحقیقی کام تھا جس پر مسلک پرستوں نے بودے اعتراضات کیے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امام بخاری، امام احمد کو استاد مانتے تھے جو سراسر جھوٹ ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
جرمنی کے اس یہودی مستشرق جوزف ، نےتحقیق کے نام پر اسلام کی سنہری تاریخ کو داغدار بنانے کی پوری کوشش کی ہے ۔
اپنی مذکورہ کتاب میں ابان بن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں جب اسے اور کوئی الزام نہ سوجھا تو یہ جھوٹ لکھ مارا کہ
’‘ اہل مدینہ کے علماء دور صحابہ میں صرف دینی علوم سے ہی تعلق نہ رکھتے تھے بلکہ شاعری و موسیقی کے رسیا بھی تھے
،

وإليكم بعض العمل الذي قام به المستشرق المذكور في كتابه آنف الذكر. ترجم في الصفحة الثالثة من كتابه لأبان بن عثمان بن عفان الأموي رحمه الله تعالى لكونه أول مؤلف في المغازي والسير، وهو إمام كبير
وتابعي ثقة وعندما لم يجد المستشرق شيئا في ترجمته يمس به عدالته وإمامته، أتى في ترجمته هذه العبارة "ولم تقصر عناية أهل المدينة على العلوم الدينية وحدها، بل عنوا أعظم عناية بالموسيقى والشعر، ومن الخطأ أن يظن أنه لا توجد صلات بين العلماء والشعراء، وإن علماء الدين كانوا جميعا معادين للشعر، بل وجد في المدينة نفسها أعلام من العلماء الدينيين قد برزوا في قول الشعر، وأشهر مثل لذلك تتحقق فيه هذه الصلة عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، وهو ممن حارب مع النبي في أُحد، وقد خصص أبو الفرج الأصبهاني في كتاب الأغاني (3) فصلا لعبيد الله هذا، وأورد طائفة من شعره، وفعل مثل ذلك ابن سعد في طبقاته (4) وهو معدود من فقهاء المدينة السبعة.
10624 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

آپ کی پوسٹ جب میں نے اس لنک پر لگائی تو یہ جواب دیا گیا


http://www.islamic-belief.net/مستشرقین-واقدی-اور-مسند-احمد/

پہلے تو اپ کو یہ جاننا چاہئے کہ مستشرقین کا کام انگریزی زبان میں ہے یا جرمن زبان میں اور وہ ان کتابوں کو اہل مغرب کے لئے لکھ رہے ہیں نہ کہ ہمارے لئے لہذا جب وہ اس طرح کی باتیں لکھتے ہیں تو ان کا مقصد ہمیشہ تنقید نہیں ہوتا بلکہ ان کے معیار کے مطابق موسقی اور شاعری میں دلچسپی اچھی بات ہے نہ کہ بری بات

اگر اپ اس کو اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھیں گے تو اپ کو مستشرق کی بات بری معلوم ہو گی جبکہ وہ برائی کر ہی نہیں رہا ایسی غلطیاں ہماری طرف سے بعض اوقات ترجمہ کے وقت بھی ہوتی ہیں مثلا حدیث میں اتا ہے کہ حسان بن ثابت نبی صلی الله علیہ وسلم کی تعریف میں اشعار کہتے تھے ایک مستشرق اس کو شاعری کہہ دے گا اور ہم چراغ پا ہو جائیں گے کیونکہ ہماری زبان میں اس کو نعت کہتے ہیں

اسی طرح نبی صلی الله علیہ وسلم کی مدینہ آمد کے موقعہ پر لوگ دف بجا رہے تھے اور گا بھی رہے تھے مستشرق اس کو گانا اور موسیقی لکھ دے گا

ہمارا مقصد کسی مستشرق کا دفاع نہیں بلکہ ترجمہ اور انداز بیان میں فرق کی وجہ سے ایک مثبت بات بھی منفی لگتی ہے لہذا اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں مستشرق سے زیادہ ہمارے لوگوں نے اسلام کو نقصان پہنچایا ہے کیونکہ وہ ہماری ہی کتابوں کو پڑھتے ہیں اور لکھتے ہیں واقدی ابن اسحاق اور طبری سب سے زیادہ نقل کے جاتے ہیں

جن روایات کو مستشرق دلیل بناتے ہیں ہم ان پر جرح کرتے ہیں کیونکہ ان کو جرح و تعدیل کے علم پر عبور نہیں اور ان کو پتا ہے یہ کام آسان نہیں لہذا اس بحث میں وہ پڑے بھی نہیں

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
آپ کی پوسٹ جب میں نے اس لنک پر لگائی تو یہ جواب دیا گیا

http://www.islamic-belief.net/مستشرقین-واقدی-اور-مسند-احمد/

پہلے تو اپ کو یہ جاننا چاہئے کہ مستشرقین کا کام انگریزی زبان میں ہے یا جرمن زبان میں اور وہ ان کتابوں کو اہل مغرب کے لئے لکھ رہے ہیں نہ کہ ہمارے لئے لہذا جب وہ اس طرح کی باتیں لکھتے ہیں تو ان کا مقصد ہمیشہ تنقید نہیں ہوتا بلکہ ان کے معیار کے مطابق موسقی اور شاعری میں دلچسپی اچھی بات ہے نہ کہ بری بات
آپ نے لکھا :
وہ ان کتابوں کو اہل مغرب کے لئے لکھ رہے ہیں نہ کہ ہمارے لئے
اور آپ ان کے مغالطہ آمیز ،اور تحریف شدہ ،کلام کو اردو میں پیش کرکے اپنے ناپختہ ذہن لوگوں کو حیرتوں اور شک کے رستہ پر ڈال رہے ہیں۔
 
Top