عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
مسلمانوں كے درمیان حُسن معاشرت
خطیب:فضیلۃ الشیخ صلاح البدیر
مترجم:آصف ہارون
پہلاخطبہ :مترجم:آصف ہارون
تمام قسم کے تعریفی کلمات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہیں جو مخلوقات کو پیدا کرنے والا، مُردوں کو زندہ کرنے والا، دل کھول کر نوازنے والا، موجودات کا موجد اور ایسی شریعتوں کا شریعت ساز ہے جو قابل اتباع، پسندیدہ، خود بھی روشن اور دوسروں کو بھی روشنی فراہم کرنے والی ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کی مدح سرائی کرتا ہوں کہ جس نے نیکی کے اجر و ثواب کو کشادہ کیا اور خوبصورت انداز میں ستر پوشی کا اہتمام فرمایا۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ معبود برحق اور لاشریک ہے یہ ایک ایسے بندے کی گواہی ہے جو اپنے پروردگار پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خواہشمند ہے کہ وہ اس عاصی کے گناہوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے معافی اور بخشش کی دولت سے مالا مال کردے۔ اور میں اس بات پر بھی شاہد ہوں کہ ہمارے نبی حضرت محمدﷺ اس کے بندے اور سچے رسول ہیں۔ اللہ تعالی ٰکی طرف آپﷺ پر ،آپ ؐکے صحابہ پر، آپؐ کے پیروؤں پر اور آپ کی جماعت پر تاقیام قیامت درود وسلام کی دائمی اور مسلسل بارشیں نازل ہوتی رہیں۔(آمین )
امابعد! اے مسلمان بھائیو! اللہ سے ڈر جاؤ! تحقیق جو اللہ سے ڈر جاتا ہے وہ نجا ت پاجاتا ہے اور جو اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیتا ہے وہ راہ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مسلمان بھائیو! باہمی میل جول اور اختلاط و صحبت میں مٹھاس اس وقت تک پیدا نہیں ہوگی جب تک ہم حسن مصاحبت، معاشرتی حقوق و فرائض کی ادائیگی اور معاملات میں عدل و انصاف کے قیام کو ملحوظ خاطر اور مدنظر نہیں رکھیں گے۔لہٰذا جس نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا او ربطریق احسن ان سے سبکدوش ہوا ،گویا ا س نے عدل و انصاف کے دامن کو پکڑ لیا ہے۔ کیونکہ ذمہ داری اور مقصد سے دوری ہی دراصل وہ واحد سبب ہے جو مختلف قسم کی مشکلات و نافرمانیوں کو جنم دیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سختی کا برتاؤ، معاشرتی زندگی کو بےلطف اور گدلا کردیتا ہے ۔چنانچہ جو شخص باہمی بقا کے اصولوں اور ضابطوں کو پس پشت ڈال دیتا ہے اور روا داری کےمنا بع سے قطع نظری سے کام لیتا ہے او رمعاشرتی منازل کو وحشت ناک محسوس کرتے ہوئے قطع تعلقی، مخالفت اور منازعت کی راہ اپناتا ہے، تو وہ ایک ایسی شاہراہ پر گامزن ہے جو اسے مطلوب زندگی اور مقصود حیات سے بہت دور لے جارہی ہے۔’’یاایھا الذین آمنوا اتقواللہ حق تقاتہ ولا تموتن الا وانتم مسلمون‘‘ (آل عمران:102) ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت حالت اسلام میں آنی چاہیے۔‘‘
اے مسلمان بھائیو! جس نے لاپرواہی ، غفلت اور بھول چوک کے راستے کا انتخاب کیا ،تو اس کے دشمن زیادہ اور دوست کم ہوجاتے ہیں، اس کے عزیز و اقارب اور معاشرتی مصاحبین اس سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں او راسی طرح جو سامان رُشد و ہدایت سے جاہل او راپنی جہالتوں کے سمندروں میں غوطے کھا رہا ہے، اپنی حماقتوں او ربے و قوفیوں کی وادیوں میں گرا پڑا ہے، خیالات او ر اختلافات کی دنیا میں فسق و فجور کی پیٹھ پر سوار ہے اور شکایات و خصومات کے حوالے سے کذب بیانی کا شکار ہے جو سنگ دلی کو رحم دلی پر ، دشمنی کو دوستی پر اور ترش روئی کو خندہ پیشانی پر ترجیح دیتا ہے حتیٰ کہ آپ اس سے نرمی کا سلوک کرتے ہیں تووہ آپ سے سختی کا برتاؤ کرتا ہے آپ اس سے قربت چاہتے ہیں تو وہ آپ سے دوری۔ آپ اس کی ہاں میں ہاں میں ملاتے ہیں تو وہ آپ کی مخالفت اور آپ اس کو اپنے سینے سے لگانا چاہتے ہیں تووہ آپ سے راہ فرار اختیار کرتا ہے تو گویا وہ معاشرتی اصولوں پر مبنی پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کے اس قیمتی فرمان کو بھول چکا ہے۔
