• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مستشرقین واقدی اور مسند احمد (تحقیق درکار ہے )

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
میرا خیال ہے اگر حوالہ بھی ساتھ میں بیان کر دیا جائے تو مناسب معلوم ہوتا ہے اور اس موضوع پر پیر کام شاہ الازھری کی سیرت کی کتاب ضیاء النبی کی جلد نمبر 6 اور 7 کا مطالعہ ازحد مفید رہے گا بریلوی ہونے کے باوجود تحقیقی انداز بیان کو اختیار کیا گیا ہے اور مستشرقین کے رد میں قابل قدر کام ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
آپ نے لکھا :

اور آپ ان کے مغالطہ آمیز ،اور تحریف شدہ ،کلام کو اردو میں پیش کرکے اپنے ناپختہ ذہن لوگوں کو حیرتوں اور شک کے رستہ پر ڈال رہے ہیں۔

هوروفتس نے یہ دعوی کیا کہ مسند امام احمد اور واقدی کی مغازی ایک مواد رکھتی ہے اس کا رد ابھی تک کسی مسلمان نے نہیں کیا
کیا یہ سچ ہے اگر سچ نہیں تو کیا اس کا پورا جواب دیا گیا ہے

اگر اس کا جواب دیا گیا ہے تو یہاں پر شیہر کیا جا ے

شکریہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
لولی آل ٹائم صاحب !
میں چاہتے ہوئے بھی آپ کے بارے میں یا جن سے آپ نقل کر رہے ہیں ، حسن ظن رکھنے میں کامیاب نہیں ہورہا ہے کہ آپ واقعتا ایک علمی معاملے کو علمی بنیادوں پر سلجھانا چاہ رہے ہیں ۔
آپ کے مراسلات میں دو باتیں میں نےشدت سے محسوس کی ہیں :
1۔ مراسلات جاری بحث کے تناظر میں لکھے ہوئے نہیں لگتے ، لگتا ہے پہلے سے تیار شدہ ہیں ، جن کو اٹھا کر کسی کے سر پر ماردیا جاتا ہے ، چاہے مد مقابل کی بات سے اس کا کوئی تعلق ہو یا نہ ہو ۔ اور یا پھر جان بوجھ کر ایسا کیا جاتا ہے تاکہ بات سمجھنے میں ہی اتنا الجھاؤ ہو کہ جواب تک نوبت ہی نہ آئے ۔ واللہ اعلم ۔ مثلا آپ کے میرے جواب میں لکھے گئے آخری مراسلے میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ آپ واقدی کی احمد سے تضعیف ثابت کرنا چاہ رہے ہیں یا توثیق ؟ دولابی اور احمد دونوں میں سے کون دوسرے کی بات کو رد یا قبول کرنا چاہ رہا ہے ۔ اور ایسی کون سی بات ہے جو ابراہیم الحربی اور مستشرق جور فتس میں مشترک ہے ۔
2۔ حالیہ مسئلہ علم حدیث اور تاریخ سے تعلق رکھتا ہے لیکن باحث کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث سے شدید غافل ہیں ۔ میرا یہ اندازہ مراسلات کی بنیاد پر ہی ہے ، ممکن ہے آئندہ کچھ مراسلات ایسے ہوں جن سے یہ غلط ثابت ہو جائے ۔
خیر اب میں کوشش کرتا ہوں کہ آپ کی مراسلے پر کچھ تبصرہ کر سکوں ۔ اگر میں آپ کا موقف غلط بیان کروں تو آپ تصحیح فرمادیں ۔
بحث کے سیاق و سباق سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ آپ درج ذیل بات کرنا چاہ رہے ہیں :
  1. امام احمد واقدی کو ضعیف نہیں سمجھتے تھے ۔ اور ان سے واقدی کی تضعیف یا تکذیب کے بارے میں وارد اقوال ثابت نہیں ہیں ۔
  2. امام احمد واقدی کی کتابوں پر اعتماد کرتے تھے ، واقدی شیعہ تھا لہذا امام احمد نے مسند میں شیعی روایات کی بھر مار کردی ہے ۔
پہلی بات :
میری گزارش یہ ہے کہ امام احمد واقدی کو ضعیف سمجھتے تھے یا نہیں سمجھتے تھے ، اس سے ہماری گفتگو پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ کیونکہ یہاں مسئلہ واقدی کے ضعف یا ثقاہت کا نہیں ، بلکہ مسئلہ مغازی الواقدی اور مسند احمد میں مماثلت کا ہے ۔ اور یہ کہ امام احمد نے مسند احمد میں واقدی سے لے کر مواد کو بیان کیا ہے ۔
دوسری بات :

اگر آپ کسی محدث کے ’’ اعتماد ‘‘ کرنے کا معنی سمجھتے ہیں ، تو کوئی ایک نص امام احمد سے نقل فرمادیں ، جس میں انہوں نے واقدی کو مستقل طور پر قابل اعتماد کہا ہو ۔
امام احمد واقدی پر ’’ اعتماد ‘‘ نہیں بلکہ اس کی حدیثوں کا ’’ اعتبار ‘‘ کرتے تھے ، اور ’’ اعتبار ‘‘ محدثین کی ایک خاص اصطلاح ہے ، جس کے ذریعے محدثین ضعیف راویوں کی روایات کی چھان بین کرکے ، ان میں سے ’’ قابل اعتماد ‘‘ اور ’’ نا قابل اعتماد ‘‘ کو الگ الگ کرتے تھے ۔ اگر ہم محدثین کے اس ’’ اعتبار ‘‘ کو ہمارے ہاں معروف ’’ اعتبار ‘‘ کے معنی میں لیں گے تو غلطی فہمی ہوگی ۔ جیساکہ اوپر لولی صاحب کے مراسلہ جات میں ایسا کیا گیاہے ۔ اور ساتھ مصیبت یہ ہےکہ عربی عبارت نقل نہیں کی ، کم از کم عربی عبارت نقل کردی جاتی تو ، اہل علم سمجھ سکتے تھے کہ ترجمہ کرنے والے نے ترجمہ کرنے میں غلطی کی ہے ۔ لولی صاحب کی عبارت دیکھیں :
اور امام احمد نے واقدی کی کتب دیکھنے کا سبب واضح کیا، پس کہا … تاکہ میں ان ( کتابوں) کو جان سکوں اوران پر اعتبار کر سکوں
یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ امام احمد واقدی پر اعتبار کرنے لگے تھے اور واقدی میں ان کا شغف بڑھ گیا تھا رونہ ایک ایک کر کے کتابیں دیکھنے کا شوق کیوں ہوا
یہ لولی صاحب کے مراسلے میں موجود امام احمد کے قول کی غلط ترجمانی ہے ، اصل قول یوں ہے :
قال لي علي بن المديني: قال لي أحمد بن حنبل: أعطني ما كتب عن ابن أبي يحيى، قال: قلت: وما تصنع به؟ قال: أنظر فيها أعتبرها، قال: ففتحها، ثم قال: اقرأها علي، قال: قلت وما تصنع به: قال: أنظر فيها قال: قلت له: أنا أحدث عن ابن أبي يحيى؟ قال لى: وما عليك أنا أريد أن أعرفها وأعتبر بها ۔۔۔ (موسوعۃ أقوال الإمام احمد ج 3 ص 298 )
گویا امام احمد واقدی کی کتابوں کو اس لیے دیکھتے تھے تاکہ وہ ان کی چھان بین کرسکیں اور دیکھ سکیں کے دیگر راویوں نے واقدی کی تائید کی ہے یا نہیں ، دیکھنے کا مطلب ، ان کو جاننے کا مطلب صرف یہی تھا تاکہ ان کا قابل اعتماد رایوں کی روایات سے مقارنہ کیا جائے ، جن کی تائید ہوتی ہو وہ لے لی جائیں ، باقی چھوڑ دی جائیں ۔
یہی وجہ ہے باوجود اس کے لولی صاحب کے مراسلوں میں ’’ امام احمد کا واقدی کی کتابوں سے استفادہ کرنے ‘‘ کو بتکرار بیان کیا جارہا ہے ، لیکن ساتھ یہ بھی اعتراف ہے کہ مسند احمد میں واقدی سے ایک بھی روایت موجود نہیں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر واقدی امام احمد کے نزدیک قابل اعتبار تھا ، امام احمد اس کی کتابوں کو ’’ چھان بین ‘‘ کرنے کے لیے نہیں بلکہ ’’ اعتماد ‘‘ کرنے کے لیے ہی لیتے اور پڑھتے تھے تو پھر امام صاحب نے ان روایات کی اسانید میں واقدی کو ذکر کیوں نہیں کیا ۔؟
اور یہ کیا عجیب تضاد ہے کہ مسند احمد میں
  • مغازی سے متعلقہ روایات بھی واقدی کی ہیں ۔
  • واقدی امام صاحب کے نزدیک قابل اعتبار بھی تھا ۔
  • لیکن اس کے باوجود مسند میں واقدی کا نام تک موجود نہیں ۔
یہ عجیب قسم کا تضاد مستشرق سے استفادہ کا نتیجہ ہے یا پتہ نہیں اس کی وجہ کوئی اور ہے ، یہ تو وہی بتا سکتے ہیں ۔
لیکن ہمارے نزدیک بات بالکل سیدھی سیدھی ہے کہ
امام صاحب نے واقدی کی کتابوں کودیکھا ، قصص اور واقعات یعنی صرف متون کو لیا ، اس میں واقدی کی سند کو نہیں لیا ، بلکہ اس کے لیے اور اسانید تلاش کیں ، جن کی اسانید انہیں مل گئیں ، انہیں ذکر کردیا ، جن کی اسانید واقدی کے علاوہ نہیں ملیں ، انہیں امام صاحب نے چھوڑ دیا ۔
سوال :
اگر امام صاحب نے مغازی کسی اور کی اسانید سے ہی بیان کرنے تھے تو پھر واقدی کی کتابیں دیکھنے کا کیا مقصد تھا ۔؟
جواب :
واقدی کا علم مغازی و سیر میں ماہر ہونا ، اس سلسلے میں کثیر معلومات رکھنا یہ اس دور میں کیا ، آج تک اہل علم کے ہاں متفقہ امر ہے ۔ جس طرح مغازی سے متعلقہ مواد امام صاحب کو مجموعی و مرتب شکل میں واقدی کے پاس ملا ممکن ہے کسی اور کے پاس نہ ملتا ۔ لہذا امام صاحب نے ’’ جمع کردہ مواد ‘‘ کو لیا اور اس کی چھان بین کرکے پیش کردیا ۔ گویا امام صاحب نے واقدی کی ’’ مورخانہ کاوش ‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے اس کو ’’ محدثانہ کوشش ‘‘ کے اضافے کے ساتھ پیش کردیا ۔ واللہ اعلم ۔

