• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمانوں کو درپیش مسائل کاحل

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
دنیابھر میں مسلمان اس وقت جن حالات سے دوچار ہیں اس سے ہرشخص ہے۔ خون مسلم اس قدر ارزاں بن گیاہے کہ لگتاہے مسلمانوں کے خون کی اتنی بھی قدر نہیں رہی جتنی ایک گلاس پانی کی یااس سے بھی کمتر کسی شئے کی ہوتی ہے۔کوئی دن نہیں جاتاجس دن یہ خبرپڑھنے کونہیں ملتی ہو کہ عراق میں دھماکے میں اتنے مسلمان مارے گئے۔پاکستان میں فلاں دھماکے میں اتنے شہید ہوئے۔ افغانستان میں لڑائی میں اتنے لوگ مارے گئے ۔ترکی فوجیوں پر باغیوں نے حملہ کرکے اتنے لوگوں کو ہلاک کردیا۔ لیبیامیں باغیوں اورقذافی کی فوج کے درمیان جنگ میں اتنے افراد ہلاک ہوئے۔ہندوستان میں فسادات میں اتنے لوگ مارے گئے۔

یہ ذلت اورنکبت کیوں ہے؟ہرطرف خون مسلم کی اس درجہ ارزانی کی وجہ کیاہے؟ہم کیوں اتنے پست ہمت ،لاچار اوربے بس ہوگئے ہیں کہ ہمارے سامنے اپنے مرتے رہتے ہیں اورہم کچھ نہیں کرسکتے ۔نہ اجتماعی طورپر اورنہ انفرادی طورپر۔کیوں ہم پر بے حسی چھاگئی ہے؟کیوں ہمارے معاملات ایسے لوگوں کے سپرد ہیں جونااہل ہیں ،نکمے ہیں اور صرف ذاتی مفادات کی ہوس میں جل رہے ہیں۔

اس کی دو وجہیں ہیں!ایک دینی اورایک دنیاوی

دینی وجہ تویہ ہے کہ

مسلمانوں کا من حیث الکل یااجتماعی طورپر یااکثریتی طورپر خداکے احکامات سے غافل ہوجانا۔خدائی احکامات کو پس پشت ڈال دینا۔ امربالمعروف اورنہی عن المنکر جس کی احادیث میں شدید تاکید آئی ہے اورجس کے چھوڑنے پر آنحضرت صلی اللہ نے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی ہے۔ قوم مسلم سے بالکلیہ ختم ہوجانا۔

مشہور حدیث ہے کہ اگرکہیں کوئی برائی ہورہی ہوتواس کو بزورطاقت ختم کرناچاہئے اگراس کی قوت نہ ہو تو پھر زبانی فرمائش اورفہمائش کرناچاہئے اوراگراس کی بھی قوت نہ ہوتوپھردل سے براسمجھناچاہئے یہ ایمان کا آخری درجہ ہے اوربعض روایات میں ہے کہ اس کے بعد ایمان کاکوئی درجہ نہیں!

ایمان سے بتائیے ہم میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو برائی کو دیکھ کر دل سے کڑھتے ہوں؟۔ رنجیدہ ہوتے ہوں؟۔ اس کی اصلاح کی فکر کرتے ہوں اوراس فکر میں گھلتے اورپگھلتے ہوں۔کیا100میں ایک بھی فرد ہمارے اندر ایساہوتاہے؟
خدا نے مسلمانوں کو داعی بنایاتھا۔ اب چونکہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی ہےاوریہ ذمہ داری مسلمانوں پرعائد کی گئی ہے کہ وہ دنیاوالوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ انہیں اسلام کے بارے میں بتائیں۔ ہم کتنے غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں!انہیں دین کی بنیادی باتوں سے واقف کراتے ہیں۔ لوگ پچاس برس تک ساتھ رہتے ہیں۔ آپس میں اتنے گھل مل جاتے ہیں کہ رشتہ داری گمان ہونے لگتاہے لیکن کبھی پھوٹے منہ اس کی توفیق نہیں ہوتی کہ اس کو اسلام کی اورایمان کی بات بتائیں اوردعوت دیں۔

کچھ لوگ بھلے انفرادی طورپر دعوت وتبلیغ کاکام کررہے ہوں لیکن اجتماعی طورپر ہمارے اندراس کا کوئی شعور نہٰیں ہے ؟ہم سمجھتے ہی نہیں کہ یہ بھی اسلام کا ایک شعبہ ہے اوراس کی عدم تکمیل پر ہم سے اس کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔

