• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمانوں کے ساتھ قتال یا جبری شریعت کا نفاذ

ارشد حسین

مبتدی
شمولیت
جولائی 26، 2014
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
17
السلام علیکم

یہ سوال مجھ سے ایک تحریک طالبان پاکستان کے ہمدرد نے پوچھا ہے .
اس سلسلے میں اگر آپ کچھ معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں تو نوازش ہوگی
اگر ان مسلمانوں کے خلاف قتال کرنا غلط ہے جو شرعی طور پر غلط ہوں تو پھر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مانعین زکوۃ کے ساتھ قتال بھی غلط ہوگا کیا ؟
شرعی جواب کا انتظار رہے گا۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
وعلیکم السلام
@ارشد حسین صاحب محدث فورم پر خوش آمدید
مہربانی فرما کر اس لنک پر جا کر اپنا تعارف پیش کردیں، باقی آپ کے سوال کے حوالے سے میں فورم پر موجود کچھ اہل علم کو ٹیگ کر دیتا ہوں امید ہے وہ فرصت ملتے ہی اس کا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ جزاک اللہ خیرا

@ابوالحسن علوی بھائی
@انس بھائی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم

یہ سوال مجھ سے ایک تحریک طالبان پاکستان کے ہمدرد نے پوچھا ہے .
اس سلسلے میں اگر آپ کچھ معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں تو نوازش ہوگی
اگر ان مسلمانوں کے خلاف قتال کرنا غلط ہے جو شرعی طور پر غلط ہوں تو پھر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مانعین زکوۃ کے ساتھ قتال بھی غلط ہوگا کیا ؟
شرعی جواب کا انتظار رہے گا۔
محترم بھائی آپ کے سوال کا ایک تو الزامی جواب ہے کہ
قاتلین عثمان کے بارے ہم سب متفق ہیں کہ وہ شرعی طور پر غلط تھے تو الزامی سوال یہ ہے کہ
اگر ان لوگوں کے خلاف قتال کرنا شرعی طور پر درست ہے جو شرعی طور پر غلط ہوں تو کیا علی رضی اللہ عنہ نے قاتلین عثمان کے ساتھ قتال نہ کر کے غلطی کی تھی

دوسرا جواب میں اس فورم پر کئی جگہ دیا ہوا ہے کہ آج ہم سے سب سے بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ ہم قتال کے اصولوں کو بمعہ مصلحت و مفسدہ کے نہیں دیکھتے بلکہ قتال کو یا تکفیر سے جوڑ دیتے ہیں یا کبھی اس سے بھی بڑھ مطلقا شرعی غلطی سے جوڑ دیتے ہیں
پس میں نے یہ جگہ جگہ ثابت کیا ہوا ہے کہ کسی کا شرعی طور پر غلط ثابت ہو جانا یا کافر ثابت ہو جانا یا حتی کہ محارب کافر بھی ثابت ہو جانا اس بات کو لازم نہیں کرتا کہ اس سے قتال بھی لازم ہو گیا ہے اور اسکے لئے سیرت سے دلیل بھی دی ہوئی ہے واللہ اعلم
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم بھائی آپ کے سوال کا ایک تو الزامی جواب ہے کہ
قاتلین عثمان کے بارے ہم سب متفق ہیں کہ وہ شرعی طور پر غلط تھے تو الزامی سوال یہ ہے کہ
اگر ان لوگوں کے خلاف قتال کرنا شرعی طور پر درست ہے جو شرعی طور پر غلط ہوں تو کیا علی رضی اللہ عنہ نے قاتلین عثمان کے ساتھ قتال نہ کر کے غلطی کی تھی


دوسرا جواب میں اس فورم پر کئی جگہ دیا ہوا ہے کہ آج ہم سے سب سے بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ ہم قتال کے اصولوں کو بمعہ مصلحت و مفسدہ کے نہیں دیکھتے بلکہ قتال کو یا تکفیر سے جوڑ دیتے ہیں یا کبھی اس سے بھی بڑھ مطلقا شرعی غلطی سے جوڑ دیتے ہیں
پس میں نے یہ جگہ جگہ ثابت کیا ہوا ہے کہ کسی کا شرعی طور پر غلط ثابت ہو جانا یا کافر ثابت ہو جانا یا حتی کہ محارب کافر بھی ثابت ہو جانا اس بات کو لازم نہیں کرتا کہ اس سے قتال بھی لازم ہو گیا ہے اور اسکے لئے سیرت سے دلیل بھی دی ہوئی ہے واللہ اعلم
السلام علیکم و رحمت الله -

تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ بھی قاتلین عثمان رضی الله عنہ سے بدلہ لینے کے لئے راضی تھے - لیکن وہ فوری طور پر اس پر عمل درآمد کے لئے راضی نہیں تھے (اس وقت کی کچھ مصلحتوں کی بنیاد پر) - جس کی وجہ سے باقی اصحاب رسول سے ان کا اجتہادی اختلاف پیدا ہو گیا جو بعد میں امّت میں انتشار کا باعث بنا -(واللہ اعلم)-
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم و رحمت الله -

تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ بھی قاتلین عثمان رضی الله عنہ سے بدلہ لینے کے لئے راضی تھے - لیکن وہ فوری طور پر اس پر عمل درآمد کے لئے راضی نہیں تھے (اس وقت کی کچھ مصلحتوں کی بنیاد پر) - جس کی وجہ سے باقی اصحاب رسول سے ان کا اجتہادی اختلاف پیدا ہو گیا جو بعد میں امّت میں انتشار کا باعث بنا -(واللہ اعلم)-
جی محترم بھائی اسی وجہ سے میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے پاس طاقت یا حالات موافق ہوں بھی تو قتال غلط ہے بلکہ یہ کہتا ہوں کہ مصلحت اور مفسدہ کو دیکھو جیسے علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا
باقی جو لوگ حکمرانوں کو خلیفۃ المسلمین بنا رہے ہیں میرا ان سے بھی کوئی تعلق نہیں
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جی محترم بھائی اسی وجہ سے میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے پاس طاقت یا حالات موافق ہوں بھی تو قتال غلط ہے بلکہ یہ کہتا ہوں کہ مصلحت اور مفسدہ کو دیکھو جیسے علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا
باقی جو لوگ حکمرانوں کو خلیفۃ المسلمین بنا رہے ہیں میرا ان سے بھی کوئی تعلق نہیں

جو حکمران شریعت کے واضح احکامات کو ملک میں نافذ نہیں کرتے یا شرعی طور پر اسلام کے شعائر کا مذاق بناتے ہیں (جیسا ہماری پارلیمنٹ میں ہوتا ہے) وہ کافرہیں- اور ان سے قتال مسلمانوں کے لئے واجب ہے- البتہ حکمت عملی کے طور پر یا تھوڑی مہلت دیے جانے کے طور پر اس میں کچھ تاخیر کی جا سکتی ہے -(واللہ اعلم)-

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ سوره المائدہ ٤٤
جو کوئی اس چیز کے موافق فیصلہ نہ کرے جو الله نے اتارا تو وہی لوگ کافر ہیں

یعنی ان طاغوتی حکمرانوں کو کم سے کم کافر اور واجب القتل سمجھنا ہمارے لئے ضروری ہے- باقی اس پر عمل درآمد حکمت عملی کے تحت ہو تو بہتر ہے -
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
السلام علیکم ! محترم بھائی یہ میرا ایک پرانا مراسلہ ملاحظہ فرما لیں ، کسی دور میں ایک مدخلی کے ساتھ گفتگو میں لکھا گیا تھا::

طاہر ! میرے بھائی

جو وجوہات آپ نے بیان کی ہیں ان میں کچھ تو کفر اکبر ہیں کہ جن کو نواقض الاسلام میں شمار کیا جاتا ہے، اور کچھ دوسری اقسام ایسی ہیں جو فسق و فجور میں اتی ہیں، مثلا جیسا کہ آپ نے لھو و لعب وغیرہ کی طرف اشارہ کیا.

میرے بھائی ! مسئلہ صرف زرد آری یا کیانی رغیہ کا نہیں ہے، اور مسئلہ صرف ایک یا دو سورتوں کے ارتکاب کا بھی نہیں ہے، سادہ سا معاملہ یہ ہے کہ اس نظام نے رب العالمین کی شریعت کا اس زمین پر نافذ نہیں کیا ہوا ہے، اسلام کا نظام سیاست، نظام عدل، نظام معیشت و معاشرت، اجتماعی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اللہ کا قانون چلایا جاتا ہو.