رہا یہ اعتراض کہ امام صاحب نے مسند احمد میں شیعی روایات کی بھر مار کردی ہے ، تو میرے خیال میں اس طرح کے اعتراضات ہمارے ’’ علمی ضعف ‘‘ ، ’’ پست ہمت ‘‘ اور ’’ عجز و لاچار ‘‘ سے جنم لیتے ہیں ۔
مشہور مقولہ بلکہ اصول ہے : من أسند فقد برئ جس نے بات کو بحوالہ یعنی باسند بیان کردیا وہ بری الذمہ ہوگیا ۔
امام صاحب نے جو کچھ بیان کیا ، اس کو با سند بیان کردیا ، اب اس کی دو صورتیں یا تو سند مقبول ہو گی یا غیر مقبول ، اب ہر دو صورتوں میں ’’ متن ‘‘ کے شروع ہونے سے پہلے سند آپ کے سامنے ہے ، سند کی تحقیق کریں ، مقبول کو مانیں اور مردود کو جان کر چھوڑ دیں ۔ اس میں امام صاحب پر اعتراض کا کیا ’’ تُک ‘‘ بنتا ہے ۔ اور پھر کیا امام صاحب نے یہ دعوی کیا ہے کہ میں اس کتاب میں وہی حدیث بیان کروں گا جو بالکل صحیح اور ثابت ہو گی ۔؟ امام صاحب نےکوشش کی ہے کہ صحابہ کرام کےناموں سے الگ الگ ابواب قائم کرکے ، جس سے جو کچھ مروی ہے ، اس کو ایک جگہ اکٹھا کردیا جائے ، ثابت غیر ثابت تو امام صاحب کا اصل ہدف تھا ہی نہیں ۔ کہ ہم امام صاحب سے بیزاری کا اظہار کرتے پھریں ۔
اور اس دور میں محدثین کا تصنیفات میں یہی انداز تھا ، یہی وجہ کہ اس قسم کے اعتراضات آج تک کسی متاخر محدث نے متقدم محدث پر نہیں کیے جو آجکل کے بعض نام نہاد محققین کررہے ہیں کہ مسند احمد میں اس طرح کی حدیثیں کیوں بیان ہوئی ہیں ، مستدرک حاکم میں اس طرح کی حدیثیں کیوں بیان ہوئی ہیں ۔ کتب ستہ میں فلاں راوی کو کیوں ذکر کیا گیا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
تو لولی صاحب اگر آپ کو حدیث کی کسی کتاب میں ایسی بات نظر آتی ہے جو آپ کے نزدیک درست نہیں تو اس کی سند دیکھیں ، علماء سے رابطہ کریں ،اب تو کتابوں میں صحت و ضعف کےحوالے سے احکام لگادیے گئے ہیں ، ان سے استفادہ کریں ، یقینا جو باتیں غلط ہیں ، وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہوں گی ، اور اگر کوئی چیز پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہے تو پھر ہماری سمجھ میں خرابی ہے ، ہمیں علماء سے رابطہ کرکے اس کوسمجھنا چاہیے ۔ میں نے اس سے پہلے بھی اس قسم کےکسی تھریڈ میں لکھا تھا کہ ’’ متقدم پر اعتراض کی وجہ متاخر کا علم اور تحقیق ہونا چاہیے ، اس کی جہالت اور ہٹ دھرمی نہیں ہونی چاہیے ‘‘ ۔ اگر میں کسی کتاب کی اسانید کی جانچ اور پرکھ نہیں کر سکتا تو اس کا مطلب یہ نہیں یہ کتاب لکھنے والی میں کوئی کمی تھی ، بلکہ یہ میری ’’ نا اہلی ‘‘ ہے ، جس کودور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
مقولہ مشہور ہے :’’ پہلے تولو پھر بولو ‘‘ اس کو یوں کرلیں ’’ پہلے محدثین کا منہج سمجھو پھر اعتراض کرو ‘‘ ۔
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

تاریخ دان محمد بن عمر الواقدی سے متعلق کچھ تفصیلات یہاں پر ملاحضہ ہوں -

محمد بن عمر الواقدی دوسری صدی کے ایک مشہور مورخ ہیں۔ یہ صاحب بغداد کے قاضی تھے اور بڑے عالم تھے۔ انہوں نے بڑی محنت سے ایک ایک شہر اور ایک ایک گاؤں میں جا کر تاریخی روایتیں اکٹھی کیں اور اس پر کتابیں لکھیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے یہ کتب دوسری صدی کے نصف آخر میں لکھی گئی ہوں گی۔ انہوں نے روایات کی تفتیش و تنقید بالکل نہ کی بلکہ جو کچھ ملا، اسے لکھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ واقدی کو ماہرین جرح و تعدیل نے نہایت ہی ناقابل اعتماد اور غیر ثقہ قرار دیا ہے۔ واقدی کی تصانیف گردش ایام کی نذرہو گئیں اور ہم تک نہیں پہنچیں تاہم ان کی روایات بعد کے دور کی تصانیف کا حصہ بن گئیں۔

واقدی کے بارے میں احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ کذاب ہے۔ ابن معین انہیں ثقہ نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ان کی روایت کبھی نہ لکھو۔ بخاری اور ابو حاتم انہیں متروک قرار دیتے ہیں۔ ابن المدینی، ابوحاتم اور نسائی کہتے ہیں کہ یہ روایتیں گھڑا کرتے تھے۔ دارقطنی کہتے ہیں کہ ان میں ضعف پایا جاتا ہے۔ ابن المدینی کہتے ہیں کہ یہ صاحب تیس ہزار ایسی احادیث سنایا کرتے تھے جو کہ بالکل ہی اجنبی تھیں۔ خطیب بغدادی نے واقدی سے متعلق نقل کیا ہے کہ انہوں نے جنگ احد کے واقعے کو بیس (بروایت دیگر سو) جلدوں میں بیان کیا۔ اب چند گھنٹوں میں ہونے والی جنگ احد کو اگر بیس جلدوں میں بیان کیا جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فاضل مصنف نے اس میں کیا کچھ اکٹھا کر دیا ہو گا۔

( خطیب بغدادی (392-463/1002-1071)۔ تاریخ مدینۃ السلام (بغداد)۔ باب محمد بن عمر الواقدی، نمبر 1203۔ 4/11۔ بیروت: دار الغرب الاسلامی)-

تاریخ کی کتب میں واقدی کی روایات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسی روایات، جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی منفی بات ہو، ان میں سے اکثر کی سند میں واقدی موجود ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ واقدی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے بارے میں متعصب تھے۔ اس کے برعکس بعض شیعہ اہل علم جیسے ابن الندیم کا کہنا ہے کہ واقدی میں تشیع پایا جاتا تھا مگر وہ تقیہ کر کے خود کو اہل سنت میں ظاہر کرتے تھے۔

