لولی آل ٹائم صاحب !
میں چاہتے ہوئے بھی آپ کے بارے میں یا جن سے آپ نقل کر رہے ہیں ، حسن ظن رکھنے میں کامیاب نہیں ہورہا ہے کہ آپ واقعتا ایک علمی معاملے کو علمی بنیادوں پر سلجھانا چاہ رہے ہیں ۔
آپ کے مراسلات میں دو باتیں میں نےشدت سے محسوس کی ہیں :
1۔ مراسلات جاری بحث کے تناظر میں لکھے ہوئے نہیں لگتے ، لگتا ہے پہلے سے تیار شدہ ہیں ، جن کو اٹھا کر کسی کے سر پر ماردیا جاتا ہے ، چاہے مد مقابل کی بات سے اس کا کوئی تعلق ہو یا نہ ہو ۔ اور یا پھر جان بوجھ کر ایسا کیا جاتا ہے تاکہ بات سمجھنے میں ہی اتنا الجھاؤ ہو کہ جواب تک نوبت ہی نہ آئے ۔ واللہ اعلم ۔ مثلا آپ کے میرے جواب میں لکھے گئے آخری مراسلے میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ آپ واقدی کی احمد سے تضعیف ثابت کرنا چاہ رہے ہیں یا توثیق ؟ دولابی اور احمد دونوں میں سے کون دوسرے کی بات کو رد یا قبول کرنا چاہ رہا ہے ۔ اور ایسی کون سی بات ہے جو ابراہیم الحربی اور مستشرق جور فتس میں مشترک ہے ۔
2۔ حالیہ مسئلہ علم حدیث اور تاریخ سے تعلق رکھتا ہے لیکن باحث کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصول حدیث سے شدید غافل ہیں ۔ میرا یہ اندازہ مراسلات کی بنیاد پر ہی ہے ، ممکن ہے آئندہ کچھ مراسلات ایسے ہوں جن سے یہ غلط ثابت ہو جائے ۔
خیر اب میں کوشش کرتا ہوں کہ آپ کی مراسلے پر کچھ تبصرہ کر سکوں ۔ اگر میں آپ کا موقف غلط بیان کروں تو آپ تصحیح فرمادیں ۔
بحث کے سیاق و سباق سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ آپ درج ذیل بات کرنا چاہ رہے ہیں :
- امام احمد واقدی کو ضعیف نہیں سمجھتے تھے ۔ اور ان سے واقدی کی تضعیف یا تکذیب کے بارے میں وارد اقوال ثابت نہیں ہیں ۔
- امام احمد واقدی کی کتابوں پر اعتماد کرتے تھے ، واقدی شیعہ تھا لہذا امام احمد نے مسند میں شیعی روایات کی بھر مار کردی ہے ۔
پہلی بات :
میری گزارش یہ ہے کہ امام احمد واقدی کو ضعیف سمجھتے تھے یا نہیں سمجھتے تھے ، اس سے ہماری گفتگو پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ کیونکہ یہاں مسئلہ واقدی کے ضعف یا ثقاہت کا نہیں ، بلکہ مسئلہ مغازی الواقدی اور مسند احمد میں مماثلت کا ہے ۔ اور یہ کہ امام احمد نے مسند احمد میں واقدی سے لے کر مواد کو بیان کیا ہے ۔
دوسری بات :
1۔
اگر آپ کسی محدث کے ’’ اعتماد ‘‘ کرنے کا معنی سمجھتے ہیں ، تو کوئی ایک نص امام احمد سے نقل فرمادیں ، جس میں انہوں نے واقدی کو مستقل طور پر قابل اعتماد کہا ہو ۔
امام احمد واقدی پر ’’ اعتماد ‘‘ نہیں بلکہ اس کی حدیثوں کا ’’ اعتبار ‘‘ کرتے تھے ، اور ’’ اعتبار ‘‘ محدثین کی ایک خاص اصطلاح ہے ، جس کے ذریعے محدثین ضعیف راویوں کی روایات کی چھان بین کرکے ، ان میں سے ’’ قابل اعتماد ‘‘ اور ’’ نا قابل اعتماد ‘‘ کو الگ الگ کرتے تھے ۔ اگر ہم محدثین کے اس ’’ اعتبار ‘‘ کو ہمارے ہاں معروف ’’ اعتبار ‘‘ کے معنی میں لیں گے تو غلطی فہمی ہوگی ۔ جیساکہ اوپر لولی صاحب کے مراسلہ جات میں ایسا کیا گیاہے ۔ اور ساتھ مصیبت یہ ہےکہ عربی عبارت نقل نہیں کی ، کم از کم عربی عبارت نقل کردی جاتی تو ، اہل علم سمجھ سکتے تھے کہ ترجمہ کرنے والے نے ترجمہ کرنے میں غلطی کی ہے ۔ لولی صاحب کی عبارت دیکھیں :
