کرسمس تا دیوالی
’اِشکالات‘ آج ہی کیوں؟
پھیری والے کی آوازیں مسلسل آرہی ہوں۔۔۔ تو ’بوجھنے‘ کی ضرورت نہیں ہوتی کہ گھر میں ایک چیز کی کیوں یکدم مانگ ہوگئی ہے!
عہد نبوت سے چلی آنے والی ہماری ایک ریت ہے، مگر اُس پر نظرثانی کے لیے فرمائشیں مسلسل زور پکڑ رہی ہیں۔ اس کا تعلق علمی دلائل سے کتنا ہے اور زمانے کی اَھواء intellectual whims of your own times سے کتنا، یہ جائزہ لینے کے لیے لمبی چوڑی تحقیقات درکار نہیں؛ ’باہر‘ کا سماں ایک بار دیکھ آئیے، پورا نقشہ سمجھ آجاتا ہے!
شیخ الاسلام کی ’’اقتضاء الصراط المستقیم: مخالفۃ أصحاب الجحیم‘‘ جس کے اقتباسات پر مبنی ایک طویل مضمون پیچھے ہم دے آئے، نیز مذاہب اربعہ کی تقریرات جوکہ پیچھے گزر چکیں۔۔۔ بہت کافی ہیں کہ اِس موضوع پر ہمارا دین کیا کہتا ہے اور زمانۂ نبوت سے ہماری ریت اور روایت کیا چلی آتی ہے؟
اصل مسئلہ اِس وقت وہ ایجنڈا ہے جس کو بے تکلف لوگ ’اسلام کی ری فارمیشن‘کا نام دیتے ہیں جبکہ تکلفات کے عادی طبقے ’ایک نئے اجتہاد کی ضرورت‘ کا۔
یہ ’’نیا اجتہاد‘‘ فی الوقت پراسیس میں ہے ۔ اِس کے ’’مکمل‘‘ ہونے کا انتظار رسدکاروں کے لیے بھی مشکل ہے اور طلب گاروں کے لیے بھی۔ جیسے ہی اِس کے کچھ اجزاء پک کر تیار ہوتے ہیں، استعمال کے لیے پیش ہو جاتے ہیں۔
تاہم یہ دنیا ایسی ہے کہ ایک ہی چیز کو مختلف کوالٹیوں میں مانگتی ہے۔ ’’نئے اجتہاد‘‘ کی زیادہ پیداوار تو یہاں پر مدرسۂ سرسید نے اپنے متنوع دبستانوں سے کر کے دی ہے اور تاحال دے رہا ہے۔ لیکن ظاہر ہے ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اِس کی مصنوعات کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ یہ بدستور یہاں کے سکہ بند علماء کی طرف دیکھتا ہے اور اِنہی کی جاری کردہ اشیاء کو قابل اعتناء جانتا ہے۔ ہماری علمی روایات کا امین یہ طبقہ جس کو دوسرے لوگ ’’روایتی علماء‘‘ کا نام دیتے ہیں، بلاشبہ ایک بڑی خیر کا حامل ہے اور اسلام کا بہت کچھ آج اِسی کے دم سے بچا ہوا ہے ورنہ مدرسۂ سرسید نے تو اب تک امت کا سب کچھ بیچ باٹ لیا ہوتا۔ البتہ لگتا ہے مستشرقین کو اِس طبقہ کی اہمیت کا اصل اندازہ کچھ تاخیر سے ہوا ہے۔ تاہم قیامِ پاکستان سے لے کر، آپ بہت بڑے بڑے نام ’روایتی‘ اہل علم کے بھی دیکھیں گے جنہوں نے ’’نئے اجتہاد‘‘ میں اچھا خاصا حصہ ڈالا۔ ’ڈیموکریسی‘ سے لے کر ’نیشن سٹیٹ‘ اور وقت کے رائج العمل ’دستوری ڈھانچوں‘ کی درآمد تک ہر ’اجتہاد‘ روایتی علماء کی ایک معتدبہٖ تعداد سے شرکت اور حمایت پاتا رہا؛ اور یہ رجحان مسلسل روبہ ترقی ہے۔ یہ ہمارا آخری قلعہ تھا جو اَب پوری طرح حملے کی زد میں ہے؛ ہم اپنے آپ کو شدید فریب میں رکھیں گے اگر یہ سمجھیں کہ دشمن کی یہاں کوئی پیش قدمی نہیں ہو رہی۔
ہاں البتہ یہ مسئلہ اب پہلے سے بہت بڑا ہوگیا ہے۔ ’گلوبلائزیشن‘ ایک بڑے دیوہیکل عمل کا نام ہے؛ اور اس کا کوئی لقمہ چھوٹا نہیں ہوتا۔ اِس کا پیٹ بھرنے کے لیے اب جس ’’اجتہاد‘‘ کی ضرورت ہے اُس کو پورا کرنے سے بڑوں بڑوں کی سانس پھولتی ہے۔ ناواقف طبقہ گو یہی خیال کرتا ہے کہ کسی چھوٹی موٹی تواضع سے اِس کا پیٹ بھرا جائے گا، اور اپنے اُن مدارس اور مساجد میں جہاں صدیوں سے قال اللہ وقال الرسول کے دل پذیر نغمے گونجتے ہیں ’پادریوں اور بشپوں‘ کے اعزاز میں ایک آدھ ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ اسٹیج سجا کر اور چند مسکراہٹوں کا تبادلہ کرکے مسئلہ اختتام کو پہنچے گا۔ مگر واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ایک سیاہ منحوس چیز کی یہ کچھ نہایت معمولی اور ناقابل ذکر شروعات ہیں؛ جس کا.. انجام۔۔۔ خدا جانے! منہ پر آنا تو ناممکن ہے، بس سوچئے اور جھرجھری لیجئے
یہاں سے؛ یہ مسئلہ شدید سنگین بھی ہوگیا ہے، پیچیدہ بھی اور تشویشناک بھی۔ الْقَابِضُ عَلَی دِیْنِہٖ کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ اپنے دین کو نہ چھوڑنا جلتے انگاروں کو ہاتھ میں پکڑ رکھنے کے مترادف! حدیث کی یہ پیشین گوئی کیا آنے والے سالوں کی بابت کوئی خصوصی دلالت رکھتی ہے؟
آنے والے سال یہاں جو چیز لا رہے ہیں (خدا اپنی امان میں رکھے، اللّٰہمَّ عافِنَا فیمن عافیت) اور جس کی شروعات ہو چکی ہیں: وہ اُن کی جانب سے ہمارے دین ہی کے اندر ایک کمال درجے کا تصرف ہے۔ ہمارے دین کی حفاظت خدا نے آپ اپنے ذمے لے رکھی ہے، البتہ ہمارے اپنے بہت سے بند ضرور بہہ جانے والے ہیں۔ اُن کی جانب سے ہماری اساس کو ہاتھ بہرحال ڈال دیا گیا ہے۔