(خالد کبیر علال۔ مدرسۃ الکذابین فی روایۃ التاریخ الاسلامی و تدوینہ۔ ص 65-66۔ الجزائر: دار البلاغ)-
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
@خضر حیات بھائی

آپ مجھ سے حسن زن رکھیں یا نہ رکھیں اس کی کوئی اہمیت نہیں - میں نے لنک دے دیا ہے - اب یہاں اہل علم کا کام بنتا ہے کہ جواب دیں تا کہ ہم جیسے طالب علموں کے علم میں اضافہ ہو - یہاں ہمیشہ مجھے عثمانی عثمانی ہونے کا راگ پیٹا گیا اور حیرت کی بات یہ کہ یہاں پر مجھے بین ہونے کی دھمکی بھی دی گئی

لیکن جب جواب دینے کی بارے آتی ہے تو اس فورم پر فتویٰ بازی شروع کر کے بات کو ہے ختم کر دیا جاتا ہے

امید ہے کہ اڈمن صاحب میری پوسٹس کو منظور کر کے یہاں لگا دیں گے - الله ہم سب کو دین کی سمجھ عطا کرے

یہ بات بھی یہاں پوچھی گئی ہے - اگر اس کا جواب بھی آپ ان لوگوں کو دے دیں تو الله آپ کو جزایے دے




سن ٢٠٠٤میں دکتور عبد العزیز بن سلیمان بن ناصر السلومی کی تحقیق بنام الواقدی و کتابہ المغازی منہجہ و مصادرہ شایع ہوئی. جو ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ تھا اور سعودی عرب کی جامعہ الاسلامیہ با لمدینہ المنورہ میں پیش ہوا. اس میں محقق نے کئی مقامات پر جرمن مشتشرق ھورو فتس کے حوالے اپنی تائید میں دئے ہیں. کیا یہ کام غلط ہے؟ اگر کوئی بات مستشرق کہہ رہا ہے اور وہ صحیح ہے تو اس کو قبول کرنے میں کیا حرج ہے ایک قول ہے


اس کتاب میں دکتور عبد العزیز بن سلیمان بن ناصر السلومی لکھتے ہیں



بے شک امام احمد ہر جمعہ کو حنبل بن اسحاق کے ساتھ ابن سعد، کاتب الواقدی کی طرف رخ کرتے اور واقدی کی دو کتابیں لاتے ان کو دیکھتے پھر لوٹاتے اور دوسری لیتے

اور اسی وجہ سے عبد الله بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میرے باپ اکثر واقدی کی کتابیں دیکھتے

اور امام احمد نے واقدی کی کتب دیکھنے کا سبب واضح کیا، پس کہا … تاکہ میں ان ( کتابوں) کو جان سکوں اوران پر اعتبار کر سکوں

یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ امام احمد واقدی پر اعتبار کرنے لگے تھے اور واقدی میں ان کا شغف بڑھ گیا تھا رونہ ایک ایک کر کے کتابیں دیکھنے کا شوق کیوں ہوا. یہ بات احمد کی عمر کے آخری حصے میں ہو گی کیونکہ اس بات کو ابراہیم الحربی بتاتے ہیں جو واقدی کی وفات کے وقت ١١ سال کے ہونگے ظاہر ہے کہ ١١ سال کی عمر میں ابراہیم علم تاریخ اور جرح و تعدیل پر عبور نہیں رکھ سکتے

امام احمد کا واقدی کے بارے میں نظریہ ارتقاء کا شکار رہا ان کے اس حوالے سے تمام اقوال میں تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ ایک وقت تھا جب اس کو کذاب کہا اور اس سے کچھ روایت نہیں کیا امام جوزجانی کے مطابق واقدی کی وفات کے روز کہا مدت ہوئی اس کی کتابوں سے میں نے اپنی کتابوں کی جلدیں بنا لیں لیکن اگلے چند سالوں میں اس میں دلچسپی پیدا ہوئی اور پھر اس کی کتابیں دیکھنا شروع کر دیں اور ان میں قابل اعتبارمواد تلاش کرنا شروع کیا

یہ بھی غور طلب ہے کہ

حنبل بن اسحاق واقدی سے روایت کرتے تھے کتاب مسند القاروق از ابن کثیر کے مطابق

قال حنبل (بن اسحاق) وحدثنى ابى اسحاق حدثنا محمد بن عمر حدثنا ابن ابى سبرة عن عثمان بن عبد الله بن رافع عن ابن المسيب قال اول من كتب التاريخ عمر لسنتين ونصف من خلافته فكتب لست عشرة من الهجرة بمشورة من على بن ابى طالب قال محمد بن عمر هو الواقدى


عبداللہ بن احمد بھی روایت کرتے تھے طبرانی کی کتاب الدعا میں روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ثنا شَبَابٌ الْعُصْفُرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِيُّ، ثنا هَارُونُ الْأَهْوَازِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ وَعَذَابِالْقَبْرِ، وَفِتْنَةِ الْمَحْيَا وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ»


اگر واقدی متروک تھا تو حنبل بن اسحاق اور عبد الله نے روایت کیوں کی؟ اس کی وجہ کیا تھی ؟ یہ نقطہ نظر میں تبدیلی کب واقعہ ہوئی؟

واقدی شاید وہ واحد راوی ہوں جن کو امام احمد نےکذاب کہا ہو اور پھر اس کی کتابیں بھی کھنگالی ہوں

مشتسرقین کسی ایسی کتاب کی تلاش میں رہے جس سے وہ اسلام کی سنہری تاریخ کو داغدار کر سکیں چناچہ انہوں نے واقدی، ابن سعد اور ابن اسحاق کی کتب کو استمعال کیا اور آخر میں ان کی نگاہ انتخاب مسند امام احمد پر رکی . سید سلیمان الندوی اپنے ایک جواب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں جو کتاب اسلام اور مستشرقین جلد پنجم میں چھپا




آخر مسند میں مستشرقین کے لئے کیا پر کشش مواد ہے جو ان کو اور کتابوں سے اس کی طرف کھینچ لایا؟


یہ ہمارے عالم سید سلیمان ندوی کہہ رہے ہیں جو معروف شخصیت ہیں

اپ کے لئے سوچنے کا مقام ہے!

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
لولی آل ٹائم صاحب !
میں چاہتے ہوئے بھی آپ کے بارے میں یا جن سے آپ نقل کر رہے ہیں ، حسن ظن رکھنے میں کامیاب نہیں ہورہا ہے کہ آپ واقعتا ایک علمی معاملے کو علمی بنیادوں پر سلجھانا چاہ رہے ہیں ۔
آپ کے مراسلات میں دو باتیں میں نےشدت سے محسوس کی ہیں :
1۔ مراسلات جاری بحث کے تناظر میں لکھے ہوئے نہیں لگتے ، لگتا ہے پہلے سے تیار شدہ ہیں ، جن کو اٹھا کر کسی کے سر پر ماردیا جاتا ہے ، چاہے مد مقابل کی بات سے اس کا کوئی تعلق ہو یا نہ ہو ۔ اور یا پھر جان بوجھ کر ایسا کیا جاتا ہے تاکہ بات سمجھنے میں ہی اتنا الجھاؤ ہو کہ جواب تک نوبت ہی نہ آئے ۔ واللہ اعلم ۔ مثلا آپ کے میرے جواب میں لکھے گئے آخری مراسلے میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ آپ واقدی کی احمد سے تضعیف ثابت کرنا چاہ رہے ہیں یا توثیق ؟ دولابی اور احمد دونوں میں سے کون دوسرے کی بات کو رد یا قبول کرنا چاہ رہا ہے ۔ اور ایسی کون سی بات ہے جو ابراہیم الحربی اور مستشرق جور فتس میں مشترک ہے ۔
2۔ حالیہ مسئلہ علم حدیث اور تاریخ سے تعلق رکھتا ہے لیکن باحث کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث سے شدید غافل ہیں ۔ میرا یہ اندازہ مراسلات کی بنیاد پر ہی ہے ، ممکن ہے آئندہ کچھ مراسلات ایسے ہوں جن سے یہ غلط ثابت ہو جائے ۔
خیر اب میں کوشش کرتا ہوں کہ آپ کی مراسلے پر کچھ تبصرہ کر سکوں ۔ اگر میں آپ کا موقف غلط بیان کروں تو آپ تصحیح فرمادیں ۔
بحث کے سیاق و سباق سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ آپ درج ذیل بات کرنا چاہ رہے ہیں :
  1. امام احمد واقدی کو ضعیف نہیں سمجھتے تھے ۔ اور ان سے واقدی کی تضعیف یا تکذیب کے بارے میں وارد اقوال ثابت نہیں ہیں ۔
  2. امام احمد واقدی کی کتابوں پر اعتماد کرتے تھے ، واقدی شیعہ تھا لہذا امام احمد نے مسند میں شیعی روایات کی بھر مار کردی ہے ۔
پہلی بات :
میری گزارش یہ ہے کہ امام احمد واقدی کو ضعیف سمجھتے تھے یا نہیں سمجھتے تھے ، اس سے ہماری گفتگو پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ کیونکہ یہاں مسئلہ واقدی کے ضعف یا ثقاہت کا نہیں ، بلکہ مسئلہ مغازی الواقدی اور مسند احمد میں مماثلت کا ہے ۔ اور یہ کہ امام احمد نے مسند احمد میں واقدی سے لے کر مواد کو بیان کیا ہے ۔
دوسری بات :

