مسجد أقصی کی تولیت مسلمانوں کا حق ہے :
مسجد أقصی کی تولیت مسلمانوں کا شرعی حق ہے جس کے درج ذیل دلائل ہیں :
۱۔مسجد أقصی کی تعمیر مسلمان انبیاء نے کی :
مسجد أقصی کی تعمیر مسلمان انبیاء کے ہاتھوں ہوئی۔سب سے پہلے اسے حضرت آدم نے تعمیر کیا جو کہ مسلمان تھے اس کے بعد حضرت داؤد نے اس کی بنیاد رکھی پھر حضرت سلیمان علیہما السلام نے اس کو مکمل کیا۔ اس لیے اس مسجد پر اسی قوم کا حق ہے جو کہ مسلمان ہو۔ جب تک عیسائی اور یہودی مسلمان تھے اس وقت تک اس عبادت گاہ پر ان کا حق قائم تھا لیکن اللہ کے رسول وﷺکی آمد کے بعد جو بھی یہودی اور عیسائی آپ پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١٥٠﴾ (النساء)
بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے درمیان کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ پکے کافر ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو بھی یہودی اور عیسائی اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لے کر آئے وہ پکا کافر ہے۔ اور کافر مسلمانوں کی بنائی ہوئی عبادت گاہ کا کیسے وارث ہو سکتا ہے؟۔
یہ توایسے ہی ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی مسجد بنائی اور اس کی بعد میں آنے والی نسلوں میں سے کوئی یہودی ہو گیا تو کیا اب اس مسجد کو یہودیوں کی عبادت گاہ بنا کر اس یہودی کے کنٹرول میں دے دیا جائے گا ؟۔ مسجد اقصی پر اس وقت یہودیوں کا حق تھا جب تک وہ مسلمان تھے، آج بھی اگر وہ اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لے آتے ہیں تو ہماراان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ہم مسجد اقصی کی تولیت ان کے سپرد کر دیں گے۔
لیکن اگر وہ اپنے نبی حضرت موسی اور اپنے باپ حضرت ابراہیم کے دین سے بھی پھر جائیں تو کس بنیاد پر ان کو مسجد اقصی کا وارث قرار دیا جائے؟ ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٦٧﴾ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۗ وَاللَّـهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٨﴾ (آل عمران:۶۷)
حضرت ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی‘ لیکن وہ ایک یکسو مسلمان تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے ۔بے شک حضرت ابراہیم کے ساتھ سب سے زیادہ تعلق ولایت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس (کی قوم میں سے اس) کی پیروی کی اور یہ نبی ﷺہیں اور وہ لوگ جو (اس نبی پر ) ایمان لائے اللہ تعالی اہل ایمان کا والی ہے ۔
حضرت ابراہیم کی طرح‘ حضرت موسی اور حضرت سلیمان اور بنی اسرائیل کے تمام انبیاء کے اصل ورثا اور جانشین مسلمان ہیں نہ کہ یہود و نصاری۔
اگر حضرت سلیمان نے مسجد اقصی کی تعمیر کی بھی تھی تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اب یہ مسجد کافروں کی عبادت گاہ بن گئی ہے۔ حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل مسلمان تھے لہذا اس بنیاد پر اس مسجد کے وارث بھی تھے۔ اللہ کے رسولﷺ سے بغض اور کینہ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے آج کل کے یہودیوں کے کافر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے بلکہ ان کے کفر پر امت کااجماع ہے لہذا مسجد اقصی جو کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے اس پرایک کافر قوم کا حق کیسے جتایا جا سکتا ہے ؟ ۔
بفرض محال اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مسجد اقصی پر یہود کا حق ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اہل کتاب میں سے جو بھی محمد ﷺ کی رسالت کا انکاری ہو وہ حضرت موسی اور تورات کا بھی انکاری ہے کیونکہ دونوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی آمد اور ان کی علامات کی خبر دی ہے۔ لہذا ایسا یہودی جو کہ اللہ کے رسول ﷺ کو نہ ماننے کے ساتھ تورات اور حضرت موسی کی بات بھی ماننے سے انکار کر دے وہ تو اپنے دین‘ اپنے نبی اور اپنی کتاب کا بھی انکاری ہے اور ایسا یہودی مسجد اقصی کاوارث کیسے ہو سکتا ہے ؟ ۔
۲۔تمام انبیاء کا قبلہ بیت اللہ تھا:
تمام انبیاء‘ بشول انبیائے بنی اسرائیل ‘کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ اس لیے یہودیوں کا قبلہ بھی‘ ازروئے دین اسلام‘ شروع سے ہی‘ بیت اللہ ہے۔ تمام انبیاء بیت اللہ کی طرف ہی رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔
اور اسی کا حج کرتے تھے۔ یہودیوں کا یہ دعوی ہے کہ’’ہیکل سلیمانی‘‘ ان کا قبلہ ہے۔ یہ ایک ایسا دعوی ہے کہ جس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایک ہی وقت میں دو متوازی قبلوں کاوجود‘ خود مقصد قبلہ کے خلاف ہے۔ حضرت ابراہیم نے جب بیت اللہ کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالی کے حکم سے حج کی آواز لگائی۔ ارشاد باری تعالی ہے :
