Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے شہید
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبوت کے چھٹے سال۔ جب کہ آپ کی عمر 33 سال تھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ چھ سال آپ نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں کوئی کسر نہ اٹھا سکی۔ جب آپ نے اسلام قبول کر لیا تو نہ صرف وہ کمی پوری کر دی ، بلکہ اسلام کی اتنی خدمت کی کہ کوئی دوسرا اتنی خدمت نہ کر سکا۔
دور جاہلیت میں آپ سفارت کے عہدہ پر مامور تھے اور کفار کے باہمی جھگڑوں میں ثالث ہوا کرتے تھے اور آپ کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ تجارت میں اتنی ترقی کی تھی کہ شاہان روم و فارس کے درباروں تک بارسوخ ہو گئے تھے۔
آپ کی زندگی اتنی سادہ اور بے تکلف تھی کہ شاید ہی دنیا کا کوئی حکمران اس کی مثال پیش کر سکے۔ لباس کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ دوسرے ممالک کا دورہ کرتے ہوئے قمیص پر 17 , 17 پیوند لگے ہوئے ہیں ، مگر اس کی پرواہ نہیں۔ خوراک بہت سادہ خشک روٹی اور زیتون کا تیل استعمال کرتے تھے اور تکلف کا نام نہیں ، چلتے چلتے کوئی بڑھیا عورت راستہ روک لیتی ہے اور اپنا کیس پیش کر دیتی ہے تو سننے کے لئے مستعد ہو جاتے ہیں۔
مگر بایں رعب کا یہ عالم تھا کہ دشمن آپ کا نام سن کر کانپ جاتا تھا۔ فتوحات کا یہ عالم تھا کہ ملک پر ملک فتح ہوتے جا رہے ہیں ، یہاں تک کہ عیسائی مورخین کو یہ لکھنا پڑا کہ :
” اگر مسلمانوں میں ایک اور عمر پیدا ہو جاتا تو تمام میں اسلام اور اسلامی حکومت پھیل جاتی ، اور کوئی غیر مسلم نظر نہ آتا۔ “
شہادت :
آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ :
” ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر تشریف لے گئے۔ آپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے کہ احد پہاڑ لرزنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کو مخاطب کر کے فرمایا : ٹھہر جا تجھ پر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ “
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول تھا کہ وہ کسی بالغ ذمی (جزیہ ادا کرنے والے غیر مسلم) کو مدینہ منورہ میں آنے کی اجازت نہیں دیا کرتے تھے۔ مگر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جو کوفہ کے گورنر تھے۔ انہوں نے اپنے ایک کاریگر مجوسی غلام (جس کا نام فیروز اور کنیت ابولولو تھی) مدینہ منورہ میں آنے اور رہنے کی اجازت طلب کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی اجازت دے دی۔
ابو لولوفیروز ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی ، کہ میرے آقا مغیرہ بن شعبہ نے میرے اوپر بہت بھاری ٹیکس مقرر کیا ہے۔ آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کتنا ٹیکس ہے۔ اس نے کہا : دو درہم روزانہ (تقریبا 44 پیسے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم کون سا کام جانتے ہو۔ فیروز نے جواب دیا۔ نجاری ، نقاشی اور آہنگری کا۔
آپ نے فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلہ میں یہ رقم کچھ زیادہ نہیں ہے۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا۔
26 ذی الحجہ 23 ھ کی صبح کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز فجر پڑھانے کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ فیروز گھات لگائے کھڑا تھا۔ اور مسجد میں بالکل اندھیرا تھا۔ جب آپ نے تکبیر تحریمہ کہی اور لوگوں نے آپ کی آواز سنی ،
اس کے بعد یہ آواز سنائی دی :
کتے نے مجھے مار دیا۔ فیروز نے چھ وار کئے۔ جس سے آپ رضی اللہ عنہ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے مختصر نماز پڑھائی۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا آخر پکڑ لیا گیا اور اس دوران اس نے خود کشی کر لی اور جہنم واصل ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں گھر لایا گیا۔ آپ نے پوچھا کہ کس نے مجھ پر حملہ کیا ہے۔ لوگوں نے بتایا ابولولوفیروز نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
الحمد للہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے شہید نہیں کیا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا تھا۔ اس کے بعد طبیب کو بلایا گیا۔ اس نے نبیذ اور دودھ پلایا۔ دونوں چیزیں زخم کی راہ باہر نکل آئیں۔ اس وقت لوگوں کو یقین ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس زخم سے جانبر نہیں ہو سکتے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا کہ :
” ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان کی خدمت میں سلام پیش کرو۔ اور میری طرف سے عرض کرو کہ عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ رو رہی تھیں حضرت عبداللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس جگہ کو میں اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہتی تھی لیکن آج میں اپنے اوپر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دوں گی۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس آئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا خبر لائے ہو۔ انہوں نے کہا جو آپ چاہتے تھے فرمایا کہ :
یہی سب سے بڑی آرزو تھی اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب میری روح قبض ہو جائے۔ تو میر نعش چارپائی پر لے جانا۔ اور دروازہ پر ٹھہر جانا۔ اور پھر اجازت مانگنا! اگر وہ واپس کر دیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری حاکمانہ حیثیت کے پیش نظر اجازت دے دی ہو۔ بہرحال جب نعش لے جائی گئی۔ تو سب مسلمان اس درجہ متاثر اور غم زدہ تھے کہ جیسے اس سے پہلے کوئی مصیبت نہ پڑی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دوبارہ اجازت دے دی۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی آخر آرام گاہ پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اعزاز بخشا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دائمی آرام گاہ پائی۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ 26 ذی الحجہ 23 ھ کو زخمی ہوئے تین دن بعد یکم محرم 24 ھ کو انتقال کیا۔ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت عبدالرحمان بن عوف ، حضرت عثمان بن عفان ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص y نے قبر میں اتارا۔ اور وہ آفتاب عالمتاب خاک میں چھپ گیا۔ وفات کے وقت عمر 63 سال تھی۔
مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” مسلمانوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت سے جو صدمہ ہوا۔ الفاظ سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر مسلمان نے اپنی عقل کے مطابق انتہا کی غم و اندوہ کا اظہار کیا۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہ نے کہا جس روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اسی روز اسلام کمزور پڑ گیا۔ “
جسٹس سید امیر علی کہتے ہیں کہ :
” حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ایک سخت ترین نقصان اور اسلام کے لئے ایک بہت بڑا حادثہ تھا۔ “
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ :
” عمر رضی اللہ عنہ کی موت اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے جو قیامت تک پر نہیں کیا جا سکے گا۔ “
ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 3
جلد نمبر 39 2 تا 8 محرم الحرام 1428 ھ 12 تا 18 جنوری 2008 ء
جناب عبدالرشید عراقی