مسلمان بھائیو! جو شخص لوگوں کے لیے دامن توقیر کو کشادہ کرلیتا ہے او ران کے لیے اکرام و تعظیم کے بچھونے بچھاتا ہے او ران کے لیے معافیوں او ربہانوں کی تلاش میں رہتا ہے حالانکہ خود اس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے تو وہ لوگوں کے دلوں میں قابل تعظیم اور ان کی زبانوں پر قابل احترام بن کر زندگی بسر کرتا ہے۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے ؎’’ولا تقاطعوا ولا تدابروا ولا تباغضوا ولا تحاسبدوا و کونوا عباداللہ إخوانا ولا یحل لمسلم أن یھجر أخاہ فوق تلات‘‘ (بخاری و مسلم)
’’ایک دوسرے سے لاتعلقی، قطع تعلقی، بغض و حسد کی روش مت اپناؤ ۔ اے اللہ کے بندو! آپس میں اخوت و محبت کی فضا قائم کرو۔ کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے ترک تعلق رکھے۔‘‘
اہل و عیال اور عزیز و اقارب سب سے بڑھ کر حسن مصاحبت، بہترین معاشرت اور نرمی کے برتاؤ کے مستحق ہیں چنانچہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان گرامی ہے۔’’ومن یلق خیراً یحمد الناس أمرہ ....... ومن یغوی لا یعدم علی الغیّ لائما
’’جوخیر کا متلاشی ہو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں اور جو گمراہی و نامرادی کا متلاشی ہو تووہ اپنی گمراہی پر قابل ملامت ہے۔‘‘
لہٰذا جو اپنے اہل و عیال سے خیر و بھلائی سے پیش آتا ہے اپنے دست شفقت کو ان پر دراز کرلیتا ہے ان سے خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے اور ان کے لیے اپنے سیاہ عاطفت کو طویل تر کرلیتا ہے تو یہی وہ شخص ہے جوروشن ضمیر، وفادار، ملنسار، فیاض ، باوقار اور اللہ سے ڈرنے والا ہے۔’’تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہے او رمیں اپنے اہل و عیال کے لیے تم سب سے بڑھ کر بہتر ہوں۔‘‘ (ترمذی)
اور جس کی طبیعت میں غصیلہ پن پیدا ہوگیا، جس نے ترش روئی سے کام لیا، جس نے اپنے اہل و عیال پر سختیاں کیں، بداخلاقی اور بدمزاجی کا مظاہرہ کیا جس نے اپنے والدین سے روک ٹوک او رلعن طعن کا معاملہ کیا۔ اپنی بیوی کے ساتھ کوتاہی ، بے عزتی، حقارت او رعیب جوئی کا رویہ پیش کیا اپنی اولاد پر سرزنش، ڈانٹ ڈپٹ، بے عزتی او رلاپرواہی کے پہاڑ توڑے او راپنے عزیز و اقارب کے لیے قطع تعلقی ، بے مروتی، ناگواری او راحسان فراموشی کا مظاہرہ کیا تویہی وہ شخص ہے جو معاشرتی اصولوں کو پامال کرتاہے مغالطہ آرائی کی جنگ میں گھس جاتا ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ بداخلاقی او ربدمزاجی ہی وہ اسباب ہیں جو دوری اور نفرت کو جنم دیتے ہیں اور خاندانوں اور گھرانوں کو تباہ و برباد کردیتے ہیں۔
مسلمان بھائیو! محبت و شفقت ، نرمی و آسانی، ایثار و روا داری، رحمت و احسان او رحسن معاشرت و جمال مصاحبت جیسے اوصاف سے لوگوں سے پیش آؤ تاکہ تم اجر وثواب اور حسنات و برکات کوبھی سمیٹ سکو او راپنے خاندانوں او رمعاشروں کو لڑائی جھگڑوں اور دیگر نقصانات و شتات سے بھی بچاسکو۔
میں جوکہہ رہا ہوں اسے آپ لوگ غوروفکر سے سماعت کررہے ہیں میں اپنے لیے، آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ہر قسم کے گناہ و غلطی پر اللہ سے بخشش کا طالب ہوں کیونکہ وہ توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ :
