اور ایک
جگہ یہ لکھا پایا:
3۔ مولوی فتح محمد جالندھری :
مولوی فتح محمد مترجم قرآن کی حیثیت سے عوام میں متعارف ضرور ہیں مگر نہ تو مورخین نے اور نہ ہی سوانح نگاروں نے آپ کا تعارف اپنی تالیفات میں کرایا جس سے معلوم ہوتا کہ آپ عالم دین ہیں اور دینی کتابوں کے مصنف بھی۔ البتہ ترجمہ قرآن ان کا ایک واحد قلمی کارنامہ ہے جو تاریخ میں محفوظ ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق یہ ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد کا تھا۔ مولوی فتح محمد اس ترجمہ کو آپ اپنے ساتھ لے گئے کہ اس کو صاف صاف لکھ کر واپس کردیں گے مگر اس ترجمہ کو واپس لانے کے بجائے کچھ عرصے کے بعد ''فتح الحمید'' کے نام سے اس ترجمہ کو( اپنے نام سے) شائع کردیا۔ اگریہ حقیقت ہے تو یہ علمی سرقہ قرار پائے گا۔ یہاں راقم اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جالندھری صاحب کا علمی پایہئ کیا ہے اور کیا وہ ترجمۂ قرآن کے اہل تھے یانہیں ۔ تو تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ نہ آپ مستند عالم دین تھے نہ مصنف اور نہ ہی آپ کی اس زمانے میں کوئی علمی شہرت تھی البتہ ترجمۂ قرآن کے باعث آپ مترجمین قرآن کی صف میں ضرور شامل ہوگئے اور افسوس کہ حکومت پاکستان نے اس ترجمہ قرآن کو سرکاری ترجمہ بنارکھا ہے کہ جس کامترجم ایک غیر معروف اور مجہول العلم شخص ہے۔ مولوی فتح محمد نے اپنی خفت مٹانے کے لئے شاہ عبد القادر کے ترجمہ کا سہارا لیا اور ایک مقام پر لکھا کہ :
''یوں سمجھئے کہ شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ اگر مصری کی ڈالیاں ہیں تو یہ ترجمہ شربت کے گھونٹ نہایت آسان''۔
(ڈاکٹر صالح شرف الدین قرآن حکیم کے اردو تراجم ص ٢٦٢)
قارئین کرام! یہاں راقم کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ خود مترجم اس بات کا اقرار کررہا ہے کہ یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی کے ترجمہ کا چربہ ہے۔