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴿٢٧﴾ (الحج)
اور (اے ابراہیم ) لوگوں میں حج کا اعلان عام کر۔ وہ تیرے پاس آئیں گے پیدل اوردبلے اونٹوں پر اور ہر دور کے راستے سے آئیں گے
اگر یہ مان لیا جائے کہ بیت اللہ کے بالمقابل فلسطین میں حضرت سلیمان نے ایک علیحدہ قبلہ بنایا تو درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
۱۔ کیا قرآن کی آیت میں موجود الفاط ’الناس‘ میں بنو اسرائیل داخل نہیں ہیں؟۔
۲۔ اگر بنو اسرائیل کے آباء و اجداد حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب کا قبلہ بیت اللہ ہی تھا تو ان کی بعد میں آنے والی نسلوں کا قبلہ تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اس کی کیا دلیل ہے کہ باپ ( یعقوب ) کا قبلہ بیت اللہ تھا اور بیٹوں (بنو اسرائیل ) کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ کیا بنو اسرائیل اپنے باپ حضرت یعقوب کے دین پر نہ تھے؟۔
۳ ۔کیا تمام انبیاء کا دین‘ دینااسلام نہیں ہے۔ کیا حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو یہ وصیت نہیں کی تھی وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٣٢﴾ ۔ اگر تمام انبیاء کا دین ایک ہی ہے جیساکہ قرآن و حدیث سے واضح ہوتا ہے تو پھر یہ کہنے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ حضرت سلیمان سے پہلے انبیاء کی نماز‘ اورحج کے لیے قبلہ کی حیثیت بیت اللہ کو تھی جبکہ حضرت سلیمان کے بعد نماز اور حج کے لیے بیت المقدس کو بنیادی حیثیت حاصل تھی ۔
۴۔ تقریبا تمام مناسک حج مقامات کے ساتھ خاص ہیں مثلاطوا ف‘ صفا اور مرو ہ کی سعی‘ مقام ابراہیم پر نفل پڑھنا‘ منی کا قیام‘ میدان عرفات اور مزدلفہ کا قیام وغیرہ۔ بیت المقدس کو اگر بنی اسرائیل کا قبلہ مان لیا جائے تو بیت المقدس کے حج کرنا کا کیا مطلب ہے دوسرے الفاظ میں بنو اسرائیل کا حج کیا تھا ؟۔
۵۔ بنو اسماعیل کا حج تو زمانہ جاہلیت میں بھی کسی نہ کسی بگڑی ہوئی شکل میں موجود تھا لیکن کیا یہودی بھی آپ کے زمانے میں بیت المقدس کاحج کرتے تھے یا آج کرتے ہیں اگر نہیں‘ تو کیوں؟۔
۶۔ اگربیت المقدس ہی قبلہ تھا تو یہود و نصاری میں پھر قبلے کی تعیین میں اختلاف کیوں ہوا ۔ یہود حق پرتھے یا نصاری؟۔ اصل قبلہ قبۃ الصخرہ ہے یا بیت المقدس کا مشرقی حصہ ؟۔
۷۔ اگر عمار صاحب یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہود کا قبلہ صحیح ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود یہود میں بھی تو اس قبلے کی تعیین میں اختلاف ہے کہ یہ صخرہ ہی ہے یا صخرہ کے قریب کوئی جگہ ہے۔ یہ کیسا قبلہ ہے کہ جس کے کے صحیح مقام کا آج تک تعین ہی نہ ہو سکا؟
۸۔ عمار صاحب کتاب مقدس کی کوئی ایک بھی واضح اور صریح نص پیش کر سکتے ہیں کہ جس میں یہ بیان ہوا ہو کہ اللہ تعالی نے بیت المقدس کو یہود کا قبلہ مقرر کیا تھا ؟۔
۹۔اگر عمار صاحب یہ دلیل بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ میں اس بات کا اثبات کیا ہے کہ وہ یہود کا قبلہ ہے۔ تو ہم یہ کہتے ہیں پھر مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ میں کس کے لیے قبلے کا اثبات ہے ؟
۱۰۔اللہ تعالی نے صرف یہود کے قبلے کا اثبات نہیں کیا بلکہ نصاری کے قبلے کا بھی اثبات کیا ہے ارشاد باری تعالی ہے :وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ ۔ تو کیا کل تین قبلے ہیں ؟
۱۱۔حقیقت یہ ہے کہ قبلہ ایک ہی ہے جو کہ بیت اللہ ہے‘ باقی رہاقرآن کامسجد اقصی یا اس کے مشرقی حصہ کو قبلہ کہنا تو یہ اللہ تعالی نے یہود و نصاری کے اعتبار سے کہا ہے نہ کہ خود اپنی طرف سے ان کے لیے کسی علیحدہ قبلے کو مقررکرنے کا اثبات کیا ہے جیسا کہ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾ میں اللہ تعالی نے مشرکین مکہ کے لیے علیحدہ دین کا اثبات تو کیا ہے لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے اس دین کو‘ ان کے لیے مقرر کیا ہے اور پسندبھی کیا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ عمارصاحب ہیکل سلیمانی کو یہود کا قبلہ قرار دینے پر مصر ہیں اور اس کے لیے انھوں نے دلیل حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس دعا کو بنایا ہے جو کہ بیت المقدس کے فیوض و برکات کے حوالے سے کتاب مقدس میں بیان ہوئی۔ بیت المقدس کی برکات و فضائل سے کس کو انکار ہو سکتا ہے لیکن کیا کسی مقام کی برکات و فضائل کا بیان اس کے قبلہ ہونے کی ایک کافی دلیل ہے؟۔