اگر آپ کسی محدث کے ’’ اعتماد ‘‘ کرنے کا معنی سمجھتے ہیں ، تو کوئی ایک نص امام احمد سے نقل فرمادیں ، جس میں انہوں نے واقدی کو مستقل طور پر قابل اعتماد کہا ہو ۔
امام احمد واقدی پر ’’ اعتماد ‘‘ نہیں بلکہ اس کی حدیثوں کا ’’ اعتبار ‘‘ کرتے تھے ، اور ’’ اعتبار ‘‘ محدثین کی ایک خاص اصطلاح ہے ، جس کے ذریعے محدثین ضعیف راویوں کی روایات کی چھان بین کرکے ، ان میں سے ’’ قابل اعتماد ‘‘ اور ’’ نا قابل اعتماد ‘‘ کو الگ الگ کرتے تھے ۔ اگر ہم محدثین کے اس ’’ اعتبار ‘‘ کو ہمارے ہاں معروف ’’ اعتبار ‘‘ کے معنی میں لیں گے تو غلطی فہمی ہوگی ۔ جیساکہ اوپر لولی صاحب کے مراسلہ جات میں ایسا کیا گیاہے ۔ اور ساتھ مصیبت یہ ہےکہ عربی عبارت نقل نہیں کی ، کم از کم عربی عبارت نقل کردی جاتی تو ، اہل علم سمجھ سکتے تھے کہ ترجمہ کرنے والے نے ترجمہ کرنے میں غلطی کی ہے ۔ لولی صاحب کی عبارت دیکھیں :

یہ لولی صاحب کے مراسلے میں موجود امام احمد کے قول کی غلط ترجمانی ہے ، اصل قول یوں ہے :
قال لي علي بن المديني: قال لي أحمد بن حنبل: أعطني ما كتب عن ابن أبي يحيى، قال: قلت: وما تصنع به؟ قال: أنظر فيها أعتبرها، قال: ففتحها، ثم قال: اقرأها علي، قال: قلت وما تصنع به: قال: أنظر فيها قال: قلت له: أنا أحدث عن ابن أبي يحيى؟ قال لى: وما عليك أنا أريد أن أعرفها وأعتبر بها ۔۔۔ (موسوعۃ أقوال الإمام احمد ج 3 ص 298 )
گویا امام احمد واقدی کی کتابوں کو اس لیے دیکھتے تھے تاکہ وہ ان کی چھان بین کرسکیں اور دیکھ سکیں کے دیگر راویوں نے واقدی کی تائید کی ہے یا نہیں ، دیکھنے کا مطلب ، ان کو جاننے کا مطلب صرف یہی تھا تاکہ ان کا قابل اعتماد رایوں کی روایات سے مقارنہ کیا جائے ، جن کی تائید ہوتی ہو وہ لے لی جائیں ، باقی چھوڑ دی جائیں ۔
یہی وجہ ہے باوجود اس کے لولی صاحب کے مراسلوں میں ’’ امام احمد کا واقدی کی کتابوں سے استفادہ کرنے ‘‘ کو بتکرار بیان کیا جارہا ہے ، لیکن ساتھ یہ بھی اعتراف ہے کہ مسند احمد میں واقدی سے ایک بھی روایت موجود نہیں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر واقدی امام احمد کے نزدیک قابل اعتبار تھا ، امام احمد اس کی کتابوں کو ’’ چھان بین ‘‘ کرنے کے لیے نہیں بلکہ ’’ اعتماد ‘‘ کرنے کے لیے ہی لیتے اور پڑھتے تھے تو پھر امام صاحب نے ان روایات کی اسانید میں واقدی کو ذکر کیوں نہیں کیا ۔؟
اور یہ کیا عجیب تضاد ہے کہ مسند احمد میں
  • مغازی سے متعلقہ روایات بھی واقدی کی ہیں ۔
  • واقدی امام صاحب کے نزدیک قابل اعتبار بھی تھا ۔
  • لیکن اس کے باوجود مسند میں واقدی کا نام تک موجود نہیں ۔
یہ عجیب قسم کا تضاد مستشرق سے استفادہ کا نتیجہ ہے یا پتہ نہیں اس کی وجہ کوئی اور ہے ، یہ تو وہی بتا سکتے ہیں ۔
لیکن ہمارے نزدیک بات بالکل سیدھی سیدھی ہے کہ
امام صاحب نے واقدی کی کتابوں کودیکھا ، قصص اور واقعات یعنی صرف متون کو لیا ، اس میں واقدی کی سند کو نہیں لیا ، بلکہ اس کے لیے اور اسانید تلاش کیں ، جن کی اسانید انہیں مل گئیں ، انہیں ذکر کردیا ، جن کی اسانید واقدی کے علاوہ نہیں ملیں ، انہیں امام صاحب نے چھوڑ دیا ۔
سوال :
اگر امام صاحب نے مغازی کسی اور کی اسانید سے ہی بیان کرنے تھے تو پھر واقدی کی کتابیں دیکھنے کا کیا مقصد تھا ۔؟
جواب :
واقدی کا علم مغازی و سیر میں ماہر ہونا ، اس سلسلے میں کثیر معلومات رکھنا یہ اس دور میں کیا ، آج تک اہل علم کے ہاں متفقہ امر ہے ۔ جس طرح مغازی سے متعلقہ مواد امام صاحب کو مجموعی و مرتب شکل میں واقدی کے پاس ملا ممکن ہے کسی اور کے پاس نہ ملتا ۔ لہذا امام صاحب نے ’’ جمع کردہ مواد ‘‘ کو لیا اور اس کی چھان بین کرکے پیش کردیا ۔ گویا امام صاحب نے واقدی کی ’’ مورخانہ کاوش ‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے اس کو ’’ محدثانہ کوشش ‘‘ کے اضافے کے ساتھ پیش کردیا ۔ واللہ اعلم ۔

رہا یہ اعتراض کہ امام صاحب نے مسند احمد میں شیعی روایات کی بھر مار کردی ہے ، تو میرے خیال میں اس طرح کے اعتراضات ہمارے ’’ علمی ضعف ‘‘ ، ’’ پست ہمت ‘‘ اور ’’ عجز و لاچار ‘‘ سے جنم لیتے ہیں ۔
مشہور مقولہ بلکہ اصول ہے : من أسند فقد برئ جس نے بات کو بحوالہ یعنی باسند بیان کردیا وہ بری الذمہ ہوگیا ۔
امام صاحب نے جو کچھ بیان کیا ، اس کو با سند بیان کردیا ، اب اس کی دو صورتیں یا تو سند مقبول ہو گی یا غیر مقبول ، اب ہر دو صورتوں میں ’’ متن ‘‘ کے شروع ہونے سے پہلے سند آپ کے سامنے ہے ، سند کی تحقیق کریں ، مقبول کو مانیں اور مردود کو جان کر چھوڑ دیں ۔ اس میں امام صاحب پر اعتراض کا کیا ’’ تُک ‘‘ بنتا ہے ۔ اور پھر کیا امام صاحب نے یہ دعوی کیا ہے کہ میں اس کتاب میں وہی حدیث بیان کروں گا جو بالکل صحیح اور ثابت ہو گی ۔؟ امام صاحب نےکوشش کی ہے کہ صحابہ کرام کےناموں سے الگ الگ ابواب قائم کرکے ، جس سے جو کچھ مروی ہے ، اس کو ایک جگہ اکٹھا کردیا جائے ، ثابت غیر ثابت تو امام صاحب کا اصل ہدف تھا ہی نہیں ۔ کہ ہم امام صاحب سے بیزاری کا اظہار کرتے پھریں ۔
اور اس دور میں محدثین کا تصنیفات میں یہی انداز تھا ، یہی وجہ کہ اس قسم کے اعتراضات آج تک کسی متاخر محدث نے متقدم محدث پر نہیں کیے جو آجکل کے بعض نام نہاد محققین کررہے ہیں کہ مسند احمد میں اس طرح کی حدیثیں کیوں بیان ہوئی ہیں ، مستدرک حاکم میں اس طرح کی حدیثیں کیوں بیان ہوئی ہیں ۔ کتب ستہ میں فلاں راوی کو کیوں ذکر کیا گیا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
تو لولی صاحب اگر آپ کو حدیث کی کسی کتاب میں ایسی بات نظر آتی ہے جو آپ کے نزدیک درست نہیں تو اس کی سند دیکھیں ، علماء سے رابطہ کریں ،اب تو کتابوں میں صحت و ضعف کےحوالے سے احکام لگادیے گئے ہیں ، ان سے استفادہ کریں ، یقینا جو باتیں غلط ہیں ، وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہوں گی ، اور اگر کوئی چیز پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہے تو پھر ہماری سمجھ میں خرابی ہے ، ہمیں علماء سے رابطہ کرکے اس کوسمجھنا چاہیے ۔ میں نے اس سے پہلے بھی اس قسم کےکسی تھریڈ میں لکھا تھا کہ ’’ متقدم پر اعتراض کی وجہ متاخر کا علم اور تحقیق ہونا چاہیے ، اس کی جہالت اور ہٹ دھرمی نہیں ہونی چاہیے ‘‘ ۔ اگر میں کسی کتاب کی اسانید کی جانچ اور پرکھ نہیں کر سکتا تو اس کا مطلب یہ نہیں یہ کتاب لکھنے والی میں کوئی کمی تھی ، بلکہ یہ میری ’’ نا اہلی ‘‘ ہے ، جس کودور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
مقولہ مشہور ہے :’’ پہلے تولو پھر بولو ‘‘ اس کو یوں کرلیں ’’ پہلے محدثین کا منہج سمجھو پھر اعتراض کرو ‘‘ ۔