حق یہ ہے کہ ’ڈیموکریسی‘ اور ’دستوریات‘ وغیرہ اِس وقت چھوٹے مسئلے ہوگئے ہیں۔ مغرب کی یہ فرمائشیں ساٹھ ستر سال پرانی ہیں جو اَب جاکر ہمارے کچھ طبقوں کو سمجھ آنے لگی ہیں (جبکہ ایک بڑے طبقے کو اب بھی نہیں!)۔ اِس وقت اُس کی جو ایک بڑی فرمائش ہے وہ ہے ادیان کا فرق ہی ملیامیٹ کرا دینا۔ اُس کا سیکولرزم اور ڈیموکریسی دراصل ایک خاص قسم کے معاشرے کے لیے ہیں؛ ہمارے یہاں وہ اِس سے تخریب کی حد تک ہی کوئی کام لے سکے تو لے سکے؛ اُس کے تعمیراتی عمل کو البتہ کچھ اور قسم کا مواد چاہئے۔ مختصراً: ویسا ہی ایک معاشرہ جو ’ڈیموکریسی‘ کی چھت ڈالنے سے پہلے اُس نے خود اپنے یہاں قائم کیا تھا۔ تو پھر یہاں پر ضروری ہے کہ ’’دین‘‘ کے جوڑ ہی ڈھیلے کرلیے جائیں۔ یہاں؛ ’’دین‘‘ کو ہی پہلے اُس پراسیس سے گزارنا ہوگا جو ’’پیک‘‘ ہونے میں آسکے! درست ہے کہ سیکولرزم دین کو عبادت خانے اور پرسنل لائف میں قید کرتا ہے۔۔۔؛ مگر ’’دین‘‘ بھی تو وہ ہو جو عبادت خانے اور پرسنل لائف میں قید ہونے پر راضی ہو! کسی دیرپا منصوبے میں فوجداری کی گنجائش نہیں ہوتی؛ چیزیں آپ سے آپ ہوں تو ہی ایک ’’سسٹم‘ چلتا ہے! خود اپنے یہاں اُس نے دین کو ’پرسنل لائف‘ کے کھونٹے سے باندھ لیا تو اُس کی اپنی تدبیر سے بڑھ کر اِس میں اصل کردار تو اُس دین کا ہے جس نے بڑے آرام سے اُس کے آگے ’دل رکھ دیا، سر رکھ دیا‘۔ یہ ہے اُس کا اصل تقاضا جو اب وہ ہمارے دین سے کرنے چلا ہے؛ اور یہی حالیہ عشروں کا اصل پراجیکٹ۔ خود اُس کی زبان میں: ’’اسلام کی ری فارمیشن‘‘ جبکہ ہماری قاموس: ’’ایک نئے اجتہاد کی ضرورت‘‘۔ اِس سے بڑھ کر کسی چیز کی مانگ نہیں اور اِس سے بڑھ کر کوئی منصوبہ اُس کے زیرغور نہیں۔ سب منصوبوں کی کامیابی (خصوصاً اُس کے تعمیراتی منصوبوں کا آگے بڑھنا) اِسی ایک منصوبے کے سرے لگنے پر منحصر ہے اور پورا زور آج اِسی پر صرف ہونے لگا ہے۔
اُس کی نظر سے، اِس بازار میں مال کی کمی نہیں، کوالٹی کی کمی ہے۔ مدرسۂ سرسید جتنے بھی بڑے پیمانے پر یہ ضرورت پوری کر رہا ہے اور مزید کر سکتا ہے لیکن عوامی زبان میں آپ اِس کو ’چائنا کا مال‘ کہیے۔ بلکہ یہ تو فیکٹری ہی اُس کی اپنی لگائی ہوئی ہے؛ اُس کو اب ہماری فیکٹری کا مال چاہئے؛ کیونکہ اسلام پر یہی اب تک سند ہے!
چنانچہ ’آرتھوڈکس اسلام‘ ہی کو تبدیلی کے ایک عمل سے گزارنا یہاں کا اصل پراجیکٹ ہے۔ اِسی کے پیچ اور جوڑ ڈھیلے کرنا اصل میدان ہے اور دامے درمے سخنے قدمے اِسی میں سب کو حصہ ڈالنا ہے.. اور جس کو کچھ بھی توفیق نہ ہو اس کو سب سے بڑا حصہ ڈالنا ہے؛ اور جس کا نام ’’خاموشی‘‘ ہے۔ یہ بات ہم طنزاً نہیں کہہ رہے؛ واقعتا منصوبہ یہی ہے: چند سفہاء بولیں گے اور اچھے اچھے علماء خاموش رہیں گے؛ اور ’چیزیں‘ خودبخود آگے بڑھتی چلی جائیں گی۔۔۔ تاآنکہ اگلا گیئر لگانے کی نوبت آئے اور عمل کا وتیرہ mode of action تبدیل کردیا جائے۔
آپ اندازہ نہیں کر سکتے، اِس پہلے مرحلے میں ’’صالحین‘‘ کی خاموشی اُس کے زاویۂ نگاہ سے، کیسی زبردست شےء ہے! یہاں فی الحال جو اُن کی مرضی کی چیز نہ بول سکے اُس کا تو خاموش رہنا ہی ضروری ہے؛ بلکہ اُس کو خاموش کرانے کے لیے کروڑوں ارب ڈالر صرف کرنا پڑیں تو کر دیے جائیں؛ کجا یہ کہ ایسی مہنگی اور نایاب چیز فی الوقت اُس کو رضاکارانہ بنیادوں پر دستیاب ہو!
ہاں کچھ دیر بعد __ خدانخواستہ __ ضرور وہ وقت آنے والا ہے جب عالم اسلام میں اُن کی ضرورت کی یہ مہنگی ترین اور نایاب ترین چیز __ صالحین کی خاموشی __ اپنی سب وقعت کھو دے گی، یعنی جب بولنے کا وقت جاتا رہے گا؛ اور جب باطل بولنے والے کچھ ایسے بڑے بڑے نام میسرآجائیں گے جن کو غلط ٹھہرانا اسلام کے بنیادی مسلمات کو مسترد کردینے کے مترادف باور کرایا جاسکتا ہو! اور یہ بات سچ بھی ہے۔ جو صالحین آج میدان خالی پانے کے باوجود یہاں پر بولنے کے روادار نہیں ہوئے وہ کل اپنا یہ سکوت توڑنے کی ہمت کیسے کریں گے جب میدان ہی اُن سے لیا جاچکا ہوگا؟
المختصر، یہ دو چیزیں اُس کو ہمارے ہاں سب سے بڑھ کر مطلوب ہیں:
۱۔ خود وہ ’’دین‘‘ ہی جو مسلم اور کافر کا فرق کراتا ہے، ری فارم کر دینا۔ اور اس میں کچھ بنیادی اور جذری سطح کے تصرفات کرنا
۲۔ اپنے اِس ہدف کو محض ’جدت پسندوں‘ کی سطح پر نہیں بلکہ اُس سطح پہ جاکر حاصل کرنا جس کے لیے تاحال اُس کے ہاں ’قدامت پسند‘ کا لفظ چلتا ہے۔
پہلی چیز پر کچھ بات پچھلے مضامین میں ہو چکی۔ ایک ’’اقتضاء الصراط المستقیم ‘‘ ہی اگر ہماری دورِ گلوبلائزیشن والی مسلم نسل کو ازبر کروا دی جائے تو کافر کا یہ سارا ایجنڈا اللہ کے فضل سے یہاں منہ کی کھائے گا۔ ہمارا دشمن بہت معلومات رکھتا ہوگا پھر بھی جو چیز اُس کے ذہن سے سب سے بڑھ کر محو ہوتی ہے وہ ہمارے دین اور عقیدہ کی اصل قوت ہے جس کی ایک ہی ضرب اُس کے سب تار و پود بکھیر دیتی ہے۔ البتہ جہاں تک دوسری چیز کا تعلق ہے تو وہ بہرحال تشویش ناک ہے۔ ہمارا ’’ٹھیٹ طبقہ‘‘ اِس وقت آندھیوں کی زد میں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اِس موضوع پر __ بلکہ اکثر موضوعات پر __ ’جدت پسندوں‘ کے شبہات کو توجہ دینے سے بڑھ کر، ایک تو اسلام کی بنیادوں کو اَذہان میں راسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرا، اپنے گھر کو بچانے اور اسی کی فصیلوں کو پختہ کرنے کی کوشش؛ اور جوکہ یہاں کا موحد اہل سنت طبقہ ہے اپنی اُن تمام فقہوں اور مسلکوں سمیت جو قرونِ سلف سے چلے آتے ہیں۔
