جس مسجد کو اللھ تعالی اقصی کہیں تو اقصي کا مقصد ھے بہت دور تو وھ بیت المقدس کیسے ہوسکتا ھے وہان تک تو جہاز بیس منٹ میں پہنچ سکتاھے تو سب سے دور کیسے ھوا؟
مسجد اقصیٰ کا مطلب ہے دور کی مسجد، یعنی عظیم مسجدوں میں مسجد حرام سے زیادہ دور مسجد (مسجد اقصیٰ مسجد حرام سے مسجد نبوی کی بنسبت زیادہ دور ہے۔)
ویسے مجھے نہیں معلوم کہ کس جہاز سے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک بیس منٹ میں پہنچا جا سکتا ہے؟؟؟
اگر مستقبل میں یہ ممکن ہو بھی گیا تو تب بھی قرآن کریم ایسی کتاب نہیں جس کی تشریح آج کے سائنسی دور کی محتاج ہو۔ کیا نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیان اتنی جلدی پہنچا جا سکتا تھا؟؟؟
نہیں! ہرگز نہیں بلکہ تقریباً ایک مہینہ لگ جاتا تھا۔ لہٰذا یہ دور کی مسجد ہی ہے۔
اس طرح تو آپ کے نزدیک زمین کے دونوں کونے بھی دور نہیں ہوں گے کیونکہ آج یہ فاصلہ ایک دن سے بھی کم مدت میں طے کیا جا سکتا ہے، بلکہ فون یا انٹرنیٹ پر تو سیکنڈوں میں خبر یہاں سے وہاں پہنچائی جا سکتی ہے، کیا اس بناء پر ہم زمین کے دونوں کونوں کو بھی قریب کہیں گے؟؟؟
سورج کی روشنی کچھ منٹس میں زمین تک پہنچ جاتی ہے تو الیاسی کی منطق میں سورج بھی زمین سے انتہائی قریب ہوا۔
اگر اقصیٰ کا معنیٰ الیاسی صاحب کے نزدیک تب ہی مکمل ہو سکتا ہے، جب زمین سے نکل کر آسمان تک پہنچا جائے تو ان سے سوال ہے کہ درج ذیل آیات کریمہ میں
اقصیٰ کا ایسا ہی معنیٰ بیان فرمائیں:
﴿ وَجَاءَ رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَىٰ قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ ٢٠ ﴾ ۔۔۔ سورة القصص
شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا اے موسیٰ! یہاں کے سردار تیرے قتل کا مشوره کر رہے ہیں، پس تو بہت جلد چلا جا مجھے اپنا خیر خواه مان (
20)
﴿ وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ ٢٠ ﴾ ۔۔۔ سورة يٰسين
اور ایک شخص (اس)
شہر کے آخری حصے سے دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے میری قوم! ان رسولوں کی راه پر چلو (
20)
ان آیات کریمہ میں اقصیٰ سے مراد شہر کے دور کا (آخری) کنارہ مراد لیا جائے یا آسمان کا کنارہ؟؟؟