آپ کی اس پوسٹ کا یہ جواب دیا گیا ہے




http://www.islamic-belief.net/مستشرقین-واقدی-اور-مسند-احمد/#comment-3774


پہلے اپ نے کہا تھا

مستشرق کی تحقیق غلط ہے ، مغازی الواقدی اور مسند احمد میں بعد المشرقین ہے
آج اپ نے اس فاصلے کو ختم کر دیا جو شاید مطالعہ کا نتیجہ ہے

امام احمد کا واقدی کے حوالے سے طرز عمل ارتقاء کا شکار رہا پہلے کذاب کہا پھر (جوزجانی کے مطابق) اس کی کتابوں سے جلدیں بنا لیں ،پھر کچھ خیال آیا اور واقدی کی وفات کے بعد ابراہیم الحربی کے مطابق اس کی کمی محسوس کرتے ہوئے ہر جمعہ کو اس کی کتابوں کی جلدیں دیکھتے

یہ بات درست ہے کہ

واقدی کا علم مغازی و سیر میں ماہر ہونا ، اس سلسلے میں کثیر معلومات رکھنا یہ اس دور میں کیا ، آج تک اہل علم کے ہاں متفقہ امر ہے ۔ جس طرح مغازی سے متعلقہ مواد امام صاحب کو مجموعی و مرتب شکل میں واقدی کے پاس ملا ممکن ہے کسی اور کے پاس نہ ملتا ۔ لہذا امام صاحب نے ’’ جمع کردہ مواد ‘‘ کو لیا اور اس کی چھان بین کرکے پیش کردیا ۔ گویا امام صاحب نے واقدی کی ’’ مورخانہ کاوش ‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے اس کو ’’ محدثانہ کوشش ‘‘ کے اضافے کے ساتھ پیش کردیا ۔ واللہ اعلم ۔

ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں جو اپ بلاگ میں دیکھ سکتے ہیں

کسی (امام احمد کے بقول) کذاب کی کتاب میں ایسی کیا چیز تھی جس کی وجہ سے وہ اکثر کتاب دیکھتے اور باقاعدہ ہر جمعہ کو جاتے. واقدی کے کام میں امام احمد کی دلچسپی کی نوعیت یہ سمجھ میں اتی ہے کہ انہوں نے وہ واقعات جو واقدی نقل کرتا ہے ان کو اپنی سند سے مسند میں بیان کیا کیونکہ مسند میں انہوں نے واقدی سے کچھ روایت نہیں کیا ہے

نہ ہم یہ کہہ رہے ہیں نہ مستشرق نے یہ کہا ہے کہ امام احمد واقدی سے روایت کرتے تھے لیکن ایک تاریخی بحث بنتی ہے کہ جب وہ احمد کے نزدیک متروک یا کذاب تھا تو پھر اس کی کتابوں کی جلدیں بنانے کے بعد آخر کب اس کی طرف شغف پیدا ہوا اور اس کی وجہ کیا تھی؟ اسی ارتقاء پر بلاگ میں بحث کی گئی ہے جس سے احمد ہی کے متضاد اقوال میں تطبیق پیدا ہو سکتی ہے

ہم نے یہ بھی لکھا ہے

امام احمد نے ایک ضخیم مسند لکھی ہے اس میں ان کا مقصد صرف صحیح روایات اکھٹی کرنا نہیں تھا لہذا اس کی سینکڑوں روایات پر جرح ہو چکی ہے اور اس کے بہت سے راویوں کو خود احمد نے ضعیف قرار دیا

اس سلسلے میں قابل غور ہے کہ اگر احمد واقدی سے مسند میں روایت کر دیتے تو پھر کیا کہا جاتا یہی کہ انہوں نے سند دے دی ہے جس کو تحقیق کرنی ہو کرے اسی وجہ سے ہم نے یہ بات کی ہی نہیں دوم احمد نے شیعوں کی روایات بیان کیں جو واقدی سے استفادہ کے نتیجے میں شاید ان کو ملی اور انہوں نے ان کو اپنے محدثانہ انداز کے ساتھ پیش کیا لہذا ہم اس نتیجے سے اتفاق کرتے ہیں کہ

امام صاحب نے واقدی کی کتابوں کودیکھا ، قصص اور واقعات یعنی صرف متون کو لیا ، اس میں واقدی کی سند کو نہیں لیا ، بلکہ اس کے لیے اور اسانید تلاش کیں ، جن کی اسانید انہیں مل گئیں ، انہیں ذکر کردیا ، جن کی اسانید واقدی کے علاوہ نہیں ملیں ، انہیں امام صاحب نے چھوڑ دیا

یہ نتیجہ مستشرق جوزف هوروفتس کی تائید کرتا ہےجس کے مطابق واقدی کی مغازی اور مسند احمد ایک مواد رکھتی ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
@خضر حیات بھائی

آپ مجھ سے حسن زن رکھیں یا نہ رکھیں اس کی کوئی اہمیت نہیں - میں نے لنک دے دیا ہے - اب یہاں اہل علم کا کام بنتا ہے کہ جواب دیں تا کہ ہم جیسے طالب علموں کے علم میں اضافہ ہو - یہاں ہمیشہ مجھے عثمانی عثمانی ہونے کا راگ پیٹا گیا اور حیرت کی بات یہ کہ یہاں پر مجھے بین ہونے کی دھمکی بھی دی گئی

لیکن جب جواب دینے کی بارے آتی ہے تو اس فورم پر فتویٰ بازی شروع کر کے بات کو ہے ختم کر دیا جاتا ہے

امید ہے کہ اڈمن صاحب میری پوسٹس کو منظور کر کے یہاں لگا دیں گے - الله ہم سب کو دین کی سمجھ عطا کرے
بھائی میرے ’’ کاپی پیسٹ ‘‘ کرنے کے علاوہ پوسٹیں ’’ پڑھی ‘‘ بھی جا سکتی ہیں اور ان پر ’’ غور وفکر ‘‘ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ اور دوسروں سے شکوے کرنے کی بجائے اپنے طرز عمل پر بھی غور کرنا چاہیے ، آپ ہر دوسری پوسٹ میں ’’ نگرانوں ‘‘ پر تبصرہ کرنا اور انہیں پوسٹ شائع کرنے کی نصیحت کرنا تو نہیں بھولتے ، لیکن خود آپ کا اپنا یہ حال ہے کہ گویا کوئی مشین ہے جسے ’’ کاپی پیسٹ ‘‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا آتا ۔ ذرا اپنی پوسٹ نمبر 25 کا یہ اقتباس دیکھیں :
@خضر حیات بھائی
یہ بات بھی یہاں پوچھی گئی ہے - اگر اس کا جواب بھی آپ ان لوگوں کو دے دیں تو الله آپ کو جزایے دے