اب یہاں؛ اپنے اِس پیارے گھر کا ہی کچھ تذکرہ ہے۔۔۔
ہمارا گھر؛ یعنی ہمارا وہ طبقہ جو قرونِ سلف سے چلے آنے والے اپنے اس فقہی ورثے کو اون own کرتا اور اپنے اس علمی تسلسل کو ہی اپنے فہم و استنباط کی بنیاد بناتا ہے۔۔۔ برخلاف اُن جدت پسندوں کے جن کو ہم اپنے فقہاء و محدثین کے علمی اتفاقات کا حوالہ دیں گے اور وہ دیدے پھیر کر فرمائیں گے، کیا؟
اپنے اِس ’’گھر‘‘ کی بابت تشویش ہم اوپر بیان کرآئے۔ چودہ سو سال سے چلی آتی ایک علمی وفقہی ریت اگر یہاں متاثر ہوتی ہے، اور وہ بھی دین کے کچھ نہایت اہم ابواب میں.. اور حالیہ ’گلوبل‘ نزاکتوں کے حوالہ سے کچھ نہایت دُکھتی جگہوں پر۔۔۔ تو اِس سے بہرحال اِس گھر کا بہت کچھ چلاجانے کا خطرہ ہے۔ ہمارے اِن اہل علم وفضل کا تو کفر کی اِس پیش قدمی پر خاموش رہنا تشویش ناک ہے، کجا یہ کہ اِن کے ڈپو سے دشمن ایجنڈا کو کوئی گولہ بارود بھی ملے!
ہمارے اِس شمارہ کے مضامین سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اہل کفر کی عیدوں یا اُن کے دیگر شعائر کو پذیرائی دلانے کا مسئلہ اِس پورے معاملے کی صرف ایک دُکھتی جگہ ہے۔ کل معاملہ البتہ اس سے بڑا ہے اور وہ دیگر بے شمار مسائل میں بھی سامنے آتا ہے۔ البتہ ہم نے اپنے مضامین میں اِس ایک دُکھتی جگہ کو جس طرح ہاتھ ڈالا ہے اس سے اِس پورے معاملے کا ہی اچھا خاصا علاج ہوتا ہے۔ کیونکہ جب تک ایک مسئلہ کو ’’اصول‘‘ کی سطح پر حل نہ کیا جائے ’’فروع‘‘ کی سطح پر اُس کا حل ڈھونڈنا ایک سرسری اور سطحی اپروچ ہے۔ اِس مسئلہ کو ایک ایسے اصولی انداز میں لینا جو جسم میں عین اِسی مرض سے متاثرہ دیگر بہت سی جگہوں کا بھی خودبخود ایک علاج کردے یہ چیز اِن شاء اللہ آپ کو اِن مضامین میں ضرور ملے گی؛ کیونکہ اِس پورے بیان میں ہمارا کل انحصار اللہ کے فضل سے امت کے مانے ہوئے متقدمین و متاخرین اہل علم پر رہا ہے۔
یہ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے اِس پورے مقدمہ کو محض یہ کہہ کر نہ اڑادیا جائے کہ ہم تو ایک ہی ’چھوٹے سے مسئلے‘ کے پیچھے پڑگئے! یہ مسئلہ اول تو چھوٹا نہیں اور اگر کسی کو اِسے یہ نام دینے پر ہی اصرار ہے تو اِس ’چھوٹے سے مسئلے‘ کے علاج میں البتہ ہم نے جو منہج اختیار کیا ہے وہ ان شاء اللہ کچھ خاصے بڑے بڑے مسئلے حل کردینے کی اساس بننے والا ہے۔
اب چونکہ یہ مسئلہ اپنی اصولی جہتوں کے اعتبار سے بے حد بڑا مسئلہ ہے، پھر کفر کے عالم اسلام سے متعلق حالیہ ایجنڈا کو سامنے رکھیں تو یہی امت کا ایک بہت بڑا محاذ بھی ہے۔۔۔اِس لیے ہم حرج محسوس نہیں کرتے کہ ’’گھر‘‘ کے کچھ لوگوں پر بھی گرفت کریں۔
کافر ملتوں سے بیزاری کا مسئلہ اصولِ دین میں سے ہے۔ کافر ملتوں کے شعائر کے لیے ہرگز کوئی موافقت ظاہر نہ کرنا بلکہ اِس موافقت یا اِظہارِ موافقت یا شرکت وغیرہ کو حرام جاننا امتِ اسلام کے معروف مسلمات میں سے ہے۔ شرک کے کسی تہوار پر خالی ’مبارک سلامت‘ ایسے الفاظ بول آنا خدا کی ایسی معصیت ہے کہ اِس کے حرام ہونے پر اجماع تک نقل ہوا ہے، جیساکہ پیچھے بعض علماء کے کلام میں گزر چکا۔ خود کتاب وسنت کی، ہزارہا جہت سے یہی دلالت ہے اور مسلمانوں کے فقہاء و محدثین نے اگر اس بات پر اتفاق کیا ہے تو وہ اسی لیے کہ کتاب و سنت کی دلالتوں کو یہی لوگ سب سے بڑھ کر سمجھنے والے ہیں۔ یہ کسی ایک دو فقہ کا مسئلہ نہیں اہل سنت کے جملہ مذاہب اور فقہیں اِس مسئلہ کو ایک ہی طرح اور ایک ہی اصولی بنیاد پر طے کرتی ہیں ۔ غرض متقدمین اہل علم کے ہاں معاملہ کا اِس حد تک واضح اور صریح ہونا اگر اِس سے پہلے آپ پر واضح نہ تھا تو اِن مضامین کے بعد اب ضرور واضح ہو چکا ہوگا۔ البتہ دوسری جانب آپ کی نظر اُن عوامل پر ہونا بھی ضروری ہے جو اِس وقت پوری شدت اور بے رحمی کے ساتھ عالم اسلام سے ’’ایک نیا اجتہاد‘‘ طلب کر رہے ہیں۔ ادنیٰ تامل سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اِس پورے قضیہ میں ’نئی بات‘ صرف ایک ہے اور وہ یہی ’بیرونی تقاضوں‘ والا فیکٹر ہے جو روز بروز شدیدتر اور بے رحم تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک عامل ہے جو سلف تا خلف متفق علیہ چلے آئے اِس مسئلہ کی پوری فائل آج نئے سرے سے کھلوانا چاہتا ہے بلکہ اِس موضوع پر سلف تا خلف چلے آئے اتفاقات کو ردی کے ڈھیر میں پھنکوانے کے درپے ہے، بلکہ اتفاقاتِ سلف سے پہلے کتاب و سنت کی واضح دلالتوں اور عقیدہ توحید کی بہت سی مسلمہ بنیادوں کو ہی دریابرد کرانا چاہتا ہے۔
