ہمارے پاس اس کے متعدد جوابات ہیں:
پہلا جواب:
اس حدیث میں جماعت بنانے والوں میں ایک صحابی کی نماز بے شک نفل تھی لیکن یہ حقیقی نفل نہیں تھی کیونکہ اصل میں وہ فرض نماز ہی تھی لیکن چونکہ اس نماز کو یہ صحابی ایک بار پڑھ چکے تھے اس لئے دوبارہ پڑھنے کی صورت میں یہ فرض نماز ان کے حق میں نفل ہوئی ، لہٰذا جب یہ بات ہے کہ اس حدیث میں نفل پڑھنے والے صحابی کی اصلا فرض نماز ہی تھی تو پھر کسی کے حق میں اس کے نفل بن جانے سے اس کے احکام نہیں بدل جائیں گے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کی صورت پہلی جماعت میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اس کے متعلق کوئی نہیں کہتا کہ یہ پہلی جماعت ہوئی ہی نہیں بلکہ یہ تو کوئی اور جماعت ہے ، مثلاملاحظہ ہوں درج ذیل احادیث:
(الف):
نماز خوف میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں میں ہر ایک کو دو دو رکعتیں پڑھائیں ، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نماز فرض اور دوسری نفل تھی جبکہ مقتدی دونوں مرتبہ فرض ادا کررہے تھے جیساکہ حدیث میں ہے ’’وَكَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعٌ، وَلِلْقَوْمِ رَكْعَتَانِ‘‘ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعتیں پڑھیں اور لوگوں نے دو،[بخاري 4136]۔
(ب) :
صحابی جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، كَانَ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَرْجِعُ، فَيَؤُمُّ قَوْمَهُ‘‘ یعنی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے پھرواپس آکر اپنی قوم کی امامت کیا کرتے تھے[بخاري:700]۔
غورکیجئے کہ ان تمام صورتوں میں مقتدی حضرات نے اپنی پہلی جماعت ادا کی لیکن ان میں امام کی نماز نفل تھی اور مقتدی حضرات کی فرض !!!!!!!!!!
تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ یہ کوئی اور جماعت تھی اور اس میں شریک ہونے والوں نے پہلی جماعت ادا ہی نہیں کی جو کہ خود علامہ البانی رحمہ اللہ کے بقول فرض ہے؟؟؟
ہمارے اس سوال کا سوچ سمجھ کر جواب دیا جائے کہ مذکورہ صورتوں میں مقتدی حضرات نے پہلی جماعت جو ان پر فرض تھی ، جسے فرض پڑھنے والے امام کے ساتھ ادا کرنا لازم تھا ، اسے پورا کیا یا نہیں؟؟ ان کے کندھوں سے پہلی جماعت کا فریضہ ساقط ہوا یا نہیں ؟؟؟
اگرکہاں جائے کہ ہاں مذکورہ صورت میں بھی ان مقتدی حضرات سے اس جماعت کا فریضہ ساقط ہوگیا جسے اصلا فرض پڑھنے والے امام کے ساتھ ادا کرنا ضروری تھا تو عرض ہے کہ:
اگر پہلی جماعت میں یہ صورت آجانے سے یہ جماعت اس جماعت کے برابر ہے جس میں سب کے سب فرض پڑھنے والے ہوتے ہیں تو پھر دوسری جماعت میں بھی یہ صورت آجانے سے یہ جماعت بھی اس جماعت کے برابر ہوگی جس میں سب کے سب فرض پڑھنے والے ہوں۔
لہٰذا مذکورہ احادیث میں :
جس طرح مقتدی حضرات کی پہلی جماعت میں پہلی صورت (اجتماع نفل وفرض ) والی جماعت ادا کرنے سے دوسری صورت (صرف فرض) والی جماعت ادا ہوجاتی ہے۔
ٹھیک اسی طرح دوسری جماعت میں پہلی صورت (اجتماع نفل وفرض ) والی جماعت کے جائز ہونے سے ، دوسری صورت (صرف فرض) والی جماعت بھی جائز ہوگی۔
دوسرا جواب:
اعتراض میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دوسری جماعت بنوائی اس میں ایک صحابی نفل پڑھنے والے تھے ۔
ہم کہتے ہیں کہ اس نکتے سے تو ہماری دلیل میں اورمضبوطی آجاتی ہے ، کیونکہ جب دوسری جماعت بنانے کے لئے وہ شخص بھی شامل ہوسکتا ہے جس نے ایک بارنماز پڑھ لی ہو ، اورجسے دوبارہ نماز پڑھنے کی ضرورت ہی نہ ہو ، تو پھر جس شخص نے ابھی نماز ہی نہ پڑھی ہو وہ تو بدرجہ اولی دوسری جماعت بنا سکتاہے کیونکہ اسے تو اس کی ضرورت ہے۔