سن ٢٠٠٤میں دکتور عبد العزیز بن سلیمان بن ناصر السلومی کی تحقیق بنام الواقدی و کتابہ المغازی منہجہ و مصادرہ شایع ہوئی. جو ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ تھا اور سعودی عرب کی جامعہ الاسلامیہ با لمدینہ المنورہ میں پیش ہوا. اس میں محقق نے کئی مقامات پر جرمن مشتشرق ھورو فتس کے حوالے اپنی تائید میں دئے ہیں. کیا یہ کام غلط ہے؟ اگر کوئی بات مستشرق کہہ رہا ہے اور وہ صحیح ہے تو اس کو قبول کرنے میں کیا حرج ہے ایک قول ہے


اس کتاب میں دکتور عبد العزیز بن سلیمان بن ناصر السلومی لکھتے ہیں



بے شک امام احمد ہر جمعہ کو حنبل بن اسحاق کے ساتھ ابن سعد، کاتب الواقدی کی طرف رخ کرتے اور واقدی کی دو کتابیں لاتے ان کو دیکھتے پھر لوٹاتے اور دوسری لیتے

اور اسی وجہ سے عبد الله بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میرے باپ اکثر واقدی کی کتابیں دیکھتے

اور امام احمد نے واقدی کی کتب دیکھنے کا سبب واضح کیا، پس کہا … تاکہ میں ان ( کتابوں) کو جان سکوں اوران پر اعتبار کر سکوں

یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ امام احمد واقدی پر اعتبار کرنے لگے تھے اور واقدی میں ان کا شغف بڑھ گیا تھا رونہ ایک ایک کر کے کتابیں دیکھنے کا شوق کیوں ہوا. یہ بات احمد کی عمر کے آخری حصے میں ہو گی کیونکہ اس بات کو ابراہیم الحربی بتاتے ہیں جو واقدی کی وفات کے وقت ١١ سال کے ہونگے ظاہر ہے کہ ١١ سال کی عمر میں ابراہیم علم تاریخ اور جرح و تعدیل پر عبور نہیں رکھ سکتے
اور اب میری پوسٹ نمبر 23 کے اندر ’’ دوسری بات ‘‘ کے ضمن میں نمبر 1 پڑھیں ۔
اور مجھے بتا دیں کہ آپ کو جو ’’ تحقیق درکار ہوتی ہے ‘‘ اس کے جوابات کے ساتھ ایسا سلوک رکھنا بھی آپ کی مجبوری ہے ، تو مزید میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا ۔
امام احمد کا واقدی کے بارے میں نظریہ ارتقاء کا شکار رہا ان کے اس حوالے سے تمام اقوال میں تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ ایک وقت تھا جب اس کو کذاب کہا اور اس سے کچھ روایت نہیں کیا امام جوزجانی کے مطابق واقدی کی وفات کے روز کہا مدت ہوئی اس کی کتابوں سے میں نے اپنی کتابوں کی جلدیں بنا لیں لیکن اگلے چند سالوں میں اس میں دلچسپی پیدا ہوئی اور پھر اس کی کتابیں دیکھنا شروع کر دیں اور ان میں قابل اعتبارمواد تلاش کرنا شروع کیا
اس میں اعتراض والی کیا بات ہے ؟ امام احمد نے واقدی اکیلے پر تو اعتبار نہیں کیا ، بلکہ دیگر راویوں سے جن روایات میں وہ متفق تھا ، اس کو انہوں نے بیان کردیا ۔ اور یہ جو آپ بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ امام احمد نے واقدی کی کتابوں سے اپنی کتابیں بنا لیں ، یہ لکھنے والے کی بے خبری کا پتہ دیتی ہے ، اور اس سے دھوکہ بھی اصول حدیث سے بے خبر ہی کھائیں گے ۔ یہ ساری باتیں بار بار اس وجہ سے دہرائی جارہی ہیں کیونکہ ’’ ایک ہی روایت کو دو یا دو سے زیادہ رایوں سے روایت کرنا ‘‘ کا مفہوم ذہن میں موجود نہیں ہے ، یا یہ سمجھا جارہا ہے کہ واقدی کی کوئی ویب سائٹ تھی جہاں سے امام احمد نےجاکر سارا مواد کا پی پیسٹ کرلیا اور اس میں سےواقدی کا نام حذف کردیا اور یوں ’’ مسند احمد ‘‘ تیار ہوگئی ۔ سبحان اللہ ۔
یا یوں سمجھا جارہا ہوگا کہ امام صاحب نے ’’ متون ‘‘ واقدی کی دکان سے خریدے ، اور دیگر تاجروں کے ہاں سے ’’ اسانید ‘‘ خریدیں ، دونوں پرزوں کو آپس میں فٹ کرکے ’’ مسند احمد ‘‘ کی شکل میں مشین کو بازار میں پیش کردیا ۔
جناب حدیث یا روایت ایک ڈھانچہ ہے جبکہ ’’ سند ‘‘ اور ’’ متن ‘‘ اس کے دو حصے ہیں جو لازم وملزوم ہیں ، ایک کے بغیر دوسرے کا کوئی تصور نہیں ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ امام احمد نے واقدی سے متون لے لیے ، اور دوسروں سے اسانید لے لیں ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کےپاس صرف ’’ اسانید ‘‘ ہی تھیں ان کے ساتھ ’’ متون ‘‘ نہیں تھے ، بلکہ ان کے پاس بھی یہ متون اسانید کے ساتھ تھے ۔ گویا ہر دو اطراف میں متون بھی ہیں اور اسانید بھی ، لیکن واقدی کے متن او ردوسرے رواۃ کی اسانید کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امام صاحب نے دوسرے راویوں کے پاس روایات کی تلاش کی بنیاد ، واقدی کے پاس موجود متون کو بنایا ، کیونکہ وہ اس کے پاس منظم و مرتب شکل میں موجود تھے ، لہذا انہوں نے کسی دوسرے راوی کے پاس جاکر کہا کہ آپ کے پاس یہ یہ مواد موجود ہے ، جو اس نے کہا کہ ’’ ہے ‘‘ اس کوامام صاحب نے کتاب میں شامل کرلیا ، گویا واقدی کے بیان کردہ متن کی دوسری طرف سے تصدیق ہوچکی ہے ۔ اور امام صاحب نے ’’ واقدی کی اسانید نہیں لیں ‘‘ یہ اس وجہ سے کہا کیونکہ امام صاحب نے جو سلسلہ سند بیان کیا ہے اس میں واقدی کا نام موجود نہیں ، بلکہ سلسلہ سند اس کے نام کے بغیر ہے ، تو بات بالکل واضح ہے کہ اسانید واقدی کی نہیں ہیں ۔ ’’ سند ‘‘ کے ساتھ ’’ سلسلہ ‘‘ کا لفظ لگتا ہے جس کا مطلب ہے ’’ زنجیر ‘‘ ۔ جس طرح زنجیر کڑوں سے مل کر بنتی ہے اسی طرح سند راویوں سے مل کر بنتی ہے ، اب مجھے بتائیں کہ ایک ’’ سلسلہ سند ‘‘ میں واقدی نام کا کڑا ہے ہی نہیں تو آپ بقیہ زنجیر کو اس کے نام کیسے تھوپ سکتے ہیں ۔ یہی ایک بنیادی وجہ تھی جس کی بنیاد پر میں نے کہا تھا کہ واقدی کی مسند احمد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ واقدی کی اس میں باعتراف آپ کے کوئی بھی روایت موجود نہیں ۔
اورمغازی اور مسند احمد میں مماثلت یہ نکلے گی کہ ، وہی روایات جو واقدی نے اپنی مغازی میں ذکر کی ہیں ، انہیں میں سے بعض کو امام احمد نے دیگر راویوں سے لے کر مسند احمد میں ذکر کردیا ہے ۔
لیکن ایسی صورت میں واقدی پر جو نقد ہے ، وہ مسند احمد پر اثر انداز نہیں ہوگا ،
جبکہ مستشرقین یا ان کے پیروکار ایسی مجمل باتیں کرکے عوام کے سامنے کھرے کھوٹے کو خلط ملط کرنے کی سعی لا حاصل کرتے ہیں ۔
دو لفظوں میں بات کرتا ہوں :
مسند احمد اور واقدی کی مماثلت کی جو بات مستشرق نے کی ہے ، اس سے اس کی کیا مراد ہے ۔؟
1۔ اگر مراد واقدی پر موجود نقد کو مسند احمد پر انڈیلنا ہے توپھر واقدی کا مسند احمد کی اسانید میں ہونا ثابت کریں ۔
2۔ اگر مراد واقدی کی مغازی میں موجود واقعات و حکایات کا مسند احمد میں موجود واقعات و حکایات سے مماثلت رکھنا ہے تو اس میں واقدی سے شکار کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ بلکہ ان راویوں پر تیر برسائیں جن سے امام احمد نے یہ واقعات لیے ہیں ۔ اور یا پھر آسانی سے مان لیں کہ واقدی نے ہر بات اپنی طرف سے گھڑی نہیں ، بلکہ بہت ساری چیزوں میں دوسرے بھی اس کے موافق ہیں ۔ اور یہ چیز مغازی واقدی کے لیے بھی تقویت کا باعث ہے ، جبکہ مسند احمد پر بھی اس سے تنقید کا جواز نکالنا حماقت ہے ۔
پھر ایک اور بات :
’’ مغازی واقدی اور مسند احمد ایک مواد رکھتی ہے ‘‘ جیسی مجمل عبارت بولنے کا کیا مطلب ہے ؟ ، حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ مسند احمد میں صرف مغازی نہیں بلکہ ’’ عقائد ‘‘ ، ’’ عبادات ‘‘ ، معاملات ‘‘ اور دین کے دیگر اہم شعبوں سے متعلق احادیث موجود ہیں ۔
کیا اس طرح کی عبارات سے مغازی کا بہانہ بنا کر عوام کو دیگر امور سے متعلقہ روایات سے بیزار کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ۔؟
کیا شکوک و شبہات کی مشینیں بن کر کام کرنے والے یہ تو باور نہیں کروانا چاہ رہے کہ جس طرح مغازی واقدی کی کوئی اہمیت نہیں اسی طرح مسند احمد میں جو کچھ موجود ہے اس کی بھی کوئی اہمیت نہیں ۔؟
واللہ اعلم بالصواب ۔