جیساکہ ہم کہہ چکے، جدت پسند طبقے تو پورے دین کی ہی فائل آج ایک نئے سرے سے کھولنے بیٹھے ہیں؛ ان کے جیالا طبقے مسلمان عورت کو ہندو مرد کے نکاح میں بڑی دیر ہوئی دے آئے ہیں (۱)اور اب تو نہ جانے کیسے کیسے مشن پر ہیں، لہٰذا اُن کے ساتھ تو ایسی ایک فرع پر بحث کرنا تقریباً فضول ہے۔۔۔ اِس وقت جو چیز ہمارے لیے سب سے بڑھ کر پریشان ہونے کی ہے وہ خود ہمارا ’’گھر‘‘ ہے اور اِس گھر کے لوگوں میں پرورش پانے والے ’نئے رویے‘۔
یہ تو ماننا چاہئے ہمارے اِس گھر میں بھی عرصہ سے کھسرپھسر جاری ہے۔ لیکن وہ ’حرفِ اجتہاد‘ صاف زبان پر آجائے، یہ چیز تاحال آسان نہیں۔ خصوصاً اِس ’اجتہاد‘ کی طرح ڈالنے کے لیے کوئی بڑا نام آگے آنا ابھی تک مسئلہ ہے۔ آج بھی اِس ’اجتہاد‘ کا حوالہ دینے کے لیے کوئی بڑا نام پوچھا جائے تو آپ کو اچھا خاصا ذہن پر زور ڈالنا پڑے گا اور پھر بھی کوئی نام شاید سامنے نہ آئے۔ یعنی ایک چیز دھیرے دھیرے چل بھی پڑی ہے، مقبول بھی ہونے لگی ہے مگر اس کو باقاعدہ ’لائسنس‘ ابھی تک نہیں ملا ہے۔
یہ بھی ماننا چاہئے کہ چند نام زمانہ حاضر سے مل بھی جائیں گے (یہ ان شاء اللہ طے ہے کہ وہ زمانہ حاضر کے ہی ہوں گے؛ متقدمین میں نہ ملیں گے)۔ مگر ایک تو یہ نام ایسے بڑے نہیں، اور برصغیر میں تو معروف ہی نہیں۔ دوسرا، وہ باقاعدہ ’’علمائے عقیدہ‘‘ میں تو آتے ہی نہیں )جبکہ اختصاص specialization کا تصور مسلمانوں میں اب بھی ختم نہیں ہوگیا ہے(۔ معاشیات میں اگر ان کا کوئی نام ہے بھی تو عقیدہ کے میدان میں تو وہ کبھی حوالہ نہیں مانے گئے؛ پھر حوالہ بھی وہاں جہاں مذاہب اربعہ اور سلف تا خلف ایک متفق علیہ چلے آتے دستور کو صاف غلط ٹھہرانا ہو اور اس کے بعد ہی ایک ’نئے اجتہاد‘ کی نوبت آسکتی ہو۔
یورپ میں اسلامی سنٹروں کی کسی نمائندہ کمیٹی کا ذکر یہاں اِس لیے غیر متعلقہ ہے کہ ہم فی الوقت علمی ناموں کی بات کررہے ہیں۔
لے دے کر ایک نام ہے (ہمارے علم کی حد تک) جس سے برصغیر کے بعض سنی طبقوں نے فی الحال استفادہ کی ٹھانی ہے۔ اور وہ ہیں شیخ یوسف قرضاوی۔ بنیادی طور پر قرضاوی صاحب اخوان کی فکری تاریخ میں ایک نئے چیپٹر کا نام ہیں، جسے کھولنے سے پہلے آپ کو اخوان کا پرانا چیپٹر بند کرنا پڑتا ہے۔ بلاشبہ وہ کثیر محاسن بھی رکھتے ہیں۔ طاغوت کی جیلوں میں رہے۔ مصر سے جلاوطن ہوئے۔ یہود کے خلاف اور جہادِ فلسطین کے حق میں زوردار فتویٰ دے رکھنے، پھر خصوصاً انتفاضہ ثانیہ اور بعد ازاں ڈنمارک کے توہین رسالت والے مسئلہ کے بعد مغربی مصنوعات کے عام بائیکاٹ کا فتویٰ جاری کرنے کے باعث امریکہ میں اُن کا داخلہ آج تک بند ہے۔ دیگر بہت سے مواقع پر وہ اچھے اچھے مواقف اپنا چکے ہیں۔ مسلم ایشوز سے متعلقہ بہت سی مجالس کی سربراہی کرتے ہیں۔ کئی ایک عرب طواغیت کے خلاف بھی اچھا سٹینڈ لے چکے ہیں۔ فقہ میں ان کا خاصا کام ہے۔ مغرب کی فکری اور تہذیبی یلغار کو کچھ مسکت جواب دیے ہیں۔ تربیت سے متعلقہ بعض موضوعات کو اچھا نبھایا ہے۔ جدت پسندوں کے مدمقابل اسلام کے فقہی ورثے کی اچھی وکالت کرچکے ہیں۔ اسلام کی تحریکی شاعری میں کچھ سحرانگیز اضافے کیے ہیں۔۔۔ تاہم دین کے بعض نہایت حساس ابواب میں شیخ قرضاوی سے کچھ تباہ کن کام بھی سرزد ہوئے ہیں اور وہ کچھ انحرافات کی مستقل اساس بھی رکھ کر جارہے ہیں۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے، اچھے اچھے علمائے عقیدہ نے اِن مسائل میں اُن پر شدید گرفت کی ہے بلکہ کڑوی کسیلی بھی سنائی ہیں۔ یہ خطرناک جہتیں جو الاخوان المسلمون کے اِس جدید چیپٹر کا حصہ بنتی جا رہی ہیں ان میں یہ مسئلہ بھی آتا ہے؛ یعنی کفار کے ساتھ تعامل کا مسئلہ۔ اِس حوالہ سے جو نرم سے نرم الفاظ ہماری زبان پر آسکتے ہیں وہ یہ کہ: ’’تقاربِ ادیان‘‘ سے متعلقہ بعض مسائل میں شیخ بہک گئے ہیں ۔ یہ بات کتنی بھی شدید ہو، سب متقدمین و متاخرین امت کو اِس موضوع پر بیک جنبش قلم غلط ٹھہراجانے کی نسبت کمتر ہے۔ واضح رہے، ہم نے صرف متقدمین نہیں کہا، کہ مبادا کوئی یہ نکتہ نکالے کہ آج حالات اور ہیں لہٰذا جن حالات کے حوالے سے متقدمین نے ایک چیز کو حرام اور عقیدہ کے لیے خطرہ قرار دیا تھا، قرضاوی صاحب کے اِس ’نئے اجتہاد‘ سے متقدمین کے اُس موقف کو غلط ٹھہرانا سرے سے لازم نہیں آتا! متاخرین فقہاء و علمائے عقیدہ کا ذکر ہم نے ساتھ اِسی لیے کیا کہ یہ، قرضاوی صاحب کے اِسی زمانہ حاضر میں، اِس چیز کو نہ صرف حرام کہتے ہیں بلکہ امت کو اِس سے شدید ترین انتباہ کرتے ہیں کہ اُن کے دین کے لیے جتنا بڑا فتنہ یہ آج اٹھا ہے اس سے پہلے کبھی نہ اٹھا ہوگا لہٰذا آج پہلے سے بڑھ کر اِس سے خبردار رہنا ضروری ہے۔ (سعودی عرب کے ایک بڑے محدث اور فقیہ، رکن کبار علماء کمیٹی شیخ بکر ابو زید کی ایک تصنیف الإبطال لنظریۃ الخلط بین دین الإسلام وغیرہ من الأدیان ہی اگر اِس موضوع پر دیکھ لی جائے تو اِن شاء اللہ کفایت کر جائے گی)، فتاویٰ کے وہ سب دفاتر ایک طرف جو اِس نئے رجحان کو آج کا ایک عظیم ترین فتنہ قرار دیتے ہیں۔