یہ کیسا قبلہ ہے کہ جس کے قبلہ ہونے کے بارے میں کوئی ایک بھی واضح نص قرآن وسنت تو کیاکتاب مقدس میں بھی موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس کی حیثیت نہ تو حرم کی ہے اور نہ ہی یہ یہودیوں کا قبلہ رہا ہے بیت المقدس کو اپنا قبلہ قرار دینا یہودیوں کی اختراع ہے۔ ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کی آزمائش کے لیے ان کو وقتی طور پر بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا جس کا تذکرہ بہت ساری روایات میں ملتا ہے۔ اس حکم خداوندی کی رو سے بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا۔ اللہ تعالی کی طرف سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا جو حکم آپ ؐ پر نازل ہوا تھا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ پہلی مسلمان امتوں کا قبلہ بیت المقدس تھا بلکہ اس کی اصل وجہ مسلمانوں کی آزمائش تھی جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۗ (البقرۃ : ۱۴۳)
اس کے بعداللہ تعالی نے اس عارضی قبلے کو منسوخ قرار دے کر اصل قبلہ یعنی بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کاحکم جاری فرمایا۔ اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :
وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ (البقرۃ:۱۴۵)
اور اے نبی ﷺ آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہیں ۔
قرآن مجید کی یہ نص اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ کی بیت المقدس کی طرف رخ کے نماز پڑھنے کی وجہ یہودیوں کی اتباع نہیں تھی بلکہ آپ کو اللہ کی طرف سے یہ ایک حکم تھا۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
و انہ لا یتبع أھوائھم فی جمیع أحوالہ و لا کونہ متوجھا الی بیت المقدس لکونھا قبلۃ الیھود و انما ذلک عن أمر اللہ
آپ کسی بھی معاملے میں یہودیوں کی اتباع نہیں کرتے تھے اسی طرح آپ کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنا اس وجہ سے نہیں تھا کہ یہ یہود کا قبلہ ہے بلکہ اس وجہ سے تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے آپ کو حکم تھا۔ یہودیوں نے حضرت موسی کی وفات کے بعدقبہ الصخرہ کی طرف رخ کر نماز پڑھنے کا آغاز کیا جبکہ عیسائیوں میں قسطنطنیندی گریٹ (۲۷۲ء تا۳۳۷ء) و ہ پہلا عیسائی بادشاہ گزرا ہے جس نے بیت المقدس کی مشرقی جانب نماز پڑھنے کی بدعت کا آغاز کیا۔
۱۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قالوا و ھو الذی ابتدع الصلوۃ الی الشرق و الا لم یصل قط أحد من أنبیائھم و اتباعھم الی الشرق و لم یشرع اللہ مکانایصلی الیہ الا الکعبۃ و الأنبیاء الخلیل و من قبلہ انما کانوا یصلون الی الکعبۃ و موسی ﷺ لم یکن یصلی الی الیبیت المقدس بل قالوا انہ کان ینصب قبۃ العھد الی العرب و یصلی الیھا فی التیہ ۔فلما فتح یوشع بیت المقدس بعد موت موسی نصب القبۃ الی الصخرۃ فکانوا یصلون الیھا فلما خرب بیت المقدس و ذھبت القبۃ صارت الیھود یصلون الی الصخرۃ لأنہ موضع القبۃ و السامرۃ یصلون الی جبل ھناک قالوا لأنہ کان علیہ التابوت(۱۹)
ان کاکہنا ہے کہ مشرق کی طرف نماز پڑھنے کی بدعت کا آغاز قسطنطنین دی گریٹ نے کیا جبکہ نصاری کے انبیاء اور ان کے متبعین میں سے کسی ایک نے بھی مشرق کی رخ کر کے نماز نہیں پڑھی اور اللہ تعالی نے کعبہ کے علاوہ کسی مقام کو بھی شریعت اسلامیہ میں نماز کے لیے جہت نہیں بنایا حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان سے ماقبل کے تمام انبیاء کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اور خود حضرت موسی بھی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ ان کاکہنا یہ ہے کہ حضرت موسی خیمہ عھد کو عرب کی طرف رخ کر کے نصب کرتے تھے اورصحرا میں اس خیمہ کی طرف رخ کر نماز پڑھتے تھے جب حضرت یوشع بن نون نے بیت المقدس کو فتح کر لیا تو خیمہ کو صخرہ پر نصب کیا پس بنی اسرائیل خیمہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے لگے جب بیت المقدس ویران ہوا اور خیمہ بھی چھن گیا تو یہود صخرہ کی طرف رخ کر نماز پڑھنے لگے کیونکہ یہ خیمہ کی جگہ تھی اور سامرۃ (یہودسے علیحدہ ہونے والا ایک فرقہ ) وہاں پر موجود ایک پہاڑ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے کیونکہ تابوت سکینہ اس پر موجود تھا۔
۲۔امام ابن قیم لکھتے ہیں :
استقبال أھل الکتاب لقبلتھم لم یکن من جھۃ الوحی و التوقیف من اللہ بل کان عن مشورۃ منھم و اجتھاد أما النصاری فلا ریب أن اللہ لم یأمرھم فی الانجیل ولا فی غیرہ باستقبال المشرق أبدا و ھم مقرون بذالک و مقرون أن قبلۃ المسیح کانت قبلۃ بنی اسرائیل و ھی الصخرۃ و انما وضع لھم شیوخھم و اسلافھم ھذہ القبلۃ و ھم یعتذرون عنھم بأن المسیح فوض الیھم التحلیل و التحریم و شرع الأحکام و ان ما حللوہ و حرموہ فقد حللہ ھو و حرمہ فی السماء فھم مع الیھود متفقون علی أن اللہ لم یشرع استقبال المشرق علی لسان رسولہ أبدا والمسلمون شاھدون علیھم بذالک و أما قبلۃ الیھود فلیس فی التوراۃ الأمر باستقبال الصخرۃ البتتۃ و انما کانوا ینصبون التابوت و یصلون الیہ من حیث خرجوا فاذا قدموا نصبوہ علی الصخرۃ و صلوا الیہ فلما رفع فصلوا الی موضعہ و ھو الصخرۃ و أماالسامرۃ فانھم یصلون الی طور لھم بأرض الشام یعظمونہ و یحجون الیہ و رأیتہ أناوھو فی بلد نابلس و ناظرت فضلائھم فی استقبالہ و قلت ھو قبلۃ باطلۃ مبتدعۃ فقال مشار الیہ فی دینھم ھذہ ھی القبلۃ الصحیحۃوالیھود أخطأوھا لأن اللہ تعالی أمر فی التوراۃ باستقبالہ عیناثم ذکر نصا یزعمہ من التوراۃ فی استقبالہ فقلت ھذا خطأ قطعا علی التوراۃلأنھا انما أنزلت علی بنی اسرائیل فھم المخاطبون بھا و أنتم فرع علیھم فیھاو انما تلقیتموھا عنھم و ھذا النص لیس فی التوراۃ التی بأیدینا و أنا رأیتھا و لیس ھذا فیھا فقال لی صدقت انما ھو فی توراتنا خاصۃ (۲۰)