یہ لولی صاحب کے مراسلے میں موجود امام احمد کے قول کی غلط ترجمانی ہے ، اصل قول یوں ہے :
قال لي علي بن المديني: قال لي أحمد بن حنبل: أعطني ما كتب عن ابن أبي يحيى، قال: قلت: وما تصنع به؟ قال: أنظر فيها أعتبرها، قال: ففتحها، ثم قال: اقرأها علي، قال: قلت وما تصنع به: قال: أنظر فيها قال: قلت له: أنا أحدث عن ابن أبي يحيى؟ قال لى: وما عليك أنا أريد أن أعرفها وأعتبر بها ۔۔۔ (موسوعۃ أقوال الإمام احمد ج 3 ص 298 )
گویا امام احمد واقدی کی کتابوں کو اس لیے دیکھتے تھے تاکہ وہ ان کی چھان بین کرسکیں اور دیکھ سکیں کے دیگر راویوں نے واقدی کی تائید کی ہے یا نہیں ، دیکھنے کا مطلب ، ان کو جاننے کا مطلب صرف یہی تھا تاکہ ان کا قابل اعتماد رایوں کی روایات سے مقارنہ کیا جائے ، جن کی تائید ہوتی ہو وہ لے لی جائیں ، باقی چھوڑ دی جائیں ۔
یہی وجہ ہے باوجود اس کے لولی صاحب کے مراسلوں میں ’’ امام احمد کا واقدی کی کتابوں سے استفادہ کرنے ‘‘ کو بتکرار بیان کیا جارہا ہے ، لیکن ساتھ یہ بھی اعتراف ہے کہ مسند احمد میں واقدی سے ایک بھی روایت موجود نہیں ۔
میرا سوال یہ ہے کہ اگر واقدی امام احمد کے نزدیک قابل اعتبار تھا ، امام احمد اس کی کتابوں کو ’’ چھان بین ‘‘ کرنے کے لیے نہیں بلکہ ’’ اعتماد ‘‘ کرنے کے لیے ہی لیتے اور پڑھتے تھے تو پھر امام صاحب نے ان روایات کی اسانید میں واقدی کو ذکر کیوں نہیں کیا ۔؟
اور یہ کیا عجیب تضاد ہے کہ مسند احمد میں
- مغازی سے متعلقہ روایات بھی واقدی کی ہیں ۔
- واقدی امام صاحب کے نزدیک قابل اعتبار بھی تھا ۔
- لیکن اس کے باوجود مسند میں واقدی کا نام تک موجود نہیں ۔
یہ عجیب قسم کا تضاد مستشرق سے استفادہ کا نتیجہ ہے یا پتہ نہیں اس کی وجہ کوئی اور ہے ، یہ تو وہی بتا سکتے ہیں ۔
لیکن ہمارے نزدیک بات بالکل سیدھی سیدھی ہے کہ
امام صاحب نے واقدی کی کتابوں کودیکھا ، قصص اور واقعات یعنی صرف متون کو لیا ، اس میں واقدی کی سند کو نہیں لیا ، بلکہ اس کے لیے اور اسانید تلاش کیں ، جن کی اسانید انہیں مل گئیں ، انہیں ذکر کردیا ، جن کی اسانید واقدی کے علاوہ نہیں ملیں ، انہیں امام صاحب نے چھوڑ دیا ۔
سوال :
اگر امام صاحب نے مغازی کسی اور کی اسانید سے ہی بیان کرنے تھے تو پھر واقدی کی کتابیں دیکھنے کا کیا مقصد تھا ۔؟
جواب :
واقدی کا علم مغازی و سیر میں ماہر ہونا ، اس سلسلے میں کثیر معلومات رکھنا یہ اس دور میں کیا ، آج تک اہل علم کے ہاں متفقہ امر ہے ۔ جس طرح مغازی سے متعلقہ مواد امام صاحب کو مجموعی و مرتب شکل میں واقدی کے پاس ملا ممکن ہے کسی اور کے پاس نہ ملتا ۔ لہذا امام صاحب نے ’’ جمع کردہ مواد ‘‘ کو لیا اور اس کی چھان بین کرکے پیش کردیا ۔