پس ایک تو امت کے سربرآوردہ ترین معاصر علماء کے فتاویٰ جوکہ متقدمین کے فتاویٰ کا ہی فی زمانہ تسلسل ہیں (اِن میں سے چند، ہمارے حالیہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائے جاسکتے ہیں) ، دوسرا اِن علمائے عقیدہ کا یہ اصرار کہ پہلے کسی بھی دور سے بڑھ کر آج اِس مسئلہ پر ڈٹ جانا امت کے حق میں ضروری ہے۔ پس قرضاوی صاحب جن ’بدلتے حالات‘ کی جانب باربار اشارہ فرماتے ہیں اور ان کے اعتبار میں مسئلہ کو ڈھیلا کردینے کی سفارشات کرتے ہیں اور پھر ان کے پیروکاروں کو خیال ہوا کہ ہو نہ ہو ہمارے علمائے عقیدہ ضرور اِن ’بدلتے حالات‘ کو نظرانداز کیے بیٹھے ہیں۔۔۔ قرضاوی صاحب کے یہ ’بدلتے حالات‘ بلکہ ’چیختے حالات‘ ہی تو وہ چیز ہیں جن کی جانب ہمارے علمائے عقیدہ باربار ہماری آنکھیں کھولتے ہیں! (علامہ بکر ابو زید کی مذکورہ بالا تصنیف ایک نظر دیکھ لینا ضروری ہے) کہ دجالی گلوبلائزیشن ہماری سب سے قیمتی متاع لوٹنے کے لیے ہمارے گھروں میں وارد ہورہی ہے؛ لہٰذا دورِ متقدمین سے چلا آنے والا امت کا عین وہی دستور جو دوزخی ملتوں کے ساتھ دینی و دنیاوی معاملہ کرنے سے متعلق ہے۔۔۔ اُس پر ڈٹ کر دکھانا آج کا ایک عظیم ترین چیلنج ہے۔ لہٰذا کتاب و سنت کی دلالت تو اِس مسئلہ پر ہے ہی بہت واضح، متقدمین کے فتاویٰ بھی نہایت واضح اور صریح اور شدید ہیں، خود ’بدلتے حالات‘ کی دلالت بھی ہمارے ان علمائے عقیدہ کے بیان کردہ موقف ہی کی توثیق کرتی ہے؛ قرضاوی صاحب کے پاس اپنے اِس موقف کی تائید میں کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔ نہ صرف اصولِ عقیدہ اور نصوصِ کتاب وسنت اور فقہائے امت، بلکہ اُن کی واحد دلیل ’حالات‘ بھی اُن کے خلاف جاتی ہے۔
ذیل میں ہم قرضاوی صاحب کا یہ ’اجتہاد‘ اُن کے اپنے الفاظ کے ساتھ نقل بھی کردیتے ہیں:
یُعَدُّ تغیر الأوضاع الاجتماعیۃ والسیاسیۃ أمراً واقعاً تقتضیہ سنۃ التطور، وکثیر من الأشیاء والأمور لا تبقی جامدۃ علی حال واحدۃ، بل تتغیر، وتتغیر نظرۃ الناس إلیہا، ومن ذلک قضیۃ غیر المسلمین فی المجتمع الإسلامی (أہل الذمۃ) وہو ما یعبر عنہ بقضیۃ العلاقۃ بین (الأقلیات الدینیۃ) فی المجتمعات الإسلامیۃ۔ ہذہ قضایا أصبح لہا فی العالم شأن کبیر، ولا یسعنا أن نبقیٰ علیٰ فقہنا القدیم کما کان فی ہذہ القضایا۔
ومراعاۃ تغیر الأوضاع العالمیۃ ہو الذی جعلنی أخالف شیخ الإسلام ابن تیمیۃ فی تحریمہ تہنءۃ النصاریٰ وغیرہم بأعیادہم وأجیز ذلک إذا کانوا مسالمین للمسلمین، وخصوصاً من کان بینہ وبین المسلم صلۃ خاصۃ، کالأقارب والجیران فی المسکن والزملاء فی الدراسۃ، والرفقاء فی العمل، وہو من البر الذی لم ینہنا اللہ عنہ بل یحبہ کما یحب الإقساط إلیہم ’’إن اللہ یحب المقسطین‘‘ (الممتحنۃ: ۸) ولا سیما إذا کانوا ہم یہنؤن المسلمین بأعیادہم، واللہ تعالیٰ یقول: وإذا حییتم بتحیۃ فحیوا بأحسن منہا أو ردوہا(النساء: ۸۶)
یجب أن نراعی ہنا مقاصد الشارع الحکیم، وننظر إلی النصوص الجزئیۃ فی ضوء المقاصد الکلیۃ، وبربط النصوص بعضہا ببعض، وہا ہو القرآن یقول: لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنۃ: ۸)
سماجی وسیاسی حالات کا بدل جانا ایک معتبر واقعاتی امر ہے۔ یہی تغیروتبدل کے قاعدہ کا تقاضا ہے۔ بہت سی اشیاء اور امور ایک ہی حال پر جامد نہیں رہ سکتے بلکہ خود بھی بدلتے ہیں اور ان کی بابت انسانوں کا زاویہ نگاہ بھی بدلتا ہے۔ اسی میں: یہ مسلم معاشرے میں اہل ذمہ کا مسئلہ آتا ہے اور جس کو مسلم معاشروں میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تعلقات کے الفاظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ مسائل اس وقت دنیا میں بہت اہم ہوگئے ہیں، اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ہم اپنی اُسی پرانی فقہ پر رہیں جو اِن مسائل میں چلتی رہی تھی۔
عالمی حالات کے بدل جانے کا اعتبار ہی اس بات کا سبب بنا ہے کہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے اختلاف کروں جو نصاریٰ وغیرہ کو ان کی عیدوں پر مبارکباد دینے کو حرام قرار دیتے ہیں۔ البتہ میں اس (فعل) کی اجازت دیتا ہوں بشرطیکہ وہ انوں کے ساتھ پُراَمن رہتے ہوں، خاص طور پر ایسے غیرمسلم کو (مبارکباد دینا) جس کا مسلمان سے خاص تعلق ہو جیسے رشتہ داری، پڑوس، ہم جماعت یا ملازمت میں کولیگ ہونااور یہ وہ نیک سلوک ہے جس سے اللہ نے ہم کو نہیں روکا بلکہ اللہ کو پسند ہے، جس طرح کہ اُن کے ساتھ انصاف سے پیش آنا اللہ کو پسند ہے (آیت ممتحنہ) ’’بے شک اللہ انصاف مسلم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب وہ بھی مسلمانوں کو ان کی عیدوں پر مبارکباد دیتے ہوں، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (آیت النساء) ’’اور جب تمہیں آداب کہیں جائیں تو اس سے بہتر آداب کہو، یا اسی کو لوٹا دو‘‘۔