اور یہ ایسے حقائق ہیں کہ عقل کا کوئی اندھا ہی ان کا انکار کر سکتا ہے.

ان حالات میں بات صرف زردآری ا کسی ایک دو کی نہیں رہ جاتی بات اس سارے نظام کی آجاتی ہے، جس میں اج یہ ہیں تو کل کوئی اور ہو گا... لیکن روش یہی رہے گی،،،،،، جہاں تک اصولی طور پر خروج کا معاملہ ہے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کا منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد صرف اس بنا پر تھا کہ انہوں ننے شریعت اسلامی کے ایک رکن کے نفاذ کا انکار کیا تھا، تو یہاں تو ایک رکن بھی نافذ نہیں ہے.....

ہمارے ہاں جو فنامنا پایا جاتا ہے وہ ایک ایس صورتحال پر مشتمل ہے جس نے لوگوں کی آنکھوں میں ایک طویل عرصہ سے دھول جھونکی ہوئی ہے، لیکن قرآن و سنت اور منہج سلف اس بارے میں جو راہنمائی دیتے ہیں اس سے بات بالکل نکھر کر سامنے اجاتی ہےاس کی ایک سے زیادہ جہات( dimensions(ہیں. چند ایک کی طرف اختصار کے ساتھ اشارہ کرتا ہوں::

1::حکمران نام کے مسلمان ہیں اور شریعت کے ساتھ سلوک کفار سے بھی بدتر کر رہے ہیں، کچھ اپنے کے آئینوں پر قران و سنت کا لیبل لگا کر ، اور کہیں پر اتنی بھی زحمت گوارا نہ کرتے ہوئے، کفار سے بدتر اس لیے کہ وہ تو اسلام کے نام لیوا ہی نہیں ہیں.
((شریعت::LAW((

2:: مملکتیں اسلامی ناموں سے موسوم ہیں ، حکمرانوں کی طرح لیکن مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کردار کفار سے بھی بڑھ چرھ کر برا کر ادا کر رہی ہیں،ان کی ہر طرح مدد کر رہی ہیں، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں.

3:: عدالتی سسٹم اس دوغلے پن سے فی الحال تک پاک ہے، کہ بتایا بھی یہی جاتا ہے کہ فیصلہ اللہ کے قانون سے نہیں ہو گا، اور کیا بھی ایمانداری سے یہی جاتا ہے !!!

4:: اللہ کے حلال(WHAT YOU CAN DO ( کو حرام(WHAT YOU CAN NOT DO( کر دیا گیا ہے او حرام کو حلال کر دیا گیا ہے. ہمارے ہاں تو شاید کوئی تاویل کر لی جائے لیکن عرب ممالک میں جہاد کو یکسر حرام قرار دے کر اس کے نام لیواؤں کو لامحدود مدت کے لیے جیلوں میں ٹھونس دیا جانا روٹین ورک ہے، سود ہمارے ہاں حلال ہے، ملکی اور صوبائی سطح پر، اسی طرح مرد و خاتوں کا باہمی رضامندی کے ساتھ بلا نکاح میل جول کی اخری حدوں تک جانا بھی حلال ٹھہرا دیا گیا ہے جو کہ اللہ کی شریعت میں حرام ہے.


اب تھوڑا سا تاریخ میں جھانکتے ہیں:: واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اسلام میں یہ فنامنا جس کا اوپر ذکر اور نشانیاں بیان کی گئی ہیں، پہلی دفعہ تب معرض ظہور میں ایا ، جب چھٹی صدی ہجری میں تاتاریوں نے اسلام قبول کر لیا اور اس کے بعد ان میں سے ایسے گروہ نکلے جنہوں نے بعینہ وہی کام کیے جو اوپر کے چار نکات میں بیان کیے گئے ہیں.((ان میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے ،لیکن یہاں مقصود صرف سمجھانا ہے((

ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس وقت علمائے امت نے قرآن و سنت کی روشنی میں ان نام کے مسلمانوں لیکن عمل کے کفار کے ساتھ کیا رویہ روا رکھا تھا.