اہل کتاب کا اپنے قبلوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا یہ وحی سے یا اللہ کی طرف سے نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنا قبلہ آپس کے مشورے اور اجتہاد سے مقرر کیا جہاں تک نصاری کامعاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے انجیل یا اس کے علاوہ کسی کتاب میں ان کوکہیں بھی مشرق کی طرف رخ کر نماز پڑھنے کا حکم کبھی نہیں دیا اور وہ اس بات کا خود بھی قرار کرتے ہیں اور اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کا قبلہ وہی ہے جو کہ بنو اسرائیل کا قبلہ ہے اور وہ صخرہ ہے اور ان کے شیوخ اور بڑوں نے مشرق کو قبلہ مقرر کیا اور وہ اپنے ان کبار شیوخ کی طرف سے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح نے ان کو تحلیل و تحریم اور تشریع احکام کا اختیار تفویض کیا تھا اور جس چیز کو انھوں نے حلال یا حرام قرار دیاا س کو حضرت مسیح نے بھی آسمانوں پر سے حلال یا حرام قرار دے دیا۔ وہ یہود سے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے کسی رسول کی زبانی مشرق کو قبلہ نہیں بنایااور مسلمان بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مشرق کو قبلہ نہیں بنایا۔ جہاں تک یہود کے قبلے کا تعلق ہے تو یہ بات تو واضح ہے کہ تورات میں کہیں بھی صخرہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم نہیں بیان ہوا ہے اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ جہاں سے بھی نکلتے تابوت کو نصب کرتے اور اس کی طرف رخ کر نماز پڑھتے تھے جب وہ بیت المقدس میں آئے تو انھوں نے اس تابوت کو صخرہ پر نصب کیا اور اس کی طرف رخ کر نماز پڑھی پس جب توبوت کو اٹھا لیا گیا تو وہ صخرہ کی طرف رخ کے نماز پڑھنے لگے کیونکہ یہ تابوت کی جگہ تھی ۔جہاں تک سامرہ (یہودیوں سے علیحدہ ہونے والا ایک گروہ) کا تعلق ہے تو وہ ارض شام میں موجود ایک پہاڑ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے وہ اس کی تعظیم کرتے تھے اور اس کا قصد بھی کرتے تھے اور میں نے اس پہاڑ کو دیکھا ہے وہ شہر ’نابلس‘ میں ہے اور میں (یعنی ابن قیم) نے جب اس فرقے کے علماء سے بحث کی اور ان سے کہا کہ کہ تمہارا قبلہ باطل اور بدعت ہے تو انھوں نے کہا کہ ان کے دین میں اس قبلہ کے بارہ میں کہا گیا ہے کہ یہی صحیح قبلہ ہے اور یہودیوں نے قبلہ کے تعین میں خطا کھائی ہے اللہ تعالی نے تورات میں اسی پہاڑ کے استقبال کا حکم دیا ہے پھر ان میں سے ایک نے اس پہاڑ کے استقبال کے بارے میں ایک نص پیش کی جس کے بارے میں اس کا گمان یہ تھا کہ یہ تورات کی آیت ہے تو میں نے کہا یہ کہنا تورات کے بارے میں قطعی خطا ہے کیونکہ تورات بنو اسرائیل پر نازل ہوئی اور وہ اس کے اول مخاطبین ہیں اور تم ان کی ایک فرع ہو اور تم نے تورات ان سے حاصل کی ہے اور یہ نص جو کہ تم پیش کر رہے ہو اس تورات میں نہیں ہے جو کہ بنوا سرائیل کے پاس ہے اور میں نے اس تورات کو دیکھا ہے اور اس میں یہ نص موجود نہیں ہے تو وہ (سامری عالم)مجھے کہنے لگا تم ٹھیک کہہ رہے ہو یہ نص ہماری خاص تورات میں ہے۔
۳۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہما اللہ کی اس رائے کی تائید قرآنی نصوص‘ احادیث مبارکہ اور بعض تابعین وتبع تابعین کی آراء سے بھی ہوتی ہے:
پہلی دلیل
الف ) اس رائے کی تائید میں چند ایک قرآنی دلائل درج ذیل ہیں۔
بنی اسرائیل کی غلامی کے زمانے میں‘ جبکہ وہ ابھی تک قوم فرعون کے ظلم سے آزاد نہ ہوئے‘ اللہ تعالی نے ان کو یہ حکم دیا تھا :
وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۗ(یونس:۸۷)
اور اپنے گھروں کو قبلہ رخ بناؤ اور نماز قائم کرو۔
یہاں بنی اسرائیل کو کس قبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے؟ کیا بیت المقدس کی طرف؟ کہ جس کی بنیاد بقول عمار صاحب کے سینکڑوں سال بعد حضرت سلیمان کے دور میں رکھی جانی تھی۔ یہ آیت مبارکہ اس مسئلے میں نص قطعی کا درجہ رکھتی ہے کہ بنی اسرائیل کو بھی اپنی نمازوں میں جس قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ بیت اللہ ہی ہے‘ کیونکہ اس آیت میں قبلہ کا لفظ مطلقا استعمال کیا گیا ہے یعنی مراد وہ قبلہ ہے جو کہ اس وقت اور اس سے ماقبل کی اقوام میں بطور قبلہ معروف تھا اور وہ سب کے نزدیک بیت اللہ ہی ہے۔ امام طبری رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں صحابہ و تابعین کے اقوال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؛