ضروری ہے کہ ہم شریعت کے مقاصد کا اعتبار کریں، اور جزئی نصوص کو شریعت کے کلی مقاصد کی روشنی میں دیکھیں، نیز نصوص کو ایک دوسرے سے جوڑ کر مطالب اخذ کریں۔ قرآن خود کہہ رہا ہے: (آیت ممتحنہ) اللہ تمہیں منع نہیں کرتا اُن لوگوں کی بابت جنہوں نے دین کے معاملہ میں تمہارے ساتھ قتا ل نہیں کیااور تمہیں بے گھر نہیں کیا کہ تم اُن کے ساتھ نیک سلوک کرو اور ان سے انصاف کے ساتھ پیش آتے رہو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
بحوالہ:
http://qaradawi.net/fatawaahkam/30/1425.html
اِس فتویٰ پر علمائے سنت کی جانب سے شدید ترین گرفت کی گئی۔ نرم سے نرم الفاظ میں __ ہمارے علم کی حد تک __ اس کا جو جواب آیا اُس کا عنوان تھا الرَّدُّ الکاوی علیٰ یوسف القرضاوی
http://www.al-sunna.net/articles/file.php?id=3015
جوکہ شیخ ماہر بن ظافر قحطانی کی طرف سے تھا۔ خود آپ نے دیکھا، قرضاوی صاحب اپنی رائے کو محض ابن تیمیہ کے ساتھ اختلاف قرار دیتے ہیں، حالانکہ وہ مذاہب اربعہ کا متفقہ قول ہے، حتیٰ کہ اس پر اجماع تک نقل ہوا ہے۔ رہ گیا اُن کا استشہاد ’بدلتے حالات‘ سے، تو اِس پر ہم بات کرچکے کہ یہ اگر کوئی دلیل ہے تو یہ تو خود اس بات کی متقاضی ہے کہ ’’تقاربِ ادیان‘‘ کے ابلیسی ایجنڈا کے پیش نظر اِس مسئلہ پر سختی پہلے سے بڑھا دی جائے۔ اور رہ گئی بات مقاصدِ شریعت کی، تو اس کے لیے ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ ایک نظر دیکھ لیں، آپ پر کھل جائے گا کہ اِس باب میں ( یعنی مغضوب علیہم اور ضالین سے دوری اختیار کرنے کے معاملہ میں، خصوصاً ان کے شعائرِ دین کے حوالہ سے) ملتِ حنیفیہ کے مقاصد درحقیقت ہیں کیا؟ ابن تیمیہ نے کوئی ’فتوے‘ تھوڑی دیے ہیں یا اپنے ’زمانے کے حالات‘ پر تصنیف تھوڑی لکھی ہے؛ انہوں نے تو بنیادیں کھڑی کی ہیں اور اِس باب میں اصولِ شریعت کی تقریر فرمائی ہے۔ علم اصولِ شریعت کا کوئی قدردان اُن کی یہ کتاب پڑھ لے، اَش اَش کر اٹھے گا۔
۔ رہ گئی ’’حسن سلوک‘‘ والی دلیل۔۔۔ تو یہاں ابن تیمیہ یہی تو سوال اٹھاتے ہیں کہ ذمیوں کے ساتھ یہ حسن سلوک رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ سے بڑھ کر کس نے کیا ہے اور کون کرسکتا ہے؟ ابن تیمیہ یہی تو پوچھتے ہیں کہ ’غیر حربی‘ کفار کی صنف دنیا کے اندر کیا آج پیدا ہوئی ہے کہ اِس ’’حسن سلوک‘‘ کا دستور آج ہم نئے سرے سے وضع کریں اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ سے نہ لیں؟ یہ ’’ذمی‘‘ جن کا ذکر آپ کتابوں میں پڑھتے ہیں کیا یہ کفار کی وہی قسم نہیں ہے جو مسلمانوں کے ساتھ پُراَمن رہتے ہوں بلکہ جو مسلمانوں کی بھلی مانس رعایا بن کر رہنا قبول کر چکے ہوں؟ (۲)کوئی ایک چوتھائی کے قریب جزیرۂ عرب رسول اللہ ﷺ کا ذمی ہی تو تھا! یمن تا فارس تا شام تا مصر صحابۂ کرام ؓ کا ذمی ہی تو تھا! صحابہؓ نے ان کے ساتھ وہ نیک برتاؤ کیا اور ان کو وہ اعلیٰ انصاف فراہم کیا جس پر تاریخ دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ کے اِس مثالی حسن سلوک نے کیا شعائرِ کفر کے ساتھ کسی نرمی یا رواداری کی طرف بھی رخ کیا؟ سوال تو اصل میں یہ ہے۔ ابن تیمیہ یہی تو پوچھتے ہیں کہ ذمی اقوام نے کیا آج پہلی بار اپنے یہ تہوار منانا شروع کیے ہیں یا اُن کے یہ تہوار اصحابِؓ رسول اللہ ﷺسے بھی پہلے سے چلے آرہے تھے؟ پھر جو تعامل صحابہؓ نے اِن جاہلی تہواروں کے ساتھ اختیار کیا آج ہمارے لیے وہ اسوہ اور نمونہ کیوں نہیں رہا؟ جبکہ یہ واضح ہے کہ صحابہؓ نے ان تہواروں میں کبھی شرکت نہیں کی؛ بلکہ اِن تہواروں کو مسلم پبلک میں لائے جانے پر پابندی عائد کی، اِدھر عامۃ المسلمین کو اُس روز اُن کے گرجوں میں قدم رکھنے سے منع فرمایا، اور تنبیہ کی کہ یہ خدا کا غضب برسنے کے مقامات ہیں۔ (اِن چیزوں کے حوالے پیچھے ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں گزرچکے)۔ یہ حسن سلوک جس کا ہمارے یہ اصحاب یوں باربار حوالہ دیتے ہیں گویا قرآن کا یہ حکم ہماری نظر سے اوجھل ہے۔۔۔ یہ ’’حسن سلوک‘‘ کیا اُسی وقت معتبر ہوگا جب ہم اُن مقامات پر جو خدا کے غضب کا محل ہیں اُن کو مبارک سلامت کہہ کر آئیں؟ خود اِس ’’حسن سلوک‘‘ پر ہی قرونِ اولیٰ کے اندر کیا عمل ہو نہیں چکا؟