ایک صاحب نے ہندوستان میں ہورہے فسادات پر کہاتھاکہ یہ دراصل ہندؤں کااحتجاج ہے کہ ہم نے دعوت نہ دے کر ان کو ابدی جہنم کا مستحق بنادیاوہ زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ تم نے ہماری آخرت خراب کی ہم تمہاری دنیاخراب کردیں۔ اس کو وسیع پیمانے پر دیکھیں تو پوری دنیا میں مسلمانوں کی ذلت وخواری کی وجہ سمجھ میں آجائے گی۔
تبلیغ رسالت پر اللہ کا وعدہ تھاکہ وہ لوگوں کے شراورمکر سے بچائے گا۔ واللہ یعصمک من الناس ۔لیکن چونکہ ہم نے اللہ کے پیغام کو دنیا میں عام کرنا چھوڑدیا تواللہ نے بھی اپنی حفاظت کاوعدہ ختم کردیااوراسی کانتیجہ ہے کہ لوگ مسلمانوں پر ایسے ٹوٹے پڑرہے ہیں جسے ثریدکھانے کیلئے لوگ ٹوٹے پڑتے ہیں۔

پیڑ جب تک ہرابھرارہتاہے اورپھل دار رہتاہے اس کو کاٹانہیں جاتا لیکن جب پیڑسوکھ جاتاہے ،خشک ہوجاتاہے اورکسی کام کانہیں رہتاتووہی شخص جو ان پیڑوں کو جانوروں سے دور رکھتاتھا۔ کوئی درخت کے قریب آئے تواس کی ڈنڈے سے خبرلیتاتھا۔ اس میں پانی دیتاتھا۔ کھاد وغیرہ کا انتظام کرتاتھا۔ اس کو کٹواکر یاتوپلنگ اوربستر بنادیتاہے یاپھرچولہے میں جھونک دیتاہے۔
اس مثال میں ہم اپنے اوپرغورکریں! کیااللہ پاک نے امت محمدیہ کوجوذمہ داریاں سپرد کی تھیں وہ اس کو پوراکررہی ہے ؟یاپھر دنیاوی عیش وعشرت میں پڑ کر اپنے منصب اورفرائض سے غافل ہوگئی ہے ۔ایسی صورت حال میں اگرخدانے ہمیں بے سہاراچھوڑرکھاہے تواس مین حیرت کی بات کیاہے یہ ساری مصیبتیں توہمارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہیں۔ یہ ہمارے اپنے اعمال بد کانتیجہ ہے۔

دلی میں جب محمد شاہ رنگیلاکے زمانے میں جب پورے ملک میں ہرطرف ناؤونوش اوررنگ راج کا دور چل رہاتھا۔ نادر شاہ نے حملہ کیااورکسی بات پر قتل عام کاحکم دے دیاایک شخص نے کسی بزرگ سے کہاکہ دعاکیجئے کہ اس مصیبت سے ہمین نجات ملے توانہوں نے جواب دیا۔

شامت اعمال ماصورت نادرگرفت
یعنی اس کے دفعیہ کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنے اعمال صحیح کرلیں ورنہ دعاؤں سے کچھ نہیں ہونے والاہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امربالمعروف اورنہی عن المنکر چھوڑنے پر اس کی بھی وعید سنائی ہے کہ تمہارے اچھے لوگ دعائیں کریں گے لیکن وہ نہیں سنی جائیں گی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
دنیاوی طورپر مسلمانوں کے ذلت ونکبت کی وجہ بتانے سے پہلے شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ کاایک خط پیش کرتاہوں۔