@خضر حیات بھائی
مشتسرقین کسی ایسی کتاب کی تلاش میں رہے جس سے وہ اسلام کی سنہری تاریخ کو داغدار کر سکیں چناچہ انہوں نے واقدی، ابن سعد اور ابن اسحاق کی کتب کو استمعال کیا اور آخر میں ان کی نگاہ انتخاب مسند امام احمد پر رکی . سید سلیمان الندوی اپنے ایک جواب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں جو کتاب اسلام اور مستشرقین جلد پنجم میں چھپا




آخر مسند میں مستشرقین کے لئے کیا پر کشش مواد ہے جو ان کو اور کتابوں سے اس کی طرف کھینچ لایا؟


یہ ہمارے عالم سید سلیمان ندوی کہہ رہے ہیں جو معروف شخصیت ہیں

اپ کے لئے سوچنے کا مقام ہے!

جی میں نے تو سوچ لیا کہ
اس طرح کے ہتھکنڈوں سے انہیں لوگوں کی اسلامی تاریخ داغدار ہوگی جن کا مبلغ علم مستشرقین کی کتابیں ہیں ، کیونکہ ایسے لوگ ’’ مسند احمد ‘‘ کو مستشرقین کی نگاہ سے دیکھیں گے ، جو وہ دکھانے چاہیں گے وہی ان کو نظر آئے گا ۔
جو لوگ محدثین کے منہج کو سمجھنے والے ہیں ، یا سمجھنے والوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے ہیں ، وہ ان کی نگاہ سے ’’ مسند احمد ‘‘ کودیکھے گے اور ان شاءاللہ اسلام دشمنوں کی باتوں سے دھوکہ نہیں کھائیں گے ۔
جس طرح مستشرق کو ’’ اسانید ‘‘ کی الف ب کا علم نہیں ہوتا اسی طرح اس کے پیروکار بھی ایسی چیزوں پر صمی عمی ہو کر گرتے ہیں ، اور ضلوا فأضلوا کی تصویر قائم ہوجاتی ہے ۔
جس محدثین اسانید کے ماہر ہوتے ہیں ان سے تعلق رکھنے والا ہے بھی اللہ کی دی ہوئی نعمت عقل سے محدثین کے منہج کو سمجھتا ہے اور کھوٹے کھرے کی پہچان کرکے صحیح بات کو لیتا ہے ۔
مستشرق کے پیروکار کو ’’ مسند احمد ‘‘ مغازی واقدی نظر آئے گی ، اور اس میں شیعت ہی نظر آئے گی ۔
جبکہ جو شخص محدثین کے منہج کے مطابق چھپی ہوئی دار الرسالۃ کا مسند احمد کا ایڈیشن دیکھے گا ، اسے مسند احمد کے مواد میں موجود خوبیاں تو الگ بات ہے ، مسند کی تصنیف کے طریقہ کار سے ہی شیعت وغیرہ گمراہ فرقوں کا توڑ مل جائے گا ۔
اب آپ سوچ لیں کے آپ ان دونوں گروہوں میں سے کس میں شمار ہونا چاہتے ہیں !!
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

جبکہ جو شخص محدثین کے منہج کے مطابق چھپی ہوئی دار الرسالۃ کا مسند احمد کا ایڈیشن دیکھے گا ، اسے مسند احمد کے مواد میں موجود خوبیاں تو الگ بات ہے ، مسند کی تصنیف کے طریقہ کار سے ہی شیعت وغیرہ گمراہ فرقوں کا توڑ مل جائے گا ۔


!!
ذرا اس بات کی وضاحت کر دیں - کہ مسند احمد کا کون سا نسخہ ہے جس کی آپ بات کر رہے ہیں - کہیں ایسا تو نہیں کہ مسند احمد کے بہت سارے نسخے ہیں جو مستند نہیں - میں آپ کی بات سمجھا نہیں - وضاحت کر دیں پلیز
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اس میں اعتراض والی کیا بات ہے ؟ امام احمد نے واقدی اکیلے پر تو اعتبار نہیں کیا ، بلکہ دیگر راویوں سے جن روایات میں وہ متفق تھا ، اس کو انہوں نے بیان کردیا ۔ اور یہ جو آپ بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ امام احمد نے واقدی کی کتابوں سے اپنی کتابیں بنا لیں ، یہ لکھنے والے کی بے خبری کا پتہ دیتی ہے ، اور اس سے دھوکہ بھی اصول حدیث سے بے خبر ہی کھائیں گے ۔ یہ ساری باتیں بار بار اس وجہ سے دہرائی جارہی ہیں کیونکہ ’’ ایک ہی روایت کو دو یا دو سے زیادہ رایوں سے روایت کرنا ‘‘ کا مفہوم ذہن میں موجود نہیں ہے ، یا یہ سمجھا جارہا ہے کہ واقدی کی کوئی ویب سائٹ تھی جہاں سے امام احمد نےجاکر سارا مواد کا پی پیسٹ کرلیا اور اس میں سےواقدی کا نام حذف کردیا اور یوں ’’ مسند احمد ‘‘ تیار ہوگئی ۔ سبحان اللہ ۔
یا یوں سمجھا جارہا ہوگا کہ امام صاحب نے ’’ متون ‘‘ واقدی کی دکان سے خریدے ، اور دیگر تاجروں کے ہاں سے ’’ اسانید ‘‘ خریدیں ، دونوں پرزوں کو آپس میں فٹ کرکے ’’ مسند احمد ‘‘ کی شکل میں مشین کو بازار میں پیش کردیا ۔
جناب حدیث یا روایت ایک ڈھانچہ ہے جبکہ ’’ سند ‘‘ اور ’’ متن ‘‘ اس کے دو حصے ہیں جو لازم وملزوم ہیں ، ایک کے بغیر دوسرے کا کوئی تصور نہیں ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ امام احمد نے واقدی سے متون لے لیے ، اور دوسروں سے اسانید لے لیں ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کےپاس صرف ’’ اسانید ‘‘ ہی تھیں ان کے ساتھ ’’ متون ‘‘ نہیں تھے ، بلکہ ان کے پاس بھی یہ متون اسانید کے ساتھ تھے ۔ گویا ہر دو اطراف میں متون بھی ہیں اور اسانید بھی ، لیکن واقدی کے متن او ردوسرے رواۃ کی اسانید کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امام صاحب نے دوسرے راویوں کے پاس روایات کی تلاش کی بنیاد ، واقدی کے پاس موجود متون کو بنایا ، کیونکہ وہ اس کے پاس منظم و مرتب شکل میں موجود تھے ، لہذا انہوں نے کسی دوسرے راوی کے پاس جاکر کہا کہ آپ کے پاس یہ یہ مواد موجود ہے ، جو اس نے کہا کہ ’’ ہے ‘‘ اس کوامام صاحب نے کتاب میں شامل کرلیا ، گویا واقدی کے بیان کردہ متن کی دوسری طرف سے تصدیق ہوچکی ہے ۔ اور امام صاحب نے ’’ واقدی کی اسانید نہیں لیں ‘‘ یہ اس وجہ سے کہا کیونکہ امام صاحب نے جو سلسلہ سند بیان کیا ہے اس میں واقدی کا نام موجود نہیں ، بلکہ سلسلہ سند اس کے نام کے بغیر ہے ، تو بات بالکل واضح ہے کہ اسانید واقدی کی نہیں ہیں ۔ ’’ سند ‘‘ کے ساتھ ’’ سلسلہ ‘‘ کا لفظ لگتا ہے جس کا مطلب ہے ’’ زنجیر ‘‘ ۔ جس طرح زنجیر کڑوں سے مل کر بنتی ہے اسی طرح سند راویوں سے مل کر بنتی ہے ، اب مجھے بتائیں کہ ایک ’’ سلسلہ سند ‘‘ میں واقدی نام کا کڑا ہے ہی نہیں تو آپ بقیہ زنجیر کو اس کے نام کیسے تھوپ سکتے ہیں ۔ یہی ایک بنیادی وجہ تھی جس کی بنیاد پر میں نے کہا تھا کہ واقدی کی مسند احمد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ واقدی کی اس میں باعتراف آپ کے کوئی بھی روایت موجود نہیں ۔
اورمغازی اور مسند احمد میں مماثلت یہ نکلے گی کہ ، وہی روایات جو واقدی نے اپنی مغازی میں ذکر کی ہیں ، انہیں میں سے بعض کو امام احمد نے دیگر راویوں سے لے کر مسند احمد میں ذکر کردیا ہے ۔
لیکن ایسی صورت میں واقدی پر جو نقد ہے ، وہ مسند احمد پر اثر انداز نہیں ہوگا ،
جبکہ مستشرقین یا ان کے پیروکار ایسی مجمل باتیں کرکے عوام کے سامنے کھرے کھوٹے کو خلط ملط کرنے کی سعی لا حاصل کرتے ہیں ۔
دو لفظوں میں بات کرتا ہوں :
مسند احمد اور واقدی کی مماثلت کی جو بات مستشرق نے کی ہے ، اس سے اس کی کیا مراد ہے ۔؟
1۔ اگر مراد واقدی پر موجود نقد کو مسند احمد پر انڈیلنا ہے توپھر واقدی کا مسند احمد کی اسانید میں ہونا ثابت کریں ۔
2۔ اگر مراد واقدی کی مغازی میں موجود واقعات و حکایات کا مسند احمد میں موجود واقعات و حکایات سے مماثلت رکھنا ہے تو اس میں واقدی سے شکار کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ بلکہ ان راویوں پر تیر برسائیں جن سے امام احمد نے یہ واقعات لیے ہیں ۔ اور یا پھر آسانی سے مان لیں کہ واقدی نے ہر بات اپنی طرف سے گھڑی نہیں ، بلکہ بہت ساری چیزوں میں دوسرے بھی اس کے موافق ہیں ۔ اور یہ چیز مغازی واقدی کے لیے بھی تقویت کا باعث ہے ، جبکہ مسند احمد پر بھی اس سے تنقید کا جواز نکالنا حماقت ہے ۔
پھر ایک اور بات :
’’ مغازی واقدی اور مسند احمد ایک مواد رکھتی ہے ‘‘ جیسی مجمل عبارت بولنے کا کیا مطلب ہے ؟ ، حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ مسند احمد میں صرف مغازی نہیں بلکہ ’’ عقائد ‘‘ ، ’’ عبادات ‘‘ ، معاملات ‘‘ اور دین کے دیگر اہم شعبوں سے متعلق احادیث موجود ہیں ۔
کیا اس طرح کی عبارات سے مغازی کا بہانہ بنا کر عوام کو دیگر امور سے متعلقہ روایات سے بیزار کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ۔؟
کیا شکوک و شبہات کی مشینیں بن کر کام کرنے والے یہ تو باور نہیں کروانا چاہ رہے کہ جس طرح مغازی واقدی کی کوئی اہمیت نہیں اسی طرح مسند احمد میں جو کچھ موجود ہے اس کی بھی کوئی اہمیت نہیں ۔؟
واللہ اعلم بالصواب ۔