امام ابن کثیر رحمہ اللہ جو تفسیر قرآن میں سب سے معتبر مانے جاتے ہیں، اسی دور میں موجود تھے، اپنی شہرہ آفاق تفسیر "تفسیر القرآن العظیم" میں درج ذیل آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

أَفَحُکْمُ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُوقِنُونَ
(اگر یہ اللہ کے نازل کردہ قانون سے منہ موڑتے ہیں تو ) کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ،اور یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے۔‘‘
(المائدۃ:۵۰(
یہاں اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر گرفت فرمائی ہے جو دین کے محکم احکام (جو سراپا خیر اور شر کی قلعی کھولنے والے ہیں)سے رو گردانی اختیار کرنے والا ہے۔ جو احکام الٰہیہ کو چھوڑ کر انسانوں کی وضع کردہ ان آراء و خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے جن کی شریعت مطہرہ میں کوئی دلیل نہیں۔

یہ شخص بالکل دورِجاہلیّت کے ان لوگوں کی مانند ہے جو اپنی آراء و خواہشات پر مبنی گمراہیوں اور جہالتوں کی روشنی میں فیصلے کرتے تھے،یا ان تاتاریوں کی مثل ہے جو اپنے فرمانروا چنگیز خان کی وضع کردہ کتاب ’یاسق‘ کو فیصل کن مانتے ہیں۔’یاسق‘ مختلف شریعتوں مثلًا یہودیت ،عیسائیت ،اسلام اور خود اس کے ذاتی نظریات و خواہشات سے اخذ کردہ احکامات کا مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ اس کی اولاد کے نزدیک ایک ایسی لائق تقلید شریعت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جسے یہ کتابُ اللہ اور سنت رسول اللہﷺ پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔پس ان میں سے جو شخص بھی ایسا کرے وہ کافر ہے اور اس سے اس وقت تک قتال کرنا واجب ہے کہ جب تک وہ اپنے ہر چھوٹے بڑے فیصلے میں اللہ اور اس کے رسول کو حاکم نہ مان لے۔‘‘


یہی امام ابن کثیر اپنی تاریخ کی کتاب البدایہ والنھایہ میں تاتاریوں کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اجماع بیان فرماتے ہیں::

""جس نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت چھوڑ کر کسی دوسری شریعت سے فیصلے کروانے شروع کر دیےتو اس نے کفر کیا، تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے جو یاسق سے فیسلے کروائے اور انہیں کتاب و سنت پر ترجیح بھی دے؟ جس نے بھی یہ عمل کیا وہ اجماع امت کی رو سے کافر ہو گیا. اللہ فرماتے ہیں کہ:: َافَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ
کیا یہ لوگ (زمانۂ) جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں، اور یقین رکھنے والی قوم کے لئے حکم (دینے) میں اﷲ سے بہتر کون ہو سکتا ہے.
(المائدۃ::50(
فلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا
پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں.
(النساء::65(


(البداية والنهاية) 13/ 119، ضمن أحداث عام 624هـ، عند ترجمته لجنكيز خان.


اسی دور کے مشہور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے بعد ابن قیم، تیرھویں صدی ہجری کے علامہ شوکانی اور دور حاضر میں مفسر شنقیطی، شیخ حمد بن عتیق اور علمائے عرب کی ایک کثیر جماعت ،شیخ احمد شاکر اور حامد الفقی وغیرہم نے ، جنہوں نے احوال المسلمین پر بحث کی ہے، یہی بات زور دے کر بیان کی ہے.