عالی مرتبت ومکرم عزیز القدر نواب تاج محمد خان بعافیت وآرام اورنگاہ عنایت پرتوجہ رکھنے والے ہوں۔
فقیر ولی اللہ کی جانب سے سلام محبت التزام کے بعد واضح ہوکہ تازہ عنایت نامہ جوجاٹوں کی سرکشی کے تذکرہ پر مشتمل تھا،ملا،حق تعالیٰ کے فضل وکرم سے امید ہے کہ اس سرکش جنگجو کو ذلیل ونامراد فرمائیں گے آپ مطمئن رہیں۔
ان حالات میں نہایت ضروری ہے کہ آں عزیز موسیٰ خاں اورمسلمانوں کی دوسری جماعت کے ساتھ موافقت کریں ۔ہم آہنگ ہوں اورایک دوسرے کے ساتھ دوستی (اوردلوں کی صفائی)کرلیں اوراپنی طاقت کو دشمنان اسلام کے ساتھ مقابلے کیلئے آگے بڑھائیں۔ قوی امید ہے کہ حق تعالیٰ شانہ مسلمانوں کے اتحاد واجتماعیت کی برکت اوران کے استقلال وثابت قدمی کی بدولت نئی کامیابی عطافرمائے گا۔حق تعالیٰ قرآن عظیم میں فماتاہے ان تنصروا اللہ ینصرکم
اس زمانہ میں کافروں کے غالب ہونے اورمسلمانوں کے مغلوب (وبے حیثیتٌ)ہونے کی اس کے علاوہ کوئی اوروجہ نہیں ہے کہ مسلمان ذاتی اغراض وخواہشات کو بیچ میں لے آتے ہیں اورغیرمسلموں کو اپنے معاملات میں دخیل(ومشیر)بنالیتے ہیں اوریہ لوگ کسی حال میں غیرمسلموں کے غلبہ واثرات کوختم کرنانہیں چاہتے۔
دوراندیشی اورصبراچھی بات ہے مگر اس حد تک نہیں کہ غیرمسلم مسلمانوں کے علاقوں پر غالب آجائیں اورہرروز ایک نئےشہر(علاقہ)پراپناتسلط جمالیں یہ وقت(اس قدر)تحمل اوردوراندیشی کانہیں ہے۔ یہ وقت اللہ پربھروسہ کرنے اورحالات سے مقابلہ کیلئے تیار ہوجانےکا اوراپنے حسب حیثیت مقابلہ کی صلاحیت پیداکرنے کاہے اوراسلامی غیرت کو جوش میں لانے کا۔اگرایساکریں توامید ہے کہ فتح ونصرت کی ہوائیں چلنے لگیں گی۔
ناچیز یہ جانتا(اورسمجھتاہے)کہ جاٹوں سے لڑائی طلسم کی طرح ہے کہ شروع شروع میں خطرناک اورڈرانے والی معلوم ہوتی ہے جب جب حق تعالیٰ شانہ کی قدرت پر اعتماد اوراس کی جانب توجہ ہوتی ہے توظاہرہوتاہے کہ بے حقیقت جالے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتھا۔ امید ہے کہ اپنے حالات اورحالات کے مقابلہ کیلئے جوکچھ میسر ہو اس کی اطلاع دیتے ہیں تاکہ اس سلسلہ روابط سے آپ کی حفاظت اورمنجانب اللہ مدد کی دعابھی ہوتی رہے۔
ترجمہ:مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی۔ماخوذ،سہ ماہی احوال وآثار کاندھلہ،رجب شعبان رمضان،1416)

پہلے ملون پیراگراف کی کچھ تشریح میں کردوں

خدانے حکم دیاتھاکہ کافروں سے دوستی نہ رکھی جائے ۔حسن اخلاق اورحسن سلوک کی بات دوسری ہے لیکن ولاء اوردوستی جس کو کہتے ہیں وہ نہیں ہوناچاہئے۔ لیکن آج ہم اس سے کتنے دور ہیں۔ کفر سے بغض اورنفرت جس کی اسلام میں شدید اہمیت ہے اس کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ بعض جدید تعلیم کے ڈسے لوگ اس کو انسانیت اوراخلاق کے منافی سمجھتے ہیں ۔حالانکہ یہ ان کی لاعلمی اورجہالت کاکرشمہ ہواکرتی ہے

یہ چیز اس وقت اوربھی خطرناک بن جاتی ہے جب مسلمان قوم اجتماعی طورپر یعنی ملکی حیثیت سے کسی دوسرے کافر ملک کے دست نگر اورمحتاج بن جاتے ہیں۔اوراس کو اپناآقا اورسرپرست مان لیتے ہیں اوریہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہماری ترقی اسی میں ہے کہ ہم ا ن سے چمٹے رہیں،وابستہ رہیں ۔ اگران کی نظرکرم ہم سے ہٹ گئی توہم تباہ ہوجائیں گے۔

