دنیابھر میں مسلمان اس وقت جن حالات سے دوچار ہیں اس سے ہرشخص ہے۔ خون مسلم اس قدر ارزاں بن گیاہے کہ لگتاہے مسلمانوں کے خون کی اتنی بھی قدر نہیں رہی جتنی ایک گلاس پانی کی یااس سے بھی کمتر کسی شئے کی ہوتی ہے۔کوئی دن نہیں جاتاجس دن یہ خبرپڑھنے کونہیں ملتی ہو کہ عراق میں دھماکے میں اتنے مسلمان مارے گئے۔پاکستان میں فلاں دھماکے میں اتنے شہید ہوئے۔ افغانستان میں لڑائی میں اتنے لوگ مارے گئے ۔ترکی فوجیوں پر باغیوں نے حملہ کرکے اتنے لوگوں کو ہلاک کردیا۔ لیبیامیں باغیوں اورقذافی کی فوج کے درمیان جنگ میں اتنے افراد ہلاک ہوئے۔ہندوستان میں فسادات میں اتنے لوگ مارے گئے۔
یہ ذلت اورنکبت کیوں ہے؟ہرطرف خون مسلم کی اس درجہ ارزانی کی وجہ کیاہے؟ہم کیوں اتنے پست ہمت ،لاچار اوربے بس ہوگئے ہیں کہ ہمارے سامنے اپنے مرتے رہتے ہیں اورہم کچھ نہیں کرسکتے ۔نہ اجتماعی طورپر اورنہ انفرادی طورپر۔کیوں ہم پر بے حسی چھاگئی ہے؟کیوں ہمارے معاملات ایسے لوگوں کے سپرد ہیں جونااہل ہیں ،نکمے ہیں اور صرف ذاتی مفادات کی ہوس میں جل رہے ہیں۔
اس کی دو وجہیں ہیں!ایک دینی اورایک دنیاوی
دینی وجہ تویہ ہے کہ
مسلمانوں کا من حیث الکل یااجتماعی طورپر یااکثریتی طورپر خداکے احکامات سے غافل ہوجانا۔خدائی احکامات کو پس پشت ڈال دینا۔ امربالمعروف اورنہی عن المنکر جس کی احادیث میں شدید تاکید آئی ہے اورجس کے چھوڑنے پر آنحضرت صلی اللہ نے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی ہے۔ قوم مسلم سے بالکلیہ ختم ہوجانا۔
کچھ لوگ بھلے انفرادی طورپر دعوت وتبلیغ کاکام کررہے ہوں لیکن اجتماعی طورپر ہمارے اندراس کا کوئی شعور نہٰیں ہے ؟ہم سمجھتے ہی نہیں کہ یہ بھی اسلام کا ایک شعبہ ہے اوراس کی عدم تکمیل پر ہم سے اس کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔
دلی میں جب محمد شاہ رنگیلاکے زمانے میں جب پورے ملک میں ہرطرف ناؤونوش اوررنگ راج کا دور چل رہاتھا۔ نادر شاہ نے حملہ کیااورکسی بات پر قتل عام کاحکم دے دیاایک شخص نے کسی بزرگ سے کہاکہ دعاکیجئے کہ اس مصیبت سے ہمین نجات ملے توانہوں نے جواب دیا۔
یہ ذلت اورنکبت کیوں ہے؟ہرطرف خون مسلم کی اس درجہ ارزانی کی وجہ کیاہے؟ہم کیوں اتنے پست ہمت ،لاچار اوربے بس ہوگئے ہیں کہ ہمارے سامنے اپنے مرتے رہتے ہیں اورہم کچھ نہیں کرسکتے ۔نہ اجتماعی طورپر اورنہ انفرادی طورپر۔کیوں ہم پر بے حسی چھاگئی ہے؟کیوں ہمارے معاملات ایسے لوگوں کے سپرد ہیں جونااہل ہیں ،نکمے ہیں اور صرف ذاتی مفادات کی ہوس میں جل رہے ہیں۔
اس کی دو وجہیں ہیں!ایک دینی اورایک دنیاوی
دینی وجہ تویہ ہے کہ
مسلمانوں کا من حیث الکل یااجتماعی طورپر یااکثریتی طورپر خداکے احکامات سے غافل ہوجانا۔خدائی احکامات کو پس پشت ڈال دینا۔ امربالمعروف اورنہی عن المنکر جس کی احادیث میں شدید تاکید آئی ہے اورجس کے چھوڑنے پر آنحضرت صلی اللہ نے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی ہے۔ قوم مسلم سے بالکلیہ ختم ہوجانا۔
خدا نے مسلمانوں کو داعی بنایاتھا۔ اب چونکہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی ہےاوریہ ذمہ داری مسلمانوں پرعائد کی گئی ہے کہ وہ دنیاوالوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ انہیں اسلام کے بارے میں بتائیں۔ ہم کتنے غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں!انہیں دین کی بنیادی باتوں سے واقف کراتے ہیں۔ لوگ پچاس برس تک ساتھ رہتے ہیں۔ آپس میں اتنے گھل مل جاتے ہیں کہ رشتہ داری گمان ہونے لگتاہے لیکن کبھی پھوٹے منہ اس کی توفیق نہیں ہوتی کہ اس کو اسلام کی اورایمان کی بات بتائیں اوردعوت دیں۔مشہور حدیث ہے کہ اگرکہیں کوئی برائی ہورہی ہوتواس کو بزورطاقت ختم کرناچاہئے اگراس کی قوت نہ ہو تو پھر زبانی فرمائش اورفہمائش کرناچاہئے اوراگراس کی بھی قوت نہ ہوتوپھردل سے براسمجھناچاہئے یہ ایمان کا آخری درجہ ہے اوربعض روایات میں ہے کہ اس کے بعد ایمان کاکوئی درجہ نہیں!