عن مجاھد قال قال ابن عباس فی قولہ تعالی وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً یقول وجھوا بیوتکم مساجدکم نحو القبلۃ ألا تری أنہ یقول فی بیوت أذن اللہ أن ترفع
حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابن عباس ؓ نے
وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: اپنے گھروں یعنی مساجد کو قبلہ رخ بناؤ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ (اس آیت مبارکہ میں مساجدکے لیے ’’بیوت‘‘ کا لفظ استعمال ہواہے )۔
عن سعید ابن جبیر عن ابن عباس وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً یعنی الکعبۃ
حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے وہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةًکی تفسیر میں فرمایا کہ قبلہ سے مراد ’’کعبۃ‘‘ ہے ۔
عن مجاہد بیوتکم قبلۃ قال نحو الکعبۃ حین خاف موسی و من معہ من فرعون أن یصلوا فی الکنائس الجامعۃ فأمروا أن یجعلوا فی بیوتھم مستقبلۃ الکعبۃ یصلون فیھا سرا
حضرت مجاہد سے روایت ہے وہ فرمات ہیں کہ وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً سے مراد ہے کہ اپنے گھروں کو کعبہ کے رخ بناؤ۔ جب موسی اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں نے اپنی عبادگاہوں میں اکھٹے ہو کر نماز پڑھنے میں فرعون سے خوف محسوس کیا تو انھیں یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گھروں کو کعبہ کے رخ بنا لیں اور ان میں چھپ کے نمازپڑھیں۔
اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :
وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿١٤٥﴾ (البقرۃ۱۴۵)
اور اگر آپ ان اہل کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانی ہی کیو ں نہ لے آئیں وہ آپ کے قبلے کی پیروی ہر گز نہ کریں گے اور نہ آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں اور ان میں بعض ‘ان کے بعض کے قبلے کی پیروی کرنے والا نہیں ہے اور اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آ گیا تو تب آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔
اس آیت مبارکہ کے انداز خطاب سے معلوم ہو رہا ہے کہ اہل کتاب سے بھی اللہ تعالی کا یہ مطالبہ ہے کہ وہ بیت اللہ کو اپنا قبلہ بنائیں جوکہ تمام انبیاء کا قبلہ رہا ہے لیکن اہل کتاب کی ضد اور اسلا م دشمنی کے بارے میں خبر دیتے ہوئے اللہ تعالی اپنے نبی محمد ﷺ سے کہہ رہے ہیں [ARBوَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ [/ARB]کہ اگر آپ ان اہل کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانی لے آئیں کہ جس سے یہ ثابت ہوتا کہ بیت اللہ ہی اصل قبلہ ہے‘ اہل کتاب کا بھی اور مسلمانوں کا بھی‘ تو پھر بھی یہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہ کریں گے۔
’’و ما أنت بتابع قبلتھم ‘‘میں
’قبلتھم ‘‘سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالی نے بیت المقدس کو ان کا قبلہ بنایا ہے اس کی دلیل آیت کایہ اگلا ٹکڑاہے
وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ کیونکہ اس بات پر تو اجماع ہے کہ اللہ تعالی نے تین قبلے نہیں بنائے جبکہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے تین قبلوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک مسلمانوں کا قبلہ کی جسے اللہ تعالی نے ان کے لیے قبلہ مقرر کیا ہے جیسا کہ اسی آیت مبارکہ کے سیاق و سباق سے واضح ہوتا ہے۔ دوسرا عیسائیوں اور تیسرا یہودیوں کا قبلہ ہے کہ جنھوں نے اپنی خواہش اور آزادمرضی سے بیت المقدس کی مشرقی جانب اور قبۃ الصخرہ کو قبلہ بنا لیا تھا۔ امام ابن جریر طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
و ما لک یا محمد سبیل اتباع قبلتھم و ذلک أن الیھود تستقبل بیت المقدس لصلاتھا و أن النصاری تستقبل المشرق فأنی یکون لک السبیل الی اتباع قبلتھم مع اختلاف وجوھھا
اے محمد ﷺ آپ کے لیے ان کے قبلے کی پیروی کرنا جائز نہیں ہے اور یہ اس وجہ سے کہ یہوداپنی نماز میں بیت المقدس کی طرف جبکہ نصاری اس کے مشرقی حصے کی طرف رخ کرتے ہیں۔ اے نبی ﷺ آپ کیسے ان کے قبلے کی پیروی کریں گے جبکہ خود ان میں آپس میں قبلے کے تعین میں اختلاف ہے۔
اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ (البقرۃ :۱۴۶)
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی (یعنی اہل کتاب) وہ اس ( یعنی بیت اللہ کے قبلہ ہونے ) اس طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۔