اس میں کسی ملک کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ کچھ ملکوں نے امریکہ کو اپناقبلہ وکعبہ بنارکھاہے۔کچھ ملکوں نے روس کو اپناملجاوماوی اورسرپرست بنارکھاہے اورکچھ نے ابھرتے ہوئے چین سے لولگارکھی ہے۔
اسلام اس کا مخالف نہیں ہے کہ دوسرے ملکوں سے دوستی اورخوشگوار تعلقات رکھے جائیں بلکہ وہ تواس کا حامی ہے اوراس کیلئے کتب فقہ میں ایک پوراباب کتاب السیر کاکہتاہے جس کا تعلق ہی جہاد،صلح،سفارت دوسرے ممالک سے تعلقات کے تعلق سے ہے۔

اسلام جس چیز کا مخالف ہے وہ یہ کہ اپنے کو بالکلیہ طورپر کسی کے سپردکردیاجائے۔ اپنے معاملات میں اس کو حد درجہ دخیل بنالیاجائے۔ اس سے تعلقات برابرکی سطح پر نہ ہو بلکہ محکوم اورپست سطح پر ہو۔

اس کی وجہ عقلی طورپر یہ ہے کہ اس دنیا مین کسی کا عروج کسی کا زوال بنتاہے۔ کسی کا زوال کسی کیلئے عروج کی خوشیاں لاتاہے۔جب تک ایک طاقت زوال سے ہمکنار نہیں ہوتی دوسری طاقت کوعروج نہیں ملتا۔ مسلمانوں کا عروج روم وفارس کیلئے زوال لے کر آیا۔مغربی قوموں کا عروج مسلمانوں کے زوال کی وجہ بنا۔پوری دنیا کو جنگ میں دھکیل کر اورکمزور کرکے روس اورامریکہ سپرپاور بنے۔ دونوں ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی فراق میں لگے رہے۔ امریکہ کو موقع ہاتھ لگااس نے روس کے امپائر کو زوال سے ہمکنار کردیا اورپوری دنیا کا سپرپاور بن بیٹھا۔ اب امریکہ کی کمزوری چین کیلئے ابھرنے کا موقع فراہم کررہی ہے۔
ہرشخص کو اپناذاتی مفاد اورہرقوم کو اپناقومی مفاد مرغوب اورمحبوب ہوتاہے۔ وہ اس کو کسی پڑوسی شخص اورملک کی محبت میں ترک نہیں کرسکتے اوراگرکچھ کرتے ہیں تواس کے پیچھے مفاد کی شیرینی لگی ہوتی ہے۔بسااوقات ایک شخص تو دوسرے شخص کیلئے ایثار کرسکتاہے لیکن آج تک اس کی کوئی مثال نہیں کہ ایک ملک نے دوسرے ملک کی محبت میں کوئی ذاتی مفاد ترک کیاہو یااپنے کسی قومی مفاد کو ٹھیس پہنچائی ہو۔اگراس کی کوئی مثال ملتی بھی ہے کہ کسی ملک نے دوسرے ملک کیلئے اپنے مفادات کو ترک کیاتوصرف اسی صورت میں کو اس سے زیادہ بڑے مفادات اس کے پیش نظر تھے۔

جوملک امریکہ پر منحصر ہیں ان کے بارے میں امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ ان کے تسلط اوراقتدار سے آزاد ہوجائیں کیونکہ پھرامریکہ کی چودہراہٹ کیسے قائم رہ سکے گی۔ جوروس کے خیمہ میں ہیں ان کے بارے میں روس نہیں چاہے گاکہ وہ اس کے خیمہ سے نکل کر اپناالگ خیمہ بنائیں۔ جوچین سے لولگائے ہوئے ہیں چینی کبھی نہیں چاہیں گے کہ وہ خودکفیل ہوکر اپنی الگ دنیابسائیں۔
اس لئے امریکہ ،روس چین اوردوسرے طاقت ورممالک بڑے بڑے خوش نمابیان دیں گے جس میں دوستی اورخلوص کے بڑے دعوے کئے جائیں گے لیکن اصل میں یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ وہ ان کے تسلط سے آزاد ہوجائیں۔
لیکن افسوس اتنے سامنے کی بات لوگوں کو نہیں سوجھتی اور انہی سے وہ ترقی کی امید لگائے بیٹھے ہیں جو ان کی جڑیں کاٹنے کی فکر کررہے ہیں
میرکیاسادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوالیتے ہیں۔
 
Top