طائفہ ممتنعہ::

ایسے گروہ کو جس نے شریعت کے احکام کو نافذ ہونے سے روک رکھا ہو، طائفہ ممتنعہ کہا جاتا ہے، طائفہ عربی میں گروہ کو کہتے ہیں اور ممتنعہ کا مطلب ہے روکنے والا. نبی صلی اللہ علیہ و سلم کئ وفات کے فورا بعد جن لوگوں سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جنگ فرمائی تھی انہیں مانعین زکوۃ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی زکوۃ دینے سے روکنے والے، ان کے نزدیک زکوۃ صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی تک تھی اور بعد میں یہ کسی اور کو ادا نہیں کی جائیگی، ان کے خلاف اسی بنیاد پر جنگ کی گئی کہ وہ طائفہ ممتنعہ تھے. امام ابن تیمیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر ایک علاقے کے لوگ اجتماعی طور پر آذان یا اقامت ترک کر دیں تو پھر بھی ان سے اس حکم پر واپس آنے تک جنگ کی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ ::
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (انقلابی) جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ (دین دشمنی کا) کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے
(الانفال::39(
جب نظام کچھ اللہ کے لیے ہو اور کچھ غیر اللہ کے لیے تو قتال واجب ہے اس وت تک تک قتال واجب ہے جب تک سارا نظام ہی اللہ کے لیے نہ ہو جائے (مجموع الفتاوى(28/510(


خلاصہ:: موجودہ سسٹم کے خلاف جنگ کا اصولی جواز موجود ہے، کیوں کہ یہ نظام ، نظام کفر ہے، بھلے اس میں کام کرنے والے افراد کوئی بھی کیوں نہ ہوں.(البتہ اس کا معنی یہ بالکل نہیں آتا کہ سسٹم میں شامل ہر ہر فرد کافر ہو، یہ ایک الگ مسئل ہے اور اس میں تفصیل ہے۔

یہ تو ہوا پرنسپل یعنی اصول، اب اس اصول کی ایپلیکیشن کیسے ہو گی ،اس کی کیا شرائط ہیں اور کیا prerequsitesہیں ،یہ ایک الگ موضوع ہے، اس لیے فی الوقت اس ویڈیو پر ہی اکتفا کریں، شیخ حامد کمال الدین حفظہ اللہ::

۔
مکمل بحث دیکھنا چاہیں تو تھریڈ یہ ہے ::
http://forum.mohaddis.com/threads/گمراہ-فرقوں-کا-مختصر-تعارف-خوارج.4654/
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علیکم

یہ سوال مجھ سے ایک تحریک طالبان پاکستان کے ہمدرد نے پوچھا ہے .
اس سلسلے میں اگر آپ کچھ معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں تو نوازش ہوگی
اگر ان مسلمانوں کے خلاف قتال کرنا غلط ہے جو شرعی طور پر غلط ہوں تو پھر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مانعین زکوۃ کے ساتھ قتال بھی غلط ہوگا کیا ؟
شرعی جواب کا انتظار رہے گا۔
یہ قیاس مع الفارق ہے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ المسلمین تھے۔

واللہ اعلم!
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
قرآن وحدیث اورصحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال وافعال سے ظاہری طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کفر ہوگا لیکن قتال نہیں ہوگا ۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار سے جنگ نہ کرنا اور صلح کرنا ۔
، اور کبھی کفر نہیں ہوگا مگرقتال ہوگا ۔ یعنی مسلمانوں کے ساتھ بھی قتال ہوگا ۔
وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما فإن بغت إحداهما على الأخرى فقاتلوا التي تبغي حتى تفيء إلى أمر الله فإن فاءت فأصلحوا بينهما بالعدل وأقسطوا إن الله يحب المقسطين ( حجرات 9
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے قتال کرو ، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع لائے۔ پس جب وہ رجوع لائے تو وہ دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو۔ کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
دوسری مثال جو خودسائل نے بیان کی ۔ جیسا کہ مانعین زکوٰہ سے جہاد ۔

اور کبھی کفارومشرکین ومفافقین ومرتدین سے مطلقاً جہاد ہوگا ۔
حالت اور واقعات کو دیکھ کر مسلمان فیصلہ کریں گے ۔
جہاد کے لیے ایک قوت بھی جمع کرنی ضروری ہے ۔
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۔انفال 60
اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے خوف زدہ کردو ،اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں کو اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے

جہاد کے لیے ایک دارالامن بھی ضروری ہے ۔ کہ مسلمانوں کے لیے وہاں پر رہنے اور علاج معالجہ کی سہولت ہو ۔مثلاً قبائلی علاقے ۔
مزید تفصیل کے لیے شیخ امین اللہ صاحب پشاوری کا پشتو آڈیو بیان سن لے ۔ لنک
 
Top