تمام قسم کے تعریفی کلمات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے جس نے بے پناہ احسانات کئے، سب سے زیادہ شکر یے کا مستحق بھی وہ ہے جس نے توفیق و انعامات سے نوازا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ معبود برحق ہے لا شریک ہے جیسا اس کی عظمت و شان کے لائق ہے اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی حضرت محمدﷺ اس کے بندے اور سچے رسول ہیں جنہوں نے رضائے الٰہی کی دعوت پیش کی، اللہ تعالیٰ ، آپؐ پر،آپؐ کے اہل و عیال پر، آپؐ کے صحابہؓ پر اور آپ کے روحانی فرزندوں پر کثرت سے درود و سلام کی بارشیں نازل فرمائے۔
أمابعد! اے مسلمان بھائیو! اللہ سے ڈر جاؤ، ہمیشہ خوف ِ خدا کو مدِنظر رکھو، اس کی فرمانبرداری کرو اور نافرمانی سے بچ جاؤ۔ ارشاد ہے:
اے مسلمان بھائیو! جو لوگوں سے میل جول رکھے پھر بڑائی، ظلم و زیادتی، فخر و غرور، تکبر و تجبر، حقارت و بدتمیزی کا رویہ پیش کرتاہے لوگوں پر لعن طعن او ران کو بدنام کرتا ہے دروغ گوئی کے سہارے لوگوں کی عزتوں کو پامال کرتا ہے دست درازی کرتا ہے مکروفریب کے ساتھ لوگوں کے مال و اسباب کو ہتھیا لیتا ہے او رلوگوں سے بیہودگی ،اوچھے پن او رکم عقلی کا رویہ اپناتا ہے ،فضل کو بھول جاتا ہے ،اچھائی کا انکار کرتاہے، اللہ کے بندوں کو تکلیف دیتا ہے اور شہروں میں فساد برپا کرتا ہے تو اس نے اپنی جان او راپنے نفس پر ایسے داغ کو نقش کرلیا ہے جو کبھی نہیں مٹے گا اور ایسی رسوائی پائی ہے جو کبھی فراموش نہیں ہوگی اور ایسی سزا اور عذاب کو لازم کرلیا ہے جو کبھی نہ ختم ہوگا۔’’یاایھا الذین آمنوا اتقواللہ وقولوا قولاً سدیداً۔ یصلح لکم اعمالکم و یغفرلکم ذنوبکم ومن یطع اللہ و رسولہ فقد فاز فوزاً عظیما‘‘ (احزاب:70، 71)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ او رسیدھی و صاف ستھری بات کہا کرو۔ وہ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور جو اللہ او راس کے رسول کی فرمانبرداری کرلیتا ہے وہ عظیم الشان کامیابی حاصل کرلیتا ہے۔‘‘
اے مسلمانو! اللہ سے ڈر جاؤ او رمظالم و حقوق سلبی سے نجات حاصل کرلو، ظلم و اذّیت والی زندگی کو خیر آباد کہہ دو اس دن کے آنے سے پہلے جس دن نہ جائے پناہ ہوگی، نہ راہ فرار ہوگی اور نہ ہی واپسی ہوگی۔’’حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے وہ رسول اکرمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کا فرمان گرامی ہے: ’’کیا تم مفلس آدمی کو جانتے ہو؟ صحابہ نے کہا! مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس مال و متاع نہ ہو تو آپؐ نے فرمایا نہیں! میر ی امت کا مفلس وہ ہوگا جو روز قیامت اپنی نمازوں، روزوں اور زکاتوں کے ساتھ آئے گا مگر کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر بہتان بازی کی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا او رکسی پر دست درازی کی ہوگی۔ چنانچہ اس کی سب نیکیوں کو مستحقین پر تقسیم کردیا جائے گا او را س کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی پھر مستحقین کے گناہوں کو اس کے ذمے ڈال کر اس کو واصل جہنم کردیا جائے گا۔‘‘ (مسلم)
حضرت محمدﷺ جو احمد ہیں ، ھادی ہیں ساری کائنات کے سفارشی ہیں ان پر کثرت سے درود و سلام پڑھو کیونکہ جس نے ان پر ایک مرتبہ درودو سلام پڑھا اللہ اس پر دس مرتبہ رحمتیں نازل فرماتا ہے۔
للخلق ارسل رحمۃ و رحیماً صلوا علیہ و سلّموا تسلیماً