نیز جب ایک نفل پڑھنے والےکے ساتھ جماعت بنانے سے جماعت کا ثواب مل جاتا ہے تو فرض پڑھنے والے کے ساتھ جماعت بنانے سے بدرجہ اولی ثواب ملنا چاہئے۔
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قُلْتُ إِذَا ثَبَتَ مِنْ حَدِيثِ الْبَابِ حُصُولُ ثَوَابِ الْجَمَاعَةِ بِمُفْتَرِضٍ وَمُتَنَفِّلٍ فَحُصُولُ ثَوَابِهَا بِمُفْتَرِضَيْنِ بِالْأَوْلَى وَمَنِ ادَّعَى الْفَرْقَ فَعَلَيْهِ بَيَانُ الدَّلِيلِ الصَّحِيحِ [تحفة الأحوذي:2/ 10]۔
تیسرا جواب:
مذکورہ حدیث سے محدود مشروعیت پر استدلال اس وقت درست ہوتا کہ جب اصلا دوسری جماعت کی ممانعت ہو ، یعنی شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ دوسری جماعت ممنوع ہے اس لئے جس نوعیت کا ثبوت ملے گا ، جواز بھی محض اسی نوعیت کے ساتھ محدود ہوگا۔
لیکن ایسا نہیں ہے یعنی اصلا دوسری جماعت ممنوع نہیں بلکہ جائز ہے ، اور اسی اصل ہی کی بناپر بعض مساجدمیں دوسری جماعت کے جواز پر سب کا اتفاق ہے ، ورنہ اگر اصلا دوسری جماعت ممنوع ہوتی تو کسی بھی مسجد میں اس کے جواز کے لئے واضح ثبوت درکا ر ہوتے ۔
الغرض جب اصلا دوسری جماعت جائز ہے تو مذکورہ حدیث سے استدلال کو محدود نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ جب اصلا دوسری جماعت جائز ہے تو پھر کس بنیاد پر درج بالا حدیث سے استدلال کو محدود کیا جارہاہے۔
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَثْبُتْ عَدَمُ جَوَازِ تَكْرَارِ الْجَمَاعَةِ أَصْلًا لَا بِمُفْتَرِضَيْنِ وَلَا بِمُفْتَرِضٍ وَمُتَنَفِّلٍ فَالْقَوْلُ بِجَوَازِ تَكْرَارِهَا بِمُفْتَرِضٍ وَمُتَنَفِّلٍ وَعَدَمِ جَوَازِ تَكْرَارِهَا بِمُفْتَرِضَيْنِ مِمَّا لَا يُصْغَى إِلَيْهِ [تحفة الأحوذي:2/ 10]۔
چوتھا جواب:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے تمام المنہ میں ایک طرف تو مذکورہ حدیث پر یہ اعتراض کیا کہ اس میں ایک شخص کی نماز نفل تھی اورنفل سے فرض کا مسئلہ ثابت نہیں ہوگا، جبکہ دوسری طرف موصوف نے خود بھی نفل سے فرض کا مسئلہ ثابت کررکھا ہے اوروہ بھی اسی کتاب تمام المنہ میں ۔
چنانچہ ص ٢٢٤ پر لکھتے ہیں کہ دوتشہدی والی نمازوں کے پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنا جائز ہے پھرانہوں نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کی ہے جس میں مذکورہے کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں تہجد کی نماز دو تشہد اورایک سلام سے پڑھی اور دونوں تشہد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود پڑھا چونکہ یہ نفل نماز تھی اس لئے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد موصوف لکھتے ہیں:
ففيه دلالة صريحة على أنه صلى الله عليه و سلم صلى على ذاته صلى الله عليه و سلم في التشهد الأول كما صلى في التشهد الآخر وهذه فائدة عزيزة فاستفدها وعض عليها بالنواجذ ولا يقال : إن هذا في صلاة الليل لأننا نقول : الأصل أن ما شرع في صلاة شرع في غيرها دون تفريق بين فريضة أو نافلة فمن ادعى الفرق فعليه الدليل [تمام المنة ص: 225]۔
ہم کہتے ہیں کہ یہی بات ہم دوسری جماعت کے بارے میں کہیں گے کہ جب ایک نماز میں دوسری جماعت کی مشروعیت ثابت ہوگئی تو دوسری نمازمیں بھی یہ مشروعیت ثابت ہوگی اس بارے میں فرض اور نفل میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا، اور جو فرق کا دعوی کرے گا اسے دلیل پیش کرنا ہوگا۔
یادرہے مصلحت کسی دلیل کا نام نہیں ۔