گویا امام صاحب نے واقدی کی ’’ مورخانہ کاوش ‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے اس کو ’’ محدثانہ کوشش ‘‘ کے اضافے کے ساتھ پیش کردیا ۔ واللہ اعلم ۔
2۔
رہا یہ اعتراض کہ امام صاحب نے مسند احمد میں شیعی روایات کی بھر مار کردی ہے ، تو میرے خیال میں اس طرح کے اعتراضات ہمارے ’’ علمی ضعف ‘‘ ، ’’ پست ہمت ‘‘ اور ’’ عجز و لاچار ‘‘ سے جنم لیتے ہیں ۔
مشہور مقولہ بلکہ اصول ہے :
من أسند فقد برئ جس نے بات کو بحوالہ یعنی باسند بیان کردیا وہ بری الذمہ ہوگیا ۔
امام صاحب نے جو کچھ بیان کیا ، اس کو با سند بیان کردیا ، اب اس کی دو صورتیں یا تو سند مقبول ہو گی یا غیر مقبول ، اب ہر دو صورتوں میں ’’ متن ‘‘ کے شروع ہونے سے پہلے سند آپ کے سامنے ہے ،
سند کی تحقیق کریں ، مقبول کو مانیں اور مردود کو جان کر چھوڑ دیں ۔ اس میں امام صاحب پر اعتراض کا کیا ’’ تُک ‘‘ بنتا ہے ۔ اور پھر کیا امام صاحب نے یہ دعوی کیا ہے کہ میں اس کتاب میں وہی حدیث بیان کروں گا جو بالکل صحیح اور ثابت ہو گی ۔؟ امام صاحب نےکوشش کی ہے کہ صحابہ کرام کےناموں سے الگ الگ ابواب قائم کرکے ، جس سے جو کچھ مروی ہے ، اس کو ایک جگہ اکٹھا کردیا جائے ، ثابت غیر ثابت تو امام صاحب کا اصل ہدف تھا ہی نہیں ۔ کہ ہم امام صاحب سے بیزاری کا اظہار کرتے پھریں ۔
اور اس دور میں محدثین کا تصنیفات میں یہی انداز تھا ، یہی وجہ کہ اس قسم کے اعتراضات آج تک کسی متاخر محدث نے متقدم محدث پر نہیں کیے جو آجکل کے بعض نام نہاد محققین کررہے ہیں کہ مسند احمد میں اس طرح کی حدیثیں کیوں بیان ہوئی ہیں ، مستدرک حاکم میں اس طرح کی حدیثیں کیوں بیان ہوئی ہیں ۔ کتب ستہ میں فلاں راوی کو کیوں ذکر کیا گیا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
تو لولی صاحب اگر آپ کو حدیث کی کسی کتاب میں ایسی بات نظر آتی ہے جو آپ کے نزدیک درست نہیں تو اس کی سند دیکھیں ، علماء سے رابطہ کریں ،اب تو کتابوں میں صحت و ضعف کےحوالے سے احکام لگادیے گئے ہیں ، ان سے استفادہ کریں ، یقینا جو باتیں غلط ہیں ، وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہوں گی ، اور اگر کوئی چیز پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہے تو پھر ہماری سمجھ میں خرابی ہے ، ہمیں علماء سے رابطہ کرکے اس کوسمجھنا چاہیے ۔ میں نے اس سے پہلے بھی اس قسم کےکسی تھریڈ میں لکھا تھا کہ
’’ متقدم پر اعتراض کی وجہ متاخر کا علم اور تحقیق ہونا چاہیے ، اس کی جہالت اور ہٹ دھرمی نہیں ہونی چاہیے ‘‘ ۔ اگر میں کسی کتاب کی اسانید کی جانچ اور پرکھ نہیں کر سکتا تو اس کا مطلب یہ نہیں یہ کتاب لکھنے والی میں کوئی کمی تھی ، بلکہ یہ میری ’’ نا اہلی ‘‘ ہے ، جس کودور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
مقولہ مشہور ہے :’’ پہلے تولو پھر بولو ‘‘ اس کو یوں کرلیں
’’ پہلے محدثین کا منہج سمجھو پھر اعتراض کرو ‘‘ ۔