امام ابن جریر طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یعرف ھؤلاء الأحبار من الیھود والعلماء من النصاری أن البیت الحرام قبلتھم و قبلۃ ابراہیم و قبلۃ الأنبیاء قبلک کما یعرفون أبنائھم
یہود و نصاری کے علماء یہ جانتے ہیں کہ مسجد حرام ان کا قبلہ ہے اور یہی حضرت ابراہیم اور آپ سے پہلے تمام انبیاء کا قبلہ تھا جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں بعض مفسرین نے
’یعرفونہ‘ کی
’ہ‘ ضمیر کو اللہ کے رسول ﷺ کی طرف لوٹایاہے لیکن
’ہ‘ ضمیر کو اللہ کے رسول ﷺ کی طرف لوٹانا قرآن کے سیاق وسباق کے خلاف ہے۔
اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :
وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٤٦﴾ (البقرۃ:۱۴۶)
اور ان میں ایک گروہ ایسا ہے کہ وہ حق بات (یعنی بیت اللہ ہی کے اصل قبلہ ہونے)کو جانتے بوجھتے چھپا رہے ہیں۔
امام ابن جریر طبری
وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٤٦﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
و ذلک الحق ھو القبلۃ التی أوجہ اللہ عزو جل الیھا نبیہ محمدا ﷺیقول فول وجھک شطر المسجد الحرام التی کانت الأنبیاء من قبل محمد یتوجھون الیھا فکتمھا الیھود و النصاری فتوجہ بعضھم شرقا و بعضھم نحو بیت المقدس و رفضوا ما أمرہم اللہ بہ
’الحق‘سے مراد قبلہ ہے جس کی طرف رخ کرنے کا حکم اللہ تعالی نے اپنے نبی کو دیا ہے اللہ تعالی اپنے نبی ﷺ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ مسجد حرام کی طرف اپنا رخ پھیر لیں جس کی طرف آپ سے پہلے تمام انبیاء رخ کرتے تھے پس یہود و نصاری نے اصل قبلے (یعنی بیت اللہ ) کو چھپا لیا اور کسی نے مشرق کی طرف رخ کیا اور کسی نے بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنایااور انھوں نے اس کا انکار کیاجس کا اللہ تعالی نے ان کو حکم دیا تھا۔
اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :
الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿١٤٧﴾ (البقرۃ:۱۴۷)
یہ (یعنی بیت اللہ کا قبلہ ہونا) حق ہے آپ کے رب کی طرف سے‘ پس آپ (بیت اللہ کے ہی قبلہ ہونے میں ) شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جائیں ۔
امام ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
أی فلا تکونن من الشاکین فی أن القبلۃ التی وجھتک نحوھا قبلۃ ابراھیم خلیلی علیہ السلام و قبلۃ الأنبیاء غیرہ
اے نبی ﷺ آپ اس بارے میں بالکل بھی شک میں مبتلا نہ ہوں کہ جس قبلہ کی طرف ہم نے آپ کا رخ کیا ہے وہی حضرت ابراہیم اور ان کے علاوہ تمام انبیاء کاقبلہ ہے۔
اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :
وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ (البقرۃ:۱۴۸)
اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے وہ اس کی طرف اپنے آپ کو پھیرنے والا ہے پس تم (اے مسلمانو) نیکیوں میں سبقت لے جاؤ۔
امام طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
أی قد بینت لکن أیھا المؤمنون الحق و ھدیتکم القبلۃ التی ضلت عنھا الیھود و النصاری و سائر الملل غیرکم فبادرو ا بالأعمال الصالحۃ شکرا لربکم
اے اہل ایمان میں نے تمہارے لیے حق بات کو واضح کر دیا تھا اور اس قبلے کی طرف تمہاری رہنمائی کی ہے کہ جس قبلے سے یہود و نصاری اور تمہارے علاوہ تمام مذاہب بھٹک گئے تھے پس تم اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے نیکی کے کاموں میں جلدی کرو۔
دوسری دلیل
ب)۔ بعض ایسی روایات بھی ملتی ہیں کہ جن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ بیت المقدس یہود کا قبلہ نہیں ہے بلکہ ان کا قبلہ بھی بیت اللہ ہی تھا۔
حضرت مجاہد فرماتے ہیں :
کنا عند ابن عباس فذکروا الدجال أنہ قال مکتوب بین عینیہ کافر فقال ابن عباس لم أسمعہ و لکنہ قال أما موسی کأنی أنظر الیہ اذا انحدر فی الوادی یلبی (۲۱)
ہم ابن عباس کے پاس تھے کہ لوگوں نے دجال کو تذکرہ کیا کہ آپ نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا تو ابن عباس نے کہا میں یہ بات اللہ کے رسولﷺ سے نہیں سنی بلکہ میںنے آپ سے سنا ہے آپ کہ رہے تھے جہاں تک حضرت موسی کا معاملہ ہے تو گویا کہ میں ان کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ وادی میں تلبیہ کہتے ہوئے اتر رہے ہیں۔
یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انبیائے بنی اسرائیل بھی حج کرنے کے لیے بیت اللہ کا ہی قصد کرتے تھے ۔علامہ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
و فی الحدیث أن التلبیۃ فی بطون الأودیۃ من سنن المرسلین
اور اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ وادیوں کے درمیان میں تلبیہ کہنا رسولوں کی سنت ہے ۔