اے اللہ! مسلمانوں کے قاتلوں اور مجرموں کی گرفت فرما، اے اللہ! ان پر اپنا عذاب اور غضب نازل فرما۔ تو معبود برحق ہے اور تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
اے اللہ! ان کے اتحاد کو منتشر کردے۔ ان کا شیرازہ بکھیر دے اور ان کی قوت و طاقت کو مسلوب کردے۔ اے قوت والے، اے غلبہ و استحکام کے مالک، اے تمام جہانوں کے پروردگار۔
اے اللہ! ہم کو ان (کفار و مشرکین) میں اپنی قوت و قدرت کا مشاہدہ کروا۔اے قوت والے، ان کو لرزا دے ۔
اے بہترین دوست! ان کو جھنجھوڑ دے او ران کو خوب ہلاک و برباد کردے۔ زمیں میں ان کے لیے کوئی رفیق و مددگار نہ بنا۔
اے اللہ! اے تمام جہانوں کے پروردگار! شام میں محصور ہمارے بھائیوں کو ظالم قوم کی قید سے رہائی عطا فرما ۔
اے اللہ! غاصب یہودیوں اور دھوکے باز صہیونیوں کی گرفت فرما۔ اے اللہ ! وہ تجھ سے زیادہ زور آور نہیں ہیں ان کی گرفت کرکے مسجد اقصیٰ کو ان کے ناپاک وجود سے پاک فرما۔اے قوت والے، اے غلبہ و استحکام کے مالک، اے تمام جہانوں کے پروردگار۔
اے اللہ! حرمیں شریفین کے علاقوں پر امن و سکون، آسودگی و خوشحالی، عزت و استحکام کو دوام بخش دے اور اس کے حکمرانوں کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن میں اسلام کی عزت افزائی اور مسلمانوں کی صلاح کا سامان موجود ہو۔
اے اللہ ! ہمارے امام او رولی عہد خادم الحرمین الشریفین کو ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرما جو تجھ کو پسند ہوں او رجن سے تو راضی ہوجائے۔ اے کرم و عظمت والے۔
اے اللہ! مسلمانوں کے تمام ممالک و اوطان میں امن و سکون، آسودگی و خوشحالی اور غلبہ و استحکام کو عام کردے۔
اے اللہ ! ہم پر ابر رحمت برسا، ہم پر ابرِ رحمت برسا، ہم پر ابر ِ رحمت برسا۔
اے اللہ! ہم پر رحمت کی بارش نازل فرما او رہمیں مایوسی سے بچالے۔ اے اللہ !رحمت کی بارش،صرف رحمت کی بارش عطا فرما اور عذاب والی ، گھروں کو گرانے والا اورغرق کرنے والی بارش سے محفوظ و مامون فرما۔
اے اللہ ! ہم تیری مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں ہم تیری مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں لہٰذا تو ہم کو ہماری کرتوتوں کی وجہ سے اپنے فضل و کرم سے محروم نہ فرما۔ اے اللہ ! ہم پر بھی بارش نازل فرما او ران پر بھی جو قحط سالی میں مبتلا ہیں ہمارے لیے اور تمام امت محمدیہ کے لیے کشادگی کی راہیں پیدا فرما۔
اے اللہ ! ہم پر اپنی رحمت و احسان کی برکھا برسا۔ اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے، اے کرم کرنے والوں میں سب سے زیادہ کرم کرنے والے، ہم پر بارش ، رزق، سخاوت و فیاضی اور احسان و امتنان کے دروازے کھول دے۔
اے اللہ ! ہمارے فوت شدگان پر رحم فرما، پریشان حالوں کو عافیت عطا فرما، ہمارے قیدیوں کو آزادی اور ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں ہماری نصرت و اعانت فرما۔ اے تمام جہانوں کے پروردگار۔
اللہ کے بندو!
عظمت و جلالت کے مالک اللہ کو یاد کرو وہ تمہیں یاد کرے گا اس کی نعمتوں پر شکریہ ادا کرو وہ مزید نعمتیں عطا کرےگا اور اللہ کا ذکر ہی بلند و برتر ہے تم جو کچھ کرتے ہو وہ اچھی طرح جانتا ہے۔’’إن اللہ یأمر بالعدل والإحسان و ایتاء ذی القربی وینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی یعظکم لعلّکم تذکرون‘‘ (النحل:90)
’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور عزیز اوقارب کو دینے کا حکم دیتا ہے اور فحش باتوں ، بُری عادتوں اور سرکشی سے منع فرماتا ہے وہ تم کو نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت و تذکیر کے طالب بن جاؤ‘‘
نوٹ:
لائیو خطبہ سننے کے لیے یہاں کلک کریں