۔ اب ایک ’دلیل‘ یہ سامنے لائی جانے لگی ہے کہ فی زمانہ کرسمس کوئی مذہبی تہوار نہیں رہ گیا بلکہ ایک سماجی تہوار بن چکا، جس میں شرکت یا تہنیت کی کوئی حرمت ہی دین کے اندر باقی نہیں رہ جاتی! سبحان اللہ کتنا سوچا گیا تو جاکر یہ ’دلیل‘ ملی ہوگی اور وہ بھی زیادہ تر یورپ اور آسٹریلیا میں رہنے سے ہی ذہن میں آسکی! مگر ہم حیرت سے دنگ رہ جاتے ہیں، ابن تیمیہ نے اِس کا جوب دینے سے بھی نہیں چھوڑا! (کسی نے ابن تیمیہ کے علمی مقام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ ابن تیمیہ صرف اپنے عہد کا نہیں بلکہ آنے والے زمانوں کا امام تھا۔ ہمارے خیال میں، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ابن تیمیہ ’’عہدِ گلوبلائزیشن‘‘ کا امامِ سنت ہے)۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ ذرا اُس حدیث پر ہی غور کر لو جس میں (یثرب کے جاہلی تہواروں کو ختم فرماتے وقت) رسول اللہ ﷺ اُن لوگوں سے دریافت فرماتے ہیں: مَا ہٰذانِ الْیَوْمَانِ؟ (اِن دو تہواروں کی کیا حقیقت ہے؟) تو وہ جواب دیتے ہیں: کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ (دورِ جاہلیت میں یہ ہماری کھیل تفریح کے دن تھے)(۳) ۔ بتائیے ’’سماجی تہوار‘‘ اور کیا ہوتے ہیں؟ بلکہ ابن تیمیہ یہاں یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ حدیث میں عموماً ایسی کوئی دلالت نہیں ملتی کہ اہل مدینہ کے یہ تہوار کسی ’’مذہبی پس منظر‘‘ کے حامل تھے۔ یہ حدیثِ انسؓ کے حوالے سے ہے۔ پھر ثابت بن ضحاکؓ کی حدیث میں مسئلہ کی مذہبی اور سماجی جہت بیک وقت بیان کر دی جاتی ہے؛ یہاں آپ ﷺ ایک نہیں دو سوال پوچھتے ہیں: ایک: وہاں جاہلیت کا کوئی بت تو نہیں پوجا جاتا تھا؟ ہَلْ کَانَ فِیْہَا وَثَنٌ مِنْ أوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ؟ (جاہلی ’مذہب‘) دوسرا: کیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی میلہ تو نہیں لگتا تھا؟ فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِہِمْ؟(۴) (جاہلی ’کلچر‘)۔ آج بھی آپ کلچر اور ٹورازم والوں سے دریافت فرما لیجئے کہ ’فوک میلے‘ ایک قوم کی (جاہلی) تاریخ اور شناخت اور جڑوں کو زندہ رکھنے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔۔۔ پھر اُس نئی صبح کا نظارہ کریں جو رسول اللہﷺ کے دم سے اللہ رب العزت نے جزیرۂ عرب میں طلوع کروائی اور جس کی آب و تاب درحقیقت پوری دنیا کے لیے ہے۔ اقوامِ دیگر کو اُن کے طور طریقوں اور تہواروں پر چھوڑ رکھنا یقیناًہمارے دین کی تعلیم ہے کہ وہ جیسے چاہیں اُنہیں منائیں (ان کو مجبور کرنے کے ہم مجاز نہیں کہ وہ اپنا دین اور طورطریقے اور تہوار چھوڑ کر ہمارے دین اور ہمارے شعائر کو قبول کریں)، لیکن ہم ان آثارِ جاہلیت پر کسی بھی انداز میں اُن کو سندِ موافقت دیں یا اپنے تیوروں سے کوئی تاثر دیں کہ وہ جن چیزوں پر ہیں وہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والی نہیں، یہ البتہ ہمارے حق میں حرام ہے، وہ جاہلیت کا ’مذہبی عمل‘ ہے تب اور ’سماجی عمل‘ ہے تب۔
ہرگز دھوکہ نہیں کھانا چاہئے؛ کرسمس کا مذہبی سٹیٹس ختم کرکے اور اس کو سماجی تہوار قرار دے کر اِس راہ سے شرعی رکاوٹیں ہٹانے والے یہ ’اجتہادات‘ اپنی انتہائی صورتوں کے لحاظ سے ایک بھیانک روٹ ہے۔ یہ چوردروازہ جو عالم اسلام میں پہلے ’’تقاربِ ادیان‘‘ اور بالآخر ’’وحدتِ ادیان‘‘ کی واردات کو ممکن بنانے کے لیے کھلوایا جا رہا ہے، آگے اور بہت سے محلوں تک جاتا ہے۔ ’امن کی آشا‘ کو تو اِس اجتہاد کی بھنک پڑنے کی دیر ہے! ’’کرسمس‘‘ کے محلے تو یہاں زیادہ نہیں، ’سماجی‘ دلیل والا یہ پھاٹک اصل میں تو ہمارے پڑوس میں کھلتا ہے۔ ’امن کی بھاشا‘ کو کرسمس سے کہاں اتنی غرض ہوگی جتنی کہ ’’دیوالی‘‘ سے! یعنی۔۔۔ ایک دلیل سے اَن گنت شکار!
*****
غرض، آنے والے دنوں میں یہاں کے بیشتر ’نقش کہن‘ خطرے میں ہیں۔ اپنے بہت سے مسلمات ’بے بنیاد‘ ثابت کیے جانے والے ہیں۔ بڑی بڑی فصیلیں گرائی جانے والی ہیں۔ اُن کی تعمیرات ہو نہیں سکتیں جب تک یہاں کا سب کچھ ’ہموار‘ نہ کردیا جائے۔ اِس بھاری بلڈوزر کی سست روی پر مت جائیے، یہ دیکھئے جہاں جہاں اب تک یہ پھرا ہے اس نے پیچھے چھوڑا کیا ہے۔ یہاں کے کچھ محلے اُس نے بوجوہ چھوڑ رکھے تھے، اب اِدھر ہی کو رُخ ہے۔
یہ تخریبی عمل جو دو سو سال سے جاری ہے، اس کا صرف یہی پہلو نیا ہے۔ یعنی ہمارے ’بچے ہوئے محلے‘۔ یہیں پر ’نئے رجحانات‘ کا بلیڈ لگایا جا چکا ہے۔ تو پھر اب۔۔۔ اپنا ایک ایک محکم مسئلہ اٹھائیے اور ’اختلافی‘ اور ’جزوی‘ والے پورشن میں ڈالتے جائیے، نہ ہمیں اعتراض اور نہ اُن کو تردد؛ سب کچھ لقمہ اجل ہوتا جائے گا!
چنانچہ حالیہ مرحلہ میں سب سے بڑھ کر جو ’طرزِ استدلال‘ یہاں آپ ملاحظہ فرمائیں گے وہ یہی دونکاتی اپروچ:
۔ کتاب و سنت کی ایک دلالت پر مذاہب اربعہ تک متفق ہیں تو کیا ہے، اِس پر ’اور آراء‘ بھی پائی تو جاتی ہیں! اور اگر نہیں پائی جاتیں تو تھوڑا ٹھہر لیں، شاید مل جائیں یا اب کوئی ہمت کر لے! غرض ’رائے‘ کی گنجائش ہے تو سہی!
۔ نیز۔۔۔ ایک مسئلہ کو قربان کرنے سے پہلے اُس کو ’معمولی‘ اور ’جزوی‘ ضرور ٹھہرالیجئے۔ کوئی مسئلہ جو اِس عفریت کے منہ میں جارہا ہے ’بڑا‘ نہیں ہونا چاہیے، اور اگر ہو تو پہلے اُس کو چھوٹے چھوٹے اجزاء کر لیں! اُس کو تو چھوٹے بڑے سے کچھ فرق نہیں پڑتا مگر ہماری اپنی دینی حمیت کے اعتبار سے یہی مناسب تر ہے!