ایک دوسری روایت میں حضرت یونس بن متی کا بھی تذکر ہ ہے۔حضرت ابن عباس سے روایت ہے :
عن ابن عباس أن رسول اللہ مروا بوادی الأزرق فقال أی وا د ھذاقالوا ھذا وادی الأزرق فقال کأنی أنظر الی موسی و ھو ھابط من الثنیۃ ولہ جؤار الی اللہ عزوجل بالتلبیۃ حتی أتی علی ثنیۃ ھرشاء فقال أی ثنیۃ ھذا قالوا ثنیۃ ھرشاء قال کأنی أنظر الی یونس بن متی علی ناقۃ حمراء جعدۃ علیہ جبۃ من صوف خطام ناقتہ خلبۃ قال ھشیم یعنی لیف و ھو یلبی (۲۲)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا گزر وادی أزرق سے ہوا تو آپ نے سوال کیا کہ یہ کون سی وادی ہے صحابہ نے کہا یہ وادی أزرق ہے اس پر آپ نے فرمایا گویا کہ میں حضرت موسی علیہ السلام کو گھاٹی سے اترتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور وہ بلند آواز سے تلبیہ کہ رہے ہیں پھر آ پ ہرشاء کی گھاٹی پر آئے اور آپ نے پوچھا یہ کون سی گھاٹی ہے صحابہ نے کہا یہ ہرشاء کی گھاٹی ہے تو آپ نے فرمایا گویا کہ میں یونس بن متی کودیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک سرخ موٹی تازی مضبوط گوشت والی اونٹنی پر سوار ہیں اور انھوں نے اون کا ایک جبہ پہن رکھا ہے‘ ان کی اونٹنی کی لگام کجھور کے درخت کی چھال کی ہے اور وہ تلبیہ کہ رہے ہیں۔
اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء بیت اللہ کاحج کرتے تھے ۔ عمار صاحب بنو اسرائیل کے کسی ایک نبی کے بارے میں یہ ثابت کردیں کہ اس نے بیت المقدس کا حج کیا ہو۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسی‘کہ جن پر تورات نازل ہوئی‘ ان کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ اگرعمار صاحب یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان کے دور میں بنو اسرائیل کا قبلہ تبدیل ہو گیا تھا توا س کی کیا دلیل ہے کہ پہلے ان کا قبلہ بھی وہی تھا جو کہ تمام انبیاء کا تھا پھر حضرت سلیمان کے دور میں ان کا قبلہ بیت المقدس قرار پایا؟ أمر واقعہ یہ ہے کہ یہود نے اپنے اصل قبلہ‘ جو کہ حضرت موسی کے زمانہ سے چلا آ رہا تھا‘ سے انحراف کرتے ہوئے اپنے مشورے اور اجتہاد سے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر لیا تھا جیسا کہ امام طبری ‘امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم نے اس حقیت کو واضح کیا ہے۔
اسی طرح بعض صحیح احادیث میں بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی فضیلت ایک عام مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ بیان کی گئی ہے اگربیت المقدس یہودیوں کا قبلہ اور عبادت گاہ ہے تو وہاں نماز پڑھنے کی کیا تک بنتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا آخری طرز عمل یہ تھا کہ آپ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی یہودیوں کی مخالفت کرتے تھے چہ جائیکہ آپ مسلمانوں کو ان کے قبلے اور عبادت گاہ میں جا کر نماز پڑھنے کی ترغیب دلائیں۔
تیسری دلیل
ج)۔ بعض تابعین اورتبع تابعین کی آراء سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرون ثلاثہ میں یہ رائے بہت عام تھی کہ تمام انبیاء کا قبلہ بیت اللہ ہی رہا ہے اور بیت المقدس کو قبلہ قرار دینا یہودیوں کی ایک اختراع تھی اور یہودیوں کی اسی اختراع کو اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے آزمائش بناتے ہوئے بیت المقدس کو کچھ عرصہ کے لیے ان کاعارضی قبلہ قرار دیا۔ ان میں سے چند ایک اقوال یہ ہیں :
عن السدی:’’ یعرفونہ کما یعرفون أبنائھم ‘‘یعرفون الکعبۃ أنھا ھی قبلۃ الأنبیاء کما یعرفون أبنائھم وروی عن قتادۃ و الربیع بن أنس و الضحاک نحو ذلک
حضرت سدی سے روایت ہے کہ’’ یعرفون کما یعرفون ابنائھم‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ یہ بات‘ کہ کعبہ ہی تمام انبیاء کا قبلہ ہے‘ اس طرح جانتے ہیں جس طرح کہ وہ اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں ۔ قتادہ ‘ ضحاک اور ربیع بن أنس رحمہم اللہ سے بھی اسی قسم کا مفہوم مروی ہے۔
عن الربیع قولہ تعالی الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ عرفوا قبلۃ البیت الحرام ھی قبلتھم التی أمروا بھا کما عرفوا أبنائھم
حضرت ربیع سے روایت ہے کہ آیت مبارکہ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ سے مراد ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ مسجد حرام ہی وہ قبلہ ہے جس کے استقبال کا ان کو حکم دیا گیا ہے جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں ۔
عن الربیع الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿١٤٧﴾ یقول فلاتکونن فی شک من ذلک فانھا قبلتک و قبلۃ الأنبیاء قبلک
حضرت ربیع سے مروی ہے وہ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿١٤٧﴾ کے بارے میں کہتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ اے محمد ﷺ آپؐ اس بارے میں کسی قسم کے شک وشبہ میں مبتلا نہ ہوں کہ کعبہ ہی آپؐ کا بھی اور آپؐ سے پہلے انبیاء کا بھی قبلہ تھا۔
