- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
محترم بھائی کا کہنا ہے کہ ’مسجد اقصیٰ‘ مقدس شہر بیت المقدس میں موجود نہیں بلکہ اس سے مراد آسمانوں میں موجود ’البیت المعمور‘ ہے، وہاں نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر نماز پڑھی تھی۔ان سب مضامین لکھنے والوں کواصل میں ایک بات کی غلط فھمی ہویی ہے اور وہ یہ کہ سب حضرات مسجد اقصی اور بیت المقدس کو ایک
سمجتھے ہیں جبکہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں اسلیے کہ تحویل قبلہ کی متعلق احادیث میں بھی بیت المقدس کا لفظ ہے مسجد اقصی کا نہی تو یہ سارا اختلاف اس وجہ سے بنا کہ لوگوں نے ان دونوں کو ایک ہی سمجھا
کیونکھ اقضی کا معنی ھے سب دور اور جب اللھ تعالی سبحان الذی اسری بعبدھ میں اپنا تعریف کررھاھے کھ دور لیکر گیا تو پہر تو بہت
دور ہونا چاھیے نا اب مسجد مسجد اقضی کتنا دور ھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اور کس کس سے دور ھے سعودی عرب سے تو جھاز میں بیٹہ جاو تو گنٹہوں میں پہنچ جاووگے تو پہر اتنی سے دوری پر اللھ تعالی اپنا تعریف کیوں کریں وھ تو بہت بڑا ذات ھے ھاں اگر اس
سے مراد بیت المعمور ہوجاے تو پہر تو وھ بہت دور بہی ھے اور سب سے دور ھے اور بہت دورھے اور معراج میں رسول اللھ
مبارک نے وھاں نماز بہی پڑھی تہی
یہ آپ کی خانہ زاد تفسیر ہے (کہ مسجد اقصیٰ سے مراد البیت المعمور ہے) یا کسی معتبر تفسیر کا حوالہ بھی دے سکتے ہیں آپ؟؟؟
صحیحین میں نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: «لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجد الحرام ومسجد الرسولﷺ ومسجد الأقصىٰ »
کہ تین مسجدوں کے علاوہ (کسی مسجد کی زیارت کا قصد کرکے) سفر نہیں کیا جا سکتا: مسجد حرام، مسجد نبویﷺ اور مسجد اقصیٰ
اب یہ الیاسی صاحب ہی بتا سکتے ہیں کہ اگر مسجد اقصیٰ سے مراد آسمانوں میں ’البیت المعمور‘ ہے تو اس کی طرف کیسے سفر کیا جائے؟؟؟
معزز بھائی! مسجدِ اقصیٰ وہی ہے جو بیت المقدس میں ہے، وہی مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، اگر اس سے مراد ’البیت المعمور‘ ہے تو کیا سولہ سترہ مہینے مسلمان آسمان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے ہیں؟؟؟
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث مبارکہ ہے:
لما أسري بالنبي إلى المسجد الأقصى ، أصبح يتحدث الناس بذلك ، فارتد ناس ممن كانوا آمنوا به ، و صدقوه ، و سعوا بذلك إلى أبي بكر ، فقالوا : هل لك إلى صاحبك يزعم أنه أسري به الليلة إلى بيت المقدس ؟ قال : أو قال ذلك ؟ قالوا : نعم ، قال : لئن كان قال ذلك لقد صدق ، قالوا : أو تصدقه أنه ذهب الليلة إلى بيت المقدس و جاء قبل أن يصبح ؟ قال : نعم إني لأصدقه فيما هو أبعد من ذلك ، أصدقه بخبر السماء في غدوه أو روحه ، فلذلك سمي أبو بكر الصديق
الراوي: عائشة المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 306
خلاصة حكم المحدث: متواتر
واللہ تعالیٰ اعلم!