ایمان سے بتائیے ہم میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو برائی کو دیکھ کر دل سے کڑھتے ہوں؟۔ رنجیدہ ہوتے ہوں؟۔ اس کی اصلاح کی فکر کرتے ہوں اوراس فکر میں گھلتے اورپگھلتے ہوں۔کیا100میں ایک بھی فرد ہمارے اندر ایساہوتاہے؟
کچھ لوگ بھلے انفرادی طورپر دعوت وتبلیغ کاکام کررہے ہوں لیکن اجتماعی طورپر ہمارے اندراس کا کوئی شعور نہٰیں ہے ؟ہم سمجھتے ہی نہیں کہ یہ بھی اسلام کا ایک شعبہ ہے اوراس کی عدم تکمیل پر ہم سے اس کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔
تبلیغ رسالت پر اللہ کا وعدہ تھاکہ وہ لوگوں کے شراورمکر سے بچائے گا۔ واللہ یعصمک من الناس ۔لیکن چونکہ ہم نے اللہ کے پیغام کو دنیا میں عام کرنا چھوڑدیا تواللہ نے بھی اپنی حفاظت کاوعدہ ختم کردیااوراسی کانتیجہ ہے کہ لوگ مسلمانوں پر ایسے ٹوٹے پڑرہے ہیں جسے ثریدکھانے کیلئے لوگ ٹوٹے پڑتے ہیں۔ایک صاحب نے ہندوستان میں ہورہے فسادات پر کہاتھاکہ یہ دراصل ہندؤں کااحتجاج ہے کہ ہم نے دعوت نہ دے کر ان کو ابدی جہنم کا مستحق بنادیاوہ زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ تم نے ہماری آخرت خراب کی ہم تمہاری دنیاخراب کردیں۔ اس کو وسیع پیمانے پر دیکھیں تو پوری دنیا میں مسلمانوں کی ذلت وخواری کی وجہ سمجھ میں آجائے گی۔
اس مثال میں ہم اپنے اوپرغورکریں! کیااللہ پاک نے امت محمدیہ کوجوذمہ داریاں سپرد کی تھیں وہ اس کو پوراکررہی ہے ؟یاپھر دنیاوی عیش وعشرت میں پڑ کر اپنے منصب اورفرائض سے غافل ہوگئی ہے ۔ایسی صورت حال میں اگرخدانے ہمیں بے سہاراچھوڑرکھاہے تواس مین حیرت کی بات کیاہے یہ ساری مصیبتیں توہمارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہیں۔ یہ ہمارے اپنے اعمال بد کانتیجہ ہے۔پیڑ جب تک ہرابھرارہتاہے اورپھل دار رہتاہے اس کو کاٹانہیں جاتا لیکن جب پیڑسوکھ جاتاہے ،خشک ہوجاتاہے اورکسی کام کانہیں رہتاتووہی شخص جو ان پیڑوں کو جانوروں سے دور رکھتاتھا۔ کوئی درخت کے قریب آئے تواس کی ڈنڈے سے خبرلیتاتھا۔ اس میں پانی دیتاتھا۔ کھاد وغیرہ کا انتظام کرتاتھا۔ اس کو کٹواکر یاتوپلنگ اوربستر بنادیتاہے یاپھرچولہے میں جھونک دیتاہے۔
دلی میں جب محمد شاہ رنگیلاکے زمانے میں جب پورے ملک میں ہرطرف ناؤونوش اوررنگ راج کا دور چل رہاتھا۔ نادر شاہ نے حملہ کیااورکسی بات پر قتل عام کاحکم دے دیاایک شخص نے کسی بزرگ سے کہاکہ دعاکیجئے کہ اس مصیبت سے ہمین نجات ملے توانہوں نے جواب دیا۔
یعنی اس کے دفعیہ کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنے اعمال صحیح کرلیں ورنہ دعاؤں سے کچھ نہیں ہونے والاہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امربالمعروف اورنہی عن المنکر چھوڑنے پر اس کی بھی وعید سنائی ہے کہ تمہارے اچھے لوگ دعائیں کریں گے لیکن وہ نہیں سنی جائیں گی۔شامت اعمال ماصورت نادرگرفت