عن أبی العالیہ قال : قال اللہ لنبیہ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿١٤٧﴾ فیقول لا تکون فی شک یا محمد ان الکعبۃ ھی قبلتک و کانت قبلۃ الأنبیاء قبلک
حضرت أبو العالیہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی سے کہا ہے الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿١٤٧﴾ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محمد ﷺ آپ اس بارے میں کسی قسم کے شک میں مبتلا نہ ہوں کہ کعبہ ہی آپ کا بھی قبلہ ہے اور آپ سے پہلے تمام انبیاء کا بھی قبلہ تھا۔
عن أبی العالیۃ وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ قال للیھود وجھۃ ھو مولیھا و للنصرانی وجھۃ ھو مولیھا و ھداکم اللہ أنتم ایتھا الأمۃ القبلۃ التی ھی القبلۃ و روی عن مجاھد أحد قولیہ و الضحاک و عطاء و السدی و الربیع نحوذلک
حضرت ابو العالیہ وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہود کے لیے ایک جہت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتے ہیں اسی طرح عیسائیوں کے لیے ایک جہت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتے ہیں اور اے امت مسلمہ اللہ تعالی نے تمہاری اس قبلے کی طرف رہنمائی کی ہے جو کہ اصل قبلہ ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں امام مجاہد کے دو قوال میں سے ایک قول یہی ہے اس کے علاوہ ضحاک‘ عطاء‘ سدی اورربیع رحمہم اللہ سے بھی اس قسم کا قول نقل کیا گیا ہے۔
چوتھی دلیل
د)۔ دلیل استصحاب سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہود کااصل قبلہ بیت اللہ ہی ہے۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی استصحاب کے تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
و عند الأصولیین ھو : الحکم بثبوت أمر أو نفیہ فی الزمان الحاضر أو المستقبل‘ بناء علی ثبوتہ أو عدمہ فی الزمان الماضی‘ لعدم قیام الدلیل علی تغییرہ (۲۳)
أصولیین کے نزدیک‘ زمانہ حال یا مستقبل میں ‘کسی حکم کے ثبوت یا عدم ثبوت کی بنیاد‘ ماضی میں اس حکم کے ثبوت یاعدم ثبوت پر رکھنا‘ جبکہ اس حکم کے تبدیل ہونے کی کوئی دلیل نہ ہو‘ استصحاب کہلاتا ہے۔
قرآنی نصوص‘ احادیث صحیحہ اور اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد بنو اسرائیل اور بنو اسماعیل کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ اب اگر کوئی شخص اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں بیت اللہ کو منسوخ کر کے بیت المقدس کو بنو اسرائیل کا قبلہ مقرر کیا گیا تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس بات کی دلیل پیش کرے کہ بیت اللہ کو بنو اسرائیل کے لیے بطور قبلہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ کیا اسرائیلیات (کتاب مقدس) میں اس نسخ کی کوئی دلیل ہے؟۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کا تو عارضی طور پر قبلہ مقرر کیا گیا لیکن یہ یہود کا قبلہ کبھی بھی نہیں رہا۔ قرآن و حدیث تو کیا اسرائیلیات (کتاب مقدس) میں بھی کوئی ایک بھی ایسی نص نہیں ہے کہ جس سے یہ واضح ہو تا ہوکہ اللہ تعالی نے یہود کے لیے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تھا۔ بلکہ قرآنی آیات‘ بہت ساری روایت‘ تاریخی حقائق اور أئمہ سلف کی آراء اس مؤقف کی تائید کرتی نظر آتی ہیں کہ یہود کا قبلہ بیت اللہ ہی تھا۔ جب یہ ثابت ہوا کہ بیت المقدس نہ تو یہود کی عبادت گاہ ہے اور نہ ہی یہ ان کا قبلہ ہے‘ تو یہ دعوی بھی باطل ہے کہ بیت المقدس پر یہودیوں کا حق ہے۔ بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ بیت المقدس وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا کے مطابق مسلمانوں کی عبادت گاہ اور سابقہ قبلہ ہے اسی لیے وہی اس کی تولیت کا بھی شرعی حق رکھتے ہیں۔
دوسروں کے مؤقف میں شکوک و شبہات پیدا کرنا اور اپنے مؤقف کے اثبات کے لیے ایک دلیل بھی پیش نہ کر سکنا‘ اگر اہل فن کے ہاں تحقیق اسی کو کہتے ہیں تو واقعتا عمار صاحب کا مضمون ایک تحقیقی مقالہ ہے‘ کیونکہ عمار صاحب نے اپنے پورے مضمون میں یہی کام کیا ہے۔ میں نے عمار صاحب کے مضمون کا کئی دفعہ بغور مطالعہ کیا لیکن اس طویل مضمون میں مجھے سوائے حضرت سلیمان کی دعا کے کوئی اور عبارت ایسی نظر نہیں آئی کہ جسے عمار صاحب نے بیت المقدس کو یہود کا قبلہ ثابت کرنے کے لیے پیش کیا ہو۔ عمار صاحب سے گزارش ہے کہ انھوں نے علماء کے مؤقف کا رد تو بہت اچھا کر دیا ہے اب ذرا اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے بھی کوئی دلیل پیش کریں۔
دوسروں کے مؤقف کا رد کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کا مؤقف ثابت ہو گیا ہے۔