جی میں نے تو سوچ لیا کہ
اس طرح کے ہتھکنڈوں سے انہیں لوگوں کی اسلامی تاریخ داغدار ہوگی جن کا مبلغ علم مستشرقین کی کتابیں ہیں ، کیونکہ ایسے لوگ ’’ مسند احمد ‘‘ کو مستشرقین کی نگاہ سے دیکھیں گے ، جو وہ دکھانے چاہیں گے وہی ان کو نظر آئے گا ۔
جو لوگ محدثین کے منہج کو سمجھنے والے ہیں ، یا سمجھنے والوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے ہیں ، وہ ان کی نگاہ سے ’’ مسند احمد ‘‘ کودیکھے گے اور ان شاءاللہ اسلام دشمنوں کی باتوں سے دھوکہ نہیں کھائیں گے ۔
جس طرح مستشرق کو ’’ اسانید ‘‘ کی الف ب کا علم نہیں ہوتا اسی طرح اس کے پیروکار بھی ایسی چیزوں پر صمی عمی ہو کر گرتے ہیں ، اور ضلوا فأضلوا کی تصویر قائم ہوجاتی ہے ۔
جس محدثین اسانید کے ماہر ہوتے ہیں ان سے تعلق رکھنے والا ہے بھی اللہ کی دی ہوئی نعمت عقل سے محدثین کے منہج کو سمجھتا ہے اور کھوٹے کھرے کی پہچان کرکے صحیح بات کو لیتا ہے ۔
مستشرق کے پیروکار کو ’’ مسند احمد ‘‘ مغازی واقدی نظر آئے گی ، اور اس میں شیعت ہی نظر آئے گی ۔
جبکہ جو شخص محدثین کے منہج کے مطابق چھپی ہوئی دار الرسالۃ کا مسند احمد کا ایڈیشن دیکھے گا ، اسے مسند احمد کے مواد میں موجود خوبیاں تو الگ بات ہے ، مسند کی تصنیف کے طریقہ کار سے ہی شیعت وغیرہ گمراہ فرقوں کا توڑ مل جائے گا ۔
اب آپ سوچ لیں کے آپ ان دونوں گروہوں میں سے کس میں شمار ہونا چاہتے ہیں !!

آپ کی پوسٹ کا جواب یہ دیا گیا ہے

لنک

http://www.islamic-belief.net/مستشرقین-واقدی-اور-مسند-احمد/#comment-3792
اپ کی بصیرت پر ہم حیرت زدہ ہیں ہم نے لکھا تھا کہ امام احمد نے واقدی کی کتب سے اپنی کتابوں کی جلدیں بنا لیں اس کا اپ نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ ان الفاظ کا مقصد نہیں تھا یہ اپ کی کم علمی کا نتیجہ ہے ہم نے یہ بات جوزجانی کے حوالے سے لکھی ہے اور اپ اس پر تبصرہ شروع کر دیا جوزجانی کے الفاظ ہیں
وقال الجوزجاني: ذكرت لأحمد بن حنبل موته يوم مات، وأنا ببغداد، فقال: حولت كتبه ظهائر للكتب منذ حين، أو قال: منذ زمان. «أحوال الرجال» (228)
موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله

امام احمد نے واقدی کی کتابوں کی جلدیں بنا لیں کیونکہ انہوں نے اس کی کتابوں کو بے کار سمجھتے ہوئے ان کو انی کتاب کی جلد یا کور کے طور پر استعمال کر لیا تھا یہ کہا گیا ہے اور اپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ گویا ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ امام احمد نے اس کو کاپی پیسٹ کیا

افسوس یہ اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ اپ علمی بات سمجھنے کے موڈ نہیں نہیں اور ہماری ہر بات کو تنقید سمجھ رہے ہیں
امام احمد نے واقدی کی کتب کو تلف کر دیا تھا اس طرح کہ ان سے اپنی کتابوں کی جلدیں بنا لیں تھیں اگر جوزجانی کے الفاظ کا کچھ اور مطلب ہے تو ہم اپنی غلطی درست کرنے کے لئے تیار ہیں

رہا یہ کہ
مغازی واقدی اور مسند احمد ایک مواد رکھتی ہے ‘‘ جیسی مجمل عبارت بولنے کا کیا مطلب ہے ؟ ، حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ مسند احمد میں صرف مغازی نہیں بلکہ ’’ عقائد ‘‘ ، ’’ عبادات ‘‘ ، معاملات ‘‘ اور دین کے دیگر اہم شعبوں سے متعلق احادیث موجود ہیں ۔

یہ اس وقت بحث میں نہیں یہ ساری بات مستشرق کے دعوی پر ہو رہے ہے اور اس کو ہماری عبادت معاملات سے سروکار نہیں تاریخ سے ہے

مسند میں جس طرح تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے وہ اپ ہمارے دوسرے بلاگ میں دیکھ سکتے ہیں یہی وجہ ہے مستشرقین کی نگاہ اس پر رکی ہے باقی ہم شخصیات کے پجاری نہیں
 
Top