غرض ہمار ا یہ گھر جس کو وہ ’’ٹھیٹ مذہبی طبقہ‘‘ کا نام دیتے ہیں اس وقت تبدیلیوں کی زد میں ہے اور خدا بچائے اس کا بہت کچھ تہ و بالا ہونے کو ہے۔
اِس موقع پرحضرت حذیفہ بن الیمان ؓ (نبی ﷺکے رازدارِ خاص اور ماہرِ امراضِ فتن) کا ایک انتباہ، جو گویا ہمارے ہی اِس دورِ گلوبلائزیشن کے لیے کیا گیا:
عن مولی لابن مسعود، قال: دخل أبو مسعود علی حذیفۃ فقال: اعْہَدْ إلَیَّ۔ فَقَال ألَمْ یَأتِکَ الْیَقِیْنُ؟ قَالَ بَلیٰ وَعِزَّۃِ رَبِّیْ۔ قَالَ: فَاعْلَمْ أنَّ الضَّلالَۃَ حَقَّ الضَّلالَۃِ أنْ تَعْرِفَ مَا کُنْتَ تُنْکِرُ وَأنْ تُنْکِرَ مَا کُنْتَ تَعْرِفُ، وَإیَّاکَ وَالتَّلَوُّنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ تَعَالیٰ؛ فَإنَّ دِیْنَ اللّٰہِ وَاحِدٌ
(شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ للالکائی ص ۱: ۹۰، صحیح جامع بیان العلم وفضلہ لاین عبد البر ص ۳۸۴)
مولیٰ ابن مسعود سے روایت ہے، کہا: ابو مسعود حذیفہؓ کے ہاں داخل ہوئے اور عرض کی: کچھ ارشاد ہو جس پر میں پختہ ہوجاؤں۔ فرمایا: کیا تمہیں یقین نہیں آیا؟ عرض کی: کیوں نہیں، میرے پروردگار کی عزت کی قسم۔ فرمایا: تو پھر جان لو کہ ضلالت اور صحیح ضلالت یہ ہے کہ جس چیز کو تم کل تک منکر جانتے تھے آج اُس کو معروف جاننے لگو اور جس چیز کو کل تک معروف جانتے تھے آج اُس کو منکر جاننے لگو۔ خبردار اللہ کے دین میں نئے نئے رنگ اختیار نہ کرنا؛ کیونکہ اللہ کا دین ایک متعین حقیقت ہے‘‘۔
حل کیا ہے؟ عقیدہ کے دبنگ لہجے۔ اِس کے بعد دیکھئے ان شاء اللہ باطل کس طرح پسپا ہوتا ہے۔ ہمارا کل زور اور قوت ہمارے عقیدہ میں ہے اور اس کا باطل کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ باقی ہر چیز کا اُس کے پاس نہایت خوب علاج ہے۔
اللّٰہُمَّ أبْرِمْ لِہٰذِہِ الأمَّۃِ أمْرَ رُشْد، یُعَزُّ فِیْہِ أہْلُ طَاعَتِکَ، وَیُذَلُّ فِیْہِ أہْلُ مَعْصِیَتِکَ، وَیُؤمَرُ فِیْہِ بِالْمَعْرُوْفِ ، وَیُنْہیٰ فِیْہِ عَنِ المُنْکَرِ، إنَّکَ عَلیٰ مَا تَشَاءُ قَدِیْرٌ۔
وصلی اللہ علی النبی وآلہٖ
_________________
(۱) چند سال پیشتر ’’المورد‘‘ سے منسلک ایک ویب سائٹ ’’انڈرسٹینڈنگ اسلام‘‘ پر کسی مسلم سائلہ نے پوچھا تھا کہ وہ ایک ہندو مرد کی زوجیت میں جانا چاہتی ہے، جس پر اس کو جواب دیا گیا تھا کہ یہ سماجی طور پر نامناسب ہوسکتا ہے البتہ شریعت میں یہ حرام نہیں ہے۔ جنوری ۲۰۰۹ ء میں اپنے ایک مضمون
http://www.eeqaz.com/main/articles/09/20090103.htm
کے اندر ہم نے اس کا حوالہ بمع لنک
http://urdu.understanding-islam.org/related/text.aspx?type=question&qid=137&scatid=25
نیز
http://urdu.understanding-islam.org/related/text.aspx?type=discussion&did=7
دیا تھا۔ بعد ازاں المورد سے منسلک اِس ویب سائٹ نے یہ دونوں فتوے وہاں سے ہٹا دیے تھے۔ البتہ مختلف ویب سائٹوں پر اِس کے حوالے اب بھی ملتے ہیں، مثلاً:
http://bazwah.freehostia.com/hadaayaboard/viewtopic.php?p=987&sid=6628fc5ab98be6d0a873679288c96849
ان کے انگریزی سیکشن میں یہ چیز اِس سے ملتے جلتے معنیٰ میں اب بھی ملتی ہے:
http://www.understanding-islam.com/q-and-a/other-religions/marriage-with-non-muslims-5331
البتہ وہ اردو فتویٰ جو اَب وہاں سے ہٹا دیا گیا، خباثت کا شاہکار تھا۔ یہ انگریزی کی چیز اُس کے مقابلے کی نہیں۔ وہ اردو فتویٰ بمع اُن کی ویب سائٹ کا فوٹو اب بھی آپ یہاں پر دیکھ سکتے ہیں:
http://www.eeqaz.com/link/201201b.htm
نیز
http://www.eeqaz.com/link/201201a.htm
(۲)وہ حضرات جن کا سہارا ’آج حالات اور ہیں‘ کی دلیل ہے ۔۔۔ تعین سے یہ نہیں بتاسکتے کہ وہ جذری تبدیلی آخر ہے کیا جو ایسے عظیم اقدام کی متقاضی ہوئی کہ دوزخی ملتوں کے ساتھ برتاؤ کے معاملہ میں ہم اپنا چودہ سو سالہ دستور بدل لیں، اور اب ان کی عید اور دیوالی پر کیک کاٹ کر آیا کریں؟ خاصی دور دور کی کوڑیاں ضرور لائی جارہی ہیں، مثلاً : کفار کے ساتھ اُن کی عید کی خوشیوں میں شریک ہونے اور مبارکبادیں دے کر آنے کا دستور قرونِ اولیٰ میں نہیں رہا تو وہ اس لیے کہ کفار کے ساتھ مسلمانوں کی جنگیں ہورہی تھیں، مگر آج زمانہ بدل گیا ہے! گویا اُس زمانے میں ذمی اور معاہد اقوام نہیں ہوا کرتی تھیں، سب کفار مسلمانوں کے ساتھ مصروف جنگ تھے!اور گویا آج تو کوئی جنگیں نہیں ہورہیں، سب کفار مسلمانوں کے ساتھ پرامن رہ رہے ہیں! حالانکہ ہردو طرح کے کفار دنیا میں تب بھی تھے آج بھی ہیں۔
(۳)حدیثِ انس ؓ: رواہ أبو داود: کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ العیدین رقم الحدیث ۱۱۳۴۔ والنسائی: صلوٰۃ العیدین رقم الحدیث ۱۵۵۶، وأحمد: رقم ۱۱۵۹۵، وصححہ الألبانی فی صحیح أبی داود رقم الحدیث ۲۱۰، وفی السلسلۃ الصحیحۃ رقم الحدیث
(۴)حدیث ثابت بن ضحاکؓ: رواہ أبو داود کتاب الأیمان والنذور رقم: ۳۳۱۳، وأحمد، وابن ماجۃ۔ البانی نے سنن ابی داود کی تخریج میں اِس حدیث کو صحیح کہا ہے (صحیح سنن ابی داود رقم: ۲۸۳۴)
Sent from my SM-N9005 using Tapatalk